1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حقیقت بدعت

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از آبی ٹوکول, ‏15 فروری 2008۔

  1. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام علیکم معزز قارئین کرام !
    کچھ دن قبل ایک فورم پر مباحثے کے دوران بات بدعت کے موضوع پر چل نکلی تو راقم نے علماء حق کی کتابوں سے استفادہ کرتے ہوئے ایک مقالہ تحریر کیا اور ان پیج پر لکھ کر لگایا اس کی افادیت کے پیش نظر راقم نے ضروری سمجھا کے اسے یہاں ہماری اردو پر بھی آپ سب کی خدمت پیش کیا جاسکے تاکہ آپ لوگ بھی اس سے مستفید ہوسکیں۔ شکریہ اگر اس مقالہ میں کوئی غلطی ہوتو برائے مہربانی راقم کو مطلع کرکے شکریہ کا موقع دیں۔۔

    تصور بدعت از روئےقرآن و سنت​
    (حصہ اول)
    اسلام ایک آسان، واضح اور قابل عمل نظام حیات ہے۔ یہ چونکہ انسانی فطرت کےعین مطابق ہے لہذا اسکے دامن میں کسی قسم کی کوئی تنگی ، جبر یا محدودیت نہیں ہے۔ یہ قیامت تک پیش آنےوالےعلمی و عملی،مذہبی و روحانی اور معاشی و معاشرتی تمام مسائل کا حل پیش کرتا ہےاگر کسی مسئلے کا حل براہ راست قرآن و سنت میں نا ہو تو اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ وہ بدعت گمراہی اور حرام و ناجائز ہےکیونکہ کہ کسی مسئلہ کا ترک ذکر اسکی حرمت کی دلیل نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ حلت و اباحت کی دلیل ہے۔
    کسی بھی نئےکام کی حلت و حرمت جاننےکا صائب طریقہ یہ ہےکہ اسےقرآن و سنت پر پیش کیا جائےاگر اس کا شریعت کےساتھ تعارض یعنی ٹکراو ہوجائےتو بلا شبہ بدعت سئیہ اور حرام و ناجائز کہلائےگا لیکن اگر اسکا قرآن و سنت کےکسی بھی حکم سےکسی قسم کا کوئی تعارض یا تصادم لازم نہ آئےتو محض عدم ذکر یا ترک ذکر کی وجہ سےاسے بدعت سئیہ اور ناجائز اور حرام قرار دینا ہرگز مناسب نہیں بلکہ یہ بذات خود دین میں ایک احداث اور بدعت سئیہ کی ایک شکل ہےاور یہ گمراہی ہےجو کہ تصور اسلام اور حکمت دین کےعین منافی اور اسلام کےاصول حلال و حرام سےانحراف برتنےاور حد سےتجاوز کرنےکےمترادف ہےایک بار جب اسی قسم کا سوال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا۔۔۔
    حلال وہ ہے جسے اللہ نےقرآن میں حلال ٹھرایا اور حرام وہ ہےجسے اللہ نےقرآن میں حرام ٹھرایا رہیں وہ اشیا ءکہ جن کےبارےمیں کوئی حکم نہیں ملتا تو وہ تمہارےلیےمعاف ہیں۔ جامع ترمذی جلد 1 ص 206مذکورہ بالا حدیث میں وما سکت عنہ فھو مما عفا عنہ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ شارع نےجن کا زذکر نہیں کیا وہ مباح اور جائز ہیں لہذا محض ترک ذکر سےکسی چیز پر حرمت کا فتوٰی نہیں لگایا جاسکتا ۔ اللہ پاک نے قرآن مجید میں ایسے لوگوں کی مذمت بیان کی ہےجو اپنی طرف سےچیزوں پر حلت و حرمت کےفتوےصادر کرتے رہتےہیں لہذا ارشاد باری تعالی ہے۔۔
    اور وہ جھوٹ مت کہا جو تمہاری زبانیں بیان کرتیں ہیں کہ یہ حلال ہےاور یہ حرام اس طرح کےتم اللہ پر بہتان باندھو بےشک وہ لوگ جو اللہ پر بہتان باندھتےہیںکبھی فلاح نہیں پاسکتے۔ النحل 116۔
    کتنے افسوس کی بات ہےکہ دین دینےوالا لااکراہ فی الدین اور یریداللہ بکم الیسر فرما کر دین میں آسانی اور وسعت فرمائےاور دین لینےوالےنبی صلی اللہ علیہ وسلم وما سکت عنہ فھو مما عنہ فرما کر ہمارے دائرہ عمل کو کشادگی دیں مگر دین پر عمل کرنےوالےاپنی کوتاہ فہمی اور کج فہمی کےباعث چھوٹے چھوٹے نزاعی معاملات پر بدعت و شرک کےفتوےصادر کرتےرہیں۔ ہماری آج کی اس گفتگو میں ہم اسلام کے تصور بدعت اور اسکی شرعی حیثیت کا قرآن و سنت جائز پیش کریں گےکیونکہ میںسمجھتا ہوں کہ اگر تصور بدعت لوگوں کو سمجھ میں آجائےتو بہت سےباہمی نزاعات کا حل خود بخود واضح ہوجاتا ہے لہذا میں نے اس موضوع پر قلم اٹھانےکا فیصلہ کیا لیکن مجھےاپنی کم علمی اور بےبضاعتی کا انتہائی حد تک احساس ہے لہذا میں ائمہ دین کی کتب سےہی اس تصور کو واضح کرنےکی کوشش کروں گا تو آئیےسب سےپہلےدیکھتےہیں کےلفظ بدعت عربی لغت میں کن معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
    بدعت کا لغوی مفہوم
    بدعت عربی زبان کا لفظ ہےجو بدع سےمشتق ہےاس کا معنی ہے .اختر عہ وصنعہ لا علی مثال ۔ المنجد
    یعنی نئی چیز ایجاد کرنا ، نیا بنانا ، یا جس چیز کا پہلے وجود نہ ہو اسے بغیر کسی سابقہ مثال کےمعرض وجود میں لانا۔
    جس طرح یہ کائنات نیست اور عدم تھی اور اس کو اللہ پاک نےغیر مثال سابق عدم سےوجود بخشا تو لغوی اعتبار سےیہ کائنات بھی بدعت کہلائی اور اللہ پاک بدیع جو کہ اللہ پاک کا صفاتی نام بھی ہے ۔اللہ پاک خود اپنی شان بدیع کی وضاحت یوں بیان کرتا ہےکہ۔۔بدیع السموات والارض۔۔۔الانعام 101
    ترجمہ ۔یعنی وہ اللہ ہی زمین و آسمان کا موجد ہے۔
    اس آیت سےواضح ہو ا کہ وہ ہستی جو کسی ایسی چیز کو وجود عطا کرےجو کہ پہلےسےموجود نہ ہو بدیع کہلاتی ہےبدعت کے س لغوی مفہوم کی وضاحت قرآن پاک کےاس ارشاد سےبھی ہوتی ہےکہ۔۔
    قل ماکنت بدعا من الرسل۔الاحقاف 46
    یعنی ۔آپ فرمادیجیےکہ میں کوئی نیا یا انوکھا رسول تو نہیں ۔
    مندرجہ بالا قرآنی شہادتوں کی بنا پر یہ بات عیاں ہوگئی کہ کائنات کی تخلیق کا ہر نیا مرحلہ اللہ پاک کےارشاد کے مطابق بدعت کہلاتا ہی۔ جیسا کہ فتح المبین شرح اربعین نووی میں علامہ ابن حجر مکی بدعت کےلغوی مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئےلکھتےہیں کہ بدعت لغت میں اس نئےکام کو کہتے ہیںجس کی مثال پہلےموجود نا ہو جس طرح قرآن میں شان خداوندی کےبارے میں کہا گیا کہ آسمان اور زمین کا بغیر کسی مثال کےپہلی بار پید اکرنے والا اللہ ہے۔بیان المولود والقیام 20۔
    بدعت کےاس لغوی مفہوم کی وضاحت کےبعد اب ہم دیکھتےہیں کہ کہ بدعت اصطلاح میں کس چیز کا نام ہی۔
    بدعت کا اصطلاحی مفہوم
    اصطلاح شرع میں بدعت کا مفہوم واضح کرنے کےلیےائمہ فقہ و حدیث نےاس کی تعریف یوں کی ہےکہ۔۔۔
    ہر وہ نیا کام جس کی کوئی اصل بالواسطہ یا بلاواسطہ نہ قرآن میں ہو نہ حدیث میں ہو اور اسےضروریات دین سمجھ کر دین میںشامل کرلیا جائےیاد رہےکہ ضروریات دین سےمراد وہ امور ہیں کہ جس میں سےکسی ایک چیز کا بھی انکار کرنےسےبندہ کافر ہوجاتا ہے۔ایسی بدعت کو بدعت سئیہ کہتےہیں اور بدعت ضلالہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےارشاد پاک۔۔۔۔
    کل بدعۃ ضلالۃ سےبھی اسی قسم کی بدعت مراد ہے۔
    کیا ہر نیا کام ناجائز ہے ؟​

    ایسےنئےکام کہ جن کی اصل قرآن و سنت میں نہ ہو وہ اپنی اصل کےاعتبار سےتو بدعت ہی کہلائیں گےمگر یہاں سوال یہ پیداہوتا کہ آیا از روئےشریعت ہر نئےکام کو محض اس لیےناجائز و حرام قرار دیا جائےکہ وہ نیا ہے ؟
    اگر شرعی اصولوں کا معیار یہی قرار دیا جائےتو پھر دین اسلام کی تعلیمات اور ہدایات میں سےکم و بیش ستر فیصد حصہ ناجائز و حرام ٹھرتا ہےکیونکہ اجتہاد کی ساری صورتیں اور قیاس ، استحسان،استنباط اور استدلال وغیرہ کی جملہ شکلیں سب ناجائز و حرام کہلائیں گی کیونکہ بعینہ ان سب کا وجود زمانہ نبوت تو درکنار زمانہ صحابہ میں بھی نہیں تھا اسی طرح دینی علوم و فنون مثلا اصول، تفسیر ، حدیث ،فقہ و اصول فقہ اور انکی تدوین و تدریس اور پھر ان سب کوسمجھنے کے لیےصرف و نحو ، معانی ، منطق وفلسفہ،بدیع ،بیان،علم بلاغت اور دیگر معاشرتی و معاشی علوم جو تفہیم دین کےلیے ضروری اور عصر ی تقاضوں کےعین مطابق ابدی حیثیت رکھتےہیں ان کا سیکھنا حرام قرار پائےگا کیونکہ اپنی ہیت کےاعتبار سےان سب علوم و فنون کی اصل نہ تو زمانہ نبوی میں ملتی ہےاور نہ ہی زمانہ صحابہ میں انھیں تو بعد میں ضروریات کےپیش نظر علماءمجتہدین اسلام نےوضع کرلیا تھا ۔اور اگر آپ کو اسی ضابطےپر اصرار ہوتو پھر درس نظامی کی موجودہ شکل بھی حرام ٹھرتی ہےجو کہ بحرحال دین کو سمجھنےکی ایک اہم ترین شکل ہےاوراسےاختیار بھی دین ہی سمجھ کر کیا جاتا ہےکیونکہ موجودہ شکل میں درس نظامی کی تدریس ، تدوین اور تفہیم نہ تو زمانہ نبوی میں ہوئی اور نہ ہی صحابہ نےاپنےزمانےمیں کبھی اس طرح سےدین کو سیکھا اور سکھایا لہذا جب ہر نیا کام بدعت ٹھرا اور ہر بدعت ہی گمراہی ٹھری تو پھر لازما درس نظامی اور دیگر تمام امور جو ہم نے اوپربیان کیئے وہ سب ضلالت و گمراہی کہلائیں گے اسی طرح قرآن پاک کا موجودہ شکل میں جمع کیا جانا اس پر اعراب اور نقاط پھر پاروں میں اس کی تقسیم اور منازل میں تقسیم اور رکوعات اور آیات کی نمبرنگ اسی طرح مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال مساجد کو پختہ کرنا اور انکی تزئین و آرائش مختلف زبانوں میں خطبات اور اسی قسم کےجملہ انتظامات سب اسی زمر ےمیںآئیں گے۔۔۔۔
    غلط فہمی کےنتائج
    بدعت کا مندرجہ بالا تصور یعنی اس کےمفہوم سےہر نئی چیز کو گمراہی پر محمول کرنا نہ صرف ایک شدید غلط فہمی بلکہ مغالطہ ہےاور علمی اور فکری اعتبار سےباعث ندامت ہےا ور خود دین اسلام کی کشادہ راہوں کو مسدود کردینےکےمترادف ہےبلکہ اپنی اصل میں یہ نقطہ نظر قابل صد افسوس ہےکیونکہ اگر اسی تصور کو حق سمجھ لیا جائےتویہ عصر حاضر اور اسکےبعد ہونےوالی تمام تر علمی سائنسی ترقی سےآنکھیں بند کر کےملت اسلامیہ کو دوسری تمام اقوام کےمقابلے میں عاجز محض کردینےکی گھناونی سازش قرارپائےگی اور اس طریق پر عمل کرتےہوئےبھلا ہم کیسےدین اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کرنےاور اسلامی تہذیب وثقافت اور تمدن اور مذہبی اقدار اور نظام حیات میں بالا تری کی تمام کوششوں کو بار آور کرسکیں گےاس لیےضروری ہےکہ اس مغالطےکو زہنوں سےدور کیا جائےاور بدعت کا حقیقی اور صحیح اسلامی تصور امت مسلمہ کی نئی نسل پر واضح کیا جائے ۔
    بدعت کا حقیقی تصوراحادیث کی روشنی میں​

    حضرت عائشہ فرماتیں ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
    من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد ۔ البخاری والمسلم
    یعنی جو ہمارےاس دین میں کوئی ایسی بات پیدا کرےجو اس میںیعنی دین میں سےنہ ہو تو وہ رد ہے ۔۔
    اس حدیث میں لفظ احدث اور ما لیس منہ قابل غور ہیں عرف عام میں احدث کا معنی دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کرنا ہےاور لفظ ما لیس منہ یہاں احدث کےمفہوم کی وضاحت کر رہا ہےکہ احدث سےمراد ایسی نئی چیز ہوگی جو کہ مالیس منہ ہو یعنی اس دین میں سےنہ ہو حدیث کےاس مفہوم سےذہن میں ایک سوال ابھرتا ہےکہ
    اگر احدث سےمراد دین میں کوئی نئی چیز پید اکرنا ہےتو پھر جب ایک چیز نئی ہی پیدا ہورہی ہےتو پھر
    ما لیس منہ کہنےکی ضرورت کیوں پیش آئی کیونکہ اگر وہ اس میں سے (یعنی دین میں)ہی تھی یعنی دین کا حصہ تھی پہلےسےہی تو اسےنیا کہنے کی ضرورت ہی نہ تھی اور جس کو نئی چیز کہہ دیا تو لفظ احدث ذکر کرنےکےبعد
    ما لیس منہ کےاضافےکی ضرورت نہیں رہتی ۔ مطلب یہ ہےکہ اگر کوئی بھی چیز ما لیس منہ میں یعنی دین ہی میں سےہےتو وہ نئی یعنی محدثہ(احدث) نہ رہی ۔ کیونکہ دین تو وہ ہےجو کمپلیٹ ہوچکا جیسا کےاکثر احباب اس موقع پر الیوم اکملت لکم دینکم کی آیت کا حوالہ دیتے ہیں اور اگر کوئی چیز فی الحقیقت نئی ہےتو پھر ما لیس منہ کی قید لگانےکی کیا ضرورت ہے کیونکہ نئی چیز ت کہتےہی اسےہیں کہ جس کا وجود پہلےسےنہ ہو اور جو پہلےسےدین میں ہو تو پھر لفظ احدث کیوں۔
    مغالطےکا ازالہ اور فھو رد کا صحیح مفھوم
    صحیح مسلم کی روایت ہےمن عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد۔ مسلم شریف۔
    یعنی جس نےکوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا کوئی امر موجود نہیں تو وہ مردود ہے ۔
    اس حدیث میں لیس علیہ امرنا سےعام طور پر یہ مراد لیا جاتا ہےکہ کو ئی بھی کام خواہ نیک یا احسن ہی کیوں نہ ہو مثلا میلاد النبی ،ایصال ثواب،وغیرہ اگر ان پر قرآن و حدیث سےکوئی نص موجود نہ ہو تو یہ بدعت او رمردود ہیں یہ مفہوم سرا سر باطل ہےکیونکہ اگر یہ معنی لےلیا جائےکہ جس کام کہ کرنےکا حکم قرآن اور سنت میں نہ ہو وہ حرام ہےتو پھر مباحات کا کیا تصور اسلام میں باقی رہ گیا ؟ کیونکہ مباح تو کہتےہی ا ُسےہیں کہ جس کہ کرنےیا نہ کرنےکا شریعت میں کوئی حکم نہ ہو ام المومنین کی پہلی روایت یعنی من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فھو رد میں فھو رد کا اطلاق نہ صرف مالیس منہ پر ہوتا ہےاور نہ فقط احدث پر بلکہ اس کا صحیح اطلاق اس صورت میں ہوگا جب یہ دونوں چیزیں جمع ہوں گی یعنی احدث اور مالیس منہ یعنی مردود فقط وہی عمل ہوگا جو نیا بھی ہو اور اسکی کوئی سابق مثال بھی شریعت میں نہ ملتی ہو یا پھر اس کی دین میں کسی جہت سےبھی کوئی دلیل نہ بنتی ہو اور کسی جہت سےدین کا اس سےکوئی تعلق نظر نہ آتا ہو پس ثابت ہوا کہ کسی بھی محدثہ کےبدعت ضلالۃ ہونےکا ضابطہ دو شرائط کےساتھ خاص ہےایک یہ کہ دین میں اس کی کوئی اصل ، مثال یا دلیل موجود نہ ہو اور دوسرا یہ کہ وہ محدثہ نہ صرف دین کےمخالف ہو اور متضاد ہو بلکہ دین کی نفی کرنےوالی ہو۔اب ہم مباح بدعت کی قبولیت کےقرآنی تصور کا جائزہ پیش کریں گےاور دیکھیں گےکی آیا قرآن کےنزدیک ہر نیا کام اپنی اصل میں فی نفسہ برا ہےیا نہیں۔
    مباح بدعت کی قبولیت اور قرآن
    یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیےکہ ضروری نہیں ہےکہ ہر بدعت قرآن و حدیث سےمتصادم ہی ہو بلکہ بےشمار بدعات ایسی ہیں جو کہ نہ تو کتاب و سنت کےمنافی ہیں اور نہ ہی شریعت کی روح کےخلاف اسی لیے انھیں بدعت مباحہ کہا جاتا ہےجو بدعت شریعت کےخلاف ہو اسےبدعت سئیہ کہتےہیں اگر اس بنیادی امتیاز کو نظر انداز کرکےہر نئی چیز کو بغیر اس کی ماہیت ، افادیت ،مقصدیت اور مشروعیت کےتجزیئےکےبدعت قرار دےدیا جائےتو عہد خلافت راشدہ سےلیکر آج تک کےلاکھوں شرعی اجتہادی اور اجتماعی فیصلے ، احکام مذہبی رسوم اورمعاملات معاذاللہ ضلالت و گمراہی قرار پائیں گےاور ہمیشہ کے لیےدینی معاملات میں اجتہاد ، استحسان، مصالح و استصلاح کا دروازہ بند ہوجائےگاجس سےلا محالہ بدلتےہوئےحالات میں اسلام کا قابل عمل رہنا بھی نا ممکن ہوجائےگا۔ پس اگر کوئی عمل نہ کتاب میں مذکور ہو نہ اس امت کےرسول نےایسا کرنےکا حکم دیا ہو بعد ازاں امت کے صلحاءکسی نئےعمل یعنی بدعت مباحہ کو وضع کرکےرضائےالٰہی ک حصول کےلیےاپنا لیں تو
    انما الاعمال بالنیات کےتحت وہ عمل بھی عنداللہ مقبول اور باعث اجرو ثواب ہوگا اور اس کو بدعت حسنہ یا مستحسن عمل کہیں گےہماری اس بات کی تائید خود قرآن پاک کی اس آیت سےہوتی ہے۔۔۔ارشاد باری ہی۔
    ثم قفینا علی اثارھم برسلنا وقفینا بعیسی بن مریم واتینہ الانجیل وجعلنا فی قلوب الذین اتبعوہ رافۃ ورحمۃ ورھبانیۃ ن ابتدعوھا ما کتبنھا علیھم الابتغا رضوان اللہ فما رعوھا حق رعیا یتھا فاتینا الذین اٰمنو منھم اجرھم وکثیر منھم فاسقون۔الحدید
    ترجمہ۔پھر ہم نےان کےپیچھےاس راہ پر اپنےرسول بھیجےاور ان کےپیچھےعیسٰی ابن مریم کو بھیجا ، انھیں انجیل عطا کی اور ہم نے انکےصحیح پیروکاروں کےدلوں میں نرمی اور رحمت رکھی اور رھبانیت کی بدعت انھوں نےخود وضع کی ہم نےان پر فرض نہ کی تھی ہاںمگر انھوں نےیہ صرف اللہ پاک کی رضا چاہتے ہوئے وضع کی لیکن وہ اسکے جملہ تقاضوں کا خیال نہ رکھ سکے پس ان میں سےجو لوگ ایماندار تھےہم نےانھیں انکا اجر عطا کیا مگر ان میں سےا کثر نافرمان تھے۔
    اس آیت کےالفاظ اور معنٰی پر غور کرنےسےہماری بات کی تائید ہوتی ہےکہ کوئی ایساکام کہ جس کےکرنےکانہ تو اللہ پاک نےحکم دیا ہو اور نہ اس کےرسول نےاور لوگ محض حصول ِرضائےالہٰی کےلیےاس عمل کو اختیارکرلیں تو انھیں اس عمل پر ثواب بھی ملتا ہےدیکھیےآیت کےالفاظ میں ابتدعوھابدعت سےمشتق ہی۔یہ الفاظ بتارہےہیں کہ شریعت عیسوی میں اصلا رہبانیت مشروع نہ تھی بلکہ امت عیسوی نےخود بطور بدعت اس کو اختیار کر لیا تھا۔دیکھیےماکتبنٰھا کےالفاظ کیسےواشگاف انداز میں یہ اعلان کررہےہیں کہ اس بدعت یعنی رہبانیت کا کوئی حکم اللہ پاک نہیں دیا تھا اور نہ ہی اس کےرسول نےکوئی ایسا کام کرنےکا کہا تھا۔اس لیےاللہ پاک نےامت عیسوی سےرہبانیت کی فرضیت کی نفی تو اس آیت میں کی ہےلیکن اس کی مشروعیت کی نفی نہیں کی یعنی اس کو حرام و ناجائز نہیں ٹھرایا۔یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ شریعت عیسوی میں رہبانیت کا جو تصور تھا اس کا کوئی حکم اللہ یا اسکےرسول نےنہیں دیا تھاہاں مگر امت عیسوی نےاسےبطور خودرضائےالہٰی کےحصول کی خاطر اپنالیا تھا۔ جس پر اللہ پاک نےاُن کےاس عمل کو سند قبولیت سےنوازااور یوں رہبانیت مشروع ہوکر شریعت عیسوی کا حصہ بنی۔ ہماری اس بات کی تائید ایک حدیث مبارکہ پر غور کرنےسےبھی ہوتی ہےکہ جس میں نبی کریم نےفرمایا کہ اسلام میں رہبانیت نہیں۔یہ اس لیے فرمایا کہ پہلی شریعت میںرہبانیت تھی اب سوچنےکی بات یہ ہے کہ اگر پہلی شریعت میں رہبانیت تھی تو کہاں سےآئی کیا اللہ پاک نےحکم دیا تھا مگر اللہ پاک تو فرما رہےہیں کہ ماکتبنھا علیھم یعنی کےہم نےان پر فرض نہ کی۔ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہےکہ ہر وہ حکم جو منزل من اللہ یا مقرر من الرسول نہ ہو لیکن اللہ اور اس کےرسول نےکسی ایسےعمل سےروکا بھی نہ ہو اسےاگر نیک نیتی سے مستحسن انداز میں داخل شریعت کرلیا جائے بشرطیکہ وہ عمل بذات خود صحیح ہو اور کسی بھی شرعی امر کےخلاف نہ ہو تو ایسےعمل کو نہ صرف شرف قبولیت عطا ہوتا ہےبلکہ اس پر اجر وثواب کا بھی وعدہ خداوندی ہے۔ جیسا کہ رھبانیت امت عیسوی میں۔ اگر آپ الابتغاءرضوان اللہ کے الفاظ پر غور کریں تو یہی بات سمجھ میں آئےگی کہ عیٰسی علیہ السلام کےپیرو کاروں نےوہ عمل یعنی رھبانیت حصول رضائےالہٰی کےلیےہی ایجاد کی تھی اسی لیےاللہ پاک نےاس امر کو مستحسن قرارد ےکر کر قبول کرلیا پس ثابت ہوا کہ کوئی عمل فی نفسہ اگر بدعت بھی ہو تو وہ تب بھی رضائے الٰہی کےحصول کا زریعہ بن سکتا ہے۔ اب اگر آپ اسی آیت کےاگلےالفاظ پر غور کریں جوکہ یہ ہیں کہ ۔
    فما رعوھا حق رعایتھا یعنی انھوں نےاس عمل یعنی رھبانیت کا اس طرح حق ادا نہیں کیا جیسا کےاسکا تقاضہ تھا۔
    تو آپ کو یہ بات بھی بڑی واضح طور پر سمجھ میں آجائےگی کہ اگر امت کسی مستحسن عمل کو اپنا لیتی ہےمگر پھر اس کو ادا کرنےکوتاہی سےکام لیتی ہےتو پھر اللہ پاک ناراض بھی ہوتے ہیں اس اس آیت کےان الفاظ نے رھبانیت کی بدعت کی فی نفسہ مذمت نہیں کی بلکہ اس بدعت کو ٹھیک طرح سے ادا نہ کرنےکی مذمت کی۔۔۔۔اس سے آگےکہ الفاظ واشگاف اعلان کررہےہیں کہ جن لوگوں نےا س یعنی بدعت رھبانیت کےتقاضےکو پورا کیا اللہ پاک نےنہ صرف انھیں شرف قبولیت بخشا بلکہ اجر بھی عطا فرمایا دیکھیے ۔۔
    فاتینا الذین امنو منھم اجرھم میں منھمکےالفاظ بتا رہےہیں کہ انھی میں سےجن لوگوں نےاس بدعت رھبانیت کےجملہ تقاضوں کو ٹھیک ٹھیک نبھایا اللہ پاک نے انہیں اجر بھی عطا کیا ۔
    مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں تصور بدعت کےمتعلق دو امور بڑے نمایاں ہوکر سامنے آتےہیں ۔ ایک یہ کہ اگر رضائے الہٰی کی خاطر کوئی نیا کام جسےعرف عام میں بدعت کہا جائےاور جو فی نفسہ خلاف شریعت نہ ہو تو اسلام اسے قبول کرتا ہےبلکہ امر مستحسن کےطور پر اس پر اجر وثواب کا بھی عندیہ دیتا ہےاور ایسےامور شریعت میں مشروع ہوتے ہیں اور انھیں مطلقا ناجائز اور حرام و بدعت سیہ قرار دیا زیادتی کے مترادف ہے۔ دوسری بات جو اس آیت کی روشنی میں ہمیں سمجھ میں آتی ہےوہ یہ کہ جس مقصد کے لیے وہ بدعت حسنہ وضع کی گئی ہو اس سے وہ مقصد بجا طور پر پورا ہونا چاہیے ، ایسا نہ ہو کہ بدعت حسنہ کا سہارا لیکر کسی کام کو روا تو رکھ لیا جائےمگر اسکی اصل روح مقصدیت اور افادیت کو نظر انداز کردیا جائےاور اسےمحض رسمیت کےطور پر روا رکھا جائےجیسا کہ بے عملی کی وجہ سے اکثر ہوتا ہے تو یہ اقدام نافرمانی کہلائےگا۔
    جاری ہے۔۔۔۔۔
     
    سید شہزاد ناصر اور ھارون رشید .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    (حصہ دوم)
    شریعت اسلام اور تصور حلال و حرام
    اسلام کےدامن میں کوئی تنگی یا محدودیت نہیں ہےبلکہ یہ ایک آسان واضح اور قابل عمل دین شریعت مطہرہ میں کوئی شئےاس وقت ناجائز قرار پاتی ہےجب اس کو قرآن و سنت یا اجماع ازروئےشرع ناجائز قرار دیں ۔ جس کو قرآن و سنت نےصراحت کےساتھ جائز نہیں کہا اسےاز روئےشرع ناجائز بھی نہیں کہا جاسکتا وہ اس لیےکہ شرعیت کا اصول حلال چیزوں کو گنوانےاور انکی گنتی پر نہیں بلکہ قرآن پاک کا یہ اصول ہےکہ اس نےجہاں بھی حلال و حرام کی تقریر بیان کی ہےتو حرام اشیاءکی فہرست گنوا دی ہے اور اس کےعلاوہ ہر شئےکو اصلا مباح قرار دیا ہے اسی اصول پر شریعت کا مشہور قاعدہ ہےکہ الاشیا فی الا صل اباحہ اور ہماری اس بات کی تائید متعدد قرآنی آیات سےہوتی ہےاب آپ سورہ مائدہ کی ان ابتدائی آیات پر ہی غور کرلیں کہ جن میں بڑےواضح الفاظ سےہماری بات کی تائید ہورہی ہے ۔۔۔
    یاایھالذین امنو اوفوا بالعقود احلت لکم بھیمۃ الانعام الا ما یتلی علیکم ۔۔۔۔
    اے ایمان والو پورےکرو اپنےعہدوں کو حلال کیےگئےتمہارےلیےچوپائےسوائےانکےکہ جن کا حکم پڑھ کرسنایا جائےگا ۔۔۔الانعام١
    اب اس آیت پر غور کریں کہ مطلق سب جوپایوں کو حلا ل قرار دیا گیا یعنی یہ نہیں کہا گیا کہ فلاں بھی حلال ہے فلاں بھی حلال اور فلاں بھی حلال ہے اور جب باری آئی حرام جانوروں کی تو الا جو کہ حرف استثنا ءہے۔ اسے ادا فرما کر یہ یہ کہا گیا کہ حرام وہ ہیں جوکہ
    ما یتلی علیکم کےتحت آئیں گےیعنی جن کا حکم آگے پڑھ کر سنایا جائے گا یعنی جو آگےجاکر تلاوت کیے جائیں گےاور پھر آپ ان سےاگلی آیات دیکھیں تو ان میں حرام جانوروں کی فہرست ہے۔۔۔ میں آپ کو شریعت مطہرہ کہ اس اصول کی ایک آسان مثال اس طرح دوں گاکہ جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ حلال اشیا ءبے شمار ہیں اس لیےدین انکی فہرست نہیں گنواتا جب کہ حرام اشیا چونکہ حلال کےمقابلےمیں کم ہیں ا س لیےدین انکے نام لیکر لیکر گنواتا ہےجیسےکہ ایک کلاس میں پچاس بچے ہوں اور ان میں سےتین بچے فیل ہوجائیں تو استاد اُن فیل ہونے والےتینوں بچوں کےنام لیکر بتا دےگا کہ باقی سب بچے پاس ہیں اب اگر وہ ایسا نہ کرےبلکہ ایک ایک پاس ہونے والےبچےکا زکر کرئےتو اس کا ایسا کرنا ادب و حکمت کےبھی خلاف ہوگا اور فصاحت و بلاغت کےبھی منافی ہوگا۔۔۔
    اسی لیےہم عرض کررہےتھےکہ کسی عمل کو محض بدعت کہہ دینےسے وہ حرام نہیں ہوجاتا کیونکہ لغوی اعتبار سے کسی عمل کا بدعت ہونا فقط اتنا ثابت کرئے گا کہ اس پر قرآن و حدیث اور عمل صحابہ سےکوئی سند نہیں ہے لہذا ایسا ہر عمل اباحت کے دائرےمیں آجائےگا پس ثابت ہوا کہ کسی عمل کا محض نیا ہونا حرمت کی دلیل نہیں بن سکتا بلکہ کسی بھی نئےعمل کی حلت و حرمت کو جاننے کےلیےاسےدلیل شرعی کی طرف لوٹایا جائےگا اگر وہ عمل موافق شرع ہو تو بدعت حسنہ اور اگر خلاف شرع ہوتو بدعت سئیہ نبی کریم ور صحابہ کا کسی کام کو نہ کرنا اس کی حرمت کی دلیل نہیں ہوتا۔
    اور اگر اسی کو قاعدہ مان لیا جائے تو پھر ہر وہ عمل کہ جس کا قرآن میں ذکر نہیں اسے بدرجہ اولیٰ بدعت کہا جانا چاہیےکیونکہ اگر حضور یا صحابہ کےترک سےکوئی فعل بدعت قرار پا سکتا ہےتو پھر قرآن پاک جو کہ کلام الٰہی ہےاس کےترک سے س فعل کو بطریق اولٰی بدعت قرار دیا جانا چاہیے۔
    اسی لیے اصل ضابطہ یہ ہے کہ قرآن نےجو چیزیں حرام کی ہیں وہ بیان کردیں ہیں اور جن کے بارےمیں خاموشی اختیا ر کی ہےوہ جائز ہیں قرآن اپنا یہ قاعدہ یوں بیان کرتا ہےکہ۔۔
    قد فصل لکم ما حرم علیکم الانعام 119
    یعنی اس نےتم پر جو چیزیں حرام قرار دیںان سب کو تفصیلا بیان کردیا ۔
    اور اسی طرح ایک اور مقام پر یوں فرمایا کہ۔۔
    واحلال لکم ما ورا ذالکم النساء 24۔
    یعنی اور اسکےسوا تمہارےلیےسب حلال ہے ۔
    یہاں ذالکم میں کم کی ضمیر کا مرجع وہ اشیاء ہیں کہ جنکا بیان اس کی آیت کے ماقبل میں ہے یعنی یہاں کم کی ضمیر بیان شدہ چیزوں کی طرف لوٹ رہی ہے۔۔
    ان دونوں آیات سےہمارے بیان کردہ قرآنی اصول کی بڑی وضاحت کےساتھ تصریح ہوتی ہےکہ جس چیز کو قرآن نےحرام کیا اس کی فہرست یعنی تفصیل کردی اور اس کےسوا چونکہ باقی چیزوں کی فہرست نہیں اس لیے وہ سب مباح یعنی جائز قرار پائیں گی، پس ثابت ہوا کہ ترک ذکر حرمت کی نہیں بلکہ اباحت کی دلیل ہے۔ اور اسی اصول کی وجہ سےکسی بھی چیز کو حرام ٹھرانے والے کے لیے ضروری ہےکہ وہ اسکی دلیل لائے اور اسی لیے فقہا نےلکھا کہ دلیل ہمیشہ حرمت کی طلب کی جائےگی کیونکہ اصل تمام اشیاءمیں اباحت ہے ۔
    تصور بدعت کی مزید وضاحت از روئے حدیث ۔
    پہلی حدیث۔۔۔۔ جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ ایجاد کرےاسےاپنےعمل اور ان کےعملوں کا بھی ثواب ہے جو اس پر عمل کریں بغیر اس کےان کا اجر کم ہو اور جو شخص اسلام میں برا طریقہ ایجاد کرےاس پر اپنی بد عملی کا گناہ ہےاور انکی بد عملیوں کا بھی کہ جو اس پر کاربند ہوئے بغیر اسکےان کےگناہوں میں سےکچھ کم ہو۔ مسلم شریف۔
    اس حدیث پر غور کرنےسےصاف معلوم ہوتا ہےکہ اس کا حکم قیامت تک کہ مسلمین کے لیے ہے ۔
    اور آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ اصول اور قاعدہ بیان فرمادیا ہےکہ جو کوئی بھی کسی نیک عمل کو دین میں رائج کرئےگا اسے خود اس کا ثواب ملے گا اور دوسرے لوگ جو کہ اس کے اس عمل میں اس کےساتھ شریک ہوں گے ان کا ثواب بھی بغیر انکے ثواب میں سےکچھ کمی کےاسے ہی ملےگا جو کہ اس نیک عمل کا ایجاد کرنے والا ہوگا اور اسےان سب کا ثواب اس لیے ملےگا کہ اس نےاس نیک عمل کو ایجاد کیا تھا لہذا بحیثیت موجد اسےتمام عمل کرنے والوں کا ثواب بھی ملے گا۔ اور بالکل اسی طرح سےجو کوئی بری رسم یا طریقہ اسلام میں نکالےگا اسے اس کا گناہ اور دیگر جو اس پر عمل کریں انکو بھی اس کا گناہ اور ان سب کےگنا ہ کا مجموعہ اس بدعت کےایجاد کرنے والےکو ہوگا کیونکہ اس نے اس برےطریقہ کو ایجاد کیا ۔۔۔ یہ حدیث بدعت کےحسنہ اور سئیہ ہونےپر کتنی واشگاف دلیل ہےاب اس کا انکار کوئی خود سر ہی کرسکتا ہے۔
    دوسری حدیث۔۔۔ من ابتدع بدعۃضلالۃ ۔۔۔۔۔۔۔مشکوٰۃ باب الاعتصام۔
    یعنی جو شخص گمراہی کی بدعت نکالےجس سے اللہ اور رسول راضی نہ ہوں اس پر ان سب کے برابر گنا ہ ہوگا جو اس پر عمل کریں گے اور یہ ان کےگناہوں سےکچھ کم نہ کرےگا۔ مشکواۃ باب الاعتصام۔
    اس مسئلہ میں مخالفین کےمسلمہ امام جنھیں یہ لوگ شہید جانتے ہیں یعنی اسماعیل دہلوی وہ اس حدیث کی تشریح میں لکھتےہیں کہ جو بدعت مردود ہے وہ بدعت مقید ضلالت سےہے ۔ رسالہ چہاردہ مسائل بحوالہ اسماعیل دہلوی۔
    اب اگر اس حدیث کےشروع کےالفاظ پر اگر غور کیا جائےتو آپ لوگ بنظر انصاف دیکھیےکہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےاپنےالفاظ بدعت کی تقسیم پر دال ہیں اور آقا کریم نےیہاں واضح طور پر بدعت ضلالت کا لفظ استعمال کیا ہے۔
    بدعت کا تصور آثار صحابہ کی روشنی میں
    جیسا ک گذ شتہ بحث میں ہم نے یہ ثابت کیا کہ بدعت اپنے لغوی مفہوم کےاعتبار سےہر نئےکام کو اور نئی چیز کو کہا جائےگا اب یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارےاس تصور کی کوئی نظیر عہد صحابہ سےبھی ملتی ہےیا نہیں اس کےلیےہم انتہائی اختصار کےساتھ صرف سید نا صدیق اکبر اور سیدنا عمر فاروق کےعمل مبارک کو بطور استدلال پیش کریں گے
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےوصال مبارک بعد جب سیدنا صدیق اکبر نےمنصب خلافت سنبھالا تو اس وقت جھوٹی نبوت کےدعویدار مسیلمہ کذاب کےساتھ جنگ میں سات سو حفاظ کرام صحابہ شہید ہوگئےجب حضرت عمر فاروق نے یہ دیکھا تو آپ کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ کہیں قرآن کا وجود خطر ےمیں نہ پڑھ جائےچناچہ آپ صدیق اکبر کی خدمت میں حاضر ہوئےاور عرض کی اے خلیفہ رسول حفاظ صحابہ جنگوں میں شہید ہوتے جارہے ہیں کہیں کل کو حفاظت قرآن امت کے لیےمسئلہ نہ بن جائے اس لیےمیری ایک تجویز ہےکہ قرآن کو ابھی سےایک کتابی صورت میں جمع کردیا جائےاس طرح حفاظت کا بہتر انتظام ہوسکےگا ۔جس پر صدیق اکبر نےفرمایا کہ۔۔۔
    کیف ما افعل شیا ءمالم یفعلہ رسول اللہ؟
    یعنی میں وہ کام کیسےکروں جو رسول اللہ نےنہیں کیا۔
    جس پر عمر فاروق نےجو جواب دیا وہ ہماری بیان کردہ تقسیم کی نا صرف واضح تائید ہے بلکہ بڑا ایمان افروز ہے آپ رضی اللہ عنہ نےفرمایا اےخلیفۃ الرسول یہ درست ہےکہ یہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےنہیں کیا مگر۔۔۔۔
    ھو اللہ خیر یعنی یہ کام بڑا خیر والا ہے۔۔۔ بخاری
    ساری بحث کو لکھنا مقصود نہیں مقصود صرف وہ تصور سمجھانا تھا جو کہ ہم نے پیش کیا کہ ہر نیا کام جس کو رسول اللہ نے نہ کیا ہوتا تھا صحابہ بھی اس کو بدعت ہی تصور کرتے تھےمگر اگر وہ کام فی نفسہ اچھا ہوتا تو پر اس کا م کو روا رکھتے تھے۔۔ اسی طرح باجماعت تراویح والہ معاملہ ہے جسےحضرت عمر نےرائج کیا جب بعض صحابہ کو اچھنبا ہوا تو آپ نے فرمایا نعمۃ البدعۃ ھذہ ا س روایت میں حضرت عمر کےان الفاظ نےواشگاف طور پر بدعت کی تقسیم کا قاعدہ بیان کردیا اب اگر کوئی محض اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سےاسے نہ مانےتو منوا دینا ہمارےبس میں نہیں۔۔۔
    وما علینا الاالبلاغ۔۔
    والسلام آپ سب کا خیر اندیش عابد عنائت۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ماشا اللہ بہت معلوماتی مقالہ ہے لیکن اگر اسے غیر جانبداری ہی سے پیش کیا جاتا تو مزید پر اثر ہوتا-
    جملہ نکال بھی دیا جائے تو مقالہ پر اثرا نداز نہیں ہو گا لیکن اس جملے سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ مخالفین کو جھٹلانا مقصود ہے۔ کم از کم مجھے ایسا لگا۔

    درست بات کر دینی چاہیئے چاہے کسی کو پسند آئے یا نہ آئے۔ مخالفین ہر جگہ موجود ہیں انہیں دعوت دینے یا اکسانے والے بیانات نہ بھی دیئے جائیں اور غیر جانبداری سے بات کر دی جائے تو اس کی اثر انگیزی بڑھ جاتی ہے۔

    یہ میری ذاتی رائے ہے اور آپ اس سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن درخواست ہے کہ اچھی لگے تو مان لیں پسندیدہ نہ ہو تو نظر انداز کر دیں۔ اسے موضوع بحث نہ بنائیں-
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ۔۔۔۔۔جزاک اللہ عابد عنایت بھائی !
    امت مسلمہ کے اہم مسئلہ پر بہت ہی تحقیق و تفصیل سے مضمون تیار کیا ہے۔ اور بلاشبہ ذہنوں سے بہت سے اشکالات کا ازالہ ہوتا ہے۔ بالخصوص ایک خاص طبقے کی طرف سے پیدا کیے گئے ذہنی اضطراب کہ جو امت مسلمہ کے سوادِ اعظم کے عقائد صحیحہ کی بنا پر ہر ایسا عمل جو عظمت و محبتِ رسول :saw: ، عظمت و تکریم اولیائےکرام کی طرف لے کر جائے اس پر شرک و بدعت کے فتوے لگا کر عامۃ المسلمین کے لیے دین اسلام کی اصل روح سے دور کر دیتے ہیں۔ اس ذہنی اضطراب کا بہت اچھی طرح ازالہ کیا ہے۔ بدعت کی فی نفسہ حقیقت پر بہت ہی اچھا مقالہ ہے۔
    ایک بار پھر دعا ہے کہ اللہ کریم آپکے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے۔ آمین
     
    سید شہزاد ناصر اور ھارون رشید .نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    نعیم بھائی آپ “ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے“ کا سگنیچر لگاتے ہیں تو آپ اس کا بھرم بھی رکھیں لیکن اگر آپ “ایک خاص طبقے“ کا ذکر بار بار کریں‌گے‌‌‌‌‌تو‌خواہ مخواہ اکسانے والی بات لگے گی۔ مناسب یہ ہو گا کہ درست بات لکھ دی جائے اور کسی اختلاف ‌کا ‌تذکرہ نہ کیا جائے۔ جس کو اللہ ھدایت سے نوازے گا وہ درست بات کو تسلیم کر لے گا۔ اختلاف کو ابھارنا تو میرا خیال ہے کہ ضد دلانے کے مترادف ہو گا۔ آپ کا کیا خیال ہے۔
     
  6. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام علیکم سیف بھائی مقالہ پسند کرنے اور تعریف کا شکریہ۔
    بھائی بات دراصل یہ ہے کہ جب بھی کسی نظریے پر آپ کا کسی سے اختلاف ہو تو اپنے دلائل کے زریعے سے آپ فریق مخالف کا رد ہی کرتے ہیں اور یہاں بھی نظریہ بدعت پر مخالفین کا جو خاص نقطہ نظر ہے اس کا رد ہی مقصود ہے اور شاہ اسماعیل دہلوی کے نام کو مخالفین کے اپنے گھر کی گواہی کے بطور ذکر کیا ہے کہ اس طرح سے آپ کے دلائل میں تقویت آتی ہے ۔باقی یہاں کوئی بد تہذیبی نہیں کی گئی نہایت متانت کے ساتھ صرف علمی موضوع کو زیر بحث لایا گیا ہے ۔
    باقی ایک بات کی سمجھ مجھے نہیں آئی سیف بھائی جب آپ بر ملا یہ کہتے ہیں کہ آپ کو کسی بھی مکتبہ فکر کے ساتھ نہ جوڑا جائے تو اس کے برعکس آپ کو ہر اس بات سے اختلاف کیوں ہوتا ہے؟ جو کہ صرف ایک خاص مکتبہ فکر کی مخالفت میں کہی یا لکھی جاتی ہے یا بطور دلیل پیش کی جاتی ہے۔؟ اگر آپ کا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تو آپ ایسی باتوں سے صرف نظر کر گذر جایا کیجیے ۔ہم جانیں اور مخالفین ۔اور اگر آپ کی بھی اس قسم کے تمام معاملات میں بالکل وہی رائے ہے جو کہ مخالفین کی ہوتی ہے تو آپ اس کو برملا تسلیم کیون نہیں کرلیتے جب ایک نقطہ نظر کی حمایت دل میں بعینہ یا پھر اس کے قریب قریب بھی ہوتو اس کےا عتراف میں آخر انسان کو کیا عار لاحق ہوسکتی ہے؟
     
    نعیم اور ھارون رشید .نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    وعلیکم السلام نعیم بھائی۔۔
    میری آپ سے گذارش ہے کہ آپ اسے ایک بار پھر غور سے پڑھیں اور اس میں جہان کوئی کمی کوتاہی یا کسی ابہام کو کوئی اندیشہ اس سلسلے میں میری رہنمائی فرمائیں شکریہ۔۔۔
     
    نعیم اور ھارون رشید .نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ۔۔ ہماری اردو کے 600 سے زائد رجسٹرڈ صارفین میں سے اس مقالے پر کس کو اکساہٹ ہوئی ہے اور کون ضد بازی پر اتر رہا ہے ؟ :soch:
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ۔عابد بھائی ۔
    آپ مجھ بے علم کو “رہنمائی“ کا لفظ بول کر خواہ مخواہ شرمندہ کر رہے ہیں۔
    ایسی علم انگیز تحریر پر دلی دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔آمین
    مجھے صرف ایک بات پوچھنا تھی کہ یہ جو آپ نے عربی الفاظ لکھے ہیں۔ کیا انکا اردو ترجمہ یہی بنتا ہے یا پھر عربی کے الفاظ جلدی میں مس ٹائپ ہوئے ہیں ؟
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ بھائی آپ نے اس طرف توجہ دلائی اصل میں یہ لفظی ترجمہ تو نہیں تھا بلکہ جو مفھوم تھا اسے میں نے بطور ترجمہ لکھ دیا اصل الفاظ یہ ہیں ھو واللہ خیر ۔۔
    یعنی اللہ کی قسم وہ کام بھت اچھا ہے ۔ یا اللہ کی قسم اس میں خیر ہے۔۔۔بس کچھ یہی مفھوم بنتا ہے میرے نزدیک باقی مجھے اتنی اچھی عربی نہیں آتی۔۔اگر یہ غلط ہے تو کوئی بھائی اصلاح فرمادیں۔۔۔
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    خود عمل

    برادرم آبی بھائی ؛؛ہمیں اس چیز نے تباہ کردیا ہے کہ ہم مخصوص مکتبہ فکر پر حملے کرتے ہیں ،ایسی چیزوں سے کیا حاصل ہوتا ہے ،جبکہ ہم اگر اپنے اندر ہی جھانکیں تو اعمال ،صورت،اورسیرت کے حوالے سے کافی کمزوری دکھائی دے گی ،ایسے میں ہمیں چاہیے کہ اپنے اعمال اور نظریات کا قبلہ درست کریں
     
  12. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    Re: خود عمل

    آپ نے درست فرمایا مجیب بھائی کہ ہمیں اپنے اعمال و نظریات کا قبلہ درست کرنا چاہیے ۔اسی لیے بدعت جو کہ ایک نظریہ ہی ہے میں نے اس کے حوالے سے اس مقالے کو ترتیب دیا اور آپ کی بات میں یہ مزید ایڈ کرنا چاہوں گا کہ اعمال کے مقابلے میں نظریات مقدم ہیں یعنی عمل بعد میں عقیدہ پہلے ہے اس لیے پہلے عقائد کی اصلاح ضروری ہے۔۔شکریہ
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    ماشاءاللہ عابد عنائیت صاحب۔
    اللہ تعالی آپ کو اس تحقیق اور محنت کا اجرعظیم عطا فرمائے۔ آمین۔
    بہت مفید تحریر ہے۔ !!
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. کاشفی
    آف لائن

    کاشفی شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏5 جون 2007
    پیغامات:
    4,774
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    ماشاء اللہ آبی بھائی۔۔۔۔کافی تحقیق کی ہے آپ نے ۔۔۔ماشاء اللہ۔۔
    اب جن لوگوں کے ذہنوں میں بدعت کے بارے میں جو ابہام ہیں وہ دور ہو جانے چاہیئے۔۔۔اور ان لوگوں کو راہ راست پر آجانا چاہیئے۔۔۔۔
    جزاک اللہ آبی بھائی ۔۔۔اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا کرے۔۔آمین ثم آمین
     
    نعیم اور ھارون رشید .نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جب آپ نے کسی کو قائل کرنا ہوتا ہے تو اسے جھٹلائے بغیر ہی دلائل اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اگر آپ ایک بات کر رہے ہیں اور دوسرا یہ کہہ کر اس کا رد شروع کر دے کہ آپ غلط کہہ رہے ہیں درست بات یوں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو فطری طور پر آپ میں ضد پیدا ہوگی۔ لیکن اگر دوسرا یہ کہہ دے کہ بھائی آپ درست کہہ رہے ہیں لیکن میری معلومات کے مطابق بات اس طرح ہے۔۔۔۔۔ تو نہ کوئی ضد پیدا ہو گی اور نہ ہی کوئی اختلاف یا تکرار۔

    نعیم صاحب اگر میں نے کسی طبقے کی حمایت کی ہو یا کسی کو جھٹلایا ہو تو آپ کا یہ الزام کہ “ہماری اردو کے 600 سے زائد رجسٹرڈ صارفین میں سے اس مقالے پر کس کو اکساہٹ ہوئی ہے اور کون ضد بازی پر اتر رہا ہے ؟“ درست ہو گا۔ بصورت دیگر اگر تعصب اور جانبداری کی عینک اتار کر دیکھیں گے تو میری بات آپ کو انتہائی غیر جانبداری سے دیا گیا ایک مشورہ لگے گی۔ باقی آپ کی اپنی فہم ہے جیسا دل چاہے خیال فرمائیں۔
     
  16. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم !
    :hasna: :a12: :hasna:
    نفسیاتی مسئلہ ہے۔ وگرنہ جہاں قرآن و حدیث کی رو سے صحیح بات سامنے آجائے اور قلب و ذہن بھی مان لے تو ایمان کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ یا تو اسے تسلیم کر لیا جائے۔
    وگرنہ یہی ضد شیطان کو بھی معلم الملائکہ سے ابلیس مردود بنا گئی تھی۔ :hasna:
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جی ہاں بالکل درست فرمایا نفسیاتی مسئلہ ہی معلوم ہوتا ہے۔ جو بات کسی نے کی ہی نہ ہو اس کی بنیاد پر طومار کھڑے کرنا، بیکار اور فضول بحث کرنا، درست بات کا جواب نہ ہو تو آئیں بائیں شائیں کرنا، غیر متعلقہ امور میں دوسروں کو ملوث کرنا، درست بات کو محض اس وجہ سے نہ ماننا کہ وہ کسی دوسرے نے کہی ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نفسیاتی بیماری ہی کی دلیلیں ہیں-

    میں آپ سے متفق ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ نفسیاتی مرض کے شکار مریضوں کو اللہ تعالی صحت سے نوازے۔

    ویسے نعیم بھائی بیماری بھی ایک نعمت ہے اور اس سے گناہ جھڑتے ہیں لہذا نفسیاتی مریضوں کو بھی بد دل، مایوس اور دلگرفتہ نہیں ہونا چاہیے۔
     
  18. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    شکرانے کے نوافل ادا کیجئے حضور۔
    ضد والی بات آپ بھول گئے۔ اس پر بھی تبصرہ فرمائیے کہ حقیقت سامنے آجانے کے بعد بھی ضدکرنا دراصل تحت الشعورکے کسی نہاں خانے میں تکبر کی علامت ہوتی ہے۔ اور تکبر دراصل “شرک“ ہے ۔ ہم آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی شان پر، اولیائے کرام کی برکات کو تو فوراً شرک کے فتوے تلے روند ڈالتے ہیں۔ لیکن اپنے اندر جو تکبر و انا کے بت پال کر شرک کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ادھر کبھی دھیان ہی نہیں گیا۔
    جب بندہ حق کو جانتے ہوئے بھی تسلیم کرنےیا عقل و دانش سے اسکے خلاف دلائل دینے کے، محض کسی ایک لفظ کو اٹھا کر اس پر جان بوجھ کر ایک بحث کا آغاز کرنے کی ضد کرتا ہے تو دراصل یہی ضد اور اس کے اندر کی “میں“ اسے حق تسلیم کرنے پر راضی نہیں کرتی۔ اورعام فہم “بدعت کی حقیقت“ جیسے مضمون میں سے بھی کوئی نہ کوئی فضول بحث کی بنیاد نکال کر “ضد“ اور “اکساہٹ“ پر آمادہ کردیتی ہے۔

    صحیح بولا نا میں نے ؟ اگر غلط ہوتو تصحیح فرما دیجئے گا۔
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  19. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    بھائی میں نے نیک نیتی سے ایک مشورہ دیا ہے کہ اگر کسی مخالف کو اکسائے بغیر ہی کوئی درست بات لکھی جائے تو یقینا“ اس کا اثر ہوگا۔ سچ کی اپنی طاقت ہوتی ہے۔ باقی آپ کی اپنی مرضی ہے۔ درست مشورہ بھی امانت ہوتا ہے۔ اگر آپ عمل نہ کرنا چاہیں تو کسی کا زور تو نہیں آپ کی خوشی ہو تو ٹھیک ورنہ کوئی بات نہیں۔
     
  20. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    تکبر والی بات رہ گئی۔ میری بات سے آپ کو ایسا لگا تو میں اس کے لئے تہہ دل سے معافی کا خواستگار ہوں۔ ممکن ہے کہ میرے لاشعور میں کوئی ایسی بات کسی وجہ سے پوشیدہ ہو لیکن میری نیت میں ایسا کوئی جذبہ نہیں۔

    نعیم بھائی تکبر تو اللہ تعالی کی چادر ہے۔ میں تکبر کرنے بلکہ تکبر کرنے کے بارے میں سوچنے سے بھی اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اور اگر میری باتوں میں ایسا کوئی تاثر موجود ہے تو میں اس کے لیے اللہ سے توبہ مانگتا ہوں۔ اللہ تعالی میری خطا کو معاف فرمائیں۔ آپ بھی میرے لئے دعا فرمائیں۔
     
  21. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم !
    میں نے ایک جنرل بات لکھی تھی ۔ کسی کی ذات کو مخاطب نہیں کیا تھا۔
    سیف بھائی ۔ ہم سب ایک دوسرے کے لیے دعا کرتے رہنا چاہیئے۔ کیونکہ بہترین دعا ہوتی ہے جو ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی غیرموجودگی میں اسکے لیے کرتا ہے۔
     
  22. Guest
    آف لائن

    Guest مہمان

    اولیات عمر

    سیوطی نے اپنی کتاب تاریخ الخلفاء میں اولیات عمر رضی اللہ عنہ کو عکسری سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے : هو أول من سمي أمير المؤمنين ، وأول من سن قيام شهر وأول من حرم المتعة ، وأول من جمع الناس في صلاة الجنائز على أربع تكبيرات . . الخ ( 349 ) . یعنی وہ پہلے وہ شخص تھے جنھوں نے ماہ رمضان میں تراویح کو قائم کیا، اور وہ پہلے وہ شخص تھے جنھوں نے متعہ کو حرام قرار دیا، اور وہ پہلے وہ شخص تھے جنھوں نے نماز جنازہ میں لوگوں کو چار تکبیروں پر جمع کیا۔
    بڑے عظیم کارنامے انجام دیئے ہیں رضی اللہ عنہ نے۔ کیا انھیں حق تشریع بھی حاصل تھا؟
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  23. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    Re: اولیات عمر

    اسلام علیکم بابا جی آپ کا اگر یہ سوال بدعت کے موضوع پر مخالفین سے بطور الزامی ہے تو اس کا جواب وہ ہی دیں گے لیکن اگر مجھ سے ہے تو اس کا سیدھا سیدھا اور مختصر جواب یہ ہے کہ حضرت عمر :rda: کو حق تشریع حاصل نہیں تھا۔اور نہ ہی ان تمام امور کا تعلق جو کہ آپ نے بیان کیئے ہیں تشریعی امور سے ہے ۔بلکہ میرے نزدیک ان امور کا تعلق تدبیری اور تفسیری اور توضیحی امور سے ہے۔
     
    نعیم اور ھارون رشید .نے اسے پسند کیا ہے۔
  24. Guest
    آف لائن

    Guest مہمان

    Re: اولیات عمر

    آپ بتائیں کہ وہ تفسیر کیسے ہے اور کن فقہی اور اصولی قواعد کی بنیاد پر ہے۔ میں اگر چار رکعتی نماز کو دو رکعت بتاؤں یا کسی حلال محمد کو حرام قرار دوں تو اس کیلئے میرے پاس کیا تفسیر ہوگی اور علمائے فقہ کے نزدیک مسلم اصولی و فقہی قواعد پر اس کی تطبیق کیسے ہوگی؟
     
  25. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    Re: اولیات عمر

    اسلام علیکم بابا جی۔
    جہاں تک میری ناقص معلومات ہیں اوپر بیان کیئے گئے تینوں امور میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کا فیصلہ خود احادیث پر ہی مبنی ہے نہ کہ ذاتی اجتھاد کی بنا پر انھوں نے کوئی فیصلہ کیا ہے کیونکہ 20 رکعات تروایح کی حدیث بھی موجود ہے اور جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنے کی حدیث بھی موجود ہے ۔اور متعہ کو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے بعد حرام ٹھرا دیا تھا یہ بھی احادیث سے ثابت ہے اور اسی طرح چاروں تکبیروں کے ساتھ نماز جنازہ کی بھی احادیث موجود ہیں لہذا ان تمام امور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے احادیث ہی پر مبنی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ انھوں نے اپنے اجتھاد کے زریعے بعض میں سے بعض احادیث کو رائج قرار دیتے ہوئے امت کو بعض مسائل میں کسی بھی ایک نقطہ نظر پر جمع فرمایا ہے اور یہ ان کا عظیم کارنامہ ہے ۔اور اس پر صحابہ کرام کے اجماع نے ان کے تمام اجتھادات کو قبول کرکے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کی پیروی کی جس کا مفھوم یہ ہے کہ میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کی پیروی تم پر لازم ہے لہذا تمام اصول اور قواعد کی کتابوں میں یہ درج ہے کہ صحابہ اجماع کسی بھی مسئلہ میں حجت عظیمہ ہے اور اس اجماع کو کسی بھی صورت میں منسوخ نہین کیا جاسکتا ۔اور آخر میں یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہون کہ نہ تو میں محدث ہوں اور نہ ہی کوئی فقیہہ اور اوپر بیان کی گئی کسی ایک بھی بات کا حوالہ اس لیے نہیں عرض کرسکا کہ اس وقت میں دیار غیر میں ہوں یہان مجھے کتب میسر نہیں ہیں اگر اپنے گھر میں ہوتا تو اپنی ذاتی لائبریر ی سے استفادہ کرکے آپ کو تفصیلا اس مسئلے کا جواب عرض کرتا لہذا معذرت خواہ ہوں۔
     
    نعیم اور ھارون رشید .نے اسے پسند کیا ہے۔
  26. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    اچھا ہوا

    اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ موضوع پلٹ گیااورجناب بابائے عملیات قابل ستائش ہیں جنہوں نے روئے سخن کسی اور طرف موڑنے میں کردار اداکیا ؛؛ورنہ یھاں جو نفسیاتی جنگ اورمناظرہ شروع ہواتھا وہ تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا،اور میرے خیال میں ہرفریق صرف اس لیے اپنی ضد پر قائم تھا کہ اگر اس نےجواب نہ د یا تو اس کامدمقابل خصم جیت جائیگا جس کی وجہ سے شکست دیکھنی پڑیگی
    اللہ تعالی ہم سب کو صحیح سمجھ عطافرمائے؛؛؛آمین؛؛؛
     
  27. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    Re: اچھا ہوا

    مجیب بھائی آپ کہنا کیا چاہتے ہیں زرا کھل کر کیوں نہیں کہتے ؟ کیا آپ کی نظر میں موضوع سخن اب جس طرف ہوا ہے اس پر کوئی بحث نہیں ہوگئی اور اس پر کوئی مناظرانہ رنگ چڑھے گا ا؟ کیا آپ کو کچھ اندازہ ہے کہ بابا جی نے کس دھڑلے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ذات کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور یہ موضوع اپنے اندر کس قدر سنگین ہے کیا آپ کو اس کی زرا سی بھی خبر ہے اور کیا آپ کی نظر میں یہ موضوع اس پہلے والے موضوع سے زیادہ بہتر ہے وہاں تو بات بدعت کی ہورہی تھی لیکن یہاں پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ذات پر اعتراض کیا جا رہا ہے کہ انھوں نے اسلام میں تشریعی اختیارات کا استعمال کیا تھا ۔۔مجھے تو آپ پر حیرت ہورہی ہے۔ ۔ ۔
     
  28. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    Re: اچھا ہوا

    آبی بھائی آپ نے سوفیصد درست فرمایا ؛لیکن یقین جانیے کہ جس وقت میں نے پیغام لکھا تھا اس وقت میں جلدی میں تھا کہیں کام سے جارہاتھا جس کی وجہ سے بابائے عملیات کی باتیں بالکل نہیں پڑھ سکا تھا اس پر میں نادم ہوں؛؛ ھاں بابائے عملیات کی یہ جرءت ان کو خطرناک نتائج تک لیجائیگی ان کو چاہیے کہ وہ اس بات سے نادم ہوتے ہوئے بارباراستغفار کریں اور اس کے ساتہ ساتہ یہ کہ انکےاس جملے بڑے عظیم کارنامے انجام دیئے ہیں رضی اللہ عنہ نے۔ کیا انھیں حق تشریع بھی حاصل تھا؟ سےاگر امیرالمؤمنین فاروقِ اعظم :rda: پر اعتراض کرنامراد ہے تو وہ پھر اپنے ایمان کا بھی خیر منائیں
     
  29. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    Re: اچھا ہوا

    شکر ہے بھائی کے آپ نے بات کی نزاکت کو سمجھ لیا ۔۔۔۔اور اس میں پنہاں جو تاثر تھا اس کی گہرائی تک رسائی حاصل کرلی ۔۔۔
     
  30. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    اعتذار

    آبی بھائی میرا اعتذار قبول کرنے کا شکریہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں