1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مطالعۂ کتب > عصریات > اسلام میں خواتین کے حقوق

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از بےلگام, ‏17 مارچ 2009۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ ۔ مرزا صاحب۔
    نیک کام جاری رکھیے
     
  2. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    اسلام کے نظام قانون میں طلاق کا اختیار مرد کے پاس ہے۔ مگر اس اختیار کو اس وقت ہی استعمال کرنے کا حکم ہے جب اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو۔ آخری چارے کے طور پر جائز ہونے کے باوجود طلاق کو حلال کاموں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے :

    أبغض الحلال عند اﷲ الطلاق.

    ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔‘‘

    1. ابوداؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب في کراهية الطلاق، 2 : 255، رقم : 2178
    2. ابن ماجه، السنن، کتاب الطلاق، باب حدثنا سويد بن سعيد، 1 : 659، رقم : 2018

    آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمایا
     
  3. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    اسلام کے نظام قانون میں طلاق کا اختیار مرد کے پاس ہے۔ مگر اس اختیار کو اس وقت ہی استعمال کرنے کا حکم ہے جب اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو۔ آخری چارے کے طور پر جائز ہونے کے باوجود طلاق کو حلال کاموں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے :

    أبغض الحلال عند اﷲ الطلاق.

    ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔‘‘

    1. ابوداؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب في کراهية الطلاق، 2 : 255، رقم : 2178
    2. ابن ماجه، السنن، کتاب الطلاق، باب حدثنا سويد بن سعيد، 1 : 659، رقم : 2018

    آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمایا
    حصہ چہارم

    4۔ طلاق کے بعد عورت کے حقوق
    اسلام کے نظام قانون میں طلاق کا اختیار مرد کے پاس ہے۔ مگر اس اختیار کو اس وقت ہی استعمال کرنے کا حکم ہے جب اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو۔ آخری چارے کے طور پر جائز ہونے کے باوجود طلاق کو حلال کاموں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے :

    أبغض الحلال عند اﷲ الطلاق.

    ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔‘‘

    1. ابوداؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب في کراهية الطلاق، 2 : 255، رقم : 2178
    2. ابن ماجه، السنن، کتاب الطلاق، باب حدثنا سويد بن سعيد، 1 : 659، رقم : 2018

    آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمایا :

    ولا خلق اﷲ شياء علٰي وجه الارض ابغض اليه من الطلاق.

    ’’اللہ تعالیٰ نے روئے زمین پر کوئی چیز طلاق سے زیادہ ناپسندیدہ پیدا نہیں فرمائی۔

    دارقطنی، السنن، 4 : 35

    اگر طلاق کے اختیار کے استعمال کے علاوہ کوئی صورت نہ ہو تو اندریں حالات اس اختیار کے استعمال سے عورت کو کسی طرح سے بھی مبتلائے اذیت کرنے کی ممانعت کی گئی۔ ارشادِ ربانی ہے :

    الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُواْ مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلاَّ أَن يَخَافَا أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ فَلاَ تَعْتَدُوهَا وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللّهِ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَO

    ’’طلاق (صرف) دو بار (تک) ہے پھر یا تو (بیوی کو) اچھے طریقے سے (زوجیت میں) روک لینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے، اور تمہارے لئے جائز نہیں کہ جو چیزیں تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لو سوائے اس کے کہ دونوں کو اندیشہ ہو کہ (اب رشتہء زوجیت برقرار رکھتے ہوئے) دونوں اﷲ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ دونوں اﷲ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، سو (اندریں صورت) ان پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی (خود) کچھ بدلہ دے کر (اس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی لے لے، یہ اﷲ کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں، پس تم ان سے آگے مت بڑھو اور جو لوگ اﷲ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں سو وہی لوگ ظالم ہیںo‘‘

    القرآن، البقره، 2 : 229

    حصہ پنجم

    کیا عورت آدھی ہے؟
    اسلام کے قانون وراثت کا سرسری اور سطحی مطالعہ کرنے والوں کو یہ مغالطہ لگتا ہے کہ عورت کا مرتبہ مرد سے کمتر ہے۔ یہ مغالطہ قرآن حکیم کی درج ذیل آیت مبارکہ کی حکمت صحیح طور پر نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے :

    لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ.

    ’’ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصہ کے برابر ہے۔‘‘

    القرآن، النساء، 4 : 11، 176

    تاہم اسلام کے قانون وراثت کا بنظر غائر جائزہ اس مغالطہ کی نفی کرتا ہے۔ اسلام کا قانون وراثت عورت کے حق کی تنصیف یا تخفیف نہیں بلکہ حسن معاشرت و معیشت کے قیام کے تصور پر مبنی ہے۔ اسلام کا قانون وراثت عورت کے تقدس و عظمت کی پاسبانی کرنے والی درج ذیل حکمتوں پر مشتمل ہے :

    (1) عورت کا حصہ تقسیم وراثت کی اکائی ہے
    متذکرہ بالا آیت مبارکہ کے الفاظ پر غور تقسیمِ میراث کے بنیادی پیمانے کو واضح کرتا ہے۔ یہاں مرد و عورت کا حصہ وراثت بیان کرتے ہوئے عورت کے حصے کو اکائی قرار دیا گیا کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصوں کے برابر ہے۔ یہ نہیں کہا گیا کہ ایک عورت کاحصہ مرد کے نصف حصہ کے برابر ہے۔ بلکہ تقسیم میراث کے نظام میں عورت کے حصہ کو اساس اور بنیاد بنایا گیا اور پھر تمام حصوں کے تعین کے لئے اسے اکائی بنایا گیا۔ گویا میراث کی تقسیم کا سارا نظام عورت ہی کے حصہ کی اکائی کے گرد گھومتا ہے جو درحقیقت عورت کی تکریم و وقار کے اعلان کا مظہر ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں