1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پیغام شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از پیاجی, ‏13 جنوری 2007۔

موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
  1. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    کچھ اپنے گریباں میں جھانکیں

    محترم نعیم صاحب ۔۔۔
    درج بالا اقتباس میں سرخ رنگ کے فقرے کے ذریعے ۔۔۔ کیا آپ انتظامیہ کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش فرما رہے ہیں ؟
    سکون سے فورم چلانے میں آپ کے جذباتی اور اشتعال انگیز جملے رکاوٹ ہیں یا ہماری جانب سے پیش کی جانے والی مدلل تحریریں ؟؟
    آپ نے ہمیں اور علماء کو کیا کیا سنگین اور نفریں انگیز الزامات نہیں دیے ؟

    میں انتظامیہ سے بہت ہی منت کے ساتھ درخواست کروں گا کہ وہ اس دھاگے میں نعیم صاحب کی تمام پوسٹس کا جائزہ لیں اور انصاف پر مبنی فیصلہ کریں کہ فورم کے اراکین سے بدتہذیبی سے پیش آتے ہوئےدرحقیقت کون غیر ضروری نزاع پیدا کر رہا ہے ؟
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    چلیں ایسا ہی کر لیں۔
    دیکھ لیں کہ کسی دوسرے کے عقائد کو باطل ثابت کرنے کی جنگ سب سے پہلے کس نے شروع کی جسے آپ قرآن و حدیث پر مبنی دلائل کا نام دیتے ہیں۔
     
  3. کارتوس خان
    آف لائن

    کارتوس خان ممبر

    شمولیت:
    ‏9 جنوری 2007
    پیغامات:
    24
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

    اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔
    محترم نعیم صاحب! آپ کوئی دودھ پیتے بچے تو ہیں نہیں جو شروع میں کچھ سمجھیں اور درمیان میں کچھ اور آخر میں کچھ۔۔۔بڑی عجیب بات ہے کہ یکطرفہ تحریر جس کو پہلے پوسٹ کیا گیا اُس میں آپ کو تنقید نظر نہیں آئی اور ہم نے جب نشاندہی کی تو ہماری نشاندہی کو آپ نے تنقید کا لبادہ اڑا کر الزام ہم پر تھوپ دیا یہ زیادتی ہے اہل علم اس طرح کا رویہ یا دو رُخی بات نہیں کرتے۔۔۔ اور یہ بھی ہم پر الزام ہے کہ ہم نے بات کو کھینچ کھانچ کر کسی کی اہانت کی۔۔۔ محترم جو دعوے دار ہوتا ہے اُس کا فرض ہے اپنے دعوؤں کی دلیل پیش کرے ہم تو صرف آپ نے یہ ہی دلیل مانگ رہے ہیں کہ آپ یہ ثابت کر دیں کے شہادت حسین رضی اللہ عنہ یزید کی سازش ہے بس۔۔۔۔!

    محترم نعیم صاحب!۔ لڑیاں کلیوں سے پُروئی جاتی ہیں لیکن اگر لڑی میں ایک بھی کلی خراب ہو تو پوری مالا یا ہار کہیں بدنما لگنے لگتا ہے اس لئے ہمارا یہ مقصد ہونا چاہئے کہ ہر لڑی میں عمدہ اور تازہ کلی ہو جس کی خوشبو سے ساتھیوں کی روح اور عقائد مہک اُٹھیں۔۔۔ نعیم صاحب اسلام میں یہ کہا کہ جیو اور جینے دو کے اصول پر عمل کریں۔۔۔ اگر اسلام جیو اور جینے دو کا اصول دیتا تو سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کا واقعہ کبھی رونما نہیں ہوتا۔۔۔ بڑی عجیب و غریب اصول ہیں آپ کے ایک تو حق اور باطل کو ثابت کرنے میں اپنے توانائیاں صرف کر رہے ہیں اور جب بات نہیں بن پا رہی ہے تو جیو اور جینے دو کا اصول اپنانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔۔۔

    محترم نعیم صاحب!۔ عجیب بات ہے ایک طرف تو آپ اپنے آپ کو عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل بیت سے انتہائی محبت کا دعوے دار کہلانا پسند کرتے اور دوسرے طرف اس بحث و مباحثے کو وقت کا ضیاع کہہ کر موضوع کو ادھورا چھوڑ رہے ہیں۔۔۔ محترم میرے تین سوال جو اس معرکہ کو سازش ثابت کرنے کے لئے آپ سے کئے گئے تھے اگر اُس کا جواب مل جاتا تو ہم کو بھی تسلی ہو جاتی اور دوسرے ساتھیوں کو بھی۔۔۔ اس لئے برائے مہربانی اگر ہو سکے تو سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے وہ تین سوال جو اُنہوں نے کوفیوں سے کئے تھے وجہ بیان کر دیں اور اگر نہیں کر سکتے تو بتا دیں تاکہ ہم کسی اور سے معلوم کریں۔۔۔

    محترم نعیم صاحب!۔ میں سمجھتا ہوں اس بحث کو میدان جنگ سے تعبیر کرنا سب کے ساتھ زیادتی ہوگئی۔۔۔ اور رہی بات عقائد و کافر ثابت کرنے کی تو بڑی عجیب بات ہے ہم تو آپ سے یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا یہ معرکہ تھا یا کہ سازش اب اس میں کافر اور مسلمان کہاں سے آگئے؟؟؟۔۔۔

    وسلام۔۔۔
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    لکم دینکم ولی دین
     
  5. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    نعیم صاحب !
    یہ عقیدہ کہ ۔۔۔
    یزید مسلمان تھا اور یزید کی طرف سے حضرت حسین (رض) کو قتل نہیں کیا گیا ، ان کے قتل کرنے کا حکم یزید نے نہیں دیا اور نہ ہی یزید ان کے قتل پر راضی ہوا ۔۔۔
    یہ حافظ ابن کثیر ، امام غزالی اور امام ابن تیمیہ سے لے کر امام جلال الدین سیوطی رحمہم اللہ کے زمانے سے چلا آ رہا ہے ۔
    اب اس کے خلاف اگر آج کے زمانے کے شیخ الاسلام محترم اس عقیدے کو باطل ثابت کرنے کی خاطر مضامین لکھتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب کے شیدائیان بہ رضا و رغبت ان مضامین کو یہاں اس غیرجانبدار فورم پر پھیلاتے ہیں تو ۔۔۔
    تو ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سنجیدگی سے بتائیے کہ ۔۔۔
    کسی دوسرے (حافظ ابن کثیر ، امام غزالی ، امام ابن تیمیہ اور امام جلال الدین سیوطی رحمہم اللہ) کے عقیدے کو باطل ثابت کرنے کی جنگ سب سے پہلے کس نے شروع کی ؟؟

    اگر آپ کو حافظ ابن کثیر ، امام غزالی ، امام ابن تیمیہ اور امام جلال الدین سیوطی رحمہم اللہ کے اس طرح کے عقیدے کا علم نہیں تھا تو یہ آپ کی کم علمی ہے ۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر قادری ہی کا عقیدہ درست ہے اور دوسروں کا غلط !

    اور جہاں تک قرآن و حدیث پر مبنی دلائل کی بات ہے ۔۔۔ وہ ، قارئین میری اور کارتوس خان کی پوسٹ سے بخوبی جان سکتے ہیں ۔ اس فورم کے باشعور قارئین کو ہم اور آپ لالی پاپ دے کر چھوٹے بچوں کی طرح بہلا نہیں سکتے ۔

    آئیے ۔۔۔ اب ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ اس دھاگے کی سب سے پہلی پوسٹ میں کس طرح خلافِ قرآن و حدیث باتیں اور عقائد بیان کیے گئے ہیں ۔۔۔ تاکہ قارئین کو بھی پتا چلے کہ ۔۔۔ کیا حق ہے اور کیا باطل ۔
    ذرا انتظار فرمائیں ۔۔۔ مہربانی ۔
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    لکم دینکم ولی دین​
     
  7. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    ساٹھ ہجری کے اختتام سے پناہ مانگن

    60 ہجری کے اختتام سے پناہ مانگنے کا حکم

    حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت عظمیٰ کی یہ ایک منفرد خوبی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تفصیلات بہت پہلے بتا دی تھیں تا آنکہ جزئیات تک سے خواص اہل بیت واقف ہو چکے تھے اور انہیں بخوبی پتہ چل چکا تھا کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے۔ ان حیرت انگیز قبل از وقت تفصیلات کا معجزانہ پیشین گوئی کے سوا کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ میدان صفین کی طرف جاتے ہوئے راستے میں حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ نے کربلا کے ان مقامات کی نشاندہی کر دی تھی جہاں ان حضرات کو شہید ہونا تھا۔

    ان واقعات کا بنظر غائر جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیگر تفصیلات کے ساتھ بعض خاص لوگوں کی مہ و سال سے بھی آگاہ کر دیا تھا اور وہ حتمی طور پر جانتے تھے کہ یہ افسوسناک سانحہ کب وقوع پذیر ہونے والا ہے۔

    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی ان خاص لوگوں اور محرم راز دوستوں میں سے تھے جنہیں اچھی طرح علم تھا کہ سن 60 ہجری کے اختتام تک سیاسی و ملکی حالات مستحکم نہیں رہیں گے بلکہ ان میں نمایاں تبدیلی آ جائے گی۔ حکومت کی باگ ڈور ایسے غیر صالح، اوباش اور نو عمر لوگوں کے ہاتھ میں آ جائے گی جن کے پیش نظر امانتِ الٰہیہ نہیں بلکہ تعیش زندگی ہو گی اور وہ اقتدار کو عیش و عشرت، شراب و کباب، بدمعاش، آوارگی، بدکاری اور عوام پر ظلم و ستم ڈھانے کے لئے بے دریغ استعمال کریں گے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے:

    أعوذ بالله من رأس الستين و إمارة الصبيان.
    (فتح الباري، 1 : 216)


    میں ساٹھ ہجری کے اختتام اور نو عمر لوگوں کی امارت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں۔

    ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بازار سے گزرتے ہوئے یہ دعا کیا کرتے تھے:

    اللهم لا تدرکني سنة ستين ولا إمارة الصبيان.
    (فتح الباري، 12 : 10)


    اے اللہ! میں ساٹھ ہجری اور بچوں کی امارت کے زمانہ کو نہ پاؤں۔

    ان کا مدعا یہ تھا کہ ایک خوفناک دور شروع ہونے والا ہے، جس میں اوباش لڑکے سلطنت و حکومت پر قابض ہوں گے۔ جس سے امت مسلمہ کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا، ایسے اوباش لڑکوں کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے سے خبردار فرما دیا تھا:

    هلاک هذه الامة علي يدي أغيلمة من قريش.

    (صحيح البخاري، 1 : 509)
    (صحيح البخاري، 2 : 1046)
    (المستدرک للحاکم، 4 : 526)
    (المعجم الصغير للطبراني، 1 : 335)


    اس امت کی ہلاکت قریش کے اوباش نوجوانوں کے ہاتھوں ہو گی۔

    هلاک امتي علي يدي غلمة من قريش.

    (المستدرک للحاکم، 4 : 527)
    (مسند الفردوس للديلمي، 4 : 346)


    میری امت کی ہلاکت قریش کے اوباش نوجوانوں کے ہاتھوں ہو گی۔

    إن فساد أمتي علي يدي أغيلمة سفهاء.

    (مسند احمد بن حنبل، 2 : 304)
    (مسند احمد بن حنبل، 2 : 485)
    (صحيح ابن حبان، 15 : 108)
    (التاريخ الکبير، 7 : 309)


    بے شک میری امت میں جھگڑا و فساد بے وقوف اوباش نوجوانوں کے ہاتھوں برپا ہو گا۔

    إن هلاک أمتي أو فساد أمتي رؤوس أمراء أغيلمة سفهاء من قريش.

    (مسند احمد بن حنبل، 2 : 299)


    بے شک میری امت کی ہلاکت یا (اس کا) فساد قریش کے بے وقوف اور اوباش حکمرانوں کے ہاتھوں ہو گا۔

    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

    ويل للعرب من شر قد اقترب علي رأس ستين تصير الامانة غنيمة والصدقة غرامة و الشهادة بالمعرفة والحکم بالهوي

    (کتاب الفتن لنعيم بن حماد، 2 : 703)


    اہل عرب کے لئے اس شر کی وجہ سے تباہی و بربادی ہے جو سن 60 ہجری کے اختتام پر قریب آ چکی ہے، امانت کو مال غنیمت اور صدقہ (و زکوٰۃ) کو تاوان خیال کیا جائے گا اور گواہی (شخصی) جان پہچان کی بناء پر ہو گی اور فیصلہ (ذاتی) خواہش کی بناء پر ہو گا۔

    حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

    يقتل حسين بن علي علي رأس ستين من مهاجرتي

    (المعجم الکبير للطبراني، 3 : 105)
    تاريخ بغداد، 1 : 142)
    (مجمع الزوائد للهيثمي، 9 : 190)


    (میرے جگر گوشہ) حسین بن علی کو سن 60 ہجری کے اختتام پر شہید کر دیا جائے گا۔

    یہی روایت مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ بھی مروی ہے:

    يقتل حسين بن علي علي رأس ستين من مهاجري حين يعلوه القتير، القتير الشيب.

    (مسند الفردوس للديلمي، 5 : 539)


    (میرے جگر گوشہ) حسین بن علی کو سن 60 ہجری کے اختتام پر شہید کر دیا جائے گا کہ جب ایک (اوباش) نوجوان ان پر چڑھائی کرے گا۔

    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس پیشین گوئی کے مطابق سن 60 ہجری میں قبیلہ قریش کی شاخ بنو امیہ کا اوباش نوجوان یزید بن معاویہ تخت نشین ہوا، اور 61 ہجری کے ابتدائی دس دنوں میں سانحہ کربلا پیش آیا جس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یزید کی حکومت سے پناہ مانگنے کا حکم فرمایا تھا اور بتا دیا تھا کہ یہی وہ شخص ہو گا جو اہل بیت رضی اللہ عنھم کے خون سے ہاتھ رنگے گا، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی پیروی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یزید کی نوخیز اور لا ابالی حکومت اور اس کے ظلم و ستم سے بھرپور دور سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ کی دعا قبول ہوئی اور آپ ایک سال پہلے ہی فوت ہو گئے۔

    مآخوذ از کتاب "شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ (حقائق و واقعات"
    شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی
     
  8. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    Re: ساٹھ ہجری کے اختتام سے پناہ

    ڈاکٹر صاحب کی تمام تحقیق (نوعمر اور اوباش نوجوانوں کی امارت) اور متعلقہ تاریخی حوالہ جات سر آنکھوں پر ۔۔۔
    لیکن ہمارا سوال یہ ہے کہ یزید کو اوباش قرار دینا کس صحیح و صریح حدیث سے ثابت ہے ؟
    براہ مہربانی کسی تاریخی کتاب کا حوالہ مت دیں ۔۔۔ کیونکہ تاریخ نے اچھا اور برا سب درج کر رکھا ہے ۔
    مثلاََ یہی تاریخی حوالہ دیکھ لیں جو حافظ ابن کثیر ، اپنی معروف تاریخی کتاب البدایۃ و النہایۃ میں تحریر کرتے ہیں :

    یزید کے فسق و فجور کے افسانوں کی تردید میں خود حضرت حسین (رض) کے برادرِ اکبر محمد بن الحنفیہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
    '' تم یزید کے متعلق جو کچھ کہتے ہو ، میں نے ان میں ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی ، میں نے ان کے ہاں قیام کیا ہے اور میں نے انھیں پکا نمازی ، خیر کا متلاشی ، مسائی شریعت سے لگاؤ رکھنے والا اور سنت کا پابند پایا ہے ۔ ''
    ( بحوالہ : البدایۃ و النہایۃ ، جلد : ٨ ص : ٢٣٣ )


    شیخ الاسلام (؟) ڈاکٹر طاہر قادری محترم نے تو اپنی تحریر میں بڑے آرام سے بغیر کسی حوالے کے فرما دیا کہ :
    سن 60 ہجری میں قبیلہ قریش کی شاخ بنو امیہ کا اوباش نوجوان یزید بن معاویہ تخت نشین ہوا ۔۔۔

    مفسرِ قرآن اور ماہرِ تاریخِ اسلام حافظ ابن کثیر تو حضرت حسین (رض) کے برادرِ اکبر محمد بن الحنفیہ رحمہ اللہ کے حوالے سے فرمائیں کہ یزید تو نمازی اور پابندِ سنت تھا ۔۔۔
    اور ۔۔۔
    آج کئی صدیوں میں بعد ایک ڈاکٹر صاحب اُٹھتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُن تمام فرامین
    مُردوں کو گالی مت دو ۔۔۔ (صحیح بخاری)
    مسلمان لعنت کرنے والا نہیں ہوتا ۔۔۔ (ابن ماجہ)
    ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو ۔ (صحیح بخاری )

    کو پسِ پشت ڈال کر ایک مسلمان مُردے کے خلاف تعصبانہ زہر اگلتے ہیں ؟؟
    کیا اہل سنت و الجماعت ، کوفیوں کے پھیلائے گئے پروپگنڈے کو بس یونہی ٹھنڈے پیٹ ہضم کر لیں گے ؟ کیا ہم اہل سنت و الجماعت دینی لحاظ سے اتنے ہی گئے گزرے ہیں کہ فرامینِ رسول (ص) کو بھی ایک خودساختہ پروپگنڈے کی نذر کر دیں ؟؟؟

    براہ مہربانی شیخ الاسلام ڈاکٹر صاحب کی تقاریر و تحاریر کو ان ہی کی مختص ویب سائٹس پر رہنے دیں ۔
    یہاں اوپن فورم پر پیش کر کے دیگر ساتھیوں کے درمیان شکوک و شبہات پیدا کرنے سے گریز کریں ۔
    ہاں ، اگر ایسا پروپگنڈا شیخ الاسلام محترم کی سیاسی و مذہبی بقا کے لیے اتنا ہی ضروری ہے تو پھر دل بڑا کریں اور دیگر علماء و ائمہ کی تحقیق بھی سننے / پڑھنے کو تیار رہیں ۔
    بہت شکریہ محترمین ۔
     
  9. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بخاری کی حدیث ۔۔۔ ؟؟

    بخاری کی درج بالا حدیث کا مکمل متین یہاں ملاحظہ فرمائیں :

    حدثنا موسى بن اسماعيل، حدثنا عمرو بن يحيى بن سعيد بن عمرو بن سعيد، قال اخبرني جدي، قال كنت جالسا مع ابي هريرة في مسجد النبي صلى الله عليه وسلم بالمدينة ومعنا مروان قال ابو هريرة سمعت الصادق المصدوق يقول ‏"‏ هلكة امتي على يدى غلمة من قريش ‏"‏‏.‏ فقال مروان لعنة الله عليهم غلمة‏.‏ فقال ابو هريرة لو شئت ان اقول بني فلان وبني فلان لفعلت‏.‏ فكنت اخرج مع جدي الى بني مروان حين ملكوا بالشام، فاذا راهم غلمانا احداثا قال لنا عسى هؤلاء ان يكونوا منهم قلنا انت اعلم‏.
    حضرت عمرو بن یحییٰ بن سعید (رضی اللہ عنہ) روایت کرتے ہیں کہ مجھے میرے دادا سعید نے خبر دی کہ :
    میں ابو ھریرہ (رضی اللہ عنہ) کے پاس مدینہ منورہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مسجد میں بیٹھا تھا اور ہمارے ساتھ مروان بھی تھا ۔ ابو ھریرہ (رض) نے کہا کہ : میں نے صادق و مصدوق سے سنا ہے ، آپ (ص) نے فرمایا کہ میری امت کی تباہی قریش کے چند چھوکروں کے ہاتھ سے ہوگی ۔ مروان نے اس پر کہا : ان پر اللہ کی لعنت ہو ۔
    ابو ھریرہ (رض) نے کہا کہ اگر میں ان کے خاندان کے نام لے کر بتلانا چاہوں تو بتلا سکتا ہوں ۔
    پھر جب بنی مروان شام کی حکومت پر قابض ہو گئے تو میں اپنے دادا کے ساتھ ان کی طرف جاتا تھا ۔ جب میرے دادا نے وہاں نوجوان لڑکوں کو دیکھا تو کہا : شاید یہ انہی میں سے ہوں ۔
    ہم (عمرو بن یحییٰ بن سعید) نے کہا کہ : آپ کو زیادہ علم ہے ۔

    صحيح بخاري ، كتاب الفتن ، باب : قول النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ هلاك امتي على يدى اغيلمة سفهاء ‏"‏‏. ، حدیث : 7145

    اب اس حدیث پر صحیح بخاری کے معروف شارح امام قسطلانی رحمہ اللہ کی تشریح بھی ملاحظہ فرمائیں :
    قسطلانی کہتے ہیں کہ : اُس بلا (تباہی) سے مراد وہ اختلاف ہے جو حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کی اخیر خلافت میں ہوا یا وہ جنگ جو حضرت علی (رضی اللہ عنہ) اور معاویہ (رضی اللہ عنہ) میں ہوئی ۔


    مشہور شارحِ صحیح بخاری ، امام قسطلانی (رح) تو اس حدیث کی تشریح میں یزید بن معاویہ کا نام تک نہ لیں اور آج کے کوئی شیخ الاسلام ڈاکٹر صاحب اس حدیث کو یزید پر فٹ کر دیں ؟
    یہ کوئی انصاف ہے ؟
    دین کی تحقیق و تبلیغ میں شیخ الاسلام (؟) ڈاکٹر طاہر القادری کا درجہ کیا امام قسطلانی رحمہ اللہ سے اتنا ہی بڑھ کر ہے کہ ہم ان (ڈاکٹر صاحب) کی ہر خودساختہ تحقیق کو بس آنکھ بند کر کے قبول کرتے جائیں ۔۔۔۔ ؟؟؟
     
  10. کارتوس خان
    آف لائن

    کارتوس خان ممبر

    شمولیت:
    ‏9 جنوری 2007
    پیغامات:
    24
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

    اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔

    محترم نعیم صاحب!۔

    لَكُمۡ دِينُكُمۡ وَلِیَ دِينِ
    تم اپنے دین پر میں اپنے دین پر(الکافرون۔٦)۔۔۔

    اس آیت کو پیش کر کے آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ حق اور باطل ثابت نہ کیا جائے اور اس آیات کو سامنے رکھ کر جیو اور جینے دو والا اصول اپنا کر جھوٹ کو سچ بنا کر معصوم اور بھولے بھالے مسلمانوں کے ذہنوں میں ڈال کر اُن کے عقائد میں گمراہی کا عنصر شامل کر کے ایک عامی کو اللہ کا نافرمان بنانا یہ کس دین کی تعلیم ہے؟؟؟۔۔۔ دین اسلام نے کب اور کہاں یہ بات کہی ہے کہ ہے کوئی جواب آپ کے پاس؟؟؟۔۔۔ مسلمانوں کو گمراہ کرنے والا مسلمان نہیں ہوسکتا ہے۔۔۔ یہ جو آپ بات بات پر حدیث کو رد کر رہے ہیں اور یزید کو بُرا بھلا کہہ رہے ہیں آئیں دیکھیں اللہ پاک نے کیا وعید بیان فرمائی ہے اُن لوگوں کے لئے جو اللہ کے محبوب نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبداللہ کی بات کو اپنی انا اور خواہشات کی تسکین کے لئے رد کرتے ہیں اللہ وحدہ لاشریک کا فرمان ہے کہ۔۔۔!

    أَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَٱلرَّسُولَۖ فَإِن تَوَلَّوۡاْ فَإِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلۡكَـٰفِرِين
    اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اگر نہ مانیں تو اللہ بھی کافروں کو دوست نہیں رکھتا (ال عمران ٣٢)۔۔۔

    محترم نعیم صاحب اس لڑی میں جو یزید کے خلاف اتنی کلیاں پروئی گئی ہیں اس حوالے سے ہم نے اپنی طرف سے نہیں بلکہ وہ سوال جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اس وقت مخالفین سے پوچھے تھے صرف یہ جاننے کی کوشش کی تھی کہ کیا حق اور باطل کے معرکہ میں شرائط رکھنے کی کوئی خاص وجہ تھی؟؟؟۔۔۔ اگر تھی تو برائے مہربانی واضع کریں کیوں کہ جو کاپی پیسٹ کا لامتناہی سلسلہ جان بوجھ کر ذاتی انارگی کی وجہ سے اس لڑی میں گاہے بگاہے پرویا کیا جا رہا ہے اس کی سچائی سب ساتھیوں پر واضع ہو۔۔۔ آیا کہ معرکہ تھا یا پھر کوفیوں کی سازش کسی بھی سلسلے کو شروع کرنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ اُس کی وجوہات کیا ہیں۔۔۔ اب اسی لڑی کو لے لیں اس کو پرونے کی وجہ کیا ہے؟؟؟۔۔۔ بقول شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کے محرم ہر کسی کو اپنے اپنے انداز سے منانے کا پورا حق ہے تو محترم ہم بھی تو حق کی ہی بات کر رہے ہیں کہ سب سے پہلے سچ اور حق بات کو واضع کیا جائے پھر اس کے بعد یزید کی شان میں نوحے پڑھے جائیں وہ اس لئے کہ جب تک آپ یزید کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا قاتل ثابت نہیں کر دیتے آپ کو اُس وقت تک کوئی حق نہیں کے اُس کے خلاف کسی بھی قسم کی لٹریچر کسی مخصوص مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کی جانب سے یہاں پیش کریں۔۔۔ اور اگر آپ لٹریچر پیش ہی کرنا چاہتے ہیں تو پھر یزید سے متعلق جو دوسرے مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے علماء ہیں اُن کی اس سانحے پر کیا رائے اور تحقیق ہے وہ بھی پیش کریں۔۔۔ اور اگر آپ ایسا نہیں کریں اور ایک خاص مکتبہ فکر کی طرف ہی اپنے سوچ اور اُن کی تعلیمات کا پرچار یہاں کریں گے تو یہ سراسر ناانصافی ہوگی۔۔۔ اور ناانصافی وہی لوگ کرتے ہیں جو گمراہ ہوتے۔۔۔ اور جو گمراہ ہوتے ہیں اُن کے بارے میں بھی سُن لیں اللہ وحدہ لاشریک کا فرمان۔۔۔

    وَدَّت طَّآٮِٕفَةُُ مِّنۡ أَهۡلِ ٱلۡكِتَـٰبِ لَوۡ يُضِلُّونَكُمۡ وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّآ أَنفُسَهُمۡ وَمَا يَشۡعُرُونَ
    (اے اہل اسلام) بعضے اہلِ کتاب اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ تم کو گمراہ کر دیں مگر یہ (تم کو کیا گمراہ کریں گے) اپنے آپ کو ہی گمراہ کر رہے ہیں اور نہیں جانتے (ال عمران ٦٩)۔۔۔

    محترم نعیم صاحب!۔ کوشش کریں کے جو بھی بات کریں اُس کی دلیل پیش کریں۔۔۔ اور دلیل یہ سب جانتے ہیں رب کا قرآن اور محمد مدنی تاجدار صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے اور بس۔۔۔ اور اسی کا حکم اللہ رب العزت نے بھی ہم کو دیا ہے اللہ وحدہ لاشریک کا فرمان ہے کہ۔۔

    يَـٰۤأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوۤاْ أَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَأَطِيعُواْ ٱلرَّسُولَ
    مومنو! اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو(النساء۔٥٩)۔۔۔

    اب بحیثیت مسلمان ہماری کیا ذمداری ہے اس آیت سے واضع ہو گیا ہے۔۔۔ احادیث محترم باذوق بھائی نے پیش کردیں ہیں اور قرآن کی آیات پہلی لڑیوں میں پیش کی جا چکی ہیں اور جو بھی شخص اللہ کی آیات کا انکار کرے گا اس کے بارے میں بھی اللہ وحدہ لاشریک کا فرمان سُن لیں۔۔۔

    يَـٰۤأَهۡلَ ٱلۡكِتَـٰبِ لِمَ تَلۡبِسُونَ ٱلۡحَقَّ بِٱلۡبَـٰطِلِ وَتَكۡتُمُونَ ٱلۡحَقَّ وَأَنتُمۡ تَعۡلَمُون
    اے اہلِ کتاب تم سچ کو جھوٹ کے ساتھ خلط ملط کیوں کرتے ہو اور حق کو کیوں چھپاتے ہو (ال عمران ٧١)۔۔۔

    اور جو عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اُن کو چاہئے کہ اپنے دعوؤں کو سچ ثابت کر کے دکھائیں۔۔۔ شیخ الاسلام کی بات کو رد کرنے والی ذات محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے جو محترم باذوق صاحب پیش کر چکے ہیں اور اُس کے بعد بھی اگر کوئی ساتھی یا کوئی دوست شیخ الاسلام کی پیروی کرتا ہے تو وہ عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کیونکہ اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ!۔

    وَلَا تُؤۡمِنُوۤاْ إِلَّا لِمَن تَبِعَ دِينَكُمۡ
    اور اپنے دین کے پیرو کے سوا کسی اور کے قائل نہ ہونا(ال عمران ٧٤)۔۔۔

    اب ہم عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ اگر وہ واقعی اپنے قول میں سچے ہیں تو دلیل پیش کریں۔۔۔ (قُلۡ هَاتُواْ بُرۡهَـٰنَڪُمۡ إِن ڪُنتُمۡ صَـٰدِقِينَ)۔۔۔ ورنہ شیخ الاسلام کی ایک من گھڑت تحریر پر رجوع کریں اور اللہ سے توبہ کریں اور دُعا کریں کے اللہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے آمین یا رب العالمین۔۔۔

    اور آخر میں ہم سب کے لئے اللہ کا یہ فرمان کافی ہےکہ!۔
    يُدۡعَوۡنَ إِلَیٰ ڪِتَـٰبِ ٱللَّهِ لِيَحۡكُمَ بَيۡنَهُمۡ ثُمَّ يَتَوَلَّیٰ فَرِيقُُ مِّنۡهُمۡ وَهُم مُّعۡرِضُونَ
    وہ (اس) کتاب اللہ کی طرف بلائے جاتے ہیں تاکہ وہ (ان کے تنازعات کا) ان میں فیصلہ کر دے تو ایک فریق ان میں سے کج ادائی کے ساتھ منہ پھیر لیتا ہے(ال عمران۔٢٣)۔۔۔

    وسلام۔۔۔
     
  11. ساجدحسین
    آف لائن

    ساجدحسین ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مئی 2006
    پیغامات:
    182
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    اپنا محاسبہ

    ہماری اردو پیاری اردو کے محترم ساتھیو

    کافی عرصہ بعد آپ سے ملاقات کا شرف حاصل ہو رہا ہے، لیکن بہت افسوس ہوا ہے خاص کر اسلامی تعلیمات میں پیغام شہادت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی لڑی میں آپ لوگوں کے پیغامات پڑھ کر۔

    مسلمانوں کو کیا ہو گیا ہے؟ ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے ہیں، کسی کے مقام و رتبے کو کم کیا جا رہا ہے، کسی کو بڑھایا جا رہا ہے۔ خدا کے بندو اختلاف تو ہو سکتا ہے لیکن ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا اور کسی کے مقام و رتبے کو کم کرنا یہ کہاں کی تربیت ہے؟ کیا آپ مسلمان ہیں؟ کیا اسلام آپ کو یہی سبق دیتا ہے؟ "شرم کا مقام ہے، ڈوب کر مرجانا چاہیئے"

    میں خاص طور پر محترم باذوق اور کارتوس خان کو یہ بات کہوں گا کہ پیغام شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ پر تو ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے نام سے پیاجی نے آرٹیکل ڈالا تھا کیا اس نے بھی کسی کو برا بھلا کہا؟ یا کسی کے مقام و مرتبے کے حوالے سے کچھ لکھا ہو، اس نے تو اپنا فرض پورا کرتے ہوئے مزید آرٹیکل ڈالے ہیں لیکن آپ لوگوں نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے بارے اور دوسروں کے بارے کیا کچھ کہا ہے؟ اگر ضمیر اور سوچ ہے تو تھوڑی دیر کے لئے سوچو، محاسبہ کرو! مسلمانو؟ کہاں کھڑے ہو؟ اسی لئے تو مسلمان پوری دنیا میں مار کھا رہے ہیں ایک دوسرے کی بات ہضم نہیں ہوتی۔

    جیسا آپ لوگوں کا اخلاق ہے لوگ اس سے کیا سبق لیں گے؟ اور آپ کی تحریروں کو کیا صحیح مانیں گے؟ یہ آپ خود سوچیں۔
     
  12. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    Re: اپنا محاسبہ

    حضور والا ۔۔۔ کیا آپ اتنے ہی معصوم ہیں یا آپ نے یہ تھریڈ مکمل طور پر پڑھا ہی نہیں ؟

    اگر باذوق ، کارتوس خان کو لعنتی کہے اور جی بھر کے گالیاں دے ، اور نعیم صاحب باذوق کی وہ گالیوں بھری تحریر ایک تھریڈ کی شکل میں لگائیں تو کیا آپ وہاں بھی صرف یہی کہیں گے کہ : نعیم صاحب نے کسی کو برا بھلا کہا؟ یا کسی کے مقام و مرتبے کے حوالے سے کچھ لکھا ؟

    حیرت کا مقام ہے ۔ کوئی شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے فرامین کا مذاق اڑانے والی تحریریں پیسٹ کرے تو وہ آپ کے نزدیک گویا اپنا فرض پورا کرنے والا ہو گیا ۔۔۔
    اور کوئی حُبّ رسول کے ناتے احادیث پر عمل کرنے کی دعوت دے تو وہ غیر ضروری اعتراض کرنے والا قرار پایا ۔۔۔ ؟؟


    کیا رسول (ص) اور رسول (ص) کے فرامینِ مبارک سے محبت کی یہی نشانی ہے ؟؟
     
  13. کارتوس خان
    آف لائن

    کارتوس خان ممبر

    شمولیت:
    ‏9 جنوری 2007
    پیغامات:
    24
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    Re: اپنا محاسبہ

    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

    اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔
    محترم حسین صاحب!۔ بہت اچھی اور بڑی پیاری بات کی ہے آپ نے کہ (مسلمانوں کو کیا ہوگیا ہے)۔۔۔ اصل میں مسلمان روشنی سے دور ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے تاریکیاں اُن کا مقدر بنتی جا رہی ہیں۔۔۔ کیونکہ یہ ظاہری امر ہے کہ انسان روشنی سے جتنا دور ہوگا اندھیرا اُتنا ہی بڑھے گا اب روشنی کی مثال علم ہے اور اندھیرا سے مراد جہالت۔۔۔ اچھا جو دوسری بات آپ نے کہی کے (ایک دوسرے کا بُرا بھلا کہہ رہے ہیں) تو اس کا سہرا جاتا ہے محترم نعیم صاحب کی طرف جنہوں نے سب سے پہلے یزید کو بُرا بھلا کہنا شروع کیا۔۔۔ اُس پر ہم نے ایک حدیث پیش کی کہ مسلمانوں کا ہر طریقہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہونا چاہئے اور اس سلسلے میں محترم باذوق صاحب نے ایک حدیث بھی پیش کی جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ مردوں کو بُرا مت کہو۔۔۔ تو ہم نے دوستوں کو دعوت دی کے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اپنے قلم کو استعمال کریں۔۔۔ تو کیا ہم نے غلط کہا؟؟؟۔۔۔

    اگر ہم نے شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی بات کو رد کیا تو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی روشنی میں لیکن تنقید کا یہ جھکاؤ ہماری طرف کیوں ہے؟؟؟۔۔۔ اس لئے کہ ہم نے شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کی بات کو مدنی تاجدار محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے رد کر دیا۔۔۔ یا پھر ہم نے حقائق پر جمی ہوئی دھول کو صاف کرنے کی کوشش کی۔۔۔ یا پھر اس لئے کہ ہم نے شہادت سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو معرکہ نہیں بلکہ ایک سازش ثابت کرنے کی کوشش کی؟؟؟۔۔۔ یا پھر اس لئے کہ ہم نے اُن سوالوں کے جواب طلب کئے جو سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کوفیوں سے کئے تھے؟؟؟۔۔۔

    محترم حسین صاحب!۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری نے یہ آرٹیکل لکھ تو دیا لیکن کیا ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اس آرٹیکل کو پڑھ کر اس میں لکھی گئی کہانی کو سچ تسلیم کر لیں؟؟؟۔۔۔ کیا ہمارا اتنا بھی حق نہیں کہ جو سوال اس آرٹیکل کو پڑھ کر ہمارے ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں اس کو وضاحت طلب کریں؟؟؟۔۔۔ محترم ہم تنقید برائے تنقید کے قائل نہیں ہیں بلکہ ہم تو ہر بات پر صرف دلیل طلب کی بات کر رہے ہیں۔۔۔ اگر واقعی جو واقعہ کربلا میں پیش آیا سیدنا حضرت حسین رضی اللہ کی مظلومانہ شہادت کا تو بتایا جائے کہ اس میں کون لوگ ملوث ہیں کوفہ کے رہنے والے کوفی یا پھر یزید؟؟؟۔۔۔ دوسرا دعوٰی جو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ معرکہ تھا حق اور باطل کا تو اس کی بھی دلیل پیش کی جائے کہ کن بنیادوں پر اس سانحے کو معرکہ قرار دیا جارہا ہے؟؟؟۔۔۔ تاکہ ہمیں بھی حقیقت معلوم ہو سکے کیونکہ ہم کسی ایک عالم کی لکھے ہوئے آرٹیکل کو بیناد بنا کر کسی پر بھی ملزم نہیں ٹھہرا سکتے۔۔۔

    محترم حسین صاحب!۔ جس اخلاق کی بات آپ کر رہے ہیں۔۔۔ ذرا مہربانی کر کے میری تحریروں کو پڑھیں اور محترم نعیم صاحب کی تحریروں کو پڑھیں۔۔۔ اگر قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں بات کرنا اخلاق سے گری ہوئی حرکت ہے تو ہم کو یہ ہی اخلاق پسند ہے۔۔۔ بات بالکل واضع ہے۔۔۔ سوچ ہو فکر یا محاسبہ یہ ہی سوالات میں اُن محترمین سے کروں گا جو ہماری درخواست پر ہم کو اس طرح کے تعنے دے رہے ہیں۔۔۔ ہماری درخواست ہے کہ دلیل پیش کی جائے اُن سوالوں کی جو سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کوفیوں سے کئے تھے۔۔۔

    ١۔ یا تو مجھے واپس مدینہ جانے دو۔۔۔
    ٢۔ یا پھر مجھے کسی اسلامی سلطنت کی سرحد پر جانے دو۔۔۔
    ٣۔ یا پھر مجھکو میرے بھائی یزید کے پاس جانے دو۔۔۔


    وسلام۔۔۔
     
  14. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    قبلہ کارتوس خان صاحب ! (ماشاءاللہ نام سے ہی بارودیت کی بو آتی ہے :wink: )

    آپ نے ایک لڑی شروع کی تھی اور اس میں کچھ تحریر فرمایا تھا ۔ میں نے وہاں ایک سوال آپ سے کیا تھا لیکن لگتا ہے آپ نے دوبارہ اس لڑی میں جھانکنا بھی گوارہ نہیں کیا یا غالباً وہاں آپکی دلچسپی و ذوق کم تھا۔ لہذا آپ کی توجہ کے لیے آپ سے عرض ہے کہ اپنی ہی لڑی میں جائیے اور سوالات کے جوابات مرحمت فرمائیں۔ شکریہ
    لڑی کا لنک مندرجہ ذیل ہے

    http://www.oururdu.com/forum/viewtopic.php?t=1271
     
  15. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    لگتا ہے آپ کی اچھی خاصی محبت ہے یزید سے۔
    بھئی مبارک ہو پہلے مسلمان دیکھے ہیں جو یزید سے اتنی محبت رکھتے ہیں۔

    میں آپ کی طرح عالم تو نہیں لیکن حضور نبی پاک :saw: کی حدیث مبارک میں نے سنی ہے کہ قیامت کے دن انسان کا حشر اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت رکھتا ہو گا۔
     
  16. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    تو یہ کام آپ پہلے سے ہی کر رہے ہیں۔ باذوق اور کارتوس دونوں کو اللہ تعالی نے یزید کی شان اور دفاع میں قصیدہ خوانی کے لیے چن لیا ہے۔

    ڈاکٹر طاہر قادری اور پیا جی کی تحریر سے کہیں ایک اشارہ بھی نہیں ملتا کہ انہوں‌نے کسی کی دل آزاری کی ہو۔
    لیکن یزید کے دفاع میں جو جو روایات آپ نے پیش کی ہیں۔ وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ آپ کسی دوسرے کو برا کہے بغیر اپنا اور اپنے رہنماء علما کا مسلک بیان کر دیں۔ اور نتائج قاری پر چھوڑ دیں وہ کسی کی تحریر کو دل سے قبول کرتے ہیں۔ اور کس کو رد کرتے ہیں۔

    عام مسلمان کے لیے حسین (رض) اور یزید میں فرق کرنے کے لیے کیا اللہ تعالی کا اتنا واضح اشارہ کافی نہیں کہ ذکرِ حسین (رض) آج بھی زندہ ہے اور یزید کی شان میں مدح سرائی کی توفیق آپ جیسے دو چار کے علاوہ دنیا میں کسی کو بھی نہیں ؟؟؟؟

    رہی بات قرآن و حدیث کی تو عامۃ المسلمین کو نہ تو اتنا سارا علم ہوتا ہے اور نہ ہی بغیر کسی دینی درس گاہ میں گئے کامل عالمِ دین ہونے کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے۔ لہذا عام مسلمانوں نے تو کسی نہ کسی عالمِ دین پر ہی اعتماد کر کے اسکے خیالات سے مستفیض ہونا ہوتا ہے۔
    اور جہاں تک علماء کے اختلافات کی بات ہے تو نعیم صاحب کی اتنی بات درست ہے کہ آپ اپنے ایسے علما جو ڈاکٹر طاہر قادری کے پائے کے ہوں (اور یقیناً ہوں گے) آپ ان سے رابطہ کریں اور انہیں بتلائیں کہ (بقول آپکے) ایسا کفر ڈاکٹر طاہر قادری دنیا میں پھیلا رہا ہے تو اس کے ساتھ بیٹھ کر مناظرہ کر کے اسے جھوٹا ثابت کریں تاکہ وہ دنیا میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔

    اگر آپ کے بڑے بزرگ علما ایسا نہیں کرتے تو پھر آپ جیسوں کی ڈاکٹر طاہر قادری پر تنقید تو بس “چاند پر تھوکنے“ سے بڑھ کر کچھ نہیں !

    امید ہے آپ بات کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔
     
  17. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    1۔ محبت کرنا ایک الگ بات ہے ۔۔۔ اور
    2۔ کسی مردہ شخص پر لعن طعن کرنے سے روکنا ایک بالکل الگ معاملہ ہے ۔

    اور ان دونوں ہی باتوں کے لیے رسول اللہ (ص) کے ارشادات موجود ہیں ۔
    1۔ رسول اللہ (ص) کو حضرت حسین (رض) بہت چہیتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جگر گوشہ نواسے سے بےاندازہ محبت کرتے تھے ۔۔۔ لہذا ہم تمام مسلمان بھی رسول اللہ (ص) کی اتباع میں حضرت حسین (رض) سے محبت کرتے ہیں ۔
    2۔ ابوجہل نے رسول اللہ (ص) کو بےاندازہ اذیتیں پہنچائیں اور وہ خود کفر کی حالت میں‌ مارا گیا ۔ اور اس کے مرنے کے بعد لوگ اس کو گالیاں دینے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس فعل سے روکا اور فرمایا :
    مرے ہوؤں کو گالیاں مت دو ۔۔۔
    (صحیح بخاری ، سنن النسائی)


    اور انہی احادیث کی روشنی میں جب یزید پر لعنت کرنے سے لوگوں کو روکا جاتا ہے تو یہ ۔۔۔
    یزید سے محبت کی علامت نہیں‌ ۔۔۔ بلکہ
    رسول اللہ (ص) کے مبارک فرامین سے محبت اور ان پر عمل کی دعوت ہے ۔


    اور رسول اللہ (ص) کے مبارک فرمودات کے مقابلے میں‌ آج کے کوئی عالمِ دین (؟) خود بھی یزید کو گالیاں دیں اور دوسروں‌ کو بھی اس قبیح‌ عمل کی ترغیب دلائیں تو ایسا عالمِ دین رسول اللہ (ص) کی اتباع نہیں بلکہ آپ (ص) کی مخالفت پر کمربستہ ہے !!
     
  18. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    یہ حدیث صحیح ہے اور اکثر علماء کرام محبتِ رسول :saw: کے باب میں‌اسکا حوالہ دیتے ہیں۔
     
  19. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    قرآن و حدیث کیا کہتے ہیں ؟

    لوگوں کے ذہنوں پر چھائی دھند کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح ترین ارشادات کے ذریعے صاف کر کے اتباعِ سنت کی دعوت دینا اگر آپ لوگوں کے نزدیک ۔۔۔
    یزید کی شان اور دفاع میں قصیدہ خوانی ہے
    تو ایسی قصیدہ خوانی ہمیں لاکھوں مرتبہ مبارک ہو کہ ۔۔۔ کیونکہ خود رسولِ کریم کا مشہور ارشاد ہے : (جس کا مفہوم یوں ہے)۔۔۔
    جس نے میری سنت کو اس وقت زندہ کیا جب لوگ اسے ترک کر چکے ہوں تو اس نے سو (100) شہیدوں کا ثواب پایا۔
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو فرمائیں کہ ۔۔۔
    مُردوں کو گالی مت دو ۔۔۔ (صحیح بخاری)
    مسلمان لعنت کرنے والا نہیں ہوتا ۔۔۔ (ابن ماجہ)
    ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو ۔ (صحیح بخاری )

    اور رسول اللہ (ص) کے ان واضح ترین ارشادات کے برخلاف حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر صاحب یزید جیسے مسلمان مردہ شخص کو جی بھر کے گالیاں دیں اور دوسروں کو بھی اس عمل پر اکسائیں ۔۔۔ تو بتائیے یہ اُن دوسرے متبعِ سنت مسلمانوں کی دلآزاری نہیں جو رسول (ص) کے ایک ایک فرمان پر جان دیتے ہیں ۔۔۔۔؟؟
    جب دین کا نام اور ثواب کا کام ، اُس عمل کو بتایا جائے جو اللہ کے محبوب رسول (ص) کے واضح ترین ارشادات کے عین مخالف ہو ، تو کیا یہ ہم مسلمانوں کی دلآزای نہیں کہ رسول (ص) کے فرامین کو یوں دن دھاڑے condemn کیا جائے ۔
    کیا ہم شخصیت پرستی کے مرض میں گرفتار ہو کر یوں ہی بےغیرتی سے دیگر تمام غالی عقیدتمندوں کی طرح چپ چاپ بیٹھے تماشا دیکھتے رہیں ؟؟
    جب کہ
    امر بالمعروف و نھی عن المنکر
    کے حکم کی تعمیل تو ہر مسلمان پر واجب ہے !!

    یہ کوئی دلیل نہیں کہ اکثریت کا عمل (یزید پر لعن طعن) ہی خیر کا عمل ہو ۔
    جبکہ قرآن میں تو اللہ کا فرمان ہے ؛
    اور اگر تو زمین میں (موجود) لوگوں کی اکثریت کا کہنا مان لے تو وہ تجھے اﷲ کی راہ سے بھٹکا دیں گے۔
    ( سورہ سُورة الْانْعَام ، آیت : 116 ، ترجمہ : ڈاکٹر طاہر القادری )
     
  20. کارتوس خان
    آف لائن

    کارتوس خان ممبر

    شمولیت:
    ‏9 جنوری 2007
    پیغامات:
    24
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​


    اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔
    محترم نعیم صاحب!۔ ماشاء اللہ آپ اس فورم کے ایک سینیئر ممبر ہیں مگر گفتگو کا جو وطیرہ آپ نے اپنایا ہوا ہے وہ میری نظر میں درست نہیں ہے۔۔۔ (مثلا نام سے ہی بارودیت کی بو آتی ہے) جواب دینے کی صلاحیت الحمداللہ میں بھی رکھتا ہوں جس سے آپ کے چاروں طبق روشن ہوجائیں لیکن بحیثیت مسلمان ہمارا ہر عمل اللہ اور اُس کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کے عین مطابق ہونا چاہئے۔۔۔ اللہ پاک نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے کہ!۔

    كُنتُمۡ خَيۡرَ أُمَّةٍ أُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَأۡمُرُونَ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَتَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلۡمُنڪَرِ وَتُؤۡمِنُونَ بِٱللهِۗ
    (مومنو) جتنی امتیں (یعنی قومیں) لوگوں میں پیدا ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو کہ نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو(ال عمران ١١٠) ۔۔۔

    ہوسکتا ہے یہ آیت آپ کی نظر سے نہ گزری ہو اس ہی لئے آپ صراط مستقیم سے ہٹ کر بات کرتے ہیں۔۔۔ خیر اللہ پاک ہم سب کو ہدایت عطاء فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔۔۔

    وسلام۔۔۔
     
  21. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    غلط کون ہے ؟؟؟؟

    ڈاکٹر طاہر القادری جس مکتبِ فکر کی نمائیندگی کرتے ہیں اسی مکتبِ فکر کے بانی مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی ہیں ۔
    اور مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی فرماتے ہیں :
    '' اور ہمارے امام (ابو حنیفہ رحمہ اللہ) سکوت فرماتے ہیں کہ ہم (یزید کو) نہ مسلمان کہیں نہ کافر ، لہٰذا یہاں (ہم) بھی سکوت کریں گے ۔۔۔ ''
    ( بحوالہ : احکام شریعت ، حصہ دوم ص : ٨٨ )

    آپ کے مکتبِ فکر کے بانی تو حکم دیں کہ یزید کے بارے میں خاموش رہا جائے ۔۔۔ لیکن آپ برسروعام گالیاں بکتے پھرتے ہیں ۔
    فرمائیے کس کو غلط کہا جائے ؟
    مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی کو یا ڈاکٹر طاہر القادری کو ؟؟

    اس سوال کا جواب ضرور بالضرور دیجئے ۔۔۔ تاکہ ہم تمام دیگر مسلمانوں کو بھی پتا چلے کہ دونوں میں سے کون غلط ہے ؟؟
     
  22. کارتوس خان
    آف لائن

    کارتوس خان ممبر

    شمولیت:
    ‏9 جنوری 2007
    پیغامات:
    24
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

    اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔
    محترمہ زاہرا مسلک کے معنی ہیں طریقہ اور میں شروع سے ہی اس بات پر ساتھیوں کی توجہ دلانے کی کوشش کر رہا ہے کہ بحیثیت مسلمان ہمارا طور طریقہ قرآن و سنت کے احکامات کی روشنی میں ہی پروان چڑھنا چاہئے۔۔۔ اب اگر شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری صاحب یا جو ساتھی اُن سے عقیدت و محبت رکھتے ہیں اُن کے نظریات سے اتفاق کرتے ہیں تو ہم کو اُن سے کوئی ذاتی اختلاف نہیں ہے ہم تو اُن فرمودات اُن ارشادات کو بیان کر رہے جو کہ ہمارے لئے آسمان سے نازل ہوئے میں صرف یہ بات جاننا چاہتا ہوں اُن ساتھیوں سے جن کو ہم سے اختلاف ہے کہ کیا شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کا فرمان (نعوذباللہ) اللہ اور اس کے چہیتے امام الانبیاء امام اعظم نبی پاک رحمت للعالمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبداللہ سے بڑھ کر ہیں؟؟؟۔۔۔ اگر ہیں تو آپ کا ہم سے اختلاف بالکل درست ہے۔۔۔ اور اگر نہیں ہیں تو پھر دیکھیں اللہ وحدی لاشریک (مشکل کشا) کیا ارشاد فرما رہا ہے۔۔۔

    يَـٰۤأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَرۡفَعُوۤاْ أَصۡوَٰتَكُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ ٱلنَّبِیِّ وَلَا تَجۡهَرُواْ لَهُۥ بِٱلۡقَوۡلِ كَجَهۡرِ بَعۡضِڪُمۡ لِبَعۡضٍ أَن تَحۡبَطَ أَعۡمَـٰلُكُمۡ وَأَنتُمۡ لَا تَشۡعُرُونَ
    اے اہل ایمان! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کرو اور جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو (اس طرح) ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو (٢)۔۔۔

    اس آیت کی روح سے اب چاہے کوئی شیخ الاسلام ہو، ڈاکٹر ہو، انجینئر ہو، مجدد ملت ہو، علامہ ہو، مولانا ہو، عالم ہو، سب پر ایک واضع حکم نافذ کر دیا گیا ہے کہ اگر تمہاری آواز نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اونچی ہوئی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے سب اعمال ضائع ہوجائیں۔۔۔ اب آئیے میں دعوت دیتا ہوں تمام دوستوں کو جن کو ہم سے اختلاف ہے کہ نبی صلی اللہ کی آواز کو سنیں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ!۔

    مرے ہوؤں کو گالیاں مت دو ۔۔۔
    (صحیح بخاری ، سنن النسائی)


    اب اگر کوئی اس حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے تو منکر حدیث ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے مسلمان ہونے پر بھی شک کیا جا سکتا ہے کیونکہ قرآن کی ایک آیت کا انکار بھی کفر ہے اور مسلمان کفر کر ہی نہیں سکتا۔۔۔ اختلافات کا پیدا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اختلافات کو بنیاد بنا کر تعن و تشنع کرنا یہ مسلمان کی شان کے خلاف ہے۔۔۔ مسلمان شان والا ہوتا ہے اور یہ مسلمان کی شان نہیں کے غیر اخلاقیت کا مظاہرہ کریے کیونکہ ہماری تعلیمات کا مرکز رب کا قرآن اور مدنی تاجدار صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جو ہمیں اچھے اور اعلٰی اخلاق کا درس دیتی ہیں۔۔۔

    محترمہ زاہرا صاحبہ!۔ جو دعٰوی آپ کر رہی ہیں چلیں میں اس سے اتفاق کر لیتا ہوں۔۔۔ لیکن ذکر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ جو آج بھی زندہ ہے کیا وہ طریقہ شریعت میں کہیں وارد ہے۔۔۔ کہ محرم اسلامی ماہ اور عقیدت کے اعتبار سے مسلمانوں کی صدی ہجری کا نیا سال ہوتا ہے اس کے ابتدائی حصے میں ماتم کرنا، چھاتیاں پیٹنا، دلدل نکالنا، نوحے پڑھنا، اگر اس کو آپ اللہ تعالٰی کا واضع اشارہ سمجھتی ہیں تو معافی چاہوں گا میرا مشورہ ہے کہ آپ اپنے لکھے ہوئے الفاظوں پر رجوع کریں۔۔۔ وجہ صرف یہ ہے کہ جب ایمان جاتا ہے تو کوئی بم نہیں پھوٹتا بلکہ ایک کلمہ کفر ہی کافی ہے۔۔۔ کیا اللہ وحدہ لاشریک (مشکل کشا) مظلومانہ شہادت حسین رضی اللہ عنہ کو زندہ رکھنے کا یہ غیر شرعی طریق ہی ملا تھا۔۔۔ کیا یہ درست نہیں کہ یاد سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو ایک مخصوص فرقہ نے ایک مخصوص غیر شرعی طریقے سے ایک مخصوص مہنے میں جو مسلمانوں کی صدی ہجری کا نیا سال ہے ایک مخصوص انداز میں اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہوا ہے کیا یہ اسلامی تعلیمات ہیں؟؟؟۔۔۔ اور پھر اُس پر شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے یہ بھی تحریر کر دیا کے ہر کسی کو اپنے اپنے طریقے سے اس کو منانا چاہئے۔۔۔ کیا یہ کوئی دینی فریضہ ہے؟؟؟۔۔۔ جس پر شیخ الاسلام نے یہ فتوٰی جاری کیا۔۔۔ حیرت ہے۔۔۔!

    محترمہ زاہرا صاحبہ!۔ سانحہ مظلومانہ شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے تعلق سے میں نے تین سوال کئے تھے جس کے جواب تو نہیں ملے بلکے میرے خلاف ایک محاذ کھول دیا گیا ہے جو کہ اس بات کا واضع ثبوت ہے کہ حقیقت وہ نہیں جس کو اس لڑی میں پیرو کے پیش کیا جا رہا ہے۔۔۔ مجھے اُمید ہے کہ جو ساتھی یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ یہ معرکہ حق و باطل کا معرکہ تھا تو وہ اس کو ثابت کریں ورنہ اس کو کوفیوں کی سازش کا شاخسانہ سمجھ کر یزید کو اس معاملے میں پھنسا کر بدنام کرنے کی جو مجوسی سازش ہے اُس کو ناکام بنائیں اور اس مزید اس پر زبان کھولنے یا لکھنے کی بجائے سچ اور حق کا جاننے کی کوشش کریں تاکہ جو حقیقت ہے وہ آشکار ہو نہ کہ کسی کی بھی کہی ہوئی بات کو ہم سُن کر اُس پر عمل کرنے لگیں یہ صرحتا قرآن و سنت کے منافی عمل ہے۔۔۔ کیونکہ اللہ وحدہ لاشریک نے فرمایا ہے کہ اگر تم اپنے قول میں سچے ہو تو دلیل پیش کرو۔۔۔

    محترمہ زاہرا صاحبہ!۔ اگر عامۃ المسلمین کو علم نہیں اور وہ مستفید ہونا چاہتے ہیں تو کیا یہ شرط ہے کہ عامۃ المسلمین شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کی کہی ہوئی بات پر عمل کر کے مستفید ہوں؟؟؟۔۔۔رہی بات چاند پر تھوکنے کی تو معزرت کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ ہر ذی شعور انسان اس بات سے واقف ہے چاند پر بھی داغ ہیں اس لئے چاند پر تھوکنا یہ سوچ ہی ایک جاہلانہ اقدام ہے۔۔۔

    اُمید ہے کہ آپ بات کو بخوبی سمجھ سکتی ہیں۔۔۔

    وسلام۔۔۔
     
  23. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    منافق کی نشانی

    منافق کی نشانی

    حدیث میں آتا ہے :

    5. عن زر قال قال علي والذي فلق الحبة و برالنسمة انه لعهد النبي صلي الله عليه وآله وسلم الي ان لا يحبني الا مومن ولا يبغضني الا منافق

    (صحيح مسلم، 1 : 60)


    حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ چیرا اور جس نے جانداروں کو پیدا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ مجھ سے صرف مومن ہی محبت کرے گا اور صرف منافق مجھ سے بغض رکھے گا۔

    حضرت علی شیر خدا نے فرمایا کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ علی! مجھے اس رب کی قسم ہے جس نے مخلوق کو پیدا کیا کہ سوائے مومن کے تجھ سے کوئی محبت نہیں کر سکتا اور سوائے منافق کے کوئی تجھ سے بغض نہیں رکھ سکتا۔

    6۔ ام المومنين حضرت سلمہ رضي اللہ عنہا فرماتي ہيں کہ :

    کان رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم يقول لا يحب عليا منافق ولا يبغضه مومن

    (جامع الترمذي، 2 : 213)


    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ کوئی منافق علی رضی اللہ عنہ سے محبت نہیں کر سکتا اور کوئی مومن علی رضی اللہ عنہ سے بغض نہیں رکھ سکتا۔

    ہم نے ان فرامین رسول کو بھلا دیا ہے، ہم نے خود کو شیعہ سنی کے خانوں میں تقسیم کر رکھا ہے، ہم اپنے آنگنوں میں نفرت کی دیواریں تعمیر کر رہے ہیں حالانکہ شیعہ سنی جنگ کا کوئی جواز ہی نہیں۔ علمی اختلافات کو علمی دائرے میں ہی رہنا چاہئے، انہیں نفرت کی بنیاد نہیں بننا چاہئے، مسجدیں اور امام بارگاہیں مقتلوں میں تبدیل ہو رہی ہیں مسلک کے نام پر قتل و غارتگری کا بازار گرم ہے، بھائی بھائی کا خون بہا رہا ہے اب نفرت اور کدورت کی دیواروں کو گر جانا چاہئے، ہر طرف اخوت اور محبت کے چراغ جلنے چاہئیں، حقیقت ایمان کو سمجھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہ کی زبانی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے بڑھ کر بڑی شہادت اور کیا ہوتی۔ چنانچہ حق و باطل کے درمیان یہی کیفیت صحابہ کرام کا معیار تھی۔

    یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ جتنی احادیث روایت کی گئی ہیں پاکی جائیں گی سب صحاح ستہ اور اہل سنت کی دیگر کتب احادیث سے لی گئی ہیں یہ اس لئے تاکہ معلوم ہوکہ شیعہ اور سنی بھائیوں کے درمیان اختلافات کی جو خلیج حائل کر دی گئی ہے وہ سراسر بے بنیاد ہے فکری مغالطوں اور غلط فہمیوں کے سوا ان میں کچھ بھی نہیں۔ حدیث پاک میں آتا ہے :

    7. عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه قال ان کنا لنعرف المنافقين نحن معشر الانصار ببغضهم علي ابن طالب

    (جامع الترمذي، 2، 213)


    حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ انصار میں سے ہیں۔ ہم منافقوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بغض و عداوت کی وجہ سے پہچانتے ہیں۔

    فرمایا کہ اپنے دور میں ہمیں اگر کسی منافق کی پہچان کرنی ہوتی تو یہ پہچان حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بغض سے کر لیتے جس کے دل میں حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کا بغض ہوتا صحابہ رضی اللہ عنہ پہچان لیتے کہ وہ منافق ہے اس لئے کہ صحابہ رضی اللہ عنہ بھی جانتے تھے کہ ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلسلہ علی شیر خدا رضی اللہ عنہ سے چلے گا۔ اس مفہوم کی دیگر روایات مندرجہ ذیل کتب میں بھی منقول ہیں۔

    1. سنن نسائي، 8 : 116، کتاب الايمان، باب علامة الايمان
    2. سنن نسائي، 8 : 117، کتاب الايمان، باب علامة المنافق
    3. سنن ابن ماجه، 1 : 42، المقدمه، فضل علي رضي الله عنه بن ابي طالب رضي الله عنه، ح : 131
    4. مسند احمد بن حنبل، 1 : 84، 95، 128
    5. مسند ابي يعلي، 1 : 251، ح : 291
    6. مسند الحميدي، 1 : 31، ح : 58
    7. المعجم الاوسط لطبراني، 3 : 89، ح : 2177
    8. مسند ابي يعلي، 3 : 179، ح : 1602
    9. مجمع الزوائد، 9 : 132
    10. مسند احمد بن حنبل، 6 : 292


    مآخوذ از کتاب "ذبح عظیم (ذبح اسماعیل (ع) سے ذبح حسین (رض) تک)"
    شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی
     
  24. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    Re: منافق کی نشانی ؟؟

    بےشک !!
    ہم اور ہر مومن حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دوست ہے اور وہ آپ (رض) سے اتنی ہی محبت کرتا ہے جتنا کہ رسول اللہ (ص) کی ہدایت ہے ۔
    جیسا کہ آپ نے فرمایا :
    بےشک ، علی (رض) مجھ سے ہیں اور مَیں اُن (رض) سے ہوں اور میرے بعد وہ ہر مومن کے ولی (دوست) ہیں ۔
    ترمذی ، كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، باب : مناقب علي بن ابي طالب رضى الله عنه ، حدیث : 4077

    لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    افسوس تو یہی ہے کہ ۔۔۔ لوگ اپنی پسند اور اپنی مرضی کی احادیث کی اتباع کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔
    جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
    اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ
    ( البقرہ : 208 ، ترجمہ : ڈاکٹر طاہر قادری )

    اور فرمایا رب نے :
    پھر اگر وہ آپ کا ارشاد قبول نہ کریں تو آپ جان لیں (کہ ان کے لئے کوئی حجت باقی نہیں رہی) وہ محض اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں، اور اس شخص سے زیادہ گمراہ کون ہوسکتا ہے جو اللہ کی جانب سے ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کی پیروی کرے۔
    ( القصص : 50 ، ترجمہ : ڈاکٹر طاہر قادری )

    خود سوچ لیں کہ کون منافق ہے ؟؟

    اپنی خواہشات و مرضی پر چلنے والا
    یا
    قرآن و حدیث کے ایک ایک لفظ پر عمل کرنے والا ؟؟
     
  25. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    کیا اللہ اور اسکا رسول(ص) کسی پر ل

    حضور نبی اکرم (ص) کی حدیث مبارک سر آنکھوں پر۔۔۔ لیکن

    آئیے قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کو کچھ اس نقطہء نظر سے بھی ملاحظہ کریں۔۔۔

    قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے

    أُوْلَـئِكَ جَزَآؤُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللّهِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَO (آل عمران 3: 87)

    ایسے لوگوں کی سزا یہ ہے کہ اللہ کی اور فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت پڑتی رہے۔

    (واضح رہے کہ یہ آیت کافروں کے بارے میں نہیں ظالموں کے بارے میں ہے)

    پھر فرمایا
    وَأُتْبِعُواْ فِي هَـذِهِ الدُّنْيَا لَعْنَةً وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ ۔۔۔ (الی آخر الایہ) (ھود 11: 60)

    اور اس دنیا میں (بھی) ان کے پیچھے لعنت لگا دی گئی اور قیامت کے دن (بھی)۔

    پھر فرمایا
    وَالَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَآ أَمَرَ اللّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُوْلَئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِO (الرعد 13: 25)

    اور جو لوگ اللہ کا عہد اسکے مضبوط کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور ان تمام (رشتوں اور حقوق) قطع کر دیتے ہیں جن کے جوڑے رکھنے کا اللہ نے حکم فرمایا ہے اور زمین میں فساد انگیزی کرتے ہیں انہی لوگوں کے لیے لعنت ہے اور ان کے لیے برا گھر ہے۔
    پھر فرمایا

    فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَO (آل عمران 3: 61)

    پس آپ کے پاس علم آجانے کے بعد جو شخص عیسٰی (علیہ السلام) کے معاملے میں آپ سے جھگڑا کرے تو آپ فرما دیں کہ آجاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں، پھر ہم مباہلہ (یعنی گڑگڑا کر دعا) کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اﷲ کی لعنت بھیجتے ہیں۔

    اب ذرا احادیثِ مبارکہ پر بھی غور فرمائیں
    (واضح رہے کہ ہم صرف “لعنت“ کرنے کے عمل کا جائزہ لے رہے ہیں)

    عن بن عمر (رض) قال: قال رسول اللہ (ص) اِذا رائیتم الذین یَسبّون اصحابی فقولو: لعنۃ اللہ عَلیَ شَرِّ کُم (الترمذی، کتاب المناقب 697:5۔۔الحدیث رقم 3866)

    حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا : جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برابھلا کہتے ہیں تو تم کہو: تمہارے شر پر اللہ کی لعنت ہو“

    عن ابنِ عباس (رض) قال: قال رسول اللہ (ص) مَن سَبّ اصحابی فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین (الطبرانی فی المعجم الکبیر 142:12۔۔ الحدیث رقم 12709)

    حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم (ص) نے فرمایا :“ جس نے میرے صحابہ کو گالی دی تو اس پر خدا کی، تمام فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہو“

    اب فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا جائے۔
     
  26. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    سبحان اللہ ! یہی پیمانہ آج بھی قابلِ عمل ہے۔ اور یہاں اس لڑی میں بخوبی ظاہر ہو رہا ہے۔
    اللہ تعالی ہر مسلمان کو اپنے محبوب :saw: آپکی اہلیبت اطہار (علیھم السلام) اور آپکے عظیم صحابہ کرام (رضوان اللہ علھیم) کی سچی محبت عطا فرمائے۔ آمین

    منافقوں کو اپنے ہی بغض و عداوت ہی میں جلتے رہنے کے لیے چھوڑ دیا جائے
     
  27. نادیہ خان
    آف لائن

    نادیہ خان ممبر

    شمولیت:
    ‏26 جون 2006
    پیغامات:
    827
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    باذوق نے لکھا ہے
    جبکہ کارتوس خان لکھتے ہیں
    کیا یہ واضع ثبوت نہیں ان کی کھلی منافقت کا؟خود تو جس کو چاہیں امام کہہ دیں بس حضرتِ امام حسین :rda: کو امام نہ کہیں واہ یہ بغض اہل بیت نہیں تو اور کیا ہے؟

    باذوق نے لکھا ہے
    یعنی یزید کو رحمہ اللہ لکھنا تو ان کے ایمان کا حصہ ٹھرا لیکن نواسہِ رسول کے لئے بس حضرت حسین لکھ دینا ہی کافی ہے اہل بیت کا بغض اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا؟

    خدا کا خوف کریں اپنے باطل نظریات کو قران وحدیث میں لپیٹ کر سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ نہ کریں
    آپ کے شہد کے روپ میں زہر دے رہے ہو۔
    اللہ ہم سب کو دین کی صیح روح کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ( آمین )
     
  28. نادیہ خان
    آف لائن

    نادیہ خان ممبر

    شمولیت:
    ‏26 جون 2006
    پیغامات:
    827
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    عقرب نے لکھا ہے
    اے میرے اللہ! میرا حشر اپنے محبوب:saw: کے نواسے :rda: کے ساتھ فرمانا
    اور ان منافقوں کو ہدایت فرما کہ اپنا حشر یزید کے ساتھ کروانے سے باز رہ سکیں یہ میرے ناسمجھ بھائی ہیں ۔ ان کو عقل ، فہم اور وہ شعور عطا فرما کہ جہنم سے بچ جائیں ( آمین ثم آمین )
     
  29. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم السَّاعَةِ فَقَالَ : مَتَی السَّاعَةُ؟ قَالَ : وَ مَاذَا أعْدَدْتَ لَهَا؟ قَالَ : لَا شَيْئَ إِلَّا أنِّي أحِبُّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : أنْتَ مَعَ مَنْ أحْبَبْتَ. قَالَ أنَسٌ : فَمَا فَرِحْنَا بِشَيْئٍ فَرِحْنَا بِقَوْلِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : أنْتَ مَعَ مَنْ أحْبَبْتَ
    ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی صحابی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! تم نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟ وہ صحابی عرض گزار ہوا! میرے پاس تو کوئی عمل نہیں سوائے اس کے کہ میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں۔ فرمایا : تمہیں آخرت میں اسی کی معیت اور سنگت نصیب ہو گی جس سے تم محبت کرتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں کسی خبر نے اتنا خوش نہیں کیا جتنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان نے کیا کہ ’’تم اسی کے ساتھ ہوگے جس سے محبت کرتے ہو‘‘۔

    الحديث رقم 16 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1349، الحديث رقم : 3485، و مسلم في الصحيح، کتاب البر و الصلة و الأدب، باب المرء مع من أحب، 4 / 2032، الحديث رقم : 2639، و أحمد بن حنبل فی المسند، 3 / 227، الحديث رقم : 13395، و أبو يعلیٰ فی المسند، 6 / 180، الحديث رقم : 3465، و عبد بن حميد في المسند، 1 / 397، الحديث رقم : 1339، و المنذری في الترغيب و الترهيب، 4 / 14، 15، الحديث رقم : 4594.
     
  30. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    نادیہ جی لکھتی ہیں
    باذوق اور کارتوس صاحبان !
    میں آپ کے شروع کے چند پیغامات پڑھ کر آپ کی علمیت سے قدرے متاثر ہو چلا تھا لیکن جو اہم نکات محترمہ نادیہ صاحبہ نے آپ ہی کی تحریروں سے نکالے ہیں اس سے یہ بات اظہر من الشمس لگتی ہے کہ قرآن و حدیث کی چند آیات کے پردے میں آپ یزید کے نہ صرف عقیدت مند ہیں بلکہ اس کی محبت بھی رکھتے ہیں اور اسکے اعلی درجے کے پیروکار ہیں ۔
    حدیث نبوی (ص) کی روشنی میں “انسان کا حشر اسی سے ہوگا جس سے وہ محبت رکھتا ہو گا“
    اتنی بات یقینی نظر آرہی ہے کہ آپ کی محبت اور عقیدت بالیزید کی بنا پر انشاءاللہ آپ کا حشر امام حسین (رض) کی بجائے یزید کے ساتھ ہی ہوگا۔

    اور مجھ جیسا ایک ادنیٰ مسلمان بھی بخوبی سمجھتا ہے کل روز قیامت اللہ تعالی نواسہء رسول (ص) کو کیا مقام عطا فرمائے گا ۔ جسے خود اللہ کے رسول (ص) نے جنت کے جوانوں کا سردار فرما دیا ہے۔
    اور آپ کے امام یزید کا حشر بھی جو آج تک دنیا میں ہو چکا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے اور قیامت کے دن تو اس سے بھی برا ہو گا ۔

    اب بات برا بھلا کہنے سے بڑھ کر محبت اور عقیدت تک پہنچ گئی ہے۔ میں منتظمین سے مطالبہ کروں گا کہ کوئی اور نہیں بلکہ کارتوس اور باذوق لوگوں کے دین و ایمان کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں۔ اس لیے براہِ کرم انصاف کیا جائے۔
     
موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اس صفحے کو مشتہر کریں