1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پیغام شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از پیاجی, ‏13 جنوری 2007۔

موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
  1. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    پیغام شہادت امام حسین رضی اللہ عن

    پیغام شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ

    شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے بعد کائنات انسانی کو دو کردار مل گئے۔ یزیدیت جو بدبختی ظلم، استحصال، جبر، تفرقہ پروری، قتل و غارت گری اور خون آشامی کا استعارہ بن گئی اور حسینیت جو عدل، امن، وفا اور تحفظ دین مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علامت ٹھہری، قیامت تک حسین بھی زندہ رہے گا اور حسینیت کے پرچم بھی قیامت تک لہراتے رہیں گے، یزید قیامت تک کے لئے مردہ ہے اور یزیدیت بھی قیامت تک کے لئے مردہ ہے، حسین رضی اللہ عنہ کی روح ریگ کربلا سے پھر پکار رہی ہے۔ آج سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی روح اجڑے ہوئے خیموں سے ہمیں صدا دے رہی ہے۔ آج علی ا کبر اور علی اصغر کے خون کا ایک ایک قطرہ دریائے فرات کا شہدائے کربلا کے خون سے رنگین ہونے والا کنارہ ہمیں آواز دے رہا ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے والو! حسینیت کے کردار کو اپنے قول و عمل میں زندہ کرو۔ یزیدیت کو پہچانو، یزیدیت تمہیں توڑنے اور تمہارے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لئے سرگرم عمل ہے، حسینیت تمہیں جوڑنے کے لئے ہے۔ حسینیت اخوت، محبت اور وفا کی علمبردار ہے، یزیدیت اسلام کی قدریں مٹانے کا نام ہے۔ حسینیت اسلام کی دیواروں کو پھر سے اٹھانے کا نام ہے، یزیدیت قوم کا خزانہ لوٹنے کا نام ہے، حسینیت قوم کی امانت کو بچانے کا نام ہے۔ یزیدیت جہالت کا اور حسینیت علم کا نام ہے۔ یزید ظلم کا اور حسین امن کا نام ہے۔ یزید اندھیرے کی علامت ہے اور حسین روشنی کا استعارہ ہے۔ یزیدیت پستی اور ذلت کا نام ہے جبکہ حسینیت انسانیت کی نفع بخشی کا نام ہے۔

    اس دنیائے فانی میں اپنے مکرو فریب اور جبروتشدد سے حاصل کی ہوئی قوت کے بل بوتے پر کسی کا بظاہر کامیاب نظر آنا اور اقتدار حاصل کرلینا، اصل کامیابی نہیں۔ بلکہ حقیقی اوردائمی کامیابی یہ ہے کہ انسان کو تخت ملے یا تختہ وہ دنیاوی جاہ وحشمت کے لئے اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کا دامن نہ چھوڑے۔ قرآن حکیم میں ہے کہ مَتَاعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِهَادُO (آل عمران، 3 : 197) ’’(ان کے) یہ (دنیاوی) فائدے تھوڑے ہی دنوں کے لئے پھر (آخر کار) ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے،،۔ بتایا جارہا ہے کہ ظالم و فاسق لوگوں کا کچھ وقت کے لئے اقتدار کے نشے میں بدمست ہونا تمہیں ان کی کامیابی کا مغالطہ نہ دے کیونکہ ان کے یہ دنیاوی فوائد تو چند روزہ ہیں پھر جب اللہ تعالیٰ گرفت فرمائیں گے تو یہ سب مال و متاع اور جاہ و حشمت دھری کی دھری رہ جائے گی اور یہ لوگ دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دیئے جائیں گے۔ مزید برآں آخرت کے ساتھ ان کی دنیا بھی جہنم زار بنادی جائے گی۔ بے شمار لوگ ایسے ہوئے کہ جو کرسی اقتدار پر بیٹھ کر تکبر کرتے رہے اور اپنے زعم باطل میں خدا بن بیٹھے مگر ان کا انجام یہ ہوا کہ وہ نہ صرف اس جھوٹی خدائی کے تخت سے ہٹا دیئے گئے بلکہ انہیں اسی دنیا میں نشان عبرت بنا کر نیست و نابود کردیا گیا۔ کسی شاعر نے ایسے ہی نشہ اقتدار میں بدمست حکمران کے لئے کیا خوب کہا ہے۔

    تم سے پہلے بھی کوئی شخص یہاں تخت نشیں تھا
    اس کو بھی خدا ہونے کا اتنا ہی یقیں تھا​

    جو شخص اللہ کے دین سے بغاوت کرتا ہے، قوت ربانی کو کچلنے کی کوشش کرتا ہے چند دنوں کے لئے اسے ڈھیل دی جاتی ہے تاکہ وہ ظلم میں اپنی انتہاء اور بدبختی میں اپنی آخری حد کو پہنچ جائے۔ جب اس کا ظلم اپنے انجام کو پہنچتا ہے اللہ تعالیٰ کا عذاب اور گرفت آتی ہے، اسے نیست و نابود کر دیا جاتا ہے اور آنے والی نسلوں میں اس کا نام تک لینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ یزید کہ جس نے دنیا کی چند روزہ حکومت اور اقتدار کی خاطر اپنے ایمان کا سودا کرتے ہوئے خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ظلم کی انتہاء کردی اور کربلا کے تپتے ہوئے ریگزار میں بھوک اور پیاس سے نڈھال اہل بیت نبوت اور ان کے انصار میں سے ستر افراد کو شہید کیا تھا اسی یزید پر وہ وقت بھی آیا کہ لوگ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور ستر افراد کے بدلے میں تقریباً ایک لاکھ ستر ہزار یزیدیوں کو قتل کیا گیا۔ یزید کہ جس نے مدینہ طیبہ میں گھوڑوں اور اونٹوں کا لشکر بھیجا تھا، تین دن تک مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لشکر کے گھوڑوں کو باندھا گیا اور تین دن تک مسجد میں نمازیں اور جماعتیں معطل رہیں اس پر وہ وقت بھی آیا کہ اس کی قبر پر اونٹ اور گھوڑے باندھے گئے جہاں وہ گندگی پھیلاتے تھے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کا خانوادہ خود تو شہید ہوگئے مگر اسلام کو زندگی عطا کرگئے، خود تو دنیا سے رخصت ہوگئے مگر امت کو جینا سکھاگئے۔

    پیغام شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ

    شہادت حسین رضی اللہ عنہ ہمیں دو طرح کا پیغام دیتی ہے۔

    عملی جدوجہد کا پیغام

    شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کا پہلا پیغام عملی جدوجہد کا پیغام ہے۔ محبت حسین رضی اللہ عنہ، تعلق حسین رضی اللہ عنہ اور نسبت حسین رضی اللہ عنہ کو رسمی نہ رہنے دیا جائے بلکہ اسے عمل، حال اور حقیقت میں بدل دیا جائے، اسے حقیقی زندگی کے طور پر اپنایا جائے یہی نسبت اور تعلق ہمارا اوڑھنا بچھونا ہو۔ اس نسبت اور تعلق کو حقیقی زندگی بنانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ پہچان لیا جائے کہ یزیدی کردار کیا ہے اور حسینی کردار کیا ہے؟ یزید نے اسلام کا کھلا انکار نہیں کیا تھا اور نہ ہی بتوں کی پوجا کی تھی۔ مسجدیں بھی مسمار نہیں کی تھیں۔ وہ اسلام کا نام لیتا تھا، بیعت بھی اسلام پر لیتا تھا، وہ یہ بھی کہتا تھا کہ میں نماز پڑھتا ہوں، اسلام کا کھلا انکار تو ابولہبی ہے، یزیدیت یہ ہے کہ اسلام کا نام بھی لیا جائے اور اسلام سے دھوکہ بھی کیا جائے، اسلام کا نام لیا جائے اور امانت میں خیانت بھی کی جائے، نام اسلام کا لیا جائے اور آمریت مسلط کی جائے، اپنے سے اختلاف کرنے والوں کو کچلا جائے اور اسلام کے مقدس نام کو پامال کیا جائے۔ یزیدیت، اسلام سے منافقت اور دجل و فریب کا نام ہے۔ اسلامی نظام کے ساتھ دھوکہ کرنے، امانتوں میں خیانت کرنے، بیت المال میں خیانت کرنے اور قومی ذرائع اور دولت کو اپنے تعیشات پر خرچ کرنے کا نام یزیدیت ہے۔ روح حسین رضی اللہ عنہ آج ہم سے پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ میری محبت کا دم بھرنے والو! میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میری محبت رسمی ہی ہے یا میری محبت میں آج تم پھر کوئی معرکہ کربلا برپا کرتے ہو۔ میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میری محبت میں آج تم پھر وقت کے یزیدوں کو للکارتے ہو یا نہیں۔ روح حسین رضی اللہ عنہ آج پھر دریائے فرات کو رنگین دیکھنا چاہتی ہے، آج پھر ایک نیا معرکہ کربلا برپا ہوتا دیکھنا چاہتی ہے اور تمہارے صبرو استقامت کا امتحان لینا چاہتی ہے۔ روح حسین رضی اللہ عنہ دیکھنا چاہتی ہے کہ کون اسلام کا جھنڈا سر بلند کرتے ہوئے تن من دھن کی بازی لگاتا ہے، کون ہے جو مجھ سے حقیقی پیار کرتا ہے۔ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کا سبق یہ ہے کہ دیکھو! کیا تمہارے دور کے حکمران اسلام کا نام لینے میں مخلص ہیں؟ کیا وہ اسلامی نظام کو نافذ کرنے اور بپا کرنے میں مخلص ہیں؟ کہیں وہ اسلام کی امانت میں خیانت تو نہیں کررہے یا اسلامی نظام کے نفاذ میں دھوکہ تو نہیں کررہے؟ اگر وہ اسلام کا نام بھی لیتے ہیں اور منافقت اور دجل و فریب بھی کرتے ہیں توجان لو کہ ان کا کردار یزیدیت کا کردار ہے۔ حسینیت کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں جہاں تمہیں یزیدیت کے کردار کا نام و نشان نظر آئے، حسینی لشکر کے غلام بن کر یزیدیت کے بتوں کو پاش پاش کردو۔ اس کے لئے خواہ تمہیں اپنا مال، اپنی جان اور اپنی اولادیں ہی کیوں نہ قربان کرنی پڑیں۔

    امن کا پیغام

    اہل ایمان کے لئے شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا دوسرا پیغام، امن کا پیغام ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ جب نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کا مہینہ آتا ہے تو پورے پاکستان اور امت مسلمہ کے لئے فسادات کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ گولیاں چلنے لگتی ہیں، کرفیو نافذ ہونے لگتا ہے، قتل و غارت گری ہوتی ہے، ایک دوسرے کے گلے کاٹے جاتے ہیں، جنگ اور فتنہ و فساد کا ایک عجیب ماحول بن جاتا ہے، غیر مسلموں کے لئے مسلم قوم وجہ استہزاء بن جاتی ہے، غیروں کے نزدیک مسلمان نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر متفق ہیں، نہ صحابہ اور اہل بیت پر، ان کا قرآن پر اتفاق ہے نہ اسلام پر، بلکہ یہ تو ایسی امت ہے جو امن پر بھی متفق نہیں ہے آخر کس منہ سے ہم عالم کفر کے سامنے اسلام کی بات کریں اور انہیں اسلام کی دعوت دیں۔

    نسبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔۔ ایمان کا مرکز ومحور

    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نسبت وتعلق ایمان کا مرکز و محور ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے۔

    مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا۔

    (الفتح، 48 : 29)

    ’’محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اﷲ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت اور سنگت میں ہیں (وہ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں۔ آپ انہیں کثرت سے رکوع کرتے ہوئے، سجود کرتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ (صرف) اﷲ کے فضل اور اس کی رضا کے طلب گار ہیں،،۔

    اس آیۃ کریمہ میں صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار کا تعارف کروایا جارہا ہے لیکن تعارف اور شناخت کروانے کے لئے ان کی صفات کو سرفہرست بیان نہ کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ان مقدس ہستیوں کی شناخت والذین معہ کہہ کر کروائی ہے کہ ان تمام کی شناخت اور پہچان یہ ہے کہ یہ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنگت اور صحبت والے ہیں۔ دوسرے لوگوں سے ان کی انفرادیت اور امتیاز یہ ہے کہ انہیں آپ کی رفاقت نصیب ہوئی ہے۔

    اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے محبت کا تعلق

    سورہ الفتح کی مذکورہ آیت مبارکہ میں والذین معہ کے الفاظ اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ اہل بیت پاک اور صحابہ کرام دونوں سے برابری کا تعلق رکھنا ضروری ہے جس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنگت اور نسبت والوں میں سے کسی ایک سے منہ پھیرلیا، خواہ وہ صحابہ کرام ہوں یا اہل بیت پاک، اس نے اپنا آدھا تعلق تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کاٹ لیا اور اپنے آدھے ایمان کو مفلوج کرلیا لہذا اگر کوئی چاہتا ہے کہ اس کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کامل تعلق قائم اور ایمان سلامت رہے تو پھر اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام دونوں کا ادب و احترام اور محبت و تعظیم اپنے اوپر لازم کرلے۔

    امت مسلمہ کی طبقاتی تقسیم

    بدقسمتی سے تاریخی حالات کچھ اس طرح کے ہوئے ہیں کہ امت مسلمہ مختلف طبقات میں تقسیم ہوتی چلی گئی ہے اگرچہ ایک جماعت ہر دور میں موجود رہی ہے جس نے اعتدال کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ تاہم ذیل میں ہم ان دو گروہوں کا ذکر کرتے ہیں جن میں سے ایک گروہ حُبِّ اہل بیت میں اتنا آگے بڑھ گیا کہ نوبت بغضِ صحابہ تک جا پہنچی جبکہ دوسرا گروہ حُبِّ صحابہ میں اتنا آگے بڑھ گیا کہ نوبت بغضِ اہل بیت تک جاپہنچی۔ بعض لوگوں نے اہل بیت اطہار کی طرف جھکاؤ کیا اور اس نسبت میں وہ اتنا آگے بڑھ گئے کہ صحابہ کرام کے طبقے کی اہمیت اور تعلق ان کی نظروں سے اوجھل ہونے لگا۔ آہستہ آہستہ یک طرفہ تعلق میں وہ اتنا آگے بڑھے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے کٹ گئے، جب تعلق کٹ گیا تو صحابہ کرام کی نسبت اعتقاد، سوچ اور فکر میں وہ ادب و احترام اور محبت نہ رہی جو کہ ضروری تھی گویا انہوں نے ایمان کے ایک حصے کو قبول کیا اور دوسرے کو ترک کردیا۔ یہ کیفیت سیدنا حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کی حیات مبارکہ کے آخری دور میں اس وقت کے معروضی حالاتِ سیاست، بنو امیہ کے اس وقت کے حکمرانوں اور بطور خاص یزیدیوں کے معرکہ کربلا میں اہل بیت اطہار کے ساتھ ظالمانہ، فاسقانہ سلوک اور بربریت و درندگی نے پیدا کی۔

    جب اس گروہ کی توجہ صرف اہل بیت اطہار پر اور آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رہی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق کی دوسری جہت یعنی صحابہ کرام کو اس گروہ نے نظر انداز کردیا تو رفتہ رفتہ نہ صرف صحابہ کرام سے تعلق ٹوٹا بلکہ ذہن بھی بالعموم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے خلاف ہوگئے۔ ان کا مقام و مرتبہ ذہنوں سے اتر گیا اور ان کے فضائل و کمالات اور ایمان میں درجات ذہنوں سے محو ہوگئے۔ اس کے رد عمل میں کچھ لوگوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ذکر کو اسی طرح اجاگر کیا جس طرح ایک گروہ نے اہل بیت اطہار رضی اللہ عنھم کے طبقے کو اجاگر کیا تھا۔ انہوں نے اپنی توجہ صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ذکر پر مرکوز رکھی اور رد عمل کے طور پر اپنا قلبی، جذباتی اور ذہنی تعلق اہل بیت اطہار سے کاٹ لیا اور صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا ذکر کرتے کرتے اور اہل بیت کا ذکر چھوڑتے چھوڑتے نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ جس طرح پہلا گروہ صرف اہل بیت رضی اللہ عنھم کو ایمان کا حصہ تصور کرتا ہے اور خود کو نہ صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے کاٹ چکا ہے بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے مقام و مرتبہ کو بھی داخل ایمان نہیں سمجھتا اسی طرح دوسرا گروہ صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے تعلق ہی کو ایمان گردانتا ہے اور اہل بیت پاک سے اپنا قلبی اور جذباتی تعلق ختم کرچکا ہے۔ اس بد نصیب امت کی حالت اب یہ ہے کہ اس میں دو گروہ اب واضح طور پر ایک دوسرے کی ضد بن چکے ہیں۔ ایک طبقے کو یہ تاثر دیا جارہا ہے اور کئی نسلوں سے ذہن یہ بنائے جارہے ہیں کہ سنی وہ ہے جو فقط صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی بات کرے۔ اگر کوئی حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ، حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ یا دیگر آئمہ اہل بیت کی بات کرتا ہے، واقعہ کربلا بیان کرتا ہے یا اہل بیت اطہار سے محبت اور ان کے فضائل کا ذکر کرتا ہے تو فوراً یہ ’’الزام،، دے دیا جاتا ہے کہ یہ تو شیعہ ہے، شیعہ نواز ہے یا شیعت کی طرف جھکاؤ ہے۔ اسی طرح دوسرے طبقے کا یہ ذہن بنادیا گیا ہے کہ اگر اہل بیت پاک کی بات ہو تو مومن اور مسلمان ہے، اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی بات ہو تو مسلمان ہی نہیں۔ اس طرح ایک طبقے نے صرف اہل بیت پاک کو اپنالیا اور ایک طبقے نے فقط صحابہ کرام کو۔ یوں اس امت کو ظالمانہ انداز سے دو دھڑوں میں تقسیم کردیا گیا۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت، غلامی اور تعلق کو اپنے گروہ کے ساتھ مختص قرار دے کر ایمان کے دو ٹکڑے کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ اہل بیت پاک رضی اللہ عنھم سے تعلق ایمان کا ایک حصہ تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے تعلق ایمان کا دوسرا حصہ تھا۔ دونوں گروہوں میں سے ہر ایک نے ایمان کے ایک حصے کو اپنالیا اور دوسرے کو چھوڑ دیا۔ دین اسلام پر اس سے بڑا اور کوئی ظلم نہیں ہوگا کہ اہل بیت اطہار کی محبت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی بے ادبی کی جائے۔ اسلام کے اندر اس چیز کی کوئی گنجائش نہیں، بے شک اہل بیت اطہار رضی اللہ عنھم کی محبت عین ایمان ہے۔ جس شخص کے دل میں اہل بیت پاک رضی اللہ عنھم کی محبت نہیں وہ مسلمان نہیں۔ وہ اسلام سے خارج اور جہنم کا ایندھن ہے۔ دل کے اہل بیت پاک رضی اللہ عنھم کی محبت سے خالی ہونے کا مطلب دل کا اسلام، ایمان، قرآن اور نسبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خالی ہونا ہے۔ جس طرح اہل بیت اطہار رضی اللہ عنھم کا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے ایمان میں یہ درجہ ہے اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے ایمان میں یہی درجہ ہے لہذا جو شخص صحابہ کرام بشمول خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم کی طرف سے کسی کی طرف کسی قسم کی ناپاکی منسوب کرتا ہے خواہ وہ اہل بیت پاک رضی اللہ عنھم کی محبت کے نام پر کرے یا کسی اور حوالے سے وہ شخص کبھی مسلمان نہیں ہوسکتا۔ وہ صحابہ کرام، خلفائے راشدین یا ازواج مطہرات کا ہی منکر نہیں وہ منکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

    اہل بیت کون ہیں؟

    بیت عربی زبان میں گھر کو کہتے ہیں۔ گھر تین قسم کا ہوتا ہے۔

    1۔ بیت نسب
    2۔ بیت مسکن یا بیت سکنٰی
    3۔ بیت ولادت۔

    اسی اعتبار سے گھر والوں کے بھی تین طبقے ہیں۔

    1۔ اہل بیت نسب
    2۔ اہل بیت سکنٰی
    3۔ اہل بیت ولادت

    ٭ اہل بیت نسب سے مراد انسان کے وہ رشتہ دار ہیں جو نسب میں آتے ہیں یعنی وہ رشتہ دار جو باپ اور دادا کی وجہ سے ہوتے ہیں مثلاً چچا، تایا، پھوپھی وغیرہ نسب کے رشتے ہیں۔

    ٭ اہل بیت مسکن سے مراد وہ رشتہ دار ہیں جو گھر کے اندر آباد ہوتے ہیں یعنی شوہر کی بیوی۔

    ٭اہل بیت ولادت سے مراد وہ نسل ہے جو گھر میں پید اہوئی ہے۔ اس میں بیٹے، بیٹیاں اور آگے ان کی اولاد شامل ہے۔ جب مطلق اہل بیت کا لفظ بولا جائے تو اس سے مراد مذکورہ تینوں طبقات ہوتے ہیں بشرطیکہ وہ اہل ایمان ہوں۔ ان میں سے کسی ایک طبقے کو خارج کردینے سے اہل بیت کا مفہوم پورا نہیں ہوتا۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

    إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًاO

    (الاحزاب، 33 : 33)

    ’’اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دےo،،

    یعنی اے میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت! اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے دامن، سیرت، کردار اور اعمال کے ظاہر وباطن کو ہر نجس اور ناپاکی سے اس طرح پاک فرما دے کہ تم طہارت اور پاکیزگی کا قابل تقلید نمونہ بن جاؤ اور قیامت تک طہارت اور پاکیزگی تم سے جنم لیتی رہے۔

    جب انسان متعصب ہوجاتا ہے تو پھر اسے اپنے مطلب کی چیز کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ جب دین تعصب کی نظر ہوجاتا ہے تو ہر کوئی اپنے مطلب کی بات نکالنے لگتا ہے۔ وہ دو طبقے جو حب صحابہ اور حب اہل بیت رضی اللہ عنھم کے نام پر افراط و تفریط کا شکار ہوئے ان میں سے ایک طبقے نے مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے اس میں سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات کو نکال دیا۔ گویا انہوں نے اہل بیت میں سے اہل بیت مسکن کو نکال دیا۔ جب اہل بیت میں سے بیویاں ہی نکل جائیں تو پھر اولاد کا گھر سے کیا تعلق رہا؟ بہر حال انہوں نے ازواج مطہرات کو نکال کر کہا کہ اہل بیت سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ شیر خدا، حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہ، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ہیں۔

    بے شک مذکورہ چاروں ہستیاں اہل بیت میں شامل ہیں اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں چادر تطہیر میں چھپایا اور ان کے اہل بیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کا انکار فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار ہے مگر سمجھانا یہ مقصود ہے کہ ایک طبقے نے کچھ اہل بیت مراد لئے اور باقی چھوڑ دیئے۔ اس کے رد عمل کے طور پر دوسرے طبقے نے کہا کہ اہل بیت سے مراد صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات ہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ، سیدہ دوعالم حضرت فاطمۃ الزہراء اور حسنین کریمین رضی اللہ عنھما اہل بیت میں شامل ہی نہیں۔ دونوں طبقوں نے قرآن پاک کو گویا سکول کا رجسٹر داخل خارج سمجھ لیا ہے کہ جسے چاہا داخل کردیا اور جسے چاہا خارج کردیا۔ من مانی تاویلیں کرکے امت کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور نہ صرف امت بلکہ نسبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی متنازعہ بنا دیا۔

    ارے نادانو! جو گھر والا ہے وہ تو ہر گھر والے کو پیارا ہے اور وہ ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے پھر جو بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبی تعلق والا ہے، آپ کے گھر میں ہے یا آپ کی نسل پاک میں سے ہے اور اہل ایمان ہے۔ اسے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اہل بیت اور ہر ایک کو پیارا ہونا چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبی تعلق ہونا، آپ کے گھر میں ہونا یا آپ کی اولاد پاک میں سے ہونا تو ایک طرف حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر صرف خدمت کرتے تھے اور سودا سلف لاکر دیتے تھے انہیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اہل بیت میں شامل فرمایا ہے حالانکہ نہ تو ان کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبی تعلق تھا نہ وہ اہل بیت مسکن میں سے تھے اور نہ ہی وہ آپ کی اولاد پاک میں سے تھے، بیت کی تینوں نسبتیں مفقود تھیں لہذا محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رحمت کے ہاتھ بڑھاتے ہوئے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو بھی اہل بیت میں شامل فرمالیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سلمان ہمارے اہل بیت میں سے ہے۔ (مستدرک امام حاکم 3 : 691 رقم 6539) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اپنے اہل بیت میں سے کسی ایک طبقے کو خارج نہیں کیا تو ہم کسی ایک طبقے کو خارج کرکے کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انصاف کررہے ہیں؟ یقیناً یہ انصاف نہیں بلکہ محض جہالت اور تعصب ہے۔

    قابل غور نکتہ

    یہ بات قابل غور ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جب بھی کوئی کام رد عمل کے طور پر شروع ہوگا اس میں اعتدال وتوازن نہیں ہوگا۔ اس میں افراط و تفریط اور انتہا پسندی ہوگی۔ وہ کام اعتدال اور میانہ روی کے اس تصور سے ہٹ کر ہوگا جس کا اسلام نے درس دیا ہے۔ اسلام کی اصل تعلیم اعتدال اور میانہ روی ہے۔ امت مسلمہ کو امت وسط بھی دراصل اسی لئے کہا جاتا ہے کہ باری تعالیٰ نے امت مصطفوی کو وہ وقار اور کردار عطا کیا ہے جو توسط و اعتدال پر مبنی ہے۔

    حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد

    راہ اعتدال کو چھوڑ کر افراط و تفریط کا راستہ اپنانے والوں کے لئے حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کا درج ذیل فرمان ایک تازیانے کی حیثیت رکھتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ تمہیں حضرت عیسٰی علیہ السلام سے ایک مشابہت ہے۔ ان سے یہود نے بغض کیا یہاں تک کہ ان کی والدہ ماجدہ پر زنا کی تہمت لگائی اور نصاریٰ ان کی محبت میں ایسے حد سے گزرے کہ ان کی خدائی کے معتقد ہوگئے۔ ہوشیار! میرے حق میں بھی دو گروہ ہلاک ہوں گے۔ ’’ایک زیادہ محبت کرنے والا جو مجھے میرے مرتبے سے بڑھائے گا اور حد سے تجاوز کرے گا۔ دوسرا بغض رکھنے والا جو عداوت میں مجھ پر بہتان باندھے گا،، (مسند احمد بن حنبل 2 : 167، رقم 1376) خود شیعہ مذہب کے نزدیک معتبر کتاب ’’نہج البلاغہ،، میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد گرامی ہے۔ ’’میرے معاملہ میں دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے۔ ایک محبت کرنے والا، حد سے بڑھانے والا۔ وہ محبت اس کو غیر حق ک
     
  2. حماد
    آف لائن

    حماد منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    402
    موصول پسندیدگیاں:
    95
    ملک کا جھنڈا:
    Re: پیغام شہادت امام حسین رضی اللہ

    افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہماری حکومتوں کو فرقہ واریت کے خاتمے میں مؤثر ٹھوس اس جیسے عملی اقدامات کی بجائے اذان اور خطبہ کے دوران الاؤڈ سپیکر پر پابندی ہی اس کا حل نظر آتی ہے۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔
     
  3. کارتوس خان
    آف لائن

    کارتوس خان ممبر

    شمولیت:
    ‏9 جنوری 2007
    پیغامات:
    24
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

    اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔

    اللہ وحدہ لاشریک کا فرمان ہے کہ!۔

    وَهَـٰذَا كِتَـٰبٌ أَنزَلۡنَـٰهُ مُبَارَكُُ فَٱتَّبِعُوهُ وَٱتَّقُواْ لَعَلَّكُمۡ تُرۡحَمُونَ﴿١٥٥﴾
    اور یہ مبارک کتاب ہم نے اُتاری ہے پش اس کی اتباع کرو، اور تقوٰی اختیار کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے (الانعام ١٥٥)۔۔۔

    اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ!۔
    [والقرآن جحۃ لک او لک] اور قرآن (اگر تو اس پر عمل کرے) تو تیری دلیل ہے۔۔۔ (اگر تو اس کے خلاف چلے تو) تیرے خلاف دلیل ہے (صحیح مسلم ٢٢٣)۔۔۔

    اب میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ!۔
    [ ہر کسی کو یاد حسین رضی اللہ عنہ اپنے اپنے طریقے سے منانے کی اجازت ہونی چاہئے]

    اب قرآن و سنت کی روشنی میں اپنےاپنے طریقے سے یاد منانے کی کوئی دلیل اگر ہے تو پیش کر دیں اور اگر نہیں ہے تو پھر اس آرٹیکل میں بہت سے ایسی باتیں ہیں جن پر مجھے اختلاف ہے لیکن میں کسی بحث میں نہیں پڑھنا چاہتا بس دلیل مانگ رہا ہوں ہر اس دعوٰی کی جو اس آرٹیکل میں پیش کیا گیا ہے۔۔۔

    ایک اور جگہ اللہ وحدہ لاشریک نے ارشاد فرمایا ہے کہ!
    لَّقَدۡ كَانَ لَكُمۡ فِی رَسُولِ ٱللَّهِ أُسۡوَةٌ حَسَنَةُُ
    تم کو پیغمبر اللہ کی پیروی (کرنی) بہتر ہے (الاحزاب۔21)۔


    مسلمان کا کوئی طریقہ اپنا نہیں ہوتا۔۔۔ اُس کا ہر طریقہ اللہ کے قرآن اور رسول صلی اللہ علیہ کے فرمان کا محتاج ہے یاد کسی کی بھی ہو لیکن اگر اس میں طریقہ اللہ کے قرآن یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے نہ لیا جائے تو وہ طریقہ اسلامی طریقہ نہیں ہوسکتا۔۔۔

    وسلام۔۔۔
     
  4. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    واقعہ کربلا ۔۔۔ حق و باطل کا معرک

    لا رَیب ... حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ، اللہ اور اس کے رسول ؐ کی معصیت اور نافرمانی ہے ۔
    اس سے وہ تمام لوگ آلودہ ہیں ، جنہوں نے آپ (رض) کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا یا قتل میں مدد کی یا قتل کو پسند کیا !!


    شہادتِ حسین (رض) اگرچہ امت کے لئے بہت بڑی مصیبت ہے لیکن ... آپ (رض) کے لئے یہی شہادت عزت اور اعلیٰ منزلت ہے ۔
    حضرت حسین (رض) کی طرفداری میں ایک گروہ (اہلِ تشیع) غلو کرتا ہے تو دوسری جانب دوسرا گروہ (ناصبی) اُن (رض) کی مخالفت میں غلو کے آخری درجہ تک جاتا ہے ۔
    صرف قرآن و سنت کی اتباع اور صحابہ کرام (رض) کی پیروی کرنے والے اعتدال کی راہ اختیار کرتے ہوئے ان دونوں میں سے کسی بھی گروہ کا ساتھ نہیں دیتے۔ بلکہ یہ کہتے ہیں کہ :
    حضرت حسین (رض) مظلوم شہید ہوئے اور اُن (رض) کے قاتل ظالم و سرکش تھے ۔

    حضرت حسین (رض) اہل بیت میں سے ہیں ۔ لیکن ...
    حضرت علی رضی اللہ عنہ (آنحضرت ؐ کے چچا زاد بھائی ) اور حضرت حمزہ (رض) (آنحضرت ؐ کے حقیقی چچا ) کا بھی اہل بیت میں شمار ہوتا ہے ۔
    اسلام میں اگر کسی کی وفات کا دن بطور یومِ سوگ یا بطور یادگار دن ... منانے کا حکم ہوتا تو ...
    ٭ کیا خلیفہ ء چہارم ، دامادِ رسول ؐ ، حضرت علی (رض) کی شہادت کچھ کم غم انگیز تھی ؟ (جسکے بعد خلافتِ راشدہ کا نظام ہی دگرگوں ہو گیا)
    ٭ کیا زبانِ رسالت سے ''سید الشہداء'' کا لقب پانے والے ، رسول اللہ ؐ کے حقیقی چچا حضرت حمزہ (رض) کی شہادت کم درد انگیز تھی ؟
    ٭ کیا خلیفہ ء سوم ، دامادِ رسول ؐ ، ذوالنورین حضرت عثمان (رض) کی شہادت کا واقعہ کچھ کم المناک واقعہ تھا ؟
    ٭ کیا خلیفہ ء دوم ، حضرت عمر فاروق (رض) کی شہادت اسلامی تاریخ کے لئے بالکل معمولی بات تھی ؟
    ٭ کیا اسلام میں سب سے پہلے شہادت پانے والی خاتون حضرت سمیہ (رض) کا واقعہ کچھ کم دردناک تھا ؟
    ٭٭ اور ان سب سے بھی بڑھ کر ...
    متعدد انبیاء اکرام علیہم السلام ، ظالموں کے ہاتھوں شہید ہو چکے تھے ...
    .... تو پھر اِن تمام کے نام پر بھی ... یومِ سوگ یا یومِ ماتم یا یومِ وفات کی یادگار ... قدیم ترین زمانوں سے یا کم از کم نبی کریم ؐ کے عہدِ مبارک سے ہی جاری ہونا چاہئے تھی ... کیونکہ ان تمام کا قتل ، حضرت حسین (رض) کے قتل سے زیادہ بڑا گناہ اور امت کے لئے زیادہ بڑی مصیبت تھا !!

    لیکن ...

    یہ بالکل درست ہے کہ ...
    سیدنا حضرت حسین (رض) کی شہادت عظیم ترین گناہوں میں سے ایک گناہ تھا ۔
    جنہوں نے یہ فعل کیا ، جنہوں نے اس میں مدد کی ، جو اس سے خوش ہوئے ... وہ سب کے سب اُس عتابِ الٰہی کے سزاوار ہیں جو ایسے لوگوں کے لئے شریعت میں وارد ہے !

    یہ حوادث کتنے ہی دردناک ہوں ، ہر حال میں ان پر صبر کرنا اور ( اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ ) کہنا چاہئے کیونکہ اس سے اللہ خوش ہوتا ہے ۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
    ان صبر گزاروں کو خوش خبری دے دیجئے ، جب انھیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو ان کی زبان پر ( اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ ) جاری ہو جاتا ہے... ( سورۃ البقرہ : ١٥٥ ـ ١٥٦)
    اور ہمارے مکرم ، ہمارے ہادی ، ہمارے شفیع رسول اللہ ؐ کا ارشادِ مبارک ہے :
    وہ شخص ہم میں سے نہیں ، جس نے رخسار پیٹے ، گریبان چاک کیے اور زمانہ ئ جاہلیت کے سے بین کئے ۔
    (صحیح بخاری ، کتاب الجنائز ، باب لیس منا من ضرب الخدود ح : ١٢٩٧)


    سانحہ ء کربلااور شہادتِ حسین (رض) کو بالعموم اس طرح بیان کیا جاتا ہے جیسے یہ تاریخِ اسلام میں 'حق و باطل ' کا سب سے بڑا معرکہ تھا ۔جب کہ یہاں سوچا جانا چاہئے کہ وہ '' خیر القرون '' کا دور تھا ، (جس کے بارے میں آنحضرت ؐ نے فرمایا تھا کہ اسلام کا بہترین زمانہ ہے )جب صحابہ کرام (رض) کی بھی معتدبہ جماعت موجود تھی اور اُن کے فیض یافتگان تابعین تو بکثرت موجود تھے ... پھر بھی ایسا بیان کیا جاتا ہے کہ ... حق و باطل اور کفر و اسلا م کا معرکہ ہوا تھا اور حضرت حسین (رض) اکیلے ہی اس معرکہ میں صف آراء ہوئے اور ... صحابہ (رض) و تابعین رحمہ اللہ علیہم اس معرکہ سے الگ ہی رہے ۔ کیا ایسا ممکن تھا ؟
    کیا اس طرح صحابہ و تابعین کی بے غیرتی و بے حمیتی کا اظہار نہیں ہوتا ؟ کیا صحابہ (رض) ، نعوذ باللہ ، بے غیرت تھے ؟ کیا ان میں دینی حمیت اور دین کو بچانے کا جذبہ نہیں تھا ؟
    واقعہ یہ ہے کہ ... سانحہ ء کربلا کو ' معرکہ ء حق و باطل ' باور کرانے سے ، صحابہ کرام (رض) کی عظمت ِ کردار اور ان کی دینی حمیت مجروح ہوتی ہے ۔
    جب کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ...
    یہ واقعہ ... حق و باطل کا تصادم نہیں تھا ،
    یہ کفر و اسلام کا معرکہ نہیں تھا ،
    یہ اسلامی جہاد نہ تھا ۔
    اگر ایسا ہوتا تو ... تو اس راہ میں حضرت حسین (رض) اکیلے نہ ہوتے ، اُن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بھرپور تعاون بھی انھیں حاصل ہوتا جن کی پوری عمریں اعلائے کلمۃ اللہ میں گزریں اور جو ہمہ وقت باطل کے لئے شمشیر ِ برہنہ اور کفر و ارتداد کے لئے خدائی للکار تھے ۔
    حقیقت یہ ہے کہ سانحہ ء کربلا کا تصادم دراصل ایک سیاسی نوعیت کا تصادم تھا !



    تاریخی حقائق سے ثابت ہے کہ یزید نے حضرت حسین (رض) کی نہ تو طرفداری کی ، نہ اُن (رض) کے قاتلوں کو قتل کیا نہ ہی قاتلوں سے انتقام لیا ۔
    لیکن یہ کہنا بالکل سفید جھوٹ ہے کہ یزید نے اہل ِ بیت کی خواتین کو کنیز بنایا ، ملک ملک پھرایا اور بغیر کجاوہ کے ، اُنھیں اونٹوں پر سوار کرایا ۔ الحمدللہ مسلمانوں نے آج تک کسی ہاشمی عورت سے یہ سلوک نہیں کیا اور نہ اسے امت ِ محمد ؐ نے کسی حال میں جائز رکھا ہے ۔
    یزید اور اس کے خاندان کو جب شہادتِ حسین (رض) کی خبر پہنچی تو بہت رنجیدہ ہوئے اور روئے بلکہ یزید نے یہاں تک کہا :
    '' عبید اللہ بن زیاد پر اللہ کی پھٹکار ! واللہ ! اگر وہ خود حسین ص کارشتہ دار ہوتا تو ہر گز قتل نہ کرتا۔''
    ( تاریخ الطبری : ٤ / ٣٥٣ اور البدایہ : ٨ / ١٩٣ )
    پھر یزید نے حضرت حسین کے پسماندگان کی کی بڑی خاطر تواضع کی اور عزت کے ساتھ انھیں مدینہ واپس پہنچا دیا ۔

    بدقسمتی سے آج کل یہ رواج عام ہو گیا ہے کہ بڑے بڑے علما ء بھی یزید کا نام برے الفاظ سے لیتے ہیں اور اُس پر لعنت کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھتے اور اس کو '' حب حسین (رض)'' اور '' حب اہل ِ بیت (رض)'' کا لازمی تقاضا سمجھتے ہیں ۔ جب کہ محققین علمائے اہل سنت نے اس امر کی صراحت کی ہے کہ قتل ِ حسین (رض) میں یزید کا نہ کوئی ہاتھ ہے ، نہ اس نے کوئی حکم دیا اور نہ اس میں اس کی کوئی رضامندی ہی شامل تھی ۔

    امام غزالی رحمہ اللہ اپنی معروف کتاب '' وفیات الاعیان '' میں ایک جگہ فرماتے ہیں :
    '' یزید کی طرف سے حضرت حسین (رض) کو قتل کرنا ، یا ان کے قتل کرنے کا حکم دینا یا ان کے قتل پر راضی ہونا ... تینوں باتیں درست نہیں ۔ اور جب یہ باتیں یزید کے متعلق ثابت ہی نہیں تو پھر یہ بھی جائز نہیں کہ اس کے متعلق ایسی بد گمانی رکھی جائے کیونکہ قرآن مجید میں اللہ کا فرمان ہے کہ مسلمان کے متعلق بدگمانی حرام ہے ... '' ( وفیات الاعیان : ٢ / ٤٥٠ )

    اسی طرح امام غزالی رحمہ اللہ اپنی معروف کتاب '' احیاء العلوم '' میں ایک جگہ فرماتے ہیں :
    '' اگر سوال کیا جائے کہ کیا یزید پر لعنت کرنی جائز ہے کیونکہ وہ ( حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا) قاتل ہے یا قتل کا حکم دینے والا تھا ؟ تو ہم جواب میں کہیں گے کہ یہ باتیں قطعاً ثابت نہیں ہیں اور جب تک یہ باتیں ثابت نہ ہوں ، یزید کے متعلق یہ کہنا جائز نہیں کہ اس نے قتل کیا یا قتل کا حکم دیا ۔ '' ( احیاء العلوم : ٣ / ١٣١ )

    مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی ، یزید کے بارے میں یہ وضاحت فرمانے کے بعد کہ امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ اُس کو کافر جانتے ہیں اور امام غزالی رحمہ اللہ وغیرہ اس کو مسلمان کہتے ہیں ، اپنا مسلک یہ بیان کرتے ہیں : ( احکام شریعت ، حصہ دوم ص : ٨٨ )
    '' اور ہمارے امام (ابو حنیفہ رحمہ اللہ) سکوت فرماتے ہیں کہ ہم نہ مسلمان کہیں نہ کافر ، لہٰذا یہاں بھی سکوت کریں گے ... ''


    اور یزید رحمہ اللہ کے فسق و فجور کے افسانوں کی تردید میں خود حضرت حسین کے برادرِ اکبر محمد بن الحنفیہ رحمہ اللہ کا یہ بیان کافی ہے :
    '' تم یزید کے متعلق جو کچھ کہتے ہو ، میں نے ان میں ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی ، میں نے ان کے ہاں قیام کیا ہے اور میں نے انھیں پکا نمازی ، خیر کا متلاشی ، مسائی شریعت سے لگاؤ رکھنے والا اور سنت کا پابند پایا ہے ۔ '' ( البدایۃ و النہایۃ ، جلد : ٨ ص : ٢٣٣ )

    اور آخر میں ... ہم سب خوب جانتے ہیں کہ اکثر مسلمان کسی نہ کسی طرح کے ظلم سے ضرور آلودہ ہوتے ہیں ، اور اگر اس طرح لعنت کا دروازہ کھول دیا جائے تو مسلمانوں کے اکثر مردے لعنت کا شکار ہو جائیں گے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مردہ کے حق میں صلاۃ و دعا کا حکم دیا ہے نہ کہ لعنت کرنے کا ۔ نبی کریم ؐ کا فرمانِ مبارک ہے :
    '' مُردوں کو گالی مت دو کیوں کہ وہ اپنے کیے کو پہنچ گئے ۔''
    ( صحیح بخاری ، الجنائز ، باب : ما ینہی من سب الاموات حدیث: ١٣٩٣ )
     
  5. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    مردے کو گالی دینا ؟؟

    یہ اس مضمون نگار کے خیالات ہیں جس کو ایک طبقہ ء فکر شیخ الاسلام کا خطاب دیتا ہے ۔
    بےشک آزادیء رائے کا حق ہر کسی کو حاصل ہے ۔
    لیکن خاتم النبیین امامِ اعظم اعلیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے شیدائیان یہ قطعاََ برداشت نہیں کر سکتے کہ ۔۔۔ خود ساختہ حُبِّ حسین (رضی اللہ عنہ) کی آڑ میں فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو condemn کیا جائے !!
    اور رسول اللہ کا فرمانِ مبارک ہے :
    لا تسبوا الأموات فإنهم قد أفضوا إلى ما قدموا
    '' مُردوں کو گالی مت دو کیوں کہ وہ اپنے کیے کو پہنچ گئے ۔''
    ( صحیح بخاری ، الجنائز ، باب : ما ینہی من سب الاموات حدیث: ١٣٩٣ )۔


    اتحاد کو پارہ پارہ کرنے والا ، اسلام کی قدریں مٹانے والا ، قوم کا خزانہ لوٹنے والا ، جاہل ، ظالم ، پست اور ذلیل ۔۔۔ یہ تمام خطابات ۔۔۔
    کیا گالی کے زمرے میں نہیں آتے ؟
    یزید تو آج ایک مردہ شخصیت ہے اور ایک مردے کو اس طرح گالیاں دے کر شیخ الاسلام صاحب دین کی کون سی خدمت کر رہے ہیں ؟؟

    ڈاکٹر طاہر القادری بےشک ایک معروف عالمِ دین ہیں ، ان کی عزت و احترام سر آنکھوں پر ۔۔۔ لیکن وہ جس مکتبِ فکر کی تبلیغ کرتے ہیں ۔۔۔ اسی مکتبِ فکر کے بانی مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی ، یزید کے بارے میں اپنا مسلک یہ بیان کرتے ہیں :
    '' اور ہمارے امام (ابو حنیفہ رحمہ اللہ) سکوت فرماتے ہیں کہ ہم نہ مسلمان کہیں نہ کافر ، لہٰذا یہاں بھی سکوت کریں گے ... ''

    جب مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی ، یزید کے بارے میں سکوت اختیار کرتے ہیں‌ تو ڈاکٹر طاہر قادری کس برتے پر یزید کو اس قسم کی گالیاں دیتے ہیں ؟؟

    روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کسی سے یہ نہیں پوچھے گا کہ تُو نے کیوں فلاں فلاں پر لعنت نہیں کی ؟
    جب کہ یہ ضرور پوچھے گا کہ ۔۔۔
    تُو نے فلاں فلاں پر لعنت کیوں کی ؟ تجھے کیسے معلوم ہو گیا کہ وہ لعنتی ہے ؟

    کیونکہ ہر گناہ معاف ہے سوائے شرک کے ۔۔۔ اور یزید کے مشرک ہونے کی جس طرح کوئی دلیل نہیں ہے اسی طرح یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ اس نے مرنے سے قبل توبہ کی تھی یا نہیں ۔
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    میرا خیال ہے پیاجی کے مضمون کو صحیح طور پر نہ پڑھا گیا اور نہ ہی سمجھا گیا

    اس لیے کچھ دوستوں نے نمبر1 محض سیدنا امام حسین (ع) کے ذکرِ پاک کی وجہ سے اور نمبر2 آخر میں دیے گئے مصنف کے نام کی وجہ سے خواہ مخواہ بے معنی و بے تکے دلائل و براھین کا انبار لگا کر یزید پلید، ملعون اور جہنمی کی روح کو خوش کر نے کی ناپاک کوشش کی ہے۔

    اگر آپ کو امام حسین :as: کی شہادتِ عظیمہ پر کوئی اعتراض ہے تو خدا کے لیے یزید پلید کی طرفداریوں اور دفاع میں اپنی زبانیں تو گندی نہ کریں۔

    اگر آپ دوستوں کا اختلاف ڈاکٹر طاہر القادری سے ہے تو اسکی آڑ میں حب اہلبیت کا انکار تو نہ کیجیے۔ علمائے کرام کے اندر ہمیشہ سے مختلف امور پر آراء کا اختلاف ہوتا آیا ہے۔ خود امام اعظم :rda: کے شاگردوں نے بے شمار امور پر ان سے اختلاف کیا ۔
    بالکل ایسے ہی اعلیحضرت الشاہ احمدرضا خان فاضل بریلوی :ra: کے ادب و احترام ہمارے سر آنکھوں پر۔ وہ وقت کے مجدد ہیں اور ان کا نام اپنے عشقِ رسالتمآب :saw: کی بدولت آج بھی زندہء جاوید ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
    لیکن اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اہلسنت ہونے کے ناطے آپ انکے فرمودات کو قرآن وحدیث کا درجہ دیے کر ان سے مختلف رائے رکھنے کو معاذاللہ کفر قرار دینا شروع کر دیں۔
     
  7. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    مناقب حسین رضی اللہ عنہ

    مناقب حسین رضی اللہ عنہ

    حسنین رضی اللہ عنھما جنت کے جوانوں کے سردار

    1۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

    الحسن و الحسين سيد اشباب اهل الجنة

    (جامع الترمذی، 2 : 218)

    حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔

    خاتون جنت کے فرزندان ذی حشم علی کرم اللہ وجھہ الکریم کے لخت جگر حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ کو جنت کے نوجوانوں کا سردار فرمایا گیا ہے اور یہ فرمانا ہے تاجدار کائنات نبی آخر الزمان رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا۔

    حسنین کریمین کی محبت، محبت رسول ہے

    2۔ ایک حدیث پاک میں آتا ہے :

    عن أبی هريرة رضي اﷲ عنه قال قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم من أحبهما فقد أحبني و من أبغضها فقد أبغضني يعني حسنا و حسيناً.

    (مسند احمد بن حنبل، 2 : 288)


    حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے حسن اور حسین دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔

    تاجدار عرب و عجم حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے جس نے محبت کی گویا اس نے مجھ سے محبت کی، جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ ذرا غور کریں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بغض رکھنے والے کا کہاں ٹھکانہ ہے؟ اس کے دین اور ایمان کی کیا وقعت ہے؟

    باری تعالیٰ حسنین کریمین سے تو بھی محبت کر

    3. عن عطاء ان رجلاً اخبره أنه رأی النبی صلی الله عليه وآله وسلم يضم اليه حَسَناً و حسيناً يقول اللهم أني أحبها فأحبها.

    (مسند احمد بن حنبل، 5 : 369)


    حضرت عطاء سے روایت ہے کہ کسی شخص نے اسے بتایا کہ اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرات حسنین کریمین کو اپنے سینے سے چمٹایا اور فرمایا ’’اے اللہ میں حسن اور حسین سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر،،

    بارگاہ خداوندی میں آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس ہاتھ اٹھے ہوئے ہیں معطر اور معتبر لبوں پر دعائیہ کلمات مہک رہے ہیں کہ باری تعالیٰ تو بھی حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو اپنی محبت کا سزاوار ٹھہرا، یہ دعائیہ کلمات بھی حضور رحمت عالم کے لب اقدس سے نکلے کہ اللهم انی احبهما فاحبهما ..... فمن احبهما فقد احبنی، مولا ! مجھے حسن اور حسین رضی اللہ عنہ سے بڑا پیار ہے تو بھی ان سے پیار کر۔ جو حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے پیار کرتا ہے گویا وہ مجھ سے پیار کرتا ہے۔

    دوش پیمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سواری

    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے لاڈلے نواسوں سے کتنی محبت تھی وہ انہیں کتنا چاہتے تھے شاید آج ہم اس کا اندازہ نہ کرسکیں کیونکہ ہم جھگڑوں میں پڑگئے ہیں، حقیقتیں ہماری نظروں سے اوجھل ہوچکی ہیں، حقائق کا چہرہ گرد آلود ہے، آئینے دھند میں لپٹے ہوئے ہیں حالانکہ خلفائے راشدین اور اہل بیت نبوی رضی اللہ عنھم اخوت اور محبت کے گہرے رشتوں میں منسلک تھے۔ خاندان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احترام کی فضائے نور قلب و نظر پر محیط تھی۔ علی رضی اللہ عنہ کے نور نظر، اصحاب رسول کی آنکھوں کا تارا تھے۔

    4. عن عمر يعني ابن الخطاب قال رأيت الحسن والحسين علي عاتقي النبي صلي الله عليه وآله وسلم فقلت نعم الفرس تحتکما فقال النبي صلي الله عليه وآله وسلم ونعم الفارسان

    (مجمع الزوائد، 9 : 182)
    (رواه ابو يعلي في الکبير ورجاله رجال الصحيح)


    حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حسن اور حسین دونوں کو دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں پر سوار ہیں میں نے کہا کتنی اچھی سواری تمہارے نیچے ہے پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاً فرمایا سوار کتنے اچھے ہیں۔

    وہ منظر کیا دلکش منظر ہوگا۔ جنت کے جوانوں کے سردار شہزادہ حسن اور شہزادہ حسین اپنے نانا جان کے مقدس کندھوں پر سوار ہیں، سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ یہ روح پرور منظر دیکھتے ہیں اور شہزادوں کو مبارکباد دیتے ہوئے بے ساختہ پکار اٹھے ہیں، شہزادو! تمہارے نیچے کتنی اچھی سواری ہے۔ فرمایا تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے : عمر! دیکھا نہیں سوار کتنے اچھے ہیں؟ وہ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما، جنہیں آقائے دوجہاں کے مقدس کندھوں پر سواری کا شرف حاصل ہوا اور وہ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنہیں چوسنے کے لئے اپنی زبان مبارک عطا کی، جنہیں اپنے لعاب دہن سے نوازا، جنہیں اپنی آغوش رحمت میں بھلایا۔

    حالت نماز میں پشت اقدس کے سوار

    5. عن ابی هريرة رضي اﷲ عنه قال کنا نصلي مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم العشاء فاذا سجد وثب الحسن والحسين علي ظهره فاذا رفع رأسه أخذهما بيده من خلفه أخذاً رقيقاً و يضعهما علي الارض فاذا عاد عادا حتي قضي صلوته. فاقعدهما علي فخذيه.

    (مسند احمد بن حنبل، 2 : 513)


    حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے (دیر سے) عشاء کی نماز آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ میں گئے حسن اور حسین دونوں بھائی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر چڑھ گئے، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر انور سجدے سے اٹھایا تو دونوں کو اپنے ہاتھوں سے آرام سے تھام لیا اور زمین پر بیٹھا لیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں جاتے تو وہ دونوں یہی عمل دہراتے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی حالت میں پوری نماز ادا فرمائی۔ پھر دونوں شہزادوں کو اپنی گود میں بٹھایا۔
    یہ سجدہ خدا کے حضور ہو رہا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت نماز میں ہیں، سجدے سے سر اٹھاتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے دونوں شہزادوں کو تھام لیا کہ کہیں یہ معصوم شہزادے نیچے نہ گر جائیں اور بڑی احتیاط سے انہیں زمین پر بٹھا دیا۔ حسن اور حسین نماز کے دوران پشت مبارک پر چڑھے رہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت نماز میں احتیاط سے انہیں اتارتے رہے حتی کہ نماز مکمل ہوئی اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں شہزادوں کو اپنے آغوش محبت میں سمیٹ لیا۔

    جن کے لئے سجدہ طویل کردیا گیا

    6. عن أنس قال کان رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يسجد فيحبئي الحسن و الحسين فيرکب ظهره فيطيل السجود فيقال يا نبي اﷲ أطلت السجود فيقول ارتحلني ابني فکر هت ان اعجله

    (مسند من حديث عبدالله بن شداد، 3 : 495)
    (مجمع الزواند، 9 : 181)


    حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت نماز میں سجدے میں تھے کہ حسن اور حسین آئے اور پشت مبارک پر چڑھ گئے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ان کی خاطر) سجدہ طویل کردیا (نماز سے فراغت کے بعد) عرض کیا گیا۔ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا سجدہ طویل کرنے کا حکم آگیا۔ فرمایا نہیں میرے دونوں بیٹے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما میری پشت پر چڑھ گئے تھے میں نے یہ ناپسند کیا کہ جلدی کروں۔

    یعنی حسن اور حسین رضی اللہ عنہما جب حالت نماز میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہوگئے تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قصداً سجدہ طویل کردیاتا کہ حسن اور حسین رضی اللہ عنھما گر نہ پڑیں ان کو کوئی گزند نہ پہنچ جائے۔

    یہ دونوں شہزادے حضرت علی شیر خدا اور خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہرا کے فرزندان ارجمند تھے۔ لیکن یہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کی بھی ٹھنڈک تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوری دنیا کو اپنے قول و عمل سے بتا دیا کہ علی اور فاطمہ سلام اللہ علیھما، حسن اور حسین رضی اللہ عنہما میرے بھی لخت جگر ہیں یہ میری نسل سے ہیں، یہ میری ذریت ہیں اور فرمایا ہر نبی کی اولاد کا نسب اپنے باپ سے شروع ہوکر دادا پر ختم ہوتا ہے مگر اولاد فاطمہ کا نسب بھی میں ہوں وہ میرے بھی لخت جگر ہیں۔

    7. فاطمة مضغة منی يقبضني ماقبضها ويبسطني ما بسطها و ان الانساب يوم القيامة تنقطع غير نسبي و سببي و صهري.

    1. مسند احمد بن حنبل، 4 : 323
    2. المستدرک، 3 : 158


    فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہیں مجھے بے چین کر دیتی ہے ہر وہ چیز جو اسے بے چین کرتی ہے اور مجھے خوش کرتی ہے ہر وہ چیز جو اسے خوش کرتی ہے قیامت کے روز تمام نسبی رشتے منقطع ہو جائیں گے ما سوا میرے نسبی، قرابت داری اور سسرالی رشتے کے۔

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر سے مشابہت

    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لخت جگر ہونے کے ناطے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو چونکہ قربانی مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مظہر بنایا گیا تھا اور انہیں ذبح عظیم کی خلعت فاخرہ عطا کی گئی تھی اس لئے امام حسین رضی اللہ عنہ کے جسم کو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر سے قریبی مشابہت کے اعزاز سے بھی نوازا گیا تھا۔ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد جب لوگوں کو اپنے عظیم پیغمبر کی یاد ستاتی، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کی یاد دلوں میں اضطراب پیدا کرتی تو وہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے در دولت پر حاضر ہوتے اور حسین رضی اللہ عنہ کی زیارت کر کے اپنی آنکھوں کی تشنگی کا مداوا کرتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ اقدس نظروں میں سما جاتا۔ صحابہ یہ بھی جانتے تھے کہ نواسہء رسول کو خلعت شہادت سے سرفراز ہونا ہے کیونکہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان اقدس سے حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا تذکرہ سن چکے تھے اس حوالے سے بھی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اصحاب رسول کی نگاہوں کا مرکز بن گئے تھے۔

    8. عن علی قال الحسن اشبه برسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم مابين الصدر الي الرأس والحسين اشبه برسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ما کان النفل من ذلک

    (جامع الترمذي، 2 : 219)


    حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم سے مروی ہے کہ حضرت حسن سینے سے لیکر سر تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشابہ تھے اور حضرت حسین اس سے نیچے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشابہ تھے۔

    حسین کی محبت اللہ کی محبت

    9. عن يعلي بن مره قال قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حسين مني و انا من حسين احب اﷲ من احب حسيناً

    (جامع الترمذی، 2 : 219)


    حضرت یعلی بن مرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں اللہ اس شخص سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے۔

    وہ حسین رضی اللہ عنہ ابن علی رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے ہیں کہ حسین مجھ سے اور میں حسین سے ہوں اور یہ کہ اللہ اس شخص سے محبت کرتا ہے جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے اب جس سے اللہ محبت کرتا ہے۔ اس سے عداوت رکھنا اور اس کا خون ناحق بہانا کتنا بڑا جرم ہے؟ استقامت کے کوہ گراں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ایک فاسق اور فاجر کے دست پلید پر بیعت کرلے گا بالکل فضول سی بات ہے۔ اہل حق راہ حیات میں اپنی جان کا نذرانہ تو پیش کردیتے ہیں لیکن اصولوں پر کسی سمجھوتے کے روادار نہیں ہوتے اگر کربلا کے میدان میں حق بھی باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرلیتا تو پھر قیامت تک حق کا پرچم بلند کرنے کی کوئی جرات نہ کرتا، کوئی حرف حق زبان پر نہ لاتا، درندگی، وحشت اور بربریت پھر انسانی معاشروں پر محیط ہو جاتی اور قیامت تک کے لئے جرات و بیباکی کا پرچم سرنگوں ہوجاتا اور نانا کا دین زاغوں کے تصرف میں آ کر اپنی اقدار اور روح دونوں سے محروم ہوجاتا۔

    10۔ اسی طرح ایک اور روایت ہے :

    عن ابی هريرة رضي اﷲ عنه قال رأيت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و هو حامل الحسين بن علي و هو يقول اللهم اني احبه فاحبه

    (المستدرک للحاکم، 3 : 177)


    حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسین علیہ السلام کو اٹھایا ہوا تھا اور یہ فرما رہے تھے اے اللہ میں اس (حسین) سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔

    اگر ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کا دم بھرتے ہیں، اگر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو اپنا اوڑھنا بچھونا قرار دیتے ہیں، اگر عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا تشخص گردانتے ہیں تو پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس سے محبت کرتے ہیں اور بارگاہ خداوندی میں عرض کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ میں حسین سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بغض عداوت کا تصور بھی ہمارے ذہن میں نہیں آنا چاہیے بلکہ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس محبوب سے والہانہ محبت کا اظہار کر کے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گہری وابستگی کو مزید مستحکم بنانا چاہئے کہ قصر ایمان کی بنیادوں کو مضبوط بنانے کا یہ ایک موثر ذریعہ ہے۔

    اہل بیت کی محبت اور اصحاب رسول کی محبت دراصل ایک ہی محبت کا نام ہے۔ ان محبتوں کو خانوں میں تقسیم کرنا، امت مسلمہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا ہے، اس ملت اسلامیہ کو دوئی کے ہر تصور کے مٹا کر اخوت و محبت اور یگانگت کے ان سرچشموں سے اپنا ناطہ جوڑ لینا چاہیے جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا طرہ امتیاز اور شوکت و عظمت اسلام کا مظہر تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسین رضی اللہ عنہ کی محبت کو اپنی محبت قرار دیا گویا حسین رضی اللہ عنہ سے نفرت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کی عملاً نفی ہے اور کوئی مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔

    11. عن علی رضی اﷲ تعالی عنه قال قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم للحسين بن علي ’’من احب هذا فقد أحبني،،

    (المعجم الکبير، 3، ح : 2643)


    حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسین بن علی رضی اللہ عنھما کے بارے میں فرمایا ’’جس نے اس (حسین) سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔

    عالم بیداری میں شہادت حسین رضی اللہ عنہ کی خبر

    حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض دو طریق سے عام ہوا۔ مشابہت مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض اور روحانیت مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض، ایک فیض کے عام ہونے کا ذریعہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ بنے اور دوسرے فیض کے عام ہونے کا اعزاز حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے حصہ میں آیا، فیض کے یہ دونوں دھارے حسین ابن علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہما کی ذات میں آ کر مل گئے کیونکہ حسین رضی اللہ عنہ کو ذبح عظیم بنانا مقصود تھا؟ ذبح اسماعیل کے بارے میں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں حکم ملا لیکن ذبح حسین رضی اللہ عنہ کے لئے حضور آئینہ رحمت کو عالم خواب میں نہیں، عالم بیداری میں وحی خداوندی کے ذریعہ مطلع کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالم بیداری میں جبرئیل امین علیہ السلام نے اطلاع دی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! عراق کی سر زمین میں آپ کے شہزادے حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کردیا جائے گا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طلب کرنے پر جبرئیل امین نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کی مٹی بھی لاکر دی کہ یہ ہے سر زمین کربلا کی مٹی جہاں علی رضی اللہ عنہ کے نور نظر اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لخت جگر کا خون ناحق بہا دیا جائے گا وہ حسین رضی اللہ عنہ جو دوش پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سوار تھا۔ وہ حسین رضی اللہ عنہ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آغوش رحمت میں پروان چڑھا تھا۔ وہ حسین رضی اللہ عنہ جو نماز کی حالت میں پشت اقدس پر چڑھ بیٹھا تو تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سجدے کو طول دے دیا کہ کہیں گر کر شہزادے کو چوٹ نہ آجائے۔ وہ حسین رضی اللہ عنہ جو یتیموں کے آقا اور غریبوں کے مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبتوں اور شفقتوں کا محور تھا اور وہ حسین رضی اللہ عنہ جس کے منہ میں رسول آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبان اقدس دے دی اور اپنے لعاب دہن کو لب حسین سے مس کیا کہ ایک دن میدان کربلا میں ان نازک ہونٹوں کو پرتشنگی کی فصلوں کو بھی لہلہانا ہے۔ اس حوالے سے چند روایات مندرجہ ذیل ہیں۔

    1۔ ام سلمہ رضی اللہ عنھا کی روایت

    عن ام سلمه قالت قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم أخبرني جبرئيل ان ابني الحسين يقتل بأرض العراق فقلت لجبرئيل ارني تربة الارض التي يقتل فيها، فجاء فهذه تربتها.

    1. البدايه والنهايه، 8 : 196 - 200
    2. کنز العمال، 12 : 126، ح : 34313


    ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنھا روایت کرتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے جبرئیل امین نے (عالم بیداری میں) بتایا کہ میرا یہ بیٹا حسین عراق کی سرزمین میں قتل کردیا جائیگا میں نے کہا جبرئیل مجھے اس زمین کی مٹی لاکر دکھا دو جہاں حسین کو قتل کر دیا جائے گا پس جبرئیل گئے اور مٹی لاکر دکھا دی کہ یہ اس کے مقتل کی مٹی ہے۔

    2۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی روایت

    ایک دوسری روایت ہے :

    عن عائشة عنه انه قال أخبرنی جبرئيل ان ابني الحسين يقتل بعدي بأرض الطف

    (المعجم الکبير، 3 : 107، ح : 2814)


    حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل امین نے مجھے خبر دی کہ میرا یہ بیٹا حسین میرے بعد مقام طف میں قتل کر دیا جائے گا۔

    حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی روایت بھی کم و بیش وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے، یہ بھی قتل حسین رضی اللہ عنہ کی اطلاع ہے۔ یہ روح فرسا اطلاع پا کر قلب اطہر پر کیا گزری ہوگی اس کا تصور بھی روح کے در و بام کو ہلا دیتا ہے، پلکوں پر آنسوؤں کی کناری سجنے لگتی ہے اور گلشن فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تباہی کا دلخراش منظر دیکھ کر چشم تصور بھی اپنی پلکیں جھکا لیتی ہے۔

    3۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمان مقدس میں آنسو

    اسی طرح ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام کے چشمان مقدس سے آنسو رواں تھے میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج کیا بات ہے چشمان مقدس سے آنسو رواں ہیں؟ فرمایا کہ مجھے ابھی ابھی جبرئیل خبر دے گیا ہے کہ

    ان امتک ستقتل هذا بأرض يقال لها کربلاء

    (المعجم الکبير، 3 : 109، ح : 2819)


    آپ کی امت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس بیٹے حسین کو اس سر زمین پر قتل کر دے گی جس کو کربلا کہا جاتا ہے۔

    4۔ 61 ہجری کے اختتام کی نشاندہی

    عن ام سلمة قالت قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يقتل حسين بن علي علي رأس سيتن من المهاجري

    (مجمع، 9 : 190)
    (بحواله طبراني في الاوسط)


    ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا حسین بن علی کو ساٹھ ہجری کے اختتام پر شہید کردیا جائے گا۔

    غیب کی خبریں بتانے والے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کی نشاندہی کردی کہ یہ عراق کا میدان کربلا ہوگا بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ یہ عظیم سانحہ 61 ہجری کے اختتام پر رونما ہوگا۔

    5۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دعا

    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اکثر دعا فرمایا کرتے :

    اللهم انی اعوذبک من رائس الستين وامارة الصبيان

    الصواعق الحرقه : 221


    اے اللہ میں ساٹھ ہجری کی ابتدا اور (گنوار) لڑکوں کی حکومت سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔

    60 ہجری کی ابتدا میں ملوکیت کی طرف قدم بڑھایا جاچکا تھا اور یہی ملوکیت وجہ نزاع بنی۔ اور اصولوں کی پاسداری اور اسلامی امارت کے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خاطر نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو کربلا کے میدان میں حق کا پرچم بلند کرتے ہوئے اپنی اور اپنے جان نثاروں کی جانوں کی قربانی دینا پڑی۔ انہوں نے ثابت کردیا کہ اہل حق کٹ تو سکتے ہیں کسی یزید کے دست پلید پر بیعت کرکے باطل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ وہ نیزے کی انی پر چڑھ کر بھی قرآن سناتے ہیں۔ ان کے بے گور و کفن لاشوں پر گھوڑے تو دوڑائے جاسکتے ہیں لیکن انہیں باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہیں کیا جاسکتا، یہی لوگ تاریخ کے چہرے کی تابندگی کہلاتے ہیں اور محکوم و مظلوم اقوام کی جدوجہد آزادی انہی نابغان عصر کے عظیم کارناموں کی روشنی میں جاری رکھتے ہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ 60 ہجری کی ابتدا سے پناہ مانگتے تھے کہ خلفائے راشدین کے نقش قدم سے انحراف کی راہ نکالی جا رہی تھی، لڑکوں کے ہاتھ میں عنان اقتدار دے کر اسلامی ریاست کو تماشا بنایا جا رہا تھا۔ کہ اب سنجیدگی کی جگہ لا ابالی پن نے لے لی تھی۔

    حضرت یحی حضرمی کا ارشاد ہے کہ سفر صفین میں مجھے شیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا۔ جب ہم نینوا کے قریب پہنچے تو داماد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابو عبداللہ ! فرات کے کنارے صبر کرنا میں نے عرض کیا ’’یہ کیا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے جبرئیل نے خبر دی ہے :

    ان الحسين يقتل بشط الفرات و اراني قبضة من تربته

    (الخصائص الکبریٰ 2 : 12)


    حسین رضی اللہ عنہ فرات کے کنارے قتل ہوگا اور مجھے وہاں کی مٹی بھی دکھائی۔

    حضرمی روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت علی شیر خدا رک کر اس زمین کو دیکھنے لگے تو اچانک بلند آواز میں گویا ہوئے۔ ابو عبداللہ! حسین صبر کرنا۔ ہم سہم گئے ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے، آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ورطہ حیرت میں ڈوب گئے کہ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ اس میدان کربلا میں میرا حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگا۔

    6۔ مقتل حسین رضی اللہ عنہ

    حضرت اصبغ بن بنانہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :

    اتينا مع علي موضع قبر الحسين فقال ههنا مناخ رکابهم و موضع رحالهم و مهراق دمائهم فئة من ال محمد صلي الله عليه وآله وسلم يقتلون بهذه العرصة تبکی علیہم الس
     
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ماشاءاللہ پیا جی !! جزاک اللہ الخیر

    ایک بار پھر بہت ہی پیارا اور ایمان افروز مضمون شائع کیا ہے آپ نے۔ اللہ تعالی آپ کو اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ اور ہمیں غلامیء رسول :saw: کے ساتھ ادب و محبتِ اہلیبت اطہار (علیہم السلام) اور ادب و محبتِ صحابہ کرام (رضوان اللہ علیھم اجمعین) عطا فرمائے۔ آمین

    اور کیا خوبصورت بات کی مصنف جناب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب نے
    اپنی کندذہنی، تنگ نظری کی وجہ سے ہی آج امت ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر رہی ہے۔ ہر ایرا غیرا ملت اسلامیہ کے منہ پر ذلالت کے تھپڑ مار رہا ہے اور ہم ہیں کہ آپس کے جھگڑوں سے ہی فرصت نہیں۔ سارا زور کبھی اہلیبت اطہار (علیھم السلام) کی شان کم کرنے اور کبھی صحابہ کرام (رضوان اللہ علیھم) کے مقام و مرتبہ کو گھٹانے میں لگا دیتے ہیں۔ حالانکہ بقول شاعر

    قتلِ حسین :as: اصل میں مرگِ یزید (پلید) ہے
    اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد​


    شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری بلاشبہ آج کے دورِ زوال و انحطاط میں تجدیدِ دین کا عظیم فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے لاکھوں دلوں میں عشقِ رسالت :saw: کے چراغ روشن کیے اور عالمی سطح پر اسلام کو امن و اخوت کا علمبردار دین بنا کر پیش کیا۔
    اللہ تعالی محترم شیخ الاسلام صاحب کوعمرِ دراز اور صحت کاملہ عطا فرمائے اور ہمیں ان جیسی نابغہ ء روزگار ہستی سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
     
  9. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    برادرِ محترم نعیم صاحب
    غلوِ عقیدت کا چشمہ اُتاریے اور آنکھیں کھول کر میرا مضمون دوبارہ پڑھئے ۔
    میرے مضمون میں ۔۔۔
    صرف ایک جگہ نہیں بلکہ کئی جگہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو شہادتِ عظمیٰ قرار دیا گیا ہے ۔

    اُس مضمون سے یہ الفاظ ملاحظہ فرمائیں ؛
    اس کے باوجود بھی آپ کا الزام ہے کہ : شہادتِ عظیمہ پر اعتراض کیا جا رہا ہے !؟

    حبِّ اہل بیت کا انکار ؟؟
    آپ اپنے دعوے کے ثبوت میں کوئی ایک دلیل تو دیجئے کہ میرے مضمون کے کس جملے سے حبِّ اہل بیت کے انکار کا پہلو نکلتا ہے ؟
    محض زبانی و قلمی دعوے تو اندھی عقیدت میں ڈوب کر ہر انسان ادا کرتا ہی ہے ۔

    یزید ۔۔۔ پلید ہے ، ملعون ہے ، جہنمی ہے ۔۔۔ اس کا ثبوت تو روزِ قیامت اللہ آپ سے مانگ لے گا ۔ لہذا ہم تو اس معاملے میں مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی کی طرح سکوت ہی فرمائیں گے ۔
    لیکن ۔۔۔
    اگر آپ دوستوں کا اتفاق ڈاکٹر طاہر القادری سے ہے تو اسکی آڑ میں فرموداتِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اتنا واضح انکار تو نہ کیجئے ۔
    حبِّ اہل بیت تو بعد میں ہے سب سے پہلے تو حبِّ رسول (ص) لازم ہے ۔۔۔ اس لیے کہ خود اللہ کے پیارے رسول (ص) فرماتے ہیں کہ ؛
    تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں جب تک کہ میں اس کو اپنی جان سے پیارا نہ ہو جاؤں ۔

    کیا رسول (ص) سے محبت جتانے کا صرف یہی ایک طریقہ ہے کہ سال بھر میں ایک دن یا ہفتہ بھر کے لیے جشنِ میلاد منا لیا جائے اور سال کے باقی دنوں میں یوں ہی کھلے عام رسول اللہ (ص) کے مبارک فرامین کو مذاق اُڑایا جائے ؟؟

    رسول اللہ (ص) تو فرمائیں کہ مرنے والے کو برا نہ کہو اور آپ بڑے آرام سے عاشقِ رسول ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے پلید ، ملعون اور جہنمی جیسی گالیاں ایک مُردہ شخص کے خلاف پکارنے لگیں ۔۔۔۔ ؟؟

    براہ مہربانی یاد رکھیں کہ دین میں صحیح احادیث کا اتنا ہی درجہ ہے جتنا کہ قرآنی آیات کا۔ لہذا اہلِ بیت اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی فضیلت میں جتنی بھی صحیح احادیث وارد ہیں وہ تمام کی تمام ہمارے نزدیک قابلِ صد احترام ہیں اور ان کی شان میں ایک نازیبا لفظ بھی خیال کرنے سے قبل ہم مر جانا گوارہ کر لیں گے لیکن شرفِ اہلِ بیت و صحابیت پر ایک حرف لانا گوارہ نہیں کریں گے ۔

    سانحہء کربلا کو معرکہ ء حق و باطل باور کرانے سے شرفِ صحابیت پر حرف نہیں بلکہ سنگین الزام لگتا ہے ۔ اُس وقت حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ ) سمیت بیشمار صحابہ کرام (رض) موجود تھے جنہوں نے اس معرکہ میں حصہ نہیں لیا اور بالکل الگ رہے ۔
    کیا آپ حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ ) سمیت اُن تمام صحابہ کرام (رض) پر دینی بے غیرتی ، بے حمیتی کا الزام لگانا چاہتے ہیں ؟؟
    کیا آپ الزام لگانا چاہتے ہیں کہ ۔۔۔ صحابہ (رض) ، نعوذ باللہ ، بے غیرت تھے اور ان میں دینی حمیت اور دین کو بچانے کا کوئی جذبہ نہیں تھا ؟
    نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ ۔

    کیا یہی آپ کا حبِّ اہل بیت ہے ؟؟ جو کہ آپ خود اہلِ بیت ( حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ) پر درپردہ الزام بھی لگاتے ہیں ؟
    ٹھنڈے دل سے سوچئے اور اپنے تعصب کا چشمہ اتار کر تاریخی حقائق کا مطالعہ کیجئے ۔
     
  10. کارتوس خان
    آف لائن

    کارتوس خان ممبر

    شمولیت:
    ‏9 جنوری 2007
    پیغامات:
    24
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

    اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔
    محترم نعیم صاحب!۔ یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم مضمون کو صحیح طور پر نہ پڑھا گیا اور نہ ہی سمجھا گیا؟؟؟۔۔۔

    اللہ وحدہ لاشریک کا فرمان ہے کہ!۔
    قُلۡ هَاتُواْ بُرۡهَـٰنَڪُمۡ إِن ڪُنتُمۡ صَـٰدِقِين
    (اے پیغمبر ان سے) کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو دلیل پیش کرو (البقرۃ ١١١)۔۔۔

    بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان اور ہمارا عقیدہ یا ہماری سوچ یا ہماری فکر کا محور اللہ کا قرآن اور مدنی تاجدار محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہونا چاہئے۔۔۔ کسی پر لعنت بھیجنا۔۔۔ کسی کو گالی دینا۔۔۔ یا کسی کے عیب بیان کرنا۔۔۔ اگر جائز اور حلال کام ہے تو پھر اس آیت کی روشنی میں آپ ہمیں دلیل پیش کریں اگر آپ اپنے دعوٰؤن میں سچے ہیں۔۔۔

    دوسری بات جو آپ نے کہی کہ ہم کو شہادت حسین رضی اللہ عنہ پر کوئی اعتراض ہے۔۔۔
    محترم نعیم بھائی میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ یہ آپ کس طرح کی سوچ دوسرے ساتھیوں کے ذہن میں پیدا کر رہے ہیں۔۔۔میں ایک بات بالکل واضع کردوں کہ ہمیں اعتراض صرف اس کھینچے گئے نقشے پر ہے جو اس آرٹیکل کے ذریعے اُن ممبرز کے ذہنوں میں بیٹھایا جا رہا ہے جو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت سے ناواقف ہیں اور یزید کو مجرم تھہرائے جانے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔۔۔ ایک طرف تو آپ کا دعوٰٰی ہوتا ہے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اور دوسری طرف اپنے مقاصد کے حصول کے لئے مدنی تاجدار محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو اپنے نفس کی تسلی کے لئے اہل بیت کی محبت کا آڑ لے کر حدیث کو رد کر دیتے ہیں۔۔۔ کیا یہ ہی ہے عاشقی؟؟؟۔۔۔ محترم اس کو حب اہل بیت نہیں کہیں گے۔۔۔ یہ جو طریقہ آپ نے روا رکھا ہے یہ کہلائے گا گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔

    '' مُردوں کو گالی مت دو کیوں کہ وہ اپنے کیے کو پہنچ گئے ۔''
    ( صحیح بخاری ، الجنائز ، باب : ما ینہی من سب الاموات حدیث: ١٣٩٣ )۔


    حق اور باطل کو پرکھنے کی کسوٹی ہے عرش والے کا قرآن اور مدنی تاجدار محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان۔۔۔ بس!۔۔۔ اللہ فرماتا ہے کہ اگر اپنے قول میں سچے ہو تو دلیل پیش کرو۔۔۔ اگر یزید وہ ہی ہے جیسا کہ آپ نے لکھا ہے تو دلیل پیش کریں۔۔۔ اور اگر آپ کا دعوٰی ہے کہ آپ عاشق رسول صلی اللہ علیہ ہیں تو پھر کیوں آپ اس حدیث کو جو محترم باذوق صاحب کی جانب سے پیش کی گئی ہے اپنے نفس کی آگ کو بجھاتے ہوئے رد کر رہے ہیں؟؟؟۔۔۔

    محترم نعیم صاحب۔۔۔ ہمیں اختلاف مضمون سے ہے۔۔۔ ہمیں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت سے اختلاف نہیں۔۔۔ ہم ڈاکٹر طاہر القادری کی آڑ لیکر حب اہل بیت کا انکار نہیں کر رہے ہیں بلکہ سچائی پر پھینکی جانے والی دھول کو قرآن و حدیث کے واضع دلائل سے صاف کر کے دوستوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔۔۔آپ اس مضمون سے یہ تاثر پیش کرنا چاہتے ہیں مظلومیت میں جو شہادت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ہوئی وہ حق و باطل کا معرکہ تھا۔۔۔ اگر یہ حق و باطل کا معرکہ تھا تو پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے تین شرطیں کیوں رکھیں۔۔۔

    ١۔ مجھے یا تو مدینہ واپس جانے دو۔۔۔
    ٢۔ یا مجھے کسی اسلامی ریاست کے سرحدوں تک پہنچا دو۔۔۔
    ٣۔ یا پھر مجھے میرے بھائی یزید کے پاس جانے دو۔۔۔


    اگر یہ حق اور باطل کا معرکہ تھا جیسا کہ آپ بیان کر رہے ہیں تو پھر اس معرکہ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ اس طرح کی شرطیں کیوں رکھتے؟؟؟۔۔۔ اگر یہ حق و باطل کا معرکہ ہوتا تو پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ اپنے گھر کی خواتیں کو اس معرکے میں اپنے ساتھ لے کر کیوں گئے؟؟؟۔۔۔ کیا آپ رضی اللہ عنہ کے سامنے اپنے نانا محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی ایسی سنت موجود تھی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حق اور باطل کے معرکہ میں گھر کی کسی بھی خواتیں یا نومولودہ کو کسی بھی معرکہ میں ساتھ لے گئے ہوں؟؟؟۔۔۔

    ہمارا اختلاف کسی ڈاکٹر یا کسی انجییئر سے نہیں اور نہ ہے کسی امام سے ہے ۔۔۔ہم ایک ہی امام کو جانتے اور مانتے ہیں اور وہ امام اعظم حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تا قیامت۔۔۔ اور جو آرٹیکل یہاں پر پیش کیا گیا ہے اگر اس میں سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا موضوع نکال دیا جائے تو اُس کے علاوہ بھی بہت سی ایسی بدعقیدگیاں اس میں موجود ہیں جن سے مجھے اختلاف ہے لیکن بات پھر وہی ہے کہ اعتراضات اور بحث ہم کو سب کو چاہئے کہ اللہ کی رسی قرآن و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو مضبوطی سے پکڑیں۔۔۔ کسی ایک مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کی خوشنودی کو حاصل کرنے کے لئے ایک واقعہ کو کہانی بنا کر اس طرح سے پیش کرنا درست نہیں ہے۔۔۔ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا طریقہ وہی ہونا چاہئے جو قرآن میں بیان کر دیا گیا ہے۔۔۔ اللہ وحدہ لاشریک کا فرمان ہے کہ!۔

    فَإِن تَنَـٰزَعۡتُمۡ فِی شَیۡءِِ فَرُدُّوهُ إِلَی ٱللَّهِ وَٱلرَّسُولِ إِن كُنتُمۡ تُؤۡمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأَخِرِۚ ذَٰلِكَ خَيۡرُُ وَأَحۡسَنُ تَأۡوِيلاً
    اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں اللہ اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے (النساء۔٥٩)۔۔۔

    ہم نے قرآن اور حدیث سے دلائل پیش کر دیئے ہیں۔۔۔ لیکن اب بھی اگر کسی ساتھی کو یہ مرُدوں کو بُرا بھلا کہنے کا شوق ہے تو وہ اپنے آپ کو عاشق رسول کہنے سے باز رہیں کیونکہ سچا عاشق وہ ہی ہوتا ہے جو اپنے محبوب کے فرمودات پر آنکھ بند کر کے عمل کرے۔۔۔

    وما علینا الالبلاغ۔۔۔

    وسلام۔۔۔
     
  11. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بات ڈاکٹر طاہر القادری سے عقیدت کی نہیں حضرت۔
    بات نواسہء رسول:saw: سیدنا امام حسین :as: سے عقیدت کی ہے۔
    اور میں نے نہ تو کسی کی ذات کہ تنقید کا نشانہ بنایا اور نہ کسی کو برا کہا۔ اور یہی اسلام سکھاتا ہے۔

    آپ لوگوں کو جو کچھ آپ کے بڑوں نے سکھایا وہ آپ کو مبارک ۔آپ کے رہنماؤں نے جو کچھ آپ کو سکھا دیا ہے وہ وہی کچھ ہے جو لفظ آپ معاذاللہ استغفراللہ صحابہ کرام :rda: کے متعلق دوسروں کی جانب منسوب کر کے لکھ رہے ہیں جسے کوئی مسلمان معاذ اللہ سوچتے ہوئے بھی ہزار بار ڈرتا ہے۔ لیکن علم کا تکبر یہ خوف چھین لیتا ہے۔ اس لیے بےنیازی دکھائی دیتی ہے۔

    پیا جی کے دونوں مضامین کیا ایک لفظ بھی صحابہ کرام (رض) کی شان میں گستاخی کا دکھا سکتے ہیں ؟؟ جو آیات سیدنا امام حسین (ع) کی شان میں دی گئی ہیں۔ وہ آپ کو ہضم نہیں ہو رہییں۔ اور یزید پلید ملعون جہنمی کے دفاع میں آپ کو بڑی آیات اور احادیث نظر آ رہی ہیں۔ لعنۃ اللہ علی یزیدیین

    بہرحال میرے بھائی ۔ آپ اپنے نظریات اپنے پاس رکھیں اور اللہ تعالی سے دعا کریں کہ وہ بدعقیدہ اور گمراہوں اور گستاخوں کو ہدایت عطا فرمائے۔ آمین


    لکم دینکم ولی دین
     
  12. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    داستان حریت و ایثار

    خاندان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لہو سے تحریر ہونے والی

    داستان حریت و ایثار

    10 محرم کوحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اضطراب

    گزشتہ فصل میں ہم نے بیان کیا کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو کربلا کی مٹی دے کر فرمایا ’’ام سلمہ رضی اللہ عنہا! یاد رکھنا اور دیکھتے رہنا کہ جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو سمجھ لینا میرا حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگیا ہے۔،، (گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم میں تھا کہ ام سلمہ، شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے وقت زندہ ہوں گی) ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں نے وہ مٹی سنبھال کر رکھی حتی کہ ہجری کے 60 برس گزر گئے، 61 کا ماہ محرم آیا۔ 10 محرم الحرام کا دن تھا دوپہر کاوقت تھا میں لیٹی ہوئی تھی خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رو رہے ہیں، ان کی مبارک آنکھوں سے آنسو رواں ہیں، سر انور اور ریش مبارک خاک آلودہ ہے، میں پوچھتی ہوں یا رسول اللہ! یہ کیفیت کیا ہے؟ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روتے ہوئے فرماتے ہیں ام سلمہ! میں ابھی ابھی حسین کے مقتل (کربلا) سے آ رہا ہوں، حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا منظر دیکھ کر آیا ہوں، ادھر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے خواب میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی اور ادھر مکہ معظمہ میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ دوپہر کا وقت تھا میں لیٹا ہوا تھا۔ خواب دیکھتا ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لا ئے ہیں، پریشان حال ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک میں ایک شیشی ہے، اس شیشی میں خون ہے میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ خون کیسا ہے فرمایا! ابن عباس! ابھی ابھی مقتل حسین سے آیا ہوں یہ حسین اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے، آج سارا دن کربلا میں گزرا۔ کربلا کے شہیدوں کا خون اس شیشی میں جمع کرتا رہا ہوں۔

    اگر کوئی سوال کرنے والا یہ سوال کرے کہ 72 شہیدوں کاخون ایک شیشی میں کیسے سما سکتا ہے تو جواب محض یہ ہوگا کہ جس طرح 1400 صحابیوں کے غسل کا پانی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک لوٹے میں بند ہوگیا تھا یا پندرہ سو صحابہ کا کھانا ایک ہنڈیا میں سما گیا تھا اسی طرح 72 شہداء کا خون بھی ایک شیشی میں سما سکتا ہے۔

    ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں حضرت سلمی کہتی ہیں :

    دخلت علی ام سلمة و هی تبکی فقلت : ما يبکيک؟ قالت : رايت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في المنام و علي رأسه ولحيته التراب فقلت : مالک يا رسول اﷲ قال : شهدت قتل الحسين انفا.

    (سنن، ترمذي، ابواب المناقب)


    میں حضرت ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ وہ رو رہی تھیں میں نے پوچھا ’’آ پ کیوں رو رہی ہیں؟،، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہانے فرمایا ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرانور اور داڑھی مبارک پر گرد و غبار ہے۔ میں نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا بات ہے؟ (یہ گرد وغبار کیسا ہے) آپ نے فرمایا ’’میں نے ابھی ابھی حسین رضی اللہ عنہ کو شہید ہوتے دیکھا ہے۔ ،،

    شب عاشور، عبادات کی رات

    البدایہ والنہایہ اور ابن کثیر میں کثرت کے ساتھ ان روایات کو مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ 9 محرم الحرام کو نواسہ رسول، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ تھکے ماندے جسم کے ساتھ اپنی خیمے کے سامنے میدان کربلا کی ریت پر تشریف فرما ہیں۔ اپنی تلوار سے ٹیک لگا رکھی ہے، یوم عاشور کا انتظار کر رہے ہیں کہ اونگھ آگئی، ادھر ابن سعد نے حتمی فیصلہ ہوجانے کے بعد اپنے عساکر کو حکم دے دیا کہ حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں پر حملہ کردو، یزیدی عساکر حملہ کی نیت سے امام عالی مقام کے اہل بیت اطہار کے خیموں کے قریب پہنچ گئے۔ یزیدی عساکر کا شور و غوغہ سن کر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ محترمہ سیدہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا باہر تشریف لائیں اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو بیدار کیا۔ آپ نے سر انور اٹھایا اور پوچھا زینب رضی اللہ عنہا کیا بات ہے؟ عرض کی امام عالی مقام ! دشمن کی طرف سے حملے کی تیاری مکمل ہوچکی ہے فرمایا ہمشیرہ زینب رضی اللہ عنہا! ہم بھی تیاری کرچکے ہیں’’ بھائی جان تیاری سے کیا مراد ہے؟ زینب رضی اللہ عنہانے مضطرب ہوکر پوچھا۔ ۔ ۔ فرمایا! زینب رضی اللہ عنہا ابھی ابھی میری آنکھ لگی تھی، نانا جان خواب میں تشریف لائے اور بتایا کہ تم عنقریب ہمارے پاس آنے والے ہو! بہن ! ہم اس انتظار میں ہیں، حضرت زینب رضی اللہ عنہا فرمانے لگیں تو بھیا! یہ مصیبت کی گھڑی آپہنچی؟ فرمایا زینب رضی اللہ عنہا افسوس نہ کر، صبر کر بہن! اللہ تم پر رحم فرمائے گا۔ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ذریعہ یزیدی لشکر سے ایک شب کی مہلت مانگی کہ زندگی کی آخری رات ہے میں اپنے رب کی جی بھر کر عبادت کرنا چاہتا ہوں۔ یزیدی لشکر نے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک رات کی مہلت دے دی۔

    حسین رضی اللہ عنہ کے اصحاب وفادار

    البدایہ النہایہ میں ابن کثیر روایت کرتے ہیں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے رفقاء کو جمع کیا اور فرمایا دیکھو کل کا دن دشمن سے مقابلے کا دن ہے۔ کل کا دن یوم شہادت ہے۔ آزمائش کی بڑی کڑی گھڑی آنے والی ہے۔ میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ تم اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ قیامت کے دن اپنے نانا جان کے حضور تمہاری بے وفائی کا گلہ نہیں کروں گا اور گواہی دوں گا کہ نانا جان یہ میرے وفادار تھے، میں نے بخوشی انہیں جانے کی اجازت دی تھی۔ جس جس کو ساتھ لے کر جانا چاہتے ہو لے جاؤ، یزیدیوں کو صرف میری گردن کی ضرورت ہے جب میری گردن کاٹ لیں گے تو ان کے کلیجے ٹھنڈے ہوجائیں گے تم اپنی جانیں بچاؤ اور حفظ و امان سے واپس چلے جاؤ۔ جودوسخا کے پروردہ امام حسین علیہ السلام آخری لمحات میں بھی دوسروں کا بھلا چاہتے نظر آتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کو زندگی کے اس نازک موڑ پر بھی اپنے ہمراہ یزیدی انتقام کی بھینٹ چڑھنے سے بچانا چاہتے ہیں لیکن عزیمت کے مسافروں کو آفرین کہ انہوں نے اپنی وفاداری کو زندگی کی عارضی مہلت پر ترجیح دی۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے جان نثار اصحاب اور شہزادوں نے عرض کیا کہ امام عالی مقام! خدا وہ دن نہ لائے کہ ہم آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں....... آپ کے بغیر دنیا میں رہ کر ہم کیا کریں گے۔ ۔ ۔ ہم کٹ مریں گے۔ ۔ ۔ ہماری گردنیں آپ کے قدموں میں ہوں گی ......ہم اپنی جانیں آپ پر نثار کر دیں گے...... ہماری لاشوں پر سے گزر کر کوئی بدبخت آپ کو نقصان پہنچائے گا۔ ۔ ۔ ہم ہرگز ہرگز آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب وفادار کا یہ جذبہ ایثار دیکھا تو فرمایا اچھا! یہ آخری رات ہے، سجدے میں گر جاؤ، ساری رات عبادت اور مناجات میں گزری۔ جان نثاران حسین کے خیموں سے رات بھر اللہ کی حمد و ثنا کی صدائیں آتی رہیں۔

    یوم عاشور

    نماز فجر جان نثار اصحاب نے امام عالی مقام کی اقتداء میں ادا کی، بارگاہ خداوندی میں کربلا والے سربسجود تھے وہ سر جنہیں آج شام نیزوں پر بھی قرآن پڑھنا تھا، اللہ رب العزت کے حضور جھکے ہوئے تھے مولا! یہ زندگی تیری ہی عطا کردہ ہے ہم اسے تیری راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں! یزیدی لشکر نے بھی بدبخت ابن سعد کے ساتھ فجر کی نماز ادا کی، 10 محرم الحرام کا سورج طلوع ہوا تو خون میں ڈوبا ہوا تھا، آسمان خون کے آنسو رو رہا تھا۔ آج علی اصغر کے حلقوم میں تیر پیوست ہونا تھا خاندان رسول ہاشمی کے بھوکے پیاسے شہزادوں کے خون سے ریگ کربلا کو سرخ ہونا تھا۔

    حر کی توبہ

    یزیدی 72 جان نثاروں اور عورتوں اور بچوں کے خلاف صف آراء ہوئے، دستور عرب کے مطابق پہلے انفرادی جنگ کا آغاز ہوا۔ یزیدی لشکر سے ایک شہ سوار نکلا، ابن سعد سے پوچھا کیا واقعی تم نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے؟ وہ بدبخت جواب دیتا ہے کہ اس کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ ہی نہیں۔ یہ سن کر شہ سوار پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے کہ یہ بدبخت تو نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کردے گا۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھرانے کا خون بہائے گا۔ اس کے دل میں ایمان کی جو چنگاری سلگ رہی تھی اس نے جوش مارا، قدرت نے اسے اس محبت اہل بیت کا ثمر دیا، اس کے اندر کا انسان بیدار ہو گیا۔ وہ خوف سے کانپ رہا تھا۔ اس کی یہ کیفیت دیکھ کر ایک شخص اس سے پوچھتا ہے، تم تو کوفہ والوں میں سے سب سے بہادر شخص ہو، تمہاری بہادری کی تو مثالیں دی جاتی ہیں، میں نے آج تک تمہیں اتنا پژمردہ نہیں دیکھا، تمہاری حالت غیر کیوں ہو رہی ہے؟ وہ شخص سر اٹھاتا ہے اور امام عالی مقام کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے میرے ایک طرف جنت ہے اور دوسری طرف دوزخ ہے۔ ۔ ۔ مجھے آج اور اسی وقت دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے ! تھوڑے سے توقف کے بعد وہ شہ سوار سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے .......میں نے دوزخ کو ٹھکرانے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اپنے لئے جنت کو منتخب کیا ہے، پھر وہ اپنے گھوڑے کو ایڑی لگاتا ہے اور امام عالی مقام کی خدمت میں پہنچتا ہے۔ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے کہتا ہے : حضور! میں آپ کا مجرم ہوں، میں ہی آپ کے قافلے کو گھیر کر میدان کربلا تک لایا ہوں کیا اس لمحے میں بھی میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ شافع محشر کے نور نظر امام عالی مقام نے فرمایا کہ اگر توبہ کرنے آئے ہو تو اب بھی قبول ہوسکتی ہے۔ وہ کہتا ہے کیا میرا رب مجھے معاف کر دے گا؟ حسین رضی اللہ عنہ : ہاں تیرا رب تجھے معاف کر دے گا۔ لیکن یہ تو بتا کہ تیرا نام کیا ہے، اس شہسوار کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں، عرض کرتا ہے میرا نام حر ہے، امام عالی مقام نے فرمایا حر تمہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی آزاد کر دیا گیا ہے۔ فرمایا : حر نیچے آؤ! وہ کہتا ہے : نہیں امام عالی مقام! اب زندہ نیچے نہیں آؤں گا، اپنی لاش آپ کے قدموں پر نچھاور کروں گا اور یزید کے لشکر کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاؤں گا۔ اس کے بعد خوش بخت حر نے یزیدی لشکر سے خطاب کیا لیکن جب آنکھوں پر مفادات کی پٹی باندھ دی جائے تو کچھ نظر نہیں آتا۔ کوفی لشکر پر حر کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔

    (البدايه والنهايه، 8 : 180 - 181)

    انفرادی جنگ کا آغاز


    اس ذبح عظیم کا لمحہ جوں جوں قریب آرہا تھا آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سختیاں بڑھتی چلی جا رہی تھیں تین دنوں کے پیاسے حسینی سپاہیوں نے منافقت کے خلاف فیصلہ کن معرکے کی تیاری شروع کر دی۔ انفرادی جنگ کا آغاز ہوا۔ جناب حر اصحاب حسین رضی اللہ عنہ کے پہلے شہید تھے اب ایک مجاہد لشکر حسین رضی اللہ عنہ سے نکلتا اور ایک یزیدی لشکر سے۔ آپ کے جان نثار دشمن کی صفوں کی صفیں الٹ دیتے، کشتوں کے پشتے لگاتے رہے، یزیدیوں کو واصل جہنم کر کے اور پھر خود بھی جام شہادت نوش کر کے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں پر نثار ہوجاتے، پہلے اصحاب حسین شہید ہوئے، غلام نثار ہوئے، قرابت دار ایک ایک کرکے حق شجاعت دیتے ہوئے صفت شہادت سے سرفراز ہوئے۔

    خاندان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانثاری

    اب پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کے افراد کی باری تھی۔ ان کے چہرے تمتما رہے تھے۔ بھوک اور پیاس سے برا حال ہو رہا تھا لیکن جذبہ شہادت کے جوش میں دنیا کی یہ چیز ان کے نزدیک بے وقعت ہوکر رہ گئی تھی۔ علی اکبر، جسے ہمشکل پیغمبر ہونے کا اعزاز حاصل تھا، بارگاہ حسین رضی اللہ عنہ میں حاضر ہوتا ہے کہ ابا جان! اب مجھے اجازت دیجئے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس کی پیشانی پر الوداعی بوسہ ثبت کرتے ہوئے جواں سال بیٹے کو سینے سے لگا لیا اور بیٹے کو حسرت بھری نظروں سے دیکھا اور دعائیں دے کر مقتل کی طرف روانہ کیا کہ بیٹا! جاؤ اللہ کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرو علی اکبر شیر کی طرح میدان جنگ میں آئے، سراپا پیکر رعنائی، سراپا پیکر حسن، سراپا پیکر جمال، مصطفیٰ و مجتبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصویر کامل، یزیدی لشکر سے نبرد آزما تھا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ مقتل کی طرف بڑھے کہ اپنے بیٹے کی جنگ کا نظارہ کریں وہ دشمن پر کس طرح جھپٹتا ہے؟ لیکن لشکر یزید میں اتنا گرد و غبار چھایا ہوا تھا کہ امام عالی مقام داد شجاعت دیتے ہوئے علی اکبر کو نہ دیکھ سکے۔

    امام عالی مقام آرزو مند تھے کہ دیکھیں میرا بیٹا کس طرح راہ حق میں استقامت کا کوہ گراں ثابت ہوتا ہے کس طرح یزیدی لشکر پر وار کرتا ہے، شجاعت حیدری کے پیکر علی اکبر برق رعد بن کر یزیدی عسا کر پر حملے کر رہے تھے، صفیں کی صفیں الٹ رہے تھے۔ لشکر یزید جس طرف دوڑتا امام عالی مقام سمجھ جاتے کہ علی اکبر اس طرف داد شجاعت دے رہا ہے، اسی طرح سمتوں کا تعین ہوتا رہا، یزیدی سپاہی واصل جہنم ہوتے رہے، علی اکبر مردانہ وار جنگ کر رہے تھے۔ تین دن کے پیاسے تھے، گرد و غبار سے فائدہ اٹھا کر گھوڑے کو ایڑی لگا کر واپس آئے عرض کی اباجان! اگر ایک گھونٹ پانی مل جائے تو تازہ دم ہوکر بدبختوں پر حملہ کروں۔ فرمایا : بیٹا! میں تمہیں پانی تو نہیں دے سکتا میری زبان کو چوس لو، امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی اپنی زبان خشک ہے، امام عالی مقام نے اپنی زبان مبارک علی اکبر کے منہ میں ڈال دی کہ بیٹا اسی طرح ناناجان اپنی زبان میرے منہ میں ڈالا کرتے تھے۔ شاید وہ میرے منہ میں اپنی زبان آج کے دن کے لئے ڈالتے تھے۔ علی اکبر نے اپنے بابا کی سوکھی ہوئی زبان چوسی، ایک نیا حوصلہ اور ولولہ ملا۔ پلٹ کر پھر لشکر یزید پر حملہ کردیا اچانک لڑتے لڑتے آواز دی۔

    يا ابتاه ادرکنی

    ابا جان آ کر مجھے تھام لیجئے

    حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سمجھ گئے کہ جواں سال بیٹے کی شہادت کی گھڑی آگئی، دوڑ کر علی اکبر کی طرف آئے، قریب ہوکر دیکھا تو ہمشکل پیغمبر علی اکبر زمین پر تھا۔ لشکر یزید کے کسی بدبخت سپاہی کا نیزہ علی اکبر کے سینے میں پیوست ہوچکا تھا، امام عالی مقام زمین پر بیٹھ گئے اپنے زخمی بیٹے کا بوسہ لیا، علی اکبر نے کہا اباجان! اگر یہ نیزے کا پھل سینے سے نکال دیں تو پھر دشمن پر حملہ کروں۔ امام عالی مقام نے علی اکبر کو اپنی گود میں لے لیا، نیزے کا پھل کھینچا تو سینے سے خون کا فوارہ بہہ نکلا اور روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی انا للہ و انا الیہ راجعون۔

    امام عالی مقام جواں سال بیٹے کی لاش کو لیکر اپنے خیموں کی طرف پلٹے، راوی بیان کرتا ہے کہ جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ میدان کربلا میں آئے تھے تو 10 محرم کے دن آپ کی عمر مبارک 56 برس پانچ ماہ اور پانچ دن تھی مگر سر انور اور ریش مبارک کا ایک بال بھی سفید نہ تھا لیکن جب جوان علی اکبر کا لاشہ اپنے بازوں میں سمٹ کر پلٹے تو سر انور کے سارے بال اور ریش مبارک سفید ہوچکی تھی۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے کہہ رہی تھیں کہ پھوپھی جان! بابا جان بوڑھے ہوگئے ہیں۔ غم نے باپ کو نڈھال کردیا تھا۔

    علی اکبر کے بعد قاسم بھی شہید ہوگئے

    امام عالی مقام رضی اللہ عنہ دیکھ رہے ہیں کہ اب کونسا گل رعنا عروس شہادت سے ہمکنار ہونے کے لئے مقتل کی طرف روانہ ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب کون علی اکبر کے ساتھ اپنی مسند شہادت بچھاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب کون مفارقت کے داغوں سے سینہ چھلنی کرتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب کون تشنہ لب حوض کوثر پر پہنچ کر اپنی پیاس بجھاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب کون اپنے لہو سے داستان حریت کا نیا باب تحریر کرتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ نظریں اٹھا کر دیکھتے ہیں تو سامنے امام حسن رضی اللہ عنہ کے لخت جگر قاسم کھڑے ہیں، یہ وہ جوان ہیں جن کے ساتھ حضرت سکینہ کی نسبت طے ہوچکی ہے، عرض کرتے ہیں چچا جان! اجازت دیجئے کہ اپنی جان آپ کے قدموں پر نثار کردوں، امام عالی مقام جو مقام رضا پر فائز ہیں فرماتے ہیں۔ قاسم! تو تو میرے بڑے بھائی حسن رضی اللہ عنہ کی اکلوتی نشانی ہے، تمہیں دیکھ کر مجھے بھائی حسن رضی اللہ عنہ یاد آجاتے ہیں، تجھے مقتل میں جانے کی اجازت کیسے دے دوں؟ قاسم نے کہا چچا جان! یہ کیسے ممکن ہے کہ میں اپنے خون سے حق کی گواہی نہ دوں؟ چچا جان! مجھے جانے دیجئے، میری لاش پر سے گزر کر ہی دشمن آپ تک پہنچ پائے گا، اگر آج آپ کے قدموں پر جان نثار نہ کرسکا تو کل ابا جان کو کیا منہ دکھاؤں گا؟ ہزاروں دعاؤں کی چھاؤں میں خانوادہء رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ چشم و چراغ بھی میدان شہادت کی طرف بڑھنے لگا۔

    حمید بن زیاد، ابن زیاد کی فوج کا سپاہی ہے، البدایہ والنہایہ میں امام ابن کثیر کی روایت کے مطابق وہ بیان کرتا ہے کہ ہم نے اچانک دیکھا کہ اہل بیت کے خیموں میں سے ایک خوبصورت اور کڑیل جوان نکلا، اس کا چہرہ چاند کا ٹکڑا معلوم ہوتا تھا۔ اس کے ہاتھ میں تلوار لہرا رہی تھی۔ غالباً اس کے بائیں جوتے کا تسمہ ٹوٹا ہوا تھا وہ شیر کی طرح حملہ آور ہوا، ابن سعد کے لشکر پر ٹوٹ پڑا اور یزیدیوں کو واصل جہنم کرنے لگا، یہ جوان امام حسن کا بیٹا قاسم تھا، یزیدیوں نے چاروں طرف سے حملہ کر دیا کسی بدبخت نے شہزادہ قاسم کے سر پر تلوار ماری آواز دی یا عماہ! اور چکرا کر گر پڑے، امام عالی مقام علی اکبر کے غم میں نڈھال تھے، بھتیجے کی لاش کے گرنے کا منظر دیکھا تو اٹھے، قاسم کی لاش پر آئے، فرمایا بیٹے قاسم، یہ کیسی گھڑی ہے کہ میں آج تیری مدد نہیں کرسکا ! امام عالی مقام نے قاسم کے لاشے کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ امام ابن کثیر کے مطابق راوی کا کہنا ہے کہ امام عالی مقام ایک جوان کی لاش اٹھا کر خیموں کی طرف لائے، وہ اتنا کڑیل جوان تھا کہ اس کے پاؤں اور ٹانگیں زمین پر لٹک رہی تھیں۔ میں نے کسی سے پوچھا یہ جوان جس کو حسین رضی اللہ عنہ اٹھا کر لے جا رہے ہیں کون ہے کسی نے مجھے بتایا کہ امام حسن رضی اللہ عنہ کا بیٹا قاسم ہے، امام عالی مقام نے قاسم کی لاش کو بھی اپنے شہزادے علی اکبر کی لاش کے ساتھ لٹا دیا۔

    معصوم علی اصغر کی شہادت

    علی اکبر اور قاسم کے لاشوں کو ایک ساتھ لٹا کر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ایک لمحہ کے لئے خیمے کے دروازے پر بیٹھے، دکھ اور کرب کی تصویر بنے کسی گہری سوچ میں غرق تھے۔ زبان حال سے کہہ رہے تھے نانا جان! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گلشن کو تاراج کر دیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہزادے خون میں نہائے ہوئے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دیکھئے علی اکبر اور قاسم کے لاشے پڑے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب کچھ دیر بعد خیموں کو آگ لگا دی جائے گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لاشوں پر گھوڑے دوڑائے جائیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نانا۔ ۔ ۔ ! آپ کی بیٹیوں سے ردائیں چھین لی جائیں گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہیں قیدی بنا کر شام کے بازاروں میں پھیرایا جائے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    خیالات کا سلسلہ اس وقت ٹوٹا جب بیبیوں نے خیموں کے اندر سے علی اصغر کو آپ کے پاس بھیج دیا۔ امام عالی مقام نے اپنے ننھے منے بیٹے کو اپنی گود میں سمیٹا، بے ساختہ پیار کیا اور اس کا سر منہ چوم کر آنے والے لمحات کے لئے نصیحتیں فرمانے لگے کہ بنی اسد کے قبیلے کے ایک بدبخت نے تیر مارا جو معصوم علی اصغر کے حلقوم میں پیوست ہوگیا۔ ننھا بچہ اپنے ہی خون میں نہا گیا۔ امام عالی مقام نے اس معصوم کے خون سے چلو بھر کر آسمان کی طرف اچھال دیا کہ باری تعالیٰ ہم تیری رضا اور خوشی کے طلب گار ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ننھے علی اصغر کی یہ قربانی قبول فرما۔ ابن کثیر کی روایت ہے جسے طبری نے بھی نقل کیا ہے کہ حضرت علی اصغر کی ولادت بھی میدان کربلا ہی میں ہوئی تھی، بیبیوں نے نومولود علی اصغر کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس اس لئے بھیجا تھا کہ وہ نومولود کے کان میں اذان کہیں ادھر امام عالی مقام نے اللہ اکبر کے الفاظ ادا کئے ادھر یزیدی لشکر کی طرف سے تیر آیا جو علی اصغر کے گلے سے پار ہوگیا اور ان کی معصوم روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ بعض روایات کے مطابق شہادت کے وقت علی اصغر کی عمر چھ ماہ تھی اور وہ پیاسے تھے امام عالی مقام کی خدمت میں انہیں اس لئے روانہ کیا گیا کہ یزیدیوں سے کہا جائے کہ ہمارا پانی تو تم نے بند کردیا ہے لیکن اس معصوم بچے نے تمہارا کیا بگاڑا ہے اس کے لئے تو پانی دے دو۔

    غیرت حسین کے منافی روایت کا تجزیہ

    میں سمجھتا ہوں کہ پانی مانگنے کی روایت امام عالی مقام کی غیرت اور حمیت کے منافی ہے وہ حسین رضی اللہ عنہ جو اصولوں کی خاطر میدان کربلا میں اپنے شہزادوں کی قربانیاں دے سکتے ہیں، پانی کی ایک بوند کے لئے یزیدی لشکر کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرسکتے تھے۔ حسین رضی اللہ عنہ ابن علی رضی اللہ عنہ کی غیرت دست سوال دراز کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اگر علی اصغر کے لئے پانی مانگنا ہی تھا تو اس کا سوال یزیدی لشکر سے کیوں کیا جاتا؟ رب ذوالجلال کی عزت کی قسم ! اگر حسین رضی اللہ عنہ پانی کے لئے بارگاہ خداوندی میں ہاتھ اٹھاتے اور آسمان کی طرف اشارہ کرتے تو چاروں طرف سے گھٹائیں دوڑ کر آتیں اور کربلا کی تپتی ہوئی زمین تک کی پیاس بجھ جاتی۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایڑھی سے زم زم کا چشمہ پھوٹ نکلا تھا اگر نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میدان کربلا میں ایڑی مارتے تو ریگ کربلا سے لاکھوں چشمے پھوٹ پڑتے، مگر نہیں یہ مقام رضا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ مقام توکل تھا۔ ۔ ۔ یہ مقام تفویض اور مقام صبرتھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ مرحلہ استقامت تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لمحہ امتحان کا لمحہ تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ آزمائش کی اس گھڑی میں ڈگمگا نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ براہ راست حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے۔ آپ صبر و رضا کے مقام پر استقامت کا کوہ گراں بنے رہے اس لئے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی نگاہ میں مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ان کا خدا تھا۔ چشم فلک حسین رضی اللہ عنہ کی استقامت کا یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ مکین گنبد خضرا کے ساتھ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور علی رضی اللہ عنہ کی نظریں بھی عزم و استقلال کے پیکر حسین رضی اللہ عنہ کے جلال و جمال کا نظارہ کر رہی تھیں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا زبان حال سے کہہ رہی تھیں بیٹا حسین رضی اللہ عنہ ! میں نے تجھے دودھ پلایا ہے۔ آج میں کربلا کے میدان میں اپنے دودھ کی لاج دیکھنے آئی ہوں۔ بیٹا! میرے دودھ کی لاج رکھنا۔ دیکھنا علی اکبر اور علی اصغر کی قربانی کے وقت تیرے قدم ڈگمگانہ نہ جائیں، ادھر علی مرتضٰے شیر خدا فرما رہے تھے حسین رضی اللہ عنہ! راہ خدا میں استقامت سے ڈٹے رہنا، اپنے بابا کے خون کی لاج رکھنا۔ ادھر محبت حسین! میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کربلا کے شہیدوں کا خون ایک شیشی میں جمع فرما رہے تھے، حسین! میر
     
  13. ثناء
    آف لائن

    ثناء ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    245
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    السلام علیکم
    دوستو! کافی عرصے بعد آنا ہوا ہے۔ اور اس کی وضاحت بعد میں کروں گی
    اس لڑی کو پڑھ کر جہاں خوشی ہوئی وہاں‌ دکھ بھی ہوا۔ کہ آپ لوگ کس بات پر دو فوجوں کی طرح صف آرا ہیں۔ میں‌ دین اسلام کا زیادہ علم تو نہیں‌ رکھتی ہاں اس سے محبت کرتی ہوں۔ آپ لوگوں کے لیے صرف اتنا عرض کروں‌گی کہ

    دوست کا دوست، دوست ہوتا اور دوست کا دشمن، دشمن ہوتا ہے۔
    اگر آپ کو حضور :saw: سے محبت ہے تو انھیں‌ جس سے محبت ہے اس سے محبت کرنی پڑے گی۔ اور جس سے انھیں محبت ہے اس کے دشمنوں سے دشمنی رکھنی پڑے گی۔
     
  14. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    شعور کربلا سے پیغام کربلا تک

    شعور کربلا سے پیغام کربلا تک

    شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے بعد کائنات انسانی کو دو کردار مل گئے۔ یزیدیت جو بدبختی ظلم، استحصال، جبر، تفرقہ پروری، قتل و غارت گری اور خون آشامی کا استعارہ بن گئی اور حسینیت جو عدل، امن، وفا اور تحفظ دین مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علامت ٹھہری، قیامت تک حسین بھی زندہ رہے گا اور حسینیت کے پرچم بھی قیامت تک لہراتے رہیں گے، یزید قیامت تک کے لئے مردہ ہے اور یزیدیت بھی قیامت تک کے لئے مردہ ہے، حسین رضی اللہ عنہ کی روح ریگ کربلا سے پھر پکار رہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی روح اجڑے ہوئے خیموں سے ہمیں صدا دے رہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج علی ا کبر اور علی اصغر کے خون کا ایک ایک قطرہ دریائے فرات کا شہدائے کربلا کے خون سے رنگین ہونے والا کنارہ ہمیں آواز دے رہا ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے والو! حسینیت کے کردار کو اپنے قول و عمل میں زندہ کرو۔ ۔ ۔ ہر دور کے یزیدوں کو پہچانو۔ ۔ ۔ یزیدیت کو پہچانو۔ ۔ ۔ یزیدیت تمہیں توڑنے اور تمہارے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لئے سرگرم عمل ہے، حسینیت تمہیں جوڑنے کے لئے ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حسینیت اخوت، محبت اور وفا کی علمبردار ہے، یزیدیت اسلام کی قدریں مٹانے کا نام ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حسینیت اسلام کی دیواروں کو پھر سے اٹھانے کا نام ہے، یزیدیت قوم کا خزانہ لوٹنے کا نام ہے، حسینیت قوم کی امانت کو بچانے کا نام ہے
    ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یزیدیت جہالت کا اور حسینیت علم کا نام ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یزید ظلم کا اور حسین امن کا نام ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یزید اندھیرے کی علامت ہے اور حسین روشنی کا استعارہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یزیدیت پستی اور ذلت کا نام ہے جبکہ حسینیت انسانیت کی نفع بخشی کا نام ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    آئیے سب مل کر یزیدیت کے خلاف ایک عہد کریں اور وقت کے یزیدوں کے قصر امارات کو پاش پاش کردیں، مسلمانو! یزیدیت کا تختہ الٹنے، ظلم و استحصال کا نام و نشان مٹانے اور غریب دشمنی پر مبنی نظام کو پاش پاش کرنے کے لئے اٹھو، اپنے اندر حسینی کردار پیدا کرو اور کربلائے عصر میں ایک نیا معرکہ بپا کردو، ایک نئی وادی فرات کو اپنے لہو سے رنگین بنادو، اپنی جان اور اپنے اموال کی قربانی دے کر مصطفوی انقلاب کی راہ ہموار کرو، تاکہ افق عالم پر مصطفوی انقلاب کا سویرا طلوع ہو اور حسین رضی اللہ عنہ کے نام پر یزیدیت کا آخری نشان بھی مٹ جائے۔ دلوں کی سلطنت حسینی کردار کے ساتھ آباد کریں اور اپنی سر زمین کو یزیدی فتنوں سے یکسر پاک کر دیں۔ اس خطے کو ہم ایک بار پھر اہل بیت اور صحابہ کرام کی محبتوں کا مرکز و محور بنادیں، فتنہ فساد، جنگ، قتل و غارتگری کی آگ کو بجھا کر حسین رضی اللہ عنہ کے جلائے ہوئے چراغ امن سے اپنے ظاہر و باطن کے اندھیرے دور کریں اور سر زمین پاکستان کو امن کا گہوارہ بنا دیں کہ پاکستان ہماری ہی نہیں پوری ملت اسلامیہ کی امانت ہے۔ یہ خطہ دیدہ و دل عالم اسلام کی پہلی دفاعی لائن ہے۔ آئیے اسے اسلام کا ناقابل تسخیر قلعہ بنا دیں۔

    مسلمانو! حسینی مشن کے چراغ جلانے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم صحابہ رضی اللہ عنھم کے نقش قدم اجاگر کرنے کے لئے ہاتھ میں ہاتھ دے کر ایک ہوجاؤ یہی وقت کی آواز ہے کہ شیعہ سنی اکٹھے ہوکر عالم کفر کے خلاف ایک ہوجائیں۔ اپنے اندر کی نفرتوں کو مٹادو، کدورتوں کو ختم کردو اب ہمیں بستی بستی قریہ قریہ محبتوں کے چراغ جلانا ہوں گے۔ مدینے سے کربلا تک کے سفر میں قربانیوں کی ان گنت داستانیں بکھری ہوئی ہیں۔ ان داستانوں کو اپنا شعار بنالو، شعور کربلا کو ہر سطح پر زندہ کرو، تاریخ کربلا ایک واقعہ نہیں ایک تحریک ہے۔ شعور کربلا کو ایک عوامی تحریک بنا دو۔ شیعہ سنی بھائی بھائی ہیں انہیں بھائی بن کر اسلام کی سربلندی کے لئے اور قوموں کی برادری میں اپنے کھوئے ہوئے مقام کے لئے ایک ساتھ جدوجہد کرنا ہوگی، دشمنان اسلام مسلمانوں کے اسی اتحاد سے خائف ہیں۔ اپنے قول و عمل سے انہیں بتا دو کہ ہم ایک ہیں، بانہوں میں بانہیں ڈال کر قرون اولیٰ کے مسلمانوں جیسی اخوت اسلامی کا مظاہرہ کرو۔

    عالمی سامراج ہمیں فرقہ واریت میں الجھا کر ہمیں علم کی روشنی سے محروم رکھنا چاہتا ہے۔ علوم جدیدہ اور جدید تر ٹیکنالوجی کو ہمارے لئے شجر ممنوعہ قرار دینا چاہتا ہے۔ وہ اپنے مذموم ارادوں کو اسی وقت پایہ تکمیل تک پہنچاسکتا ہے جب ہم اپنی اجتماعی قوت فرقہ واریت کی نذر کرتے رہیں گے۔ ہمارا اتحاد عالمی سامراج کی موت ہے۔ شعیہ اور سنی اٹھیں اور ہاتھ میں ہاتھ دے کر دشمنان اسلام کی سازشوں کو خاک میں ملادیں۔ اٹھو! نفرتوں اور کدورتوں کے بت پاش پاش کردو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاریخ کا رخ بدل دو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عالم کفر کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جاؤ اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو کہ یہی شعور کربلا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی پیغام کربلا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس پیغام کی خوشبو کا پرچم لے کر نکلو کہ منزلیں تمہارے قدم چومنے کے لئے بے تاب ہیں۔

    مآخوذ از کتاب "ذبح عظیم (ذبح اسماعیل (ع) سے ذبح حسین (رض) تک)"
    شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی

     
  15. نادیہ خان
    آف لائن

    نادیہ خان ممبر

    شمولیت:
    ‏26 جون 2006
    پیغامات:
    827
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ثناء نے بلکل درست کہا

    پیا جی آپ کو اللہ پاک جزا عطا کرے جو ایسے ایمان افروز مضمون شائع کرتے رہتے ہیں
    اور آپ نے بہت اچھا کیا جو دوسروں کی طرح بحث الجھنے کی بجائے اپنا کام کرتے رہے
    شائد ان کا مقصد ہی آپ کو بحث میں الجھا کر راستے سے بھٹکانا ہے

    آج اگر ہم غور کریں تو ایک بات واضح ہوتی ہے

    آپ کو لاکھوں کی تعداد میں ایسے مسلمان ملیں گے جن کے نام حسین :rda: کی نسبت سے حسین ہیں مگر ان یزید کو حق پر سمجھنے والے یزیدیوں کو کبھی ہمت نہیں ہوئی کہ اپنے کسی بچے کا نام یزید کے نام پر یزید رکھیں کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ یزید کی طرح یہ بھی اہل اسلام کی لعنت کے شکار ٹھہریں گے

    جہاں تک بات ہے مردوں کو برا نہ کہنے کی تو کیا آپ ابوجہل( اور اسی طرح کے دوسرے مشرک اور کافر لوگوں ) کو بھی اچھا کہیں گے وہ بھی تو مر چکا
    مسلمان مردوں کو برا واقعی نہیں کہنا چاہیے

    کیا فرعون ظالم نہیں تھا یا وہ مردہ نہیں تو کیا اسے ظالم کہنا بند کر دیں

    یزید ۔۔۔ پلید ہے ، ملعون ہے ، جہنمی ہے ۔۔۔ اس کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ کہ بقول ان لوگوں کے
    اور
    کیا وہ حاکمِ وقت نہیں تھا؟ کیا اس سے اس لعنتی کی جانبداری واضح نہیں ہو جاتی؟ آپ کے سامنے آپ کا کوئی ملازم کسی کو قتل کردے اور آپ اسے نہ روکیں تو آپ بھی برابر کے قصوار ہونگے

    خلیفہ ثانی حضرت عمر :rda: کا قول یاد کریں

    اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو اس کی ذمہ داری عمر پر ہوگی

    اسطرح تو ابو جہل کو کافر یا مشرک کہنا اور فرعون کو ظالم کہنا بھی گالی ہوگا

    پیا جی آپ اپنا کام جاری رکھیں آپ بحث میں مت الجھیں یہ لوگ نہ تو خود کوئی اچھا کام کرسکتے ہیں نہ کسی کو کردیتے ہیں آپ منزل کی طرف چلتے رہیں راستے کے پتھر خدا خود دور کرے گا
     
  16. نادیہ خان
    آف لائن

    نادیہ خان ممبر

    شمولیت:
    ‏26 جون 2006
    پیغامات:
    827
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    باذوق کے ذوق کا اندازہ تو ان کی تحریر سے ہورہا ہے کہ وہ
    ظالم کو ظالم ، جہنمی کو جہنمی اور کافر کو کافر بھی نہیں کہنا چاہتے
    رہے کارتوس خان تو جس کا نام ہی کارتوس ہو وہ تخریب کاری کے علاوہ کر بھی کیا سکتا ہے جسے اپنے بزرگوں کا دیا ہوا اسلامی نام بتانے میں بھی شرم آتی ہو اسے ایسا ہی ہونا چاہیے
     
  17. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بدبختی اور نخوت و تکبر کی انتہاء دیکھیئے کہ معاذاللہ موصوف سمجھتے ہیں کہ انہیں‌ اور ان کے آج کے دو ٹانگوں والے کسی حیوانی رہنماء مولوی کو حضور نبی اکرم :saw: کی سنت، احکامات اور آپ کے عطاکردہ قرآن و حدیث کی سمجھ بوجھ معاذاللہ نواسہء رسول سیدنا امام حسین :as: سے بڑھ کر عطا ہو چکی ہے۔

    یزید پلیدو ملعون سے انکی محبت و عقیدت انہیں اسکی نسل سے ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔


    یہ گستاخ مولوی ایسے ہی چھوٹے موٹے فورمز میں سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ انکے کسی بڑے گستاخ مولوی میں اتنی جراءت نہیں کہ اگر وہ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کو غلط سمجھتے ہیں تو براہِ راست جا کر ڈاکٹر صاحب کو چیلنج کر دے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ علم و عشق کا یہ سمندر انہیں چھٹی کا دودھ یاد دلا کر انکے گستاخ آباء و اجداد یعنی یزید پلید ملعون و ابولہب وابوجہل کی پاس جہنم کی اتھاہ گہرائیوں میں بھیج دے گا۔

    اگر میری بات غلط ہے تو میں اپنے ان دوستوں کو چیلنج کرتا ہوں کہ یہاں بحث مباحثہ کرنے کی بجائے اپنے اساتذہ، رہنمایان اور علمائے کرام سے جا کر اصرار کریں کہ ڈاکٹر طاہر القادری سے مناظرہ یا مباہلہ طے کیا جائے تاکہ حق و باطل کا فرق پوری دنیا دیکھے


    اللہ تعالی بدعقیدگی پھیلانے والے گستاخوں کو عقل و شعور اور حضور نبی اکرم :saw: اہلیبت اطہار (علیھم السلام) اور صحابہ کرام (رضوان اللہ اجمعین) کی سچی محبت، ادب اور انکے مقامات کی معرفت عطا فرمائے۔ آمین
     
  18. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    لب و لہجہ

    بےشک !!
    ایسا لہجہ ۔۔۔۔
    ڈاکٹر طاہر القادری جیسے علمائے دین (؟) کے غالی عقیدت مندوں کا ہو سکتا ہے ۔۔۔
    قرآن و سنت کی صاف و شفاف تعلیمات کے علمبرداروں کا نہیں !!
     
  19. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    آپ ثابت کریں کہ :
    یزید ظالم تھا ، جہنمی ہے ، کافر تھا ۔
    اس کے بعد ہی آپ میری بات کو QUOTE کر سکتی ہیں ۔
    جہاں تک جہنمی ہونے کی بات ہے ، یہ تو سوائے اللہ کے کوئی نہیں جان سکتا ۔
    اور جہاں تک کافر ہونے کی بات ہے ۔۔۔
    تو یاد رکھئے اس کو مسلمان ۔۔۔ باذوق یا کارتوس خان نے قرار نہیں دیا ہے ۔
    یہ امام غزالی رحمہ اللہ کی تحقیق ہے ، ملاحظہ فرمائیں :
    ===
    امام غزالی سے سوال کیا گیا کہ اس شخص کے متعلق کیا حکم ہے ۔ جو یزید پر لعنت کرتا ہے ۔ کیا یزید پر لعنت کا جواز ہے ؟ کیا یزید فی الواقعی حضرت حسین (رض) کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا یا اس کا مقصد صرف اپنی مدافعت تھا ؟
    امام غزالی نے جواب دیا :
    مسلمان پر لعنت کرنے کا قطعاََ کوئی جواز نہیں ۔
    جو شخص کسی مسلمان پر لعنت کرتا ہے وہ خود ملعون ہے جیسا کہ فرمانِ رسول (ص) ہے : مسلمان لعنت کرنے والا نہیں ہوتا ، ایک مسلمان کی حرمت ، حرمتِ کعبہ سے بھی زیادہ ہے (ابن ماجہ)۔
    یزید کا اسلام صحیح طور پر ثابت ہے ۔ جہاں تک حضرت حسین (رض) کے واقعے کا تعلق ہے تو اس بارے میں کوئی صحیح ثبوت موجود نہیں کہ یزید نے انہیں قتل کیا یا آپ (رض) کے قتل پر رضامندی ظاہر کی ۔ جب یزید کے متعلق یہ باتیں پایہ ء ثبوت ہی کو نہیں پہنچتیں تو پھر اس سے بدگمانی کیوں کر جائز ہوگی ؟ اور نبی کریم (ص) کا تو ارشاد ہے :
    اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے خون ، مال ، عزت و آبرو اور اس کے ساتھ بدگمانی کرنے کو حرام قرار دیا ہے ۔
    جس شخص کا خیال ہے کہ یزید نے حضرت حسین (رض) کے قتل کا حکم دیا یا ان کے قتل کو پسند کیا ، وہ پرلے درجے کا احمق ہے ۔

    بحوالہ : وفیات الاعیان لابن خلکان : 3 / 288 ، طبع بیروت ، 1970 ء
    ===
    اور اگر آپ کو حق ہے کہ علمائے دین کی تحقیق میں آپ ڈاکٹر طاہر قادری سے اتفاق کریں تو دوسروں سے بھی یہ حق مت چھینیں جب وہ امام غزالی کی تحقیق کا اعتبار کریں ۔
    اور بےشک و بلاشبہ علمائے دین کے زمرے میں امام غزالی رحمہ اللہ کا رتبہ ، ڈاکٹر طاہر قادری سے بہت بلند ہے ۔

    آپ پہلے یزید کو ظالم ، جہنمی یا کافر ثابت کر دیں ۔۔۔ پھر اس کے بعد کوئی بھی مسلمان آپ کو اس بات سے نہیں روکے گا کہ آپ یزید کو ظالم ، جہنمی یا کافر کا خطاب دیں ۔
    یاد رہے ۔۔۔ ثبوت اُس تاریخ سے مت دیں جو اہل سنت و الجماعت کو قبول نہیں ۔
     
  20. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    رسول کا فرمان کیا ہے ؟؟

    جہاں تک یزید نام کی بات ہے ۔۔۔ تو یہ خود شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر قادری کا اعتراف ہے کہ ۔۔۔
    اور عرب ممالک (بشمول مصر و مسلم افریقی ممالک) میں تو یہ نام بہت عام ہے ۔
    محض نام کوئی دلیل نہیں کہ اس سے نام والا لعنتی قرار پائے ۔ ہاں جن ناموں سے اللہ اور رسول (ص) نے منع فرمایا ہے وہ نام نہیں رکھنے چاہئے ۔ اور اللہ کے رسول (ص) کی کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یزید نام رکھنے سے منع فرمایا ہو ۔

    فرعون کا نام ہٹا دیجئے ۔۔۔ کیونکہ اس کو قرآن نے ظالم قرار دیا ہے ۔ اور قرآن کے ڈکلیریشن کے بعد ہر کسی کو حق ہے کہ فرعون کو ظالم کہے ۔
    اس کی دلیل دیجئے کہ کس قرآنی آیت سے یا کس حدیث سے یہ بات ثابت ہے ؟؟
    ورنہ یہ قول تو بہت بڑی جراءت ہے جس کی زد راست حضرت علی رضی اللہ عنہ پر بھی پڑتی ہے ۔
    کیا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کا سانحہ کچھ کم المناک تھا ؟ کیا قتل کا وہ جرم کچھ کم عظیم جرم تھا ؟
    پھر بھی حضرت علی (رض) کو دیکھ لیجئے کہ ان کی خلافت کی مصلحتوں نے ان کو مجبور کیا کہ وہ قاتلینِ حضرت عثمان (رض) سے نظراندازی اختیار کریں بلکہ حضرت علی (رض) نے تو قتلِ عثمان (رض) کے بعد قاتلوں کو بڑے بڑے عہدوں سے نوازا ۔ تاریخ کی کوئی سی بھی کتاب اُٹھا کر دیکھ لیں ۔

    یاد رکھئے ۔۔۔ حضرت علی (رض) کا مقام اتنا اتنا بلند ہے کہ ان کا موازنہ یزید سے ہر گز ہرگز بھی نہیں کیا جا سکتا ۔
    مگر یہ اذیت ناک حقیقت ہم اہل سنت و الجماعت اس لیے سامنے لانے پر مجبور ہوتے ہیں کہ اہلِ تشیع ہی کا نقطہ ء نظر اُس عہدِ صحابہ (وقتِ سانحہ ء کربلا ) کے تعلق سے ہمیشہ پیش کیا جاتا ہے ۔
    اللہ تعالیٰ ہماری ان جسارتوں کو معاف فرمائے ۔


    باقی رہی ابوجہل کی بات ۔
    یاد رکھئے کہ کافر کو کافر کہنا (بشرطیکہ اس کا کفر ثابت ہو جائے) ایک الگ بات ہے اور کافر کو گالیاں دینا ایک علیحدہ معاملہ ہے ۔
    جب لوگوں نے ابوجہل جیسے کفار کو گالیاں دینی شروع کیں تو رسول اللہ (ص) نے انہیں منع کیا اور فرمایا :
    ہمارے مرے ہوؤں کو گالیاں مت دو کیونکہ اس سے ہمارے زندوں کو تکلیف ہوتی ہے ۔
    (النسائی ، كتاب القسامة ، باب : القود من اللطمة ، حدیث : 4792 )

    مرنے والوں کو (جس میں ابوجہل بھی شامل ہے) گالیاں دینے سے رسول اللہ (ص) تو منع فرمائیں ۔
    اور شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر قادری مرنے کو خود بھی گالیاں دیں گے اور دوسروں کو بھی ترغیب دلائیں گے ۔۔۔
    اب یہ تو آپ کی صوابدید پر ہے کہ آپ اپنے ڈاکٹر صاحب کی بات کو قبول کرتے ہیں یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانِ مبارک کو ؟؟؟؟
     
  21. کارتوس خان
    آف لائن

    کارتوس خان ممبر

    شمولیت:
    ‏9 جنوری 2007
    پیغامات:
    24
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

    اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔
    محترم نعیم بھائی!۔ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں ہم کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے عقیدت نہیں ہےِِِ؟؟؟۔۔۔بات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس میں الجھاؤ پیدا کرنے سے گریز کریں کیونکہ کے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔۔۔ ایک اور دعوٰی جو آپ نے کیا کہ جو کچھ ہمارے بڑوں نے ہمیں سکھایا ہے۔۔۔ دین کسی بڑے یا چھوٹے کی میراث نہیں ہے۔۔۔ دین صراط مستقیم یہ وہ راہ ہے جو بتادی گئی ہے بس اس پر چل کر عمل کرنا ہے جن پر چلنے کے احکامات واضع بیان کر دیئے گئے ہیں۔۔۔بحیثیت مسلمان ہمارا طریقہ ہمارا عمل ویسا ہی ہونا چاہئے جو رب کے قرآن اور مصطفٰی جان رحمت کے فرمان کے مطابق ہو۔۔۔ ہم نے تو بس ان فرمودات کو یہاں پیش کیا ہے۔۔۔ یہاں جو ایک شعر کئی بار لکھا جا چکا ہے۔۔۔

    قتل حسین اصل میں مرگ یزید والا۔۔۔ کیا اس شعر کو یہاں پر بار بار دہرانے سے آپ عقیدت کا اظہار کر رہے ہیں؟؟؟۔۔۔نعیم بھائی حقیقت اور کہانی میں فرق ہوتا ہے۔۔۔آپ کو یاد ہوگا کچھ سال پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں اُن کے بھائی مرتضٰی بھٹو کو قتل کر دیا گیا تھا تو کیا آپ یہ کہیں گے کہ بھائی کو قتل کروانے میں بہن کا ہاتھ تھا؟؟؟۔۔۔ بلکل اسی طرح سے صدر مشرف کے دور میں کچھ سال پہلے نشترپارک میں جو بم دھماکہ ہوا جس سے کئی قیمتی جانیں گئیں تو کیا اس سے یہ ثابت ہے کہ یہ صدر مشرف نے کروایا تھا؟؟؟۔۔۔

    محترم کہانی اور حقیقت میں فرق کرنا سیکھیں۔۔۔ اور جو سب سے اہم بات ہے لفظ امام یہ اہل تشیع گروہ سے تعلق رکھنے والوں کا عقائد ہے (نظریہ امامت) مسلمانوں کا نہیں ہم مسلمانوں کے امام بس محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔۔۔اس لئے کوشش کریں کے امامت کے نظریہ کو رد کرتے ہوئے ہماری طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ لکھا کریں۔۔۔ اور رہی بات ان آرٹیکلز کی تو محترم جیسا کہ آپ نے پہلے کہا آپ کو ڈاکٹر طاہر القادری سے کوئی عقیدت لیکن یہ آرٹیکل جن صاحب نے پوسٹ کیا ہے اُن سے عقیدت آپ کی پوسٹ میں واضع دیکھی جاسکتی ہے تو ڈائریکٹ نہیں تو ان ڈائریکٹ عقیدت کا جھکاؤ ہے آپ کا طاہر القادری کی طرف۔۔۔

    نعیم صاحب!۔ میں نے تین سوال کئے تھے قرآن کی آیت کی روشنی میں کہ اگر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی کوئی دلیل ہے آپ کے پاس تو پیش کریں۔۔۔ ورنہ برائے مہربانی انتشار پھیلانے سے گریز کریں۔۔۔حقیت کو جاننے کے لئے ونوں طرف کے دلائل کو سنیں اور پھر فیصلہ کریں یکطرفہ دلائل کی روشنی میں فیصلہ کرنا دوسرے کے ساتھ زیادتی کے زمرے میں آتا اور اسلام ہمیں کسی کے ساتھ زیادتی کرنے کی قطعی اجازت نہیں دیتا۔۔۔محترم ڈاکٹر طاہر القادی صاحب کا لکھا ہوا آرٹیکل ایک طرفہ بیان ہے۔۔۔ اس لئے اس کو پڑھ کر یہ کوئی بھی نتیجہ اخذ کرنا میں سمجھتا ہوں عقلمندی نہیں ہے۔۔۔ کیونکہ کہ اگر یہ معرکہ حق و باطل کا ہے تو پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کبھی تین شرائط نہیں رکھتے۔۔۔ اس لئے میں یہ چاہوں گا جو بھی ساتھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یزید نے ہی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو مظلومیت کی حالت میں شہید کیا ہے وہ بس دلائل پیش کر دیں۔۔۔ تاکہ جو حقیقت ہم تک نہیں پہنچ سکی اس سے ہماری بھی معلومات میں اضافہ ہو۔۔۔ اور پھر ہم بھی آپ کی آواز میں آواز ملائیں۔۔۔ لیکن شعر کا دوسرا مصرا ( اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد) میں جاننا چاہتا ہوں کہ وہ کون سا اسلام زندہ ہوا اس معرکے کے بعد۔۔۔ گیارہویں والا؟؟؟۔۔۔ کونڈوں والا۔۔۔ سرےعام چھاتیوں کو پیتنے والا؟؟؟۔۔۔ خیر یہ طویل بحث ہے لیکن مجھے بس اُن تین سوالوں کے جواب اگر مل جائیں تو مہربانی ہوگی۔۔۔

    وسلام۔۔۔
     
  22. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ذمہ داری ۔۔۔ ؟؟

    اگر کسی ملک میں کوئی کسی کو قتل کرے تو اُس ملک کے حاکم کو اللہ تعالیٰ قاتل ہی کے برابر کی سزا نہیں دے گا ۔
    اس بات کی دلیل میں یہ آیت دیکھ لیجئے ۔۔۔
    أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى : سورہ النجم 53 ، آیت : 38
    کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے (کے گناہوں) کا بوجھ نہیں اٹھائے گا
    ( اردو ترجمہ ڈاکٹر طاہر قادری )

    رہ گیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ۔
    آپ نے تو اس قول کی کوئی سند بیان نہیں کی ۔۔۔
    اگر بالفرض یہ قول حضرت عمر (رض) سے ثابت بھی ہو جائے ۔۔۔ تب بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حضرت عمر (رض) کا یہ قول مذکورہ بالا قرآنی آیت کے خلاف ہے ۔
    کیونکہ قرآن میں گناہ کی سزا کے بارے میں کہا گیا ہے جبکہ حضرت عمر (رض) کے قول میں ذمہ داری کی بات ہے ۔
    اگر کوئی خلیفہ یا حاکم اپنی ذمہ داری پوری نہ کر پائے تو اس کی وجہ وہ خود اور اللہ بہتر جانتا ہے ۔ اور اس غیر ذمہ داری پر سزا یا معافی کا اختیار بھی صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے ۔ لیکن کسی مسلمان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی دوسرے مسلمان پر ذمہ داری پوری نہ کرنے کا بہانہ تراش کر اُس پر ملعون ، جہنمی اور پلید ہونے کے الزامات لگائے ۔
    اگر کوئی اتنی وضاحت کے بعد بھی الزام لگائے تو یہی ثابت ہوگا کہ الزام لگانے والا صریحاََ رسول اللہ (ص) کے ان ارشادات کی خلاف ورزی کر رہا ہے جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ :
    مُردوں کو گالی مت دو ۔۔۔ (صحیح بخاری)
    مسلمان لعنت کرنے والا نہیں ہوتا ۔۔۔ (ابن ماجہ)
     
  23. کارتوس خان
    آف لائن

    کارتوس خان ممبر

    شمولیت:
    ‏9 جنوری 2007
    پیغامات:
    24
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

    اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔
    محترم نعیم صاحب!۔ مجھے توقع تھی آپ سے اس طرح کے طرز انداز کی اس لئے مجھے کوئی خاص حیرت نہیں ہوئی۔۔۔ یہ بدبختی، نخوت، وتکبر کی انتہا کہاں دیکھیں؟؟؟۔۔۔نعیم صاحب انسان میں جذبات کا ہونا اچھی بات ہے لیکن حواس کھو بیٹھنا یہ تعلیمات ہمیں ہمارے مذہب نے نہیں سکھائیں۔۔۔ ہم چاہتے تو جو الفاظ آپ اب استعمال کر رہے ہیں بہت پہلے ہی استعمال کر چکے ہوتے لیکن ہمارا مقصد یہاں پر یہ ہونا چاہئے کہ کسی بھی ساتھی کی دل آذاری نہ ہو بلکہ اُن حقائق اور شواہد کو پیش کر کے گڑھی ہو کہانی کا پردہ فاش کریں۔۔۔ اور ظاہر جب پردہ فاش ہوگا تو تمام شواہد ایک مخصوص گروہ جو اس سانحہ کا ذمدار ہے اُسکے حق میں ہوں گے جس گروہ کے بارے میں اللہ پاک نے اپنے قرآن میں واضع بیان کر دیا ہے کہ!۔

    إِنَّ ٱلَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَہُمۡ وَكَانُواْ شِيَعََا لَّسۡتَ مِنۡہُمۡ فِی شَیۡءٍۚ إِنَّمَآ أَمۡرُهُمۡ إِلَی ٱللَّه
    جن لوگوں نے اپنے دین میں (بہت سے) رستے نکالے اور شیعہ ہو گئے ان سے تم کو کچھ کام نہیں (الانعام ١٥٩)۔۔۔

    محترم نعیم صاحب!۔ ہماری عقیدت کو یزید سے جوڑنے کا مطلب ساتھیوں کے دلوں میں ہماری جانب سے نفرت کو اُبھارنا ہے۔۔۔کیونکہ جو آرٹیکلز یہاں پر پیش کئے گئے ہیں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کے حوالے سے اس میں یزید کے کردار کو جس طرح سے پیش کیا گیا ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے ہر ساتھی یہی سمجھے گا یہ اس سارے سانحے کا ذمدار یزید ہے ویسے ہمیں بدنام کرنے کا یہ بھی ایک حربہ ہے جو آپ نے استعمال کیا۔۔۔

    محترم نعیم صاحب!۔ علماء کو چیلنچ دینا دور کی بات ہے۔۔۔ آپ اپنی اور ہماری بات کریں اگر میرے اُن سوالوں کے جواب آپ کے پاس نہیں ہیں جو سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کئے تھے تو چلیں ایک سوال کا جواب ہی دے دیں۔۔۔ کہ اُس وقت کوفہ میں رہنے والوں کا تعلق اہلسنت والجماعت سے تھا یا پھر اہل تشیع (رافضیت) سے؟؟؟۔۔۔

    وسلام۔۔۔
     
  24. کارتوس خان
    آف لائن

    کارتوس خان ممبر

    شمولیت:
    ‏9 جنوری 2007
    پیغامات:
    24
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

    اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔

    محترمہ نادیہ خان!۔ تخریبکاری پھیلانے جو الزام آپ مجھ پر لگا رہی ہیں اس کی کوئی دلیل ہے آپ کے پاس میں نے تو جو بھی بات کی ہے وہ قرآن سے دلیل نکال کر یہاں پر پیش کی ہے اور جو سوال میں نے کئے تھے تو محترمہ وہ سوال میرے نہیں تھے بلکہ وہ شرط تو سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کوفیوں کے سامنے رکھیں تھیں میں نے تو بس یہ جاننے کی جسارت کی تھی کہ اگر یہ معرکہ جس کو حق و باطل کا لبادہ اڑایا جا رہا ہے تو پھر یہ تین سوال کرنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔ کہیں آپ ایسا تو نہیں جس کو معرکہ کا ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ معرکہ نہیں بلکہ سازش ہو۔۔۔ اب ظاہر ہے کہ سازش کس کی ہوسکتی ہے تو کوفہ میں تو کوفی ہی تھے تو اس سے یہ ثابت ہوا کے یہ سازش کوفیوں کی تھی۔۔۔ اب یہاں پر ایک سوال اور پیدا ہوگیا کہ کوفہ میں رہنے والے تھے کون؟؟؟۔۔۔

    اُمید ہے کہ اس کا جواب ارسال کیا جائے جیسے یزید کے بارے میں لڑیاں پیروئی جا رہی ہیں۔۔۔

    وسلام۔۔۔
     
  25. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    باذوق کا عقیدہ سنیئے


    موصوف کو اپنے رہنمایان نے یہ سکھا دیا ہے کہ معاذاللہ انہیں دین کی سمجھ بوجھ حضرت سیدنا امام حسین :as: سے بڑھ کر عطا ہو گئی ہے
     
  26. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    سنجیدہ بات یہ ہے قرآن و حدیث نہ تو کسی کی میراث ہے اور نہ ہی کوئی اسکا ٹھیکیدار ہے جیسے آپ خود کو بنا کر پیش کر رہے ہیں۔

    اصلِ ایمان محبت و اتباعِ رسول :saw: ہے۔ اور اگر آپ کو کسی سے محبت ہو تو جس جس سے وہ محبوب محبت کرنے کو کہے گا یا جس جس سے اس محبوب کو محبت ہو گی آپ کو بھی اسی سے محبت ہو جائے گی۔
    اور جس جس سے محبوب بغض و عداوت رکھے گا ۔ انسان کو خود بخود اس سے عداوت ہوتی چلی جائے گی۔

    مندرجہ بالا بحث و مباحثہ سے ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ کس کی محبت کا جھکاؤ حضور نبی اکرم :saw: اور انکی آلِ اطہار سے ہے اور کس کس کی محبتوں کا جھکاؤ یزید اور دشمنانِ آلِ رسول :saw: سے ہے۔

    باقی جہاں تک دین کی معلومات کا تعلق ہے تو بھائی ایسے موضوعات پر ہزارہا کتب لکھی جا چکی ہیں اور یہ مسئلہ آج بھی جوں کا توں ہے۔ ایک آدمی قرآن کی ایک آیت کو اپنے حق میں استعمال کرتا ہے تو دوسرا دوسری آیت اپنے موقف کے حق میں۔
    یہی حال احادیث کا کیا جاتا ہے۔ یہ کوئی صحت مند معاشرتی رجحان نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس سے دینِ اسلام کی کوئی خدمت ہو سکتی ہے ۔
    اس لیے بہتر ہے کہ آپ لوگوں کو اگر کچھ کہنا ہے تو الگ سے اپنی لڑی بنائیں اور اس میں اپنے موقفات کے حق میں جو کہنا ہے کہہ ڈالیں۔ جسے آپ کی بات سے دلچسپی ہو گی وہ وہاں سے پڑھ لے گا۔ جسے کسی دوسرے کی بات پڑھنی ہوگی وہ وہاں سے پڑھ لے گا۔
    شکریہ
     
  27. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    یہ اقتباس باذوق کا نہیں !!

    نعیم صاحب !
    اگر آپ جذبات سے مغلوب ہو کر پوری تحریر کا سنجیدگی سے مطالعہ کرنے سے قاصر ہوں تو کم از کم یہ تو دیکھ لیا کیجئے کہ جو اقتباس آپ باذوق کے نام سے لگا رہے ہیں وہ باذوق نے پوسٹ کیا ہے یا کارتوس خان نے ؟

    بہرحال ۔۔۔ غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے ۔
     
  28. کارتوس خان
    آف لائن

    کارتوس خان ممبر

    شمولیت:
    ‏9 جنوری 2007
    پیغامات:
    24
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​


    اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔
    محترم نعیم صاحب!۔ بات سمجھ بوجھ کی نہیں ہو رہی ہے اور نہ ہی یہ کہا جا رہا ہے کہ آج کے علماء کو سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر دین کی سمجھ بوجھ ہے۔۔۔ موضوع میں شبہات پیدا کرنے سے گریز کریں۔۔۔ سادہ سی بات ہے جس کو سانحہ کو اہل تشیع معرکہ کہہ کر اُس کی یاد میں غیر اسلامی رسومات ادا کرتے ہیں اس کو سانحہ ثابت کریں۔۔۔ کیونکہ اگر یہ معرکہ ہوتا تو سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کبھی بھی مخالفیں کے سامنے شرائط نہیں رکھتے۔۔۔

    محترم معرکہ اور سازش کے فرق کو سمجھیں۔۔۔ اور ساتھیوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے سے گریز کریں۔۔۔ الحمداللہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ دین کی سمجھ جتنی سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو تھی آج کے نام نہاد شیخ الاسلاموں کو نہیں ہے۔۔۔

    وسلام۔۔۔
     
  29. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    کچھ ہمارے جواب ۔۔۔

    بےشک بےشک ۔۔۔ ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ قرآن و حدیث نہ تو کسی شیخ الاسلام کی میراث ہے اور نہ ہی کوئی ڈاکٹر اس کا ٹھیکیدار ہے ۔
    بےشک ! اور محبت کا مطلب ہی یہی ہے کہ جو کچھ محبوب کہے وہ بےچوں و چرا مان لیا جائے ۔
    اب محبوبِ خدا تو کہتے ہیں کہ :
    مُردوں کو گالی مت دو ۔۔۔ (صحیح بخاری)
    مسلمان لعنت کرنے والا نہیں ہوتا ۔۔۔ (ابن ماجہ)

    بتائیے کہ آپ محبوبِ خدا کی ان باتوں پر کس حد تک عمل کر کے اپنی محبت کا ثبوت دیتے ہیں ؟
    رسول اللہ (ص) سے ثابت ہی نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی مسلمان (چاہے وہ منافق ہی کیوں نہ ہو) سے بغض رکھا ہو۔
    بلکہ آپ (ص) کا تو فرمان ہے کہ :
    ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو .
    ۔(صحیح بخاری ، کتاب الادب باب ؛ ما ینھٰی عن التحاسد حدیث نمبر :١٥٦٩)۔
    اب آپ خود سوچ لیں کہ آپ اپنے محبوب کے فرمان کے موافق چل رہے ہیں یا خلاف ؟؟
    محبتوں کا جھکاؤ ۔۔۔ رسول اللہ (ص) کے فرمودات کی بلاجھجھک اطاعت سے ظاہر ہوتا ہے ۔ آج کے کسی شیخ الاسلام کی تحریروں کی پیش کشی سے نہیں ۔
    جب آپ مانتے ہیں کہ ہر دو موقف اس مسئلے پر موجود ہیں تو پھر آپ کا یہ اصرار کیوں ہے کہ صرف آپ حق پر ہیں اور دوسرا حُبِّ اہل بیت کے خلاف ہے ؟ کیا امام غزالی رحمہ اللہ کا یہ فرمانا :
    یزید کو ‘ رحمہ اللہ علیہ ‘ نہ صرف جائز بلکہ مستحب فعل ہے ۔۔۔ کیونکہ یزید بھی یقیناََ مومن تھا ۔
    بحوالہ : وفیات الاعیان لابن خلکان : 3 / 288 ، طبع بیروت ، 1970 ء
    اس بات کا اعلان ہے کہ امام غزالی رحمہ اللہ کو اہلِ بیت سے بغض تھا ؟ اگر نہیں تو پھر ہم پر ہی یہ الزام کیوں ؟
    براہ مہربانی فورم کے دیگر ساتھیوں کے درمیان شکوک و شبہات پیدا کرنے سے گریز کریں ۔

    مشورے کا شکریہ ۔
    مگر ضروری نہیں کہ آپ کا ہر مشورہ ہمارے لیے قابلِ عمل ہو ۔ ہاں انتظامیہ اگر ایسی شرط عائد کرے تو ہم ضرور اس پر عمل آوری کریں گے ۔
    آپ کا بھی شکریہ ۔ ویسے کیا بات ہے کہ اس دفعہ آپ کا لہجہ کافی معتدل ہے ؟
     
  30. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    دراصل شروع میں میں سمجھا تھا کہ آپ لوگ بات کو سمجھنے سمجھانے کے لیے آئے ہیں۔ آپ نے اپنی گفتگو میں تھوڑا سا اظہار بھی کیا تھا۔ لیکن طریقہ کار تنقیدی تھا۔ کیونکہ اگر آپ کے محض اپنے خیالات کا اظہار مقصود ہوتا تو آپ الگ سے لڑیاں بنا کر اپنے اپنے خیالات کا اظہار وہاں کرتے ۔ نہ کہ براہِ راست بات کو کھینچ کھانچ کر صحابہ کرام (رض) یا اہلبیت پاک (ع) کی اہانت کی طرف لے جاتے۔ اسی بات پر مجھے تھوڑا سا غصہ بھی آیا تھا۔ کہ بات کو الٹ سمجھا گیا اور اسکی بالکل الٹی تصویر آپ نے پیش کی۔ اگر آپ کے نظریات مختلف ہیں تو جیو اور جینے دو کے اصولوں کے تحت آپ اپنی الگ لڑی بنائیں اور وہاں جا کر جو مرضی آئے لکھتے جائیں اور ایسا آپ نے خود کیا بھی ہے۔

    لیکن جلد ہی محسوس ہو گیا کہ آپ سے بحث و مباحثہ صرف وقت کا ضیاع ہے کیونکہ آپ شاید دنیا میں پیدا ہی اسی مقصد کے لیے ہوئے ہیں اور اسی پر قائم و دائم رہیں گے۔

    اس لیے لکم دینکم و لی دین کے مصداق میں نے ایک تجویز دے دی کہ ۔۔۔

    آئیے ایک ہی فورم یا لڑی کو میدان جنگ بنانے اور ایک دوسرے کے عقائد کو باطل و کافر ثابت کرنے کی بجائے اپنی اپنی الگ الگ لڑیاں بنا کراپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے جائیں۔ ہمارا مقصد بھی پورا ہوتا جائے اور دوسروں ‌کو بھی سکون سے فورم چلانے میں آسانی ہو۔
     
موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اس صفحے کو مشتہر کریں