1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

رنگِ غزل

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از زیرک, ‏27 اکتوبر 2012۔

  1. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    وہ جس کے نین نقش اپنے ذہن میں اُتر گئے
    ہم اِک اُسی کی جستجو لئے، نگر نگر گئے
    خیال قُرب اُسی کا سر پہ ابر سا جُھکا رہا
    میانِ دشتِ روزگار، ہم جِدھر جِدھر گئے
    تھیں اُس کے مُڑ کے دیکھنے میں بھی عجب مسافتیں
    حدوں سے شب کی ہم نکل کے جانبِ سحر گئے
    دُھلے فلک پہ جس طرح شبِ سیہ کی چشمکیں
    پسِ وصال ہم بھی کچھ اِسی طرح نکھر گئے
    اُسی کی دِید سے ہمیں تھے حوصلے اُڑان کے
    گیا جو وہ تو جانئے، کہ اپنے بال و پر گئے
    وہ جن کے چوکھٹوں میں عکس تھے مرے حبیب کے
    وہ ساعتیں کہاں گئیں، وہ روز و شب کدھر گئے

    ماجدؔ صدیقی
     
  2. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    اِک بار تو ایسی بھی جسارت کبھی کر جا
    آ، اور مری تشنگئ جاں میں اُتر جا
    ویرانئ دل پر کبھی اتنا تو کرم کر
    اِس راہگزر سے نم موسم سا گُزر جا
    طُرفہ ہیں بہت میرے دل و جاں کی پھواریں
    اِس بزم میں آ، اور مثالِ گُلِ تر جا
    دیکھوں میں طلُوع، رُخِ انور ترا یُوں بھی
    آ، مثلِ سحر لمس کی شبنم سے نکھر جا
    رہنے دے کسی پَل تو یہ اندازِ شہابی
    مُختار ہے تُو، پھر بھی کوئی دَم تو ٹھہر جا
    پڑتا ہے رہِ شوق میں کچھ اور بھی سہنا
    ماجدؔ نہ فقط خدشۂ رُسوائی سے ڈر جا

    ماجدؔ صدیقی
     
  3. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    پا بہ زنجیر کرے، طوق بنے، دار بنے
    حرفِ حق جب بھی کہو جان کا آزار بنے
    مُسکراتا ہے اُسے دیکھ کے ہر اہلِ ہوس
    جب کوئی لفظ گریباں کا مرے، تار بنے
    تھا نہ یاروں پہ کچھ ایسا بھی بھروسہ لیکن
    اَب کے تو لوگ سرِ بزم یہ اغیار بنے
    کیا توقّع ہو بھلا لُطفِ مناظر سے کہ آنکھ
    کربِ آشوب سے ہی دیدۂ بیدار بنے
    ہاں مرے جُرم کی کچھ اور بھی تشہیر کرو
    کیا خبر، جشن مری موت کا تہوار بنے
    کیا کہوں جس کے سبب لائقِ تعزیز ہوں مَیں
    حرفِ بے نام وہی چشمۂ انوار بنے
    ہم کہ محسود ہیں اِس فکر کی ضَو سے ماجدؔ
    جانے کب نُور یہی اپنے لئے نار بنے

    ماجدؔ صدیقی
     
  4. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    دشتِ خواہش میں کہیں سے تو صدا دے کوئی
    میں کہاں ہوں، مجھے اِتنا ہی بتا دے کوئی
    دل میں جو کچھ ہے زباں تک نہ وہ آنے پائے
    کاش ہونٹوں پہ مرے مُہر لگا دے کوئی
    فصل ساری ہے تمنّاؤں کی یکجا میری
    میرا کھلیان نہ بے درد جلا دے کوئی
    وہ تو ہو گا جو مرے ذمّے ہے، مجھ کو چاہے
    وقت سے پہلے ہی دریا میں بہا دے کوئی
    میں بتاؤں گا، گئی رُت نے کِیا ہے کیا کیا
    میرے چہرے سے جمی گرد ہٹا دے کوئی
    موسمِ گل نہ سہی، بادِ نم آلود سہی
    شاخِ عریاں کو دلاسہ تو دلا دے کوئی
    ہے پس و پیش جو اپنا یہ مقدر ماجدؔ
    آخری تِیر بھی ترکش سے چلا دے کوئی

    ماجدؔ صدیقی
     
  5. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    کب پتا یار کو ہم اپنے لکھا کرتے ہیں
    جانے ہم خُود میں کہ ناخُود میں رہا کرتے ہیں
    اب تم شہر کے آداب سمجھ لو جانی
    جو مِلا ہی نہیں کرتے وہ مِلا کرتے ہیں
    جہلا علم کی تعظیم میں برباد گئے
    جہل کا عیش جو ہے وہ علما کرتے ہیں
    لمحے لمحے میں جیو جان اگر جینا ہے
    یعنی ہم حرصِ بقا کو بھی فنا کرتے ہیں
    جانے اس کوچۂ حالت کا ہے کیا حال، کہ ہم
    اپنے حجرے سے بہ مشکل ہی اُٹھا کرتے ہیں
    میں جو کچھ بھی نہیں کرتا ہوں یہ ہے میرا سوال
    اور سب لوگ جو کرتے ہیں، وہ کیا کرتے ہیں؟
    اب یہ ہے حالتِ احوال کہ اِک یاد سے ہم
    شام ہوتی ہے تو بس رُوٹھ لیا کرتے ہیں
    جس کو برباد کیا اس کے فداکاروں نے
    ہم اب اس شہر کی رُوداد سنا کرتے ہیں
    شام ہو یا کہ سحر اب خس و خاشاک کو ہم
    نذرِ پُر مائیگئ جیبِ صبا کرتے ہیں
    جن کو مفتی سے کدورت ہو نہ ساقی سے گِلہ
    وہی خوش وقت مری جان رہا کرتے ہیں
    ایک پہنائے عبث ہے جسے عالم کہئے
    ہو کوئی اس کا خُدا ہم تو دُعا کرتے ہیں

    جونؔ ایلیا
     
  6. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    کون سے شوق کِس ہوس کا نہیں
    دل میری جان! تیرے بس کا نہیں
    راہ تم کارواں کی لو کہ مجھے
    شوق کچھ نغمۂ جرس کا نہیں
    ہاں میرا وہ معاملہ ہے کہ اب
    کام یارانِ نُکتہ رَس کا نہیں
    ہم کہاں سے چلے ہیں اور کہاں
    کوئی اندازہ پیش و پَس کا نہیں
    ہو گئی اس گِلے میں عمر تمام
    پاس شعلے کو خار و خس کا نہیں
    مجھ کو خُود سے جُدا نہ ہونے دو
    بات یہ ہے میں اپنے بس کا نہیں
    کیا لڑائی بھلا کہ ہم میں سے
    کوئی بھی سینکڑوں برس کا نہیں

    جونؔ ایلیا
     
  7. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    معیار اپنا ہم نے گِرایا نہیں کبھی
    جو گِر گیا نظر سے وہ بھایا نہیں کبھی
    حِرص و ہوس کو ہم نے بنایا نہیں شِعار
    اور اپنا اِعتبار گنوایا نہیں کبھی
    ہم آشنا تھے موجوں کے برہم مزاج سے
    پانی پہ کوئی نقش بنایا نہیں کبھی
    اِک بار اُسکی آنکھوں میں دیکھی تھی بے رخی
    پھر اس کے بعد یاد وہ آیا نہیں کبھی
    تنہائیوں کا راج ہے دل میں تمہارے بعد
    ہم نے کسی کو اس میں بسایا نہیں کبھی
    تسنیمؔ جی رہے ہیں بڑے حوصلے کے ساتھ
    ناکامیوں پہ شور مچایا نہیں کبھی

    تسنیمؔ کوثر
     
  8. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    کبھی جب مُدّتوں کے بعد اُس کا سامنا ہو گا
    سوائے پاس آدابِ تکلّف اور کیا ہو گا؟
    صلیبِ وقت پر میں نے پُکارا تھا محبت کو
    میری آواز جس نے بھی سُنی ہو گی، ہنسا ہو گا
    ابھی اِک شورِ ہاؤ ہو سُنا ہے ساربانوں نے
    وہ پاگل قافلے کے ضِد میں پیچھے رہ گیا ہو گا
    ہمارے شوق کے آسودہ و خُوشحال ہونے تک
    تمھارے عارض و گیسُو کا سودا ہو چکا ہو گا
    ہنسی آتی ہے مجھ کو مصلحت کے ان تقاضوں پر
    کہ اب ایک اجنبی بن کر اُسے پہچاننا ہو گا
    دلیلوں سے دوا کا کام لینا سخت مُشکل ہے
    مگر اس غم کی خاطر یہ ہُنر بھی سیکھنا ہو گا

    جونؔ ایلیا
     
  9. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    ایک ہی مسئلہ، تا عمر مِرا حل نہ ہوا
    نیند پوری نہ ہوئی خواب مُکمل نہ ہوا
    شہرِ دل کا جو مکیں ہے وہ بچھڑتا کب ہے؟
    جس قدر دُور گیا، آنکھ سے اوجھل نہ ہوا
    آج بھی دل کی زمیں خشک رہی، تشنہ رہی
    آج بھی مائلِ الطاف، وہ بادل نہ ہوا
    روشنی چھَن کے تیرے رُخ کی نہ مجھ تک پہنچے
    ایک دیوار ہوئی، یہ کوئی آنچل نہ ہوا
    جن کو اِک عمر کا نذرانہ دیے بیٹھے ہیں
    آج تک ان سے تعارف بھی مفصّل نہ ہوا
    اُن سے ملتے ہیں، بچھڑ جاتے ہیں، پھر ملتے ہیں
    زندہ رہنے کا عمل ہم سے مسلسل نہ ہوا
    جس پہ رکھنی تھی مجھے اپنی اساسِ ہستی
    اپنی قسمت میں منورؔ وہی اِک پَل نہ ہوا

    منورؔ رانا
     
  10. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    سیاہ خانۂ اُمیدِ رائیگاں سے نِکل
    کھلی فضا میں ذرا آ، غبارِ جاں سے نِکل
    عجیب بِھیڑ یہاں جمع ہے ، یہاں سے نِکل
    کہیں بھی چل مگر اِس شہرِ بے اماں سے نِکل
    اِک اور راہ، اُدھر دیکھ ، جا رہی ہے وہیں
    یہ لوگ آتے رہیں گے، تُو درمیاں سے نِکل
    تُو کوئی غم ہے، تو دل میں جگہ بنا اپنی
    تُو اِک صدا ہے، تو اِحساس کی کماں سے نِکل
    یہیں کہیں ترا دشمن چھپا ہے اے بانیؔ
    کوئی بہانہ بنا، بزمِ دوستاں سے نِکل

    ہری منچندا بانیؔ
     
  11. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    ڈَر شب کا وہاں کیوں نہ بھلا تیز بہت ہو
    جِس گھر میں دِیا ایک، ہَوا تیز بہت ہو
    صدیوں کے مُسافر بھی پَلٹ آئیں گے اِک روز
    یہ شرط، کہ رفتارِ صَدا تیز بہت ہو
    ہاتھ اُس نے میرے خُون میں تَر کر لیے آخر
    خواہش تھی اُسے، رنگِ حِنا تیز بہت ہو
    دُنیا کی ہوس، پِھر مجھے برفاب نہ کر دے
    اے گرمئی احساسِ اَنا! تیز بہت ہو
    سوُرج اُتر آیا ہے میرے سَر پہ کہ محسنؔ
    صحرا نے کہا ’’ آبلہ پا! تیز بہت ہو‘‘

    محسنؔ نقوی
     
  12. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    ذرا سی دیر میں ہم کیسے کھولتے اُس کو
    تمام عُمر لگی جُھوٹ بولتے اُس کو
    جِسے کَشِید کیا تھا، خُمارِ خُوشبو سے
    مثالِ رنگ ہواؤں میں گھولتے اُس کو
    وہ خواب میں ہی اُترتا شُعاعِ صبح کے ساتھ
    ہم اپنے آپ ہی پلکوں پہ تولتے اُس کو
    وہ اشک تھا اُسے آنکھوں میں دفن ہونا تھا
    گُہر نہ تھا کہ سِتاروں میں رولتے اُس کو
    وہ بے وفا تھا، تو اِقرار لازمی کرتا
    کچھ اور دیر میری جاں! ٹٹولتے اُس کو
    کِسی کی آنکھ سے محسنؔ ضرور پِیتا ہے
    تمام شہر نے دیکھا ہے ڈولتے اُس کو

    محسنؔ نقوی
     
  13. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    یہ چرچے، یہ صُحبت، یہ عالم کہاں؟
    خُدا جانے ، کل تم کہاں، ہم کہاں؟
    جو خُورشید ہو تم، تو شبنم ہیں ہم
    ہوئے جلوہ گر تم تو پھر ہم کہاں؟
    حسِیں قاف میں گوکہ پریاں بھی ہیں
    مگر اِن حسینوں کا عالم کہاں؟
    الٰہی! ہے دل، جائے آرامِ غم
    نہ ہوگا جو یہ، جائے گا غم کہاں؟
    کہوں اُس کے گیسُو کو سُنبل میں کیا
    کہ سُنبل میں یہ پیچ، یہ خم کہاں؟
    وہ زخمی ہوں میں، زخم ہیں بے نشاں
    الٰہی! لگاؤں میں مرہم کہاں؟
    زمانہ ہوا غرقِ طوفاں امیرؔ
    ابھی روئی یہ چشمِ پُرنم کہاں؟

    امیرؔ مینائی
     
  14. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    اے ضبط! دیکھ عشق کی اُن کو خبر نہ ہو
    دل میں ہزار درد اُٹھے، آنکھ تر نہ ہو
    مدّت میں شامِ وصل ہوئی ہے مجھے نصیب
    دو چار سو برس تو الہٰی! سحر نہ ہو
    اِک پھول ہے گلاب کا آج اُنکے ہاتھ میں
    دھڑکا مجھے یہ ہے کہ کسی کا جگر نہ ہو
    ڈھونڈے سے بھی نہ معنئ باریک جب ملا
    دھوکہ ہوا یہ مجھ کو کہ اُس کی کمر نہ ہو
    فرقت میں یاں سیاہ زمانہ ہے مجھ کو کیا
    گردوں پہ آفتاب نہ ہو یا قمر نہ ہو
    دیکھی جو صورتِ ملک الموت نزع میں
    میں خوش ہوا کہ یار کا یہ نامہ بر نہ ہو
    آنکھیں ملیں ہیں اشک بہانے کے واسطے
    بیکار ہے صدف جو صدف میں گُہر نہ ہو
    الفت کی کیا اُمید وہ ایسا ہے بے وفا
    صحبت ہزار سال رہے، کچھ اثر نہ ہو
    طولِ شب وصال ہو، مثلِ شبِ فراق
    نکلے نہ آفتاب، الٰہی! سحر نہ ہو
    منہ پھیر کر کہا جو کہا میں نے حال ِدل
    چُپ بھی رہو امیرؔ! مجھے دردِ سر نہ ہو

    امیرؔ مینائی
     
  15. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    ہم اہلِ جبر کے نام و نسب سے واقف ہیں
    سروں کی فصل جب سے اُتری تھی تب سے واقف ہیں
    کبھی چھپے ہوئے خنجر، کبھی کھچی ہوئی تیغ
    سپاہِ ظلم کہ ایک ایک ڈھب سے واقف ہیں
    ہے رات یوں ہی تو دشمن نہیں ہماری کہ ہم
    درازئ شبِ غم کے سبب سے واقف ہیں
    وہ جن کی دستخطیں محضرِ سِتم پہ ہیں ثبت
    ہر اُس ادیب، ہر اُس بےادب سے واقف ہیں
    نظر میں رکھتے ہیں عصرِ بلند یامئی مہر
    فراتِ جبر کے ہر تشنہ لب سے واقف ہیں
    کوئی نئی تو نہیں حرفِ حق کی تنہائی
    جو جانتے ہیں وہ اس اَمرِ رب سے واقف ہیں

    افتخارؔ عارف
     
  16. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    گلی کوچوں میں ہنگامہ بپا کرنا پڑے گا
    جو دل میں ہے اب اسکا تذکرہ کرنا پڑے گا
    نتیجہ کربلا سے مختلف ہو، یا وہی ہو
    مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑے گا
    وہ کیا منزل، جہاں راستے آگے نکل جائیں
    سو اب پھر ایک سفر کا سلسلہ کرنا پڑے گا
    لہو دینے لگی ہے چشمِ خوں بستہ، سو اس بار
    بھری آنکھوں میں خوابوں کو رہا کرنا پڑے گا
    مبادا قصۂ اہلِ جنوں ناگفتہ رہ جائے
    نئے مضمون کا لہجہ نیا کرنا پڑے گا
    درختوں پہ ثمر آنے سے پہلے آئے تھے پھول
    پھلوں کے بعد کیا ہو گا، پتہ کرنا پڑے گا
    گنوا بیٹھے تری خاطر اپنے مِہر و مہتاب
    بتا اب اے زمانے اور کیا کرنا پڑے گا

    افتخارؔ عارف
     
  17. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    مرے خُدا مرے لفظ و بیاں میں ظاہر ہو
    اِسی شکستہ و بستہ زباں میں ظاہر ہو
    زمانہ دیکھے میرے حرفِ بازیاب کے رنگ
    گلِ مُرادِ ہُنر دشتِ جاں میں ظاہر ہو
    میں سخر و نظر آں کلام ہوں کہ سکوت
    تری عطا، مرے نام و نشاں میں ظاہر ہو
    مزہ تو تب ہے جب اہلِ یقیں کا سر ِکمال
    ملامتِ سخنِ گُمرہاں میں ظاہر و
    گزشتگانِ محبت کا خوابِ گُم گشتہ
    عجب نہیں کہ شبِ آئندگاں میں ظاہر ہو
    پسِ حجاب ہے اک شہسوارِ وادئ نُور
    کسے خبر، اسی عہدِ زیاں میں ظاہر ہو

    افتخارؔ عارف
     
  18. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    آسمانوں پر نظر کر، انجم و مہتاب دیکھ
    صبح کی بنیاد رکھنی ہے تو پہلے خواب دیکھ
    ہم بھی سوچیں گے دعائے بے اثر کے باب میں
    اِک نظر تُو بھی تضادِ منبر و محراب دیکھ
    دوش پر ترکش پڑا رہنے دے، پہلے دل سنبھال
    دل سنبھل جائے تو سُوئے سینہٴ احباب دیکھ
    موجہٴ سرکش کناروں سے چھلک جائے تو پھر
    کیسی کیسی بستیاں آتی ہیں زیرِ آب دیکھ
    بُوند میں سارا سمندر، آنکھ میں کُل کائنات
    ایک مُشتِ خاک میں سُورج کی آب وتاب دیکھ
    کچھ قلندر مشربوں سے راہ و رسمِ عشق سیکھ
    کچھ ہم آشفتہ مزاجوں کے ادب آداب دیکھ
    شب کو خطِ نُور میں لکھی ہوئی تعبیر پڑھ
    صبح تک دیوارِ آئندہ میں کھلتے باب دیکھ
    افتخارؔ عارف کے تُند و تیز لہجے پر نہ جا
    افتخارؔ عارف کی آنکھوں میں اُلجھتے خواب دیکھ

    افتخارؔ عارف
     
  19. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل


    سمجھ رہے ہیں اور بولنے کا یارا نہیں
    جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں
    ابھی سے برف اُلجھنے لگی ہے بالوں سے
    ابھی تو قرضِ ماہ و سال بھی اُتارا نہیں
    سمندروں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت
    کسی کو ہم نے مدد کی لئے پکارا نہیں
    جو ہم نہیں تھے تو پھر کون تھا سرِبازار
    جو کہہ رہا تھا کہ بکنا ہمیں گوارا نہیں
    ہم اہلِ دل ہیں محبت کی نِسبتوں کے امیں
    ہمارے پاس زمینوں کا گوشوارہ نہیں

    افتخارؔ عارف
     
  20. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    وحشت کا اثر خواب کی تعبیر میں ہوتا
    اِک جاگنے والا میری تقدیر میں ہوتا
    اِک عالمِ خوبی ہے میسّر، مگر اے کاش
    اُس گُل کا علاقہ میری جاگیر میں ہوتا
    اُس آہوئے رم خوردہ و خوش چشم کی خاطر
    اِک حلقۂ خوشبو میری زنجیر میں ہوتا
    مہتاب میں اِک چاند سی صورت نظر آتی
    نِسبت کا شرف سلسلۂ میر میں ہوتا
    مرتا بھی جو اس پر تو اُسے مار کے رکھتا
    غالب کا چلن عشق کی تقصیر میں ہوتا
    اِک قامتِ زیبا کا یہ دعوٰی ہے، کہ وہ ہے
    ہوتا تو میرے حرفِ گِرہ گیِر میں ہوتا

    افتخارؔ عارف
     
  21. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    شہرِگُل کے خس و خاشاک سے خوف آتا ہے
    جس کا وارث ہوں اُسی خاک سے خوف آتا ہے
    شکل بننے نہیں پاتی، کہ بگڑ جاتی ہے
    نئی مٹی کو ابھی چاک سے خوف آتا ہے
    وقت نے ایسے گھمائے اُفق آفاق، کہ بس
    محورِ گردشِ سفاک سے خوف آتا ہے
    یہی لہجہ تھا کہ معیارِ سخن ٹھہرا تھا
    اب اِسی لہجۂ بے باک سے خوف آتا ہے
    آگ جب آگ سے ملتی ہے تو لَو دیتی ہے
    خاک کو خاک کی پوشاک سے خوف آتا ہے
    قامتِ جاں کو خوش آیا تھا کبھی خلعتِ عشق
    اب اِسی جامۂ صد چاک سے خوف آتا ہے
    کبھی افلاک سے نالوں کے جواب آتے تھے
    اِن دنوں، عالمِ افلاک سے خوف آتا ہے
    رحمتِ سیدِ لولاکؐ پہ کامل ایمان
    امتِ سیدِ لولاکؐ سے خوف آتا ہے

    افتخارؔ عارف
     
  22. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    عذابِ وحشتِ جاں کا صلہ نہ مانگے کوئی
    نئے سفر کے لئے راستہ نہ مانگے کوئی
    بلند ہاتھوں میں زنجیر ڈال دیتے ہیں
    عجیب رسم چلی ہے دُعا نہ مانگے کوئی
    تمام شہر مکرّم، بس ایک مجرم مَیں
    سو میرے بعد، مِرا خُوں بہا نہ مانگے کوئی
    کوئی تو شہرِ تذبذب کے ساکنوں سے کہے
    نہ ہو یقین تو، پھر معجزہ نہ مانگے کوئی
    عذابِ گردِ خزاں بھی نہ ہو، بہار بھی آئے
    اِس احتیاط سے اجرِ وفا نہ مانگے کوئی

    افتخارؔ عارف
     
  23. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    بِکھر جائیں گے کیا ہم جب تماشہ ختم ہو گا؟
    میرے معبود! آخر کب تماشہ ختم ہو گا؟
    چراغِ حجرۂ درویش کی بُجھتی ہوئی لَو
    ہوا سے کہہ گئی ہے اب تماشہ ختم ہو گا
    کہانی آپ اُلجھی ہے، کہ اُلجھائی گئی ہے؟
    یہ عقدہ تب کُھلے گا جب تماشہ ختم ہو گا
    یہ سب کٹھ پُتلیاں رقصاں رہینگی رات کی رات
    سحر سے پہلے پہلے، سب تماشہ ختم ہو گا
    تماشہ کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
    کہ پردہ کب گرے گا کب تماشہ ختم ہو گا
    دلِ ما مطمئن! ایسا بھی کیا مایوس رہنا؟
    جو خلق اُٹھی تو سب کرتب تماشہ ختم ہو گا

    افتخارؔ عارف
     
  24. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    فضا میں رنگ نہ ہوں آنکھ میں نمی بھی نہ ہو
    وہ حرف کیا کہ رقم ہو تو، روشنی بھی نہ ہو
    وہ کیا بہار کہ پیوندِ خاک ہو کے رہے
    کشاکشِ روِش و رنگ سے بَری بھی نہ ہو
    کہاں ہے اور خزانہ، بجُز خزانۂ خواب
    لُٹانے والا لُٹاتا رہے، کمی بھی نہ ہو
    یہی ہَوا، یہی بے مہر و بے لحاظ ہَوا
    یہی نہ ہو تو چراغوں میں روشنی بھی نہ ہو
    ملے تو مِل لئے، بچھڑے تو یاد بھی نہ رہے
    تعلقات میں ایسی روا روی بھی نہ ہو

    افتخارؔ عارف
     
  25. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    غیروں سے دادِ جور و جفا لی گئی تو کیا
    گھر کو جلا کے خا ک اُڑا دی گئی تو کیا
    غارتِ گرئ شہر میں شامل ہے کون کون
    یہ بات اہلِ شہر پر کھل بھی گئی تو کیا
    اِک خواب ہی تو تھا جو فراموش ہو گیا
    اِک یاد ہی تو تھی، جو بھلا دی گئی تو کیا
    میثاقِ اعتبارمیں تھی اِک وفا کی شرط
    اِک شرط ہی تو تھی جو اُٹھا دی گئی تو کیا
    قانونِ باغبانئ صحرا کی سرنوِشت
    لکھی گئی تو کیا، جو نہ لکھی گئی تو کیا
    اس قحط و انہدامِ روایت کے عہد میں
    تالیفِ نسخہ ہائے وفا کی گئی تو کیا
    جب میر و میرزا کے سخن رائیگاں گئے
    اِک بے ہُنر کی بات نہ سمجھی گئی تو کیا

    افتخارؔ عارف
     
  26. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    جب یہ عالم ہو تو لکھیے لب و رُخسار پہ خاک
    اُڑتی ہے خانۂ دل کے در و دیوار پہ خاک
    تُو نے مٹّی سے الجھنے کا نتیجہ دیکھا
    ڈال دی میرے بدن نے تِری تلوار پہ خاک
    ہم نے مدّت سے اُلٹ رکھا ہے کاسہ اپنا
    دستِ زردار! ترے درہم و دینار پہ خاک
    پُتلیاں گرمیٔ نظّارہ سے جل جاتی ہیں
    آنکھ کی خیر میاں رونقِ بازار پہ خاک
    جو کسی اور نے لکھا ہے اسے کیا معلوم
    لوحِ تقدیر بجا، چہرۂ اخبار پہ خاک
    پائے وحشت نے عجب نقش بنائے تھے یہاں
    اے ہوائے سرِ صحرا! تِری رفتار پہ خاک
    یہ بھی دیکھو کہ کہاں کون بلاتا ہے تمھیں
    محضرِ شوق پڑھو، محضرِ سرکار پہ خاک
    آپ کیا نقدِ دو عالم سے خریدیں گے اِسے
    یہ تو دیوانے کا سر ہے، سرِ پندار پہ خاک
    یہ غزل لکھ کے حریفوں پہ اُڑا دی میں نے
    جم رہی تھی مِرے آئینۂ اشعار پہ خاک

    عرفانؔ صدیقی
     
  27. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
    وہی وعدہ یعنی نباہ کا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
    وہ جو لطف مجھ پہ تھے پیشتر، وہ کرم کہ تھا مرے حال پر
    مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
    وہ نئے گلے، وہ شکایتیں، وہ مزے مزے کی حکایتیں
    وہ ہر ایک بات پہ روٹھنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
    کبھی بیٹھے سب میں جو رُوبرُو، تو اشارتوں ہی سے گفتگو
    وہ بیانِ شوق کا برملا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
    ہوئے اتفاق سے گر بہم، تو وفا جتانے کو دم بہ دم
    گلۂ ملامتِ اقربا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
    کوئی ایسی بات اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بری لگی
    تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
    کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی، کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی
    کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
    سنو ذکر ہے کئی سال کا کہ کیا اِک آپ نے وعدہ تھا
    سو نباہنے کا تو ذکر کیا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
    کہا میں نے بات وہ کوٹھے کی مِرے دل سے صاف اتر گئی
    تو کہا کہ جانے مِری بلا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
    وہ بگڑنا وصل کی رات کا، وہ نہ ماننا کسی بات کا
    وہ نہیں نہیں کی ہر آن ادا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
    جسے آپ گنتے تھے آشنا، جسے آپ کہتے تھے باوفا
    میں وہی ہوں مومنِؔ مبتلا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

    مومن خان مومنؔ
     
  28. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    غیروں سے دادِ جور و جفا لی گئی تو کیا
    گھر کو جلا کے خا ک اُڑا دی گئی تو کیا
    غارتِ گرئ شہر میں شامل ہے کون کون
    یہ بات اہلِ شہر پر کھل بھی گئی تو کیا
    اِک خواب ہی تو تھا جو فراموش ہو گیا
    اِک یاد ہی تو تھی، جو بھلا دی گئی تو کیا
    میثاقِ اعتبارمیں تھی اِک وفا کی شرط
    اِک شرط ہی تو تھی جو اُٹھا دی گئی تو کیا
    قانونِ باغبانئ صحرا کی سرنوِشت
    لکھی گئی تو کیا، جو نہ لکھی گئی تو کیا
    اس قحط و انہدامِ روایت کے عہد میں
    تالیفِ نسخہ ہائے وفا کی گئی تو کیا
    جب میر و میرزا کے سخن رائیگاں گئے
    اِک بے ہُنر کی بات نہ سمجھی گئی تو کیا

    افتخارؔ عارف
     
  29. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    فضا میں رنگ نہ ہوں آنکھ میں نمی بھی نہ ہو
    وہ حرف کیا کہ رقم ہو تو روشنی بھی نہ ہو
    وہ کیا بہار کہ پیوند خاک ہو کہ رہے
    کشاکش روش و رنگ سے بری بھی نہ ہو
    کہاں ہے اور خزانہ، بجز خزانۂ خواب
    لٹانے والا لٹاتا رہے، کمی بھی نہ ہو
    یہی ہوا، یہی بے مہر و بے لحاظ ہوا
    یہی نہ ہو تو چراغوں میں روشنی بھی نہ ہو
    ملے تو مِل لیے، بچھڑے تو یاد بھی نہ رہے
    تعلقات میں ایسی روا روی بھی نہ ہو

    افتخارؔ عارف
     
  30. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    بِکھر جائیں گے کیا ہم جب تماشہ ختم ہو گا؟
    میرے معبود! آخر کب تماشہ ختم ہو گا؟
    چراغِ حجرۂ درویش کی بُجھتی ہوئی لَو
    ہوا سے کہہ گئی ہے اب تماشہ ختم ہو گا
    کہانی آپ اُلجھی ہے، کہ اُلجھائی گئی ہے؟
    یہ عقدہ تب کُھلے گا جب تماشہ ختم ہو گا
    یہ سب کٹھ پُتلیاں رقصاں رہینگی رات کی رات
    سحر سے پہلے پہلے، سب تماشہ ختم ہو گا
    تماشہ کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
    کہ پردہ کب گرے گا کب تماشہ ختم ہو گا
    دلِ ما مطمئن! ایسا بھی کیا مایوس رہنا؟
    جو خلق اُٹھی تو سب کرتب تماشہ ختم ہو گا

    افتخارؔ عارف
     

اس صفحے کو مشتہر کریں