1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مطالعۂ کتب > عصریات > اسلام میں خواتین کے حقوق

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از بےلگام, ‏17 مارچ 2009۔

  1. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    مطالعۂ کتب > عصریات > اسلام میں خواتین کے حقوق

    اسلام کی آمد سے قبل عورت بہت مظلوم اور معاشرتی و سماجی عزت و احترام سے محروم تھی۔ اسے تمام برائیوں کا سبب اور قابل نفرت تصور کیا جاتا تھا۔ اہل عرب کے عورت سے اس بدترین رویے کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا
    وَيَجْعَلُونَ لِلّهِ مَا يَكْرَهُونَ.

    ’’اور وہ اللہ کے لیے وہ کچھ (یعنی بیٹیاں) ٹھہراتے ہیں جسے وہ خود ناپسند کرتے ہیںo
    القرآن، النحل، 16 : 62
    یعنی یہ لوگ فرشتوں کے اللہ تعالی کی بیٹیاں ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے جب کہ اُنہیں خود بیٹیاں پسند نہ تھیں بلکہ بیٹے پسند تھے۔

    1. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 573
    2. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 14 : 122، 123، 126
    3. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 27 : 61
    4. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 10 : 116
    5. محلي، تفسير جلالين :
    قرآن حکیم کی ان آیات سے واضح ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں عورت کا مرتبہ ناپسندیدہ تھا وہ مظلوم اور ستائی ہوئی تھی اور ہر قسم کی بڑائی اور فضیلت مردوں کے لیے تھی اس میں عورتوں کا حصہ نہ تھا حتی کہ عام معاملات زندگی میں بھی مرد اچھی چیزیں خود رکھ لیتے اور بے کار چیزیں عورتوں کو دیتے۔ اہل عرب کے اس طرز عمل کو قرآن حکیم یوں بیان کرتا ہے
    وَقَالُواْ مَا فِي بُطُونِ هَـذِهِ الْأَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُورِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلَى أَزْوَاجِنَا وَإِن يَكُن مَّيْتَةً فَهُمْ فِيهِ شُرَكَاءَ سَيَجْزِيهِمْ وَصْفَهُمْ إِنَّهُ حِكِيمٌ عَلِيمٌ0
    ’’اور وہ کہتے کہ جو ان جانوروں کے پیٹ میں ہے وہ خالص ہمارے مردوں کے لیے ہے ہماری عورتوں پر حرام ہے اور اگر (پیدا ہونے والا) جانور مرا ہوا ہو تو وہ سب اس میں شریک ہوں گے عنقریب خدا ان کو ان کی (من گھڑت) باتوں کی سزا دے گا، بے شک وہ حکمت والا خوب جاننے والا ہےo
    القرآن، الأنعام، 6 : 139

    حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ اہلِ عرب مردوں کے لیے خاص چیز ’دودھ‘ ہے جو وہ اپنی عورتوں کے لیے حرام قرار دیتے تھے اور اُن کے مرد ہی اسے پیا کرتے تھے اسی طرح جب کوئی بکری نر بچہ جنتی تو وہ ان کے مردوں کا ہوتا اور اگر بکری پیدا ہوتی تو وہ اسے ذبح نہ کرتے، یونہی چھوڑ دیتے تھے۔ اور اگر مردہ جانور ہوتا تو سب شریک ہوتے۔ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو ایسا کرنے سے منع فرما دیا۔
    1. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 242
    2. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 8 : 47، 48، 67
    3. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 11 : 128
    4. قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 6 : 338
    5. قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 7 : 95، 113
    6. قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 8 : 74
    7. شافعي، أحکام القرآن، 2 :
    ابو جعفر طبری نے اس آیت کی تفسیر میں سدی سے نقل کیا ہے :

    فهذه الانعام ما ولد منها من حي فهو خالص للرجال دون النساء و إماما ولد من ميت فيأکله الرجال و النساء.

    ’’ان جانوروں سے زندہ پیدا ہونے والا بچہ خالص ان کے مردوں کے کھانے کے لیے ہوتا اور عورتوں کے لیے حرام ہوتا اور مردہ پیدا ہونے والے بچے کو مرد و عورت سب کھاتے، (اس طرح وہ مردوں کو ترجیح دیا کرتے تھے)۔
    1. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 8 : 48
    2. بخاري، التاريخ الکبير، 4 : 7، رقم : 1775
    3. شافعي، الأم، 2 : 243
    4. مالک، المدونة الکبريٰ، 15 : 106

    ذیل میں ہم اسلام سے قبل عورتوں کے معاشرتی مقام بارے اَہم نکات بیان کریں گے
    1۔ نو مولود بچیوں کو زندہ دفن کرنے کا رواج
    دورِ جاہلیت میں مشرکین عورت کو کسی رتبے اور مقام کا اہل نہ سمجھتے تھے اس لیے وہ لڑکی پیدا ہونے پر غصہ ہوتے، حالاں کہ وہ یہ جانتے تھے کہ نظام کائنات کے تحت شادیوں کے لیے لڑکی کی پیدائش ضروری ہے اس کے باوجود اس نظام کے خلاف اس حد تک چلے جاتے کہ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا کرتے تھے۔
     
  2. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    القرآن، التکوير : 8، 9

    ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ کا واقعہ بیان کیا ہے کہ قیس بن عاصم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے اپنی بیٹیوں کو زمانۂ جاہلیت میں زندہ دفن کردیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بیٹی کی طرف سے ایک غلام آزاد کردو۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! میں بہت سے اونٹوں کا مالک ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہر بیٹی کی طرف سے ایک اونٹ کی قربانی دو۔
    ایک روایت کے مطابق انہوں نے زمانۂ جاہلیت میں اپنی آٹھ بیٹیوں کو زندہ گاڑ دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تو چاہے تو ہر لڑکی کے بدلے ایک اونٹ قربان کر دے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ انہوں نے بارہ بیٹیوں کو زندہ گاڑنے کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ہر ایک کے بدلے ایک غلام آزاد کرنے کی تلقین فرمائی۔ (1) یعنی زمانہ جاہلیت میں لوگ لڑکیوں کو عار یا فقر کے ڈر سے زندہ دفن کردیتے تھے۔ (2)
    (1) ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 4 : 478

    (2)1. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 30 : 66
    2. قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 19 : 232
    3. شافعي، احکام القرآن، 1 : 626
    4. شافعي، الام، 6 : 3
    5. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 17
    6. ابن حزم، الاحکام في اصول الاحکام، 5 : 170
    7. ابن حزم، الاحکام في اصول الاحکام، 7 : 377

    (6) نکاح شغار
    وٹے سٹے کی شادی۔ یہ وہ نکاح تھا کہ ایک شخص اپنی زیرسرپرستی رہنے والی لڑکی کا نکاح کسی شخص سے اس شرط پر کر دیتا کہ وہ اپنی کسی بیٹی، بہن وغیرہ کا نکاح اس سے کرائے گا۔ اس میں مہر بھی مقرر کرنا ضروری نہ تھا اسلام نے اس کی بھی ممانعت فرما دی۔
    (7) نکاح الاستبضاع
    فائدہ اٹھانے کے لیے عورت مہیا کرنے کا نکاح۔ مراد یہ ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کو کسی دوسرے خوبصورت مرد کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنے کے لیے بھیج دیتا اور خود اس سے الگ رہتا تاکہ اس کی نسل خوبصورت پیدا ہو اور جب اس کو حمل ظاہر ہو جاتا تو وہ عورت پھر اپنے شوہر کے پاس آجاتی۔
    8) نکاح الرہط
    اجتماعی نکاح۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تقریباً دس آدمی ایک ہی عورت کے لیے جمع ہوتے اور ہر ایک اس سے مباشرت کرتا اور جب اس کے ہاں اولاد ہوتی تو وہ ان سب کو بلواتی اور وہ بغیر کسی پس وپیش کے آجاتے پھر وہ جسے چاہتی (پسند کرتی یا اچھا سمجھتی) اسے کہتی کہ یہ بچہ تیرا ہے اور اس شخص کو اس سے انکار کرنے کی اجازت نہ ہوتی تھی۔
    9) نکاح البغایا
    فاحشہ عورتوں سے تعلق، یہ بھی نکاح رہط سے ملتا جلتا ہے مگر اس میں دو فرق تھے، ایک تویہ کہ اس میں دس سے زیادہ افراد بھی ہو سکتے تھے جبکہ نکاح رہط میں دس سے زیادہ نہ ہوتے تھے۔ دوسرے یہ کہ ان مردوں سے بچہ منسوب کرنا عورت کا نہیں بلکہ مرد کا کام ہوتا تھا۔

    مذکورہ طریقہ ہائے زواج سے ثابت اور واضح ہوتا ہے کہ عورت کی زمانۂ جاہلیت میں حیثیت مال و متاع کی طرح تھی اسے خریدا اور بیچا جاتا تھا۔
    اللہ تعالیٰ نے قتل انسانی کی ممانعت کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :

    قُلْ تَعَالَوْاْ أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلاَّ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلاَدَكُم مِّنْ إمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ وَلاَ تَقْرَبُواْ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ

    ’’آپ ان سے کہیے کہ آؤ میں تم کو وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کی ہیں وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ۔ ماں باپ کے ساتھ احسان کیا کرو۔ اور اپنی اولاد کو فقر کے ڈر سے قتل نہ کیا کرو۔ ہم تمہیں اور ان کو رزق دیں گے اور بے حیائی کے کام ظاہر ہوں یا پوشیدہ ان کے پاس نہ جانا اور کسی جان کو جن کے قتل کو خدا نے حرام کر دیا ہے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر ان باتوں کی وہ تمہیں تاکید کرتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو

    (1) زواج البعولۃ
    یہ نکاح عرب میں بہت عام تھا۔ اس میں یہ تھا کہ مرد ایک یا بہت سی عورتوں کا مالک ہوتا۔ بعولت (خاوند ہونا) سے مراد مرد کا ’’عورتیں جمع کرنا‘‘ ہوتا تھا۔ اس میں عورت کی حیثیت عام مال و متاع جیسی ہوتی۔
    (2) زواج البدل
    بدلے کی شادی، اس سے مراد دو بیویوں کا آپس میں تبادلہ تھا۔ یعنی دو مرد اپنی اپنی بیویوں کو ایک دوسرے سے بدل لیتے اور اس کا نہ عورت کو علم ہوتا، نہ اس کے قبول کرنے، مہر یا ایجاب کی ضرورت ہوتی۔ بس دوسرے کی بیوی پسند آنے پر ایک مختصر سی مجلس میں یہ سب کچھ طے پاجاتا۔

    (3) نکاح متعہ
    یہ نکاح بغیر خطبہ، تقریب اور گواہوں کے ہوتا۔ عورت اور مرد آپس میں کسی ایک مدت مقررہ تک ایک خاص مہر پر متفق ہو جاتے اور مدت مقررہ پوری ہوتے ہی نکاح خود بخود ختم ہو جاتا تھا طلاق کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی اور اس نکاح کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد ماں کی طرف منسوب ہوتی اسے باپ کا نام نہیں دیا جاتا تھا۔

    (4) نکاح الخدن
    دوستی کی شادی، اس میں مرد کسی عورت کو اپنے گھر بغیر نکاح، خطبہ اور مہر کے رکھ لیتا اور اس سے ازدواجی تعلقات قائم کر لیتا اور بعد ازاں یہ تعلق باہمی رضا مندی سے ختم ہو جاتا کسی قسم کی طلاق کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر اولاد پیدا ہو جاتی تو وہ ماں کی طرف منسوب ہوتی۔

    یہ طریقہ آج کل مغربی معاشرے میں بھی رائج ہے۔
    5) نکاح الضغینہ
    جنگ کے بعد مال اور قیدی ہاتھ لگتے اور جاہلیت میں فاتح کے لیے مفتوح کی عورتیں، مال وغیرہ سب مباح تھا یہ عورتیں فاتح کی ملکیت ہو جاتیں اور وہ چاہتا تو انہیں بیچ دیتا چاہتا تو یونہی چھوڑ دیتا اور چاہتا تو ان سے مباشرت کرتا یا کسی دوسرے شخص کو تحفہ میں دے دیتا۔ یوں ایک آزاد عورت غلام بن کربک جاتی۔ اس نکاح میں کسی خطبہ، مہر یا ایجاب و قبول کی ضرورت نہ تھی۔
     
  3. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ جب عورت کا شوہر مر جاتا تو شوہر کے ورثاء اس عورت کے حقدار ہوتے، اگر وہ چاہتے تو ان میں سے کوئی اس سے شادی کر لیتا تھا یا جس سے چاہتے اُسی سے اس کی شادی کرا دیتے اور چاہتے تو نہ کراتے۔ اس طرح عورت کے سسرالی اُس کے میکے والوں سے زیادہ اس پر حق رکھتے تھے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی :

    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُواْ النِّسَاءَ كَرْهًا وَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُواْ بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ.

    القرآن، النساء، 4 : 91
    ’’اے ایمان والو! تم کو یہ بات حلال نہیں کہ عورتوں کے (مال یا جان کے) جبراً مالک ہو جاؤ اور اس نیت سے کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ لے لو، اُنہیں مت روک رکھنا۔‘‘

    1. بخاري، الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب لا يحل لکم، 4 : 1670، رقم : 4303
    2. بخاري، الصحيح، کتاب الاکراه، باب من الاکراه، 6 : 2548، رقم : 6549
    3. ابوداؤد، السنن، کتاب النکاح، باب قوله تعالي، 2 : 230، رقم : 2089
    4. نسائي، السنن الکبريٰ، 6 : 321
    5. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 138
    6. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 4 : 305
    7. قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 5 : 94
    8. عسقلاني، فتح الباري، 8 : 247
    9. مزي، تهذيب الکمال، 20 : 131

    حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ جب کوئی شخص مر جاتا اور اُس کی باندی ہوتی تو اس کا کوئی دوست اس باندی پر کپڑا ڈال دیتا، اب کوئی دوسرا شخص اس باندی پر دعویٰ نہیں کر سکتا تھا یہ شخص اگر وہ باندی خوبصورت ہوتی تو اس سے شادی کر لیتا اور اگر بد ہئیت ہوتی تو اسے اپنے پاس تاحیات روکے رکھتا۔

    1. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 465
    2. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 4 : 307
    3. عسقلاني، فتح الباري، 8 : 247
    4. شمس الحق، عون المعبود، 6 : 80
    1. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 466
    2. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 4 : 307

    یہ زمانۂ جاہلیت کی عورت کا حال تھا، اس معاشرے میں گنتی کی چند عورتیں ہی ایسی تھیں جنہیں مالک بننے کا حق ملا اور وہ جائیداد کی مالک تھیں، جیسے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجۂ مطہرہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہما۔ یہ اپنی تجارت کی بھی مالک تھیں، لیکن یہ انفرادی واقعہ ہے، من حیث المجموع جاہلیت کے معاشرے میں عورت کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔
     
  4. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    مغربی معاشرہ اور عورت
    اسلام کی آمد سے قبل عورت الم ناک صورت حال سے دوچار تھی جس سے اسے اسلام نے آزادی عطا کی۔ یہ امر کہ عورت کے حقوق کا تحفظ اسلام کے عطا کردہ ضابطوں سے ہی ہوسکتا ہے، مغربی معاشرے میں عورت کی حالت کے مشاہدہ سے بھی پایہ ثبوت کو پہنچ جاتا ہے۔ عورت کے حقوق کے تحفظ کا مفہوم انفرادی، معاشرتی، خاندانی اور عائلی سطح پر عورت کو ایسا تقدس اور احترام فراہم کرنا ہے جس سے معاشرے میں اس کے حقوق کے حقیقی تحفظ کا اظہار بھی ہو اگر ہم حقائق اور اعداد و شمار کی روشنی میں مغربی معاشرے میں عورت کے حقوق کا جائزہ لیں تو انتہائی مایوس کن صورت حال سامنے آتی ہے۔ خاندان جو کسی بھی معاشرے میں انسان کے تحفظ و نشو و نما کی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے عورت کے تقدس کے عدم احترام کے باعث مغربی معاشرے میں شکست و ریخت کا شکار ہے۔ جس کا لازمی شکار عورت ہی بنتی ہے۔ امریکہ کے صرف 1993ء کے اعداد و شمار کے مطابق :

    2.3 ملین ہونے والی شادیوں میں سے 1.3 ملین طلاق پر منتج ہوئیں۔
    ان حالات کے پیش نظر محکمہ مردم شماری (Bureau of Census) نے پیش گوئی کی کہ ہر 10 میں سے 4 شادیوں کا انجام طلاق ہو گا۔
     
  5. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    2.3 ملین ہونے والی شادیوں میں سے 1.3 ملین طلاق پر منتج ہوئیں۔
    ان حالات کے پیش نظر محکمہ مردم شماری (Bureau of Census) نے پیش گوئی کی کہ ہر 10 میں سے 4 شادیوں کا انجام طلاق ہو گا۔
    ملک میں ہونے والی 60فیصد طلاقیں 25 سے 39 سال کی عمر کے جوڑوں میں ہوتی ہیں۔
    صرف ایک سال میں ان طلاقوں سے ایک ملین بچے متاثر ہوئے
    عموماً طلاق کے بعد 75فیصد سے 80فیصد افراد دوبارہ شادی کرتے ہیں حتیٰ کہ ملک کے اکثر لوگ دوسری یا تیسری شادی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ جن کی طلاق کا امکان پہلے سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ (1)


    مغربی معاشرے میں طلاق کی شرح کا کچھ اندازہ درج ذیل اعداد و شمار سے بھی کیا جاسکتا ہے۔

    امریکہ کے مختلف علاقوں میں شرح طلاق(2)
     
  6. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    317 311 328 329 300

    دیگر ممالک میں شرح طلاق (1996ء)
    آسٹریلیا : 106,100 شادیوں سے 52,500 طلاق پر منتج ہوئیں۔

    کیوبا : شرح طلاق 75فیصد ہے۔

    فرانس : 117,716 طلاقیں ہوئیں جن میں سے 95فیصد کا مطالبہ عدم تحفظ حقوق کے سبب سے خود خواتین نے کیا۔

    سکاٹ لینڈ : 29,611 شادیوں سے 12,222 طلاق کا شکار ہوئیں۔

    سوئٹزرلینڈ : 38,500 شادیوں سے 17,800 طلاق کا شکار ہوئیں۔ (1)

    (1) www.divorcemag.com/statistics/statsworld.shtml,15 March 2002 0200 PST.

    Statistical Abstract of USA کے مطابق امریکہ کی مختلف ریاستوں میں شرح طلاق ہر آنے والے سال میں اضافہ پذیر رہی۔ طلاق کی اس اندوہ ناک صورت حال سے متاثر ہونے والے افراد کی اکثریت کا تعلق نوجوانوں سے ہے۔ مگر 1998 میں ہونے والی طلاقوں میں 11.8فیصد خواتین 20 سال سے کم، 55.7فیصد خواتین 20 سے 29 سال کے درمیان‘ 25.8فیصد خواتین 30 سے 44 سال کے درمیان اور 6.8فیصد خواتین 45 سال سے زائد عمر کی ہیں اور ہر آنے والے سال میں شرح طلاق اضافہ پذیر رہی
     
  7. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    مغربی معاشرے کے خاندانی ڈھانچے کی شکست و ریخت کی اتنی ابتر صورت حال کو بیان کرتے ہوئے لاس اینجلس ٹائمز نے اپنی 27 مئی 1996 کی اشاعت (ص A16) میں لکھا کہ 1994 میں 1.2 ملین امریکی شادیاں طلاق کا شکار ہوئیں جو 1960 کی تعداد کا تین گنا ہیں۔ (2)

    (2)


    طلاق کی اتنی بلند شرح کے اثرات صرف نوجوانوں پر ہی نہیں بلکہ بچوں پر بھی نمایاں ہیں۔ National Center for Health Statistics کے 1988 کے جائزے کے مطابق Single-Parents خاندانوں (طلاق یافتہ اور بغیر شادی کے بننے والے والدین) کے بچے عدم دلچسپی کے باعث سکول کی تعلیم سے محروم رہتے ہیں اور لڑکیاں زندگی کی دوسری دہائی میں ہی حاملہ ہوجاتی ہیں جبکہ اکثر منشیات کے عادی بھی ہیں۔ (1)

    (1)



    معروف سماجی سائنسدان Nicholas Nill نے 1993ء میں ایک رپورٹ میں لکھا کہ طلاق یافتہ والدین کے بچے نہ صرف اقتصادی مشکلات کا شکار رہتے ہیں بلکہ تعلیم کی محرومی اور نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ لاس اینجلس کے ایک عوامی سروے کے مطابق 69فیصد امریکی طلاق کے مضر اثرات کے ازالہ کی سبیل مستحکم خاندانی نظام کو قرار دیتے ہیں۔
     
  8. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    بچوں پر طلاق کے اثرات صرف تعلیمی، نفسیاتی یا اقتصادی ہی نہیں۔ سماجی سائنسدان Sara S. McLanahan کے مطابق وہ لڑکیاں جو اپنا بچپن اور لڑکپن طلاق یافتہ والدہ کے ساتھ گزارتی ہیں مستقبل میں ان کے اسی منہج پر زندگی گزارنے کے 100فیصد سے 150فیصد تک امکانات دیکھے گئے ہیں۔ (1)

    (1)

    .

    مغربی معاشرے کی عورت صرف سماجی یا معاشرتی سطح پر ہی انحطاط کا شکار نہیں بلکہ ظاہراً معاشی و اقتصادی آزادی کی حامل ہوتے ہوئے بھی استحصال سے دوچار ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں مغربی عورت کی معاشی و اقتصادی حالت کا جائزہ یوں پیش کیا گیا :




    ’’دنیا کی آدھی آبادی عورتوں پر مشتمل ہے، دنیا کے دوتہائی کام کے گھنٹوں میں عورت کام کرتی ہے مگر اسے دنیا کی آمدنی کا دسواں حصہ ملتا ہے۔ اور وہ دنیا کی املاک کے سوویں حصہ سے بھی کم کی مالک ہے۔
     
  9. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    حصہ سوم

    اسلام میں عورت کا مقام
    اسلام کی آمد عورت کے لیے غلامی، ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزادی کا پیغام تھی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کردیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں اور عورت کو وہ حقوق عطا کیے جس سے وہ معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں۔



    یہاں ہم اسلام کے قائم کردہ معاشرے میں عورت کی تکریم و منزلت کا جائزہ پیش کرتے ہیں :

    1۔ اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے درجے میں عورت کو مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں رکھاہے، اسی طرح انسانیت کی تکوین میں عورت مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :



    يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا.

    ’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا۔ پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔
     
  10. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    القرآن، النساء، 4 : 1

    2۔ عورت پر سے دائمی معصیت کی لعنت ہٹا دی گئی اور اس پر سے ذلت کا داغ دور کر دیا گیا کہ عورت اور مرد دونوں کو شیطان نے وسوسہ ڈالا تھا، جس کے نتیجے میں وہ جنت سے اخراج کے مستحق ہوئے تھے جبکہ عیسائی روایات کے مطابق شیطان نے حضرت حواء علیہا السلام کو بہکا دیا اور یوں حضرت حواء علیہا السلام حضرت آدم علیہ السلام کے بھی جنت سے اخراج کا سبب بنیں۔ قرآن حکیم اس باطل نظریہ کا رد کرتے ہوئے فرماتا ہے
    :

    فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ.


    ’’پھر شیطان نے اُنہیں اس جگہ سے ہلا دیا اور انہیں اُس (راحت کے) مقام سے، جہاں وہ تھے، الگ کر دیا۔‘‘

    القرآن، البقرة، 2 : 36

    3۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر کا استحقاق برابر قرار پایا۔ ان دونوں میں سے جو کوئی بھی کوئی عمل کرے گا، اسے پوری اور برابر جزاء ملے گی۔ ارشادِ ربانی ہے
     
  11. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لاَ أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ.

    ’’ان کے رب نے ان کی التجا کو قبول کرلیا (اور فرمایا) کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ تم سب ایک دوسرے میں سے ہی ہو۔‘‘

    القرآن، آل عمران، 3 : 195

    4۔ عورت کو زندہ زمین میں گاڑے جانے سے خلاصی ملی۔ یہ وہ بری رسم تھی جو احترام انسانیت کے منافی تھی۔

    5۔ اسلام عورت کے لیے تربیت اور نفقہ کے حق کا ضامن بنا کہ اسے روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور علاج کی سہولت ’’ولی الامر‘‘ کی طرف سے ملے گی۔

    6۔ عورت کی تذلیل کرنے والے زمانۂ جاہلیت کے قدیم نکاح جو درحقیقت زنا تھے، اسلام نے ان سب کو باطل کرکے عورت کو عزت بخشی۔

    اب ہم ان حقوق کا جائزہ لیتے ہیں جو اسلام نے عورت کو مختلف حیثیتوں میں عطا کیے :
     
  12. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    1۔ عورت کے اِنفرادی حقوق
    (1) عصمت و عفت کا حق
    معاشرے میں عورت کی عزت و احترام کو یقینی بنانے کے لیے اس کے حق عصمت کا تحفظ ضروری ہے۔ اسلام نے عورت کو حق عصمت عطا کیا اور مردوں کو بھی پابند کیا کہ وہ اس کے حق عصمت کی حفاظت کریں :

    قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَO

    ’’(اے رسول مکرم!) مومنوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے پاکیزگی کا موجب ہے۔ اللہ اس سے واقف ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیںo‘‘

    القرآن، النور، 24 : 30

    ’’فرج‘‘ کے لغوی معنی میں تمام ایسے اعضاء شامل ہیں، جو گناہ کی ترغیب میں معاون ہو سکتے ہیں، مثلاً آنکھ، کان، منہ، پاؤں اور اس لیے اس حکم کی روح یہ قرار پاتی ہے کہ نہ بری نظر سے کسی کو دیکھو، نہ فحش کلام سنو اور نہ خود کہو، اور نہ پاؤں سے چل کر کسی ایسے مقام پر جاؤ، جہاں گناہ میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہو۔ اس کے بعد عورتوں کو حکم ہوتا ہے
     
  13. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا.



    ’’اور (اے رسول مکرم!) مومنہ عورتوں سے کہہ دو کہ (مردوں کے سامنے آنے پر) وہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت و آرائش کی نمائش نہ کریں سوائے جسم کے اس حصہ کو جو اس میں کھلا ہی رہتا ہے۔‘‘

    القرآن، النور، 24 : 31



    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ طَوَّافُونَ عَلَيْكُم بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌO
     
  14. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    ’’اے ایمان والو! چاہیے کہ تمہارے زیردست (غلام اور باندیاں) اور تمہارے ہی وہ بچے جو (ابھی) جوان نہیں ہوئے (تمہارے پاس آنے کے لئے) تین مواقع پر تم سے اجازت لیا کریں : (ایک) نمازِ فجر سے پہلے، اور (دوسرے) دوپہر کے وقت جب تم (آرام کے لئے) کپڑے اتارتے ہو اور (تیسرے) نمازِ عشاء کے بعد (جب تم خواب گاہوں میں چلے جاتے ہو)، (یہ) تین (وقت) تمہارے پردے کے ہیں، ان (اوقات) کے علاوہ نہ تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ ان پر (کیونکہ بقیہ اوقات میں وہ) تمہارے ہاں کثرت کے ساتھ ایک دوسرے کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں، اِسی طرح اللہ تمہارے لئے آیتیں واضح فرماتا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا حکمت والا ہےo‘‘


    القرآن، النور، 24 : 58


    اسلام نے قانون کے نفاذ میں بھی عورت کے اس حق کو مستحضر رکھا۔ خلفائے راشدین کا طرز عمل ایسے اقدامات پر مشتمل تھا جن سے نہ صرف عورت کے حق عصمت کو مجروح کرنے والے عوامل کا تدارک ہوا بلکہ عورت کی عصمت و عفت کا تحفظ بھی یقینی ہوا۔


    ایک شخص حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ میرے ایک مہمان نے میری ہمشیرہ کی آبروریزی کی ہے اور اسے اس پر مجبور کیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے پوچھا اس نے جرم کا اعتراف کرلیا۔ اس پر آپ نے حد زنا جاری کرکے اسے ایک سال کے لئے فدک کی طرف جلا وطن کردیا۔ لیکن اس عورت کو نہ تو کوڑے لگائے اور نہ ہی جلا وطن کیا کیونکہ اسے اس فعل پر مجبور کیا گیا تھا۔ بعد میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس خاتون کی شادی اسی مرد سے کردی۔
     
  15. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    هندي، کنز العمال، 5 : 411

    اسی طرح کا ایک اور واقعہ یوں مذکور ہے :



    استفاف رجل ناسا من هذيل فأرسلوا جارية لهم تحطب فأعجبت الضعيف فتبعها فأرادها علي نفسهانا متنعت فعارکها ساعة فانفلتت منه انفلاتة فرمته بحجر ففضت کبده فمات ثم جاء ت إلي أهلها فأخبرتهم فذهب أهلها إلي عمرا فأخبروه فأرسل عمر فوجد أثارهما فقال عمر قتيل اﷲ لا يوري أبدا.



    ’’ایک شخص نے ہذیل کے کچھ لوگوں کی دعوت کی اور اپنی باندی کو لکڑیاں کاٹنے کے لیے بھیجا۔ مہمانوں میں سے ایک مہمان کو وہ پسند آگئی اور وہ اس کے پیچھے چل پڑا اور اس کی عصمت لوٹنے کا طلب گار ہوا لیکن اس باندی نے انکار کردیا۔ تھوڑی دیر ان دونوں میں کشمکش ہوتی رہی۔ پھر وہ اپنے آپ کو چھڑانے میں کامیاب ہوگئی اور ایک پتھر اٹھا کر اس شخص کے پیٹ پر مار دیا جس سے اس کا جگر پھٹ گیا اور وہ مرگیا۔ پھر وہ اپنے گھروالوں کے پاس پہنچی اور انہیں واقعہ سنایا۔ اس کے گھر والے اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے کر گئے اور آپ سے سارا واقعہ بیان کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے معاملہ کی تحقیق کے لیے کچھ لوگوں کو بھیجا اور انہوں نے موقع پر ایسے آثار دیکھے، جس سے دونوں میں کشمکش کا ثبوت ملتا تھا۔ تب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ نے جسے مارا ہے اس کی دیت کبھی نہیں دی جاسکتی۔‘‘
     
  16. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    1. عبدالرزاق، المصنف، 9 : 435
    2. ابن ابي شيبه، المصنف، 1 : 166، رقم : 154
    3. ابن ابي شيبه، المصنف، 5 : 431، رقم : 27793
    4. خلال، السنة، 1 : 166، رقم : 154
    5. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 337
    6. ابن عبدالبر، التمهيد، 21 : 257
    7. ابن حزم، المحلي، 8 : 25
    8. ابن قدامه، المغني، 9 : 152
    9. عسقلاني، تلخيص الحبير4 : 86، رقم : 1817
    10. انصاري، خلاصة البدر المنير، 2 : 332، رقم : 2488


    (2) عزت اور رازداری کا حق
    معاشرے میں عورتوں کی عزت اور عفت و عصمت کی حفاظت ان کے رازداری کے حق کی ضمانت میں ہی مضمر ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کو رازداری کا حق عطا فرمایا اور دیگر افراد معاشرے کو اس حق کے احترام کا پابند کیا۔ قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے :
     
  17. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَO فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّى يُؤْذَنَ لَكُمْ وَإِن قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا هُوَ أَزْكَى لَكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌO


    ’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہوا کرو جب تک (اس امر کی) اجازت نہ لے لو اور اہلِ خانہ پر سلام کہو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے کہ تم ان باتوں سے نصیحت حاصل کروo اور اگر گھر میں کوئی نہ ہو تو ان میں داخل نہ ہو، جب تک تمہیں (اندر جانے کی) اجازت نہ ملے اور اگر تم سے لوٹ جانے کو کہا جائے تو لوٹ جاؤ۔ یہ تمہارے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے خوب واقف ہےo‘‘

    القرآن، النور، 24 : 27، 28

    خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہی دستور تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کے ہاں جاتے تو باہر سے السلام علیکم فرماتے، تاکہ صاحبِ خانہ کو معلوم ہو جائے اور وہ آپ کو اندر آنے کی اجازت دے دے۔ اگر پہلی بار کوئی جواب نہ ملتا تو دوسری مرتبہ السلام علیکم کہتے۔ اگر اب بھی کوئی جواب نہ ملتا تو تیسری مرتبہ پھر یہی کرتے اور اس کے بعد بھی جواب نہ ملنے پر واپس تشریف لے جاتے۔
     
  18. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے۔ حسبِ معمول السلام علیکم کہا۔ سعد نے جواب میں آہستہ سے وعلیکم السلام کہا جو آپ سن نہ سکے۔ اسی طرح تینوں بار ہوا۔ آخر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ خیال کرکے واپس جانے لگے کہ غالباً گھر میں کوئی نہیں تو حضرت سعد دوڑ کر آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساتھ لے گئے اور عرض کیا :

    يا رسول اﷲ! إني کنت أسمع تسليمک و أرد عليک ردا خفيا لتکثر علينا من السلام.

    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے جواب تو دیا تھا لیکن آہستہ سے، میں یہ چاہتا تھا کہ آپ زیادہ سے زیادہ بار ہمارے لئے دُعا کریں (کیونکہ السلام علیکم بھی سلامتی کی دُعا ہے)۔‘‘

    1. ابوداؤد، السنن، کتاب الأدب، باب کم مره يسلم، 4 : 347، رقم : 5185
    2. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 421
    3. طبراني، المعجم الکبير، 18 : 253، رقم : 902
    4. بيهقي، شعب الايمان، 6 : 439، رقم : 8808
    5. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 3 : 280

    انہی معنوں میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا :

    إذا استاذن احدکم ثلاثا فلم يوذن له فليرجع.

    ’’جب تم میں سے کوئی شخص (کسی کے گھر میں داخل ہونے کے لئے) تین مرتبہ اجازت طلب کرے اور اس کو اجازت نہ ملے تو چاہیے کہ واپس چلا آئے۔‘‘
     
  19. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    1. بخاري، الصحيح، کتاب الاسئذان، باب التسليم، 5 : 2305، رقم : 5891
    2. مسلم، الصحيح، کتاب الأداب، باب الإستئذان، 3 : 1694، رقم : 2153
    3. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 398
    4. ابن حبان، الصحيح، 13 : 122، رقم : 5806
    5. طيالسي، المسند، 1 : 70، رقم : 518
    6. حميدي، المسند، 2 : 321، رقم : 734
    7. ابويعليٰ، المسند، 2 : 269، رقم : 981
    8. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 168، رقم : 1687
    9. بيهقي، السنن، 8 : 339، رقم : 39
    10. شيباني، الآحاد والمثاني، 4 : 449، رقم : 2502

    آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر سلام کے جواب میں صاحبِ خانہ مکان کے اندر سے نام وغیرہ پوچھے تو فوراً اپنا نام بتانا چاہیے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گیا اور اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اندر سے پوچھا : کون ہے؟ میں نے عرض کیا : میں ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناگواری سے فرمایا : ’’میں ہوں، میں ہوں‘‘ اور باہر تشریف لے آئے، گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محض ’’میں ہوں‘‘ جواب دینے کو ناپسند فرمایا۔

    بخاري، الصحيح، کتاب الإستئذان، باب إزا قال من ذا، 5 : 2306، رقم : 5896
     
  20. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    اس میں تعلیم یہ ہے کہ پوچھنے پر اپنا نام بتانا چاہیے، محض ’’میں ہوں‘‘ کہنے سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کون ہے؟ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب اندر سے کوئی جواب نہیں ملتا تو متجسس لوگ ادھر ادھر جھانکنے لگتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرح کسی دوسرے کے گھر میں جھانکنے سے منع فرمایا، کیونکہ اس سے اجازت طلب کرنے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس طرح جھانکے اور صاحب خانہ اسے سزا دینے کے لئے اسے کنکری یا پتھر مار دے جس سے جھانکنے والے کی آنکھ پھوٹ جائے یا اسے کوئی زخم پہنچ جائے تو صاحب مکان بری الذمہ ہے اور جھانکنے والے کو قصاص نہیں دیا جائے گا۔

    بخاري، الصحيح، کتاب الإستئذان، باب من أجل البصر، 5 : 2304، رقم : 5888

    کسی کے گھر میں اجازت لے کر داخل ہونے کے اس عام حکم کے بعد فرمایا کہ تم کسی کے گھر سے کوئی چیز طلب کرنا چاہو تو تمہارا فرض ہے کہ پردے کے پیچھے سے سوال کرو تاکہ ایک دوسرے کا سامنا نہ کرنا پڑے جو دونوں کے لئے اخلاقی لحاظ سے اچھا ہے۔ ارشاد ربانی ہے :

    وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ.

    ’’اور جب تم عورتوں سے کوئی چیز طلب کرو تو ان سے پردے کے باہر سے مانگ لو۔ یہ تمہارے دلوں کے لئے اور ان کے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔‘‘

    القرآن، الاحزاب، 33 : 53
     
  21. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    عورتوں کے حق رازداری و عصمت و عفت کی حفاظت کے لئے پردہ کے احکام آئے۔ قرآن حکیم میں خواتین کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے اور اپنی آرائش و زیبائش کو افشا نہ کرنے کی تعلیم دے کر اس پاکیزگیء معاشرت کی بنیاد رکھی گئی جو خواتین کے حق رازداری و عصمت و عفت کی حفاظت کو یقینی بناسکتی ہے :

    وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُوْلِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO

    ’’اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی (ہم مذہب، مسلمان) عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں کے یا مردوں میں سے وہ خدمتگار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کمسنی کے باعث ابھی) عورتوں کے پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے (یہ بھی مستثنیٰ ہیں) اور نہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں (زمین پر اس طرح) مارا کریں کہ (پیروں کی جھنکار سے) انکا وہ سنگھار معلوم ہوجائے جسے وہ (حکم شریعت سے) پوشیدہ کیے ہوئے ہیں اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہوکر) فلاح پا جاؤo‘‘

    القرآن، النور، 24 : 31
     
  22. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ.

    ’’اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے۔‘‘

    القرآن، الأحزاب، 33 : 59

    (3) تعلیم و تربیت کا حق
    اسلام کی تعلیمات کا آغاز اِقْرَاْ سے کیا گیا اور تعلیم کو شرفِ انسانیت اور شناختِ پروردگار کی اساس قرار دیا گیا :

    اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَO خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍO اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُO الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِO عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْO

    ’’(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایاo اس نے انسان کو (رحم مادر میں جونک کی طرح) معلق وجود سے پیدا کیاo پڑھئیے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہےo جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایاo جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھاo‘‘

    القرآن، العلق، 96 : 1 - 5

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کی تعلیم و تربیت کو اتنا ہی اہم اور ضروری قرار دیا ہے جتنا کہ مردوں کی۔ اسلامی معاشرے میں یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ کوئی شخص لڑکی کو لڑکے سے کم درجہ دے کر اس کی تعلیم و تربیت نظرانداز کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے :
     
  23. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    الرجل تکون له الامة فيعلمها فيحسن تعليمها و يودبها فيحسن ادبها ثم يعتقها فيتزوجها فله اجران.

    ’’اگر کسی شخص کے پاس ایک لونڈی ہو پھر وہ اسے تعلیم دے اور یہ اچھی تعلیم ہو۔ اور اس کو آداب مجلس سکھائے اور یہ اچھے آداب ہوں۔ پھر آزاد کرکے اس سے نکاح کرے تو اس شخص کے لیے دوہرا اجر ہے۔‘‘

    1. بخاري، الصحيح، کتاب الجهاد، باب فضل من أسلم، 3 : 1096، رقم : 2849
    2. ابو عوانه، المسند، 1 : 103، رقم : 68
    3. ابن ابي شيبه، المصنف، 3 : 118، رقم : 12635
    4. روياني، المسند، 1 : 307، رقم : 458

    یعنی ایک اجر تو اس بات کا کہ اس نے اسے اچھی تعلیم دی اور اچھے آداب سکھائے اور دوسرا اجر اس امر کا کہ اسے آزاد کرکے اس سے نکاح کر لیا اور اس طرح اس کا درجہ بلند کیا۔


    اس سے ظاہر ہے کہ اسلام اگر باندیوں تک کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کو کارِ ثواب قرار دیتا ہے تو وہ آزاد لڑکوں اور لڑکیوں کے تعلیم سے محروم رکھے جانے کو کیونکر گوارا کر سکتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم کی عظمت ظاہر کرنے کے لیے ارشاد فرمایا کہ اس کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے :

    طلب العلم فريضة علي کل مسلم.

    ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے۔‘‘

    ایک دوسرے موقع پر حصولِ علم میں ہر طرح کے امتیاز اور تنگ نظری کو مٹانے کی خاطر نہایت لطیف پیرائے میں فرمایا :
     
  24. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    1. ابن ماجه، السنن، المقدمه، باب فضل العلماء، 1 : 81، رقم : 224
    2. ابويعليٰ، المسند، 5 : 223، رقم : 2837
    3. طبراني، المعجم الکبير، 10 : 195، رقم : 10439
    4. طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 8، رقم : 9
    5. طبراني، المعجم الصغير، 1 : 36، رقم : 22
    6. ابويعليٰ، المعجم، 1 : 257، رقم : 320
    7. شعب الايمان، 2 : 203، رقم : 1663
    8. هيثمي، مجمع الزوائد، 1 : 119
    9. منذري، الترغيب والترهيب، 1 : 52، رقم : 109
    10. کناني، مصباح الزجاجة، 1 : 30، رقم : 81

    الکلمة الحکمة ضالة المؤمن فحيث وجدها فهو احق بها.

    ’’علم اور عقل کی بات مؤمن کا گمشدہ مال ہے، پس جہاں بھی اسے پائے اسے حاصل کرنے کا وہ زیادہ حق دار ہے۔‘‘

    1. ترمذي، السنن، کتاب العلم، ماجاء في فضل الفقه، 5 : 51، رقم : 2687
    2. ابن ماجه، السنن، کتاب الزهد، باب الحکمة، 2 : 1395، رقم : 4169
    3. ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 240، رقم : 35681
    4. روياني، المسند، 1 : 75، رقم : 33
    5. بيهقي، سنن الکبريٰ، 6 : 190، رقم : 11851
    6. شيباني، الاحاد والمثاني، 3 : 264، رقم : 1639
    7. ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، 2 : 152، رقم : 2770
    8. ابونعيم اصبهاني، حلية الاولياء، 3 : 354
    9. سيوطي، شرح سنن ابن ماجه، 1 : 307، رقم : 4169
    10. مناوي، فيض القدير، 2 : 545

    (4) حسنِ سلوک کا حق
     
  25. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں سے حسن سلوک کی تعلیم دی اور زندگی کے عام معاملات میں عورتوں سے عفو و درگزر اور رافت و محبت پر مبنی سلوک کی تلقین فرمائی :

    عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : المرأة کالضلع ان اقمتها کسرتها وان استمتعت بها استمتعت بها وفيها عوج.

    ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عورت پسلی کی مانند ہے اگر اسے سیدھا کرو گے تو ٹوٹ جائے گی اگر اسی طرح اس کے ساتھ فائدہ اٹھانا چاہو تو فائدہ اٹھا سکتے ہو ورنہ اس کے اندر ٹیڑھا پن موجود ہے۔‘‘

    1. بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب المدارة مع النساء، 5 : 1987، رقم : 4889
    2. مسلم، الصحيح، کتاب الرضاع، باب الوصية بالنساء، 2 : 1090، رقم : 1468
    3. ترمذي، السنن، کتاب الطلاق، باب ماجاء في مدارة النساء، 3 : 493، رقم : 1188
    4. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 428، رقم : 9521
    5. ابن حبان، الصحيح، 9 : 487، رقم : 4180
    6. دارمي، السنن، 2 : 199، رقم : 2222
    7. ابن ابي شيبه، المصنف، 4 : 197
    8. ابوعوانة، المسند، 3 : 142، رقم : 4495
    9. طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 178، رقم : 565
    10. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 303، رقم : 304

    عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال : من کان يؤمن باﷲ واليوم الاخر فلا يؤذي جاره واستوصوا بالنساء خيرا، فانهن خلقن من ضلع و ان اعوج شئ في الضلع اعلاه فان ذهبت تقيمه کسرته وان ترکته لم يزل اعوج فاستوصوا بالنساء خيرا
     
  26. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو اللہ تعالیٰ اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے ہمسائے کو تکلیف نہ دے، اور عورتوں کے ساتھ نیکی کرنے کے بارے میں میری وصیت قبول کر لو کیونکہ وہ پسلی سے پیدا کی گئیں ہیں۔ اور سب سے اوپر والی پسلی سب سے زیادہ ٹیڑھی ہوتی ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو گے تو توڑ ڈالو گے اور اس کے حال پر چھوڑے رہو گے تب بھی ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی پس عورتوں کے ساتھ بھلائی کرنے کے بارے میں میری وصیت قبول کر لو۔‘‘

    1. بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب الوصاة بالنساء، 5 : 1987، رقم : 4890
    2. مسلم، الصحيح، کتاب الرضاع، باب الوصية بالنساء، 2 : 1091، رقم : 1468
    3. ابن ابي شيبه، المصنف، 4 : 197
    4. ابن راهويه، المسند، 1 : 250، رقم : 214
    5. ابويعليٰ، المسند، 11 : 85، رقم : 6218
    6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 295، رقم : 14499

    (5) ملکیت اور جائیداد کا حق
     
  27. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی حق ملکیت عطا کیا۔ وہ نہ صرف خود کماسکتی ہے بلکہ وراثت کے تحت حاصل ہونے والی املاک کی مالک بھی بن سکتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے :

    لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُواْ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ.

    ’’مردوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور عورتوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا۔‘‘

    القرآن، النساء، 4 : 32

    عورت کا حق ملکیت طلاق کی صورت میں بھی قائم رہتا ہے۔ طلاق رجعی کے بارے میں ابنِ قدامہ نے لکھا ہے کہ اگر شوہر نے ایسی بیماری جس میں ہلاکت کا خطرہ ہو، کے دوران میں اپنی بیوی کو طلاق دی اور پھر دورانِ عدت اسی بیماری سے مرگیا تو بیوی اس کی وارث ہوگی اور اگر بیوی مرگئی تو شوہر اُس کا وارث نہیں ہوگا۔ یہی رائے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔

    ابن قدامه، المغني، 6 : 329

    حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے :

    اذا طلقها مريضا ورثته ما کانت في العدة ولا يرثها.

    ’’اگر شوہر نے اپنی بیماری کی حالت میں بیوی کو طلاق دے دی تو بیوی دوران عدت اس کی وارث ہوگی لیکن شوہر اس کا وارث نہیں ہو گا۔‘‘

    1. عبدالرزاق، المصنف، 7 : 64، رقم : 12201
    2. ابن ابي شيبه، المصنف، 4 : 171
    3. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 363، رقم : 14908
    4. مالک بن انس، المدونة الکبريٰ، 6 : 38
    5. ابن حزم، المحلي، 10 : 219
     
  28. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    طلاق مغلظہ کے بارے میں قاضی شریح بیان کرتے ہیں کہ عروۃ البارقی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ہوکر میرے پاس آئے اور اس شخص کے بارے میں بیان کیا جو اپنی بیوی کو حالت مرض میں تین طلاقیں دے دے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک بیوی دوران عدت اس کی وارث ہوگی لیکن شوہر اس کا وارث نہیں ہوگا۔

    1. ابن حزم، المحلي، 10 : 219، 228
    2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 97

    (6) حرمتِ نکاح کا حق
    اسلام سے قبل مشرکینِ عرب بلا امتیاز ہر عورت سے نکاح جائز سمجھتے تھے۔ باپ مر جاتا تو بیٹا ماں سے شادی کر لیتا۔ جصاص نے ’احکام القرآن (2 :۔ 148)‘ میں سوتیلی ماں سے نکاح کے متعلق لکھا ہے :

    و قد کان نکاح إمراة الأب مستفيضا شائعا في الجاهلية.

    ’’اور باپ کی بیوہ سے شادی کر لینا جاہلیت میں عام معمول تھا۔‘‘

    اسلام نے عورتوں کے حقوق نمایاں کرتے ہوئے بعض رشتوں سے نکاح حرام قرار دیا اور اس کی پوری فہرست گنوا دی۔ ارشادِ ربانی ہے :
     
  29. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالاَتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللاَّتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَآئِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللاَّتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَآئِكُمُ اللاَّتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُواْ دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلاَئِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلاَبِكُمْ وَأَن تَجْمَعُواْ بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إَلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ.

    ’’تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری (وہ) مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعت میں شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں سب حرام کردی گئی ہیں۔ اور (اسی طرح) تمہاری گود میں پرورش پانے والی وہ لڑکیاں جو تمہاری ان عورتوں (کے بطن) سے ہیں جن سے تم صحبت کرچکے ہو (بھی حرام ہیں) پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو تم پر ان کی (لڑکیوں سے نکاح کرنے میں) کوئی حرج نہیں اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں (بھی تم پر حرام ہیں) جو تمہاری پشت سے ہیں اور یہ (بھی حرام ہے کہ) تم دو بہنوں کو ایک ساتھ (نکاح میں) جمع کرو سوائے اس کے جو دور جہالت میں گزر چکا۔‘‘

    القرآن، النساء، 4 : 23

    2۔ عورت کے عائلی حقوق
    (1) ماں کی حیثیت سے حق
     
  30. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل ایمان کی جنت ماں کے قدموں تلے قرار دے کر ماں کو معاشرے کا سب سے زیادہ مکرم و محترم مقام عطا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے زیادہ حسن سلوک کی مستحق ماں ہے :

    عن ابي هريرة رضي الله عنه قال : جاء رجلي الي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فقال : يا رسول اﷲ! من احق الناس بحسن صحابتي؟ قال : ’’امک، ‘‘ قال : ثم من؟ قال : ’’ثم امک، ‘‘ قال : ثم من؟ قال : ’’ثم امک‘‘، قال ثم من؟ قال : ’’ثم ابوک‘‘.

    ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ایک آدمی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری والدہ، عرض کی کہ پھر کون ہے فرمایا کہ تمہاری والدہ، عرض کی کہ پھر کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری والدہ ہے، عرض کی کہ پھر کون ہے؟ فرمایا کہ تمہارا والد ہے۔‘‘

    1. بخاري، الصحيح، کتاب الأدب، باب من أحق الناس، 5 : 2227، رقم : 5626
    2. مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة، باب بر الوالد ين4 : 1974، رقم : 2548
    3. ابن راهوية، المسند، 1 : 216، رقم : 172
    4. منذري، الترغيب و الترهيب، 3 : 220، رقم : 3766
    5. الحسيني، البيان و التعريف، 1 : 171، رقم : 447
    6. کناني، مصباح الزجاجة، 4 : 98، رقم : 1278

    (2) بیٹی کی حیثیت سے حق
     

اس صفحے کو مشتہر کریں