1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تصوف کیا ہے؟ دلچسپ مگر تلخ حقائق

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از برادر, ‏17 مئی 2008۔

  1. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    نعیم بھائی آپ سے گذارش ہے کہ جب آپ کچھ ڈھنگ کی بات کرنے کے قابل ہوجائیں تب آکر مداخلت کیجئے گا۔۔
    [/quote:3a7g8e9a]
    ایک تو مولانا عبدالوہاب نجدی کے پیروکاروں میں اپنا علمی تکبر بہت دیکھا گیا ہے۔ خداجانے یہ موروثی ہے یا ۔۔۔۔
    :soch:
    اپنے سوا کسی اور کو "ڈھنگ" کی بات کرنے کے قابل ہی نہیں سمجھتے :takar:
     
  2. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    زیر زمین سے کیا ڈھنگ کی بات آئی ہے۔
     
  3. نیا آدمی
    آف لائن

    نیا آدمی معاون

    شمولیت:
    ‏14 جون 2008
    پیغامات:
    25
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    میرے وہ دوست جو پروفیسر طاہر القادری کی تقلید کو عین اسلام سمجھتے ہیں ان کی تصوف پر مبنی تقریر کو حرف آخر سمجھ کر سارا زور تصوف کو عین اسلام ثابت کرنے پر صرف کر رہے ہیں۔

    اگر تصوف تقوی ، شرعی عبادات و ریاضات یا احسان کا نام ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں کہ اسے عین اسلام سمجھا جائے اور اس سلسلے میں پروفیسر طاہر القادری کی تقلید کی جائے۔

    اس سے پہلے تصوف کے بارے میں کچھ ماہرین کی تعریف پیش کی تھی لیکن کچھ لوگوں نے فرمایا کہ یہ تو ان کے مخالفین کی ویب سائٹ کی نقل ہے۔ جناب اگر متن اور حوالہ دیا جائے تو وہ ہر جگہ ایک جیسا ہی ہو گا چاہے آپ کی ویب سائٹ پر ہو یا آپ کے مخالفین کی۔

    جو باتیں تاریخ میں موجود ہیں اور ماہرین فن کی جو تعریفیں مذکور ہیں ان کا حوالہ دینے پر تو آپ چراغ پا ہو جاتے ہیں اور طعنے دینے پر آ جاتے ہیں، طبع زاد متن پر تو نہ جانے آپ کیا کر اور کیا کہہ بیٹھیں۔

    ویسے جن صاحب نے نقل کا اعتراض فرمایا ہے ان کی اپنی تحریریں بھی 90% کٹ پیسٹ ہوتی ہیں لیکن یہ کوئی بری بات نہیں۔ موضوع اور مناسبت کی بنیاد پر کوئی بھی مواد کہیں سے بھی لیا جائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا البتہ جو کام خود کر رہے ہیں اور بڑے دھڑلے سے کر رہے ہیں وہی کام کوئی دوسرا کرے یا انہیں ایسا شبہ یا ابہام ہو جائے تو ا نہیں اعتراض ہوتا ہے۔

    تصوف کیا ہے ؟ کیا یہ عین اسلام ہے یا ضد اسلام ہے؟ اس کی چھان بین کرنے کے لئے ایسی ہستیوں کے ملفوظات سے رجوع ہوتے ہیں جو اہل تصوف کہلاتے تھے۔
    ----------------------------
    فرمایا کہ ایک وقت حضرت خواجہ ابراہیم ابن ادھم رحمہ اللہ علیہ راستہ مین چلے جاتے تھے کہ آواز نوحہ کی ایک طرف سے آئی فوراً رانگ گرم کرکے اپنے کانون مین ڈال لیا اور بہرے ہوگئے۔
    (انیس الارواح صفحہ 31، ملفوظات خواجہ عثمان ہارونی مرتبہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری)

    گانے بجانے کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کانوں میں انگلیاں دینے پر اکتفا فرماتے تھے۔
     
  4. نیا آدمی
    آف لائن

    نیا آدمی معاون

    شمولیت:
    ‏14 جون 2008
    پیغامات:
    25
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    فرمایا کہ جس روز حضرت خواجہ ابرا ھیم ا بن ادہم بلخی رحمہ اللہ حکومت اور سلطنت سے تائب ہوئے تو جس قدر غلام تھے سب کو اپنے روبرو آزاد کیا اور بارادہ حج خانہ کعبہ کی راہ لی اور فرمایا کہ حج کو ہر شخص پیرون کے بل جاتا ہے مجکو چاہئے کہ سر کے بل اس راہ کو طے کرون چنانچہ وقت سفر حج جو قدم کہ رکھتے تھے ایک دوگانہ نفل شکرانہ ادا فرماتے تھے حتی کہ چودہ برس کی مدت مین بلخ سے خانہ کعبہ تک پہونچے تو اس مقام پر خانہ کعبہ کو نہ پایا نہایت متحیر ہوئے اسی حال مین ہاتف غیبی نے آواز دی کہ اے ابراہیم ٹھیرو اور صبر کرو کہ خانہ کعبہ ایک ضعیفہ کی زیارت کو گیا ہے ابھی آیا جاتا ہے خواجہ یہ آواز سن کر متحیر ہوئے اورعرض کیا کہ آلہی وہ ضعیفہ کون ہین حکم ہوا کہ جنگل مین ایک ضعیفہ ہے خواجہ علیہ رحمہ روانہ ہوئے تاکہ ان ضعیفہ کی زیارت سے مشرف ہوں جب جنگل مین پہونچے تو حضرت رابعہ بصری علیہا الرحمہ کو دیکھا اور دیکھا کہ خانہ کعبہ ان کے گرد طواف کر رہا ہے حضرت ابراہیم بن ادہم علیہ الرحمہ کو غیرت معلوم ہوئی اور حضرت رابعہ بصری علیہا الرحمہ کو پکارا اور کہا کہ یہ کیا شور تم نے ڈالا ہے رابعہ بصری علیہا رحمہ نے فرمایا کہ یہ شور مین نے نہین اٹھایا ہے۔ شور تم نے جہان مین برپا کیا ہے کہ چلتے چلتے چودہ برس مین خانہ کعبہ تک پہونچے اور پھر بھی اس کو آرزو کے ساتھ نہ پایا جب حضرت ابراہیم ادہم نے یہ سنا فرمایا کہ اے رابعہ تم کو آرزو خانہ کعبہ کی تھی سو تمہارے پاس موجود ہو گیااور ہم کو آرزوئے ملاقات صاحب خانہ کی ہے لہذا وہ ہم سے محجوب کیا گیا۔
    (انیس الارواح صفحہ 17,18، ملفوظات خواجہ عثمان ہارونی مرتبہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری)

    یہاں پر واقعہ صلح حدیبیہ یاد کر لیں۔
     
  5. نیا آدمی
    آف لائن

    نیا آدمی معاون

    شمولیت:
    ‏14 جون 2008
    پیغامات:
    25
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    حضرت بایزید بسطامی (ابویزید طیفور بن عیسی بسطامی) کے بارے میں حضرت خواجہ جنید بغدادی فرماتے ہیں:
    ابو یزید منا بمنزلہ جبرئیل فی الملایکہ
    ابویزید ہم میں ایسے ہیں جیسے فرشتوں میں جبرائیل

    حضرت بایزید بسطامی خود فرماتے ہیں
    سبحانی واعظم شانی
    میں پاک ذات ہوں میری شان بہت بڑی (اعظم) ہے
    حضرت علی ہجویری فرماتے ہیں کہ یہ کہنا ان کی گفتار کا نشانہ ہے اور درحقیقت یہ کہنے والا حق تعالی ہی پردہ عبد میں ہے۔
    (کلام المرغوب ترجمہ کشف المحجوب صفحہ 443)

    حضرت بایزید بسطامی کے مزید ارشادات:
    خضت بحرا و وقف الانبیا بساحلہ
    میں نے سمندر میں غوطہ لگایا اور انبیا ساحل تک رہے

    ملکی اعظم من ملک اللہ
    میری بادشاہت اللہ کی بادشاہت سے بڑی ہے

    ما فی جبتی الا اللہ
    میرے جبے میں اللہ کے سوا کچھ نہیں

    لوائی ارفع من لواء محمد
    میرا جھنڈا محمد کے جھنڈے سے بلند ہے

    تصوف کی دنیا کی باتیں ہیں جن کا اسلام سے تعلق واضح نظر آر ہا ہے۔
     
  6. نیا آدمی
    آف لائن

    نیا آدمی معاون

    شمولیت:
    ‏14 جون 2008
    پیغامات:
    25
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    اس کے بعد عشق کے بارے مین گفتگو ہونے لگی زبان مبارک سے ارشاد فرمایا کہ عاشق کا دل محبت کا آتشکدہ ہے پس جو کچھ اس آتشکدہ(بھٹی) میں پڑ جاتا ہے جلکر خاک ہو جاتا ہے کسواسطے کہ کوئی آگ عشق و محبت کی آگ سے بڑہکر نہین ہے اسکے بعد فرمایا کہ ایک وقت خواجہ بایزید بسطامی رحمہ اللہ مقام قرب مین تشریف لیگئے ہاتف نے آواز دی کہ اے بایزید آج تمہاری خواستگاری اور ہماری بخشش و عطا کا وقت ہے مانگو کیا مانگتے ہو میں تم کو دونگا خواجہ نے فوراً سجدہ مین سر جھکا یا اور کہا کہ بندہ کو خواستگاری سے کیا کام بادشاہ کی بخشش و انعام و اکرام جسقدر ہو بندہ اس مین راضی ہے پھر آواز آئی کہ اے بایزید ہم نے تجکو آخرت کی خوبی اور رستگاری عطا کی۔ بایزید نے عرض کیا کہ آلہی آخرت تو دو ستون کا بندی خانہ ہے پھر آواز آئی کہ اے بایزید اچھا ہم نے بہشت اور دوزخ اور عرش اور کرسی جو کچھ ہماری مملکت ہے تجکو دی۔ عرض کیا خیر پھر ندا آئی کہ اچھا تمہارا کیا مطلب ہے کچھ مانگو تو ہم دین عرض کیا کہ آلہی جو میرا مطلب ہے وہ تو خود جانتا ہے آواز آئی کہ اے بایزید تو ہم کو ہم سے مانگتا ہے اگر ہم تجکو تجھسے مانگین تو تو کیا کریگا۔ جیسے ہی کہ آواز آئی خواجہ نے قسم کھا کر عرض کی کہ قسم ہے تیرے عزت و جلال کی اگر تو مجکو کل قیامت مین طلب کریگا اور آتش دوزخ کے سامنے کھڑا کریگا تو حاضر ہونگا اور کھڑا ہو کر ایسی آہ سرد کھینچوں گا کہ دوزخ کی حرارت زائل ہو جائیگی حتی کہ کچھ نہ رہیگی کیونکہ آتش محبت کے سامنے اسکی کیا اصل ہے جب یزید نے یہ فرمایا ندا آئی کہ اے بایزید ہرچہ جستی بافتی (جس چیز کی تجھ کو تلاش تھی تو نے پا لی)
    (ترجمہ دلیل العارفین صفحہ 97 ملفوظات خواجہ معین الدین چشتی مرتبہ خواجہ بختیار کاکی)

    اللہ تعالی کا عرش و کرسی او رتمام مملکت کا دیا جانا اور آہ سرد سے آتش دوزخ کی حرارت کو زائل کر دینا قابل غور ہے اور یہ عین اسلام بتایا جاتا ہے۔
     
  7. نیا آدمی
    آف لائن

    نیا آدمی معاون

    شمولیت:
    ‏14 جون 2008
    پیغامات:
    25
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    خواجہ بایزید نے فرمایا کہ مین مدتون خانہ کعبہ کا طواف کرتا رہاجب مجکو قرب و حضوری عطا کی گئی اسوقت خانہ کعبہ نے میرے گرد طواف کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خواجہ بایزید بسطامی سے لوگون نے پوچھا کہ آپ نے طریقت مین اپنا سلوک کہاں تک پہنچایا ہے فرمایاکہ مین نے یہان تک اپنا سلوک پہنچایا ہے کہ جب مین اپنی دو انگلیون کے درمیان نظر کرتا ہون تو تمام دنیا و مافیہا کو اسمین دیکھتا ہون۔
    ترجمہ دلیل العارفین صفحہ 99-100 ملفوظات خواجہ معین الدین چشتی مربہ خواجہ بختیار کاکی)

    خانہ کعبہ کا خواجہ صاحب کو طواف کرنا اور ان کا دو انگلیوں کے درمیان دنیا و مافیہا کا دیکھنا توجہ طلب ہے۔
     
  8. نیا آدمی
    آف لائن

    نیا آدمی معاون

    شمولیت:
    ‏14 جون 2008
    پیغامات:
    25
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ایک دفعہ شیخ علی مکی رحمہ اللہ علیہ نے خواب مین دیکھا کہ عرش اٹھائے لئے چلا جا رہا ہوں۔ جب صبح ہوئی تو جی مین خیال کیا کہ مین یہ خواب کسکے سامنے بیان کرون جو تعبیر پاوﺅن۔ پھر جی مین کہا کہ بایزید بسطامی سے چل کے دریافت کر۔ اسی فکر مین جب گھر سے باہر نکلا دیکھا تو بسطام مین ایک شور برپا تھا اور خلق رو رہی تھی مین حیران ہو کر کھڑا ہو گیا پوچھا کیا حال ہے کہا خواجہ بایزید علیہ الرحمہ نے انتقال کیا۔ شیخ علی نے سنتے ہی ایک نعرہ مارا اور زمین پر گر پڑے۔ پھر نعرہ مارتے ہوئے بایزید کے جنازہ کے پاس تک پہونچے مگر خلق کے اژدحام سے وہانتک پہونچ نہین سکتے تھے مگر شیخ علی ہزار حیلہ و دشواری سے جنازہ تک آئے اور کندھا دیا۔ بایزید نے آواز دی کہ اے علی جو تو نے خواب دیکھا تھا اسکی یہی تعبیر ہے یہی جنازہ بایزید عرش خدا ہے کہ جو تو سر پر لیے جا رہا ہے۔
    (ترجمہ راحت القلوب صفحہ 215 ملفوظات خوجہ فرید الدین گنج شکر مرتبہ نظام الدین اولیا)۔

    بایزید کا اپنے جنازے کو عرش الہی سے تشبیہ دینا قابل غور ہے۔ مرنے کے بعد بولنا بھی توجہ کا متقاضی ہے۔ قرآن تو یہ کہتا ہے کہ مردہ لوگ نہ سنتے ہیں نہ جواب دیتے ہیں۔ تصوف عین اسلام ہے کیا واقعی؟
     
  9. نیا آدمی
    آف لائن

    نیا آدمی معاون

    شمولیت:
    ‏14 جون 2008
    پیغامات:
    25
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی کتاب انفاس العارفین میں اپنے تایا ابو الرضا محمدکے بارے میں لکھتے ہیں :
    رحمت اللہ کفش دوز نے بیان کیا کہ ایک موقع پر حضرت شیخ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور میں ان کے سامنے ایک درخت کے نیچے کھڑا تھا کہ آپ کی خدمت میں ایک شخص نے کہا کہ حضرت بایزید بسطامی بعض اوقات کسی کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھتے تو قوت جذب اور شیخ کی گرمی نگاہ سے اس کی روح پرواز کر جاتی تھی۔ آج کل ہم مشایخ کا شور سنتے ہیں مگر کسی کی قوت باطنی میں یہ تاثیر نہیں دیکھی۔ یہ سن کر حضرت شیخ نے جوش میں فرمایا کہ بایزید روحیں نکال تو لیتے تھے مگر جسم میں واپس نہیں لوٹا سکتے تھے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے دل کو اپنے قلب اطہر کے زیر سایہ ایسی تربیت اور وہ قوت عطا فرمائی ہے کہ جب چاہوں کسی کی روح کو کھینچ لوں اور جب چاہوں اسے واپس لوٹا دوں۔ عین اسی وقت شیخ نے مجھ پر نظر کر کے میری روح کھینچ لی اور میں زمین پر گر کر مر گیا اور مجھے اس عالم کا کوئی شعور نہیں رہا سوائے اس کے کہ میں نے اپنے آپ کو ایک بہت بڑے دریا میں غرق پایا۔آپ نے سائل کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ اسے دیکھو مردہ ہے یا زندہ ؟ اس نے سوچ کر کہا مردہ ہے۔ فرمایا اگر تو چاہے تو اسے مردہ چھوڑ دوں اور اگر پسند کرے تو اسے زندہ کر دوں! کہنے لگا اگر زندہ ہو جائے تو یہ انتہائی رحمت ہوگی۔ آپ نے مجھ پر دوبارہ توجہ ڈالی تو میں زندہ ہو کر اٹھ کھڑا ہوا۔ تمام حاضرین مجلس حضرت شیخ کی قوت حال سے متعجب ہوئے۔
    (ترجمہ از فارسی انفاس العارفین صفحہ 95-96اردو ترجمہ صفحہ 206-207شائع کردہ المعارف لاہور)

    زندگی اور موت پر یہ تصرف اسلام کے کس اصول کے تحت قابل تسلیم ہو سکتا ہے۔
     
  10. نیا آدمی
    آف لائن

    نیا آدمی معاون

    شمولیت:
    ‏14 جون 2008
    پیغامات:
    25
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    غالباً حدیقہ ندیہ میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سیدی جنید بغدادی رحمہ اللہ تعالی علیہ دجلہ پر نشریف لائے اور یا اللہ کہتے ہوئے اس پر زمین کی مثل چلنے لگے بعد کو ایک شخص آیا۔ اسے بھی پار جانے کی ضرورت تھی کوئی کشتی اس وقت موجود نہ تھی جب اس نے حضرت کو جاتے دیکھا عرض کی میں کس طرح آوﺅں فرمایا یا جنید یا جنید کہتا چلا آ۔ اس نے یہی کیا اور دریا پر زمین کی طرح چلنے لگا۔ جب بیچ دریا میں پہنچا شیطان لعین نے دل میں وسوسہ ڈالا کہ حضرت خود تو یا اللہ کہیں اور مجھ سے یا جنید کہلواتے ہیں۔ میں بھی یا اللہ کیوں نہ کہوں اس نے یا اللہ کہا اور ساتھ ہی غوطہ کھایا۔ پکارا حضرت میں چلا فرمایا وہی کہہ یا جنید یا جنید جب کہا دریا سے پار ہوا۔عرض کی حضرت یہ کیا بات تھی آپ اللہ کہیں تو پار ہوں اور میں کہوں تو غوطہ کھاوﺅں فرمایا ارے نادان ابھی تو جنید تک تو پہنچا نہیں اللہ تک رسائی کی ہوس ہے اللہ اکبر۔
    (ملفوظات مجدد مائتہ حاضر اعلی حضرت احمد رضا خان بریلوی حصہ اول صفحہ 117)

    اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں انسان کی شہ رگ سے بھی قریب ہوں جبکہ تصوف کہتا ہے کہ جنید تک پہنچ پھر اللہ تک جانا۔ یہاں پر شیطان کی مداخلت بھی قابل غور ہے۔
     
  11. نیا آدمی
    آف لائن

    نیا آدمی معاون

    شمولیت:
    ‏14 جون 2008
    پیغامات:
    25
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    نعیم صاحب ۔ وہ جو آپ کا خیال تھا کہ میں نے محض "طاہرالقادری" کے مقلدین پر غیض و غضب ظاہر کرنے کے لیے اپنے شیخ ابنِ تیمیہ (بانی فرقہ اہلحدیث و وہابیت) کی کتابوں کے حوالے یہاں نقل کرڈالے ہیں۔ جو کہ محض شخصیات کے اقوال کے ٹکڑوں پر مشتمل ہیں۔۔۔۔ ایسے ہی لفظی ٹکڑوں سے تو کسی بھی کتاب کا حشر نشر کیا جاسکتا ہے۔ تو کیا یہ حوالے اور اقتباس اب آپ کو قبول ہیں یا یہ بھی حشر نشر ہے۔


    اور وہ جو آبی ٹو کول نے کسی ابن عربی، کسی تلمسی یا کسی ابن تیمیہ کا حوالہ نہیں دیا تھا بلکہ بات قرآنی آیات کے احکامات تزکیہ نفس سے شروع کی اور حدیث رسول کی روشنی میں باطن کی صفائی کے عمل کو بیان کیا ۔ اور آپ کے نزدیک وہی روحِ تصوف ہے تو کیا یہ ساری باتیں قرآنی آیات کے احکامات اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ہیں۔ باطن کی صفائی میں تو یہ بزرگ جن کے حوالے درج ہیں انتہائی بلند مقام پر سمجھے جاتے ہیں۔

    اور کیا اب آپ کے ذہنِ بریلویہ کو یہ بات قابل قبول ہے کیونکہ ان باتوں کے حق میں یقیناً آپ کے آباء و اجداد نے سینکڑوں کتابیں لکھی ہیں اور میں ان کے درجنوں مزید حوالہ جات یہاں نقل کر سکتا ہوں۔

    مجھے آپ کی یہ بات بھی یاد ہے کہ تزکیہ نفس و تصفیہ باطن کے عمل کا انکار براہ راست قرآن و حدیث کا انکار بنتا ہے۔ کیا آپ اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ تصوف کی مذکورہ بالا شخصیات والا تصوف تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن (ویسے تصفیہ کا مطلب صفائی نہیں بلکہ انصاف سے فیصلہ کرانا ہے) جیسا عمل ہی ہے اور کیا آپ اس تصوف کے انکار کو بھی براہ راست قرآن و حدیث کا انکار سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالی آپ کو عقل دے اور اندھی تقلید سے بچائے اور کفار مکہ کی طرح اس ضد پر اڑے رہنے سے بچائے کہ کیا تو ہمارے آباو اجداد کو غلط کہتا ہے۔
     
  12. نیا آدمی
    آف لائن

    نیا آدمی معاون

    شمولیت:
    ‏14 جون 2008
    پیغامات:
    25
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    آبی صاحب اب ‌آپ نے دیکھ لیا کہ میں نے کہاں ایسی تحاریر پڑھ لی ہیں جو کہ آپ جناب کی پیش کردہ تحریر کے معارض ہیں حالانکہ خود آپ نے اپنا مؤقف علماء ہی کی تحریروں کو سامنے رکھتے ہوئے پیش کیا تھا شاید یہ علما بلکہ ولی اللہ ہستیاں آپ کے زیر مطالعہ نہیں آئیں۔

    آپ کے نزدیک تصور فنا فی اللہ اور وحدت الوجود دونوں موضوع بڑے معرکۃ آراہ ہیں اور فنا فی اللہ سے مراد جسمانی طور پر اللہ کی ذات میں فنا ہوجانا یا شامل ہوجانا یا حلول کرجانا نہیں ہے جیسا کہ اکثر جاہل لوگ اس قسم کی باتیں عام عوام میں پھیلا کر عام عوام کو گمراہ کرتے ہیں ۔ ۔ بلکہ اس کا اصل مطلب اپنی رضا کو اللہ پاک کی رضا میں گم کردینا ہے یعنی بندہ کی اپنی کوئی مرضی نہ رہے بلکہ جو اس کا رب چاہے بندہ صرف اسی پر راضی رہے اور اپنے رب کی رضا میں یوں فنا ہوجائے کہ پھر اسکی اپنی رضا کا کوئی وجود ہی نہ رہے اسے کہتے ہیں تصوف کی اصطلاح میں فنا فی اللہ ۔ ۔ ۔

    تو اس اصل مطلب کی وضاحت تو ہو گئی کہ آپ کیا کہتے ہیں اور درحقیقت اصل کیا ہے۔ آپ نے جو فنا فی اللہ کی تعریف فرمائی ہے میں اس سے سو فیصد متفق ہوں لیکن حقیقیت اس کے برعکس ہے اور بزرگان کے ملفوضات کی روشنی میں آپ کی بات غلط ثابت ہو جاتی ہے۔


    اور وحدت الوجود کا جو بھی مطلب ہے (بقول آپ کے حقیقی وجود یعنی واجب الوجود صرف اللہ پاک ہے اور باقی سارے وجود چونکہ مخلوق ہیں لہذا وہ سب ممکن الوجود ہیں یعنی جن کا ہونا یا نا ہونا دونوں پایا جاتا ہے جبکہ واجب الوجود کا صرف موجود ہونا پایا جاتا ہے جب کہ اس کا موجود نہ ہونا واجب ہونے کے معارض ہے لہذا واجب الوجود جو ذات ہے وہ صرف ایک ہی ہے اور وہ اللہ پاک کی ذات ہے جو کہ اپنے وجود کے قیام میں کسی غیر وجود کی محتاج نہیں اور جبکہ دیگر تمام وجود اپنے وجود کے ثبوت اور قیام و دوام میں واجب الوجود کے ہی محتاج ہیں ۔ چونکہ اصل وجود ایک ہی ہے لہذا باقی سب وجود مجازی ہیں اور حقیقی اور اصل وجود صرف باری تعالٰی کا ہے کہ جس سے باقی تمام وجود ہیں ۔ لہذا جو اصل وجود ہے وہ وجود حقیقی ہے اور وہ وجود اللہ پاک کا ہےباقی تمام کائنات کا وجود حقیقی نہیں مجازی ہے لہذا حقیقت وجود وجود واحد کے سوا موجود نہیں اسی لیے باقی تمام مجازی وجود کی نفی کرکے صرف حقیقی وجود کا اقرار متصوفین کے ہاں نظریہ وحدۃ الوجود کہلاتا ہے ۔ ) وہ تو منصور کے نعرہ الی الحق سے صاف ظاہر ہے آپ اس پر الفاظ کے ہیر پھیر سے کیسے پردہ ڈال سکتے ہیں۔

    وحدت الوجود کا جو مطلب آپ نے پیش کیا ہے وہ بالکل درست ہے اور میں اسے تسلیم کرتا ہوں لیکن وحدت الوجود کا جو نظریہ اھل تصوف کے ہاں موجود ہے وہ اس سے متضاد ہے جس کا ثبوت میں جلد ہی پیش کروں گا۔
     
  13. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    محترم قارئین ! عوام الناس کی اکثریت سادہ لوح مسلمان ہوتی ہے۔ منکرین تصوف اور عقیدہ وہابیہ و نجدیہ (وہ علاقہ نجد کے جس کے لیے حضور مصطفیٰ‌کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا نہیں‌فرمائی تھی اور فرمایا تھا کہ وہاں سے شیطان کا سینگ نمودار ہوگا) یعنی فتنہ وہابیت کا سربراہ نمودار ہوا جس نے پوری دنیا میں عقائدِ صحیحیہ کو بگاڑ کر بےادبی اور گستاخی کا فتنہ پوری امت مسلمہ میں‌بپا کردیا۔ جس کے پیروکار آج بڑے آرام سے اپنا علم جتاتے ہوئے حضرت علی سمیت دیگر اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کو ایسا شرابی کہ "جن کی گھٹی میں شراب پڑی ہوئی تھی " اور اللہ تعالی کی وارننگ کے باوجود " وہ ایسے حکم سے شراب کہاں‌چھوڑنے والے تھے" جیسی گستاخیاں سرعام کرتے پھرتے ہیں۔ اس فتنے کے علمبردار جب آئمہ و اسلاف پر تنقید کرتے ہیں تو چونکہ ہم جیسے عوام کی اکثریت تو اصل قرآنی تعلیمات اور علم حدیث سے اتنی واقف نہیں ہوتی سو اکثر سادہ لوح مسلمان حق و باطل میں تمیز کرنے میں خطا کھا جاتے ہیں۔
    حالانکہ اوپر کیے گئے اعتراضات کو دیکھیے۔ کہ اللہ تعالی کا ایک مقرب بندہ جو اپنے تقویٰ ، طہارت، زہد ورع اور اللہ تعالی کی بندگی میں ایک ایسے مقام پر پہنچ گیا جہاں اسے اپنے رب کی قربت ، اسکی پہچان اور معرفت نصیب ہوگئی اسکے ظاہر و باطن روشن ہوگئے۔

    آئیے دیکھتے ہیں کیا قرآن و حدیث بھی ایسا کچھ اشارہ دیتے ہیں۔

    " بندے اور اللہ کے قرب کے متعلق " اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے۔

    وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِO
    اور ہم (اللہ تعالی ) اس (انسان) کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیںo (ق ، 50 : 16)

    اگر مجھ جیسے کسی گنہگار اور اللہ کے نافرمان کو یہ توفیق نہیں‌دی کہ ہم اللہ تعالی کے اس قرب کا ادراک کرسکیں تو قصور میرا اپنا ہے۔ وگرنہ اللہ تعالی تو اپنے بندے کے شہہ رگ سے بھی قریب ہوتا ہے۔ پھر جو بندے اپنے رب کے اس قرب کو پہچان جاتے ہیں۔ وہ اگر اپنے رب کی اس قربت کا دعوی کردیں تو ناقابل قبول کیونکر ٹھہرے گا‌؟
    کیا اس قربِ الہی کا مطلق انکار اور اس پر اعتراض براہ راست قرآن مجید کی اس آیت کا انکار یا اس پر اعتراض نہیں بن جاتا ؟

    صحیح بخاری شریف کتاب: الرقاق، بابت التواضع کی 5/2384، الرقم 6137 پڑھیے
    حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ص نے فرمایا " اللہ تعالی فرماتا ہے : جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اس سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں اور میرا بندہ ایسی کسی چیز کے ذریعے میرا قرب نہیں پاتا جو مجھے فرائض سے زیادہ محبوب ہو اور میرا بندہ مسلسل نفلی عبادات کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں‌تک کہ میں

    اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو
    میں (اللہ تعالی ) اسکے کان بن جاتا ہوں‌جن سے وہ سنتا ہے
    میں اسکی آنکھ بن جاتا ہوں‌جس سے وہ دیکھتا ہے
    میں اسکا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے
    میں اسکا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے
    اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور عطا کرتا ہوں
    اگر وہ میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے ضرور پناہ دیتا ہوں
    میں نے جو کام بھی کرنا ہو اس میں کبھی اتنا تردّد (ہچکچاہٹ) نہیں کرتا جیسے (ایسے) بندہء مومن کی جان لینے میں ہوتا ہے۔ وہ موت کو ناپسند کرتا ہے اور میں اسکی تکلیف کو ناپسند کرتا ہوں۔


    یہ حدیث پاک البیہقی اور ابن حبان نے بھی نقل کی ہے۔

    ذرا پڑھیے اوپر قرآن مجید کی آیت کو اور نیچے زبانِ مصطفیٰ‌ سے جو اللہ تعالی نے اپنے مقرب ولی کی شان بیان کی ہے ۔۔۔
    علمبردارانِ عقلِ ظاہری کو تو صرف اس بات پر اعتراض ہے کہ ایک اللہ کے ولی نے اپنے جبے کے نیچے اللہ تعالی کے وجود کا اسکی شان کے لائق اظہار کیا۔ پڑھیے ذرا قرآن و حدیث کو کہ جہاں اللہ تعالی کبھی اپنے بندے کی جبے کے اندر نہیں بلکہ اسکے جسم کے اندر اسکی شہہ رگ سے بھی قریب ہوکے جا بیٹھا ہے۔ پڑھیے حدیث پاک کو جہاں اللہ تعالی کسی مقرب بندے پر کرم فرما کر اسے اتنا قریب کرتا ہے کہ پھر خود اسکا کان بن رہا ہے۔ خود اسکی آنکھ بن رہا ہے۔ خود اسکے ہاتھ اور حتی کہ اسکے پاؤں بن رہا ہے۔
    اور پھر اللہ تعالی نے اپنے بندے کی شان بلند کرنے کے لیے فرمایا کہ اگر وہ کوئی بھی سوال مجھ سے کرتا ہے تو میں ضرور پورا کردیتا ہوں۔ اور اللہ تعالی کے دوستوں اور مقرب بندوں کا سوال کبھی اپنی ذات کے لیے نہیں‌بلکہ مخلوق کی بھلائی کے لیے ہوتا ہے۔ اور وہ مخلوق کے لیے مانگتے ہیں۔ اور اللہ تعالی اپنے ولی کی زبان کی لاج رکھتے ہوئے ، کرم فرماتے ہوئے اپنے ولی کی زبان سے نکلی ہوئی دعا کو ضرور پورا فرما دیتا ہے۔

    "فرشتوں کی مثال "
    بات سمجھانے کے لیے مثال دینا ، سنت الہی ہے۔ کسی بات کو کسی مثال سے واضح کرنا سنت الہیہ ہے۔ اور صرف مثال پر اعتراض کرکے حق کا انکار کرنا ۔۔ قرآنی فرمانے کے مطابق کافروں کا شیوہ ہے۔ ذرا قرآن اٹھائیے

    إِنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَحْيِي أَن يَّضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُواْ فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُواْ فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَـذَا مَثَلاً يُضِلُّ بِهِ كَثِيراً وَّيَهْدِي بِهِ كَثِيراً وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلاَّ الْفَاسِقِينَO
    بیشک اللہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ (سمجھانے کے لئے) کوئی بھی مثال بیان فرمائے (خواہ) مچھر کی ہو یا (ایسی چیز کی جو حقارت میں) اس سے بھی بڑھ کر ہو، تو جو لوگ ایمان لائے وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ مثال ان کے رب کی طرف سے حق (کی نشاندہی) ہے، اور جنہوں نے کفر اختیار کیا وہ (اسے سن کر یہ) کہتے ہیں کہ ایسی تمثیل سے اللہ کو کیا سروکار؟ (اس طرح) اللہ ایک ہی بات کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہ ٹھہراتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے اور اس سے صرف انہی کو گمراہی میں ڈالتا ہے جو (پہلے ہی) نافرمان ہیںo (الْبَقَرَۃ ، 2 : 26)

    حق کو سمجھنے کے لیے اسکی مثال پر ہی اعتراض کردینا شیوہ کفر ہے ۔ اور شیوہ ایمانی یہ ہے کہ مثال کے ذریعے بھی حق کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔

    اس ضمن میں ایک اور حدیث پاک ملاحظہ فرمائیے۔
    حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں چالیس آدمی (ابدال) ہمیشہ رہیں گے جن کے دل ، قلبِ ابراہیمی علیہ السلام کی مانند ہوں گے، ان کے صدقے سے اللہ تعالی اہلِ زمین سے عذاب ٹالے گا، انہیں ابدال کہا جائے گا۔۔۔۔ الی الاخ
    الطبرانی فی المعجم الکبیر 10/181، الرقم : 10390،
    ابونعیم فی حلیۃ الاولیا 4/183،
    الہیثمی فی مجمع ازوائد 10/63
    سب سے پہلے تو اولیاء اللہ کا مقام و مرتبہ بزبانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ ہو کہ اللہ تعالی انکے صدقے سے اہلِ زمین سے عذاب ٹالتا ہے۔ اور کائنات پر کرم فرماتا ہے۔
    دوسری چیز ۔۔۔
    مثال دینے کے لیے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے اولیاءاللہ کے قلوب کو قلبِ ابراھیمی علیہ السلام سے تشبیہ دی ہے۔
    تو معلوم ہوا کہ مثال دینے کے لیے اللہ تعالی کا قرآن اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بالکل اجازت دیتا ہے۔

    البتہ مثال کا انکار انسان کو کفر کی جانب لے جاتا ہے۔
     
  14. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    قرآن مجید میں اللہ تعالی اپنے بندے کے قریب ہونے اور اسکی پکار کا جواب دینے کے متعلق ارشاد فرماتا ہے

    وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَاِنِّي قَرِيبٌ اُجِيبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُواْ لِي وَلْيُؤْمِنُواْ بِي لَعَلَّھُمْ يَرْشُدُونَO
    اور (اے حبیب!) جب میرے بندے آپ سے میری نسبت سوال کریں تو (بتا دیا کریں کہ) میں نزدیک ہوں، میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے، پس انہیں چاہئے کہ میری فرمانبرداری اختیار کریں اور مجھ پر پختہ یقین رکھیں تاکہ وہ راہِ (مراد) پاجائیںo
    (الْبَقَرَۃ ، 2 : 186)

    عقیدے کے زمرے میں اس قرآن مجید کی آیت کریمہ کی رو سے پہلی بات تو یہ سامنے آتی ہے کہ قرب الہی پانا ہوتو سوالیء مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بننا ضروری ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی نے مصطفیٰ‌کریم کے در سے سوال کرنے والوں کو ہی جواباً اپنے قرب کا مژدہ سنایا ہے۔

    دوسری بات اس قرآن مجید کی روشنی میں یہ سامنے آتی ہے کہ بندہ جوں ہی درِ مصطفیٰ پر دستِ سوال دراز کرتا ہے تو اللہ تعالی فوراً اس بندے کے قرب کا اعلان فرما رہا ہے۔ بندہ فوراً اللہ تعالی کے قرب کی نعمت حاصل کر لیتا ہے۔
    تیسرے اللہ تعالی نے قرآن مجید کی اس آیت میں واضح فرما رہا ہے کہ میرا بندہء خاص جب درِ مصطفیٰ‌کا سوالی بن کر مجھے پکارتا ہے تو میں اسکی پکار کا جواب دیتا ہوں۔

    اب اگر اللہ تعالی کے کسی ولی نے اللہ تعالی کی عبادت و ریاضت سے اور اتباعِ‌مصطفیٰ‌کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مرتبہ پا لیا کہ اللہ تعالی اس بندے کے پکارنے پر اسکا جواب دے دے تو ہم میں سے کون ہے کہ جو قرآن مجید کی اس آیت کو جھٹلا کر اپنا ایمان تباہ کرے ؟؟؟

    تصوف یا اولیائے کرام سے بغض و عداوت میں خدا کے لیے قرآن مجید کی آیات کے منکر بن کر اپنا ایمان تباہ کر بیٹھنا تو کوئی نفع کا سودا نہیں۔

    متفق علیہ حدیث پاک ۔ صحیح البخاری، کتاب : الرقاق، باب : من احب لقاء اللہ ، احب اللہ لقاءہ 5/2387، الرقم : 6143، صحیح المسلم ، کتاب : الذکر و الدعاء والتوبۃ والاستغفار، 4/2066، 2067، الرقم 2684، 2686

    حضرت ابو موسیٰ ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو (بندہ)‌اللہ تعالی سے ملاقات کو پسند کرتا ہے ، اللہ تعالی بھی اس سے ملاقات کو پسند فرماتا ہے اور جو اللہ تعالی سے ملنا ناپسند کرتے ہے ، اللہ تعالی بھی اس سے ملنا ناپسند فرماتا ہے۔ (متفق علیہ)

    ایک اور متفق علیہ حدیث پاک بحوالہ صحیح البخاری، کتاب التوحید، 6/2825، الرقم : 80663، صحیح المسلم کتاب : الذکر و الدعاء والتوبۃ۔۔۔ 4/2067، الرقم : 2675

    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی فرماتا ہے : میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوتا ہوں جو وہ میرے بارے رکھتا ہے (یعنی جیسا اسکا گمان ہو ، اللہ تعالی اس بندے سے ویسا ہی سلوک فرماتے ہیں) ، اور میں اسکے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔

    ہمیں چاہیے کہ اولیائے کرام پر تنقید کرنے کی بجائے قرآن و حدیث کو صحیح طور پر سمجھیں۔ دل میں اللہ تعالی اور اسکی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت کو بسائیں ، ضد، انا ، تکبر اور غرور سے توبہ کرکے اللہ تعالی کی بارگاہ میں عاجزی اختیار کرتے ہوئے اسکے قرب کے متلاشی بنیں تو اللہ تعالی اپنے کسی بھی بندے پر کرم فرماتے ہوئے اسے کئی مقامات سے نواز سکتا ہے۔

    قرآن مجید اور احادیث پاک میں سے ایسے مقامات کی جھلک اوپر بیان ہوچکی ہے۔
     
  15. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ارشاد باری تعالیٰ ہے :

    الَّذِينَ آمَنُواْ وَكَانُواْ يَتَّقُونَO لَھُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَياۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَۃِ. ۔ يونس، 10 : 63، 64

    ’’(وہ) ایسے لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (ہمیشہ) تقویٰ شعار رہےo ان کے لئے دنیا کی زندگی میں (بھی عزت و مقبولیت کی) بشارت ہے اور آخرت میں ‘‘

    قرآن مجید کی تمام تفاسیر میں ہے کہ بشارت سے مراد وہ نیک خواب ہیں جو اللہ رب العزت ایمان والوں کو عطا کرتا ہے۔

    امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ طبری سے لے کر علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تک تمام مفسرین نے پوری تصریحات کے ساتھ اس امر کی تائید کی ہے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ روح المعانی میں، امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ تفسیر طبری میں، قاضی ثناء اللہ رحمۃ اللہ علیہ پانی پتی تفسیر مظہری میں، امام رازی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر کبیر میں یا آپ تفسیر کی کوئی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں آئمہ تفسیر نے صراحت کے ساتھ یہ بات درج کی ہے کہ اس قرآنی آیت کے تحت درج ’’بشری‘‘ سے مراد وہ نیک خواب ہیں جو ایمان والے دیکھتے ہیں۔

    سورہ یوسف میں حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے
    وَكَذَلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِن تَاْوِيلِ الْاَحَادِيثِ. يوسف، 12 : 6

    ’’اسی طرح تمہارا رب تمہیں (بزرگی کے لئے) منتخب فرما لے گا اور تمہیں باتوں کے انجام تک پہنچنا (یعنی خوابوں کی تعبیر کا علم) سکھائے گا۔‘‘

    اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بہت سے کمالات اور معجزات عطا فرمائے، ان میں خوابوں کی تعبیر کا علم اور فن بطور خاص عطا فرمایا۔ اس کا ذکر سورہ یوسف میں مذکور ہے۔ مثلاً بادشاہ مصر اور قیدیوں کے خواب حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے بیان ہوئے۔ آپ نے ان کی تعبیر بیان فرمائی اور اس تعبیر کے مطابق آئندہ واقعات رونما ہوئے۔ قرآن مجید دوٹوک انداز میں خوابوں کے وجود کی صداقت کا بیان کر رہا ہے کہ تعبیر کا فن اللہ پاک نے اپنے نبی کو عطا کیا۔ خواب کے وجود کا انکار کہ یہ محض وہم ہے، یہ من گھڑت چیز ہے، یہ باطل ہے اور رویائے صالحہ کا کوئی وجود نہیں، خود قرآن مجید کی آیت کا انکار ہے۔

    صحیح بخاری میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
    الرويا الصالحہ من اﷲ
    ’’نیک خواب اللہ رب العزت کی طرف سے ہوتے ہیں۔‘‘
    (صحیح البخاري، کتاب بدء الخلق، باب صفة ابليس و جنوده، 2 : 1198، رقم : 3118)

    امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ، علامہ عبدالغنی نابلسی رحمۃ اللہ علیہ نے تعبیر الرویا کے باب میں ایک حدیث پاک نقل کی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

    من لم يومن بالرويا الصالحہ لم يومن باﷲ ولا باليوم الآخرہ. نابلسي، تعطير الانام في تعبير المنام : 3

    ’’جو شخص نیک خوابوں پر ایمان نہیں رکھتا وہ اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔‘‘

    امام ابو الحسن اشعری رحمۃ اللہ علیہ جو دنیائے اہل سنت کے امام ہیں۔ انہوں نے اپنے عقائد میں درج کیا ہے کہ خواب کا مطلقاً انکار کرنے سے انسان کافر ہو جاتا ہے۔

    مسلم شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

    بينا انا نائم رايت في يديّ سوارين من ذھب فأهمني شأنهما فأوحي إلي في المنام أن أنفخهما فنفختهما فطارا فاولتهما کذابين يخرجان من بعدي.
    ’’میں نیند کی حالت میں تھا، میں نے دیکھا کہ میرے ہاتھوں میں سونے کے کنگن پہنائے گئے ہیں، میں نے انہیں توڑ دیا اور ناپسند کیا، پھر مجھے حکم دیا گیا تو میں نے انہیں پھونک دیا اور وہ اڑ گئے، میں نے اس کی تعبیر یہ نکالی کہ دو جھوٹے ظاہر ہوں گے۔‘‘
    مسلم، الصحيح، کتاب الرويا، باب رؤيا النبي صلي الله عليه وآله وسلم 4 : 1781، رقم : 2274

    راوی حدیث حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ دونوں کے مصداق کی نشاندہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں ایک ان میں اسود عنسی ہے جسے یمن میں فیروز نامی شخص نے قتل کیا اور دوسرے کا نام مسیلمہ ہے۔

    ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ خواب کچھ اور ہے اور اسکی تعبیر کچھ حضور نبی اکرم :saw: کچھ اور فرما رہے ہیں۔
    منکرین تصوف اور آپکے بڑے آباو اجداد یعنی دیوبندی اور وہابیت کے اکابر علما کی کتب بھی ملاحظہ فرمائیے ۔ خوابوں پر اعتراضات ہی کرنا آپ کا مقصدِ حیات ٹھہرا ہے تو پھر صرف اہلِ تصوف ہی کیوں۔ صرف اولیائے کرام ہی کیوں۔
    ذرا تذکرۃ الرشید کو اٹھائیے، مولانا عاشق الٰہی میرٹھی نے علمائے دیوبند میں سے ایک عالم مولانا رشید احمد گنگوہی کی سوانح حیات رقم کی ہے، اس کتاب میں ایک پورا باب ’’مبشرات و شہادات‘‘ قائم کیا ہے۔’’اشرف السوانح‘‘ مولانا اشرف علی تھانوی کے سوانح حیات پر ان کی زندگی میں لکھی گئی اس کتاب کو پڑھیے، ’’معرفت الٰہیہ‘‘ مولانا شاہ عبدالغنی جو کہ مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ ہیں، اپنی کتاب میں جگہ جگہ بشارات و خوابوں کا ذکر کرتے ہیں اور باقاعدہ ’’خلافت کے متعلق چند غیبی شہادتیں‘‘ ’’مبشرات منامیہ‘‘ اور ’’تعبیرات خواب‘‘ کے ابواب قائم کرتے ہیں۔’’محبوب العارفین‘‘ اس کتاب میں مولانا محمد زکریا جو کہ تبلیغی جماعت کے بانی ہیں، ان کی زندگی میں ان کے بیان کردہ چالیس خوابوں کو جمع کیا گیا۔

    مبشرات دار العلوم دیوبند کے صفحہ 35 پر مولانا قاسم نانوتوی کا خواب ہے جسے دار العلوم دیوبند کے مہتمم قاری محمد طیب بیان کرتے ہیں کہ مولانا قاسم نانوتوی نے خواب دیکھا کہ میں کعبہ کی چھت پر کھڑا ہوں اور میرے پاؤں کے نیچے سے نہریں نکل کر پوری دنیا میں پھیل رہی ہیں۔

    اسی مذکورہ کتاب کے صفحہ 53، 54 پر مولانا قاری محمد طیب اپنا خواب بیان کرتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ہم حرمِ نبوی میں پہنچے تو دیکھا مسجدِ نبوی کی چھت پر دار العلوم دیوبند قائم ہے ہم سب دار العلوم میں گئے اور اس میں میرا خاص کمرہ بھی تھا۔
    اسی مذکورہ کتاب کے صفحہ 63 پر مولانا قاسم نانوتوی کا مولانا محمد یعقوب صاحب کے حوالے سے خواب درج ہے کہ مولانا قاسم نانوتوی نے اپنے بچپن کے زمانے میں یہ خواب دیکھا کہ ’’گویا اللہ تعالیٰ کی گود میں بیٹھا ہوں‘‘

    یعنی مدرسہ دیوبند تو کعبۃ اللہ کی چھت پر قائم ہوجائے اور قاری طیب صاحب کا کمرہ بھی اس میں قائم رہے اور مولانا قاسم نانوتوی صاحب معاذ اللہ ، اللہ تعالی کی گود میں بیٹھ جائیں تو کسی اہلحدیث ، وہابی اور دیوبندی نئے یا پرانے آدمی کو اعتراض کرنا نصیب نہ ہو۔۔ بلکہ ہو بھی کیسے کہ ایسا مواد تو شاید باذوقی ، کارتوسی یا کسی اور اہلحدیث ویب سائیٹ پر کاپی پیسٹ کے لیے دستیاب ہی نہ ہوگا۔

    بھجۃ القلوب کےصفحہ 21 پر ہے کہ مولانا عبدالرشید نے خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ مولانا زکریا کی خدمت کرتے رہو اس کی خدمت میری خدمت ہے اور فرمایا میں اکثر اس کے حجرے میں جاتا رہتا ہوں۔

    محترم غیرجانبدار صاحب اور دیگر اہل عقل دوستوں سے گذارش ہے کہ ذرا یہاں بھی نظر کرم فرمائیں اور دیکھیے کہ دیوبندی ، وہابی علمائے کرام بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کیا کیا ارشاد فرما رہے ہیں۔ مولانا کی خدمت گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت قرار دی جارہی ہے۔

    یہاں تو زبانیں اور قلم خاموش رہیں۔ کبھی عوام الناس کے سامنے ایسے حقائق نہ لائے جائیں۔
    اور اولیائے کرام ، صالحین اور متقین کے خوابوں پر اعتراض کے لیے فوراً زبانیں کھل جائیں۔ کم از کم دیانت کا پیمانہ تو قائم رکھیے۔ اگر اعتراض و تنقید ہی مقصدِ حیات ٹھہرا تو کچھ کچھ تیر ادھر بھی چلائیے۔
     
  16. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام علیکم معزز قارئین کرام !
    یہ لڑی شروع کی گئی تھی تصوف کی حقیقت کے نام پر اور شروع کرنے والے نے اپنی بات کی ابتداء میں اُن تلخ حقائق کی طرف بھی اشارہ کیا کہ جن کو عرف عام میں (عوام) تصوف سے تعبیر کرتے ہیں حالانکہ حقیقت تصوف یا روح تصوف کا ان سے کوئی بھی واسطہ نہیں ۔ ۔ ۔
    اس کے بعد ہم نے بھی اپنی سی کوشش کرتے ہوئے روح تصوف یا حقیقی تصوف کے خدو خال کو صفحہ قرطاس پر نمایاں کرنے کی کوشش کی جس پر کچھ لوگوں کو اپنی دکانداری (جو کہ انھوں اپنی نام نہاد توحید کی آڑ میں چمکا رکھی ہے) کی بنیادیں گرتی ہوئی محسوس ہوئیں تو انھوں نے باوجود اس کہ کے انھیں ہمارے پیش کردہ حقیقی تصوف (یعنی روح تصوف)سے اتفاق تھا لیکن جب دیکھا کہ یوں تو نام نہاد توحید کا قلع مسمار ہوجائے گا اور اگر عام عوام کو اس حقیقی تصوف کی روح سمجھ میں آگئی تو ان کے دل و دماغ میں اولیاء اللہ کی عظمت اجاگر ہوجائے گی اور یوں ہمارا دال روٹی کے چکر میں چلایا یوا نام نہاد توحید کا کاروبار بند ہوجائے گا تو انھوں نے فلسفہ وحدۃ الوجود جیسے خالص فلسفیانہ مسائل کو (کہ جن کا بالواسطہ توصوف سے کوئی تعلق نہیں ) یہاں اچھال کر ایک بار پھر سے عام لوگوں کے زہنون کو پرانگندہ کرنے کی ناکام کوشش کی اور اولیاء اللہ کے ساتھ اپنی دشنام طرازی اور خبث باطنی کا ثبوت باہم پہنچایا خیر ۔ ۔ ۔ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں فلسفہ وحدۃ الوجود کوئی عام مسئلہ نہیں ہے کہ جس کو اتنی آسانی سمجھا اور سمجھایا جاسکے اسکے باوجود ہم نے ایک طالب علمانہ سی کوشش کی کہ اس مسئلہ کہ کچھ خدو خال واضح کرسکیں مگر تاہم ہمیں اپنی علمی بے بضاعتی کا ادراک بحرحال ضرور ہے اس لیے ہمیں یہ ماننے میں کوئی پشیمانی نہیں کہ ہم اس مسئلہ کی وضاحت کا کما حقہہ حق ادا نہ کرسکے لیکن پھر بھی ہم نے جو تصریحات اس مسئلہ کے ضمن میں پیش کی وہ اسی فن کے ماہرین کی کتب سے اخذ کردہ تھیں اور فلسفہ وحدۃ الوجود کی حقیقت کو بیان کررہی تھیں مگر افسوس کے کچھ لوگوں کے ذہن اس مسئلہ کی ضمن ائمہ فن کی تصریحات کی بجائے اپنے نام نہاد توحید کے علم برادروں کی اندھی تقلید کا شکار ہیں اور ان کے نزدیک
    تصوف اور وحدۃ الوجود کا فلسفہ وہی ہے جو کہ اُن کے علماء کی
    نوک قلم یا زباں سے ادا ہوتا ہے یا پھر ان کے ناقص فھم میں کسی کج فھمی کی طرح سرائت کرجاتا ہے ۔ ۔
    حیرت ہے جو لوگ سیدھی سیدھی احادیث کا مفھوم نہیں سمجھ سکتے اور اپنی حدیث دانی کی بدولت ایسے ایسے لطائف کو جنم دیتے ہیں کہ اگر مجھے ہماری اردو کی انتظامیہ اجازت دے تو میں روز ایک لطیفہ جو کہ ان کی حدیث دانی کہ ضمن میں وجود پاتا ہے کو یہاں نقل کروں مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس اجازت کے بعد یقینا ہماری اردود میں
    طنز و مزاح کے سیکش کے وجود کو خطرہ لاحق ہوجائے گا اور اسکو مستقل طور پر ایک علحیدہ سیکشن کی صورت میں برقرار رکھنا یقینا دشوار ہوجائے گا لہذا اسی خطرے کے پیش نظر یقینا ہماری اردو کی انتظامیہ مجھے اس بات کی اجازت ہرگز نہ دے گی وگرنہ کس پر یہ روز روشن کی طرح عیاں نہیں کہ جو لوگ شرک اصغر اور شرک اکبر کے فرق کو مثالوں کے ساتھ واضح کرتے ہوئے شرک اکبر کو شرک اصغر کی مثال میں نقل کردیں تو انکی حدیث دانی یقینا کسی لطیفے سے کم نہیں خیر بات دور نکل گئی ۔ ۔ ۔ ۔ ہم عرض یہ کرنا چاہ رہے تھے کہ جو لوگ عام فھم سی باتوں کا ادراک سلیقے سے نہیں رکھتے وہ فلسفیانہ مسائل میں کسی بھی طرح کلام کے حق دار نہیں ۔ ۔ ۔
    اب آتے ہیں محترم جناب نیا آدمی صاحب کی تازہ ترین جواب کی طرف ۔ ۔ ۔ ۔ ۔موصوف فرماتے ہیں کہ ۔ ۔
    میرے وہ دوست جو پروفیسر طاہر القادری کی تقلید کو عین اسلام سمجھتے ہیں ان کی تصوف پر مبنی تقریر کو حرف آخر سمجھ کر سارا زور تصوف کو عین اسلام ثابت کرنے پر صرف کر رہے ہیں۔
    تو جوابا عرض ہے کہ اے میرے تو بھی داؤد ظاہری ، ابن تیمیہ ، ابن قیم ، ابن حزم ، شوکانی ،عبدالوہاب نجدی اور ناصر الدین البانی کی ہر ہر بات کی اندھی تقلید کے پیش نظر تصوف جیسے پاکیزہ نظریہ اسلام کو عین اسلام کا غیر ثابت کرنے کی کوشش نہ کر ۔ ۔ ۔

    آگے موصوف مزید فرماتے ہیں کہ ۔ ۔ ۔
    اگر تصوف تقوی ، شرعی عبادات و ریاضات یا احسان کا نام ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں کہ اسے عین اسلام سمجھا جائے اور اس سلسلے میں پروفیسر طاہر القادری کی تقلید کی جائے۔
    جی ہاں تصوف انھی سب حقیقتوں کانام ہے اگر آپکو اعتراض ہے تو کسی بھی حامل تصوف کا کوئی ایک بھی ایسا قول نقل کردیں جس میں اس نے ان سب حقائق کے تصوف نہ ہونے کا واشگاف اعلان کیا ہو ۔ ۔ ۔ ۔
    آگے چل کر موصوف مزید رقم طراز ہیں کہ ۔ ۔ ۔
    اس سے پہلے تصوف کے بارے میں کچھ ماہرین کی تعریف پیش کی تھی لیکن کچھ لوگوں نے فرمایا کہ یہ تو ان کے مخالفین کی ویب سائٹ کی نقل ہے۔ جناب اگر متن اور حوالہ دیا جائے تو وہ ہر جگہ ایک جیسا ہی ہو گا چاہے آپ کی ویب سائٹ پر ہو یا آپ کے مخالفین کی۔

    جو باتیں تاریخ میں موجود ہیں اور ماہرین فن کی جو تعریفیں مذکور ہیں ان کا حوالہ دینے پر تو آپ چراغ پا ہو جاتے ہیں اور طعنے دینے پر آ جاتے ہیں، طبع زاد متن پر تو نہ جانے آپ کیا کر اور کیا کہہ بیٹھیں۔

    ویسے جن صاحب نے نقل کا اعتراض فرمایا ہے ان کی اپنی تحریریں بھی 90% کٹ پیسٹ ہوتی ہیں لیکن یہ کوئی بری بات نہیں۔ موضوع اور مناسبت کی بنیاد پر کوئی بھی مواد کہیں سے بھی لیا جائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا البتہ جو کام خود کر رہے ہیں اور بڑے دھڑلے سے کر رہے ہیں وہی کام کوئی دوسرا کرے یا انہیں ایسا شبہ یا ابہام ہو جائے تو ا نہیں اعتراض ہوتا ہے۔

    کن ماہرین فن کی بات کر رہے ہیں آپ جناب ؟ کچھ ہمیں بھی تو پتا چلے ؟ کیا آپکی مراد
    ابن تیمیہ اینڈ کمپنی کی خود ساختہ تعریفات تصوف ہیں تو ہمیں معاف رکھیے گا کہ انکی وضاحت سے ہم معذور ہیں ۔
    باقی رہ گئی تصوف اور فلسفہ وحدۃ الوجود کی تعریف نقل کرنے کی بات تو معاف کیجیئے گا آپ نے ابھی تک نہ تو تصوف کی تعریف پیش کی ہے کسی حامل تصوف کی کتاب سے اور نہ ہی فلسفہ وحدۃ الوجود کی کوئی تعریف ابھی تک آپ پیش کرسکے ہیں سوائے اس کے جو کچھ آپ لوگوں کے نام نہاد مولویوں کے ذہن نارساء میں آتا ہے اسی کو فلسفہ وحدۃ الوجود وہ لکھ دیتے ہیں اور آپ بھی اسے آنکھ بند کرکے یہی سمجھ لیتے کہ وحدۃ الوجود یہی ہوگا اسی لیے اسے یہاں نقل فرمادیتے ہیں ۔نیز یہ بھی فرمایئے گا کہ کیا آپ کے نزدیک تاریخ تصوف کی بعض کتابوں سے اولیاء اللہ کے بعض احوال پر مشتمل ایسے اقوال کہ جن کی فنی حیثیت کی نشاندہی ماہرین فن ہی کرسکتے ہیں کیا فلسفہ وحدۃ الوجود کی تعریف کہلاتے ہیں ؟ کیا آپکو پتا بھی ہی کہ کسی شئے کی تعریف کیا ہوتی ہے؟ اور کسی بھی شئے کی تعریف کرنا کیا ہوتا ہے ۔؟
    بات تصوف کی ہورہی ہوتو آپ چھلانگ لگا کر فلسفہ وحدۃ الوجود کی سیڑھی پر براجمان ہوجاتے ہیں اور جب فلسفہ وحدۃ الوجود کو حقیقت کی روشنی میں آپ کے سامنے پیش کیا جائے تو آپ صوفیا کے بعض احوال و اقوال
    (جو کہ ان پر راہ سلوک کے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے وارد ہوتے ہیں اور جن کے نتیجے میں بعض اوقات ان سے حالت جذب میں اقوال شطح کا صدور ہوتا ہے)
    کو سند بنا کر فلسفہ وحدۃ الوجود کی تفھیم کے بطور پیش کرتے ہیں ؟کیا آپکے نزدیک کسی نظریہ کی تعریف پیش کرنا اسے کہتے ہیں؟
    اس طرح تو جتنے بھی غیر مسلم ہیں وہ مسلمانوں کی مجموعی حالت کو دیکھتے ہوئے اور مسلمانوں کی اکثریت کے افعال و اعمال کے پیش نظر اسلام کی کوئی بھی تعریف کر سکتے ہیں ۔
    رہ گیا آپکا ہماری تحریر کے نوے فیصدی کو کاپی پیسٹ قرار دینا تو اہل فھم پر روشن ہے کہ ہم نے کتنے فیصدی کاپی پیسٹ سے کام لیا ہے اور آپکا اس بات کو ہمارے خلاف بطور طنز نقل کرنا بھی آپکی فھم فراست کو عیاں کررہا ہے کہ جو شخص اتنی بھی لیاقت نہیں رکھتا کہ ہمارے مزکورہ قول کی حجیت کو سمجھ سکے وہ چلا ہے تصوف پر اور وحدۃ الوجود پر بات کرنے ارے میرے بھائی ہمارے نزدیک بھی اس میں کوئی حرج نہیں
    (اور نہ ہم نے کبھی کسی ہر ایسا کوئی اعتراض کیا ہے) کہ آپ علمی حوالہ کہاں سے نقل کرکے لگاتے ہیں بس بات اتنی ہونی چاہیے کہ کچھ بھی اصل کتب کے حوالے سے نقل کیا جائے اس پر آپ کا تحقیقی اعتماد ضررور ہونا چاہیے چاہے وہ اعتماد ناقل علماء کی کتب کے حوالے سے ہی کیوں نہ ہو ۔ لیکن ہوا یوں کہ جب ہم نے ابن تیمیہ کے بارے میں چند ایسے اقوالات کہ جن پر علماء نے گرفت فرمائی ہے اور جو کہ ہماری اپنی نظروں سے بھی سنی علماء کی کتب کے حوالے سے گذر چکے تھے کو ایک شیعہ ویب سائٹ سے نقل کیا تو آپکے چہیتے ہارڈ اسٹون صاحب نے ہمیں بار بار شیعہ سائیٹ سے کاپی پیسٹ کا طعنہ دیا تو ہم نے بطور الزامی جواب آپ کی (آپکی غیر مقلدین کی سائیٹ سے بازوق کی پوسٹ کی کاپی پیسٹ والے عمل کو ) کاپی پیسٹ والی حرکت کو بطور حجت پیش کیا کہ تاکہ انھیں یہ باور کراسکیں بلا شبہ انکا شمار وادی نجد کے گمراہ پیران کے غالی مریدین میں ہوتا مگر تاہم خصم کا عمل بطور حجت تو ان کے ہاں بھی مسلم ہوگا ۔بس اتنی سی بات تھی آپ نے تو افسانہ ہی بنادیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    تو معزز قارئین کرام ہم آپ پر یہ واضح کرتے چلیں کہ نیا آدمی صاحب نے جتنے بھی واقعات اولیاء کرام کے حوالے سے نقل کیے ہیں وہ دو اقسام پر مبنی ہیں ۔
    اولا کرامات دوم شطیحات

    سب سے پہلے ان واقعات کی طرف آتا ہوں کہ جو بطور اولیاء کی کرامات کہ مشھور اور جن کو نقل کرکے موصوف نے اپنے زعم باطل میں اولیاء کرام کی شان کو گھٹانے کی سعی ناپاک کی ہے ۔ ۔ ۔
    کرامات اولیاء کے سلسلے میں جتنے بھی واقعات مشھور ہیں ان سب کے قبول و رد کا اصل معیار قرآن و سنت ہی ہیں اور اولیاء کرام سے کرامات کے صدور کو جائز ماننا یا نہ ماننے پر ہم بعد میں ورض کریں گے سردست ان واقعات کی شرعی اعتبار سے قبول و رد کی صورت حال کو واضح کردیں جو کہ ہماری بیان کردہ درج زیل تین صورتوں میں ہوسکتی ہے ۔
    قارئین جو واقعات اولیاء کرام کی کرامات کے بطور مشھور ہوں ان میں قطع نظر ان کی اسنادی حیثیت کہ تعین کے اول اصول یہی کہ انکو قرآن و سنت پر پیش کیا جائے اور جو جو بھی واقعات قرآن و سنت سے متعارض ہوں تو انکو ترک کردیا جائے کیونکہ اس قسم کے زیادہ تر واقعات کا تعلق از قبیل خطابیات سے ہوتا ہے اور عمومی طور پر ہم اس قسم کے واقعات کی تین قسمیں کرسکتے ہیں ۔
    نمر ایک وہ واقعہ کہ جو کہ صحیح روایت سے ثابت ہو اور قرآن و سنت کے خلاف بھی نہ ہو تو ایسے واقعہ کو ظن کے درجہ میں مان لینا کافی ہوتا ہے ۔ اور اگر اسیے واقعہ کا ظاہر قرآن وسنت کے خلاف نظر آرہا ہو تو اس کی تاویل کی جائے گی ۔
    نمبر دو ایسا واقعہ جو کہ قرآن سنت کے خلاف ہو اگرچہ روایت صحیحہ سے ہی اس کا ثبوت کیوں نہ ملتا ہو تو اسیے واقعہ کا ترک لازم ہے ۔ ۔ ۔
    نمبر تین ایسے واقعات کہ جن کا نہ تو صحیح روایت سے ثبوت ملتا ہے اور نہ ہی وہ قرآن و سنت کے مطابق ہوتے ہیں تو ان کا ترک بھی لازم ہے ۔ ۔ ۔
    اب آتے ہیں اولیاء کرام کی کرامات کی طرف تو قارئین سمجھ لیجیئے اور نیا آدمی صاحب آپ بھی اگر آپ میں زرا بھی آدمیت ہے تو کہ کرامات میں اصل یہی ہے کہ اولیاء کرام سے ان کو صدور اور وقوع بلاشبہ جائز ہے اور برحق ہے مگر ضروری نہیں ۔ ۔ اور کرامات اولیاء کا انکار کرنے والا گمراہ ہے لہذا اولیاء کرام سے منصوب کسی بھی ایسے واقعہ کو جو کہ کرامت سے تعلق رکھتا ہو ہمارے پیش کردہ مندرجہ بالا چارٹ کی روشنی میں دیکھا جائے اگر اس کی شرائط پر پورا اترتا ہو تو فبھا وگرنہ چھوڑ دیا جائے اور یاد رہے کہ اولیاء کی کرامات کا انکار اعتزال کی راہ ہے جو کہ فرقہ معتزلہ کی پہچان ہے ۔وگرنہ تمام مکاتب فکر کہ نزدیک اولیاء کی کرامات برحق ہیں ۔
    اور ایسی کرامات عموما خرق عادت واقعات کی شکل میں رونما ہوتی ہیں اور ان میں اصل یہی ہے کہ جو امر جائز الوقوع ہو اور تحت قدرت باری تعالٰی کے ہو اسے مان لینے میں کوئی حرج نہیں کہ کرامات کا وقوع بھی اللہ پاک کی قدرت کے تحت ہی انجام پذیر ہوتا ہے اوروہ نتیجہ ہوتا ہے اللہ پاک کے اس وعدے کا کہ جو اس نے اپنے پیارے بندوں سے فرمایا ہوتا کہ اگر میرا ولی مجھ سوال کرے تو میں ضرور اسے عطا کرتا ہوں (صحیح بخاری ) اور یاد رہے کہ اس قسم کے بعض واقعات قرآن پاک میں بھی بطور اولیاء کی کرامات کے ذکر ہوئے ہیں جیسے حضرت مریم کے پاس بے موسم پھلوں کا آجانا ، حضرت آصف بن برخیا صحابی سلمان علیہ السلام کا پلک جھپکنے سے بھی پہلے ہزاروں میل کی مسافت پر رکھے تخت بلقیس کو حاضر کردینا وغیرہ ۔ ۔ ۔ ۔یہ تو بنی اسرائیل کے اولیاء کی کرامات ہیں جو کہ قرآن میں نازل ہوئیں تاجدار ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے کی امت کے اولیاء کاعالم کیا ہوگا ؟
    اس کے علاوہ نیا آدمی صاحب نے صوفیاء کے بعض جن واقعات پر اعتراض کیا ہے تو ان میں سے
    بعض کا تعلق ان اقوال و افعال اور مختلف کیفیات سے ہے جو کہ صوفیاء پر راہ سلوک میں چلتے ہوئے وارد ہوتی ہیں اور پھر بعض اوقات ان سے یعنی صوفیاء سے ایسے اقوالات کا صدور ہوجاتا ہے کہ جو از قبیل شطیحات سے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
    اب ہم درج زیل میں شطح کی مختصر وضاحت پیش کریں گے کہ جس میں فلسفہ وحدہ الوجود کی حقیقت کا بھی بیان ہوگا ۔ ۔ ۔
    کثرتِ اذکار و اشغال و ریاضت و مجاہدہ کے بعد ترقی کرتے کرتے سالک یہاں تک ترقی کرتا ہے کہ بعض وقت شِش جہت میں اللہ تعالٰے کے سوا اس کو کچھہ نظر نہیں آتا۔ تجلیات صفاتی کا ظہور اس شدَت سے سالک کے دل پر پوتا ہے کہ ساری ہستیاں اُس کی نظر میں گُم ہو جاتی ہیں۔ جس طرح ذرَے آفتاب کی پھیلی ہوئی روشنی میں نظر نہیں آتے۔ دھوپ میں جو ذرَہ دکھائی نہیں دیتا اِس کا یہ سبب نہیں کہ ذرَہ نیست ہو جاتا یا ذرَہ آفتاب ہو جاتا ہے، بلکہ جہاں آفتاب کی پوری روشنی ہوگی ذرَوں کو چھپ جانے کے سِوا چارہ ہی کیا ہے۔ جس وقت روشندان تابدان وغیرہ سے دھوپ کوٹھری یا سائبان میں آتی ہے، اس وقت ذرَوں کا تماشا دیکھو، صاف نظر آتے ہیں۔ پھر آنگن میں نِکل کر دیکھو غائب ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح بندہ خدا نہیں ہوتا ۔ کہ
    تعالیَ اللہُ عَنْ ذلك عُلُواً كبيراً [ یعنی اللہ تعالٰی اس سے بہت بلند تر ہے]۔ اور نہ ہوتا ہے کہ بندہ درحقیقت نیست ہو جاتا ہے، نابود ہونا اور چیز ہے اور نہ دیکھا جانا اور شئے ہے۔ نظم
    یا یوں سمجھئے کہ عالم ایک آئینہ ہے۔ اِس آئینے میں سالک کو بعض بعض وقت خدا ہی نظر آتا ہے۔ خُدا کے مشاہدے میں سالک ایسا مستغرق ہو جاتا ہے کہ عالم جو آئینہً حیرت ہے اُس کو نظر نہیں آتا۔ اِس سے اور آسان مثالیہ ہے کہ آپ خود آئینہ دیکھیں اور اپنے جمال میں محو ہو جائیں پھر دیکھیں تو سہی آئینہآپکی نظر سے ساقط ہو جاتا ہے یا نہیں۔ ؟ ضرور ساقط ہو گا۔ ایسے موقع پر کیاآپکو کو کہنے کا حق ہو گا کہ آئینہ نیست ہو گیا ہے۔ یا آئینہ جمال ہو گیا ہے یا جمال آئینہ ہو گیا ہے۔ ہرگز نہیں۔ نیست ہونا اور ہے اور نہ دِکھائی دینا اور ہے۔ جس کی نظر میں آفتابِ انوارِ حق اِس شان سے ظہور کرے گا اُس کی نظر میں ساری ہستیاں نہ ہونگیں تو کیا ہونگیں۔ قدرت کا مقدورات میں دیکھنا بِلا فرق اسی طرح پر ہوتا ہے۔ صوفیوں کے یہاں اِس مقام کا نام الفناءُ في التوحيد یعنی توحید میں فنا ہو جانا ہے۔
    اور اس مقام کو اگر کوئی یہ کہے کہ یہ مقام حلول یا اتحاد ہے تو ایسا شخص یہاں فضول بَکتا۔ کیونکہ وہ تجلّی اور حلول کا فرق نہیں پہچانتا ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر اس مقام پر بعض سالیکن سے اسیے اقوال کا صدور ہوجائے کہ از قبیل شطح ہوں تو ایسے مقام میں سالک سے شطحیات کا سرزد ہونا سالک کی خامی سمجھی جائے گی۔ اِس میں شک نہیں کہ خدا کی تجلّی ہوتی ہے۔ اور خدا اپنا جلوہ دکھاتا ہے۔ مگر انسان میں حلول نہیں کرتا۔ اس مقام میں پہنچ کر سیکڑوں سالک پھسل کر گر چُکے ہیں۔ اس خوفناک جنگل سے جان سلامت لے جانا بغیر تائیدِ غیبی و عنایتِ ازلی نا ممکن ہے۔ اور شیخ کی مدد بھی ضروری ہے۔ جو شیخ حق رسیدہ ہو، صاحبِ بصیرت ہو، نشیب و فراز سے واقف ہو۔ شربت قہرِ جلال اور لطفِ جمال کا مزہ چکھہ چُکا ہو۔ تاکہ اس ورطہً ہلاکت سے سالک کو نکال سکے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    فنا فی التوحید کے بعد ایک مرتبہ ہے جس کا نام الفنآءُ عنِ الفنآءِ ہے۔ اس مرتبہ میں سالک کی حالت یہ ہوتی ہے کہ کمالِ استغراق کی وجہ سے اس کے احساس کو اپنی فنائیت کی خبر نہیں ہوتی۔ اور نہ اُس کی آگاہی باقی رہتی ہے کہ ہم فنا ہوئے۔ یہاں تک کہ جمالی و جلالی تجلّی کا فرق بھی نظر نہیں آتا۔ ایک جُنبش میں غائب ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ کسی قسم کا عِلم باقی نہیں رہتا۔ اہلِ طریقت کے نزدیک تفرقہ کی دلیل ہے۔ مقامِ عین الجمع و جمع الجمع جب ہی حاصل ہوگا کہ سالک اپنے کو اور کُل کائنات کو ظہورِ حق کے دریائے نور میں گُم کر دے اور اس کی خبر بھی نہ رکھے کہ گُم کون ہوا۔
    تو در و گُم شو کہ توحید این بود گُم شدن گُم کن کہ تفرید این بود
    ( تو اس میں کھو جا یہی توحید ہے اور کھو جانے کو بھی بھول جا۔ ۔ ۔ ۔ اس کا نام تفرید ہے)
    اس مقامِ تفرید میں پہنچ کر حقیقتِ وحدت الوجود اس طرح منکشف ہوتی ہے کہ سالک محو ہو جاتا ہے۔ تجلّیِ ذاتی کُل قصّوں کو طے کر دیتی ہے۔ اسم و رسم، وجود و عدم، عبارت و اشارت، عرش و فرش، اثر و خبر اس عالم اور اس دیار میں کُچھہ نہ پاؤگے۔
    كٌلُّ مَن عَلَيْهَا فَان ( یعنی یہاں ہر چیز کو فنا ہے)۔
    اس مقام کے سِوا اور کہیں جلوہ گر نہیں ہوتا۔
    كٌلٌّ شَئٍ هاِلكُ الاَّ وجههٌ( یعنی ہر چیز مِٹ جانے والی ہے مگر اُس کی ذات)
    اس جگہ کے سوا اور کہیں صورت نہیں دکھاتا۔
    اور جب سالک پر ایسی کیفیت طاری ہو تو اسے حال کہتے ہیں اور اسی حال میں درج زیل کلمات یعنی
    انا الحق وسٌبحانى مآ اعظم شانى ( یعنی پاک ہوں اور میری شان بہت بڑی ہے)سالک کی زبان پر جاری ہوجاتے ہیں
    توحیدِ وجودی علم کے درجہ میں ہے، یا شہود کے ابتدائی درجہ سے انتہائی درجہ تک پہنچے ہر مرتبہ میں بندہ بندہ ہے، خدا خدا ہے۔ اسی لئیے انا الحق و سُبحانی مآ اعظم شانی وغیرہ کہنا اگر صدقِ حال نہ ہو تو خود اہلِ طریقت کے نزدیک یہ کلمات کفریہ ہیں۔ اور جہاں صدقِ حال ہے۔ ہے شک وہاں کمالِ ایمان کی دلیل ہے۔
    روا باشد انا اللہ از درختے چرا نہ بود رَوا از نیک بختے
    [یعنی ایک درخت سے انا اللہ کی صدا نکلنا جب درست ہے تو اگر کسی نیک بخت کے مُنھہ سے یہی آواز نکلے تو کیوں صحیح نہ ہوگی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    آخر میں نیا آدمی صاحب سے چند سوالات کرکے اجازت چاہوں کہ جب آپ کے نزدیک بھی تصوف وہی جو کہ ہم نے اولا بیان کیا اور فلسفہ وحدۃ الوجود بھی وہی جو ہم نے بیان کیا تو پھر کاہے کا جھگڑا ؟ یعنی جب آپ کو ہماری پیش کردہ تصریحات سے اتفاق ہے تو پھر خوامخواہ میں ان لوگوں کی باتوں پر کیوں کان دھرتے ہیں کہ جن کو نہ تصوف سے کبھی کوئی واسطہ رہا ہے اور نہ ہی اس کی حقیقت سے آشنائی کبھی ان کا مقدر بنی وہ اپنے گھر میں بیٹھ کر چاہے جو مرضی ہے تصوف اور وحدۃ الوجود کے بارے میں کہتے رہیں انکی باتوں کا کیا ہے؟ ان کے نزدیک جو مرضی ٹھرے تصوف کی تعریف اور وحدۃ الوجو دکا نظریہ آپ ان کے دامن سے جان چھڑایئے اور تصوف اور وحدۃ الوجود کی جس تعریف پر آپ ہمارے ساتھ متفق ہیں فقط اسی کو مانئے ۔ ۔ ۔ ۔
     
  17. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    اور ماشاء اللہ جذاک اللہ نعیم بھائی آپ نے کمال مہربانی کرتے ہوئے قرآن وسنت کے حوالوں سے اولیاء کرام کی عظمتوں کو اجاگر کیا اور ہمارے دلون کو اولیائ کرام کی رفعتوں اور عظمتون کے سمندر سے فیض یاب کرنے کا سامان کیا اللہ پاک اپنی پاک جناب میں سے آپ کو اسکا اجر عطا فرماوے آمین :dilphool:
     
  18. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    :salam:
    نعیم بھائی اور آبی بھائی آپ نے بہت خوب لکھا ہے مگر کاپی پیسٹ‌کرنے والے حضرات کو یہ پڑہنے کی توفیق مشکل سے ہی ہوگی ۔
     
  19. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    اولیائے کرام کی شان مسلم ہے اور اسکا انکار براہ راست آیاتِ قرآنی کا انکار بن جاتا ہے۔
    نیا آدمی صاحب نے ایک مخصوص طبقہ ء فکر کے نظریات کو سامنے رکھتے ہوئے اعتراضات اٹھائے تھے۔ جس پر محترم آبی ٹو کول صاحب نے کمال مہارت سے عقلی و منطقی انداز میں‌ اور محترم نعیم صاحب نے براہ راست قرآن و حدیث سے زبردست جوابات دے کر حق کو ثآبت کیا۔
    اللہ تعالی دونوں کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ اور منکرین تصوف و روحانیت کو ایسا باطنی نور عطا فرمائے کہ جس سے وہ بھی اسلام کی روحانی تعلیمات کو سمجھ سکیں۔ آمین
     
  20. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    بہت دلچسپ بحث چل رہی ہے اور نیا آدمی آبی نعیم برادران اپنے علمی کمالات دکھا رہے ہیں نور بہن بھی اولیائے کرام کی شان کے انکار کو قرآن کا انکار بتا رہی ہیں لیکن اصل بات جوں کی توں ہے۔

    حضرت ابرہیم بن ادھم کا کانوں میں رانگ ڈال لینا اور بہرہ بن جانا کمال ہے تو پھر سنت سے تو بہر حال اغماض ہی ثابت ہو رہا ہے۔

    اگر خانہ کعبہ حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہ کا طواف کر سکتا ہے تو صلح حدیبیہ کے وقت حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی تو چل کر آ سکتا تھا۔ کہتے ہیں کہ خانہ کعبہ میں طواف مسلسل جاری رہتا ہے تو اس وقت جب کعبہ جنگل میں چلا گیا تھا تو جو لوگ وہاں طواف کر رہے تھے وہ کہاں گئے ہوں گے نیز کیا تاریخ میں کبھی کوئی ایسا واقعہ ملتا ہے کہ خانہ کعبہ کبھی اپنے مقام سے غائب ہو گیا ہو۔

    یہ جو حضرت بایزید بسطامی نے فرمایا کہ ۔ ۔ ۔ملکی اعظم من ملک اللہ میری بادشاہت اللہ کی بادشاہت سے بڑی ہے اور
    لوائی ارفع من لواء محمد میرا جھنڈا محمد کے جھنڈے سے بلند ہے۔ ۔ ۔ ۔ اس کی سمجھ نہیں آئی۔ اس میں کرامت کیا ہے اور عظمت کیا ہے اور پھر اس کرامت اور عظمت کی حدود کیا ہیں جو اللہ کی بادشاہت سے بھی بڑی بادشاہت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے سے بھی بلند ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ کسی دشمن دین نے یہ باتیں کتابوں میں اضافی شامل کر دی ہیں۔
     
  21. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    خواجہ بایزید بسطامی رحمتہ اللہ نے جو یہ فرمایا کہ ۔ ۔ ۔ ۔آہ سرد کھینچوں گا اور دوزخ کی حرارت زائل ہو جائیگی حتی کہ کچھ نہ رہیگی ۔ ۔ ۔ تو یہ بات قران کی تعلیمات اور احادیث کی روشنی میں کیسے ثابت ہو گی کہ خواجہ بایزید بسطامی رحمتہ اللہ دوزخ کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی قوت رکھنے کا دعوی فرمائین۔

    خواب کی تعبیر کا علم تو ثابت ہے اور مسلم ہے لیکن جنازے کو عرش الہی بتانا سمجھ میں نہیں آیا شاید عرش الہی کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے کسی دشمن دین نے یہ واقعہ شامل کتاب کر دیا ہو یا اس کی کوئی ایسی توجیہہ ہو جو مجھ جیسے کم فہم کی سمجھ میں نہ آ رہی ہو۔ جو اسلام دین کی کتابوں میں موجود ہے اس کی روشنی میں یہ دیو مالائی باتیں تو افسانوی لگتی ہیں۔

    میں روح کا قبض کر لینا یا دوبار روح جسم میں لوٹا دینا خالص اللہ کی قدرت سمجھتا تھا اور میں نے پڑھا ہے کہ عزارئیل علیہ السلام روحیں قبض کرنے پر متعین ہیں۔ لیکن ابو الرضا محمد کے واقعہ سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح ابو رضا محمد بھی اس صفت سے متصف تھے لیکن حضرت عیسی علیہ السلام صرف قم باذن اللہ کہہ کر مردہ زندہ کیا کرتے تھے- ابو رضا محمد تو نظر فرما کر ہی زندہ کو مردہ اور مردہ کو زندہ کردیتے تھے جو کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزے سے زیادہ عظیم صلاحیت ہے۔ اس واقعہ پر بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں کچھ وضاحت ہو جائے تو میرے جیسے کم علم کے علم میں اضافہ ہو گا۔
     
  22. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    اولیائے کرام کی شان مسلم ہے اور اسکا انکار براہ راست آیاتِ قرآنی کا انکار بن جاتا ہے۔ جو اللہ کے دوست ہوتے ہیں ان کی عظمت کا کیا بیان کیا جائے۔

    نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

    لیکن نیا آدمی صاحب نے جو واقعات لکھے ہیں وہ اگر صحیح ہیں تو پھر جنت دوزخ زندگی موت اور دیگر تصرفات ان سے ثابت ہو جاتے ہیں اور یہ بھی کہ انسانوں کو بھی اللہ نے اپنی صفات عطا فرمائی ہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ باتیں کہ دوزخ کی آگ کو آہ سرد سے ٹھنڈا کرنا، مردہ کو زندہ اور زندہ کو مردہ کرنا اپنی بادشاہت کو اللہ کی بادشاہت سے بڑا کہنا کس طرح ثابت کی جا سکتی ہیں؟
     
  23. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    نعیم صاحب نے جو یہ حدیث بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ

    میں (اللہ تعالی ) اسکے کان بن جاتا ہوں‌جن سے وہ سنتا ہے
    میں اسکی آنکھ بن جاتا ہوں‌جس سے وہ دیکھتا ہے
    میں اسکا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے
    میں اسکا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے

    اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان جو اللہ کے نزدیک ہو جاتا ہے تو اس کے کان، آنکھ، ہاتھ، پیر، سب اللہ کی راہ سے نہیں ہٹتے اور صرف وہی کرتے ہیں جو اللہ چاہتا ہے یا جو اللہ کا فرمان ہے۔

    لیکن اگر اس کا مطلب کچھ اور ہے تو اس کی وضاحت فرما دیں کیا یہاں حلول مراد ہے؟
     
  24. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    اور (اے پیغمبر) جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو (کہہ دو کہ) میں تو (تمہارے) پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہیئے کہ میرے حکموں کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ نیک رستہ پائیں (البقرہ: 186)

    نعیم بھائی اللہ تو شہ رگ سے قریب ہے اور جب کوئی اللہ کو پکارتا ہے تو وہ اس کی دعا قبول کرتا ہے۔

    یہ ہر مسلمان کا ایمان ہے اور جو اس سے انکار کرے وہ مسلمان ہی نہیں نیز یہ کہ اولیائے کرام کی شان مسلم ہے اور اسکا انکار براہ راست آیاتِ قرآنی کا انکار ہے۔

    لیکن اس سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے مقرب بندوں اور اپنے اولیا کو جنت دوزخ زندگی موت اور دیگر تصرفات سے نوازتا ہے؟ یہ تو خالٍص اللہ کی صفات ہیں جن میں کوئی شریک نہیں!

    میرے نزدیک اس کائنات میں اللہ تعالی کے بعد سب سے عظیم، سب سے اعلی اور سب سے مقدس ہستی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے جب ایسی عظیم، اعلی اور مقدس ہستی کو یہ صفات حاصل نہیں تھیں (کم از کم میرے مطالعہ میں کوئی ایسی حدیث نہیں ہے جس میں ایسی کوئی بات منسوب ہو) تو پھر امت میں سے کسی کو یہ تصرفات کیسے اور کیونکر حاصل ہو سکتے ہیں۔ ازراہ کرم اس کی وضاحت فرما دیجئے۔
     
  25. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    محترم ! اللہ کو چھوڑ کر اوروں سے بلکہ غیر اللہ سے سوال کرکے شرک کا مرتکب ہونا اچھی بات نہیں۔
    احتیاط فرمائیے۔ اللہ ہی سے مدد اور ہدایت مانگیے اور وہی ہادیء برحق ہے آپ کو ہدایت دے دے گا۔
    میں تو خود طالبِ ہدایت ہوں۔ لیکن وہ ہدایت مانگتا ہوں جس کے مانگنے کی اللہ تعالی نے خود ہدایت فرمائی ہے۔ یعنی اسکے ولیوں، متقین اور منعمین والے راستے کی ہدایت۔
    یا اللہ ! اھدنا الصراط المستقیم ۔ صراط الذین انعمت علیھم۔ غیر المغضوب علیھم ولاالضآلّین۔ [glow=red:1becigi7]آمین بجاہ شفیع العالمین[/glow:1becigi7]صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

    والسلام علیکم
     
  26. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    نعیم بھائی جب آپ اھدنا الصراط المستقیم کہتے ہیں تو براہ راست اللہ سے سیدھے راستے پر چلنے کی دعا مانگتے ہیں پھر طنزیہ فرماتے ہیں (تین سوال ایک جواب کی طرح) کہ "اللہ ہی سے مدد اور ہدایت مانگیے اور وہی ہادیء برحق ہے آپ کو ہدایت دے دے گا۔ "

    آپ کی کون سی بات درست ہے میرا خیال یہ ہے کہ یہ دونوں باتیں ایک ہی ہیں جن میں سے ایک پر آپ چلتے ہیں اور دوسری پر چلنے کی مجھے تاکید فرما رہے ہیں۔ پھر جھگڑا کیسا۔
     
  27. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    نعیم بھائی اگر صدق دل سے آپ اھدنا الصراط المستقیم ۔ صراط الذین انعمت علیھم۔ غیر المغضوب علیھم ولاالضآلّین۔ کہتے ہیں تو پھر کسی دوسری طرف نظر ڈالنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ ہرنماز کی ہر رکعت میں یہی سورہ فاتحہ پڑھی جاتی ہے لیکن ایاک نعبدو وا یاک نستعین کہہ کر پھر مدد ہم دوسروں سے مانگتے ہیں اور وسیلے تلاش کرتے ہیں اور سہارے ڈھونڈتے ہیں۔

    جہاں تک بریلوی دیو بندی اہل حدیث وغیرھم کا تعلق ہے تو وہ بھی کم و بیش اسی طرح کے تصرفات کی ترویج کرتے ہیں اور دیو مالائی واقعات پر یقین رکھتے ہیں۔ حضرت موسی علیہ السلام صرف چالیس دن کے لیے امت سے دور ہوئے تو ان کی امت نے بچھڑے کی پوجا شروع کر دی۔ نہ جانے ہم لوگ اللہ کو کیوں بھول جاتے ہیں جو خالق و مالک و رب ہے۔

    نعیم بھائی کبھی بسم اللہ الرحمن الرحیم کے مطلب پر غور کیا ہے:

    اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو رحمن ہے (رحمان کی صفت طغیانی کی شدت اور سرعت کی حامل ہے یعنی اللہ تعالی کی رحمانیت انتہائی شدید اور تیز رفتار ہے) اور رحیم ہے (رحیم کی صفت ہمیشگی کی حامل ہے اور صفت ذات ہے یعنی کسی کی تفویض کردہ نہیں یعنی اللہ تعالی رحم کرنے میں اپنی ذات کی صفت رکھتا ہے اور یہ ازل سے ابد تک اسی صفت کا مظہر رہے گا)۔

    کیا ایسی ہستی ایسے خالق ایسے مالک اور ایسے رب تک پہنچنے کے لیے سوائے اس کے احکامات پر چلنے کے کوئی دوسری راہ ہو سکتی ہے۔

    میرے بارے میں آپ کا جو بھی خیال ہو، جو بھی نظریہ ہو اور آپ مجھے وہابی نجدی دیو بندی اہل حدیث وغیرہ میں سے جو بھی سمجھتے ہوں مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا البتہ جو بات درست ہے اور (ہر انسان فطرت اسلام پر پیدا کیا گیا ہے) مجھے یقین ہے کہ اندر کے کسی نہ کسی گوشے سے آپ کو بھی آواز آتی ہو گی کہ یہ درست ہے) وہ آپ تک پہنچانا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں اور اس معاملے میں مجھے کوئی خوف نہیں۔ اگر میری باتیں قرآن و سنت کے خلاف ہیں تو مجھے سزاوار سمجھیں لیکن اگر یہ باتیں کسی فرقے کے عقائد کے خلاف ہیں تو صرف اس وجہ ان کا رد کرنا قرین انصاف نہ ہو گا۔

    میں نے پچھلی پوسٹ میں عرض کیا تھا کہ "میرے نزدیک اس کائنات میں اللہ تعالی کے بعد سب سے عظیم، سب سے اعلی اور سب سے مقدس ہستی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے جب ایسی عظیم، اعلی اور مقدس ہستی کو یہ صفات حاصل نہیں تھیں (کم از کم میرے مطالعہ میں کوئی ایسی حدیث نہیں ہے جس میں ایسی کوئی بات منسوب ہو) تو پھر امت میں سے کسی کو یہ تصرفات کیسے اور کیونکر حاصل ہو سکتے ہیں"

    کیا میرا یہ سوال آپ کے نزدیک کسی طرح بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور کیا میرا یہ یقین غلط ہے۔کیا نجات کے لیے مجھے اللہ کے احکامات پر چلنے اور اس کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کے کوشش کے علاوہ بھی کوئی دوسرا راستہ درکار ہے؟
     
  28. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام علیکم نعیم بھائی اور سیف بھائی
    کیا آپ دونوں بھائی جانتے ہیں کہ ہمارے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟
    ہمارے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب کبھی بھی ہم کسی ایک موضوع کو لیکر اس میں علمی بحث کا آغاز کرتے ہیں تو ہم میں سے بہت سے لوگ خلط مبحث کا باعث بنتے ہیں اور یہی کچھ یہاں بھی ہورہا ہے بات شروع ہوئی تھی تصوف کی وضاحت سے لیکن درمیان میں ایک بھائی نے وحدۃ الوجود کو لاکر نفس مسئلہ سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں بات تصرفات اولیاء تک جاپہنچی اور اس ضمن میں نظریہ کرامت کی وضاحت پیش کی اور اب بات اولیاء کرام کے تصرفات سے نکل کر مدد ، استغاثہ، ندا غیر اللہ ، توسل توحید اور شرک کی ابحاث کی طرف جارہی ہے ۔ ۔
    اگر یہ طریقہ کار یوں ہی چلتا رہا تو پھر ہم کبھی بھی کسی مسئلہ کی تحقیق نہ کرسکیں گے اور یوں خلط مبحث ہوتا رہے گا اور بات جب بھی کسی ایک مسئلہ کی وضاحت یا اسکے حل کے قریب پہنچے گی تو ہم میں سے ہی کوئی اور بھائی کہ جس کے دل و دماغ اسی سے ملتے جلتے کسی اور مسئلہ کے بارے میں شبہات ہونگے وہ اپنے شبہات وہاں وارد کرکے ایک بار پھر سے بات کو الجھا دے گا اور یوں یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہوگا ۔ ۔ ۔
    دیکھیے کسی بھی مسئلہ کو سلجھانے کا احسن طریقہ یہی ہے کہ پہلے ایک مسئلہ کو لیا جائے اور اس پر بھر پور طریقہ سے علمی بحث کی جائے اور وہ علمی بحث ایسی ہو کہ جس کے نتیجے میں نفس مسئلہ سے توجہ زرا بھی ہٹنے نہ پائے اور جب ہم کسی ایک مسئلہ کے حل پر متفق ہوجائیں یا پھر کم از کم بحث کو اس کے منطقی انجام کے اس قدر قریب لے جائیں کہ جہاں پر پہنچ کر ایک عام قاری کو بھی فیصلہ کرنے میں کو دشواری نہ محسوس ہو ۔ اور جب ہم اس سطح تک بحث کو پہنچا لیں تو تب بڑے احسن طریقے کے ساتھ اس بحث سے الگ ہوجائیں اور پھر کسی اور مسئلہ کو اسی طرح زیر بحث لائیں ۔ ۔ ۔
    اب آخر میں محترم سیف بھائی سے گذارش کروں گا کہ بھائی آپ کے زہن میں بہت سے مسائل گڈ مد ہیں (مثلا توحید اورشرک کی حقیقت ، استغاثہ اور توسل ، تصرفات اولیاء ،مدد حقیقی اور ندا ء غیر اللہ وغیرہ وغیرہ )کہ جنکی وجہ سے آپ کو پریشانی ہوتی ہے اور جب کبھی بھی آپ کسی ایک مسئلہ پر گفتگو کرتے ہیں تو ساتھ میں دوسرے مسائل کے بارے میں جو ابہامات آپ کے زہن میں ہوتے ہیں انکو بھی ذکر کردیتے ہیں جسکی وجہ خلط مبحث واقع ہوتا ہے آپ سے یہ بھی عرض کردوں کہ اس سلسلہ میں منفرد نہیں ہیں بلکہ ہمارے ہاں اکثر یہی ہوتا ہے اور بڑے بڑے دانشور بھی اس مسئلہ کا اکثر شکار نظر آتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے آج تک کوئی بھی بحث اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچ سکی کہ یہاں کوئی بھی موضوع لے لو وہ پہلے خلط مبحث اور پھر اسکے نتیجہ میں مذاکرین کے باہمی خلفشار کا شکار ہوکر داخل در دفتر بے کار ہوجائے گا ۔
     
  29. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    :salam: آبی بھائی ۔
    توجہ دلانے کا شکریہ ۔
    میں نے تو ان حضرت سے جان چھڑائی تھی کہ میں ان پڑھ بندہ انکی تبلیغ کا سامنا نہیں کرسکتا۔ البتہ ایک عرض کی تھی وہ بھی انہی کے ایک اصول سے نکلی تھی کہ چونکہ اللہ تعالی کے قائم کردہ نظامِ وسیلہ و سبب کو مانتے ہی نہیں تو پھر اسی وسیلہ کو اختیار کرتے ہوئے ہر کسی سے سوالات کرکے سیدھے سادھے مسائل میں بھی ابہام کیوں ڈالتے ہیں۔

    آج کافی مہینوں کی خاموش تبلیغ کے بعد اوپر دی گئی پوسٹ میں انہوں نے واضح فرما دیا ہے۔ کہ

    کہ وہ کچھ سیکھنے نہیں آتے اور نہ ہی سوال کرنے سے انکا مقصد کچھ سیکھنا یا تصحیح کرنا یا کروانا ہوتا ہے۔ بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ساری کائنات میں صرف وہی درست ہیں اور صرف انہی کی سمجھ میں درست بات آ گئی ہے۔ اسکے آگے ہر آیت کا معنی وہی نکلنا چاہیے جیسا وہ ذہنی طور پر قبول کریں۔ ہر وہی حدیث قابل قبول ہونی چاہیے جو انکے نظریات سے مطابقت رکھتی ہو وگرنہ ہر حدیث بھی موضوع یا پھر اسکا مفہوم کچھ ایسا کہ جو انکے ذہنی دانش کدے کو موزوں لگتا ہو۔
    سیکھنے سکھانے کا تو ایک بہانہ ہے۔ وگرنہ تو حضرت ایک خاموش تبلیغ کے مشن پر ہیں۔ کہ جو کچھ انہیں انکے مطالعے نے کہہ دیا اسی سے الٹے سیدھے اشکالات و ابہامات پیدا کرکے امت مسلمہ کے ایک متفقہ اور صحیح عقیدے سے کہ جس میں اللہ تعالی و اسکے حبیب :saw: کی محبت، ادب و تعظیم اور انکے پیارے اہلبیت اطہار و صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کے ساتھ تعظیم و تکریم و محبت اور مقرب اولیائے کرام رحمۃ اللہ علیھم کے ساتھ عقیدت بھرے دل کسی بھی طرح ان سے دور ہوجائیں ۔ اور سعودی و نجدی میڈ اسلام پر سب راغب ہوجائیں۔ گستاخیاں شروع کردیں۔ صحابہ و اہلبیت پاک پر سرِ عام زبانِ طعن دراز کرکے اسکے دفاع میں روایات گھڑنا شروع کردیں۔ ہر کسی کو برابر اور اپنے جیسا سمجھ کر ادب و تکریم کی بات کو صرف ایک بار اقرار تک محدود کردیں اور عملاً ساری زندگی بےادبی و گستاخی کرتے جائیں۔ وضاحتیں بھی دیتے چلے جائیں ۔ دشمنِ آلِ رسول، یزید ملعون کو جنتی سمجھنا شروع کردیں اور امام حسین اور اہلبیت پاک رضوان اللہ علیھم کے قدموں سے دور ہوتے چلے جائیں۔
    یہ ایک خاموش مشن ہے جس پر ماشاءاللہ "اشکالات کے ازالے کے نام پر " کارفرما ہیں۔ کم از کم میں تو یہی سمجھ سکا ہوں۔ اگر میں غلط ہوں تو خدا تعالی مجھے معاف فرمائے۔ آمین ثم آمین
     
  30. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    نعیم بھائی

    آپ کا یہ گمان کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ساری کائنات میں صرف میں ہی درست ہوں اور صرف میری سمجھ میں درست بات آ گئی ہے اور ہر آیت کا معنی وہی نکلنا چاہیے جیسا میں ذہنی طور پر قبول کروں، ہر وہی حدیث قابل قبول ہونی چاہیے جو میرے نظریات سے مطابقت رکھتی ہے وگرنہ ہر حدیث بھی موضوع یا پھر اسکا مفہوم کچھ ایسا کہ جو میرے ذہنی دانش کدے کو موزوں لگتا ہو" انتہائی غلط اور یکطرفہ ہے۔ میں آپ کے اس خیال کے خلاف شدید احتجاج کرتا ہوں-

    آبی بھائی نے جو یہ فرمایا ہے کہ میرے ذہن میں بہت سے مسائل گڈ مد ہیں (مثلا توحید اورشرک کی حقیقت ، استغاثہ اور توسل ، تصرفات اولیاء، مدد حقیقی اور ندا ء غیر اللہ وغیرہ وغیرہ ) اور ان ہی کی وجہ سے مجھے پریشانی ہوتی ہے تو اس سلسلے میں میں عرض کروں گا کہ آپ کا خیال بالکل درست ہے اور یہ سارے مسائل مباحث کی روشنی میں اتنے گڈ مڈ ہو چکے ہیں کہ میرے لیے فیصلہ کرنا ممکن نہیں رہا۔

    میں جب قرآن و سنت سے رجوع کرتا ہوں اور اپنی بساط و فہم کے مطابق کچھ اخذ کرتا ہوں تو پھر لفظی تاویلات، علم الکلام کی جادو گریاں اور دلائل و منطق کے اثرات کم ہو جاتے ہیں۔

    میرا ایمان ہے کہ اگر کوئی بات قرآن میں پوری صراحت سے واضح کر دی گئی ہے تو اس کے آگے کوئی بھی دلیل حجت نہیں ہو سکتی۔ اگر میرا یہ یقین غلط ہے تو نعیم بھائی درست فرماتے ہیں اور میں یقینا" قصور وار ہوں لیکن اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو پھر نعیم صاحب کو اعتراض کس بات پر ہے۔


    آبی بھائی آپ کی یہ بات درست ہو سکتی ہے کہ جب کبھی میں کسی ایک مسئلہ پر گفتگو کرتا ہوں تو شاید ساتھ میں دوسرے مسائل کے بارے میں ابہامات بھی ذکر ہو جاتے ہوں اور بحث کا رخ غلط ہو جاتا ہو لیکن جیسا کہ آپ نے خود فرمایا ہے میں اس سلسلے میں منفرد نہیں ہوں بلکہ بڑے بڑے دانشور بھی اس مسئلہ کا اکثر شکار نظر آتے ہیں تو نعیم بھائی کی نظر میں میں اتنا بڑا مجرم کیوں بن چکا ہوں کہ وہ ذہن میں میرے خلاف ایک ہی تصور قائم کر کے میری ہر بات کو اسی کی روشنی میں دیکھتے ہیں اور اسی لب و لہجے میں جواب دیتے ہیں۔ مجھے دانشور ہونے کا دعوی تو کسی طور نہیں اور نہ ہی میں اس مقام تک پہنچنے کا اپنے آپ کو اہل سمجھتا ہوں لیکن کیا میرا یہ قصور اتنا بڑا ہے کہ میں قرآن و حدیث کی بات کرتا ہوں اور روایات کو رد کرتا ہوں کہ وہ واضح تعلیمات اسلام سے ٹکراتی ہیں (چلو میرے نزدیک ہی سہی) تو اس میں ایسے الزامات کی گنجائش کہاں سے نکل آتی ہے جو نعیم بھائی نے لگائے ہیں۔ نعیم بھائی کہ یہی تعصب اور انتہائی غلط گمان ہی تو ہے جو انہیں ضد پر اکسائے ہوئے ہے۔ انہوں نے تو دل میں ٹھان رکھی ہے اور طے کر رکھا ہے کہ میری ہر بات کی مخالفت کرنی ہے چاہے وہ کسی بھی موضوع پر ہو، کسی کے لیے بھی ہو اور پورے فورم میں کہیں پر بھی ہو۔

    آبی بھائی اب آپ خود بتائیں کہ اگر ہمارے ہاں آج تک کوئی بھی بحث اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچ سکی تو اس کا قصور وار کون ہوا؟ یہاں کوئی بھی موضوع ہو، مخاطب کوئی بھی ہو نعیم بھائی فورا" لٹھ لے کر باطل کا رد کرنے (بزعم خود) پہنچ جاتے ہیں اور نتیجہ وہی نکلتا ہے جو آپ نے فرمایا کہ ہر موضوع " پہلے خلط مبحث اور پھر اسکے نتیجہ میں مذاکرین کے باہمی خلفشار کا شکار ہوکر داخل در دفتر بے کار ہوجاتا ہے"
     

اس صفحے کو مشتہر کریں