1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حقیقت بدعت

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از آبی ٹوکول, ‏15 فروری 2008۔

  1. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام علیکم بھائی آپ کے درج بالا سوالات کے سلسلے میں سرچ کرتے ہوئے ماھنامہ منھاج القرآن کی گذشتہ ماہ مئی کی اشاعت میں مفتی عبدالقیوم ہزاروی صاحب کا یہ مقالہ سوال و جواب کے حوالے سے میری نظر سے گذرا جس میں انھوں نے نہایت ہی آسان پیرائے میں مذکورہ بالا دنوں کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی ہے امید کرتا ہوں اسے پڑھکر بھی آپکے کافی شکوک و شبہات دور ہوجائیں گے۔ مقالہ درج زیل ہے ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    [center:2wijayxu]الفقہ : آپ کے مسائل
    مفتی عبد القیوم خان ہزاروی

    سوال : ایک اہم معاشرتی رسم جسے رسم قل، رسم دسواں یا رسم چہلم کی صورتوں میں فوت شدہ عزیز کی روح کے ایصال ثواب کے لئے منعقد کیا جاتا ہے۔قرآن و حدیث کی روشنی میں اس پر تفیصلاً روشنی ڈالتے ہوئے حقیقی صورت حال سے آگاہ فرمائیں؟
    جواب : تیسرا، دسواں، چالیسواں دن شرعاً ضروری نہیں۔ یہ عارضی طور پر اور انتظامی سہولت کے پیش نظر مقرر کئے جاتے ہیں۔ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر بہت سے حقوق ہوتے ہیں۔ یعنی بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے، مر جائے تو اس کے جنازہ میں شریک ہو۔ عموماً مرنے والے عزیز، رشتہ دار، دوست احباب ہوتے ہیں کچھ جنازے میں شریک ہوجاتے ہیں کچھ بوجوہ نہیں ہوسکتے۔ اب دو صورتیں بنتی ہیں ایک تو وہ چپ کرکے بیٹھا رہے۔ آنے کی زحمت ہی نہ کرے۔ دوسرا یہ کہ وہ میت کے عزیز و اقارب کے پاس اظہار تعزیت کے لئے آئے۔ بزرگوں نے چند دن اپنی اور آنے والوں کی سہولت کے لئے مخصوص کردیئے تاکہ دونوں کو سہولت رہے۔ یہی دن بعد میں تیسرا، دسواں یا چالیسواں کے نام سے مشہور ہوگئے۔ جو جنازے سے رہ گیا وہ قل خوانی پر آجائے۔۔۔ جو اس سے رہ گیا وہ دسواں یا چالیسواں کے روز آجائے۔

    جب مقرر کردہ دنوں میں اعزاء اقارب جمع ہوگئے تو سوچا بجائے گپ شپ کے کیوں نہ کچھ پڑھ لیا جائے۔ تلاوت قرآن، کلمہ طیبہ، درود وسلام وغیرہ کا ورد کرلیا جائے، کچھ صدقہ و خیرات حسبِ توفیق ہوجائے تاکہ جمع ہونے والوں اور اہل خاندان و خانہ کی طرف سے مرحوم کو ثواب ارسال کردیا جائے، دعائے مغفرت ہوجائے۔

    اب جو شخص اپنے مرنے والے کی خیر خواہی کرنا چاہے وہ کردے، نہیں کرنا چاہتا تو نہ کرے۔ جھگڑے کی ضرورت نہیں سوم، چہلم، دسواں وغیرہ کی یہی اصل ہے۔ مرنے والوں کو ثواب پہنچانا اور دعائے مغفرت کرنا باعث ثواب ہے اور میت کے لئے کار آمد ہے۔

    رہا مسئلہ کھانا کھلانے کا اور ختم وغیرہ کا تو عرض ہے جب لوگ آپ کے پاس اظہار تعزیت کے لئے آئے، کچھ لوگ دور سے آئے ہوں گے کچھ نزدیک سے اگر ایسے موقع پر کھانا نہ کھلائیں تو یہ بری بات ہے۔ ویسے بھی حدیث مبارکہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک شخص نے سوال کیا۔ ای الاسلام خیر۔ کونسا اسلام بہتر ہے؟ فرمایا :

    تُطْعِمُ الطَّعَامَ وَتُقْری السَّلَامَ عَلَی مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرف.

    ’’کھانا کھلاؤ، سلام کرو جس کو پہنچاتے ہو اور اسے بھی جسے نہیں پہنچانتے‘‘۔

    (بخاری و مسلم بحوالہ مشکوٰۃ ص7)

    لہذا اسلامی احکام پر عمل کرنے پر کسی کو لعن طعن کرنا درست نہیں۔ درود و سلام پڑھنا، صدقہ و خیرات کرنا، قرآن کی تلاوت کرنا، اللہ کا ذکر کرنا، کھانا کھلانا، کپڑے پہنانا، خلوص و دل سے ہو، رزق حلال سے ہو تو نیکی ہے کار ثواب ہے۔ ان تمام ثوابوں کو جمع کرکے مرنے والوں کے نام بھیجنا اور ان کے لئے دعائے مغفرت کرنا، قرآن و حدیث کے عین مطابق ہے۔ ہاں اگر لواحقین غریب ہیں تو ان کی طرف سے کھانا بری بات ہے۔ مرنے کے بعد مرنے والے کو نیکیوں کی ضرورت ہے۔ شاید یہی ذکر و نعت، صدقہ و خیرات اس کے لئے بخشش کا وسیلہ بن جائے۔ میت کو ایسے اعمال کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔ شریعت میں قل، دسواں، چالیسواں کا کوئی شرعی حکم نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے عرف میں ہے۔ اچھی چیز ہے مستحب ہے اس میں کوئی برائی نہیں۔[/center:2wijayxu]
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    تیسرا دسواں اور چالیسواں اب معاشرے میں بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے دیگیں پکتی ہیں شامیانے لگتے ہیں اور عزیز و اقارب آتے ہیں۔ وہی لوگ جو تیسرے دسویں پر آتے ہیں ما سوا چند آدمیوں کے، وہی چالیسویں پر آتے ہیں۔

    اب یہ دن اس لیے بھی منائے جاتے ہیں کہ اگر ان کا اہتمام نہ کیا گیا تو لوگ کیا کہیں گے۔

    بلا شبہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر بہت سے حقوق ہوتے ہیں۔

    لیکن کیا جب مسلمان مر جاتا تو صحابہ اس کے جنازہ میں شریک نہ ہوتے تھے۔ جو مسائل آج درپیش ہیں کہ دور دراز سے عزیز آ کر تعزیت کرتے ہیں تو اس دور میں تو آج کی نسبت یہ مسائل زیادہ شدید تھے تو کیا آج ھمارے بزرگوں نے جو چند دن اپنی اور آنے والوں کی سہولت کے لئے مخصوص کردیئے ہیں صحابہ کرام کو خیال نہ آیا کہ اتنے اہم معاملے پر غور کر کے تیسرا، دسواں یا چالیسواں اور برسی کے نام سے دن مقرر کر دیتے کہ آج مجھ جیسے کم علم لوگوں کو اعتراض کی توفیق نہ ہوتی۔

    حدیث‌میں تو ہے کہ سوگ صرف تین دن تک منائو تو پھر یہ دسواں چالیسواں اور برسی وغیرہ کا سلسلہ کیوں


    آبی بھائی میں آپ کا مشکور ہوں کہ آپ بڑی محبت سے میری بات کا جواب دیتے ہیں اور نعیم بھائی کی طرح لٹھ لے کر میرے پیچھے نہیں پڑ جاتے۔ آپ یقین کریں کہ مجھے کسی بھی مکتبہ فکر سے کوئی بحث نہیں میں محض اپنی خلش اور ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کو آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

    یہ میری الجھن ہے وگرنہ میں بھی چالیسویں اور برسیوں میں شرکت کرتا ہوں اور لوگوں کے رویے دیکھ کر دل میں کڑھتا رہتا ہوں کہ کیا یہ لوگ جو بن سنور کر کھانے کی دعوت میں آئے ہیں اور خاص طور پر خواتین اس طرح سج دھج کر آئی ہوتی ہیں کہ گمان ہوتا ہے کسی شادی میں آئی ہیں اور اس پر تماشہ یہ کہ ہنسی مذاق اور ٹھٹھے قہقہے بھی چل رہے ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ میں شدید الجھن میں پڑ جاتا ہوں کہ یہ کیا مذاق ہے اور پھر جب علما سے رجوع کیا جاتا ہے تو وہ اس کے حق میں کیا کیا کہہ جاتے ہیں۔

    اسی طرح گیارھویں شریف اور عرس منانے کے طریقے ہیں۔ ان کی کیا توجیہات ہیں میری سمجھ سے بالا تر ہیں۔ گوالے پورا سال پانی ملا کر دودھ بیچتے ہیں اور گیارھویں والے دن کھیر پکا کر بانٹے ہیں، عرس میں دھمال، سرکس، ناچ گانے، ڈھول تماشے نشہ آور اشیا کا استعمال اور نہ جانےکیا کچھ ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ کیا بزرگان کی یہی تعلیم تھی ۔ ۔ ۔
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام علیکم سیف بھائی !
    دینی نقطعہ نگاہ سے بھی مذکورہ بالا رسوم و رواج پر آپ کے اٹھائے گئے سوالات کے دو پہلو ہیں ان میں سے ایک کا تعلق اس کے معاشرتی نظم و نسق اور انتظامی پہلوؤں سے ہے اور دوسے پہلو کا تعلق ان کی شرعی حیثیت سے ہے سردست ہم صرف پہلے پہلو پر گفتگو کرتے ہیں ۔
    تو دیکھیے عرض یہ ہے کہ اسلام دین فطرت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عالمگیریت کا حامل دین ہے لہذا اس میں ایسی تمام خوبیاں شامل ہیں کہ جن کی وجہ سے دنیا کے کسی بھی خطے کے مسلمان کو اپنے مخصوص جغرافیائی حالات کے پیش نظر اپنےخطے کی مخصوص رسوم و رواج کی پاسداری حق بطور اباحت مل سکے ۔
    رہ گئے وہ مخصوص افعال واعمال جو کہ کسی بھی اسلامی معاشرے میں بطور رسوم ورواج رائج ہوتے ہیں تو ان پر عمل پیرا ہوتے وقت ایک ہی معاشرے میں مختلف الخیال لوگوں کا اس میں افراط و تفریط کو شامل کردینا بھی کوئی بعید از قیاس امر نہیں ۔
    اصل حقیقت یہ ہے کہ ایسے تمام اعمال و افعال کی شرعی حیثیت کا تعین کرلیا جائے اور جب ان اعمال کی شرعی حیثیت کا تعین ہوجائے تو پھر امت میں انکی(یعنی ان افعال کی شرعی حیثیت کی کہ وہ فقہی اعتبار سے کیا حیثیت رکھتے ہیں فرض،واجب ،سنت یا مستحب)
    تبلیغ بھی کردی جائے کہ تاکہ اصلاح ہوسکے ان لوگوں کی جو لوگ بھی امت میں ایسے معاملات پر جہالت کا شکار ہیں اور افراط و تفریط سے کام لیتے ہیں چاہے وہ افراط و تفریط ان معاملات کی شرعی حیثیت کے اعتبار سے ہویا پھرانھی معاملات کے انتظامی امور کے حوالے سے ۔
    آپکے اس سوال کا تعلق ان مسائل کی مد میں شرعی حیثیت کی وضاحت کا متقاضی ہے اور مجھے بڑا افسوس ہے کہ ہمارے پیش کردہ اتنے طویل ترین مقالہ سے بھی آپ پر ان مسائل کی شرعی حیثیت کا تعین نہیں ہوسکااور آپ ابھی تک ان میں تـذبذب کا شکار ہیں ۔
    تو بھائی عرض یہ ہے کہ ہم بارہا عرض کرچکے ہیں کہ دین اسلام ہمیں جو اصول دیتا ہے ان میں سے ایک بھی ایسا اصول نہیں جو یہ کہتا ہو کہ ایک کام جو خود رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کیا ہو وہ کام کرنا جائز ہی نہیں چہ جائکہ صحابہ کہ کسی کام کو ترک کرنے سے اس کا ناجائز ہونا ثابت کیا جائے اب رہی یہ بات کہ یہ اموات صحابہ کے زمانے میں بھی ہوتی تھیں تو ان کا یہ مخصوص طرز عمل کیوں نہیں تھا تو عرض ہے کہ ہم بارہا یہ بیان کرچکے کہ ان امور کی اصل ایصال ثواب ہے اور ایصال ثواب کی مختلف شکلیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کے مبارک دور میں بھی اس وقت اور خطے کے اعتبار سے رائج تھیں اور آج بھی ہیں فرق صرف ہمارے اور انکے دور اور خطے کی جغرافیائی حالات کی وجہ سے آیا ہے اور نیز یہ کہ آج ان تمام افعال کی ایک تو ہییت تبدیل کردی گئی ہے نیز اس میں ہمارے خطے کے مخصوص تمدن کی وجہ سے اسکو شرعی سے زیادہ رسمی مسئلہ بنادیا ہے جس پر میرا بھی اکثر دل کڑھتا رہتا ہے مگر ہماری کڑھن کے باوجود ہم ان افعال پر محض اپنی کڑھن کی وجہ سے غیر شرعی افعال ہونے کا فتوٰی نہیں لگاسکتے ہاں ہم زیادہ سے زیادہ ان امور کی نشاندہی کرسکتے ہیں کہ جو یا تو ان افعال میں افراط و تفریط کا اصل باعث ہیں یا پھر اگر ان میں ایسے افعال شامل ہوجائیں کہ جن کی اصل شریعت سے ثابت نہ ہو ۔

    بھائی دسواں یا چالیسواں سوگ کی شکلیں نہیں ہیں بلکہ ایصال ثواب کی مختلف صورتیں ہیں ۔


    گیارویں شریف کی اصل بھی ایصال ثواب ہی ہے کہ اس بھی احباب سے بھی غوث پاک کے ساتھ اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار بذریعہ ایصال ثواب کرنا مقصود ہوتا ہے ۔ سردست اتنا وقت نہیں کی گیارویں شریف کی شرعی حیثیت کا بیان یہاں کرسکوں اور اسی طرح عرس منانے کی اصل بھی صحاح کی وہ روایت ہے کہ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر سال شہداء احد کے مقابر پر جانا مذکور ہے ۔ رہے وہ دیگر غیر شرعی افعال تو انکا دین سے کوئی تعلق نہیں ان کو روکنا ہم سب کی زمہ داری میں ہے پہلی زمہ داری حکموت کی پھر علماء کی اور پھر حسب توفیق ہر شخص کی ۔ مثال اسکی آسان سی یہی ہے کہ نبی اکرم صلی علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کردیا تھا نہ کہ خود خانہ کعبہ کو ہی گرادیا تھا ۔ ۔۔
     
  4. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    درست فرمایا آپ نے

    ایصال ثواب پر بھی کچھ روشنی ڈالیں۔ کچھ علما کا خیال ہے کہ جب مرنے کے بعد نامہ اعمال بند ہو جاتا ہے تو پھر ایصال ثواب کس اعمال نامے میں جاتا ہے اور کیا میرا کیا ہوا کوئی عمل میرے کسی مرحوم بزرگ کے ثواب میں اضافہ کر سکتا ہے۔

    صدقہ جاریہ کا ثواب بھی کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے تو اس کی کیا صورت ہوتی ہے جب کہ اعمال نامہ بند ہو چکا ہوتا ہے۔

    اللہ تعالی آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں