1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مطالعۂ کتب > عصریات > اسلام میں خواتین کے حقوق

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از بےلگام, ‏17 مارچ 2009۔

  1. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْءَاتِكُمْ وَرِيشًا.

    ’’ اے لوگو! ہم نے تمہیں لباس دیا ہے، جو تمہارے عیب ڈھانکتا ہے اور تمہاری زینت (اور آرائش کا ذریعہ ) ہے۔‘‘

    القرآن، الاعراف، 7 : 26

    یعنی مرد اور عورت ایک دوسرے کی خامیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ کرنے والے ہیں۔ مرد کا فرض ہے کہ وہ عورت کی غلطیوں پر پردہ ڈالے اور عورت کو چاہیے کہ وہ مرد کے نقائص ظاہر نہ ہونے دے۔

    (7) حسنِ سلوک کا حق
    ازدواجی زندگی میں اگر مرد اور عورت کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں تو ذمہ داریاں بھی ہیں۔ پہلے مرد کو حکم دیا :

    وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ.

    ’’عورتوں کے ساتھ معاشرت میں نیکی اور انصاف ملحوظ رکھو۔‘‘

    القرآن، النساء، 4 : 19

    اسلام سے پہلے عرب میں عورت کی خاندانی زندگی نہایت قابل رحم تھی۔ قدر و منزلت تو درکنار اسے جانوروں سے زیادہ وقعت نہیں دی جاتی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

    ان کنا في الجاهلية ما نعد للنساء امرا حتي انزل اﷲ تعالي فيهن ما انزل و قسم لهن ما قسم.
     
  2. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    ’’خدا کی قسم زمانہ جاہلیت میں ہماری نظر میں عورتوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی، حتیٰ کہ خدا نے ان سے متعلق جو احکام نازل کرنا چاہے نازل کر دیئے اور جو حقوق ان کے مقرر کرنا تھے، مقرر کر دیئے۔‘‘

    1. مسلم، الصحيح، کتاب النکاح، باب حکم العزل، 2 : 1108، رقم : 1479
    2. بخاري، الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب تبتغي مرضاة، 4 : 1886، رقم : 4629
    3. ابوعوانه، المسند، 3 : 167
    4. عسقلاني، فتح الباري، 8 : 658، رقم : 4629
    5. عسقلاني، فتح الباري، 9 : 281

    اور تو اور عورت، جانوروں اور دوسرے ساز و سامان کی طرح رہن تک رکھی جاسکتی تھی۔

    بخاري، الصحيح، کتاب الرهن، باب رهن السلاح، 2 : 887، رقم : 2375

    وہ رہن ہی نہیں رکھی جاتی تھی بلکہ فروخت بھی کی جاتی تھی غرضیکہ وہ محض مرد کی خواہشات نفسانی کی تسکین کا ذریعہ تھی اور مرد پر اس کی طرف سے کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی تھی۔ اسلام نے بتایا کہ عورت کے بھی مرد پر ایسے ہی حقوق ہیں جیسے مرد کے عورت پر ہیں اور وہ ہر طرح کے انصاف اور نیک سلوک کی حقدار ہے۔

    اسلام نے نکاح کو ایک معاہدہ قرار دے کر بھی اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے :

    وَأَخَذْنَ مِنكُم مِّيثَاقًا غَلِيظًاO

    ’’اور تمہاری عورتیں تم سے مضبوط عہد لے چکی ہیںo‘‘

    القرآن، النساء، 4 : 21

    اس ’’مضبوط عہد‘‘ کی تفسیر خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبے میں یوں فرمائی :
     
  3. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    اتقوا اﷲ في النساء فانکم اخذتموهن بامانة اﷲ.

    ’’عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، کیونکہ تم نے اُنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور امانت لیا ہے۔‘‘

    1. ابوداؤد، السنن، کتاب المناسک، باب صفة حجةالنبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 2 : 185، رقم : 1905
    2. ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب حجة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، 2 : 1025، رقم : 3074
    3. نسائي، السنن الکبريٰ، 2 : 421، رقم : 4001
    4. ابن خزيمه، الصحيح، 4 : 251، رقم : 2809
    5. دارمي، السنن، 2 : 69، رقم : 1850
    6. عبد بن حميد، المسند، 1 : 343، رقم : 1135
    7. بيهقي، السنن الکبريٰ، 5 : 8
    8. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 144، 295، 304
    9. ابن قدامه، المغني، 3 : 203

    گویا نکاح کو ایک امانت قرار دیا ہے اور جیسے ہر ایک معاہدے میں دونوں فریقوں کے کچھ حقوق ہوتے ہیں اور ان پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں، اسی طرح امانت کا حال ہے۔ چونکہ نکاح ایک معاہدہ اور ایک امانت ہے، اس لیے جیسے مرد کے عورت پر بعض حقوق ہیں، ویسے ہی عورت کی طرف سے اس کے ذمے بعض فرائض بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے عورتوں سے گھریلو زندگی میں نیکی اور انصاف کا سلوک کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس حسن سلوک کی تاکید کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

    خيرکم خيرکم لأهله.

    ’’تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنے اہل (یعنی بیوی بچوں) کے لیے اچھا ہے۔‘‘
     
  4. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فضل أزواج النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 5 : 907، رقم : 3895
    2. ابن ماجه، السنن، کتاب النکاح، باب حسن معاشرة النساء، 1 : 636، رقم : 1977
    3. ابن حبان، الصحيح، 9 : 484، رقم : 4177
    4. دارمي، السنن، 2 : 212، رقم : 2260
    5. بزار، المسند، 3 : 197، رقم : 974
    6. طبراني، المعجم الکبير، 19 : 363، رقم : 853
    7. قضاعي، مسند الشهاب، 2 : 227، رقم : 1243
    8. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 468

    (8) تشدد سے تحفظ کا حق
    خاوند پر بیوی کا یہ حق ہے کہ وہ بیوی پر ظلم اور زیادتی نہ کرے :

    وَلاَ تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لَّتَعْتَدُواْ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ وَلاَ تَتَّخِذُواْ آيَاتِ اللّهِ هُزُوًا.

    ’’اور ان کو ضرر پہنچانے اور زیادتی کرنے کے لئے نہ روکے رکھو۔ جو ایسا کرے گا اس نے گویا اپنے آپ پر ظلم کیا اور اللہ کے احکام کو مذاق نہ بنا لو۔‘‘

    القرآن، البقره، 2 : 231

    یہ آیت ان احکام سے متعلق ہے جہاں خاوند کو بار بارطلاق دینے اور رجوع کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ بعض خاوند بیوی کو دق کرنا چاہتے ہیں اس لئے اسے معروف طریقے سے طلاق دے کر آزاد نہیں کر دیتے، بلکہ طلاق دیتے ہیں اورپھر رجوع کر لیتے ہیں، پھر طلاق دیتے ہیں اور پھر کچھ دن کے بعد رجوع کر لیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عورت ایک دائمی اذیت میں مبتلا رہتی ہے۔ یہ گویا اللہ کے احکام اور رعایتوں سے تمسخر ہے۔ اس سے منع فرمایا گیا کہ ان کو ظلم اور زیادتی کے لئے نہ روک رکھو۔ اس آیت مبارکہ میں یہاں ایک عام اصول بیان کر دیا ہے کہ عورت پر ظلم اور زیادتی نہ کرو۔ ظلم اور زیادتی کی تعیین نہیں کی، کیونکہ یہ جسمانی بھی ہوسکتی ہے، ذہنی اور روحانی بھی۔
     
  5. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    (9) بچوں کی پرورش کا حق
    اس امر میں اُمتِ مسلمہ کا اجماع ہے کہ بچہ کی پرورش کی مستحق سب سے پہلے اُس کی ماں ہے۔ البتہ اس اَمر میں اختلاف ہے کہ بچہ یا بچی کی پرورش کا حق ماں کو کتنی عمر تک رہتا ہے۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک جب بچہ خود کھانے پینے، لباس پہننے اور استنجاء کرنے لگے تو اُس کی پرورش کا حق ماں سے باپ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ لڑکے کی اس حالت کو پہنچنے کی عمر کا اندازہ علامہ خصاف نے سات آٹھ سال بیان کیا ہے، البتہ ماں کو لڑکی کی پرورش کا حق اس کے بالغ ہونے تک ہے۔ یہی قول امام ابو یوسف کا ہے۔ امام محمد کے نزدیک جب لڑکی میں نفسانی خواہش ظاہر ہو تو اس وقت تک ماں کو پرورش کا حق حاصل ہے۔ متاخرین احناف نے امام محمد کے قول کو پسند کیا ہے۔

    1. داماد آفندي، مجمع الانهر، 1 : 481، 482
    2. کاساني، بدائع الصنائع، 4 : 42
    3. ابن همام، فتح القدير، 3 : 316

    ماں کو بچہ کی پرورش کا حق حاصل ہونے کے بارے میں قرآن کریم میں کوئی آیت ظاہر نص کے طور پر تو موجود نہیں مگر اقتضاء نص کے طور پر فقہاء کرام نے آیتِ رضاعت۔ ۔ ۔ وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ. . . سے ثابت کیا ہے کہ صغر سنی میں بچہ کی پرورش کا حق ماں کو حاصل ہے۔


    فقہاء کرام نے مذکورہ آیت مبارکہ کے ساتھ ساتھ درج ذیل احادیث سے بھی استدلال کیا ہے :

    1۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فتح مکہ کے بعد نکلے تو حمزہ کی بیٹی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعاقب کیا اور آواز دی : اے چچا! اے چچا! پس حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس بچی کا ہاتھ پکڑ لیا اور سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے کہا : اپنے چچا کی بیٹی کو لو۔ چنانچہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے اُسے اُٹھا لیا۔ اس بارے میں حضرت زید، علی اور جعفر رضی اللہ عنھم کا جھگڑا ہو گیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے اسے لے لیا ہے کیونکہ وہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور جعفر نے کہا : وہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میرے نکاح میں ہے جبکہ زید نے کہا کہ وہ میرے بھائی کی بیٹی ہے۔ پس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی خالہ کے حق میں فیصلہ دیا اور فرمایا
     
  6. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    الخالة بمنزلة الأم.

    ’’خالہ ماں کے درجہ میں ہے۔‘‘

    1. بخاري، الصحيح، کتاب الصلح، باب کيف يکتب هذا، 2 : 960، رقم : 2552
    2. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب عمرة القضاء، 4 : 1551، رقم : 4005
    3. ابوداؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب من أحق بالوالد، 2 : 284، رقم : 2280
    4. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 127، 168، رقم : 8456، 8578
    5. بيهقي، السنن الکبري، 8 : 5، 6
    6. مقدسي، الأحاديث المختاره، 2 : 392، 393، رقم : 779

    2۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا :

    يا رسول اﷲ! ان ابني هذا، کان بطني له وعاء، و ثديي له سقاء، و حجري له حواء، و إن أباه طلقني و أراد أن ينتزعه مني.

    ’’اے اﷲ کے رسول! یہ میرا بیٹا ہے جس کے لئے میرا پیٹ ظرف تھا اور میری چھاتی مشکیزہ اور میری گود اس کے لئے پناہ گاہ تھی۔ اس کے باپ نے مجھے طلاق دی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اسے مجھ سے لے لے۔‘‘

    اس پر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

    أنت أحق به ما لم تنکحي.

    ’’تو اپنے بچہ کی زیادہ مستحق ہے جب تک کہ تو (دوسرا) نکاح نہ کرلے۔‘‘

    1. ابوداؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب نفقة، 2 : 283، رقم : 2276
    2. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 182
     
  7. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    3. عبدالرزاق، المصنف، 7 : 153، رقم : 2276
    4. دارقطني، السنن، 3 : 304، 305
    5. حاکم، المستدرک، 2 : 225
    6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 4، 5

    3۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک انصاری عورت اُمِ عاصم کو طلاق دی۔ عاصم اپنی نانی کے زیرِ پرورش تھا۔ اُس کی نانی نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تنازعہ پیش کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فیصلہ دیا :

    أن يکون الولد مع جدته، والنفقة علي عمر، وقال : هي أحق به.

    ’’لڑکا اپنی نانی کے پاس رہے گا، عمر کو نفقہ دینا ہو گا۔ اور کہا : یہ نانی اس بچہ کی (پرورش کرنے کی) زیادہ حق دار ہے۔‘‘

    1. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 5
    2. عبدالرزاق، المصنف، 7 : 155، رقم : 12602

    ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس لڑکے کی ماں کے حق میں فیصلہ کیا پھر فرمایا کہ میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :

    لا توله والدة عن ولدها.

    ’’والدہ کو اس کے بچہ سے مت چھڑاؤ۔‘‘

    بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 5

    عبدالرحمن بن ابی زناد اہل مدینہ سے فقہاء کا قول روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے خلاف ان کے بیٹے عاصم کے حق میں فیصلہ کیا کہ اس کی پرورش اس کی نانی کرے گی یہاں تک کہ عاصم بالغ ہوگیا، اور اُم عاصم اُس دن زندہ تھی اور (دوسرے شخص کے) نکاح میں تھی۔

    بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 5
     
  8. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    ابو حسین مرغینانی حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :

    ولأن الأم أشفق وأقدر علي الحضانة، فکان الدفع إليها أنظر، و إليه أشار الصديق رضي الله عنه بقوله : ريقها خير له من شهد و عسل عندک يا عمر.

    ’’یعنی اس لئے کہ ماں بچہ کے حق میں انتہا سے زیادہ شفیق ہوتی ہے اور نگرانی و حفاظت پر مرد کی نسبت زیادہ قدرت رکھتی ہے۔ اسی شفقت کی طرف حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے اس قول میں اشارہ کیا ہے : اے عمر! بچے کی ماں کا لعاب دہن بچے کے حق میں تمہارے شہد سے بھی زیادہ شیریں ہو گا۔‘‘

    مرغيناني، الهداية، 2 : 37

    مرغینانی مزید لکھتے ہیں :

    ’’باپ کی نسبت ماں اس لئے زیادہ شفیق ہوتی ہے کہ حقیقت میں بچہ ماں کے جسم کا ایک حصہ ہوتا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات بچہ کو قینچی کے ذریعے کاٹ کر ماں سے جدا کیا جاتا ہے اور عورت اسی پرورش میں مشغول ہونے کی وجہ سے حضانت پر زیادہ حق رکھتی ہے بخلاف مرد کے کہ وہ مال حاصل کرنے پر زیادہ قدرت رکھتا ہے۔‘‘

    اسی طرح امام شافعی نے استدلال میں یہی احادیث پیش کی ہیں اور والدہ کے تقدم کی علت ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے :

    فلما کان لا يعقل کانت الأم أولي به علي أن ذلک حق للولد لا لأبوين، لأن الأم أحني عليه و أرق من الأب.
     
  9. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    ’’پس جب کہ بچہ نا سمجھ ہو تو ماں اس کی پرورش کی زیادہ حق دار ہے کیونکہ یہ بچہ کا حق ہے نہ کہ والدین کی محبت و الفت و شفقت کے درجات کا۔‘‘

    شافعي، الأم، 8 : 235

    ابن قدامہ حنبلی اپنی کتاب ’المغنی (7 : 613، 614)‘ میں لکھتے ہیں :

    الأم أحق بکفالة الطفل و المعتوة إذا طلقت. . . ولأنها أقرب إليه و أشفق عليه ولا يشارکها في القرب إلا أبوه، و ليس له مثل شفقتها، ولايتولي الحضانة بنفسه و إنما يدفعه إلي امرأته و أمه أولي به من أم أبيه.

    ’’بچے اور عدیم العقل کی پرورش کی ماں زیادہ حق دار ہے جبکہ اُسے طلاق دے دی گئی ہو۔ ۔ ۔ کیونکہ بچہ سے زیادہ قریب اور زیادہ شفقت رکھنے والی ماں ہوا کرتی ہے۔ اگرچہ اس قرب و شفقت میں باپ کے علاوہ اس کے ساتھ کوئی دوسرا شریک نہیں ہو سکتا مگر اس کے باوجود حقیقت تویہ ہے کہ باپ بھی ماں جیسی شفقت نہیں رکھتا، اور نانی دادی کی نسبت سے اولیٰ ہو گی۔‘‘

    ابن قدامہ مزید لکھتے ہیں :

    و الحضانة إنما تثبت لحظ الولد فلا تشرع علي وجه يکون فيه هلاکه و هلاک دينه
     
  10. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    ’’اور حضانت بچے کی بہبود و فلاح کے پیش نظر مقرر کی گئی ہے، لہٰذا کسی ایسے طریقے پر درست نہ ہو گی جس سے بچے کی ذات اور دین ضائع ہونے کا اندیشہ ہو۔‘‘

    (10) خلع کا حق
    اگر عورت اپنی ازدواجی زندگی سے مطمئن نہ ہو اور اپنے شوہر کی بداخلاقی، مکاری یا اُس کی کمزوری سے نالاں ہو جائے اور اُسے ناپسند کرے اور اُسے خوف ہو کہ حدود اللہ کی پاسداری نہ کر سکے گی تو وہ شوہر سے خلع حاصل کر سکتی ہے اور یہ کسی عوض کے بدلے ہو گا جس سے وہ اپنی جان چھڑائے۔ اس کی دلیل یہ آیت قرآنی ہے :

    فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ.

    ’’پس اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود قائم نہ رکھ سکیں گے تو (اندریں صورت) ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی (خود) کچھ بدلہ دے کر (اس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی حاصل کر لے‘‘۔

    القرآن، البقره، 2 : 229

    شریعتِ مطہرہ نے طلاق کو صرف شوہر کا حق قرار دیا ہے، کیونکہ شوہر ہی خاص طور سے رشتہ زوجیت قائم رکھنے کا خواہاں ہوتا ہے اور وہ زوجیت کی بناء پر کافی مال خرچ کر چکا ہوتا ہے، اس لئے وہ طلاق نہ دینے کو ترجیح دیتا ہے کیوں کہ طلاق کی صورت میں اسے مؤخر شدہ مہر اور عورت کے دوسرے مالی حقوق ادا کرنا پڑتے ہیں۔
     
  11. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    چونکہ بیوی پر شوہر کے کوئی مالی حقوق واجب نہیں ہوتے، اس لئے شریعت نے طلاق کا حق مرد کو دیا ہے اور عورت کے لئے خلع کا حق رکھا ہے تاکہ اس کے پاس بھی تفریق کا حق موجود ہو۔

    عورت کے اس حق کو احادیث مبارکہ میں یوں بیان کیا گیا :

    عن ابن عباس : أن امرأة ثابت بن قيس أتت النبي صلي الله عليه وآله وسلم فقالت : يا رسول اﷲ. ثابت بن قيس، ما اعتب عليه في خلق ولا دين، ولکني اکره الکفر في الاسلام. فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : أتردين عليه حديقته؟ قالت : نعم. قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : اقبل الحديقة و طلقها تطليقة.

    ’’حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت ثابت بن قیس کی اہلیہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئیں : یارسول اللہ! میں کسی بات پر ثابت بن قیس سے ناخوش نہیں ہوں، نہ ان کے اخلاق سے اور نہ ان کے دین سے، لیکن میں اسلام میں احسان فراموش بننا ناپسند کرتی ہوں۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا تم ان کا باغ واپس دینا چاہتی ہو؟ اُنہوں نے کہا : ہاں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان کا باغ دیدو اور ان سے طلاق لے لو۔‘‘

    بخاري، الصحيح، کتاب الطلاق، باب الخلع 5 : 2021، رقم : 4971

    تاہم اگر شوہر صحیح ہو اور عورت کے تمام شرعی حقوق پورے کرتا ہو تو اس حالت میں خلع لینا دُرست نہیں ہے۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
     
  12. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    ايما امرأة سألت زوجها الطلاق ما بأس فحرام عليها رائحة الجنة.

    ’’جو کوئی عورت اپنے شوہر سے بلاوجہ طلاق مانگے اُس پر جنت کی خوشبوحرام ہے۔‘‘

    احمد بن حنبل، المسند، 5 : 277، رقم : 22433

    خلع عورت کا ایسا حق ہے کہ جب عورت خلع لے لیتی ہے تو اپنے نفس کی مالک ہو جاتی ہے اور اُس کا معاملہ خود اُس کے ہاتھ میں آجاتا ہے، کیونکہ اس شخص کی زوجیت سے آزادی کے لئے اس نے مال خرچ کیا ہے۔

    خلع کو عورت کے لئے مرد سے چھٹکارے کا ذریعہ بنایا گیا ہے کہ جب وہ اپنے شوہر کو ناپسند کرتی ہو اور اُس کے ساتھ رہنا نہ چاہتی ہو گویا یہ طلاق کی طرح عورت کے پاس ایک حق ہے اس میں عورت کو شوہر سے لیا ہوا مہر واپس کرنا ہوتا ہے۔

    وہ چند صورتیں جن میں عورت کی طرف سے طلاق یا خلع واقع ہوتا ہے، درج ذیل ہیں :

    1۔ نکاح کے وقت عورت نے اپنے لئے طلاق کا حق رکھا ہو اور شوہر نے اُس پر موافقت کی ہو۔ اس شرط کو استعمال کرنا اُس کا حق ہے۔

    2۔ جب وہ شوہر کی مخالفت کے باعث اپنے نفس پر نافرمانی کے گناہ میں پڑنے کا خوف کرے۔

    3۔ اس سے شوہر کا سلوک برا ہو، یعنی وہ اس پر اُس کے دین یا جان کے بارے میں ظلم روا رکھے اور عورت اس سے مال دے کر طلاق حاصل کرنا چاہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے :

    فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ.

    ’’پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، سو (اندریں صورت) ان پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی (خود) کچھ بدلہ دے کر (اس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی لے لے۔
     
  13. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    القرآن، البقره، 2 : 229

    امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بیوی سے ناروا سلوک کرنے والے شوہر کے لئے اس سے مہر لینا بھی مکروہ سمجھتے ہیں، کیونکہ اسلام دین مروت ہے وہ عورت سے برا سلوک قبول نہیں کرتا کہ جب اُسے طلاق دے تو اُس کا مال بھی لے لے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :۔

    وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَاناً وَإِثْماً مُّبِيناًO

    ’’اور جب تم ایک کی جگہ دوسری بیوی لانے کا ارادہ کرو اور تم اُن میں سے کسی کو سونے کے ڈھیر بھی دے چکے ہو تو اُس میں سے کچھ نہ لو بھلا تم ناجائز طور پر اور صریح ظلم سے اپنا مال اُس سے واپس لو گےo‘‘

    القرآن، النساء 4، : 20

    4۔ شوہر اپنی بیوی سے جنسی تعلق پر قادر نہ ہو تو عورت اپنا معاملہ عدالت میں پیش کرے گی، قاضی اُسے ایک سال کی مہلت دیگا کہ (وہ علاج کرائے) اس کے بعد اگر وہ جنسی تعلق پر قادر نہ ہو سکے اور عورت علیحدگی کا مطالبہ کرے تو قاضی اُن کے درمیان علیحدگی کرا دے گا۔

    5۔ شوہر مجنون ہو جائے یا اُسے برص یا جزام (کوڑھ) کی بیماری لاحق ہو جائے تو بیوی کے لئے یہ حق ہے کہ وہ عدالت میں معاملہ اُٹھائے اور علیحدگی کی مطالبہ کرے، اس پر قاضی اُن میں علیحدگی کرا سکتا ہے۔

    مرغيناني، الهدايه، 3 : 268

    الغرض عورت کو ہر سطح پر اسلام نے وہ تحفظ اور عزت و احترام عطا کیا جس کی نظیر ہمیں کسی دوسرے نظام زندگی میں نہیں ملتی۔
     
  14. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔ مرزا عادل نذیر
    اللہ کریم آپ کو ثواب عطا فرمائے۔ آمین
     
  15. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    ششششششششششکریہ اور آمین نعیم بھایی
     
  16. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    اسلام کے نظام قانون میں طلاق کا اختیار مرد کے پاس ہے۔ مگر اس اختیار کو اس وقت ہی استعمال کرنے کا حکم ہے جب اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو۔ آخری چارے کے طور پر جائز ہونے کے باوجود طلاق کو حلال کاموں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے :

    أبغض الحلال عند اﷲ الطلاق.

    ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔‘‘

    1. ابوداؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب في کراهية الطلاق، 2 : 255، رقم : 2178
    2. ابن ماجه، السنن، کتاب الطلاق، باب حدثنا سويد بن سعيد، 1 : 659، رقم : 2018

    آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمایا :

    ولا خلق اﷲ شياء علٰي وجه الارض ابغض اليه من الطلاق.
     
  17. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    ’’اللہ تعالیٰ نے روئے زمین پر کوئی چیز طلاق سے زیادہ ناپسندیدہ پیدا نہیں فرمائی۔‘‘

    دارقطنی، السنن، 4 : 35

    اگر طلاق کے اختیار کے استعمال کے علاوہ کوئی صورت نہ ہو تو اندریں حالات اس اختیار کے استعمال سے عورت کو کسی طرح سے بھی مبتلائے اذیت کرنے کی ممانعت کی گئی۔ ارشادِ ربانی ہے :

    الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُواْ مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلاَّ أَن يَخَافَا أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ فَلاَ تَعْتَدُوهَا وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللّهِ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَO

    ’’طلاق (صرف) دو بار (تک) ہے پھر یا تو (بیوی کو) اچھے طریقے سے (زوجیت میں) روک لینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے، اور تمہارے لئے جائز نہیں کہ جو چیزیں تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لو سوائے اس کے کہ دونوں کو اندیشہ ہو کہ (اب رشتہء زوجیت برقرار رکھتے ہوئے) دونوں اﷲ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ دونوں اﷲ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، سو (اندریں صورت) ان پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی (خود) کچھ بدلہ دے کر (اس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی لے لے، یہ اﷲ کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں، پس تم ان سے آگے مت بڑھو اور جو لوگ اﷲ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں سو وہی لوگ ظالم ہیںo‘‘

    القرآن، البقره، 2 : 229

    وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَO

    ’’اور طلاق یافتہ عورتوں کو بھی مناسب طریقے سے خرچ دیا جائے، یہ پرہیزگاروں پر واجب ہےo‘‘

    القرآن، البقره، 2 : 241

    وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُواْ حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلاَحًا يُوَفِّقِ اللّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًاO

    ’’اور اگر تمہیں ان دونوں کے درمیان مخالفت کا اندیشہ ہو تو تم ایک منصف مرد کے خاندان سے اور ایک منصف عورت کے خاندان سے مقرر کرلو، اگر وہ دونوں صلح کا ارادہ رکھیں تو اللہ دونوں کے درمیان موافقت پیدا فرما دے گا، بیشک اللہ خوب جاننے والا خبردار ہےo‘‘

    القرآن، النساء، 4 : 35

    اگرچہ طلاق کا حق مرد کو دیا گیا مگر اس ذیل میں بھی عورت کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے درج ذیل حقوق عطا کئے گئے :

    (1) مہر کا حق
    شریعت میں سب سے اہم حق جو طلاق کے وقت عورت کو دیا گیا ہے وہ مہر ہے، البتہ مباشرت سے قبل طلاق ہونے کی صورت میں آدھا مہر ملتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے :
     
  18. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ.

    ’’اگر تم انہیں چھونے سے قبل طلاق دو اور اُن کے لئے مہر مقرر کیا ہو تو مقرر کئے ہوئے مہر کا آدھا اُنہیں دو‘‘۔

    القرآن، البقره، 2 : 237

    اسی طرح عورت کو خرچ و سامان دینا ہے، شریعت اسلامیہ نے عورت کے لئے جب اسے طلاق دی جائے خرچ و سامان دینے کا حکم دیا ہے۔ امام احمد کا مسلک ہے کہ ہر قسم کی مطلقہ کے لئے یہ حق ہے اور یہ ہر ایک کے لئے واجب ہے یہی قول حضرت علی رضی اللہ عنہ، حسن بصری، سعید بن جبیر، ابوقلابہ زہری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا ہے، اُن کی دلیل یہ آیت ہے :

    وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَO

    ’’اور طلاق یافتہ عورتوں کو بھی مناسب طریقے سے خرچہ دیا جائے یہ پرہیزگاروں پر واجب ہےo‘‘

    القرآن، البقره، 2 : 241

    دوسرے مقام پرارشاد ہے :

    يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًاO
     
  19. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    ’’اے نبیء (مکرَّم!) اپنی ازواج سے فرما دیں کہ اگر تم دنیا اور اس کی زینت و آرائش کی خواہش مند ہو تو آؤ میں تمہیں مال و متاع دے دوں اور تمہیں حسنِ سلوک کے ساتھ رخصت کر دوںo‘‘

    القرآن، الأحزاب، 33 : 28

    (2) میراث کا حق
    اسلام نے عورت کویہ حق دیا ہے کہ طلاق کے بعد وہ جب تک عدت میں ہے، اگر اس کے شوہر کا انتقال ہو جائے تو اس کے ترکہ سے میراث ملے گی، جس طرح غیر مطلقہ بیوی کو ملتی ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب تک اس نے شادی نہ کی ہو، عدت کے بعد بھی میراث میں حصہ ملے گا۔ یہی قول کئی صحابہ سے بھی مروی ہے، اور اس میں یہ بھی ہے کہ چاہے اس کا طلاق دیتے وقت شوہر بیمار ہو یا نہ ہو، وہ اس لئے کہ شوہر کو ابھی اسے روکنے کا اور رجوع کرنے کا اختیار باقی رہتا ہے اور وہ بھی اس کی مرضی سے، ولی اور گواہوں کی موجودگی کے بغیر اور بلا کسی نئے مہر کے۔

    (3) حضانت کا حق
     
  20. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    بچے کی تربیت اور اس کے معاملات کی دیکھ بھال کے لئے اس کی نگرانی حضانت کہلاتی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچے کی حضانت کا حق اس کی ماں کو عطا کیا۔ ماں کے بعد بچے کی حضانت کا حق اس کی ماں کی ماں کو اور پھر باپ پھر باپ کی ماں کو حاصل ہے۔ بچے کی حضانت کی سب سے زیادہ حقدار اُس کی ماں ہے، درج ذیل حدیث سے ثابت ہے :

    عن عبد اﷲ بن عمرو ان امراة قالت يا رسول اﷲ ان ابني هذا کان بطني له وعاء وثديي له سقاء و حجري له حواء و ان اباه طلقني و اراد ان ينتزعه مني. فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : انت احق به ما لم تنکحي.

    ’’عبداللہ ابن عمرو سے روایت ہے کہ ایک عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا، یا رسول اللہ یہ میرا بچہ ہے میرا پیٹ اس کا برتن تھا، میرے پستان اس کے مشکیزے اور میری گود اس کی آرام گاہ، اس کے باپ نے مجھے طلاق دیدی ہے اور اسے مجھ سے چھیننا چاہتا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی زیادہ مستحق تو ہے، جب تک تو نکاح نہ کرلے۔‘‘

    1. ابوداؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب من أحق بالولد، 2 : 283، رقم : 2276
    2. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 182
    3. حاکم، المستدرک، 2 : 225، رقم : 2830
    4. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 4

    5۔ عورت کے معاشی حقوق
     
  21. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    اسلام نے عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق عطا کرتے ہوئے وراثت کا حق بھی عطا کیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے :

    لِّلرِّجَالِ نَصيِبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًاO

    ’’ماں باپ اور رشتے داروں کے ترکے میں خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ لڑکوں کا حصہ ہے اور ماں باپ اور رشتے داروں کے ترکے میں خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ لڑکیوں کا بھی حصہ ہے اور یہ حصے خدا کی طرف سے مقررہ ہیںo‘‘

    القرآن، النساء، 4 : 7

    یعنی اُصولی طور پر لڑکا اور لڑکی دونوں وراثت میں اپنا اپنا مقررہ حصہ لینے کے حقدار ہیں اور کوئی شخص انہیں ان کے اس حق سے محروم نہیں کرسکتا۔

    (2) والدین کے مالِ وراثت میں حق
     
  22. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    قرآن حکیم نے اولاد کے حق وراثت کا تعین کرتے ہوئے بھی خواتین کا حق وراثت بالتفصیل بیان کیا ہے :

    يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ.

    ’’تمہاری اولاد سے متعلق اللہ کا یہ تاکیدی حکم ہے کہ ترکے میں لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے۔ اگر اکیلی لڑکی ہو تو اسے آدھا ترکہ ملے گا اور (میت کے) ماں باپ میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا بشرطیکہ وہ اپنے پیچھے اولاد بھی چھوڑے، اگر اس کے کوئی اولاد نہ ہو اور وارث ماں باپ ہی ہوں تو ماں کے لئے ایک تہائی (ماں باپ کے ساتھ) بھائی بہن بھی ہوں تو اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہوگا۔‘‘

    القرآن، النساء، 4 : 11
     
  23. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    اس آیہ مبارکہ میں یہ امر قابلِ غور ہے کہ تقسیم کی اکائی لڑکی کا حصہ قرار دیا گیا ہے، یعنی سب کے حصے لڑکی کے حصے سے گنے جائیں گے۔ گویا تمام تقسیم اس محور کے گرد گھومے گی۔ جاہلیت میں لڑکیوں کو ترکے میں حصہ نہیں دیا جاتا تھا۔ جیسا کہ اکثر دوسرے مذاہب میں اب بھی ہے لیکن اسلام کی نظر میں لڑکی کو ترکے کا حصہ دینا کتنا ضروری ہے، وہ اس سے ظاہر ہے کہ پہلے تو تقسیم وراثت کی عمارت کی بنیاد ہی لڑکی کے حصے پر رکھی پھر یوصیکم اﷲ کہہ کر فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا نہایت تاکیدی حکم ہے۔

    اس آیت مبارکہ سے تقسیم کے یہ اصول معلوم ہوئے :

    (1) اگر اولاد میں لڑکے اور لڑکیاں ہوں تو ایک لڑکے کو ایک لڑکی سے دگنا ملے گا اور اسی اصول پر سب ترکہ لڑکوں اور لڑکیوں میں تقسیم ہوگا، صرف لڑکوں کا ذکر نہیں کیا، کیونکہ اس صورت میں ظاہر ہے کہ وہ سب برابر کے حصے دار ہوں گے۔

    (2) اگر اولاد میں لڑکا کوئی نہ ہو اور دو یا دو سے زیادہ لڑکیاں ہوں۔ تو ان کو بھی دو تہائی ہی ملے گا۔

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل مبارک سے ان معنوں کی تائید ہوتی ہے۔ ایک صحابی سعد بن ربیع غزوہ احد میں شہید ہوگئے۔ انہوں نے اولاد میں صرف دو لڑکیاں چھوڑ دیں۔ سعد کے بھائی نے سارے ترکے پر قبضہ کر لیا اور لڑکیوں کو کچھ نہ دیا۔ اس پر سعد کی بیوہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور شکایت کی کہ سعد کی دو لڑکیاں موجود ہیں، لیکن ان کے چچا نے انہیں ان کے باپ کے ترکے میں سے ایک جبہ بھی نہیں دیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سعد کے بھائی کو بلوایا اور اسے حکم دیا کہ مرحوم کی دونوں بیٹیوں کو اس کے ترکے میں سے دو تہائی اور بیوہ کو آٹھواں حصہ دے دو اور بقیہ خود رکھ لو۔
     
  24. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    ترمذي، السنن، کتاب الفرائض، باب ما جاء في الميراث البنات، 4 : 414، رقم : 2092
    2. ابوداؤد، السنن، کتاب الفرائض، باب ماجاء في الميراث، 3 : 120، رقم : 2891

    (3) اگر اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تواسے ترکے کا نصف ملے گا اور باقی نصف دوسرے رشتہ داروں میں تقسیم ہوگا۔

    (4) اگر اولاد کے ساتھ میت کے ماں باپ بھی زندہ ہوں تو پہلے ان دونوں میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا اور باقی دو تہائی مندرجہ بالا شرح سے اولاد کو ملے گا۔

    (5) اگر متوفی کے اولاد کوئی نہ ہو، صرف ماں باپ ہوں، تو اس صورت میں ترکے کا تہائی ماں کو اور باقی باپ کو ملے گا۔

    (6) آخری صورت یہ بیان کی کہ اگر متوفی کے ورثا میں ماں باپ کے ساتھ بھائی بہن بھی ہوں، تو ماں کا حصہ چھٹا ہوگا۔

    ممکن تھا کہ کوئی شخص ماں باپ کو اولاد کا وارث قرار دینے پر اعتراض کرتا، کیونکہ اس سے پہلے دنیا کے تمام مذاہب میں صرف اولاد ہی وارث قرار دی گئی تھی۔ اس لئے فرمایا :

    آبَآؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لاَ تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعاً فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًاO

    ’’تمہارے باپ دادا (بھی ہیں) اور اولاد بھی، لیکن تم نہیں جانتے کہ ان میں سے نفع رسانی کے لحاظ سے کون تمہارے زیادہ قریب ہے۔ (یہ حصے) اللہ نے مقرر کئے ہیں۔ بے شک اللہ جاننے والا حکمت والا ہےo‘‘

    القرآن، النساء، 4 : 11
     
  25. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    یعنی یہ اعتراض کہ باپ دادا کیوں وارث بنائے گئے نادانی کی بات ہے۔ اس حکم کی حکمت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ انسان کے لئے اوپر کے رشتے دار زیادہ اچھے ہیں یا نیچے کے۔ ہماری فلاح اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے میں ہی مضمر ہے۔

    (3) شوہر کے مالِ وراثت میں حق
    قرآن حکیم نے شوہر یا بیوی میں سے کسی کے بھی انتقال کی صورت میں اس کے مال وراثت میں سے دوسرے فریق کا حصہ بالتفصیل بیان کیا ہے۔ بیوی کے انتقال کی صورت میں خاوند کا حصہ بیان کرتے ہوئے کہا :

    وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ.

    ’’تمہاری بیویوں کے ترکے میں سے تمہارے لئے نصف ہے، اگر ان کے کوئی اولاد نہ ہو، اور اگر ان کے اولاد ہو تو تمہارے لئے اُنہوں نے جو ترکہ چھوڑا ہے اس کا ایک چوتھائی ہے (یہ تقسیم) ان کی وصیت (کی تعمیل) اور ان کے قرض (کی ادائیگی) کے بعد ہو گی۔‘‘

    القرآن، النساء، 4 : 12
     
  26. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    اور شوہر کی وفات کی صورت میں بتایا :

    وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ.

    ’’ اور تمہارے ترکے میں سے تمہاری بیویوں کا ایک چوتھائی حصہ ہے۔ اگر تمہارے کوئی اولاد نہیں۔ اگر تمہاری اولاد بھی ہو، تو تمہارے ترکے میں سے ان کا حصہ آٹھواں ہے۔ (یہ تقسیم) تمہاری وصیت کی تعمیل اور تمہارے قرض (کی ادائیگی) کے بعد ہو گی۔‘‘

    القرآن، النساء، 4 : 12

    (4) کلالہ کے مالِ وراثت میں حق
    کلالہ اس میت کو کہتے ہیں جس کے والدین ہوں نہ اولاد۔ ایسی عورت یا مرد فوت ہو جائے اور اس کے پیچھے نہ اس کا باپ ہو، نہ بیٹا، تو اس کی جائیداد کی تقسیم کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں :

    اس کے اعیانی یعنی سگے بھائی بہن ہوں۔
    علاتی بھائی بہن ہوں، یعنی باپ ایک اور مائیں الگ الگ ہوں۔
    اخیافی بھائی بہن ہوں، ماں ایک اور باپ علیحدہ علیحدہ ہوں۔
     
  27. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    ان تینوں کے احکام الگ الگ ہیں :

    (1) اگر پہلی صورت یعنی سگے بھائی بہن موجود ہیں تو حکم دیا :

    يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلاَلَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَآ إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ.

    ’’لوگ آپ سے فتویٰ (یعنی شرعی حکم) دریافت کرتے ہیں۔ فرما دیجئے کہ اللہ تمہیں (بغیر اولاد اور بغیر والدین کے فوت ہونے والے) کلالہ (کی وراثت) کے بارے میں یہ حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص فوت ہو جائے جو بے اولاد ہو مگر اس کی ایک بہن ہو تو اس کے لئے اس (مال) کا آدھا (حصہ) ہے جو اس نے چھوڑا ہے اور (اگر اس کے برعکس بہن کلالہ ہو تو اس کے مرنے کی صورت میں اس کا) بھائی اس (بہن) کا وارث (کامل) ہو گا اگر اس (بہن) کی کوئی اولاد نہ ہو۔‘‘

    القرآن، النساء، 4 : 176

    ظاہرہے کہ اگر بہنیں دو سے زیادہ ہوں تو وہ سب اس دوتہائی میں برابر کی شریک ہوں گی۔

    (2) دوسری صورت یہ ہے کہ علاتی بھائی بہن ہوں، یعنی باپ ایک ہو اور مائیں الگ الگ ہوں تو اس صورت میں حکم دیا :
     
  28. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    وَإِن كَانُواْ إِخْوَةً رِّجَالاً وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ.

    ’’اور اگر بہت سے بھائی بہن ہوں تو پھر (تقسیم یوں ہو گی کہ) ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہو گا۔‘‘

    القرآن، النساء، 4 : 176

    یعنی جیسے اولاد کے درمیان ترکے کی تقسیم کا اُصول ہے۔ ۔ ۔ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر۔ ۔ ۔ وہی یہاں بھی استعمال ہو گا۔

    (3) تیسری اور آخری صورت یہ ہے کہ اخیافی بھائی بہن ہوں یعنی عورت نے ایک خاوند کی وفات کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح کر لیا اور دونوں سے اولاد ہو۔ اگر ان میں سے کوئی مرجائے اور کلالہ ہو :

    وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلاَلَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ فَإِن كَانُواْ أَكْثَرَ مِن ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَآ أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَآرٍّ.

    ’’اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کی وراثت تقسیم کی جارہی ہو جس کے نہ ماں باپ ہوں نہ کوئی اولاد اور اس کا ماں کی طرف سے ایک بھائی یا ایک بہن ہو (یعنی اخیافی بھائی یا بہن) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہے پھر اگر وہ بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ تقسیم بھی) اس وصیت کے بعد (ہو گی) جو (وارثوں کو) نقصان پہنچائے بغیر کی گئی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد۔‘‘

    القرآن، النساء، 4 : 12
     
  29. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    یعنی کلالہ کی وراثت کی تقسیم کے احکام میں بھی عورت کو حق وراثت کا مستحق قرار دیا گیا اور اس کے واضح احکام بیان کئے گئے جن کا خلاصہ ہم درج ذیل پانچ اُصولوں میں بیان کر سکتے ہیں :

    (1) جہاں صرف اولاد ہو، اورکوئی دوسرا وارث نہ ہو، اور اولاد میں بھی تمام لڑکے ہوں، تو ترکہ ان لڑکوں میں بحصہ مساوی تقسیم ہو گا۔ لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہوں تو ایک لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ ملے گا، اور اسی اُصول پر تمام ترکہ تقسیم ہو گا اگر لڑکا کوئی نہ ہو، صرف ایک لڑکی ہو، تو اسے ترکے کا نصف ملے گا، اور اگر دو یا دو سے زیادہ لڑکیاں ہوں، تواُنہیں دو تہائی ملے گا۔

    (2) جہاں اولاد ہو یا نہ ہو، لیکن ماں باپ موجود ہوں۔ اگر اولاد ہو تو ماں باپ میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ اور باقی اولاد میں نمبر (1) کے اُصول پر تقسیم ہو گا۔ اگر اولاد نہ ہو تو ماں کو ایک تہائی اور باقی دو تہائی باپ کو۔

    (3) اولاد نہ ہو، لیکن بھائی بہن ہوں، تو ماں کو ایک تہائی کی جگہ چھٹا حصہ ملے گا۔ یہاں پھر اختلاف ہے کہ ان بھائی بہنوں کو کتنا ملے گا۔ بعض کے نزدیک ماں کو ایک چھٹا حصہ ملے گا، دوسرا چھٹا ان بھائی بہنوں میں تقسیم ہو گا، اور باپ کو حسب سابق بقیہ دو تہائی۔ بعض کے نزدیک یہاں بھی کلالہ کا اُصول جاری ہو گا، یعنی اگر ایک بھائی یا ایک بہن ہے، تو اسے چھٹا حصہ، ماں کو چھٹا حصہ، اور باپ کو دو تہائی۔ اگر بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو ان سب کو ایک تہائی، ماں کو چھٹا حصہ اور باقی نصف باپ کو۔
     
  30. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    4) زوجین کی صورت میں، اگر بیوی اولاد چھوڑ کر مرے تو خاوند کو ترکے کا چوتھائی اور باقی تین چوتھائی اولاد میں نمبر (1) کے اُصول پر تقسیم ہو گا۔ اگر اولاد نہ ہو، تو خاوند کو نصف اور بقیہ دوسرے رشتے داروں کو اُوپر کے قواعد کی رو سے۔ اگر خاوند اولاد چھوڑ کر مرے تو بیوی کا آٹھواں حصہ ہے۔ اگر اولاد نہ ہو، تو چوتھا اور بقیہ ترکہ دوسرے رشتہ داروں میں تقسیم ہو گا۔

    (5) کلالہ جہاں اعیانی یا علاتی یا اخیافی بھائی بہن ہوں جیسے کہ اُوپر بیان ہوا۔ تقسیم میں یہ ترتیب مدنظر رکھی جائے گی۔ سب سے پہلے خاوند یا بیوی کو حصہ ملے گا، پھر والدین کو اور پھر اولاد کو۔ اگر اولاد نہ ہو یا اولاد یا والدین دونوں میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو، تو سب سے آخر میں بھائی بہن حق دار ہوں گے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں