1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تصوف کیا ہے؟ دلچسپ مگر تلخ حقائق

Discussion in 'تعلیماتِ قرآن و حدیث' started by برادر, May 17, 2008.

  1. آبی ٹوکول
    Offline

    آبی ٹوکول ممبر



    [center:1kms06bq]نعیم بھائی آپ نے بالکل درست فرمایا۔
    ایمان کے لیے تزکیہ نفس لازمی ہے لیکن تصوف جیسے فلسہ کا ایمان سے کیا تعلق ہے یہ مجھ پر واضح نہیں ہو سکا۔[/center:1kms06bq]
    اسلام علیکم سیف بھائی معذرت کے ساتھ جب آپ حقیقی تصوف کے اوپر ہمارے نقطعہ نظر پر اپنا مؤقف اتفاق کی صورت میں بیان بھی کرچکے ہیں تو پھر آپکی یہ بات کم از میری سمجھ سے باہر ہے ۔ کہ ۔ ۔ ۔ لیکن تصوف جیسے فلسہ کا ایمان سے کیا تعلق ہے ؟
    بے شک تصوف کا حقیقت ایمان سے کوئی تعلق نہیں مگر تصوف کا ایمان کی اکمال یعنی کاملیت سے بڑا گہرا تعلق ہے ۔
     
  2. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    یہ آخری پیغام نظر کیوں نہیں آرہا ؟ :soch:
     
  3. نیا آدمی
    Offline

    نیا آدمی معاون

    اہلِ تصوف کا ایک عظیم پیشوا تلسمانی لکھتا ہے :
    قرآن تو پورا کا پورا شرک ہے ۔ توحید تو ہمارے کلام میں ہے ۔
    بحوالہ : الرسائل و المسائل ، ابن تیمیہ ، ج : 1 ، ص : 145

    فصوص الحکم ، ابن عربی کی تصنیف کردہ کتاب ہے جو ابن عربی کے باطل عقائد اور کفر و شرک کا مجموعہ ہے۔
    ابن عربی رقمطراز ہے :
    رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسے فصوص الحکم کتاب دی اور کہا : اسے لے کر لوگوں کے پاس نکلو ، وہ مستفید ہوں گے ۔
    ابن عربی کہتا ہے :
    ویسا ہی ہوا جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا تھا اور میرے خواب کی تعبیر مکمل ہو گئی ۔ اس کے بعد ابن عربی یوں خطاب کرتا ہے :
    فمن اللہ ، فاسمعوا :: والی اللہ فارجعوا
    بحوالہ : فصوص الحکم ، ص : 40 ، شرح بالی ، مطبوعہ 1309ھ ۔
    ---------------------
    کیا آپ اسی تصوف کو ایمان کی کاملیت سمجھتے ہیں۔
     
  4. نیا آدمی
    Offline

    نیا آدمی معاون

    اہلِ تصوف کا ایک اور پیشوا ابن عجیبہ فاطمی لکھتا ہے :
    علمِ تصوف کے موسس و بانی خود نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں ، جن کو اللہ تعالیٰ نے تصوف کا علم بذریعہ الہام عطا کیا۔ جبریل علیہ السلام پہلے علمِ شریعت لے کر نازل ہوئے ، جب یہ علم مکمل ہو گیا تو دوسری بار علمِ حقیقت لے کر نازل ہوئے ۔ ان دونوں علوم سے الگ الگ قسم کے لوگ بہرہ ور ہوئے ۔ جس نے سب سے پہلے اس علم کا اظہار کیا وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں ۔ آپ سے یہ علم حضرت حسن بصری نے حاصل کیا۔
    بحوالہ : ایقاظ الھمم فی شرح الحکم ، ابن عجیبہ ، جلد 1 ، ص 5 ، مطبوعہ : 1913ھ ۔

    نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تو علم چھپانے والوں کے متعلق ارشاد فرمایا ہے :
    من کتم علماََ یعلمہ ایاہ الجم یوم القیامہ بلجام من نار
    جو علم کو چھپائے گا تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔
    (ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ)
     
  5. نیا آدمی
    Offline

    نیا آدمی معاون

    تصوف کا ایک اور عظیم پیشوا ابن فارض ( عمر بن ابی الحسین علی بن المرشد بن علی شرف الدین ، متوفی : 632ھ ) ہے ۔ ابن فارض کے نزدیک خالق اور مخلوق، رب اور بندہ ، اللہ اور ایک معدوم شئے میں کوئی فرق نہیں ۔
    اللہ کی ذات تمام موجود اور غیر موجود اشیاء میں موجود ہے ، لہذا ایک معدوم شئے بھی ابن فارض کا رب ہے ۔
    یعنی ابن فارض کا رب ایک جانور بھی ہے اور ایک بےجان پتھر بھی ، انسان بھی ہے اور جنات بھی ، ایک بت بھی ہے اور دل و دماغ میں پیدا ہونے والا وہم و گمان بھی ۔
    فطری اور منطقی طور پر اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک گناہگار جو گناہ کرتا ہے دراصل وہ گناہ نہیں کرتا بلکہ اس کی شکل میں خود اللہ گناہ کرتا ہے ، اس لیے کہ وہ انسان ہے اور انسان بھی عین اللہ ہے ۔
    اسی طرح ایک بھیڑیا کسی جانور کا جب گوشت کھاتا ہے تو فی الواقع اس کی صورت میں اللہ اس جانور کا گوشت کھا رہا ہے ، کیونکہ مذہبِ تصوف میں حیوان بھی اللہ ہے ۔
    ابن فارض کے یہ عقائد اس کی مشہور تصنیف " تائیہ " میں ہیں ۔

    ابن فارض خود کو ذاتِ الٰہی کہتے ہوئے نہیں شرماتا ۔
    آگے بڑھ کر اپنے عظیم صفات و کمالات میں یہ بھی اضافہ کرتا ہے کہ جتنے بھی پیغمبر وجود میں آئے وہ سب ابن فارض کی ذات تھی ۔
    اسی طرح نوعِ انسانی کے بابائے اول حضرت آدم (علیہ السلام) اور جن جن فرشتوں نے ان (علیہ السلام) کو سجدہ کیا تھا وہ سب کے سب ابن فارض ہی کی ذات تھی ۔
    وفی شھدت الساجدین لمظھری :: فحققت انی کنت آدم سجدتی
    (ترجمہ : میں نے سجدہ کرنے والوں کو دیکھا کہ میرا سجدہ کر رہے ہیں ، تو یہ ثابت ہو گیا کہ میں ہی آدم تھا جس کو سجدہ کیا گیا )

    اس شعر کی تشریح ، صوفیت کا ایک اور پیشوا قاشانی یوں کرتا ہے :
    یعنی میں نے دیکھا کہ ملائکہ میرا سجدہ کر رہے ہیں ، لہذا مجھے معلوم ہو گیا کہ آدم کے سامنے فرشتوں نے جو سجدے کیے تھے ، وہ سجدے دراصل مجھے ہی کیے گئے تھے ۔ ملائکہ میرے سامنے سجدے کرتے ہیں اور وہ میری صفات میں سے ایک صفت رکھتے ہیں لہذا ہر سجدہ کرنے والا میری ہی صفت سے ہم آہنگ ہے جو میری ہی ذات کے لیے سجدہ ریز ہوتا ہے ۔
    بحوالہ : کشف الوجوہ الغر ، شرح الدیوان کا حاشیہ ، جلد 2 ، ص 89 ، مطبوعہ 1310ھ ۔

    مذہبِ تصوف کا ایک نامور پیشوا تلسمانی لکھتا ہے :
    ہمارے دین میں ماں اور بہن سے رشتہ جائز ہے اور جو لوگ اس کو حرام قرار دیتے ہیں وہ محجوب اور بےعقل ہیں ۔
    بحوالہ : مجموعہ الرسائل و المسائل ، ابن تیمیہ ۔ ج 1 ، ص 177 ۔
     
  6. نیا آدمی
    Offline

    نیا آدمی معاون

    ابن عربی ( محمد بن علی بن محمد الخاتمی الطائی الاندلسی ، متوفی : 638ھ ) کائنات کی ہر موجود اور غیر موجود شئے کو اللہ تعالیٰ کی ذات قرار دیتا ہے۔
    سبحان من اظھر الاشیاء وھو عینھا بحوالہ : الفتوحات المکیہ ، ابن عربی ۔ ج 2 ، ص 204 ۔
    اور وہ (ابن عربی) اللہ تعالیٰ کی تعریف یوں کرتا ہے :
    پاک ہے وہ ذات جس نے تمام اشیاء کوظاہر کیا اور وہی ان اشیاء کا ظاہر و باطن ہے ۔
    بحوالہ : فصوص الحکم ، شرح قاشانی ، ص 382 ۔

    تصوف کا ایک اور عظیم پیشوا جیلی لکھتا ہے :
    حق تعالیٰ شانہ کی ذات جس چیز میں بھی ظاہر ہو جائے اس کی عبادت و پرستش واجب ہے ۔اور اس کی ذات کائنات کے ہر ذرہ میں ظاہر ہے ۔
    بحوالہ : الانسان الکامل ، جیلی ۔ ج 2 ، ص 83 ۔

    مذہبِ تصوف کا شیخ اکبر ، ابن عربی ۔۔۔ کتاب فصوص الحکم میں لکھتا ہے۔

    جب کوئی مرد عورت سے محبت کرتا ہے ، جسمانی ملاپ کا مطالبہ کرتا ہے ۔ یعنی محبت کی آخری حد جو محبت کا آخری ہدف ہوتا ہے ۔ مرد و عورت کے جسمانی ملاپ سے بڑھ کر کوئی اور عنصری ملاپ کی صورت نہیں ہوتی ، اس لیے شہوت عورت کے پورے بدن میں پھیل جاتی ہے ۔ اسی لیے جنسی ملاپ کے بعد غسل کا حکم دیا گیا ہے ، چونکہ غسل سے طہارت بھی پورے جسم کو عام ہوجاتی ہے جس طرح حصولِ شہوت کے وقت مرد اس کے اندر مکمل طور پر فنا ہو گیا تھا ۔ لہذا حق (اللہ تعالیٰ) اپنے بندہ پر بڑا غیور ہے کہ وہ اسے چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ لذت حاصل کرے ۔ اسی لیے غسل کا حکم دے کر اسے پاک کر دیا ۔ تاکہ اس کو یہ پتا چلے کہ اس نے اس عورت کے ساتھ جنسی ملاپ جو کیا ہے ، دراصل اس عورت کی شکل میں اللہ ہی تھا ۔

    جب کوئی شخص مرد عورت کے اندر حق کا مشاہدہ کرتا ہے عورت میں ایک جذباتی اور انفعالی صورت میں رب کا مشاہدہ کرتا ہے اور جب اپنے اندر رب کا مشاہدہ کرتا ہے تو فاعل کی شکل میں کرتا ہے ۔ اور انفعالی صورت میں مشاہدہ نہیں کرتا ۔ اسی لیے عورت جب جنسی ملاپ کرتی ہے تو اللہ بدرجہ اتم اس کے اندر ظاہر ہوتا ہے ، کیونکہ اس کی حالت فاعل اور منفعل دونوں کی ہوتی ہے ۔

    لہذا مرد اس وقت اپنے رب کو اس عورت کی شکل میں زیادہ اچھی طرح جلوہ گر پاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے عورتوں سے محبت کی ۔ اسی لیے عورتوں کے اندر اللہ کا مشاہدہ زیادہ اچھی طرح پاتا ہے ۔ اور حق کا مشاہدہ تو مادہ کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ حق (اللہ تعالیٰ) کا مشاہدہ عورتوں کے اندر زیادہ سے زیادہ اور مکمل طور پر انجام پاتا ہے ، خاص طور پر اس وقت جب وہ جنسی ملاپ کر رہی ہو۔
    بحوالہ : فصوص الحکم ، ابن عربی ۔ ج 1 ، ص 317 ۔


    قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ :

    دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے !
    (سورہ اٰل عمرٰن 3 ، آیت : 19)

    اللہ کے بنائے ہوئے اور نازل کیے ہوئے دین کا نام بہرحال "تصوف" نہیں ہے !!

    نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) اور خیرالقرون کے صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم اجمعین) کی ساری زندگی کتاب و سنت سے ہی عبارت تھی۔ ان تمام سے ایسا کوئی قول ثابت نہیں کہ انہوں نے خود کو کبھی تصوف نامی کسی مذہب سے جوڑا ہو۔
     
  7. نیا آدمی
    Offline

    نیا آدمی معاون

    عقیدۂ حلول

    عقیدۂ حلول کے مطابق :
    انسان اپنے آئینۂ دل کو اتنا لطیف اور صاف بنا لیتا ہے کہ خدا کی ذات خود اس کے جسم میں داخل ہو جاتی ہے یا حلول کر جاتی ہے۔

    خدا کا کسی انسان کے جسم میں حلول کر جانے کا عقیدہ یہود و نصاریٰ میں بھی پایا جاتا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    وَقَالَتِ الْيَھودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللّہ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللّہ ذَلِكَ قَوْلُھم بِھفْوَاھمْ يُضَاھؤُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن قَبْلُ
    اردو ترجمہ : طاہر القادری
    اور یہود نے کہا: عزیر (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں اور نصارٰی نے کہا: مسیح (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں۔ یہ ان کا (لغو) قول ہے جو اپنے مونہہ سے نکالتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کے قول سے مشابہت (اختیار) کرتے ہیں جو (ان سے) پہلے کفر کر چکے ہیں
    ( سورہ التوبہ : 9 ، آیت : 31 )

    ایک دوسرے مقام پر قرآن ، اس عقیدہ کی مزید وضاحت یوں کرتا ہے:
    لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُواْ ھنَّ اللّہ ھوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ
    اردو ترجمہ : طاہر القادری
    درحقیقت ایسے لوگ کافر ہوگئے ہیں جنہوں نے کہا کہ اﷲ ہی مسیح ابنِ مریم (علیہما السلام) ہے
    ( سورہ المآئدہ : 5 ، آیت : 72 )

    اسلام میں "عقیدۂ حلول" کی داغ بیل عبداللہ بن سبا یہودی نے ڈالی تھی۔ قرون اولیٰ میں یہودیوں کو جو ذلت نصیب ہوئی اس کا انتقام لینے کے لیے عبداللہ بن سبا منافقانہ طور پر مسلمان ہوا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ عملی میدان میں مسلمانوں سے انتقام لینے کی سکت اب یہودیوں میں باقی نہیں رہ گئی ہے ، لہذا مسلمانوں کے عقائد میں تفرقہ کے بیج بو کر اس نے تشتت و انتشار پیدا کر دیا۔

    عبداللہ بن سبا کا یہ عقیدہ حلول ، اس کے پیروکاروں نصیریہ ، کیسانیہ ، قرامطیہ اور باطنیہ سے ہوتا ہوا صوفیا کے اندر داخل ہو گیا !
     
  8. نیا آدمی
    Offline

    نیا آدمی معاون

    حسین بن منصور حلاج

    حسین بن منصور حلاج (م:309ھ) اس عقیدہ کے علمبردارِ اعلیٰ تسلیم کئے جاتے ہیں منصور حلاج کا دعویٰ تھا کہ : خدا اس کے اپنے اندر حلول کر گیا ہے !!

    منصور حلاج اپنے اسی عقیدے کے سبب " انا الحق " کا نعرہ لگاتا تھا۔
    اس کے اپنے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیں :

    عَقَدَ الخلائقُ في العقائدا
    وانا اعتقدت جميع ما اعتقدو
    الٰہ کے بارے میں لوگوں کے بہت سے عقیدے ہیں اور میں ان سب عقیدوں پر عقیدہ رکھتا ہوں۔

    كفرت بدين اللہ والكفر واجب
    لديّ وعند المسلمين قبيح
    میں اللہ کے دین سے کفر کرتا ہوں اور یہ کفر میرے لیے واجب ہے جبکہ تمام مسلمانوں کے نزدیک یہ برا ہے۔
    ديوان الحلاج:ص(34)

    حسین بن منصور سمجھانے کے باوجود بھی جب اپنے اس عقیدہ پر مصر رہا تو بالآخر اسے خلیفہ بغداد "المقتدر باللہ" نے 24۔ذی قعدہ 309ھ (914 سن عیسوی) کو بغداد میں قتل کرا دیا اور اس "الحق " کی لاش کو جلا کر دریا میں پھینک دیا گیا۔

    حلاج کے متعلق ابن عربی نے اپنی کتاب "فتوحات مکیہ" میں ایک اور واقعہ نقل کیا ہے کہ :
    مشہور بزرگ شیخ ابوعمرو بن عثمان مکی ، حلاج کے سامنے سے گزرے اور پوچھا کہ کیا لکھ رہے ہو؟
    حلاج نے جواب دیا : قرآن کا جواب لکھ رہا ہوں۔
    یہ سن کر ابوعمرو بن عثمان مکی نے بد دعا کی اور انہی کی بد دعا کا نتیجہ تھا کہ حلاج قتل کر دیا گیا۔

    اتنے شدید جرم کے باوجود صوفیاء کی اکثریت نے حلاج کے حق پر ہونے اور حلاج کو سزا دینے والوں کے باطل پر ہونے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ ذیل میں ان صوفیاء کے چند ارشادات ملاحظہ فرمائیں۔

    حضرت علی ہجویری
    انہیں میں سے مستغرق معنیٰ ابوالغیث حضرت حسین بن منصور حلاج رضی اللہ عنہ ہیں۔ آپ سرمستان بادۂ وحدت اور مشتاقِ جمالِ احدیث گزرے ہیں اور نہایت قوی الحال مشائخ تھے۔
    بحوالہ:کشف المحجوب ، ص:300

    مولانا روم
    گفت فرعونے اناالحق گشت پست
    گفت منصورے اناالحق گشت مست
    لعنتہ اللہ ایں انارا درقفا
    رحمتہ اللہ ایں انارا درقفا
    اردو ترجمہ : عبدالرحمٰن کیلانی
    فرعون نے "انا الحق" کہا تو ذلیل ہو گیا اور منصور نے "انا الحق" کہا (عشق و محبت میں) تو مست قرار پایا۔ فرعون کی خودی کے لیے تو بعد میں اللہ کی لعنت ہی رہ گئی اور منصور کی خودی کے لیے بعد میں اللہ کی رحمت رہی ہے۔
    بحوالہ :مثنوی روم

    خواجہ نظام الدین اولیاء ، دہلی
    خواجہ نظام الدین اولیاء (م:725ھ) حلاج کی بزرگی کے اس قدر قائل تھے کہ آپ نے فرمایا :
    ذکر مشائخ کا ہو رہا تھا۔ بندہ نے عرض کیا کہ سیدی احمد (سید احمد رفاعی) کیسے تھے؟ آپ نے فرمایا : وہ بزرگ شخص تھے۔ عرب کا قاعدہ ہے کہ جب کسی کو بزرگی سے یاد کرتے ہیں تو اسے سیدی کہتے ہیں۔ وہ شیخ حسین بن منصور حلاج کے زمانے میں تھے۔ جب کہ ان کو جلایا گیا اور ان کی خاک دجلہ میں ڈالی گئی۔ سیدی احمد نے ذرا سی خاک اس میں سے تبرکاً اٹھا کر کھالی تھی۔ یہ ساری برکتیں اسی سبب سے انہیں حاصل تھیں۔
    بحوالہ :فوائد الفواد ، ملفوضات نظام الدین اولیاء صاحب ، مرتبہ: خواجہ حسن دہلوی ، ص:471

    احمد رضا خان فاضل بریلوی
    فاضل بریلوی صاحب سے سوال کیا گیا :
    حضرت منصور و تبریز و سرمد نے ایسے الفاظ کہے جن سے خدائی ثابت ہے ، لیکن وہ ولی اللہ گنے جاتے ہیں اور فرعون ، شداد ، ہامان و نمرود نے دعویٰ کیا تھا تو مخلد و النار ہوئے ، اس کی کیا وجہ ہے؟
    جواب :
    " ان کافروں نے خود کہا اور ملعون ہوئے اور انہوں نے خود نہ کہا۔ اس نے کہا جسے کہنا شایاں ہے اور آواز بھی انہی سے مسموع ہوئی۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے درخت سے سنا ' انی انا اللہ' میں ہوں رب اللہ سارے جہاں کا ، کیا درخت نے کہا تھا؟ حاشا بلکہ اللہ نے۔ یونہی یہ حضرات اس وقت شجرِ موسیٰ ہوتے ہیں۔"
    بحوالہ :احکام شریعت ، ص:93

    حلاج کے متعلق اب دوسرا رُخ ملاحظہ فرمائیں جس سے حلاج کے کفر کی وضاحت ہوتی ہے۔

    امام ابن تیمیہ
    کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حلاج فنا میں ڈوب گیا اور باطنی حقیقت سے معذور تھا، مگر ظاہری طور پر اس کا قتل واجب تھا اور کچھ دوسرے اسے شہید ، فنا فی اللہ ، موحد اور محقق کہتے ہیں۔ یہ لوگ شریعت کی پرواہ نہیں کرتے۔
    آگے چل کر امام ابن تیمیہ واضح الفاظ میں لکھتے ہیں:
    حلاج اپنے کفر کی وجہ سے قتل کیا گیا ، وہ قرآن کا معارضہ کرتا تھا ، اس کا یہ بھی خیال تھا کہ اگر کسی کا حج فوت ہو جائے تو اپنے ہاں کعبہ بنا کر اس کا طواف کر سکتا ہے اور حج کے سوا تمام رسوم ادا کر سکتا ہے اور حج پر جتنی رقم خرچ ہو سکتی ہو اس کو صدقہ دے سکتا ہے۔
    امام محترم مزید لکھتے ہیں :
    جنید (بغدادی) ، عمرو بن عثمان مکی اور ابو یعقوب (رحمہم اللہ) جیسے جلیل القدر مشائخ نے حلاج کی مذمت کی ہے۔ اگر کوئی شخص حلاج کے متعلق حسنِ ظن رکھتا ہے تو اس کی وجہ محض یہ ہے کہ وہ اصل حالات سے آگاہ نہیں ہے۔
    بحوالہ : مجموعہ الرسائل الکبریٰ ، ج:2 ، ص:97 تا 99
     
  9. نیا آدمی
    Offline

    نیا آدمی معاون

    اب کیا کہتے ہیں مقلدین ڈاکٹر طاہر القادری صاحب

    جو اللہ اور اس کے رسول نے کہا وہ درست ہے یا جو طاہر القادری صاحب فرماتے ہیں وہ درست ہے۔

    اللہ کے لیے قرآن کو سمجھیں اور قرآن کو بیچنے والوں کی اندھی تقلید نہ کریں اسی میں فلاح ہے۔
     
  10. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    نیا آدمی صاحب ۔ میرا خیال ہے آپ نے محض "طاہرالقادری" کے مقلدین پر غیض و غضب ظاہر کرنے کے لیے اپنے شیخ ابنِ تیمیہ (بانی فرقہ اہلحدیث و وہابیت) کی کتابوں کے حوالے یہاں نقل کرڈالے ہیں۔ جو کہ محض شخصیات کے اقوال کے ٹکڑوں پر مشتمل ہیں۔۔۔۔ ایسے ہی لفظی ٹکڑوں سے تو کسی بھی کتاب کے حشر نشر کیا جاسکتا ہے۔

    لیکن اگر آپ ایک بار آبی ٹو کول صاحب کا مقالہ پڑھ لیتے تو آپ کو معلوم ہوجاتا کہ آبی ٹو کول نے کسی ابن عربی، کسی تلمسی یا کسی ابن تیمیہ کا حوالہ نہیں دیا ۔
    بلکہ بات قرآنی آیات کے احکامات تزکیہ نفس سے شروع کی اور حدیث رسول :saw: کی روشنی میں باطن کی صفائی کے عمل کو بیان کیا ۔ اور یہی روحِ تصوف ہے۔
    اگر آپ کے ذہنِ وہابیہ کو یہ بات قابل قبول نہیں تو یقیناً آپ کے آباء و اجداد نے اس پر سینکڑوں کتابیں لکھی ہوں گی اور آپ انکے درجنوں حوالہ جات یہاں نقل فرماسکتے ہیں۔
    لیکن اتنا یاد رکھیے کہ تزکیہ نفس و تصفیہ باطن کے عمل کا انکار براہ راست قرآن و حدیث کا انکار بنتا ہے۔
    والسلام
     
  11. عقرب
    Offline

    عقرب ممبر

    نیا آدمی صاحب آپ نے جس طرح شخصیات کو حوالہ بنا کر تزکیہ نفس، احسان اور تصوف کے بنیادی اسلامی ارکان کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ سب سے پہلے تو خود کو امام ابنِ تیمیہ کی باتوں کو یہاں دہرا کر خود کو علامہ ابنِ تیمیہ کا مقلد ثابت کرنے پر مبارک باد قبول فرمائیں۔ دنیا جانتی ہے ابنِ تیمیہ صاحب کس مکتبہ فکر اور کس نکتہء نظر کے حامی عالم دین ہو گذرے ہیں۔
    محترم ۔ جس انداز میں آپ نے چند ایک صوفیا کی کتب کے اقتباسات لے کر قرآنی تعلیمات کی اصل یعنی صفائی قلب و باطن کے عمل کو "غیر اسلامی" ثابت کرنے کی کوشش کی ہے یہ منطق ہی غلط ہے۔
    اس طرح تو اسلام مخالف لوگ دنیا بھر کے مسلمانوں کے نام لے لے خصوصاً آج کے دور میں اسامہ بن لادن سمیت دیگر دہلشت گرد لوگوں کا نام لے کر جب بھی "دین اسلام" کو بدنام کرتے ہیں ۔ تو امامِ کعبہ سے لے کر ڈاکٹر ذاکر نائیک سمیت بہت سے علما جواب دیتے ہیں کہ
    "اسلام کو اسلامی راہنماؤں یا اسلامی شخصیات سے مت سمجئے بلکہ اسلام کو قرآن و حدیث سے سمجھیے۔"
    شخصیات کے درمیان اختلافات تو ہمیشہ سے رہے ہیں اس پر علمی انداز میں گرفت کرنا علما کا حق ہوتا ہے ۔ اور وہ یہ حق استعمال کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اس سے اسلام کی بنیادی تعلیمات کا انکار کردینا سوائے گمراہی کے اور کسی سمت نہیں لے جاتا۔
    شکریہ
     
  12. نیا آدمی
    Offline

    نیا آدمی معاون

    نعیم صاحب اور عقرب صاحب

    آپ کے سامنے سارے حوالے اور سارے ارشادات موجود ہیں۔

    کسی کو نجدی کہیں یا وہابی کہیں یا کچھ اور یہ سب تاریخ کے صفحات پر موجود ہے اور آپ یا آپ کے بزرگ اس سے انکار نہیں کر سکتے۔ تلملاہٹ اور جھنجھلاہٹ تو آپ کے الفاظ سے ظاہر ہے لیکن جواب دینے کی توفیق نہیں ہوئی۔

    اگر آپ جواب نہیں دے سکتے تو ڈاکٹر طاہر القادری صاحب یا بریلوی مسلک کے کسی اور عالم دین سے رجوع کر لیں۔ اس میں اتنا سیخ پا ہونے کی کیا بات ہے۔ سیدھی سادی علمی بات کا علمی جواب دیں۔

    یقینا" تزکیہ نفس و تصفیہ باطن کے عمل کا انکار براہ راست قرآن و حدیث کا انکار بنتا ہے لیکن یہ انکار آپ کے بزرگان تصوف کر رہے ہیں میں نے نہیں کیا۔ بزرگان تصوف کے نزدیک تصوف کا تزکیہ نفس سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ انسان کو خدائی درجہ تک پہنچانے کا نام ہے۔

    آپ جن بزرگوں کو تزکیہ نفس کے اعلی مقام پرسمجھتے ہیں کہیں تو ان کے ارشادات بھی آپ کی خدمت میں پیش کروں۔ شاید آپ کی آنکھیں کھل جائیں۔

    عقرب صاحب تزکیہ نفس اور احسان تو بنیادی اسلامی ارکان ہیں لیکن تصوف کب سے بنیادی اسلام رکن ہو گیا۔ یہ آپ کے بریلوی مسلک میں کوئی نیا رکن شامل ہوا ہے کیا؟

    امام ابنِ تیمیہ کی باتوں کا حوالہ دینے سے اگر تقلید ثابت ہوتی ہے تو پھر آپ ڈاکٹر طاہر القادری کے مقلد ہوئے جو خواب میں اللہ کے رسول سے ہدایت لے کر سیاسی جماعت بناتے ہیں اور پھر سیاست چھوڑ دیتے ہیں۔ کبھی بے نظیر کے ہاتھ میں ہاتھ دیتے ہیں تو کبھی مشرف کے۔ بڑی بڑی کاروں میں مسلح حفاظتی دستوں کے ساتھ گھوم کر جھوٹی دنیاوی شان دکھاتے ہیں اور لفاظی میں شیعہ ذاکرین کے بھی کان کترتے ہیں۔ تو پھر آپ بھی اتنی عظیم دنیا دار ھستی کا مقلد ہونے پر مبارک باد قبول فرمائیں۔

    دنیا تو جانتی ہی ہے ابنِ تیمیہ صاحب کس مکتبہ فکر اور کس نکتہء نظر کے حامی عالم دین ہو گذرے ہیں کس طرح انہوں نے شیعیت کا پردہ چاک کیا اور کس طرح نام نہاد تصوف کا پردہ چاک کیا اور کس طرح دیگر خرافات کا پردہ چاک کیا لیکن بریلوی مسلک کے لوگ ان کو اس لیے نہیں مانتے کہ ان کے مسلک کی بنیاد ہی ختم ہو جاتی ہے اگر ابن تیمیہ کی باتیں مان لیں۔ آپ تو کٹر اور غالی رافضیوں کی تاریخ ہی پڑھیں اور اسی کی خرافات پر عمل کریں۔

    میں نے چند ایک صوفیا کی کتب کے اقتباسات لے کر تصوف اور اس کی بنیاد کو غلط ثابت کیا ہے۔ اپنی کھسیاہٹ اور ہٹ دھرمی کے تحت تصوف کو قرآنی تعلیمات کی اصل (صفائی قلب و باطن کے عمل) سے ملانے کی بھونڈی اور مکروہ حرکت اور جسارت آپ کر رہے ہیں اور یہ آپ ہی کی منطق ہے میری نہیں۔

    "اسلام کو اسلامی راہنماؤں یا اسلامی شخصیات سے مت سمجھیے بلکہ اسلام کو قرآن و حدیث سے سمجھیے۔"

    میں بھی یہی کہتا ہوں اور ایسا ہی ہونا چاہیے۔ لیکن آپ جس طرح تصوف کو اسلام میں گھسیڑنا چاہتے ہیں اس طرح بات نہیں بنے گی۔ حضرت تصوف کا اسلام سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں اور اچھی طرح سمجھ لیں کہ تزکیہ نفس جیسی پاک متبرک اور عظیم اصطلاح کو تصوف کے غیر اسلامی اور غیر انسانی نظریات سے کوئی تعلق نہیں اور آپ بھی بریلوی علما کی تاویلات کے دھوکے میں آ کر اسلام اور تصوف کو باہم جوڑنے کی کوشش نہ کریں۔

    آپ نے بالکل درست فرمایا کہ شخصیات کے درمیان اختلافات تو ہمیشہ سے رہے ہیں اس پر علمی گرفت کرنا علما کا کام ہے لیکن یہ آپ کا الزام اور سراسر بہتان ہے کہ اس طرح کوئی اسلام کی بنیادی تعلیمات کا انکار کر رہا ہے۔ اگر میں یا کوئی بھی دوسرا ایسا کرتا ہے تو یقینا" یہ عمل گمراہی کی سمت لے جاتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی سمجھ لیں کہ جب کوئی دوسرے پر اس طرح کا الزام لگاتا ہے یا بہتان باندھتا ہے تو یہی حکم خود اس کے لیے بھی ہے۔

    براہ کرم حوالوں اور منطق سے بات کریں ورنہ سواے فساد کے کچھ نتجہ نہ نکلے گا۔ مقصد علمی رکھیں تاکہ دوسرے لوگ بھی کوئی فائدہ اٹھائیں وگرنہ اس طرح کی لڑائیاں تو صدیوں سے لڑی جا رہی ہیں۔ میں نے کسی پر کوئی تنقید نہیں کی تھی بلکہ صرف حوالے دیے تھے۔
     
  13. نور
    Offline

    نور ممبر

    [center:3nejf9ci]ہے آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی
    :hasna: :hasna: :hasna: :hasna: :hasna:[/center:3nejf9ci]
     
  14. سیف
    Offline

    سیف شمس الخاصان

    نور بہن آپ نے بہت مزے دار تبصرہ کیا ہے۔
    نعیم بھائی اور عقرب بھائی دونوں طرف کی باتیں پڑھ کر کوئی بھی غیر جانبدار آدمی کیا فیصلہ کرے گا۔ اس کا اندازہ آپ خود اچھی طرح لگا سکتے ہیں۔

    اگر کوئی تاریخی حوالے یا کتابوں سے اقتباس دیتا ہے تو اس کا مدلل جواب دینا چاہیئے اور آپ جیسے قابل اور اپنے فن میں ماہر دوست ایسا آسانی سے کر سکتے ہیں۔

    تاریخ سے تو ان باتوں کو نکالنا ممکن نہیں ہاں اگر کوئی دوسرا پہلو ہے تو اسےبھی آپ ایسے ہی حوالوں سے اور دلائل سے رد کر سکتے ہیں۔ بقول نیا آدمی تلملانے سے تو بات نہیں بنتی۔

    آبی بھائی نے جو مقالہ تحریر فرمایا ہے وہ بے حد متاثر کن ہے لیکن تصوف کے بارے میں نیا آدمی نے جو کچھ لکھا ہے اس سے تو دوسری ہی تصویر سامنے آتی ہے۔ اب یہ فرمائیں کہ آبی بھائی نے تصوف کی جو تعریف کی ہے وہ درست ہے یا جو مشہور صوفی اپنی تصنیفات میں تصوف کی تعریف کر رہے ہیں اسے درست مانا جائے۔
     
  15. آبی ٹوکول
    Offline

    آبی ٹوکول ممبر

    اسلام علیکم معزز قارئین کرام!
    گو کہ ہم اپنی اولین رپلائیز میں حقیقی تصوف کے خدو خال کو قرآن و سنت کی حقیقت کے آئنہ میں واضح کرچکے مگر افسوس کے کچھ تخریبی عناصر ہر جگہ موجود رہتے ہیں انکو ہماری یہ کاوش پسند نہ آئی اور وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا کہ فلسفہ وحدۃ الوجود کی آڑ میں اسلامی تصوف کے تصور کو پرانگندہ کرنے کی ناپاک کوشش کی گئی ۔ (حالانکہ فلسفہ وحدۃالوجود کا براہ راست تعلق علم الکلام اور فلسفیانہ مسائل سے ہے نہ کے حقیقت تصوف سے اسے ہم آگے چل کر واضح کریں گے)حالانکہ ہم محترم سیف صاحب کو جواب دیتے ہوئے پہلے سےہی اس چیز کی طرف نشاندہی کرچکے تھے کے بعض جہلاء فلسفہ وحدۃ الوجود کو اپنی ناقص عقل پر تولتے ہوئے خود ہی سے بعض نتائج اخذ کرکے عام عوام کو حقیقی اسلامی تصوف سے گمراہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔
    وحدۃ الوجود کی حقیقت کو سمجھنے سے پہلے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ کسی بھی تصور یا نظریہ کے بارے میں حقیقی مؤقف جاننے کے لیے دو طریقے ہوتے ہیں ایک یہ کہ مذکورہ نظریہ کو ماننے والوں کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے یا کیا تعبیرات اور تشریحات و توضیحات ہیں اور دوسرا یہ کہ اس نظریہ پر مخالفین کی کیا رائے ہے اور وہ کیا الزام تراشی کرتے ہیں؟ اس کی مثال میں عموما یوں دیا کرتا ہوں کہ اسلام دشمن اکثر اسلام کو دہشت اور بربریت کا مذہب قرار دیتے ہیں (اورایسا وہ ہمارے اندر ہی موجود بعض کج فہم عناصر کی وجہ سے کرتے ہیں ) جبکہ مسلمان مسلسل اپنی صفائیاں پیش کرتے نہیں تھکتے ۔ ہر بالغ نظر اور عقلمند شخص جب صحیح نتیجے تک پہنچنے کے لیے غیر جانبداری سے حقائق کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ اسلام دشمن منفی پروپگینڈہ کرنے والے عناصر کی باتوں پر کان دھرنے کی بجائے صحیح اسلامی تعلیمات سے سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اصل اسلامی ماخذات کا مطالعہ کرئے ۔ کیونکہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی شخص افغانستان میں موجود کسی نام نہاد جہادی تنظیم کے کارکنوں سے ملنے کے بعد ان ہی کے خیالات کو اصل اسلامی تعلیمات کی روح قرار دے ۔جب بھی ہم کسی مکتبہ فکر کے نظریات کا جائزہ لیتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس مکتبہ فکر مسلمہ پیشواؤں کے مستند بیانات کو سامنے رکھیں لیکن بدقسمتی سے بریلوی مکتبہ فکر کے ساتھ عام طور پر یہ زیادتی کی جاتی ہے کہ عموما صاحب مزار کی مرقد پر ہونے والی تمام خرافات کو بریلوی مسلک کے اکابرین کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے (حالانکہ حقیقت میں اس مسلک کے اکابرین نے سختی سے اس قسم کی تمام بدعات کی تردید کی ہے)اور ایسا کرنا کسی بھی مکتبہ فکر کے ساتھ ظلم ہے ۔
    خیر اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم پہلے بھی واضح کرچکے ہیں کہ مسئلہ وحدۃ الوجود بڑا ہی دقیق اور فلسفیانہ بحث کا متقاضی ہے اور ہمارا علم ہر گز اتنا نہیں ہے کہ ہم اس مسئلہ کی وضاحت یہاں مکمل طور پر پیش کرسکیں مگر ہرچند ہم اپنی سی کوشش ضرور کریں گے کہ اس مسئلہ کی غلط توضیحات پیش کرکے جس طریقے سے حقیقی تصوف سے لوگوں کے ذھنوں کو پرانگندہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ہم اپنے ناقص علم پر مبنی توضیحات کے زریعے لوگوں کے زہنوں پر پڑھنے والی اس گرد کا کسی نہ کسی حد تک ازالہ کرسکیں ۔باقی ہمیں اپنی علمی بے بضاعتی کا حقیقی ادراک ہے لہذا ہم علماء کرام ہی کی کتب کو سامنے رکھتے ہوئے ان سب ی اس مسئلہ پر گفتگو کو اپنے الفاظ میں پیش کرنے کی کوشش کریں گے ۔
    وحدۃ الوجود( ماخوذ از جمال السنہ از جہانگیر)
    اللہ پاک کی زات پر ایمان رکھنا تمام انبیاء کی بنیادی تعلیمات کا جز رہا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا مرکزی موضوع بھی یہی تھا جب اسلامی سلطنت نے عجمی خطوں کو اپنے زیر نگیں کیا تو وہاں کے سابقہ افکار و نظریات نو مسلم معاشروں پر اثر انداز ہوئے جس کے نتیجے میں نت نئے فرقوں نے جنم لینا شروع کیا اور یوں پھر اسلامی تعلیمات کی نت نئی تعبریات اور تشریحات پیش کی جانے لگیں اوراس میں سب سے زیادہ ہاتھ یونانی فلسفہ کا تھا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی مفکرین نے ان نت نئی تعبریات کا جواب دینے کے لیے ایک باقاعدہ فن ایجاد کیا جس کا نام علم الکلام رکھا گیا ۔اس فن میں بطور خاص الٰہیات اور عمومی طور پر تمام اسلامی عقائد کے بارے میں جزوی نکات کو فلسفہ اور عقل و منطق کی بنیادوں پر موضوع بحث بنایا گیا تاکہ یونانی فلسفہ و فکر کے حاملین لوگوں کے تمام قسم کے شکوک وشبہات کا عقلی دلائل اور خود اسلامی فلسفہ کی روح قلع قمع کیا جاسکےآج بھی اگر آپ علم الکلام کی مستند کتابوں کا مطالعہ کریں تو اس میں آپکو بہت سے ایسے زیلی مباحث ملین گے کہ جو ہماری اور آپکی سمجھ کے اوپر سے گذر جائیں گے
    (جیسے علم الکلام کی امھات کتب شرح مواقف، شرح مقاصد ،شرح عقائد مع خیالی وغیرہ) اسی طرح اگر آپ علم فقہ کی کسی کتاب کا مطالعہ کریں تو اس میں بھی آپ کو بہت سے ایسے ذیلی مباحث ملیں گے جو کہ صراحت کے ساتھ قرآن سنت میں مذکور نہ ہونگے اسی طرح علم حدیث اور علم اصول حدیث کے بارے میں بھی بہت سے ایسے ذیلی مباحث ہیں جو کہ بعد کے زمانوں میں ضبط تحریر میں لائے گئے اور انکا ابتدائی دو صدیوں میں کوئی وجود نہیں ملتا ۔
    دوسری صدی ہجری کے آغاز میں ہی فلسفہ اسلامی علوم وفنون میں شامل ہوچکا تھا اور اس کا موضوع بحث کیا تھا ؟ اور کن صدیوں میں یہ کون سے مراحل سے گزرتا رہا یہ ایک طویل بحث ہے لیکن سردست ہمارا موضوع سخن چھٹی صدی ہجری کے مشہور صوفی اور فلسفی شیخ اکبر ابن عربی کا پیش کردہ فلسفہ وحدۃ الوجود ہے کیونکہ آجکل اکثر جہلاء اس فلسفے کے حقیقی فہم کا ادراک نہ ہونے کے باعث اپنی کج فہمی سے اسی وحدۃ الوجود کی آڑ میں نفس تصوف پر زبان طعن دراز کرتے ہیں ۔
    برصغیر پاک و ہند میں چار بڑے مکاتب فکر موجود ہیں دیو بند ، بریلوی ، اہل حدیث اور شیعہ ان میں سے دیو بند اور بریلوی ابن عربی کو کامل صوفی اور عارف تسلیم کرتے ہیں دیوبند کے مشھور عالم دین علامہ اشرف علی تھانوی صاحب نے ابن عربی کی حمایت میں دو مستقل کتابیں بھی تصنیف کی ہیں (جنکا نام سردست ہمارے ذہن سے اتر گیا ہے)جبکہ صرف اہل حدیث یعنی غیر مقلدین فرقے سے تعلق رکھنے والے حضرات ابن عربی کے بارے میں مختلف شکوک و شبہات پیش کرتے رہتے ہیں ۔( جیسا کہ یہاں بھی ایک صاحب نے انتہائی بد زوقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھی لوگوں کی ایک ویب سے چلے ہوئے اور سڑے ہوئے کارتوس استعمال کیے ہیں۔ خیر) اور ان کے علاوہ بعض جدت پسند مفکرین جیسے امین اصلاحی اور ان جیسے دیگر نے بھی تصوف اور ابن عربی دونوں کو مورود الزام ٹھرایا ہے ۔یہ وہ مہربان ہیں جو کہ خود کو توحید کا ٹھیکدار سمجھتے ہیں اور انکے فہموں میں توحید بس وہی ہے جو انکو اور انکی جماعت کے بڑوں کی سمجھ میں آئی ہے۔
    انیسویں صدی کے ممتاز محقق، علم منطق و حکمت کے امام علامہ فضل حق خیر آبادی نے نظریہ وحدۃ الوجود کے اثبات میں ایک مختصر رسالہ تصنیف کیا
    (یاد رہے کہ مشھور شاعر مرزا غالب کو بھی علامہ سے خصوصی شغف تھا)جو کہ اپنی مثال آپ ہے ان سے پہلے ہندوستان کی غیر متنازعہ شخصیت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ رحمہ نے بھی اپنی کتابوں میں شیخ اکبر ابن عربی کی توصیف کی ہے اور ان سے بھی پہلے حضرت مجدد الف ثانی علیہ رحمہ
    (کہ جن سے علامہ اقبال کو خصوصی انس تھا اقبال کے بیٹے جاوید اقبال اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ میرے والد میری پیدائش سے پہلے سرہند گئے اور حضرت مجدد کے مزار پر فاتحہ خوانی کے بعد دعا کی کہ اگر اللہ پاک نے مجھے فرزند عطا کیا تو اس کو ساتھ لیکر آپ کی بارگاہ میں حاضری دوں گا اور جب پھر میں پیدا ہوا اور میری عمر گیارہ برس ہوئی تو ابا جان مجھے شیخ مجدد کے مزار پر حاضری کے لیے لے گئے ) نے بھی ابن عربی کو مقبولان بارگاہ الٰہی میں سے قرار دیا ہے ۔ لیکن سلفی کہلانے والے حضرات ہمارے یہ مہربان لاشعوری طور پر یہی سمجھتے ہیں کہ توحید کے بارے میں حرف آخر وہی ہے جو کہ یہ سمجھتے ہیں ۔اور ہمارے برصغیر میں پائے جانے والے اس طبقے کی علم کم مائگی کا یہ عالم ہے کہ سابقہ پچاس یا سو برس کے دوران لکھی جانے والی اردو کتابوں پر اعتماد کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے توحید کا علم حاصل کرلیا اور مزے کی بات یہ ہے کہ انھوں نے جن مصنفین کی تحریرات پر اعتماد کرتے ہوئے توحید کا علم حاصل کیا اگر آپ کبھی انکے شخصی احوال کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت آپ پر منکشف ہوگی کہ انھوں نے بھی کبھی تحقیق کی زحمت گوارہ نہیں کی بلکہ اپنے ہی بڑوں کے خیالات کو الفاظ کی تقدیم و تاخیر کے ساتھ نقل کردیا ہے ۔
    شیخ اکبر وحدۃ الوجود سے کیا معنٰی و مفھوم لیتے ہیں اس کا ایک عکس تو ہم اپنی پچھلی رپلائی میں پیش کر چکے ہیں رہ گیا یہ تصور کہ شیخ کے نزدیک اس تصور کے کیا کیا خدوخال ہیں اور اسکا حقیقی معنی و مفھوم شیخ کے نزدیک کیا ہے تو اس کا حقیق ادراک کرنے سے ہم قاصر ہیں کیونکہ ہمارا مبلغ علمی اتنا زیادہ نہیں ہے مگر تاہم ایک تیسرے درجے کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے ہم اس نظریہ کے امکانی پہلوؤں کا جائزہ پیش کرسکتے ہیں ۔
    اور وہ یہ ہے ہے کہ اللہ پاک نے کائنات کو پیدا کیا اور یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کائنات کو کہاں پیدا کیا گیا ؟ اس کی ایک امکانی صورت بالفرض محال یہ ہوسکتی ہے کہ اللہ پاک کا وجود (نعوذ باللہ ) محدود تھا کہ جس کہ پرے کچھ خلاء موجود تھا اور وہاں اس کائنات کو پیدا کیا گیا ۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے؟یقینی طور پر نہیں کیونکہ محدود ہونا مخلوق کی خصوصیت ہے اور اللہ کی زات اس سے پاک ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب آپ کائنات کو محدود قرار دیتے ہیں اور اللہ پاک اور کائنات دونوں کو مستقل طور پر موجود مانتے ہیں تو تو اس کا بالواسطہ مطلب یہ ہوگا کہ ایک مقام ایسا ہے کہ جہاں آکر کائنات ختم ہوجاتی ہے اور وہاں سے پھر اللہ پاک کا وجود شروع ہوجاتا ہے (معاذاللہ
    دوسرا امکان بالفرض محال یہ ہے کہ‌آپ اس کائنات کو ایک دائرہ فرض کرلیں پھر سوال یہ پیدا ہوگا کہ کیا اس کے چاروں طرف اللہ پاک موجود ہے یعنی اس کا وجود ہے اگر آپ کا جواب اثبات میں ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ خود اللہ پاک کے وجود کے اندر ایک خلاء موجود ہے (نعوذباللہ)
    اور اس خلاء کے ہی اندر کائنات کو پیدا کردیا گیا جس طرح ہمارے وجود میں بہت سے خلاء ہیں اور ان میں پیدا ہونے والی ممکنہ شئے ہمارے ہی وجود کا حصہ ہوگی کیونکہ وہ ہمارے وجود کے حصے یعنی ایک خلاء میں پیدا ہوئی اور وہ خلاء ہمارے وجود کے اندر ہونے کی وجہ سے ہمارے ہی وجود کا ایک حصہ قرار پایا بالکل اسی طرح ممکنہ خلاء اللہ پاک کا وجودی حصہ قرار پایا اور اس میں پیدا ہونے والی کائنات اس خلاء کا اللہ پاک کے وجود کا حصہ ہونے کی وجہ سے خود زات باری تعالٰی کا وجودی حصہ قرار پائی(نعوذباللہ من ذالک
    اوپر بیان کی جانے والی دونوں امکانی صورتیں کیا کسی بھی طریقہ سے اسلام کے نظرہہ توحید سے مطابقت رکھتی ہیں ؟ آپ کا جواب یقینا نہ میں ہوگا تو پھر کائنات اور خدا دونوں کے وجود کی امکانی صورت کیا پیش کی جاسکتی ہے؟ یہی وہ بنیادی سوال ہے کہ جس کہ جواب میں شیخ اکبر نے نظریہ وحدۃ الوجود پیش کیا کیونکہ انھوں نے اپنی عقل اور مشاہدے کے زریعے باآسانی یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ خدا اور کائنات دونوں کو بیک وقت مستقل طور پر موجود تسلیم کرنا ممکن نہیں ہے ۔ اس لیے ہمین یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ درحقیقت موجود صرف اللہ پاک کی ذات ہے اور اس کے علاوہ سب کچھ معدوم ہے اور اسی معدوم میں وجود عدم ایک دوسرے کے ساتھ نسبت کے اعتبار سے موجود و معدوم ہیں وگرنہ حقیقت یعنی زات باری کے اعتبار سے یہ دونوں ہی معدوم ہیں اور رہیں معدوم رہیں گے ۔
    اللہ پاک کی عظمت توحید کی شان کے اظہار کے لیے ابن عربی نے جو نظریہ پیش کیا اسکی روشنی میں اسلامی نظریہ توحید پر کسی قسم کا کوئی اشکال حقیقت میں وارد ہی نہیں ہوتا ۔
    ہم یہ حقیقت بھی تسلیم کرتے ہیں کہ نظریہ وحدۃ الوجود کی بعض لوگوں نے غلط تعبیر پیش کی اور اس کی آڑ میں حلال و حرام کی تمیز ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور وحدت ادیان کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں بہت سی خرابیوں نے جنم لیا لیکن کیا ان سب اسباب کی وجہ سے وحدۃ الوجود یا نفس تصوف کو ہی مسترد کردیا جائے گا؟عام فہم سی بات ہے کہ اگر کوئی شخص کسی صحیح بات کی غلط تعبیر پیش کرتا ہے تو اس تعبیر کا انکار کیا جائے نہ کہ اس کے نتیجے میں صحیح بات کو رد کیا جائے گا۔
    یہاں ایک اور حقیقت کی طرف بھی آپ لوگوں کی توجہ مبذول کروانا بھی نہایت ضروری سمجھتا ہوں کہ مسئلہ وحدۃ الوجود کے دو پہلو ہیں ایک اس کا عقلی اور فلسفیانہ پہلو ہے کہ جس کے اعتبار سے اس کے بنیادی نکات کی نشاندہی ہم نے کردی اور دوسرا اسکا روحانی اور کشفی پہلو ہے اور ابن عربی اور شیخ مجدد الف ثانی کا اس مسئلہ میں جو اختلاف وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کے نام سے مشھور ہے اس کا تعلق اس کے روحانی اور کشفی پہلو سے ہے نہ کہ اس کہ فلسفیانہ پہلو سے بلکہ اس کے فلسفیانہ پہلو پر دونوں شیخ متفق ہیں ۔ اور کشفی پہلو پر اختلاف کی بنیاد یہ ہے کہ جب کوئی سالک ریاضت اور مجاہدے کی بنیاد پر سلوک کی منازل طے کرنا شروع کرتا ہے تو تب وہ ایک خاص مقام پر پہنچ کر ہر شئے میں اللہ پاک انوار و تجلیات کو دیکھتا ہے تو تب سالک کو اللہ پاک کی زات کے علاوہ اور کچھ دکھائی نہیں دیتا سوال یہ ہے کہ کیا یہ کیفیت راہ سلوک کا اختتام ہے ؟شیخ اکبر یعنی ابن عربی کے نزدیک سلوک کی انتہاء یہی ہے جبکہ حضرت مجدد کے نزدیک اس کیفیت کے آگے ایک اور کیفیت بھی ہے کہ جہاں پہنچ کر سالک کو اللہ پاک کی زات اور کائنات دونوں علیحدہ علیحدہ محسوس ہوتے ہیں ۔ ہم ان دونوں نظریات کی اس حقیقت سے واقف نہیں کیونکہ یہ حقیقت ان دونوں نطریات میں مکمل طور پر کشف اور شھود کا مسئلہ ہے ۔ لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ صوفیاء کی اکثریت کی تائید اس مسئلہ مین شیخ اکبر کو حاصل ہے ۔
    اب اس موڑ پر ہم یہ مناسب سمجھتے ہیں کہ مختصر طور پر نطریہ حلول کی بھی وضاحت کردیں کیونکہ اس نظریہ کو بھی تروڑ مروڑ کر صوفیائ پر غلط طریقے سے چسپاں کیا جاتا ہے ۔
    اتحاد کی تعریف
    اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ مستقل وجود الگ سے موجود ہوں اور پھر یوں دونوں آپس میں باہم مل جائیں کہ ایک ہی وجود کی شکل اختیار کر جائیں اگر چہ دونوں کا مستقل وجود اپنی جگہ قائم رہے ۔اس طرح کی بہت سی مثالیں ہم اپنے معاشرہ میں دیکھتے ہیں جیسے مختلف سیاسی پارٹیوں کا اپنا اپنا انفرادی وجود برقرار رکھ کر ایک دوسرے سے اتحاد کرنا ۔
    حلول کی تعریف​

    حلول کا مطلب یہ ہے کہ ایک چیز دوسری چیز کے اندر اس طرح داخل ہوجائے کہ پھر اس کے اپنے وجود کو دوسری سے الگ کرنا ممکن نہ رہے جیسے پانی میں نمک اور چینی دونوں کا باہم ملکر پانی بن جانا اللہ پاک کے لیے اتحاد اور حلول دونوں عقیدے رکھنا جائز نہیں کیونکہ ہم پہلے ہی وضاحت کرچکے کہ اللہ پاک کمیت اور کیفیت سے پاک ذات ہے جسم کا کوئی بھی عارضہ اسے لاحق ہی نہیں کیونکہ جسم کے لیے شرط ہے لمبائی چوڑائی ، گہرائی ، اونچائی اور ان تمام حوالوں سے اسکی ایک مخصوص حد ہوتی ہے جب کہ اللہ پاک تمام حدود سے پاک و منزہ ہے ۔اسی طرح اتحاد یا حلول اس وقت پایا جائے گا جب ایک جسم کے اجزاء کے اندر خلاء موجود ہو تو اور دوسرا جسم اس خلاء میں سما کر اس پہلے جسم کا حصہ بن جائے ۔اور ایسا ہونا ممکن الوجود کی خصوصیات میں سے ہے جب کہ اللہ پاک ممکن الوجود نہیں بلکہ واجب الوجود ہے ۔
    اللہ پاک کی ذات سے حلول و اتحاد کی نفی سے اہل ظاہر کے ان نظریات کی تردید ہوتی ہے جو کہ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ اللہ پاک عرش کے عین اوپر ہے اور ہر رات آسمان دنیا پر نزول کرتا ہے لہذا اس اعتبار سے پہلے اس کے وجود کا اتصال عرش کے وجود کے ساتھ مانا گیا اور بعد میں آسمان دنیا کے وجود کے ساتھ یاد رکھیں کہ خود کو صوفی یا پھر اہل توحید کہلانے والے جاہل کی طرح خود عرش بھی اللہ ہی کی مخلوق ہے اور جس طرح اللہ پاک کی زات کا اتصال (یعنی اتحاد یا پھر حلول) کسی بھی جاہل صوفی یا اہل توحید کے کی زات کے ساتھ ناممکن ہے اسی طرح عرش اور آسمان دنیا کے ساتھ اللہ پاک کی زات کا اتحاد یا اتصال اتنا ہی ناممکن ہے کیونکہ بنیادی نقطعہ یہ ہے کہ واجب الوجود کو ممکن الوجود جو کہ حادث ہوتا ہے کی کسی بھی خصوصیت کے ساتھ متصل نہیں کیا جاسکتا ۔
    لہذا اسی لیے تمام امت اس قسم کی آیات کہ جن میں بظاہر اللہ پاک کے جسم ہونے کا امکان نظر آتا ہے میں تاویل کی قائل ہے اور قرآن وسنت میں بیان ہونے والی اس قسم کی تمام نشانیاں متشابہات کی قبیل سے ہیں کہ جن میں تاویل واجب ہے اور وہ تاویل اللہ ہی جانتا ہے ہمارے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ ہم اسے اللہ کی شان کہ لائق کہہ کر حقیقت حال کو اللہ ہی پر چھوڑدیں ۔
    اب ہم آخر میں نطریہ وحدۃ الوجود کی وضاحت امام احمد رضا کے قلم سے پیش کرتے ہیں جب امام احمد رضا سے اس مسئلہ پر سوال ہوا تو آپ نے فرمایا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ کہ

    توحید مدار ایمان ہے اور اس میں شک کفر۔ وحدت وجود حق ہے، قرآن عظیم و احادیث و ارشادات اکابر دین سے ثابت اور اس کے قائلوں کو کافر کہنا خود شنیع خبیث کفر ہے۔ رہا اتحاد وہ بے شک زندقہ و الحاد اور اس کا قائل ضرور کافر۔ اتحاد یہ کہ یہ بھی خدا وہ بھی خدا سب خدا۔ گر فرق مراتب نکند زندیق ست۔ حاش للہ، الہٰ الہٰ ہے
    اور عبد عبد، ہر گز نہ عبد الہٰ ہو سکتا ہے، نہ الہٰ عبد، اور وحدت وجود یہ کہ وجود واحد موجود واحد، باقی سب ظلال و عکوس ہیں۔

    قرآن کریم میں ہے: کل شئی مالک الا وجھہ
    صحیح بخاری و صحیح مسلم و سنن ابن ماجہ میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں: سب میں زیادہ سچی بات جو کسی شاعر نے کہی، لبید کی بات ہے کہ سن لو اللہ عزوجل کے سوا ہر چیز اپنی ذات میں محض بے حقیقت ہے

    کتب کثیرہ مفصلہ اصابہ نیز مسند میں ہے سواد بن وقارب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے عرض کی: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کچھ موجود نہیں اور حضور جمیع غیوب پر امین ہیں۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے انکار نہ فرمایا۔

    اقول یہاں فرقے تین ہیں۔

    ایک، خشک اہل ظاہر کہ حق و حقیقت سے بے نصیب محض ہیں، یہ وجود کو اللہ و مخلوق میں مشترک سمجھتے ہیں۔

    دوم، اہل حق و حقیقت کہ بمعنی مذکور قائل وحدت وجود ہیں۔

    سوم، اہل زندقہ و ضلالت کہ الہٰ و مخلوق میں فرق کے منکر اور ہر شخص و شئے کی الوہیت کے مقر ہیں، ان کے خیال و اقوال اس تقریبی مثال سے روشن ہوں گے۔

    ایک بادشاہ عالی جاہ آئینہ خانہ میں جلوہ فرما ہے، جس میں تمام مختلف اقسام و اوصاف کے آئینے نصب ہیں، آئینوں کا تجربہ کرنے والا جانتا ہےکہ ان میں ایک ہی شئے کا عکس کس قدر مختلف طوروں پر متجلی ہوتا ہے، بعض میں صورت صاف نظر آتی ہے، بعض میں دھندلی، کسی میں سیدھی، کسی میں الٹی، ایک میں بڑی ایک میں چھوٹی، بعض میں پتلی بعض میں چوڑی، کسی میں خوشنما کسی میں بھونڈی۔ یہ اختلاف ان کی قابلیت کا ہوتا ہے، ورنہ وہ صورت جس کا ان میں عکس ہے خود واحد ہے۔ ان میں جو حالتیں پیدا ہوئیں متجلی ان سے منزہ ہے، ان کے الٹے بھونڈے دھندلے ہونے سے اس میں کوئی قصور نہیں آتا و اللہ المثل الاعلیٰ، اب اس آئینہ خانے کو دیکھنے والے تین قسم ہوئے۔

    اول: نا سمجھ بچے انہوں نے گمان کیا کہ جس طرح بادشاہ موجود ہے یہ سب عکس بھی موجود ہیں کہ یہ بھی تو ہمیں ایسے ہی نظر آ رہے ہیں جیسا وہ، ہاں یہ ضرور کہ اس کے تابع ہیں، جب وہ اٹھتا ہے یہ سب کھڑے ہو جاتے ہیں، وہ چلتا ہے یہ سب چلنے لگتے ہیں، وہ بیٹھ جاتا ہے یہ سب بیٹھ جاتے ہیں۔ تو ہیں یہ بھی اور وہ بھی، مگر وہ حاکم ہے اور یہ محکوم، اور اپنی نادانی سے یہ نہ سمجھا کہ وہاں تو بادشاہ ہی بادشاہ ہے، یہ سب اسی کے عکس ہیں، اگر اس سے حجاب ہو جائے تو یہ سب صفحہ ہستی سے معدوم ہو جائیں گے، ہو کیا جائیں گے اب بھی تو حقیقی وجود سے کوئی حصہ ان میں نہیں، حقیقتاً بادشاہ ہی موجود ہے، باقی سب پرتو کی نمود ہے۔

    دوم: اہل نظر و عقل کامل، وہ اس حقیقت کو پہنچے اور اعتقاد لائے کہ بےشک وجود ایک بادشاہ کے لئے ہے، وجود ایک وہی ہے، یہ سب ظل و عکس ہیں کہ اپنی حد ذات میں اصلاً وجود نہیں رکھتے، اس تجلی سے قطع نظر کر کے دیکھو کہ پھر ان میں کچھ رہتا ہے، حاشا عدم محض کے سوا کچھ نہیں، اور جب یہ اپنی ذات میں معدوم و فانی ہیں اور یہ بادشاہ موجود، یہ اس کا نمود، وجود میں اس کے محتاج ہیں اور وہ سب سے غنی، یہ ناقص ہیں، وہ تام یہ ایک ذرہ کے بھی مالک نہیں۔ اور وہ سلطنت کا مالک یہ کوئی کمال نہیں رکھتے، حیات، علم، سمع، قدرت، ارادہ، کلام سب سے خالی ہیں، اور وہ سب کا جامع تو یہ اس کا عین کیونکر ہو سکتے ہیں۔ لا جرم یہ نہیں کہ یہ سب وہی ہیں، بلکہ وہ ہی وہ ہے اور یہ صرف اس کی تجلی کی نمود، یہی حق و حقیقت ہے اور یہی وحدت الوجود۔

    سوم: عقل کے اندھے سمجھ کے اوندھے ان نا سمجھ بچوں سے بھی گئے گزرے، انہوں نے دیکھا کہ جو صورت بادشاہ کی ہے وہی ان کی، جو حرکت وہ کرتا ہے، یہ سب بھی، تاج جیسا اس کے سر پر ہے بعینٰہ ان کے سروں پر بھی۔ انہوں نے عقل و دانش کو پیٹھ دے کر بکنا شروع کیا کہ یہ سب کے سب بادشاہ ہیں اور اپنی سفاہت سے وہ تمام عیوب و نقائص و نقصان قوابل کے باعث ان میں تھے، خود بادشاہ کو ان کا مورد کر دیا کہ جب وہی ہیں تو ناقص، عاجز، محتاج، الٹے، بھونڈے اور دھندلے کا جو عین ہے، قطعاً انہیں ذمائم سے متصف ہے۔

    تعلےٰ اللہ عما یقول الظلمون عدوا کبیرا۔

    انسان اپنا عکس ڈالنے میں آئینے کا محتاج ہے اور وجود حقیقی احتیاج سے پاک، وہاں جسے آئینہ کہے وہ بھی ایک ظل ہے، پھر آئینے میں انسان کی صرف سطح مقابل کا عکس پڑتا ہے، جس میں انسان کے صفات مثل کلام و سمع و بصر و علم و ارادہ و حیات و قدرت سے اصلاً نام کو بھی کچھ نہیں آتا، لیکن وجود حقیقی عز جلالہ کی تجلی نے اپنے بہت ظلال پر نفس ہستی کے سوا ن صفات کا بھی پرتو ڈالا، یہ وجوہ اور بھی ان بچوں کی نافہمی اور ان اندھوں کمی گمراہی کا باعث ہوئیں، اور جن کو ہدایت حق ہوئی وہ سمجھ لئے ہیں کہ:

    چراغ ست دریں خانہ کہ از پرتو آں
    ہر کجا می نگری انجمنے ساختہ اند

    انہوں نے ان صفات اور خود وجود کی دو قسمیں کیں، حقیقی ذاتی کہ متجلی کے لئے خاص ہے اور ظلی عطائی کہ ظلال کے لئے ہے اور حاشا یہ تقسیم اشتراک معنی نہیں بلکہ محض موافقت فی اللہ، یہ ہے حو حقیقت و عین معرفت۔ و للہ الحمد۔

    الحمد للہ الذی ھدانا لھذا و ما کنا لنھتدی لو لا ان ھدانا اللہ لقد جاءت رسل ربنا الحق صلی اللہ تعالیٰ علیھم و علی سیدھم و مولاھم و بارک و سلم
    سماع مجرد کہ جملہ منکرات شرعیہ سے خالی بلاشبہ اہل کو مباح بلکہ مستحب ہے، اس پر انکار ستر صدیقوں پر انکار ہے اور معاذ اللہ صدیقیین کی تکفیر کرنے والا خود کفر اخبث کا سزاوار ہے، اس کی تفصیل فتاوائے فقیر خصوصاً رسالہ اجل التجیر میں ہے، ہاں مزامیر شرعاً ناجائز ہیں۔

    حضرت سلطان الاولیاء محبوب الہٰی نظام الحق و الدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوائد الفواد شریف میں فرمایا: مزامیر حرام ست۔

    اور اہل اللہ کسی معصیت الہٰی کے اہل نہیں۔ و اللہ تعالیٰ اعلم۔
    القول المسعود المحمود فی مسئلۃ وحدة الوجود

    اس کے علاوہ ملفوظات میں امام احمد رضا نے اسی مسئلہ وحدہ الوجود پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ ۔ ۔ ۔
    ملفوظات میں امام احمد رضا نے مسئلہ ”وحدة الوجود“، ”اللہ تعالیٰ کے لئے ظلم یا کسی بھی طرح کا نقص محال ہیں“۔ لفظ اللہ مرکب ہے یا مفرد“۔ تنزیہہ مع تشبیہ بلا تشبیہ“ نیز انہیں سب کے تعلق سے ”وقت و زمانہ“ اور ”جزولا یتجزّیٰ“ وغیرہ پر بھی روشنی ڈالی ہے۔

    (1)وحدۃ الوجود کی تعریف:
    امام احمد رضا فرماتے ہیں: ”وجود ایک اور موجود ایک ہے باقی سب اس کے ظل ہیں“۔
    (حصّہ اول ص129)

    مزید ارشاد فرماتے ہیں: ”وجود ہستی بالذات واجب تعالیٰ کے لئے ہے۔ اس کے سوا جتنی موجودات ہیں سب اس کی ظل پر تو ہیں تو حقیقۃً وجود ایک ہی ٹھہرا“۔
    (حصہ اول ص80)
    اس مسئلہ کی وضاحت میں امام احمد رضا نے کئی مثالیں بیان فرمائیں جن میں سے ایک مثال اس طرح ہے:
    ”روشنی بالذات آفتاب و چراغ میں ہے، زمین و مکان اپنی ذات میں بے نور ہیں، مگر بالفرض آفتاب کی وجہ سے تمام دنیا منور اور چراغ سے سارا گھر روشن ہوتا ہے۔ ان کی روشنی انہیں کی روشنی ہے۔ ان کی روشنی ان سے اٹھالیجائے وہ ابھی تاریک محض رہ جائیں“۔
    (ایضاً ص80)
    امام احمد رضا نے اس سخت مشکل اور پیچیدہ مسئلہ کو آفتاب اور چراغ کی روشنی کی مثال دے کر جس طرح مختصر مگر جامع انداز میں سمجھایا ہے وہ آپ کے نوربصیرت پر دال ہے۔

    (2)جزولا یتجزّیٰ کا مسئلہ​
    :
    امام احمد رضا نے جزولا یتجزّیٰ پر تفصیلی بحث ’الکلمۃ الملہمہ“ میں کی ہے نیز ”فوز مبین در رد حرکت زمین“ میں بھی اس پر روشنی ڈالی ہے۔

    امام احمد رضا سے اس کی بابت سوال کیا گیا کہ: ”فلاسفر کہتے ہیں کہ جزولا یتجزّیٰ باطل ہے۔ اگر باطل مانا جائے اور ہیولیٰ اور صورت کی قدامت باطل کردی جائے تو اسلام کے نزدیک اس میں کیا برائی ہے؟“

    جواب میں ارشاد فرمایا: ”اگر جزولا یتجزّیٰ نہ مانا جائے تو ہیولیٰ اور صورت کے قدم کا راستہ کھلے گا۔ ان دلائل فلاسفہ کا اٹھانا پھر طویل و عریض مباحث چاہے گا اس لئے ہمارے علماءنے اسے سرے ہی سے رد فرمایا۔ گربہ کشتن روز اول باید۔ دین اسلام میں ذات و صفات الٰہی کے سوا کوئی شے قدیم نہیں۔
    رب العزت فرماتا ہے: بَدِیعُ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضِ۔ نیا پیدا فرمانے والا زمین اور آسمان کا۔ اور حدیث میں ہے کَانَ اللّٰہُ وَلَم یَکُن مَّعَہ شَیئی۔ ”ازل میں اللہ تھا اور اس کے ساتھ کچھ نہ تھا“۔ غیر خدا کسی شے کو قدیم ماننا بالاجماع کفر ہے۔“ (حصہ دوم ص189)

    آپ نے دیکھا قارئین کرام کہ اس مسئلہ کو امام صاحب نے کس طرح وضاحت کے ساتھ پیش کردیا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگوں میں اپنی کم عقلی کے باعث اتنی لیاقت نہیں کہ ہم آپسی روز مرہ کے مسائل میں ایک دوسرے کو قائل کرسکیں چہ جائکہ وحدہ الوجود جیسے
    خالص عقلی، منطقی اور فلسفیانہ مسئلہ پر ہم یہاں کچھ بحث کرسکیں اسی خیال کے پیش نظر میں نے ابتداء میں ہی محترم سیف صاحب کو عرض کی تھی کہ یہ مسئلہ ایسا نہیں کہ اسے یہاں ڈسکس کیا جاسکے مگر نیا آدمی صاحب کی جہالت آمیز پوسٹ نے مجھے مجبور کیا کہ میں اس مسئلہ کی وضاحت اپنے تئیں کرسکوں اور جو الزمات انھوں نے وحدۃ الوجود کے حوالہ سے لگائے ہیں ان کا ازالہ کرسکوں جن صوفیاء کا انھوں نے زکر کیا ہے ان میں سے شیخ اکبر ابن عربی ہی اس مسئلہ کا مؤجد ہیں لہذا ان کے بارے میں اکابرین امت کی رائے میں نقل کردی اور مسئلہ کی وضاحت بھی ۔ رہ گئے دیگر ابن فارض وغیرہ تو ان کی عبارات کی اصل کتب جب تک ہمارے سامنے نہ ہوں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے نیز یہ بھی کہ ان کے بارے میں علماء نے کیا لکھا ہے جب تک وہ بھی ہم پر واضح نہیں ہوجاتا ہم خاموشی کو ہی بہتر سمجھتے ہیں ۔ ۔ ۔
    رہ گئے ابن تیمیہ صاحب کہ جن کی کتاب کو بنیاد بنا کر یہاں گل افشانی کی گئی ہے تو ان ابن تیمیہ کے بارے میں اکابرین امت کی کیا رائے ہے اسے نقل کرنے سے پہلے اتنا بتادوں کہ ابن تیمیہ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اللہ پاک کی جسمیت کا قائل تھا لیجیئے اس کے بارے اکابرین امت کی رائے مختصر آپ کی ضیافت طبع کے لیے پیش خدمت ہے ۔ ۔ ۔ ۔


    شیخ ابن حجر ھیتمی نے ”تحفہ ،،میں لکھا ھے :خدا کی جسمیت یا اس کے جھت میں ھونے کا دعویٰ ایساھے کہ اگر کوئی اس کا عقیدہ رکھے تو کافر ھے ۔
    سفینةالراغب ص۴۴ طبع بولاق مصر ۱۲۵۵ ئ
    شیخ یوسف نبھانی نے اپنی کتاب ”شواھدالحق ،،کے صفحہ ۱۷۷پر لکھا ھے :چوتھا باب ،ابن تیمیہ کے اوپرعلماء مذاھب اربعہ کے اعتراضات کی عبارتیں اور اس کی کتابوں پر کئے گئے ایرادات اور بعض اھم مسائل جیسے خدا وندعالم کا ایک خاص جھت وسمت میں ھونا ،کے بارے میں اھل سنّت کی مخالفت کے بیان میں ۔پھر ایک جماعت کا ذکر کیا ھے جنھوں نے اس پر طعن کیاھے لکھا ھے :

    ”انھیں طعن کرنے والوں میں سے امام ابوحیان ھیں جو ابن تیمیہ کے دوست تھے ۔جب اس کی بدعتوں سے با خبر ھوئے تو اس کو بالکل چھوڑ دیا اور لوگوں کو اس سے دور رھنے کی تاکید کی ۔اور انھیں میں سے امام عزالدین ابن جماعةھیں انھوں نے اس کی رد کی ھے اور اسے برا کھا ھے ۔

    انھیں میں سے ملا علی قاری حنفی ھیں انھوں نے شفاء کی شرح میں لکھا ھے : حنبلیوں میں سے ابن تیمیہ نے افراط سے کام لیا چنانچہ اس نے زیارت نبی کے لئے سفر کرنے کو حرام قرار دیا ھے ۔اسی طرح اس کے مقابل والے نے بھی افراط سے کام لیا ھے چنانچہ کھا ھے :زیارت کا باعث تقرب خدا ھونا ضرویات دین میں سے ھے اور اس کا انکار کرنے والا کافر ھے ۔اور شاید یہ دوسرا قول حق سے قریب ھے کیونکہ جس کے مستحب ھونے پر اجماع ھو اس کا حرام قراردینا کفر ھوگاکیونکہ یہ مباح متفق علیہ کے حرام قرار دینے سے بڑہ کر ھے۔

    اور انھیں میں سے شہاب الدین خفاجی حنفی ھیں جن کے کلام کو اس طرح ذکر کیا ھے :ابن تیمیہ نے ایسی خرافات باتیں لکھی ھیں جن کا ذکر کرنا مناسب نھیں کیونکہ یہ باتیں کسی عقلمند انسان کی ھو ھی نھیں سکتیں چہ جائیکہ ایک پڑھے لکھے آدمی کی زبان اورقلم سے صادر ھو ں ۔چنانچہ ابن تیمیہ کا یہ کھنا کہ
    قبر پیغمبر اسلام کی زیارت حرام کام ھے ،،کذب محض،لغو ھے اوربکواس ھے ۔ اس کا یہ کھنا ”اس کے بارے مےں کوئی نقل موجود نھیں ھے ،،باطل ھے کیونکہ امام مالک ،امام احمد ،اور امام شافعی رضی الله عنھم کا مذھب یہ ھے کہ سلام ودعا میں قبر شریف کی طرف رخ کرنا مستحب ھے اور یہ بات ان بزرگوں کی کتابوںمیں درج ھے۔ اور انھیں میں سے امام محمدزرقانی مالکی ھیں ۔(نبھانی نے ان کے کچہ کلام کو مواھب لدنیہ کی شرح میں نقل کیا ھے جسے ھم یھاں پیش کررھے ھیں:

    ”لیکن ابن تیمیہ نے اپنے لئے ایک جدید مذھب ایجاد کیا ھے اور وہ ھے قبروں کی تعظیم نہ کرنا ۰۰۰ کیا یہ شخص جس بات کا علم نھیں رکھتا اس کے جھٹلانے سے شرماتاھے ؟
    اور ابن تیمیہ کی طعن وتشنیع کے سلسلے میں اپنی پھلی والی بات دھرائی ھے ۔ ۔ ۔ ۔
    معزز قارئین کرام اس کے علاوہ بھی اکابرین امت کی ایک طویل فہرست جن میں سے بعض نے ابن تیمیہ کی تکفیر کی ہے اور اکثر نے گمراہی کا فتوٰ ی صادر کیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    فاعتبروا یا اولی الابصار ۔ ۔۔ ۔
     
  16. سیف
    Offline

    سیف شمس الخاصان

    ماشااللہ آبی بھائی آپ نے نیا آدمی کے جواب میں بہت مثالی دلایل دیے ہیں۔
     
  17. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    آبی ٹو کول بھائی ۔ مجھ جیسے سینکڑوں بےعلم اور سادہ لوح مسلمانوں کو نیا آدمی ، انکے پیشواؤں اور نجدیت کے علمبردار فتنہ پروروں کے حملوں سے بچا کر احقاق حق اور ابطالِ باطل کرنے پر اللہ تعالی آپکو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین
     
  18. ہارڈاسٹون
    Offline

    ہارڈاسٹون ممبر

    آبی بھائی صاحب۔ معذرت کے ساتھ۔ مجھے کچھ شک سا ہو رہا ہے پھر بھی بہتر ہے کہ آپ سے ڈائرکٹ پوچھ لوں۔

    کہیں آپ کا تعلق اہل تشیع سے تو نہیں؟؟


    آپ نے عالم اسلام کے نامور شیخ الاسلام کے خلاف زبان درازی کا وہ مواد یہاں پیش کیا ہے جو صرف شیعہ سائیٹس پر ہی مہیا کیا جاتا ہے۔ مثلاَ آپ نے اس شیعہ سائیٹ سے کاپی پیسٹ کیا ہے۔


    اگر آپ کہیں کہ اس میں حوالہ جات تو سنی علماء کے ہی ہیں تو بھائی:

    کیا آپ نے خود یہ حوالہ جات چیک کئے؟ ایمان سے بتائیے گا۔

    کوئی صاحب اگر ابن فارض کی کتب سے حوالہ دیں تو آپ جواب میں فرماتے ہیں :


    سوال یہ ہے کہ "خاموشی" کا یہی نقطہ نظر آپ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کے متعلق کیوں نہیں اختیار کرتے؟ اس کے پیچھے کون سا "تقیہ" پوشیدہ ہے؟؟

    آپ کو بدعقیدہ شیعہ کی یہ طعنہ زنی خوب دکھ کر آتی ہے اور تحسین و تعریف کے وہ ہزاروں لاکھوں کلمات نظر نہیں آتے جو عرب و عجم کے علمائے اہل سنت نے شیخ الاسلام کی تبلیغ کے ضمن میں بیان کر رکھے ہیں۔


    اگر آپ کو اہل تشیع کی ان خرافات پر اتنا ہی اعتبار ہے تو پھر ذرا یہ کتاب بھی ڈاؤن لوڈ کیجئے ان ہی کی سائیٹ سے :

    امام ابو حنیفہ

    اور ہم کو بتائیے کہ آپ کو کیوں اس کتاب کے مواد پر بھروسہ نہیں ہے؟؟ حالانکہ اس میں بھی تمام حوالے سنی ائمہ و علماء کی کتابوں سے ہی دئے گئے ہیں۔


    بھائی آبی ٹو کول۔ کچھ ہوش کی دوا بھی کریں۔ معروف و محترم ائمہ دین کے نظریات سے اختلاف ہونے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ تحقیق کے بےلاگ شوق کے نام پر شیعہ لابی کی حمایت میں یوں اپنے ہی اہل سنت ائمہ کی توہین کا ارتکاب کرتے بیٹھ جائیں۔

    ہاں اگر آپ کا تعلق واقعتاً اہل تشیع سے ہے تو پھر میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں۔
     
  19. آبی ٹوکول
    Offline

    آبی ٹوکول ممبر

    اسلام علیکم محترم جناب ہارڈ اسٹون صاحب !
    الحمد للہ میرا تعلق اہل سنت والجماعت سے ہے اور میں نے کبھی بھی اس بات کو نہیں چھپایا آپ لوگوں کی طرح ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔اور ابن تیمیہ کے خلاف مزکورہ باتیں متقدمین اور اس کے معاصرین علماء کے حوالے سے میں نےاہل سنت علماء کی کتابوں میں ایک عرصہ سے پڑھ رکھی ہیں ۔ اور یہاں انکا پیش کرنے کا مقصد صرف اتنا تھا کہ آپ کے امام صاحب اس قدر متنازعہ شخصیت ہیں کہ ان کی تکفیر کا بھی فتوٰی لگ چکا ہے وگرنہ صرف متنازعہ ہونا کوئی انہونی بات نہیں ۔ ۔ ۔ ۔
    رہ گئی آپ لوگوں کے شیخ الاسلام کی بات تو جب میں پاکستان میں تھا تو اپنے مختلف اہل حدیث دوستوں کے پاس اہل حدیث ہی مکتبہ فکر کی چھپی ہوئی مختلف کتابوں میں سے ابن تیمیہ کے بعض فتاوٰی جات پڑھنے کا اتفاق ہوا جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ زیارت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جانا انھوں نے حرام قرار دیا تھا اور دلیل کے طور پر تین مساجد کی طرف سفر والی حدیث کو پیش کیا تھا اس کے علاوہ علامہ نبھانی کی کتاب شواہد الحق کا اردو ترجمہ میری اپنی ذاتی لائبریری میں موجود ہے اوراس میں بھی مذکورہ عبارات نظر سے گذریں ہیں اس کے علاوہ شرح صحیح مسلم میں علامہ غلام رسول سعیدی صاحب نے بھی اس مسئلہ کو بیان کیا ہے دیگر ایک دیو بندی عالم کی کتاب میں نے کسی زمانہ میں پڑھی تھی جو کہ فلسفہ پر تھی اس میں ان موصوف نے ابن تیمیہ کی عقیدہ تجسیم کا دفاع کرنے کی بھر پور کوشش کی تھی (کتاب اور مصنف دونوں کانام اس وقت ذہن سے اتر چکا ہے)یاد رہے کہ دیو بندی حضرات بھی آپ لوگوں کی طرح ابن تیمیہ کو شیخ الاسلام مانتے ہیں اور ایک دیوبندی عالم کا ابن تیمیہ کی طرف سے عقیدہ تجسیم پر دفاع یہ ثابت کرتا ہے کہ ابن تیمیہ اس عقیدہ کا حامل تھا ۔ ۔ ۔باقی آپ نے شعیہ کی سائٹ کا حوالہ دیا کہ وہاں سے امام اعظم کے بارے میں کتاب ڈاؤن لوڈ کرلوں تو وہاں جانے کی ضرورت ہے آپ لوگوں کی سائٹس کیا تھوڑی ہیں ؟ امام صاحب کے خلاف خبث باطن کے اظہار کے لیے
     
  20. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    ہارڈسٹون نے لکھا
    السلام علیکم محترم
    بہتر ہوتا کہ آپ عالم اسلام کی بجائے عالم وہابیت و نجدیت لکھتے۔لیکن کیا کیجئے کہ آپ اپنے دعویء غیر مقلدیت کے باوجود اپنے شیخ کی اندھی عقیدت میں اس درجہ آگے نکل چکے ہیں کہ اپنے وہابیت و نجدیت کے باہر آپ کو کوئی اسلام نظر ہی نہیں آتا جبھی تو وہابیت و نجدیت کے بانی مولانا کو "عالم اسلام کا شیخ بناکر اپنی اندھی عقیدت اور مقلدیت کا اظہار فرما دیا۔
    اگرشیخ ابن عربی ، امام احمد رضا خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری سمیت سارے بریلوی، سنی، تصوف کے دائروں میں مقید ہوسکتے ہیں تو پھر اپنے اس شیخ کو بھی وہابیت و نجدیت کے دائرے میں ہی مقید رکھیے کیونکہ اسکے باہر کوئی انہیں امام، شیخ الاسلام نہیں مانتا۔
    اور ہاں زیادہ جذباتی ہوکر زیادہ غصہ مت کیجیے گا۔ کیونکہ غصہ عقل کا دشمن ہے۔
    والسلام علیکم
     
  21. ہارڈاسٹون
    Offline

    ہارڈاسٹون ممبر

    اسلام علیکم!

    بہت خوب آبی بھائی صاحب !

    آپ نے شیعہ سائیٹ سے "کاپی / پیسٹ" کا اعتراف تو نہیں کیا (حالانکہ قارئین خود دیکھ اور سمجھ سکتے ہیں کہ ایک ایک لفظ جوں کا توں اٹھایا گیا ہے)


    البتہ آپ کی اس خوبصورت تحریر سے ایک بات تو بہرحال ثابت ہو گئی کہ آپ جیسے "معصوم محقق" کو اُن متعصب اور تنگ نظر افراد نے جبری اغوا کے ذریعے "مہرہ" بنا رکھا ہے جو ائمہ دین کو دیوبندی ، اہل حدیث کے ناموں سے جاننے کے عادی ہیں۔


    اور مزے کی بات دیکھئے کہ ابن فارض کے حوالے سے کی گئی گفتگو کو آپ نظرانداز کر گئے۔

    یہ ضرور بتائیں کہ : کیا وجہ ہے کہ آپ ابن فارض کے دفاع پر مجبور ہیں؟ اور جب تک اس کی اصل کتب اور اس کے بارے میں علماء کے خیالات آپ کے سامنے نہ آئیں آپ خاموشی اختیار کرنا پسند کرتے ہیں؟؟


    اور کیا وجہ ہے کہ آپ نے امام ابن تیمیہ کے خلاف لگائے گئے الزامات کو بلاثبوت آنکھ بند کر کے مان لیا اور تحقیق کی زحمت ہی نہیں کی کہ واقعتاً یہ ابن تیمیہ سے ثابت بھی ہیں یا نہیں؟؟


    زیارتِ روضۂ انور کے لئے سفر کا مسئلہ تو "قبوری مسلک پرستوں" کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لہذا اس الزام کو ہم درگزر کرتے ہیں لیکن ۔۔۔ ہم آپ کو چیلنج کرتے ہیں کہ خود ابن تیمیہ کی کسی کتاب سے "عقیدہ تجسیم" کا ثبوت دکھا دیں ہم کو۔

    نہ دکھا پائیں تو ان شاءاللہ اس بہتان طرازی پر آپ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہیں سکیں گے۔


    اور وہ تکفیری فتویٰ بھی ذرا یہاں بحوالہ نقل فرمائیں جس میں امام ابن تیمیہ کی تکفیر کی گئی ہو؟؟

    اور یہ بھی ضرور بتائیں کہ امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے خلاف جو فتوے معتبر ائمہ دین (مثلاَ امام مالک ، امام شافعی ، سفیان ثوری ، ابن مبارک وغیرہم ) کے حوالوں سے تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہو چکے ہیں ، ان پر آپ کا اعتبار کیوں نہیں ہے اور صرف امام ابن تیمیہ کے خلاف دئے گئے فتوے (جس کا ثبوت فراہم کرنا بھی آپ کی ذمہ داری ہے) پر ہی آپ کا اعتبار کیوں ہے؟؟




    اس کے ثبوت میں کوئی لنک بتا دیں تو مہربانی ہوگی۔
     
  22. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    تاکہ اسی بہانے یہاں سے سادہ لوح صارفین و قارئین کے ذہنوں میں بھی امت کے سوادِ اعظم کے امام ابوحنیفہ :ra: کے حوالے سے ذہن پراگندہ کیے جاسکیں۔ اچھی حکمتِ عملی ہے :87:
     
  23. ہارڈاسٹون
    Offline

    ہارڈاسٹون ممبر


    نعیم بھائی آپ سے گذارش ہے کہ جب آپ کچھ ڈھنگ کی بات کرنے کے قابل ہوجائیں تب آکر مداخلت کیجئے گا۔۔

    معذرت کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے۔۔

    اور ہاں اگر آپ کو اپنے سادہ لوح قارئین کی اتنی ہی فکر ہے تو ضروری نہیں‌ کہ لنک کھلے عام ہی دیا جائے ۔ذاتی پیغام سے بھی دیا جاسکتا ہے۔۔

    :suno:

    تاکہ ہم کو بھی پتا چلے کہ آپ لوگوں کا غصہ کس حد تک بجا ہے؟
     
  24. آبی ٹوکول
    Offline

    آبی ٹوکول ممبر

    محترم ہارڈ اسٹون صاحب صاحب!
    آپکے شیخ الاسلام کی حالت واضح ہوجانے کے بعد آپکی بھی حالت دیدنی ہوگئی ہے ۔
    حالانکہ ہم وضاحت کرچکے ہیں کہ ہم نے صرف انھی متقدمین علماء کے اقوال کو یہاں نقل کیا ہے کہ جن کا مطالعہ ہماری نظر سے علماء اہلسنت کی کتب کے حوالے سے گذر چکا تھا ۔ ۔ ۔ رہ گئی مذکورہ سائٹ کی بات تو اس میں سے بھی ہم نے صرف وہی اقوال نقل کیے جو ہمارے مطالعے گزرے تھے اور اس بات کی وضاحت ہم پیچھے کر چکے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔باقی ہم نے آپ کے شیخ الاسلام پر کوئی ذاتی تبصرہ نہیں کیا صرف اقوال ہی نقل کیئے ہیں اور الحمدللہ جن علماء کی کتابوں سے ہم نے پڑھے ہیں انکی تحقیق کی گواہی ایک عالم دیتا ہے ۔ ۔ ۔ باقی آپ زیادہ سیخ پاء نہ ہوں اور مسئلہ وحدۃ الوجود کی جو وضاحت ہم نے یہاں نقل کی ہے اس پر کوئی عقلی یا نقلی اعتراض ہے تو وہ نقل کریں باقی بحث کو چھوڑیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
     
  25. ہارڈاسٹون
    Offline

    ہارڈاسٹون ممبر


    نعیم بھائی چلئے ، آپ کو بھی چیلنج ہے

    ابن عربی ، احمد رضا خان فاضل بریلوی ، ڈاکٹر طاہر قادری کے بشمول علمائے اکابرین بریلویت کی کتابوں کے حوالے سے کوئی ایک ایسی تحریر پیش کر دیں جس میں امام ابن تیمیہ کی تکفیر کی گئی ہو۔
     
  26. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر


    نعیم بھائی چلئے ، آپ کو بھی چیلنج ہے

    ابن عربی ، احمد رضا خان فاضل بریلوی ، ڈاکٹر طاہر قادری کے بشمول علمائے اکابرین بریلویت کی کتابوں کے حوالے سے کوئی ایک ایسی تحریر پیش کر دیں جس میں امام ابن تیمیہ کی تکفیر کی گئی ہو۔[/quote:2lny93se]
    عقیدت نے آپکو اتنا اندھا کر دیا ہے کہ سارے کا سارا دین آپ کو ابنِ تیمیہ کے دفاع پر ہی مشتمل نظر آنے لگا ہے؟
    ذرا لڑی کے عنوان پر دھیان دیں ۔ ابنِ تیمیہ اور دیگر وہابیت و نجدیت کے علمبرداروں کی مدح سرائی کے لیے کوئی اور عنوان یا چوپال ڈھونڈیں۔
    اندھی عقیدت۔۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ یعنی قرآن و سنت کو نہیں دیکھنا اور جو کچھ امام ابنِ تیمیہ اور عبدالوہاب نجدی نے کہہ دیا ہے اس پر آنکھیں بند کر کے اعتماد کرلینا اور ساری زندگی انہی کے دفاع میں تقریریں و تحریرں پیش کیے جانا۔۔۔ اور اندھی تقلید کیا ہوتی ہے ؟؟؟
     
  27. آبی ٹوکول
    Offline

    آبی ٹوکول ممبر

    محترم ہم نے کوئی دعوٰی نہیں کیا ابن تیمیہ کی تکفیر کا اور نہ ہی ہمیں ایسے معاملات مین پڑھنے کا شوق ہے بات صرف اتنی تھی کہ یہاں پر ابن تیمیہ کے حوالے سے مسئلہ وحدۃ الوجود کے قائلین کو گمراہ کافی اور پتا نہیں کیا کیا کہا گیا تو ہم نے بطور آئنہ صرف ابن تیمیہ کے بارے میں جو اکابرین کے اقوالات تھے ان میں سے چند کو پیش کیا تاکہ ابن تیمیہ صاحب کی اپنی پوزیشن بھی واضح ہوسکے ۔ ۔ ۔ اب حالت یہ ہے کہ آپ بجائے مسئلہ وحدۃ الوجود پر ہماری وضاحت کے کچھ کہنے کہ ابن تیمیہ ابن تیمیہ کی گردان کیئے جارہے ہیں جیسے ان کا دفاع ضروریات دین میں سے ہو ۔ ۔ ۔ ۔
     
  28. آبی ٹوکول
    Offline

    آبی ٹوکول ممبر

    اور کیا وجہ ہے کہ آپ نے یہ مشورہ نیا آدمی صاحب کو نہیں دیا ؟کیا انھوں یہاں پوسٹنگ کرنے سے پہلے ساری کی ساری اصل کتب پڑھ رکھیں تھیں
     
  29. ہارڈاسٹون
    Offline

    ہارڈاسٹون ممبر

    یعنی اب بالآخر آپ نے قبول کر لیا کہ آپ کے شیخ الاسلام کی الادب المفرد والی ہوائیوں پر جب علمی گرفت کی گئی تھی تب آپ کی حالت دیدنی ہو گئی تھی۔ آخر دل کا غبار نکل آیا نا۔
    ویسے بھائی ، دیدنی حالت تو ہمیں آپ کی خود کی نظر آ رہی ہے۔ ہم نے ثبوت مانگا اور جواب میں آپ فرما رہے ہیں : جن علماء کی کتابوں سے ہم نے پڑھے ہیں انکی تحقیق کی گواہی ایک عالم دیتا ہے ۔ ۔ ۔ یعنی آپ نے صرف سنی سنائی بات کو آگے بڑھا دیا ہے اور اس تعلق سے جو حدیث ہے وہ بھی شائد آپ کے علم میں ہوگی
    میرے محترم ! یہ دفاع نہیں۔ بلکہ ان سادہ دل قارئین کو آئینہ دکھانا ہے کہ کس طرح ایک موضوع کی آڑ میں جھوٹے اور بےسند اقوال کا سہارا لے کر ائمہ دین کو متہم کیا جا رہا ہے یہاں پر۔
    موضوع سے متعلق تو ابن فارض کی ذات اور اس کے اقوال بھی تھے ، مگر آبی بھائی تو ابن فارض کا ایسا دفاع کر رہے ہیں کہ گویا یہ ان کے عقیدے کی اشد ضروریات میں سے ہو۔
    آبی بھائی۔ میرا خیال ہے آپ ذرا بوکھلا گئے ہیں۔ ورنہ اس قسم کا احمقانہ سوال ہی نہ کرتے۔
    نیا آدمی کو یہ مشورہ اس لئے نہیں دیا کہ انہوں نے ڈائرکٹ تصوف کے مبلغین کی کتب سے حوالوں کے ساتھ بات پیش کی۔ جبکہ آپ نے سنی سنائی بات کو آگے بڑھایا ہے اور ابھی تک اصل کتاب سے ثبوت نہیں دیا۔
     
  30. آبی ٹوکول
    Offline

    آبی ٹوکول ممبر

    Code:
    آپکے شیخ الاسلام کی حالت واضح ہوجانے کے بعد آپکی [color=Red]بھی[/color] حالت دیدنی ہوگئی ہے ۔[/quote]
    یعنی اب بالآخر آپ نے قبول کر لیا کہ آپ کے شیخ الاسلام کی الادب المفرد والی ہوائیوں پر جب علمی گرفت کی گئی تھی تب آپ کی حالت دیدنی ہو گئی تھی۔ آخر دل کا غبار نکل آیا نا۔
    پہلی بات تو یہ ہے کہ نہ میں منھاج القرآن سے ہوں اور نہ ہی میرا کسی بھی اور تنطیم سے تعلق ہے رہ گئی ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی بات تو ان کے علم و فضل کا معترف ہوں ضرور ہوں مگر اس کے باوجود مجھے بعض باتوں میں انکی تحقیق سے اختلاف ہے ۔
    اور رہ گئی [color=#FF0000:1b2flhnn]الادب المفرد [/color]والی بات تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ لوگوں کے البانی صاحب نے خیانت کی ہے اور چھانٹ چھانٹ کر اپنے عقیدے کے خلاف تمام احادیث کو علیحدہ کیا ہے ہاں البتہ یہ الگ بات ہے چونکہ دور جدید کے محدث ہیں موصوف اس لیے طریقہ کار بھی جدید استعمال کیا ہے یعنی صحاح ستہ سمیت دیگر کتب احادیث کو صحیح اور ضعیف میں تقسیم کرنا ۔ ۔ ۔کوشش تو بیچاروں نے بڑی کی ہوگئی کہ صحیح بخاری سے بھی ایسی تمام روایات چھانٹ چھانٹ کر نکال دی جائیں کہ جن سے عظمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار ہوتا ہو مگر چونکہ اس سے اپنی بھی لٹیا ڈبو جانے کا خطرہ تھا اس لیے امام بخاری کی صحیح بخش دیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    [code:1b2flhnn]ویسے بھائی ، دیدنی حالت تو ہمیں آپ کی خود کی نظر آ رہی ہے۔ ہم نے ثبوت مانگا اور جواب میں آپ فرما رہے ہیں : جن علماء کی کتابوں سے ہم نے پڑھے ہیں انکی تحقیق کی گواہی ایک عالم دیتا ہے ۔ ۔ ۔ یعنی آپ نے صرف سنی سنائی بات کو آگے بڑھا دیا ہے اور اس تعلق سے جو حدیث ہے وہ بھی شائد آپ کے علم میں ہوگی[/code]
    جی میرے محترم اسے سنی سنائی بات نہیں کہتے بلکہ کسی بھی معروف اور محقق عالم دین کی بات پر اعتماد کرکے بات کو آگے نقل کردینا کہتے ہیں اور ایسا تمام عالم میں ہوتا ہے اگر کہیں تو آپکے من پسند فورم سے آپ کے ممدوحین کی ایسی سینکڑوں پوسٹنگ دکھا دوں ؟اور اگر آپ نہ مانیں تو اس کا کوئی علاج کم از کم میرے پاس نہیں ہاں البتہ اتنا ضرور ہے کہ اس طرح تو پھرکسی بھی کتاب سے اقتباس نقل کرنا آپکے خود ساختہ فتوٰی سنی سنائی کے زد میں آجائے گا ۔ ۔ ۔ ۔

    [code:1b2flhnn]آبی بھائی۔ میرا خیال ہے آپ ذرا بوکھلا گئے ہیں۔ ورنہ اس قسم کا احمقانہ سوال ہی نہ کرتے۔
    نیا آدمی کو یہ مشورہ اس لئے نہیں دیا کہ انہوں نے ڈائرکٹ تصوف کے مبلغین کی کتب سے حوالوں کے ساتھ بات پیش کی۔ جبکہ آپ نے سنی سنائی بات کو آگے بڑھایا ہے اور ابھی تک اصل کتاب سے ثبوت نہیں دیا[/code]
    محترم بوکھلایا ہوا کون ہے ؟ یہ تو سب پر عیاں ۔ ۔ ۔ ۔ تو بقول آپکے محترم جناب نیا آدمی صاحب نے تمام کی تمام اصل کتابیں بمع ابن تیمیہ صاحب کی الرسائل والمسائل کے پرھ بھی رکھی تھیں اور سمجھ بھی رکھیں تھیں تو پھر کیا وھہ بنی کہ انھوں (یعنی نیا آدمی ) صاحب نے اپنی اس پڑھائی کے عظیم سورس کا تذکرہ یہاں نہیں کیا چلیں آپ کی ظیافت طبع کے لیے ہم یہاں آپکے ممدوح جناب نیا آدمی صاحب کی اصل کتابوں تک رسائی کے زریعے کی یہاں درج زیل لنک میں وضاحت کیے دیتے ہیں ۔ ۔ ۔
    http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=2412
    یہ ہے محترم باذوق صاحب کا لگایا ہوا آپکے ممدوحین کی ویب سائٹ پر وہ لنک کہ جس سے مواد کا اکثر حصہ لے کر یہاں شئر کیا گیا ۔
    [color=#FF0000:1b2flhnn]اور اب چونکہ یہ آپ کے ممدوحین کی ویب سائٹ کا لنک ہے اور وہاں پر کاپی پیسٹ ہونے والی ہر تحریر آپ کے لیے بعینہ قرآن و سنت ہی کا درجہ رکھتی ہے لہذا وہاں شئر کردہ ہر بات کو آپ کا بعینہ اصل کتاب کی معلومات قرار دینے پر مبنی آپ کے قول پر ہم آپکو معذور سمجھنے پر مجبور ہیں[/color]
     

Share This Page