1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

رنگِ غزل

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از زیرک, ‏27 اکتوبر 2012۔

  1. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:

    تن کی سُوکھی دھرتی پر جب نام لِکھا تنہائی کا
    بن کی پیاس بجھانے آیا اِک دریا تنہائی کا
    سب پہچانیں قائم رکھنا ہرگز آساں کام نہ تھا
    درد نے جب جب کروٹ بدلی، در کھولا تنہائی کا
    خواب جزیرے کھوجتے کھوجتے پہنچا ہوں اس حالت کو
    ورنہ عادت سے تو نہیں تھا، میں رَسیا تنہائی کا
    پیاس رُتوں میں برسا تھا وہ قطرہ قطرہ دھرتی پر
    آج اکیلا چھوڑ گیا تو دُکھ کیسا تنہائی کا
    رُوپ سرُوپ کے کھیل سے عظمیؔ ہم نے تو یہ سیکھا ہے
    جھولی میں بس رہ جاتا ہے اِک سپنا تنہائی کا

    اسلام عظمیؔ
     
    سلطان مہربان نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    ترکِ الفت کو نہ اب اور ہوا دی جائے
    اُس کی خواہش ہے تو یہ بات بُھلا دی جائے
    رات سر پر ہے، کٹھن راستہ، مسافر تم کو
    لوٹ آنے کی، یا منزل کی دُعا دی جائے
    خُود وہ آئے گا سرِ بام، جو آنا ہو گا
    اُس کے دروازے پہ دستک، نہ صدا دی جائے
    اتنے جھنجھٹ ہیں کہ مِلتی نہیں اب تو فُرصت
    رسمِ دلجوئی، ہو جیسے بھی، اُٹھا دی جائے
    ایک ہی طرح دھڑکتا ہے، خزاں ہو کہ بہار
    دل کو اِس سال کوئی سخت سزا دی جائے
    منتخب لوگ ہیں، خلعت سے بلند و بالا
    مُستحق لوگوں کو دستار و قبا دی جائے
    سحرِ خاموشی کسی طرح تو ٹُوٹے عظمیؔ
    اِک صدا نام پہ اپنے ہی لگا دی جائے

    اسلام عظمیؔ​
     
  3. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل


    کسی کے لَمس سے پہلے بدن غبار کیا
    پھر اس کے بعد جنوں کی ندی کو پار کیا
    انہیں بگاڑ دیا جو صفوں کے ربط میں تھیں
    جو چیزیں بکھری ہوئی تھیں انہیں قطار کیا
    بنی تھیں پردۂ جاں پر ہزارہا شکلیں
    خبر نہیں کسے چھوڑا، کسے شمار کیا
    اندھیری شب میں تغیّر پذیر تھی ہر شے
    بس ایک جسم ہی تھا جس پہ انحصار کیا
    مرے مکانِ جسد پہ مری حکومت تھی
    کہ خود ہی غلبہ کیا خود ہی واگذار کیا
    وجودِ خاک تھا، دریا سے جنگ کی میں نے
    کہ سطحِ آب کو میدانِ کارزار کیا
    کشش نے کھینچ لیا تھا زمین پر مجھ کو
    سو گِرتے گِرتے بھی میں نے خلا شکار کیا

    رفیقؔ سندیلوی​
     
    سلطان مہربان نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل


    کبھی لہریں ترا چہرہ جو بنانے لگ جائیں
    میری آنکھیں مُجھے دریا میں بہانے لگ جائیں
    کبھی اِک لمحۂ فُرصت جو میسّر آ جائے
    میری سوچیں مُجھے سُولی پہ چڑھانے لگ جائیں
    انتظار اُس کا نہ اتنا بھی زیادہ کرنا
    کیا خبر، برف پِگھلنے میں زمانے لگ جائیں
    آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھیں تُجھے دن میں ہم لوگ
    شب کو کاغذ پہ تیرا چہرہ بنانے لگ جائیں
    وہ ہمیں بُھولنا چاہیں تو بُھلا دیں پَل میں
    ہم اُنہیں بُھولنا چاہیں تو زمانے لگ جائیں
    گھر میں بیٹھوں تو اندھیرے مُجھے نوچیں بیدلؔ
    باہر آؤں تو اُجالے مُجھے کھانے لگ جائیں

    بیدلؔ حیدری
     
  5. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل


    خزانۂ زر و گوہر پہ خاک ڈال کے رکھ
    ہم اہلِ مہر و محبت ہیں، دل نکال کے رکھ
    ہمیں تو اپنے سمندر کی ریت کافی ہے
    تُو اپنے چشمۂ بے فیض کو سنبھال کے رکھ
    ذرا سی دیر کا ہے یہ عروجِ مال و منال
    ابھی سے ذہن میں سب زاویے زوال کے رکھ
    یہ بار بار کنارے پہ کِس کو دیکھتا ہے
    بھنور کے بِیچ کوئی حوصلہ اُچھال کے رکھ
    نہ جانے کب تُجھے جنگل میں رات پڑ جائے
    خُود اپنی آگ سے شُعلہ کوئی اُجال کے رکھ
    جواب آئے نہ آئے، سوال اُٹھا تو سہی
    پِھر اس سوال میں پہلو نئے سوال کے رکھ
    تری بلا سے گروہِ جنُوں پہ کیا گُزری
    تُو اپنا دفترِ سُود و زیاں سنبھال کے رکھ
    چھلک رہا ہے جو کشکولِ آرزو، اِس میں
    کسی فقیر کے قدموں کی خاک ڈال کے رکھ

    افتخارؔ عارف
     
  6. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل


    ہوا کے واسطے اِک کام چھوڑ آیا ہوں
    دِیا جلا کے سرِشام چھوڑ آیا ہوں
    امانتِ سحر و شام چھوڑ آیا ہوں
    کہیں چراغ، کہیں جام چھوڑ آیا ہوں
    کبھی نصیب ہو فُرصت تو اُس کو پڑھ لینا
    وہ ایک خط جو تیرے نام چھوڑ آیا ہوں
    ہوائے دشت و بیاباں بھی مُجھ پہ برہم ہے
    میں اپنے گھر کے دروبام چھوڑ آیا ہوں
    کوئی چراغ سرِ راہگزر نہیں، نہ سہی
    میں نقشِ پا تو بہرگام چھوڑ آیا ہوں
    ابھی تو اور بہت اس پہ تبصرے ہونگے
    میں گفتگو میں جو ابہام چھوڑ آیا ہوں
    یہ کم نہیں ہے وضاحت میری اسِیری کی
    پروں کے رنگ، تہہِ دام چھوڑ آیا ہوں
    وہاں سے ایک قدم بھی نہ بڑھ سکی آگے
    جہاں پہ گردشِ ایّام چھوڑ آیا ہوں
    مُجھے جو ڈھونڈنا چاہے وہ ڈُھونڈ لے اعجازؔ
    کہ اب میں کوچۂ گُمنام چھوڑ آیا ہوں

    اعجازؔ رحمانی
     
  7. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل


    غمِ ہِجراں کی ترے پاس دوا ہے کہ نہیں
    جاں بلب ہے ترا بیمار سُنا ہے کہ نہیں
    وہ جو آیا تھا، تو دل لے کے گیا ہے کہ نہیں
    جھانک لے سینے میں کمبخت ذرا، ہے کہ نہیں
    مخمصے میں تری آہٹ نے مُجھے ڈال دیا
    یہ مرے دل کے دھڑکنے کی صدا ہے کہ نہیں
    سامنے آنا، گُزر جانا، تغافل کرنا
    کیا یہ دُنیا میں قیامت کی سزا ہے کہ نہیں
    اہلِ دل نے اُسے ڈُھونڈا، اُسے محسوس کیا
    سوچتے ہی رہے کچھ لوگ، خُدا ہے کہ نہیں
    تم تو ناحق مری باتوں کا بُرا مان گئے
    میں نے جو کچھ بھی کہا تم سے، بجا ہے کہ نہیں
    آبرو جائے نہ اشکوں کی روانی سے نصیرؔ
    سوچتا ہوں، یہ محبت میں روا ہے کہ نہیں

    سید نصیرالدین نصیرؔ
     
  8. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    میں آرزُوئے جاں لکھوں، یا جانِ آرزُو
    تُو ہی بتا دے ناز سے، ایمانِ آرزُو
    آنسو نکل رہے ہیں تصوّر میں بن کے پُھول
    شاداب ہو رہا ہے گُلستانِ آرزُو
    ایمان و جاں، نثار تری اِک نگاہ پر
    تُو جانِ آرزو ہے، تُو ایمانِ آرزو
    مصرِ فراق کب تلک اے یوسفِؑ اُمید
    روتا ہے تیرے ہجر میں کِنعانِ آرزُو
    ہونے کو ہے طلوع، صباحِ شبِ وصال
    بُجھنے کو ہے چراغِ شبستانِ آرزُو
    اِک وہ کہ آرزوؤں پہ جیتے ہیں عُمر بھر
    اِک ہم کہ ہیں ابھی سے پشیمانِ آرزُو
    آنکھوں سے جُوئے خوں ہے رواں دل ہے داغ داغ
    دیکھے کوئی بہارِ گُلستانِ آرزُو
    دل میں نشاطِ رفتہ کی دُھندلی سی یاد ہے
    یا شمعِ وصل ہے، تہہِ دامانِ آرزُو
    اخترؔ کو زندگی کا بھروسہ نہیں رہا
    جب سے لُٹا چُکے سروسامانِ آرزو

    اخترؔ شیرانی
     
  9. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل


    اے دل وہ عاشقی کے فسانے کِدھر گئے
    وہ عُمر کیا ہوئی، وہ زمانے کِدھر گئے
    تھے وہ بھی کیا زمانے کہ رہتے تھے ساتھ ہم
    وہ دن کہاں ہیں، اب وہ زمانے کِدھر گئے
    ہے نجد میں سکوت، ہواؤں کو کیا ہُوا
    لیلائیں ہیں خموش، دِوانے کِدھر گئے
    صحرا و کوہ سے نہیں اُٹھی صدائے درد
    وہ قیس و کوہ کن کے ٹھکانے کِدھر گئے
    اُجڑے پڑے ہیں دشت، غزالوں پہ کیا بنے
    سوتے ہیں کوہسار، دِوانے کِدھر گئے
    دن رات مئے کدے میں‌ گُزرتی تھی زندگی
    اخترؔ وہ بے خُودی کے زمانے کِدھر گئے

    اخترؔ شیرانی
     
  10. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل
    یہ جو ایک دستِ سوال ہے ترے سامنے
    کوئی غم سے کتنا نڈھال ہے ترے سامنے
    میں پڑا ہوں قریۂ ہجر کے اسی کنج میں
    مگر ایک شہرِ وصال ہے ترے سامنے
    یہاں عرضِ حال پہ کس کو اتنا عبور ہے
    یہاں کس کی اتنی مجال ہے ترے سامنے
    مرے آئینے! مری عاجزی سے کلام کر
    ترا ایک واقفِ حال ہے ترے سامنے
    میں دِیا جلا کے منڈیر پر نہیں رکھ سکا
    تُو ہوا ہے، جلنا محال ہے ترے سامنے

    محمدسلیم طاہر​
     
    Last edited: ‏27 اگست 2013
  11. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    میں نعرۂ مستانہ، میں شوخئ رِندانہ
    میں تشنہ کہاں جاؤں، پی کر بھی کہاں جانا
    میں طائرِ لاہُوتی، میں جوہرِ ملکُوتی
    ناسُوتی نے کب مُجھ کو، اس حال میں پہچانا
    میں سوزِ محبت ہوں، میں ایک قیامت ہوں
    میں اشکِ ندامت ہوں، میں گوہرِ یکدانہ
    کس یاد کا صحرا ہوں، کس چشم کا دریا ہوں
    خُود طُور کا جلوہ ہوں، ہے شکل کلیمانہ
    میں شمعِ فروزاں ہوں، میں آتشِ لرزاں ہوں
    میں سوزشِ ہجراں ہوں، میں منزلِ پروانہ
    میں حُسنِ مجسّم ہوں، میں گیسوئے برہم ہوں
    میں پُھول ہوں شبنم ہوں، میں جلوۂ جانانہ
    میں واصفِؔ بسمل ہوں، میں رونقِ محفل ہوں
    اِک ٹُوٹا ہوا دل ہوں، میں شہر میں ویرانہ

    واصف علی واصفؔ
     
  12. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    سرِ عرش نعرہ بپا ہوا، کہ یہ کون ہے اِسے کیا ہوا
    کوئی منچلا ہے کہ دل جلا، یا وجودِ ہست فنا ہوا
    یہ مقامِ دل ہے کہ الاماں، یہ کہاں نصیبۂ قُدسیاں
    کہ فغاں گئی سُوئے لامکاں، تو مکیں کا دل تھا ہِلا ہوا
    یہ دُعا تھی ایک غریب کی، کسی دل جلے کے نصیب کی
    کہاں بات تھی یہ قریب کی، کہ فلک کا در تھا کُھلا ہوا
    اسی قوم کی کہ جو سو گئی، وہ بھٹک کے راہ بھی کھو گئی
    وہ جو یادِ رفتہ ہی ہو گئی، کسی راہزن کا بھلا ہوا
    چلے ہِند سے تھے جو قافلے، کہ خُدا کی رہ میں لُٹے ہوئے
    ابھی آ کے ٹھہرے ہی بھی نہ تھے، کہ فساد و فتنہ بپا ہوا
    یہ مثال ایسی مثال ہے، کہ مثال اس کی محال ہے
    ہوا کیسا قوم کا حال ہے، ہو چراغ جیسے بُجھا ہوا
    یہ انوکھی راہوں پہ آ گئی، کہ گئی ابھی کہ ابھی گئی
    مِلے راہبر تو اِسے کئی، نہ کسی سے وعدہ وفا ہوا
    یہ خُدا کے نُور کا نُور ہے، ابھی منزلوں سے ہی دُور ہے
    ہوا ہر قدم پہ قصُور ہے، کہ حجاب سا ہے پڑا ہوا

    واصف علی واصفؔ​
     
  13. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    خواب میری آنکھوں سے کیسا کیسا چِھینا ہے
    مُفلسی سے بڑھ کر بھی کیا کوئی کمینہ ہے
    روشنی کے مدفن میں خوشبوؤں کی میّت ہے
    آرزُو کے آنگن میں درد کی حسینہ ہے
    نامُراد راتیں ہیں، بے ہدف اُجالے ہیں
    ذِلّتوں کے دوزخ میں اور کتنا جینا ہے؟
    ریزہ ریزہ خوابوں کی کرچیوں کو چُن چُن کر
    زہر زندگی کا یہ، قطرہ قطرہ پینا ہے
    جانے کون ہوتے ہیں جو مُراد پاتے ہیں
    اپنے واسطے تو یہ تیرھواں مہینہ ہے
    جانے کس زمانے میں اُجرتیں بھی مِلتی تھیں
    اب تو محنتوں کا عِوض خُون اور پسینہ ہے
    زر پرست بستی کی کیا حسِیں ثقافت ہے
    ہونٹ مسکراتے ہیں پر دلوں میں کِینہ ہے
    خوف کے سمندر میں اِضطراب کی موجیں
    جن پہ بے یقینی کا، ڈولتا سفینہ ہے
    روز اِک اذیّت کے دشت سے گزرتا ہوں
    نارسی کے تِیروں سے چَھلنی میرا سِینہ ہے
    زندگی تو صدیوں سے کربلا میں ٹھہری ہے
    دمشق اور کُوفہ میں دربدر مدینہ ہے
    کرب کے الاؤ میں شعلہ شعلہ جلتا ہوں
    وحشتوں کی سنگت میں لمحہ لمحہ جِینا ہے
    شامِ زندگی سر پہ آ کھڑی ہے اور خود کو
    ریزہ ریزہ چُننا ہے، لخت لخت سِینا ہے

    تبسمؔ وڑائچ
     
  14. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل



    دِن تری یاد کے ہوئے، شب ترے نام کی ہوئی
    کچھ بھی نہ تھی یہ زندگی، اب کسی کام کی ہوئی
    مطلعِ خواب پر کہیں، کوئی طلوع ہو گیا
    آج کے بعد تو نظر بس اُسی بام کی ہوئی
    سارے بدن پہ چھا گئی، جیسے کہ بُوئے یاسمیں
    دل کو عجب طرح خُوشی اُس سے کلام کی ہوئی
    عشقِ طلسم رنگ نے کیسا کِیا ہے معجزہ
    اوّلِ ماہ کی یہ شب، ماہِ تمام کی ہوئی
    کوئی سفر میں ساتھ تھا، ہاتھ میں اُس کا ہاتھ تھا
    بادِ صبا بھی معترف، حُسن خرام کی ہوئی
    دشت کو بَن بنا گئی، کون سے گُل کِھلا گئی؟
    وہ جو کوئی بہار تھی، آپ نے عام کی ہوئی
    پردۂ ابر میں کہیں چُھپ گیا رُوئے آفتاب
    دن میں بہت خفیف سی روشنی شام کی ہوئی
    لے کے زیاں و سُود کو، ہست کو اور بُود کو
    موجِ فنا بھی پھر اُسی بحرِ دوام کی ہوئی

    ثمینہ راجہ​
     
  15. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل



    صبح کو بزمِ ناز کا رنگ اُڑا ہوا ملا
    پھول جلے ہوئے ملے دِیپ بجھا ہوا ملا
    دل کا نصیب ہے اسےگرغمِ دوست مل سکے
    ایسا نگیں بھلا کسے رَہ میں پڑا ہوا ملا
    ٹوٹ کے گِر چکا تھا اور ہم نے چنی تھیں کِرچیاں
    آج یہ آسمان پھر سر پہ تنا ہوا ملا
    جب بھی فسانۂ فراق شمعِ خموش سے سنا
    خوبئ اتفاق سے پہلے سنا ہوا ملا
    شام کے ساتھ دُور تک چلتا ہوا وہ راستہ
    آج تو اپنے پاؤں کے نیچے بچھا ہوا ملا
    ہجر کدے میں رات کو روز کی طرح آج بھی
    نیند بجھی بجھی ملی، خواب جلا ہوا ملا
    کوئی اُٹھا تو دھوپ سا سارے افق پہ چھا گیا
    اپنے ہی سائے سے کہیں کوئی ڈرا ہوا ملا
    گھر میں اگر ہے کچھ کمی رامش و رنگ و نُور کی
    خانۂ خواب دیکھئے کیسا سجا ہوا ملا

    ثمینہ راجہ
     
  16. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل


    نامرادی کا دلِ زار کو شکوا ہے عبث
    اور کچھ اس کے سوا اُن سے تمنّا ہے عبث
    واقفِ رحم نہیں اس شہِ خوباں کی نظر
    عاشقی مملکتِ حُسن میں رُسوا ہے عبث
    خُو سے اُس محوِ تغافل کے جو آگاہ نہیں
    آرزو وعدۂ جاناں پہ شکیبا ہے عبث
    حالِ دل اُن سے نہ پوشیدہ رہا ہے، نہ رہے
    اب تو اس رازِ نمودار کا اخفا ہے عبث
    ہجرِ ساقی میں بھلا کس کو خوش آئے گی شراب
    ہم نشینو! طلبِ ساغر و مینا ہے عبث
    مست غفلت ہے وہ ظالم جو نہیں بے خودِ عشق
    ہوشیاری کا ترے دور میں دعوا ہے عبث
    ہم کو اس شوخ سے اُمیدِ کرم ہے، لیکن
    یاس کہتی ہے کہ حسرتؔ یہ تمنّا ہے عبث

    حسرتؔ موہانی
     
  17. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل


    حادثہ یہ ہے، کہ اِک حادثہ ہونا ہے ابھی
    آنکھ اُسے ڈھونڈ رہی ہے جسے کھونا ہے ابھی
    عکسِ تعبیر کوئی اے مرے آئینۂ خواب
    آخری نیند مجھے جاگ کے سونا ہے ابھی
    گِر رہے ہیں رگِ احساس میں قطرہ قطرہ
    مجھ کو پلکوں پہ ستاروں کو پِرونا ہے ابھی
    میری آواز کی تہہ میں وہ اُترتا کیسے؟
    میں جنوں سوزِ محبت، اُسے ہونا ہے ابھی
    اُس نے جو میری محبت کے صِلے میں بخشا
    اپنے دل پر وہی پتھر مجھے ڈھونا ہے ابھی
    فصل کو کاٹنے آ پہنچا ہے وہ زُود اندیش
    اور میں حیراں ہوں، اُسے بیج تو بونا ہے ابھی
    یہ ضروری ہے کہ خالدؔ اُسے پانے کے لئے
    کچھ نہ کچھ اپنی خبر میں تجھے ہونا ہے ابھی

    خالدؔ علیم
     
  18. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    کیا ضروری ہے وہ ہمرنگِ نوا بھی ہو جائے
    تم جدھر چاہو، اُدھر کو یہ ہوا بھی ہو جائے
    اپنے پر نوچ رہا ہے تیرا زندانیٔ دل
    اِسے ممکن ہے رِہائی کی سزا بھی ہو جائے
    دل کا دامانِ دریدہ نہیں سلِتا، تو میاں
    بھاڑ میں جائے اگر چاک رِدا بھی ہو جائے
    تم یقیں ہو، تو گماں ہجر کا کم کیا ہو گا؟
    چشمِ بے خواب، اگر خواب نُما بھی ہو جائے
    کہیں ایسا نہ ہو، اِس ڈُوبتے خُورشید کے ساتھ
    تیری آواز میں گُم میری صدا بھی ہو جائے
    ہم اسیرِ دل و جاں خُود سے بھی سہمے ہوئے ہیں
    خلقتِ شہر تو ہونے کو خُدا بھی ہو جائے
    مجلسِ شاہ کے ہیں سارے مصاحب خاموش
    ہمنوا دل کا امیر الامراء بھی ہو جائے

    خالدؔ علیم
     
  19. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    اُسے تو کھو ہی چکے، پھر خیال کیا اُس کا
    یہ فکر کیسی کہ اب ہو گا حال کیا اُس کا
    وہ ایک شخص جسے خود ہی چھوڑ بیٹھے تھے
    گُھلائے دیتا ہے دل کو ملال کیا اُس کا
    تمہاری آنکھوں میں چھلکیں ندامتیں کیسے
    جواب بننے لگا تھا سوال کیا اُس کا
    تمہارے اپنے ارادے میں کوئی جھول نہ تھا
    کہو کہ ملنا تھا ایسا محال کیا اُس کا
    وہ نفرتوں کے بھنور میں بھی مُسکرا کے ملا
    اب اس سے بڑھ کے بھلا ہو کمال کیا اُس کا
    اب اس طرح بھی نہ یادوں کی کرچیاں چُنیے
    نہ تھا فراق سے بہتر وصال کیا اُس کا
    یہ سوچ کر نہ ملے پھر اُسے کبھی خالدؔ
    کہ جانے ہو گا ندامت سے حال کیا اُس کا

    خالدؔ شريف
     
  20. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    برف جیسے لمحوں کو دی ہے مات پِھر میں نے
    دِل میں درد سُلگایا، آج رات پِھر میں نے
    صُبح کے درِیچے میں جھانک اے شبِ ہِجراں
    کر دِیا تجھے ثابت، بے ثبات پِھر میں نے
    کیا کِسی نے دستک دی، پِھر کسی ستارے پر
    رقص کرتے دیکھی ہے کائنات پِھر میں نے
    اُٹھ کھڑا نہ ہو یارو! پھر نیا کوئی فِتنہ
    چھیڑ دی ہے محفل میں اُس کی بات پِھر میں نے
    شاید اِس طرح دنیا میری رہ پہ چل نکلے
    قریہ قریہ بانٹی ہے اپنی ذات پِھر میں نے
    بھر گیا قتیلؔ اکثر جو ستارے آنکھوں میں
    چاند رات کاٹی ہے اُس کے ساتھ پِھر میں نے

    قتیلؔ شفائی
     
  21. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    کیا بتائیں، فصلِ بے خوابی یہاں بوتا ہے کون
    جب در و دیوار جلتے ہوں تو پھر سوتا ہے کون
    تم تو کہتے تھے کہ سب قیدی رہائی پا گئے
    پھر پسِ‌ دیوارِ زِنداں رات بھر روتا ہے کون
    بس تِری بیچارگی ہم سے نہیں دیکھی گئی
    ورنہ ہاتھ آئی ہوئی دولت کو یوں کھوتا ہے کون
    کون یہ پاتال سے لے کر اُبھرتا ہے مجھے
    اتنی تہہ داری سے مجھ پر منکشف ہوتا ہے کون
    کوئی بے ترتیبئ کِردار کی حد ہے سلیمؔ
    داستاں کس کی ہے، زیبِ داستاں ہوتا ہے کون

    سلیمؔ کوثر
     
  22. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    ہر نظر پیار تو ہر لب پہ ہنسی مانگتے ہیں
    ہم تو ہر مانگ ستاروں سے بھری مانگتے ہیں
    پھول تو خوب ہی لگتے ہیں جہاں چاہیں کِھلیں
    ہم تو سرحد بھی گلابوں سے لدی مانگتے ہیں
    ہم بھی کیا لوگ ہیں نفرت کے شجر بَو بَو کر
    آسمانوں سے محبت کی جَھڑی مانگتے ہیں
    ان کی رَہ تکتی ہے تاریخ بھی بے چینی سے
    سَر بلندی کو جو نیزے کی اَنی مانگتے ہیں
    غیر اڑنے کو بھی کرتے ہیں فضا تازہ تلاش
    ہم کہ رہنے کو بھی اِک اندھی گلی مانگتے ہیں
    سب کو سلطانئ جمہور کا دعویٰ ہے مگر
    اِختیارات، بہ اندازِ شہی مانگے ہیں

    محمود شامؔ
     
  23. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    رویے اور فقرے ان کے پہلودار ہوتے ہیں
    مگر میں کیا کروں، یہ میرے رشتہ دار ہوتے ہیں
    مرے غم پر انہیں کاموں سے فرصت ہی نہیں ملتی
    مری خوشیوں میں یہ دیگوں کے چوکیدار ہوتے ہیں
    دلوں میں فرق پڑ جائے تو اس بے درد ساعت میں
    دلیلیں، منطقیں اور فلسفے بے کار ہوتے ہیں
    جنہیں صبر و رضا کی ہر گھڑی تلقین ہوتی ہے
    وہی مظلوم ہر تکلیف سے دو چار ہوتے ہیں
    بہت قابو ہے اپنے دل پہ لیکن کیا کیا جائے
    جب آنکھیں خوبصورت ہوں تو ہم لاچار ہوتے ہیں
    غزل کے شعر خاصا وقت لیتے ہیں سنورنے میں
    یہ نخرے باز بچے دیر سے تیار ہوتے ہیں
    ادھر کا رخ نہیں کرتا کوئی آسودہ دل ساجدؔ
    جہاں بیٹھے ہوئے ہم نوحہ گر دو چار ہوتے ہیں

    اعتبار ساجدؔ
     
  24. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    جب تری خواہش کے بادل چھٹ گئے
    ہم بھی اپنے سامنے سے ہٹ گئے
    رنگِ سرشاری کی تھی جِن سے رسد
    دل کی ان فصلوں کے جنگل کٹ گئے
    اِک چراغاں ہے حرم میں، دَیر میں
    جشن اُس کا ہے، دل و جاں بٹ گئے
    شہرِ دل اور شہرِ دُنیا! الوداع
    ہم تو دونوں کی طرف سے کٹ گئے
    ہو گیا سکتہ خرد مندوں کو جب
    مات کھاتے ہی دِوانے ڈٹ گئے
    کیا بتائیں، کتنے شرمندہ ہیں ہم
    تجھ سے مِل کر اور بھی ہم گھٹ گئے

    جونؔ ایلیا
     
  25. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    مل ہی جائے گا کبھی، دل کو یقیں رہتا ہے
    وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے
    جس کی سانسوں سے مہکتے تھے دروبام ترے
    اے مکاں! بول، کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے
    اِک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
    اور اب کوئی کہیں، کوئی کہیں رہتا ہے
    روز ملنے پہ بھی لگتا تھا کہ جگ بیت گئے
    عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے
    دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو، لیکن
    عمر بھر کون جواں، کون حسیں رہتا ہے

    احمدؔ مشتاق
     
  26. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    سکوتِ مرگ کے سائے بچھا کے لہجے میں
    پھر اُس نے ہم کو پکارا، خدا کے لہجے میں
    میں تجھ کو مانگ رہا ہوں بڑی عقیدت سے
    مگر وہ درد نہیں ہے دعا کے لہجے میں
    مرے شعور کی آواز پھر سے جاگ اٹھی
    تمہارے نام کی کرنیں سجا کے لہجے میں
    کہاں سے سیکھ لئے اہلِ درد کے انداز؟
    صدائیں دینے لگے ہو قضا کے لہجے میں
    غموں کی بھیڑ میں ہم کھو گئے ہیں اور حسنؔ
    کوئی بلاتا نہیں دلربا کے لہجے میں

    علی حسنؔ شیرازی
     
  27. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    بُرا، بُرے کے علاوہ بھلا بھی ہوتا ہے
    ہر آدمی میں، کوئی دوسرا بھی ہوتا ہے
    تم اپنے دیس کی سوغات ہو ہمارے لئے
    کہ حُسن، تحفۂ آب و ہوا بھی ہوتا ہے
    تمہارے شہر میں ہے جی لگا ہوا، ورنہ
    مسافروں کے لئے راستہ بھی ہوتا ہے
    وہ چہرہ اک تصور بھی ہے، حقیقت بھی
    دریچہ بند بھی ہوتا ہے، وا بھی ہوتا ہے
    ہم اے شعورؔ! اکیلے کبھی نہیں ہوتے
    ہمارے ساتھ، ہمارا خدا بھی ہوتا ہے

    انور شعورؔ
     
  28. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    اگر تھی ہم سے شکایت تو برملا کرتے
    مگر نہ چھوڑ کے جانے کا فیصلہ کرتے
    ہمیں قبول تھا یہ بھی، بھلے جفا کرتے
    کیا تھا کب یہ تقاضا کہ بس وفا کرتے
    ستم ہزار نئے، درد ہی سوا کرتے
    حیات اپنی تھی مجرم اگر گلہ کرتے
    بچھڑ کے تم سے قیامت گزر گئی دل پر
    جو اب بھی اشک نہ بہتے تو اور کیا کرتے
    مرے لیے بھی کہیں ہاتھ تو اٹھے ہوتے
    دعا اگر نہ تھی ممکن، تو بد دعا کرتے
    یہ تیرگی تو ہمیں کب کی ڈس چکی ہوتی
    جو دل جلا کے نہ یوں ہم اگر ضیا کرتے
    تھا اور کون، جہاں بھر میں آشنا اپنا
    تجھے بھی یاد نہ کرتے، تو اور کیا کرتے
    یہ آرزو بھی عجب وقتِ مرگ تھی دل میں
    تمہی نے زخم دیئے تھے، تمہی دوا کرتے گئے
    وہ لوگ کہاں، زینؔ جو خوشی کی طرح
    غموں میں ساتھ نبھانے کا حوصلہ کرتے

    اشتیاق زینؔ
     
  29. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    اُس نے موہوم سے کچھ عیب اُچھالے میرے
    کر سکا پر نہ وہ کمزور حوالے میرے
    کون ہوتا ہے جُدا اپنے کسی مُحسن سے
    اب کہاں جائیں گے جو درد ہیں پالے میرے
    عُمر بھر کی یہ کمائی ہیں اگرچہ میری
    آئے اور آ کے کوئی خواب چُرا لے میرے
    دیکھ! یہ نعمتیں اب دُشمنِ جاں ہیں تیری
    میں نہ کہتا تھا کہ مت چِھین نوالے میرے
    خواب تو جان سے پیارے ہیں مگر یہ ڈر ہے
    پیٹ کی آگ کہیں خواب نہ کھا لے میرے
    مجھ کو تسلیم تجھے مجھ سے محبت ہے بہت
    تجھ سے جائیں گے مگر روگ نہ پالے میرے
    اس لئے خود کو ہے اشعار میں ڈھالا ثاقبؔ
    کل مجھے ڈھونڈ سکیں ڈھونڈنے والے میرے

    منظور ثاقبؔ
     
  30. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: رنگِ غزل

    کُھلے سمندر کا ہر کنارا ہے نام میرے
    عجب مقدّر کا استعارہ ہے نام میرے
    محبتوں کے سبھی جزیرے تمہاری قسمت
    عداوتوں کا یہ شہرا سارا ہے نام میرے
    میں روز اپنا ہی زہر پی پی کے مر رہا ہوں
    یہ کیا اذیّت نشاں ستارہ ہے نام میرے
    مِرے لہو کی حرارتوں میں بسا ہوا ہے
    وہ ایک دن تم نے جو گزارا ہے نام میرے
    نہ لکھنے والے کا نام لکھا ہے کوئی صفدرؔ
    کہاں سے آیا یہ خط تمہارا ہے نام میرے

    صفدرؔ ہمدانی
     

اس صفحے کو مشتہر کریں