1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

یادوں کی پٹاری پارٹ 1

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از ھارون رشید, ‏25 جنوری 2007۔

  1. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    عظیم نے مزید کہا کہ بھائی !!!! باجی نے بتایا کہ انہوں نے زادیہ پر زور دیا کہ اب یہاں پر ھمیں کوئی پوچھنے والا نہیں ھے، خدارا اس رشتہ پر راضی ھوجاؤ، اور پھر ھم تینوں ساتھ ھی ویزے آنے کے بعد دبئی شفٹ ھوجائیں گے، مگر زادیہ مان کر ھی نہیں دیتی تھی آخر ماں کے زد اور رونے دھونے سے شاید زادیہ راضی ھوگئی تھی، پھر زادیہ کا اس آدمی کے ساتھ صرف نکاح کردیا اس شرط پر کہ جب وہ تینوں کے ویزے لے کر آئے گا تو ھی ھم اس کی رخصتی کریں گے، اور پھر وہ آدمی نکاح کرکے نکاح نامہ کی کاپی لے کر واپس دبئی چلا گیا، اور اس کے بعد انکے چچا نے دبئی سے ٹیلیفون کرکے تسلی بھی دی کہ وہ آپ سب کے ویزوں کا بندوبست کررھے ھیں اور جلد ھی زادیہ کا دولہا آپ سب کو لے آئے گا،!!!!!

    میں تو یہ سب کچھ میرے کزن عظیم کی زبانی سن کر بہت ھی زیادہ پریشان ھوگیا، اور افسوس اس بات کا تھا کہ مجھے پنڈی سے آئے ھوئے بھی ڈیڑھ سال سے بھی زیادہ عرصہ ھوگیا تھا لیکن مجھے کہیں سے بھی پتہ نہیں چل سکا کہ اتنا سب کچھ ھوگیا، جس کی خبر مجھ تک نہ پہنچ سکی، میں انکے والد کے ڈر سے ھی نہیں جارھا تھا اور نہ ھی اس بارے میں مجھے ان لوگوں نے اطلاع دی تھی، نہ جانے ان لوگوں کے دماغ میں کیا چل رھا تھا، مجھے یہ سن کر بہت بڑا صدمہ پہنچا تھا کہ جس ظرح مجھے آج اطلاع بھیجی ھے اس طرح پہلے بھی یہ لوگ کر سکتے تھے، اور خالو کے انتقال کی خبر تو کم از کم مجھے دے ھی سکتے تھے کہ میں ان کے جنازے کو کاندھا اگر نہ دے سکتا تھا تو کم از کم ان کی تعزیت کیلئے تو پہنچ سکتا تھا، انکے لئے میں دعائیں تو کر ھی سکتا تھا، وہ چاھے میرے کتنے ھی کیوں نہ خلاف تھے، لیکں میں انہیں اپنے دل میں ایک عزت کا مقام دیتا تھا کیونکہ میں اپنے بچپن سے جوانی کی حدود تک ان کی خدمات اور میرے لئے پیار اور خلوص کو کبھی نہیں بھول سکتا تھا، اور انکی مجھ سے ناراضگی بھی اپنی جگہ بالکل صحیح تھی!!!!!

    اور نہ جانے کتنے سوال میرے ذہن میں گھوم رھے تھے، صرف ایک مرد کا سہارا حاصل کرنے کیلئے زادیہ کی قربانی کیوں دی گئی اور اگر اس کی قربانی دینے سے پہلے اگر مجھے بتادیتے تو میں بھی شاید ان کے لئے ایک سہارا بن سکتا تھا، اگر میں اس وقت ان کے لئے کچھ نہ کرپاتا تو وہ پھر یہ قدم اٹھا سکتے تھے، اور ایک بات اور عظیم نے بتائی جو شاید پہلے بتانا نہیں چاھتا تھا، کہ میں کچھ زیادہ افسردہ نہ ھوجاؤں، لیکن اس نے مزید مجھ سے کہا کہ بھائی ایک بات اور ھے کہ میرے خیال میں زادیہ کے شوھر نے ان سب کو دھوکا دیا ھے،!!! وہ کیا، میں نے بے چینی کے عالم میں اس سے پوچھا، !!! اس نے کہا کہ وہ آدمی جب نکاح نامہ لے کر گیا تو شاید پندرہ بیس دنوں کے بعد صرف زادیہ کا ھی ویزہ لے کر آیا، اور باقی دونوں کا نہیں، جبکہ اس نے اور انکے وہاں چچا نے یہ مکمل یقین دلایا تھا کہ وہ تینوں کے ویزوں ‌کا بندوبست کررھے ھیں اور سب کے کوائف پاسپورٹ اور سارے ضروری دستاویرات بمعہ شناختی کارڈ کی کاپیاں عربی ترجمہ کے ساتھ اور زادیہ کا نکاح نامہ وغیرہ سب کچھ ساتھ لے گیا تھا!!!!!!

    عظیم نے بات کو مزید بڑھاتے ھوئے کہا کہ جب وہ دولہا میاں دبئی سے واپس آئے تو صرف زادیہ کا ھی ویزا اس کے ھاتھ میں تھا، انہوں نے پوچھا کہ یہ کیا چکر ھے باقی ویزے کہاں ھیں،!!!! تو اس نے جواب دیا کہ جب تک زادیہ دبئی میں نہیں پہنچے گی ویزے کی کاروائی نہیں ھوسکتی، کیونکہ وہاں سے زادیہ کے اقامہ کی تصدیق نامہ کے ساتھ ھی اسکی ماں اور بہن کا ویزا نکالا جاسکتا ھے، ورنہ بہت مشکل ھے،!!!! اور اس نے ان سے یہ بھی کہا کہ اسنے اپنی ھر ممکن کوشش کی ھے لیکن افسوس کامیابی نہیں ھوئی، یا پھر آپکو اس کی بڑی بہن کا رشتہ وہیں دبئی یا شارجہ یا پھر ابوظہبی میں چچا کو کہہ کر کرادیں تو یہ بھی وھاں جا سکتی ھیں، جب تک آپ کے یعنی انکی والدہ کا بندوبست ھو جائے گا، اب انکی والدہ دوسری بیٹی شادی کیلئے اور مزید انتظار نہیں کرسکتی تھیں، اسلئے ان دونوں نے زادیہ پر شاید زور دیا ھوگا یا زادیہ خود ھی مان گئی ھوگی اور دونوں نے یہی سوچا ھوگا کہ ٹھیک ھے زادیہ کو رخصت کردیتے ھیں اس کے بعد جیسے ھی ویزے کا بندوبست ھوجائے گا پھر ھم دونوں چلے جائیں گے، !!!!!

    پھر کیا ھوا میں نے عظیم سے پوچھا،!!!! اس نے کہا کہ زادیہ کو یہاں سے رخصت ھوئے دو مہینے ھوگئے ھیں، اور اسکے بعد سے ویزا تو دور کی بات ھے، نہ تو کوئی زادیہ کی ان سے خط و کتابت ھے اور نہ ھی کوئی ٹیلیفون یا ٹیلیگرام آیا ھے، انہوں نے اس دولہا میاں کے بتائے ھوئے ایڈریس اور اسکے گھر کے نمبر پر ٹیلیفون پر رابطہ بھی کیا لیکن وہ نمبر ھی شاید غلط تھا یا وہ لوگ کہیں اور شفٹ ھوگئے تھے، ان کے چچا سے بھی ٹیلیفون پر رابطہ کیا انہوں نے بس یہی کہا !!!! کہ فکر نہیں کرو زادیہ بالکل خیریت سے ھے اور وہ آپ دونوں کے ویزوں کا بندوبست کررھی ھے، جیسے ھی ویزا مل جائے گا تو آپ دونوں کو بلوا لیں گے، اس طرح چچا نے تسلی بھی دے دی،!!!!!!! جب انہوں نے کہا کہ کم از کم ھماری زادیہ سے بات تو کرادو یا کوئی صحیح ٹیلیفون نمبر تو دے دو !!!!!!! تو انہوں جواب دیا کہ میں تو 300 کلومیٹر دور ابوظہبی میں رھتا ھوں اور زادیہ شارجہ میں شفٹ ھوگئی ھے، جس کی وجہ سے فی الحال یہ ممکن نہیں ھے، جیسے ھی میں وہاں جاؤں گا آپ لوگوں سے میں خود آپ دونوں کی زادیہ سے بات کرادوں گا وہ اب جس جگہ شفٹ ھوگئی ھیں، وھاں پر ابھی ٹیلیفوں کا کنکشن نہیں ھے، جیسے ھی ٹیلیفون لگ جائے گا میں فوراً ھی اپکو اطلاع کردونگا !!!!!!!

    اس کے بعد عظیم خاموش ھوگیا تھا، اور یہی کہا کہ یہ اب تک کی آخری اطلاعات ھیں، اور اب شاید وہ بہت زیادہ پریشان اسلئے ھیں کہ ھوسکتا ھے کہ اب شاید ان حالات میں تمھاری یاد آرھی ھو، اور انہیں تمھاری مدد کی ضرورت ھو، اس نے طنزیہ انداز میں کہا،!!!!! مجھے اس کا یہ انداز پسند نہیں آیا، لیکن میں اسکا احسان مند تھا کہ اس نے مجھے یہ تمام معلومات اپنی ایمانداری سے مجھ تک پہنچائی، حالانکہ اس نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ باجی نے اسے بالکل منع کیا تھا یہ ساری تفصیل بتانے کیلئے، !!!!!!! میں تو عظیم کی زبانی یہ تفصیل سن کر حیران اور پریشان رہ گیا، اور میں نے اس سے دوبارہ ھر بات کی تصدیق بھی کی اور اسی دن آفس کے فوراً بعد سیدھا ان کے گھر پہنچا اور موٹر سائیکل ایک طرف کھڑی کرکے ان کی انہیں سیڑھیوں پر پھر ایک بار آہستہ آہستہ چڑھ رھا تھا، جہاں سے دو بار ذلیل ھو کر واپس آیا تھا، !!!!!!!!
    -----------------------------------------------------

    اس کے بعد عظیم خاموش ھوگیا تھا، اور یہی کہا کہ یہ اب تک کی آخری اطلاعات ھیں، اور اب شاید وہ بہت زیادہ پریشان اسلئے ھیں کہ ھوسکتا ھے کہ اب شاید ان حالات میں تمھاری یاد آرھی ھو، اور انہیں تمھاری مدد کی ضرورت ھو، اس نے طنزیہ انداز میں کہا،!!!!! مجھے اس کا یہ انداز پسند نہیں آیا، لیکن میں اسکا احسان مند تھا کہ اس نے مجھے یہ تمام معلومات اپنی ایمانداری سے مجھ تک پہنچائی، حالانکہ اس نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ باجی نے اسے بالکل منع کیا تھا یہ ساری تفصیل بتانے کیلئے، !!!!!!! میں تو عظیم کی زبانی یہ تفصیل سن کر حیران اور پریشان رہ گیا، اور میں نے اس سے دوبارہ ھر بات کی تصدیق بھی کی اور اسی دن آفس کے فوراً بعد سیدھا ان کے گھر پہنچا اور موٹر سائیکل ایک طرف کھڑی کرکے ان کی انہیں سیڑھیوں پر پھر ایک بار آہستہ آہستہ چڑھ رھا تھا، جہاں سے دو بار ذلیل ھو کر واپس آیا تھا، !!!!!!!!

    دروازے پر آہستہ سے دستک دی تو فوراً ھی دروازہ کھلا اور سامنے وہاں کے مالک مکان کو پایا، جو مجھے جانتے بھی تھے اور بہت ھی اچھی اور بااخلاق فیملی تھی، سلام دعاء کے بعد انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم کہاں تھے اتنے عرصہ تک تم نے اپنی خالہ کی خبر تک نہ لی بہت افسوس ھے،!!! میں نے جواب دیا کہ مجھے کسی نے اطلاع ھی نہیں ‌دی، آج ھی مجھے سب کچھ معلوم ھوا ھے، تو میں فوراً ھی حاضر ھوگیا ھوں، مگر یہ لوگ کہاں گئے !!!! انہوں نے جوب دیا کہ برابر میں جو گیسٹ روم ھے وہاں پر شفٹ ھوگئے ھیں، !!! میں نے ان سے اجازت طلب کی اور برابر کے گیسٹ روم کا دروازہ کھٹکھٹایا، دروازہ کھلا اور سامنے باجی کو پایا، اور میں اندر پہنچا تو خالہ جان نے مجھے گلے لگایا اور اور خوب رونے لگیں، اور بس روتے روتے وہ بہت کچھ کہہ رھی تھیں، جو مجھے پہلے ھی سے معلوم تھا، اور باجی ایک طرف منہ کئے ھوئے خاموش بیٹھی تھیں، جیسے مجھ سے ناراض ھوں !!!!!!!

    میں نے خالہ کو دلاسہ دیتے ھوئے کہا کہ اب میں آگیا ھوں اپکی ساری پریشانیاں دور ھوجائیں گی فکر نہ کریں، مگر مجھے صرف یہ بتادیں کہ یہ سب کچھ ھوگیا اور آپ لوگوں نے مجھے کچھ بتانا بھی گوارہ نہیں کیا، کم از کم مجھے کسی کے ذریعے بھی پیغام بھجوا سکتے تھے!!!! باجی نے ذرا غصے کے موڈ میں کہا کہ تم تو راولپنڈی میں تھے اور تمھیں ھم نے ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا، اور کرکے بھی کیا فائدہ تھا!!!! میں نے بھی پوچھا، کیوں اس کی کیا وجہ تھی میں نے پنڈی سے خط بھی لکھا تھا اس میں میرے آفس کا فون نمبر بھی تھا، کم از کم خالو کی وفات پر تو مجھے فون کرسکتی تھیں !!!! باجی نے کہا کہ میں نے وھاں بھی تمھیں ٹیلیفون کیا تھا، پتہ چلا تھا کہ تمھارا کراچی ٹرانسفر ھوگیا ھے اور اس کے علاوہ تمھارے گھر بھی پیغام بھیجا تھا، اور تمھارے کراچی کے آفس میں بھی فون کیا تھا، انہوں نے کہا کہ اس نام کا کوئی بندہ یہاں کام نہیں کرتا ھے !!!! میں نے جوب دیا کہ مجھے کوئی بھی کسی قسم کی اطلاع تمھاری طرف سے نہیں ملی، نہ گھر پر نہ آفس میں، آج ھی عظیم نے آکر مجھے بتایا ھے تو میں چلا آیا ھوں!!!!

    پھر ان دونوں نے ساری شروع سے لیکر اب تک کی داستان ھو بہو وھی سنادی، جو مجھے عظیم نے بیان کی تھی، اور کہا کہ جب سے زادیہ گئی ھے، اس کی کوئی اطلاع نہیں ھے، اور جو کچھ بھی جمع پونجی تھی بالکل ختم ھونےکو ھے، جو بھی تمھارے خالو کے انتقال کے بعد ھمارے حصے میں گاڑی بیچ کر جو بھی رقم آئی تھی، اس میں سے کچھ زادیہ کی شادی اور دوسرے گھر کے اخراجات میں خرچ ھوگئے، اور بس آگے کچھ نہیں بچا ھم سب لٹ گئے، برباد ھوگئے، اور ھماری بیٹی بھی چلی گئ اور پھر خالہ جان نے رونا شروع کردیا، !!!! میں نے باجی سے پھر یہ پوچھا کہ یہ سب کچھ کس کے مشورے پر کیا تھا!!!! باجی نے جوب دیا کہ ھمارے چچا جو ابوظہبی میں ھیں، ان سے کہا تھا کہ ابو کے انتقال کے بعد اب ھمارا یہاں کوئی نہیں ھے، ھمارے لئے کچھ کریں تو ھمیں انہوں نے کہا کہ میں آپ دونوں بہنوں کے لئے رشتہ یہاں پر کرواتا ھوں اور یہی ایک صورت ھے کہ آپ تینوں یہاں پر آسکتی ھیں، !!!!! میں نے بس اتنا کہا کہ پھر تم نے اپنے آپ کو بچا لیا اور زادیہ کو اس آگ میں جھونک دیا، !!!!باجی نے پھر قسم کھاتے ھوئے کہا کہ میرے لئے ھی اس خبیث کا رشتہ آیا تھا لیکن اس نے میرے بجائے زادیہ کو ھی پسند کیا تو ھم نے مجبور ھو کر کیونکہ اور کوئی راستہ ھمارے پاس نہیں تھا زادیہ کو ھی اس شادی کے لئے راضی کرھی لیا!!!!!!!

    میں نے پوچھا کہ اب بتاؤ کیا کرنا ھے، اب جو ھو چکا اسے تقدیر کا فیصلہ سمجھ کر اللٌہ سے یہی دعاء کرتی رھو کہ کوئی بہتر صورت نکل آئے، میرے آنے سے انہیں کچھ سکون ملا اور جو کچھ بھی ھوا مجھے اس کا علم نہیں تھا، ورنہ ھوسکتا تھا کہ میں ان کے لئے ایک سہارا بن سکتا تھا بس کیا کریں اللٌہ کو یہی منظور تھا، انکی اماں نے کہا کہ مجھے کسی طرح سے بھی میری بچی سے بات کرادو، میں نے کہا کہ کل شام کو چلتے ھیں ٹیلفون کے آفس پھر وہاں سے کوشش کرتے ھیں پھر انہوں نے کہا کہ چچا کے علاوہ اور کسی کا نمبر نہیں ھے، خیر سب سے پہلے تو گھر کی ضرورت کی چیزیں انہیں بازار سے لاکر دیں، اور پھر میں واپس اپنے گھر کے لئے موٹر سائیکل چلاتا ھوا روانہ ھوگیا، اور راستہ بھر زادیہ کی تقدیر اور اپنی قسمت پر افسوس کرتا رھا، کہ انسان سوچتا کچھ ھے اور ھوتا وھی ھے جو اللٌہ چاھتا ھے، اور اس بھی اسی کی کوئی مصلحت پوشیدہ ھوتی ھے!!!!!

    کاش میں وقت پر پہنچ جاتا، حالانکہ میں نے کئی دفعہ کوشش بھی کی، لیکن ھر دفعہ خالو کے ڈر سے جانے سے گھبراتا تھا، کیونکہ انہوں نے آخری بار جس طرح میرے انکے گھر جانے پر باجی کو تھپڑ مارا تھا اور ان سے یہی کہا تھا کہ میں آئندہ اس لڑکے کو اس گھر میں کبھی بھی نہیں دیکھنا چاھتا، میں وہ واقعہ زندگی بھر بھول نہیں سکتا تھا، اور جسکی وجہ سے میری بالکل ھمت ھی نہیں پڑی کہ میں دوبارہ جاسکوں، لیکن اب مجھے بہت ھی دکھ ھو رھا تھا کہ کاش ایک دفعہ تو چکر لگالیتا، میں یہ چاھتا تھا کہ کسی طرح بھی ایک بار زادیہ سے مل کر اس کے منہ سے اپنے بارے میں سن لوں کہ وہ مجھے کس روپ میں دیکھنا پسند کرتی ھے، تو اسی وقت شاید فیصلہ ھو جاتا، خیر اب جو ھونا تھا وہ تو ھو چکا، اب آگے کی سوچنا ھے کہ زادیہ کے ساتھ کیا مشکل پیش آرھی ھے جس کی وجہ سے وہ گھر پر رابطہ کر نہیں پا رھی،!!!!!!!
    -----------------------------------------------
    کاش میں وقت پر پہنچ جاتا، حالانکہ میں نے کئی دفعہ کوشش بھی کی، لیکن ھر دفعہ خالو کے ڈر سے جانے سے گھبراتا تھا، کیونکہ انہوں نے آخری بار جس طرح میرے انکے گھر جانے پر باجی کو تھپڑ مارا تھا اور ان سے یہی کہا تھا کہ میں آئندہ اس لڑکے کو اس گھر میں کبھی بھی نہیں دیکھنا چاھتا، میں وہ واقعہ زندگی بھر بھول نہیں سکتا تھا، اور جسکی وجہ سے میری بالکل ھمت ھی نہیں پڑی کہ میں دوبارہ جاسکوں، لیکن اب مجھے بہت ھی دکھ ھو رھا تھا کہ کاش ایک دفعہ تو چکر لگالیتا، میں یہ چاھتا تھا کہ کسی طرح بھی ایک بار زادیہ سے مل کر اس کے منہ سے اپنے بارے میں سن لوں کہ وہ مجھے کس روپ میں دیکھنا پسند کرتی ھے، تو اسی وقت شاید فیصلہ ھو جاتا، خیر اب جو ھونا تھا وہ تو ھو چکا، اب آگے کی سوچنا ھے کہ زادیہ کے ساتھ کیا مشکل پیش آرھی ھے جس کی وجہ سے وہ گھر پر رابطہ کر نہیں پا رھی،!!!!!!!

    رات بھر میں سو ھی نہیں سکا، اور زادیہ کے بارے میں ھی سوچتا رھا، کہ نہ جانے وہ کس حالت میں ھوگی، میں تو یہی چاھتا تھا کہ وہ جہاں بھی رھے خوش رھے، اس پر کوئی آنچ نہ آئے، اس کی شادی ھوگئی تھی، یہ سن کر مجھے ایک زبردست دھچکہ لگا ضرور تھا، لیکن اللٌہ تعالی کے فیصلے سے کون انکار کرسکتا ھے، اس کے لئے میں ھر وقت یہی دعاء کرتا ھوں کہ اللٌہ تعالی اسے ھمیشہ اپنے حفظ و امان میں اور خوش رکھے رکھے آمین !!!!!! ویسے بھی مجھ سے کسی کا بھی دکھ اور تکلیف نہیں دیکھی جاتی، چاھے وہ اپنے ھوں یا کوئی غیر ھی کیوں نہ ھوں اور میری کوشش یہی ھوتی ھے کہ جو کچھ بھی میرے بس میں ھے یا میں جس حد تک کسی کی کوئی مدد کرسکتا ھوں میں اس سے پیچھے نہیں ھٹتا، چاھے اس کے لئے مجھے کتنی ھی پریشانی کیوں نہ اٹھانی پڑی،!!!!!!

    دوسرے دن میں کچھ دیر سے اٹھا، اور دفتر نہ جاسکا، کیونکہ صبح کے وقت ھی آنکھ لگی تھی اور ہلکی سی حرارت بھی تھی، اس لئے والد صاحب نے مجھے اٹھایا بھی نہیں، اور شاید انہوں نے جاکر میرے آفس میں ٹیلیفون کرکے بتا بھی دیا ھوگا، میں دوپہر کے کھانے کے وقت اٹھا اور نہا دھو کر تیار ھوا اور کھانا جلدی جلدی کھا کر باھر صحن میں موٹر سائیکل کو اسٹارٹ کیا، اور زادیہ کے گھر چل دیا، گھر پہنچا تو پہلے میں نے باجی اور خالہ سے پوچھا کہ کچھ منگوانا تو نہیں، انہوں نے منع کردیا تو پھر میں نے ان سے پوچھا، کیا ارادہ ھے چلنا ھے ٹیلیفون اکسچینج میں تاکہ ابوظہبی میں اپنے چچا کو ٹیلیفون کرسکو، تو انہوں نے جواب دیا کہ ھاں چلتے ھیں، اور ان دونوں کے چہرے پر افسردی کے آثار ھی نظر آئے، میں نے پوچھا کہ کیا بات ھوگئی، تو خالہ رونے لگیں،!!!! باجی نے کہا کہ آج ھی زادیہ کا خط ملا ھے، اور وہاں بہت پریشان ھے، اسکا شوھر اسے بہت تنگ کرتا ھے، اسے کسی سے ملنے بھی نہیں دیتا اور ھمیشہ گھر کا دروازہ باھر سے تالا لگا کر جاتا ھے، اور یہ خط بہت مشکل سے لکھ کر اس نے نہ جانے کوئی موقعہ دیکھ کر کسی کے ذرئعے پوسٹ کرایا تھا اور نئے گھر کا بھی اس نے ٹیلیفون نمبر لکھ کر بھیجا ھے مگر وہ وہاں سے ٹیلیفون نہیں کرسکتی، مگر وقت کا دورانیہ لکھ دیا تھا کہ اس وقت آپ لوگ ٹیلیفون کرسکتے ھیں اور اس نے تسلی دی ھے کہ فکر نہ کریں میں کسی نہ کسی طرح کوشش کرکے واپس پاکستان آنے کی کوشش کروں گی،!!!!!!

    میں یہ تو جانتا تھا کہ وہ بہت بہادر اور نڈر تھی اور ساتھ ھی بہت ھوشیار اور عقلمند بھی تھی، مجھے امید تھی کہ وہ اپنی ھر ممکن طریقے سے اپنے لئے کوئی نہ کوئی بہتر صورت ضرور نکالے گی، یہ شادی کا فیصلہ اس نے گھر کی بہتری کے لئے کیا تھا لیکن یہ اندازہ نہیں کرسکی تھی کہ اس کے ساتھ ایسا دھوکا بھی ھوسکتا تھا، وہاں پر انکے چچا کے بھروسے پر ھی یہ قدم اٹھایا تھا جبکہ انہوں نے اپنے کسی وعدہ کا لحاظ نہیں رکھا اور نہ ھی زادیہ کی انہوں کوئی خبر لی، جس کا سب کو افسوس تھا،!!!!!

    مکان مالک کی فیملی بھی پہت اچھی تھی انہوں نے بھی یہ یقین دلایا تھا کہ کسی بھی صورت میں قانونی کاروائی بھی اگر کرنا پڑی تو وہ زادیہ کیلئے ھر ممکن کوشش کرکے اسے وہاں سے بلوانے کی کوشش کریں گے چاھے انکو وھاں پر جانا ھی کیوں نہ پڑے، ان کی اس بات سے بھی کافی حوصلہ ملا، جب سے انکے والد کا انتقال ھوا تھا وہ لوگ اب ان سے مکان کا کرایہ بھی نہیں لیتے تھے، جبکہ وہ اسی مکان میں شفٹ بھی ھوگئے تھے اور اپنا گیسٹ روم ان دونوں ماں بیٹی کو دے دیا تھا، جس کا دروازہ الگ ھی باھر کی ظرف کھلتا تھا، جس میں ایک چھوٹا سا بیڈروم اور ایک علیحدہ کمرہ جسے بیٹھک کے طور پر استعمال کرتے تھے، اسکے ساتھ ھی چھوٹا کچن اور اٹیچ باتھ روم تھا، جو ان دونوں کےلئے کافی تھا اور ھر ممکن وہ لوگ مدد بھی کرتے رھے، اور مجھ سے بھی جو کچھ بن پڑا میں نے کیا جو کہ میری ایک اخلاقی ذمہ داری بھی تھی،!!!!!

    1977 کے سال کے آخیر کا دور چل رھا تھا اور سردیوں کی آمد آمد تھی، میں نے ان دونوں سے کہا کہ وہ موٹر رکشہ میں بیٹھ کر ٹیلیفون اکسچینج پہنچیں اور میں موٹر سائیکل پر آتا ھوں، میں سیدھا ان کے موٹررکشے کے پیچھے پیچھے اکسچینج پہنچ گیا، اور وہاں پر شارجہ کیلئے زادیہ سے بات کرنے کیلئے 10 منٹ کی کال بک کرائی، اور ایڈوانس پیسے ھی جمع کروا دئیے، تقریباً 15 منٹ کے انتظار کے بعد شکر ھے کہ کال مل گئی، میں نے ان دونوں کو آپریٹر کے بتائے ھوئے بوتھ میں بھیج دیا جس میں ایک شیشے کا دروازہ لگا ھوا تھا، انہوں نے اس کو بند کرکے ٹیلفون کا رسیور اٹھا لیا، میں الگ سے انتظار گاہ میں بیٹھا ھوا تھا جہاں سامنے ھی بوتھ تھے، اور میں باقاعدہ انہیں دیکھ بھی رھا تھا اور لگتا تھا کہ ان کی زادیہ سے بات ھو رھی ھے باجی نے مجھے اشارے سے بلایا بھی مگر میں نے انکار کردیا، مجھے دل میں کچھ سکون محسوس ھوا کہ ان دونوں کی بات چیت ھورھی ھے !!!!!!!

    جب وہ دونوں بوتھ سے فارغ ھو کر باھر نکلیں تو ان دونوں کے چہرے پر اطمنان کے تاثرات نظر آرھے تھے، مجھے بھی خوشی ھوئی، اور پھر وہاں سے سیدھے گھر واپس آئے اور پھر انہوں نے تسلی سے جو کچھ بات ھوئی مختصراً بتایا کہ وہ کوشش کررھی ھے کہ کسی نہ کسی طرح وہ پاکستان آجائے اور جب تک سب کے ویزوں کا بندوبست نہیں ھوجاتا وہ وھاں واپس نہیں جائے گی، میرا بھی انہوں نے زادیہ سے ذکر کردیا تھا، لیکن زادیہ کے میرے بارے میں کیا تاثرات کیا تھے مجھے انہوں نے نہیں بتایا اور نہ ھی میں نے کچھ پوچھا لیکن جب دوسری دفعہ زادیہ کا خط آیا تو باجی اس کو دل میں ھی پڑھ رھی تھی اور اتفاقاً میری نظر اس خط کے پچھلے صفحہ پر پڑی جس کی دو لائنیں میں نے پڑھ لیں جو کہ بہت ھی بری بات تھی، لیکن بس دل سے مجبور تھا، اس میں جو لکھا کچھ یوں تھا کہ “سید کو آپ لوگوں نے بلا تو لیا ھے لیکن ان کو اس کے بدلے میں اب کیا دیں گی“ !!!!!

    اس کا مظلب اس وقت میری کچھ سمجھ میں نہیں آیا، اور مجھے کچھ جاننے کی ضرورت بھی نہیں تھی، میں بھی اب یہی چاھتا تھا کہ کسی ظرح بھی یہ سب وہیں اپنے چچا کے پاس چلی جائیں، مگر جب ان کا کوئی فیصلہ نہیں ھو جاتا میں ان کی ھر ممکن مدد کرتا رھونگا، اور اسی طرح ان کی خط وکتابت بھی شروع ھوگئی، اور ساتھ ھی ان کے چچا سے بھی ٹیلیفون کا سلسلہ بحال ھوگیا اور ساتھ ھی زادیہ سے بھی اکثر میں وھاں اکسچینج میں اُن دونوں کو لے جا کر بات بھی کرا دیا کرتا تھا، اور ایک دن خوشخبری مل گئی کہ اس کے شوھر نے رضامندی ظاھر کردی ھے کہ کچھ دنوں کے لئے پاکستان جاسکتی ھو، مگر فوراً واپس آنا ھوگا، اور وہ اُدھر واپس آنے کی تیاری کرھی تھی اور اِدھر دونوں بہت ھی زیادہ خوش تھیں،!!!!!

    1978 کا شروع اور شپ یارڈ کا کام ختم ھوچکا تھا پھر کمپنی نے مجھے پورٹ قاسم کے پروجیکٹ پر ٹرانسفر کردیا جہاں پر اس وقت ریگستان اور سمندر کے علاؤہ کچھ نہیں تھا، مجھے اور ایک انجینئیر کو ایک ٹینٹ لگا کر دے دیا تھا اور ساتھ ایک ٹینٹ میں ایک اسٹور تھا جسے میرے ایک پرانے دوست شاھد عباس کو اسٹور انچارج بنا کر بھیجا تھا، ھم دونوں کو اسٹارٹ میں بہت مشکل پیش آئی، اسکی وجہ یہ تھی کہ وہاں پر کئی بلڈوزر زمین کو برابر کرنے میں لگے ھوئے تھے، اور ھمیں کرسی پر پیر رکھ بیٹھ کر کام کرنا پڑتا تھا کیونکہ اکثر سانپ اور بچھو زمیں پر ٹہلتے رھتے تھے اور ٹینٹ میں ایک پانی پینے کیلئے ایک مٹکا تھا، وہ رینگتے ھوئے اس مٹکے کے نیچے جمع ھوجاتے تھے، ان سے بہت ڈر لگتا تھا اور اب تو سردیاں بھی ختم ھوچکی تھیں، اور گرمیاں شروع ھورھی تھیں!!!!!

    لیکن جب آفس تیار ھوگئے تو کچھ ھماری جان میں جان آئی، اور پھر باقی تمام اسٹاف بھی آگئے، میں یہاں موٹر سائیکل نہیں لاتا تھا، کیونکہ کمپنی کی گاڑی مجھے گھر پر لینے آتی تھی، یہاں سے واپسی پر گھر جاکر میں اپنی حالت درست کرتا پھر موٹرسائیکل اسٹارٹ کرکے سیدھا باجی کے یہاں چلا جاتا اور انکی ضرورت کی چیزیں بازار سے لا کر دیتا اور باجی کو روزانہ اپنی موٹر سائیکل پر بٹھا کر گھماتا بھی رھتا، تاکہ ان کا دل بھی بہلا رھے، آخر وہ دن بھی آگیا جس دن فلائیٹ سے زادیہ شارجہ سے کراچی پہنچنے والی تھی، میں نے تو معمول کے مطابق موٹر سائیکل پر باجی کو پیچھے بٹھایا، اور انکی والدہ تو مکان مالک کی فیملی کے ساتھ کار میں بیٹھ گئیں اور ھم سب ائرپورٹ کی طرف چل دئے اور ایک اور کار میں انکے پڑوس کی بھی تھی اور اس ظرح ایک چھوٹا سا قافلہ ائرپورٹ کی طرف روانہ ھوگیا !!!!!!!
     
  2. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    لیکن جب آفس تیار ھوگئے تو کچھ ھماری جان میں جان آئی، اور پھر باقی تمام اسٹاف بھی آگئے، میں یہاں موٹر سائیکل نہیں لاتا تھا، کیونکہ کمپنی کی گاڑی مجھے گھر پر لینے آتی تھی، یہاں سے واپسی پر گھر جاکر میں اپنی حالت درست کرتا پھر موٹرسائیکل اسٹارٹ کرکے سیدھا باجی کے یہاں چلا جاتا اور انکی ضرورت کی چیزیں بازار سے لا کر دیتا اور باجی کو روزانہ اپنی موٹر سائیکل پر بٹھا کر گھماتا بھی رھتا، تاکہ ان کا دل بھی بہلا رھے، آخر وہ دن بھی آگیا جس دن فلائیٹ سے زادیہ شارجہ سے کراچی پہنچنے والی تھی، میں نے تو معمول کے مطابق موٹر سائیکل پر باجی کو پیچھے بٹھایا، اور انکی والدہ تو مکان مالک کی فیملی کے ساتھ کار میں بیٹھ گئیں اور ھم سب ائرپورٹ کی طرف چل دئے اور ایک اور کار میں انکے پڑوس کی بھی تھی اور اس ظرح ایک چھوٹا سا قافلہ ائرپورٹ کی طرف روانہ ھوگیا !!!!!!!

    آج کوئی آنے والا تھا، میں ایک عجیب سی کشمکش میں تھا کہ میں اسے کس رشتہ سے پکاروں گا ایک دوست کی حیثیت سے یا کچھ اور!!!! لیکن کسی اور طرح سے سوچنا تو کوئی اچھی بات نہیں تھی، اب وہ کسی اور کی ھو چکی تھی، اور اب اس پر شرعاً کسی اور کا حق تھا، بار بار میرے دماغ میں نہ جانے کیا کیا الجھنیں مچل رھی تھی، وہاں ائرپورٹ پر اسکی سہیلیاں جو آس پاس رھتی تھیں سب ھی آئی ھوئی تھیں اور انکے مکان مالک کی پوری فیملی بھی موجود تھی، اور ابھی تک مطلوبہ فلائٹ نے لینڈ نہیں کیا تھا، سب اپنی اپنی باتوں میں لگے ھوئے تھے، اور میں زادیہ کی ایک سہیلی کے بڑے بھائی کے ساتھ ھی الگ ایک طرف ھی کھڑا ھوا تھا، جو بعد میں میرا اچھا دوست بن گیا تھا اور نظریں فلائٹ انفارمیشن بورڈ پر ھی تھیں،

    اچانک ایک اناؤنسمنٹ سنائی دی کہ دبئی سے آنے والا جہاز لینڈ کرچکا ھے، اور بورڈ پر بھی اطلاع آگئی تھی، زادیہ کو دیکھنے کیلئے آنکھیں کچھ بے چین سی تھیں، بس میں دور سے ھی کھڑا آنے والے مسافروں کو دیکھ رھا تھا، کہ کس طرح پردیس سے آنے والوں کے چہرے پر خوشی اور ملنے والے ان کے اپنے کس طرح بے چینی اور بے قراری سے اپنوں کا انتظار کررھے تھے، جیسے ھی کوئی ان کا اپنا باھر لکلتا تو کس بے چینی سے اسے گلے لگاتے اور کچھ تو مل کر رو رھے ھوتے تھے، کسی کے بچے باھر انتطار کررھے ھوتے اور کسی کے والدین بھی اپنے لخت جگر کے انتظار میں بےقرار آس لگائے کھڑے دیکھے، کئی تو صرف سامان کی ٹرالیوں پر نظر لگائے ھوئے دیکھے کہ بھائی جان کیا لائے ھیں، کئی تو نئی نئی دلہنیں بھی اپنے اُن کو دیکھنے کے لئے بےچین نظر آئیں اور میں نے بھی اسی وقت اللٌہ سے دعاء کی کہ مجھے بھی باھر بھیج دے میرا اب یہاں رھنے کو دل نہیں کرتا تھا، ایک سال پہلے ایک چانس ملا تھا لیکن جانے کو دل نہیں مانا تھا اور اب دل چاہ رھا تھا کہ میں یہاں سے کسی بھی جگہ باھر کے ملک چلا جاؤں،!!!!!!

    چلو شکر ھے جہار کے زمین پر اترنے کے ایک گھنٹے کے مسلسل انتظار کے بعد کسی کی آواز سنائی دی کہ وہ دیکھو زادیہ باھر آگئی اور اس آوار کے ساتھ ھی میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا، ایک دل تو کہہ رھا تھا کہ تمھارا یہاں پر اسکے سامنے اس طرح جانا مناسب نہیں ھے، واپس لوٹ جاؤ، لیکن دوسری طرف صرف اسکی ایک جھلک ھی دیکھنے کے لئے دل بہت بے چین تھا، اتنے میں دیکھا کہ وہی خوبصورت شہزادی اپنے خوشنما چمکتے ھوئے لباس میں خراماں خراماں مسکراتی ھوئی ٹرالی کو پکڑے چلی آرھی تھی، میں تو اسے دیکھتے ھی سکتے میں آگیا، پہلے سے کچھ کمزور تو نظر آرھی تھی لیکن اسکی خوبصورتی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا، اسی طرح شوخ اور چنچل دکھائی دے رھی تھی، جیسے ھی ھجوم کے درمیان سے باھر وہ نکلی تو سب سے پہلے ان کی امی زادیہ کو گلے لگا کر رونے لگیں اور پھر وہ دوسری سائڈ سے باجی کو گلے لگا لیا، پھر باری باری سب نے اسے گلے لگایا اور اس کے ارد گرد وہیں سب نے گھیرا ڈال دیا اور اب مجھے کچھ نظر نہیں آرھا تھا میں کچھ فاصلے پر کھڑا تھا،!!!!!

    میں خاموش اپنے نظریں جھکائے، اپنے آس پاس کے ماحول سے بے خبر کسی گہری سوچ میں گم تھا کہ اچانک میرے سامنے وہی شہزادی میرے سامنے کھڑی تھی، میں ایک دم ایک سکتے کے عالم میں آگیا کچھ کہنے کے لئے کہ کس ظرح اسے خوش آمدید کہوں، کچھ سمجھ میں نہیں آرھا تھا اور زبان بھی بالکل میرا ساتھ نہیں دے رھی تھی، میں اسکو صرف دیکھتا ھی رہ گیا بغیر پلکیں جھپکائے، اس نے اپنا ھاتھ بڑھایا اور میں نے بھی اسی طرح ھاتھ ملایا اس نے بہت دھیمی اور بھرائی ھوئی آواز میں صرف یہ پوچھا کہ “سید کیسے ھو، کیا حال ھیں تمھارے“ میری زبان سے بھی جواب میں اسی طرح کے ھی الفاظ نکلے “ کہ ھاں ٹھیک ھوں، تم کیسی ھو زادیہ“ اس نے صرف اپنا سر ھلادیا، اور پھر سب مل کر اپنی اپنی گاڑیوں کی پارکنگ کی طرف چلے، اور میں بھی اپنی موٹر سائیکل کی طرف خاموشی سے گردن جھکائے جارھا تھا،!!!!!!!!!
    ------------------------------------------------

    میں خاموش اپنے نظریں جھکائے، اپنے آس پاس کے ماحول سے بے خبر کسی گہری سوچ میں گم تھا کہ اچانک میرے سامنے وہی شہزادی میرے سامنے کھڑی تھی، میں ایک دم ایک سکتے کے عالم میں آگیا کچھ کہنے کے لئے کہ کس ظرح اسے خوش آمدید کہوں، کچھ سمجھ میں نہیں آرھا تھا اور زبان بھی بالکل میرا ساتھ نہیں دے رھی تھی، میں اسکو صرف دیکھتا ھی رہ گیا بغیر پلکیں جھپکائے، اس نے اپنا ھاتھ بڑھایا اور میں نے بھی اسی طرح ھاتھ ملایا اس نے بہت دھیمی اور بھرائی ھوئی آواز میں صرف یہ پوچھا کہ “سید کیسے ھو، کیا حال ھیں تمھارے“ میری زبان سے بھی جواب میں اسی طرح کے ھی الفاظ نکلے “ کہ ھاں ٹھیک ھوں، تم کیسی ھو زادیہ“ اس نے صرف اپنا سر ھلادیا، اور پھر سب مل کر اپنی اپنی گاڑیوں کی پارکنگ کی طرف چلے، اور میں بھی اپنی موٹر سائیکل کی طرف خاموشی سے گردن جھکائے جارھا تھا،!!!!!!!!!


    میں نے پیچھے مڑکر دیکھا تو کوئی بھی میرے پیچھے نہیں آرھا تھا، سب کے سب کاروں کی پارکنگ کی طرف زادیہ کو ساتھ لئے جارھے تھے، اور باجی کو دیکھا تو وہ بھی زادیہ کے ساتھ ھی باتیں کرتی ھوئی جارھی تھی، جبکہ وہ تو میری موٹر سائیکل کی دیوانی تھی، وہ اب تو ھمیشہ کہیں بھی جانا ھو میرے ساتھ ھی موٹر سائیکل پر سفر کرتی تھی اور اسے میرے ساتھ موٹر سائیکل پر سفر کرنے میں بہت مزا آتا تھا، اور اکثر میں اسے اپنے ساتھ جب بھی وہ کہتی گھمانے لے جاتا تھا یا کسی بھی سہیلی یا کسی دعوت میں جانا ھو تو وہ صرف میرے ھی ساتھ ھی موٹرسائیکل پر سفر کرتی تھی، حالانکہ کچھ لوگ وہاں پر یہ غلط محسوس کرتے تھے ، لیکن میں ھمیشہ بچپن سے آج تک اسے اپنی بڑی بہں کا درجہ دیتا تھا، اور میری ھر ظرح سے اس نے ھمیشہ بہت ھی اچھی تربیت کی اور آج وہ اس مشکل دور سے گزر رھی تھی، یہ تو میرا فرض بنتا تھا کہ میں اسکی ھر خواھش کا احترام کروں،

    میں نے موٹرسائیکل اسٹارٹ کی اور ان دونوں کاروں کے پیچھے پیچھے چل دیا، گھر پہنچ کر باجی سے میں نے اجازت مانگی کہ اب میں چلتا ھوں کیونکہ گھر میں کافی ملنے والوں کا رش ھے، میں کل آجاؤں گا، اگر کسی چیز کی ضرورت ھو تو مجھے بتادیں، تاکہ میں لے آؤں، باجی نے کہا کہ فی الحال تو ضرورت نہیں ھے کیونکہ ھم دونوں کل ھی ضرورت کی چیزیں بازار سے لے آئے تھے، اور میں اجازت لے کر واپس اپنے گھرکی طرف روانہ ھوگیا، دوسرے دن شام کو ڈیوٹی سے واپس آنے کے بعد پھر میں ان کے گھر پہنچ گیا، اور ایک دو محلے کی لڑکیاں زادیہ کے ساتھ باتیں کررھی تھیں جو مجھے بھی جانتی تھیں میں بھی سلام دعاء کرکے بیٹھ گیا، باجی کچن میں تھیں، وھیں کچن سے ھی باجی نے کچھ بازار سے لانے کو کہا، میں آرڈر ملتے ھی بازار سے ضرورت کی چیزیں لے آیا، اور اسی طرح روزانہ میں شام کو ان کے گھر جاتا، اور کچھ دیر بیٹھ کر معمول کے مطابق اگر کسی چیز کی ضرورت ھوتی تو لادیتا، یا اگر باجی کو کہیں باھر کسی کام سے جانا ھوتا، تو انہیں باہر ساتھ لے جاتا،

    اور میری انکے گھر پر زادیہ کے بارے میں اتنی زیادہ تفصیل سے گفتگو نہیں ھو پاتی تھی بس زادیہ کی غیر حاضری میں ھی باجی مجھے اس کے بارے میں تھوڑا بہت بتاتی تھی، کہ اس آدمی نے زادیہ کو بہت پریشان کیا تھا اور ھمارے ویزے کا بندوبست بھی نہیں کیا تھا، دھوکا دیا تھا، چچا جان کی مداخلت کی وجہ سے ھی زادیہ یہاں پہنچ سکی تھی، اور انہوں نے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ خود کوشش کریں گے کہ آپلوگوں کے ویزے حاصل کرنے کی، اور جلد ھی وہاں بلوا لیں گے، اور میں بھی یہی بہتر سمجھتا تھا کہ یہ لوگ اپنے چچا کے پاس ھی کچھ بہتر زندگی گزار سکیں گے، اور خوش رہ سکیں گے، کیونکہ ان کے والد کے بعد ھی وہ ایک نزدیکی رشتہ دار تھے اور وہ اپنی پوری فیملی کے ساتھ ابوظہبی میں رھتے تھے، اور ان کی یہ خواھش بھی یہی تھی کہ یہ تینوں ان کے پاس آجائیں، اور نئے سرے سے اپنی زندگی کو سکون کے ساتھ گزار سکیں، انکی امیر سگی پھوپھی بھی پاکستان میں تھیں لیکن انکی آپس میں کوئی خاص بات چیت نہیں تھی، اور نہ ھی انہوں نے کوئی ان سب سے واسطہ رکھا جبکہ سب کچھ معلوم تھا!!!! کاش کہ ھم اپنے آس پاس، اڑوس پڑوس اور رشتہ داروں میں کم از کم یہ تو دیکھ سکتے ھیں کہ کون اور کس کو کسی قسم کی مدد کی ضرورت ھے، کیا ھمارے پڑوس میں کوئی بھوکا تو نہیں سو رھا، ؟؟؟ کیا ھم نے سب کچھ دیکھتے ھوئے بھی اپنی آنکھیں بند نہیں کی ھوئیں، یہی تو ھمارا اس دنیا میں اللٌہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امتحان ھے،!!!!!!!!

    اس وقت اگر انکے والد زندہ ھوتے تو اس طرح یہ سب پریشاں نہ ھوتے، وہ اپنی بیٹیوں کو دل و جان سے چاھتے تھے اور انکی ھر خواھش کو پورا بھی کرتے تھے، اسکے باوجود کہ وہ مجھ سے میرے والدین کے رویٌہ کی وجہ سے ناراض تھے اور انکی ناراضگی اپنی جگہ بالکل بجا تھی اور میرے والدین بھی غلط نہیں تھے مگر انہوں نے لوگوں کی افواھوں پر یقین کیا، جس کی وجہ سے ھمارے دونوں خاندانوں کی آپس میں رنجشیں پیدا ھوگئیں، مگر میں انہیں پہلے بھی چاہتا تھا اور اب بھی کیونکہ وہ میرے ساتھ ھمیشہ مخلص رھے، مگر ان کے انتقال کی وجہ سے ایک فیملی بالکل بے سہارا ھوتی جارھی تھی، وہ یہ بھی چاھتے تھے کہ ان کی بیٹیوں کی شادی اچھے گھرانے میں ھوں اور ان کا بزنس بھی بہت اچھا چل رھا تھا اور اس وقت انکی دونوں بیٹیوں کے لئے بہت اچھے اچھے مال دار گھرانوں کے رشتہ بھی آرھے تھے، اور دونوں بہت خوبصورت بھی تھیں، ایک ھی جھلک دیکھتے ھی ھر کوئی انکےرشتے مانگنا شروع ھوجاتے تھے، لیکن انہوں نے بہتر سے بہتر کی تلاش میں اچھے اچھے رشتے گنوا بیٹھے، اسی کی وجہ سے اکثر خاندانوں میں لڑکیاں گھر پر بیٹھیں ھیں، اور کچھ تو خاندان کی امارات ذات پات کو لے کر، کچھ خاندانوں کی آپس کی رنجشیں اور کچھ لڑکیاں تو صرف ایک جہیز نہ ھونے کی وجہ سے گھر پر بیٹھی ھیں، اور کئی لوگ اپنے لڑکوں کی نمائش اس طرح کرتے ھیں کہ جو جہیز کی بولی زیادہ لگائے گا اسی کا رشتہ اس لڑکے سے ھوگا، کیا ایسے لوگ ھمارے اسلامی معاشرے میں زندہ رھنے کے قابل ھیں!!!!!

    مگر افسوس کہ ان کے والد زیادہ عرصے زندہ نہیں رھے، ورنہ شاید ان ھی کی زندگی میں ان کے رشتے ھو بھی جاتے مگر وہ تڑپتے تڑپتے چلے گئے اور انہیں سرطان جیسے خطرناک مرض نے گھیر لیا اور چھ مہینے تک اس بیماری سے وہ لڑتے ھوئے اس دنیا سے رخصت بھی ھوگئے، اور یہ خطرناک مرض انہیں انکی سگریٹ پینے اور پان کثرت سے کھانے کی وجہ سے ھوا، وہ چینج اسموکر تھے، ھر وقت ان کے منہ میں سگریٹ لگی رھتی تھی اور ساتھ پانوں میں لپٹے ھوئے بنڈل بھی، جیسے ھی ایک پان ختم ھوتا دوسرا پاں منہ میں رکھ لیتے اور ساتھ ھی سگریٹ بھی پھونکتے رھتے، ان کی عمر بھی میرے خیال میں اس وقت کچھ زیادہ نہیں ھوگی، مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ھے کہ اب بھی کئی خاندان صرف اسی سرطان جیسے موذی مرض کی وجہ سے ھی برباد ھوئے ھیں، مگر ابھی تک نہ جانے کیوں لوگوں کو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان بری عادتوں کی وجہ سے اگر وہ اس دنیا میں نہیں رھے تو ان کی فیملی کا کیا ھوگا، کون دیکھے گا، اللٌہ تو سب کا والی ھے لیکن کچھ ھماری بھی ذمہ داریاں بھی ھیں کہ ھماری زندگی بہت قیمتی ھے، اپنے لئے نہ سہی کم از کم اپنے بچوں کے لئے ھی کچھ ھم ان واقعات اور حادثات سے سبق لیں، میں بھی کبھی سگریٹ پیتا تھا لیکن اب مجھے اسکے دھؤیں سے بھی نفرت ھے، انسان چاھے تو کیا نہیں کرسکتا، سگریٹ کو چھوڑنا کوئی مشکل نہیں ھے صرف ایک قوت مدافعت کی ضرورت ھے،!!!

    کاش میں اس وقت ان کے پاس ھوتا تو کم ازکم میں انہیں یہ تسلی تو دے سکتا تھا کہ میں آپکی پوری فیملی کو زندگی بھر ایک مکمل تحفظ دے سکوں گا، کاش ایسا ھوتا، اس صورت میں ھوسکتا تھا کہ میں اپنے گھر کی مخالفت بھی مول لے سکتا تھا، اس وجہ سے نہیں کہ میں زادیہ کو دل و جان سے چاھتا تھا اور اس سے شادی کرنا چاھتا تھا، بلکہ ایک انسانیت کے ناتے، اگر مجھ سے شادی نہ بھی ھوتی تب بھی،،!!!! مگر حالات نے ایسا رخ پلٹا کہ سب کچھ ارمان اور خواھشیں تباہ ھوکر رہ گیئں، میں کوئی اتنا امیرزادہ تو نہیں تھا لیکں اتنا ضرور تھا کہ اس چھوٹی فیملی کو عزت کے ساتھ رکھ سکتا تھا، ویسے تو ھر ایک کی عزت کا رکھوالا صرف اللٌہ تعالیٰ ھی ھے، !!!!!!
    -------------------------------------------------
    اش میں اس وقت ان کے پاس ھوتا تو کم ازکم میں انہیں یہ تسلی تو دے سکتا تھا کہ میں آپکی پوری فیملی کو زندگی بھر ایک مکمل تحفظ دے سکوں گا، کاش ایسا ھوتا، اس صورت میں ھوسکتا تھا کہ میں اپنے گھر کی مخالفت بھی مول لے سکتا تھا، اس وجہ سے نہیں کہ میں زادیہ کو دل و جان سے چاھتا تھا اور اس سے شادی کرنا چاھتا تھا، بلکہ ایک انسانیت کے ناتے، اگر مجھ سے شادی نہ بھی ھوتی تب بھی،،!!!! مگر حالات نے ایسا رخ پلٹا کہ سب کچھ ارمان اور خواھشیں تباہ ھوکر رہ گیئں، میں کوئی اتنا امیرزادہ تو نہیں تھا لیکں اتنا ضرور تھا کہ اس چھوٹی فیملی کو عزت کے ساتھ رکھ سکتا تھا، ویسے تو ھر ایک کی عزت کا رکھوالا صرف اللٌہ تعالیٰ ھی ھے، !!!!!!

    حالات کچھ دنوں تک معموم کے مطابق ھی تھے، کہ ایک دن اچانک زادیہ کا شوھر دبئی سے آگیا اور ایک ھوٹل میں ٹھرا ھوا تھا، اور جیسے ھی میں ایک دن شام کو انکے گھر پہنچا تو دیکھا کہ وہ وہاں بیٹھا ھوا تھا اور میں نے مناسب ھی نہیں سمجھا کہ میں وھاں پر اسکے ساتھ بیٹھوں میں نے کچھ ضرورت کی چیزیں بازار سے لا کردیں اور میں اپنے دوست کے ساتھ کہیں اور چلا گیا، دوسرے اور تیسرے دن تک وہ آتا جاتا رھا اور جیسے ھی وہ گھر میں آتا مکان مالک فوراً ھی گھر میں آجاتے کہ وہ کوئی مزید ان کو تنگ نہ کرسکے، بقول باجی کہ وہ صرف زادیہ کو واپس لے جانے آیا تھا اور باجی اور خالہ کے ویزوں کا اس نے کہا کہ ابھی مشکل ھے کچھ دن لگ جائیں گے، مگر ان لوگوں نے یہی فیصلہ کیا کہ زادیہ اس وقت تک نہیں جائے گی، جبتک کہ سب کے ویزوں کا بندوبست نہیں ھو جاتا، اور اگر زادیہ جائے گی تو سب کے ساتھ ورنہ یہ کبھی نہیں جائے گی، ان کے اس فیصلہ پر اس نے اپنا فیصلہ سنادیا کہ میں اس وقت تو خالی واپس جارھا ھوں، اور ایک دفعہ اور آپلوگوں کو موقعہ دیتا ھوں کے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرلیں، میں مزید کچھ دن تک انتظار کروں گا اگر آپ لوگوں نے اسے بھیج دیا تو ٹھیک ھے ورنہ میں اسے طلاق دے دوں گا اور یہ کہہ کر وہ واپس دبئی چلاگیا،!!!!!!!

    چوتھے یا پانچویں دن میں شام کو ان کے گھر پہنچا تو وہ وہاں پر موجود نہیں تھا، لیکن زادیہ دوسرے کمرے میں سورھی تھی اور میں اور باجی بیٹھک میں باتوں میں مصروف تھے اور کچن میں خالہ چائے بنانے میں مصروف تھیں، کیونکہ انہیں میرے آنے کا وقت معلوم تھا، اور میرے آنے سے پہلے وہ ھمیشہ چائے تیار رکھتی تھیں، انہوں نے ھمیشہ بچپن سے میرا اپنے بچوں سے زیادہ خیال رکھا تھا اور آج بھی ان کی وہی چاھت تھی، جیسے ایک ماں کی ھوتی ھے اور وہ ان دنوں بہت ھی دکھ و غم اور کرب کے عالم میں گزر رھی تھیں، اور مجھے سب پوری داستان باجی نے سنائی اور مجھ سے پوچھا کہ تمھاری کیا رائے ھے، میں نے جواب دیا کہ زادیہ ھی اب بہتر بتا سکتی ھے کہ وہ کیا چاھتی ھے میں اس بارے میں آپکو کوئی مشورہ نہیں دے سکتا، مگر میں اس بات کا وعدہ کرتا ھوں کہ جب تک آپ سب مکمل طریقے اور اپنی رضامندی سے دبئی شفٹ نہیں ھوجاتے میں آپ لوگوں کو نہیں چھوڑسکتا چاھے اس کے لئے مجھے اپنی گھر سے کیوں نہ کتنی ھی مخالفت اٹھانی پڑے، کیونکہ اب آپ لوگ میری ذمہ داری ھیں،!!!!!!!

    1978 کا زمانہ اور مئی کے گرمیوں کا موسم، اور میں پورٹ قاسم کے پروجیکٹ پر اور وھاں کا کام اسٹارٹ ھوچکا تھا، ھماری کمپنی کو وہاں پر ایک اھم پروجیکٹ ملا ھوا تھا اور ساتھ ساتھ اسٹیل ملز کا کام بھی تقریباً 40٪ ھماری ھی کمپنی کے پاس تھا، مجھے اسی دوران سعودی عرب جانے کیلئے ٹرانسفر آرڈر ملا، وہاں پر بھی ھماری کمپنی کے ھر چھوٹے بڑے شہر میں کام چل رھے تھے، اور مجھے کہا گیا کہ میں اپنا پاسپورٹ اور کچھ تصویریں ذونل آفس میں جمع کرادوں اور اگلے ھفتے تک جانے کے لئے تیار رھیں، شاید میرے حق میں یہ بہتر بھی تھا کہ میں کچھ قرض دار بھی ھوگیا تھا، اور وھاں جاکر انکی میں کچھ اچھی طرح مدد بھی کرسکتا تھا،!!!!

    میں نے ان سب کو یہ خوشخبری سنائی، اپنے سعودی عرب جانے کی اور میں نے یہ بھی باجی سے کہا کہ میں ان سے رابطے میں رھوں گا اور اگر کسی وجہ سے خدانخواستہ زادیہ کو وہ طلاق دے بھی دیتا ھے تو میں زادیہ سے شادی کرنے کے لئے سب سے پہلے اپنی خدمات پیش کرونگا، اگر زادیہ کی مرضی ھو تو، اور مجھے ایک طرح سے خوشی بھی ھوگی کہ آپ لوگوں کے ساتھ زندگی بھر کیلئے ایک رشتہ میں بندھ جانے کیلئے !!!!!!!!
     
  3. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    لیکن جب آفس تیار ھوگئے تو کچھ ھماری جان میں جان آئی، اور پھر باقی تمام اسٹاف بھی آگئے، میں یہاں موٹر سائیکل نہیں لاتا تھا، کیونکہ کمپنی کی گاڑی مجھے گھر پر لینے آتی تھی، یہاں سے واپسی پر گھر جاکر میں اپنی حالت درست کرتا پھر موٹرسائیکل اسٹارٹ کرکے سیدھا باجی کے یہاں چلا جاتا اور انکی ضرورت کی چیزیں بازار سے لا کر دیتا اور باجی کو روزانہ اپنی موٹر سائیکل پر بٹھا کر گھماتا بھی رھتا، تاکہ ان کا دل بھی بہلا رھے، آخر وہ دن بھی آگیا جس دن فلائیٹ سے زادیہ شارجہ سے کراچی پہنچنے والی تھی، میں نے تو معمول کے مطابق موٹر سائیکل پر باجی کو پیچھے بٹھایا، اور انکی والدہ تو مکان مالک کی فیملی کے ساتھ کار میں بیٹھ گئیں اور ھم سب ائرپورٹ کی طرف چل دئے اور ایک اور کار میں انکے پڑوس کی بھی تھی اور اس ظرح ایک چھوٹا سا قافلہ ائرپورٹ کی طرف روانہ ھوگیا !!!!!!!

    آج کوئی آنے والا تھا، میں ایک عجیب سی کشمکش میں تھا کہ میں اسے کس رشتہ سے پکاروں گا ایک دوست کی حیثیت سے یا کچھ اور!!!! لیکن کسی اور طرح سے سوچنا تو کوئی اچھی بات نہیں تھی، اب وہ کسی اور کی ھو چکی تھی، اور اب اس پر شرعاً کسی اور کا حق تھا، بار بار میرے دماغ میں نہ جانے کیا کیا الجھنیں مچل رھی تھی، وہاں ائرپورٹ پر اسکی سہیلیاں جو آس پاس رھتی تھیں سب ھی آئی ھوئی تھیں اور انکے مکان مالک کی پوری فیملی بھی موجود تھی، اور ابھی تک مطلوبہ فلائٹ نے لینڈ نہیں کیا تھا، سب اپنی اپنی باتوں میں لگے ھوئے تھے، اور میں زادیہ کی ایک سہیلی کے بڑے بھائی کے ساتھ ھی الگ ایک طرف ھی کھڑا ھوا تھا، جو بعد میں میرا اچھا دوست بن گیا تھا اور نظریں فلائٹ انفارمیشن بورڈ پر ھی تھیں،

    اچانک ایک اناؤنسمنٹ سنائی دی کہ دبئی سے آنے والا جہاز لینڈ کرچکا ھے، اور بورڈ پر بھی اطلاع آگئی تھی، زادیہ کو دیکھنے کیلئے آنکھیں کچھ بے چین سی تھیں، بس میں دور سے ھی کھڑا آنے والے مسافروں کو دیکھ رھا تھا، کہ کس طرح پردیس سے آنے والوں کے چہرے پر خوشی اور ملنے والے ان کے اپنے کس طرح بے چینی اور بے قراری سے اپنوں کا انتظار کررھے تھے، جیسے ھی کوئی ان کا اپنا باھر لکلتا تو کس بے چینی سے اسے گلے لگاتے اور کچھ تو مل کر رو رھے ھوتے تھے، کسی کے بچے باھر انتطار کررھے ھوتے اور کسی کے والدین بھی اپنے لخت جگر کے انتظار میں بےقرار آس لگائے کھڑے دیکھے، کئی تو صرف سامان کی ٹرالیوں پر نظر لگائے ھوئے دیکھے کہ بھائی جان کیا لائے ھیں، کئی تو نئی نئی دلہنیں بھی اپنے اُن کو دیکھنے کے لئے بےچین نظر آئیں اور میں نے بھی اسی وقت اللٌہ سے دعاء کی کہ مجھے بھی باھر بھیج دے میرا اب یہاں رھنے کو دل نہیں کرتا تھا، ایک سال پہلے ایک چانس ملا تھا لیکن جانے کو دل نہیں مانا تھا اور اب دل چاہ رھا تھا کہ میں یہاں سے کسی بھی جگہ باھر کے ملک چلا جاؤں،!!!!!!

    چلو شکر ھے جہار کے زمین پر اترنے کے ایک گھنٹے کے مسلسل انتظار کے بعد کسی کی آواز سنائی دی کہ وہ دیکھو زادیہ باھر آگئی اور اس آوار کے ساتھ ھی میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا، ایک دل تو کہہ رھا تھا کہ تمھارا یہاں پر اسکے سامنے اس طرح جانا مناسب نہیں ھے، واپس لوٹ جاؤ، لیکن دوسری طرف صرف اسکی ایک جھلک ھی دیکھنے کے لئے دل بہت بے چین تھا، اتنے میں دیکھا کہ وہی خوبصورت شہزادی اپنے خوشنما چمکتے ھوئے لباس میں خراماں خراماں مسکراتی ھوئی ٹرالی کو پکڑے چلی آرھی تھی، میں تو اسے دیکھتے ھی سکتے میں آگیا، پہلے سے کچھ کمزور تو نظر آرھی تھی لیکن اسکی خوبصورتی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا، اسی طرح شوخ اور چنچل دکھائی دے رھی تھی، جیسے ھی ھجوم کے درمیان سے باھر وہ نکلی تو سب سے پہلے ان کی امی زادیہ کو گلے لگا کر رونے لگیں اور پھر وہ دوسری سائڈ سے باجی کو گلے لگا لیا، پھر باری باری سب نے اسے گلے لگایا اور اس کے ارد گرد وہیں سب نے گھیرا ڈال دیا اور اب مجھے کچھ نظر نہیں آرھا تھا میں کچھ فاصلے پر کھڑا تھا،!!!!!

    میں خاموش اپنے نظریں جھکائے، اپنے آس پاس کے ماحول سے بے خبر کسی گہری سوچ میں گم تھا کہ اچانک میرے سامنے وہی شہزادی میرے سامنے کھڑی تھی، میں ایک دم ایک سکتے کے عالم میں آگیا کچھ کہنے کے لئے کہ کس ظرح اسے خوش آمدید کہوں، کچھ سمجھ میں نہیں آرھا تھا اور زبان بھی بالکل میرا ساتھ نہیں دے رھی تھی، میں اسکو صرف دیکھتا ھی رہ گیا بغیر پلکیں جھپکائے، اس نے اپنا ھاتھ بڑھایا اور میں نے بھی اسی طرح ھاتھ ملایا اس نے بہت دھیمی اور بھرائی ھوئی آواز میں صرف یہ پوچھا کہ “سید کیسے ھو، کیا حال ھیں تمھارے“ میری زبان سے بھی جواب میں اسی طرح کے ھی الفاظ نکلے “ کہ ھاں ٹھیک ھوں، تم کیسی ھو زادیہ“ اس نے صرف اپنا سر ھلادیا، اور پھر سب مل کر اپنی اپنی گاڑیوں کی پارکنگ کی طرف چلے، اور میں بھی اپنی موٹر سائیکل کی طرف خاموشی سے گردن جھکائے جارھا تھا،!!!!!!!!!
    ------------------------------------------------

    میں خاموش اپنے نظریں جھکائے، اپنے آس پاس کے ماحول سے بے خبر کسی گہری سوچ میں گم تھا کہ اچانک میرے سامنے وہی شہزادی میرے سامنے کھڑی تھی، میں ایک دم ایک سکتے کے عالم میں آگیا کچھ کہنے کے لئے کہ کس ظرح اسے خوش آمدید کہوں، کچھ سمجھ میں نہیں آرھا تھا اور زبان بھی بالکل میرا ساتھ نہیں دے رھی تھی، میں اسکو صرف دیکھتا ھی رہ گیا بغیر پلکیں جھپکائے، اس نے اپنا ھاتھ بڑھایا اور میں نے بھی اسی طرح ھاتھ ملایا اس نے بہت دھیمی اور بھرائی ھوئی آواز میں صرف یہ پوچھا کہ “سید کیسے ھو، کیا حال ھیں تمھارے“ میری زبان سے بھی جواب میں اسی طرح کے ھی الفاظ نکلے “ کہ ھاں ٹھیک ھوں، تم کیسی ھو زادیہ“ اس نے صرف اپنا سر ھلادیا، اور پھر سب مل کر اپنی اپنی گاڑیوں کی پارکنگ کی طرف چلے، اور میں بھی اپنی موٹر سائیکل کی طرف خاموشی سے گردن جھکائے جارھا تھا،!!!!!!!!!


    میں نے پیچھے مڑکر دیکھا تو کوئی بھی میرے پیچھے نہیں آرھا تھا، سب کے سب کاروں کی پارکنگ کی طرف زادیہ کو ساتھ لئے جارھے تھے، اور باجی کو دیکھا تو وہ بھی زادیہ کے ساتھ ھی باتیں کرتی ھوئی جارھی تھی، جبکہ وہ تو میری موٹر سائیکل کی دیوانی تھی، وہ اب تو ھمیشہ کہیں بھی جانا ھو میرے ساتھ ھی موٹر سائیکل پر سفر کرتی تھی اور اسے میرے ساتھ موٹر سائیکل پر سفر کرنے میں بہت مزا آتا تھا، اور اکثر میں اسے اپنے ساتھ جب بھی وہ کہتی گھمانے لے جاتا تھا یا کسی بھی سہیلی یا کسی دعوت میں جانا ھو تو وہ صرف میرے ھی ساتھ ھی موٹرسائیکل پر سفر کرتی تھی، حالانکہ کچھ لوگ وہاں پر یہ غلط محسوس کرتے تھے ، لیکن میں ھمیشہ بچپن سے آج تک اسے اپنی بڑی بہں کا درجہ دیتا تھا، اور میری ھر ظرح سے اس نے ھمیشہ بہت ھی اچھی تربیت کی اور آج وہ اس مشکل دور سے گزر رھی تھی، یہ تو میرا فرض بنتا تھا کہ میں اسکی ھر خواھش کا احترام کروں،

    میں نے موٹرسائیکل اسٹارٹ کی اور ان دونوں کاروں کے پیچھے پیچھے چل دیا، گھر پہنچ کر باجی سے میں نے اجازت مانگی کہ اب میں چلتا ھوں کیونکہ گھر میں کافی ملنے والوں کا رش ھے، میں کل آجاؤں گا، اگر کسی چیز کی ضرورت ھو تو مجھے بتادیں، تاکہ میں لے آؤں، باجی نے کہا کہ فی الحال تو ضرورت نہیں ھے کیونکہ ھم دونوں کل ھی ضرورت کی چیزیں بازار سے لے آئے تھے، اور میں اجازت لے کر واپس اپنے گھرکی طرف روانہ ھوگیا، دوسرے دن شام کو ڈیوٹی سے واپس آنے کے بعد پھر میں ان کے گھر پہنچ گیا، اور ایک دو محلے کی لڑکیاں زادیہ کے ساتھ باتیں کررھی تھیں جو مجھے بھی جانتی تھیں میں بھی سلام دعاء کرکے بیٹھ گیا، باجی کچن میں تھیں، وھیں کچن سے ھی باجی نے کچھ بازار سے لانے کو کہا، میں آرڈر ملتے ھی بازار سے ضرورت کی چیزیں لے آیا، اور اسی طرح روزانہ میں شام کو ان کے گھر جاتا، اور کچھ دیر بیٹھ کر معمول کے مطابق اگر کسی چیز کی ضرورت ھوتی تو لادیتا، یا اگر باجی کو کہیں باھر کسی کام سے جانا ھوتا، تو انہیں باہر ساتھ لے جاتا،

    اور میری انکے گھر پر زادیہ کے بارے میں اتنی زیادہ تفصیل سے گفتگو نہیں ھو پاتی تھی بس زادیہ کی غیر حاضری میں ھی باجی مجھے اس کے بارے میں تھوڑا بہت بتاتی تھی، کہ اس آدمی نے زادیہ کو بہت پریشان کیا تھا اور ھمارے ویزے کا بندوبست بھی نہیں کیا تھا، دھوکا دیا تھا، چچا جان کی مداخلت کی وجہ سے ھی زادیہ یہاں پہنچ سکی تھی، اور انہوں نے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ خود کوشش کریں گے کہ آپلوگوں کے ویزے حاصل کرنے کی، اور جلد ھی وہاں بلوا لیں گے، اور میں بھی یہی بہتر سمجھتا تھا کہ یہ لوگ اپنے چچا کے پاس ھی کچھ بہتر زندگی گزار سکیں گے، اور خوش رہ سکیں گے، کیونکہ ان کے والد کے بعد ھی وہ ایک نزدیکی رشتہ دار تھے اور وہ اپنی پوری فیملی کے ساتھ ابوظہبی میں رھتے تھے، اور ان کی یہ خواھش بھی یہی تھی کہ یہ تینوں ان کے پاس آجائیں، اور نئے سرے سے اپنی زندگی کو سکون کے ساتھ گزار سکیں، انکی امیر سگی پھوپھی بھی پاکستان میں تھیں لیکن انکی آپس میں کوئی خاص بات چیت نہیں تھی، اور نہ ھی انہوں نے کوئی ان سب سے واسطہ رکھا جبکہ سب کچھ معلوم تھا!!!! کاش کہ ھم اپنے آس پاس، اڑوس پڑوس اور رشتہ داروں میں کم از کم یہ تو دیکھ سکتے ھیں کہ کون اور کس کو کسی قسم کی مدد کی ضرورت ھے، کیا ھمارے پڑوس میں کوئی بھوکا تو نہیں سو رھا، ؟؟؟ کیا ھم نے سب کچھ دیکھتے ھوئے بھی اپنی آنکھیں بند نہیں کی ھوئیں، یہی تو ھمارا اس دنیا میں اللٌہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امتحان ھے،!!!!!!!!

    اس وقت اگر انکے والد زندہ ھوتے تو اس طرح یہ سب پریشاں نہ ھوتے، وہ اپنی بیٹیوں کو دل و جان سے چاھتے تھے اور انکی ھر خواھش کو پورا بھی کرتے تھے، اسکے باوجود کہ وہ مجھ سے میرے والدین کے رویٌہ کی وجہ سے ناراض تھے اور انکی ناراضگی اپنی جگہ بالکل بجا تھی اور میرے والدین بھی غلط نہیں تھے مگر انہوں نے لوگوں کی افواھوں پر یقین کیا، جس کی وجہ سے ھمارے دونوں خاندانوں کی آپس میں رنجشیں پیدا ھوگئیں، مگر میں انہیں پہلے بھی چاہتا تھا اور اب بھی کیونکہ وہ میرے ساتھ ھمیشہ مخلص رھے، مگر ان کے انتقال کی وجہ سے ایک فیملی بالکل بے سہارا ھوتی جارھی تھی، وہ یہ بھی چاھتے تھے کہ ان کی بیٹیوں کی شادی اچھے گھرانے میں ھوں اور ان کا بزنس بھی بہت اچھا چل رھا تھا اور اس وقت انکی دونوں بیٹیوں کے لئے بہت اچھے اچھے مال دار گھرانوں کے رشتہ بھی آرھے تھے، اور دونوں بہت خوبصورت بھی تھیں، ایک ھی جھلک دیکھتے ھی ھر کوئی انکےرشتے مانگنا شروع ھوجاتے تھے، لیکن انہوں نے بہتر سے بہتر کی تلاش میں اچھے اچھے رشتے گنوا بیٹھے، اسی کی وجہ سے اکثر خاندانوں میں لڑکیاں گھر پر بیٹھیں ھیں، اور کچھ تو خاندان کی امارات ذات پات کو لے کر، کچھ خاندانوں کی آپس کی رنجشیں اور کچھ لڑکیاں تو صرف ایک جہیز نہ ھونے کی وجہ سے گھر پر بیٹھی ھیں، اور کئی لوگ اپنے لڑکوں کی نمائش اس طرح کرتے ھیں کہ جو جہیز کی بولی زیادہ لگائے گا اسی کا رشتہ اس لڑکے سے ھوگا، کیا ایسے لوگ ھمارے اسلامی معاشرے میں زندہ رھنے کے قابل ھیں!!!!!

    مگر افسوس کہ ان کے والد زیادہ عرصے زندہ نہیں رھے، ورنہ شاید ان ھی کی زندگی میں ان کے رشتے ھو بھی جاتے مگر وہ تڑپتے تڑپتے چلے گئے اور انہیں سرطان جیسے خطرناک مرض نے گھیر لیا اور چھ مہینے تک اس بیماری سے وہ لڑتے ھوئے اس دنیا سے رخصت بھی ھوگئے، اور یہ خطرناک مرض انہیں انکی سگریٹ پینے اور پان کثرت سے کھانے کی وجہ سے ھوا، وہ چینج اسموکر تھے، ھر وقت ان کے منہ میں سگریٹ لگی رھتی تھی اور ساتھ پانوں میں لپٹے ھوئے بنڈل بھی، جیسے ھی ایک پان ختم ھوتا دوسرا پاں منہ میں رکھ لیتے اور ساتھ ھی سگریٹ بھی پھونکتے رھتے، ان کی عمر بھی میرے خیال میں اس وقت کچھ زیادہ نہیں ھوگی، مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ھے کہ اب بھی کئی خاندان صرف اسی سرطان جیسے موذی مرض کی وجہ سے ھی برباد ھوئے ھیں، مگر ابھی تک نہ جانے کیوں لوگوں کو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان بری عادتوں کی وجہ سے اگر وہ اس دنیا میں نہیں رھے تو ان کی فیملی کا کیا ھوگا، کون دیکھے گا، اللٌہ تو سب کا والی ھے لیکن کچھ ھماری بھی ذمہ داریاں بھی ھیں کہ ھماری زندگی بہت قیمتی ھے، اپنے لئے نہ سہی کم از کم اپنے بچوں کے لئے ھی کچھ ھم ان واقعات اور حادثات سے سبق لیں، میں بھی کبھی سگریٹ پیتا تھا لیکن اب مجھے اسکے دھؤیں سے بھی نفرت ھے، انسان چاھے تو کیا نہیں کرسکتا، سگریٹ کو چھوڑنا کوئی مشکل نہیں ھے صرف ایک قوت مدافعت کی ضرورت ھے،!!!

    کاش میں اس وقت ان کے پاس ھوتا تو کم ازکم میں انہیں یہ تسلی تو دے سکتا تھا کہ میں آپکی پوری فیملی کو زندگی بھر ایک مکمل تحفظ دے سکوں گا، کاش ایسا ھوتا، اس صورت میں ھوسکتا تھا کہ میں اپنے گھر کی مخالفت بھی مول لے سکتا تھا، اس وجہ سے نہیں کہ میں زادیہ کو دل و جان سے چاھتا تھا اور اس سے شادی کرنا چاھتا تھا، بلکہ ایک انسانیت کے ناتے، اگر مجھ سے شادی نہ بھی ھوتی تب بھی،،!!!! مگر حالات نے ایسا رخ پلٹا کہ سب کچھ ارمان اور خواھشیں تباہ ھوکر رہ گیئں، میں کوئی اتنا امیرزادہ تو نہیں تھا لیکں اتنا ضرور تھا کہ اس چھوٹی فیملی کو عزت کے ساتھ رکھ سکتا تھا، ویسے تو ھر ایک کی عزت کا رکھوالا صرف اللٌہ تعالیٰ ھی ھے، !!!!!!
    -------------------------------------------------
    اش میں اس وقت ان کے پاس ھوتا تو کم ازکم میں انہیں یہ تسلی تو دے سکتا تھا کہ میں آپکی پوری فیملی کو زندگی بھر ایک مکمل تحفظ دے سکوں گا، کاش ایسا ھوتا، اس صورت میں ھوسکتا تھا کہ میں اپنے گھر کی مخالفت بھی مول لے سکتا تھا، اس وجہ سے نہیں کہ میں زادیہ کو دل و جان سے چاھتا تھا اور اس سے شادی کرنا چاھتا تھا، بلکہ ایک انسانیت کے ناتے، اگر مجھ سے شادی نہ بھی ھوتی تب بھی،،!!!! مگر حالات نے ایسا رخ پلٹا کہ سب کچھ ارمان اور خواھشیں تباہ ھوکر رہ گیئں، میں کوئی اتنا امیرزادہ تو نہیں تھا لیکں اتنا ضرور تھا کہ اس چھوٹی فیملی کو عزت کے ساتھ رکھ سکتا تھا، ویسے تو ھر ایک کی عزت کا رکھوالا صرف اللٌہ تعالیٰ ھی ھے، !!!!!!

    حالات کچھ دنوں تک معموم کے مطابق ھی تھے، کہ ایک دن اچانک زادیہ کا شوھر دبئی سے آگیا اور ایک ھوٹل میں ٹھرا ھوا تھا، اور جیسے ھی میں ایک دن شام کو انکے گھر پہنچا تو دیکھا کہ وہ وہاں بیٹھا ھوا تھا اور میں نے مناسب ھی نہیں سمجھا کہ میں وھاں پر اسکے ساتھ بیٹھوں میں نے کچھ ضرورت کی چیزیں بازار سے لا کردیں اور میں اپنے دوست کے ساتھ کہیں اور چلا گیا، دوسرے اور تیسرے دن تک وہ آتا جاتا رھا اور جیسے ھی وہ گھر میں آتا مکان مالک فوراً ھی گھر میں آجاتے کہ وہ کوئی مزید ان کو تنگ نہ کرسکے، بقول باجی کہ وہ صرف زادیہ کو واپس لے جانے آیا تھا اور باجی اور خالہ کے ویزوں کا اس نے کہا کہ ابھی مشکل ھے کچھ دن لگ جائیں گے، مگر ان لوگوں نے یہی فیصلہ کیا کہ زادیہ اس وقت تک نہیں جائے گی، جبتک کہ سب کے ویزوں کا بندوبست نہیں ھو جاتا، اور اگر زادیہ جائے گی تو سب کے ساتھ ورنہ یہ کبھی نہیں جائے گی، ان کے اس فیصلہ پر اس نے اپنا فیصلہ سنادیا کہ میں اس وقت تو خالی واپس جارھا ھوں، اور ایک دفعہ اور آپلوگوں کو موقعہ دیتا ھوں کے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرلیں، میں مزید کچھ دن تک انتظار کروں گا اگر آپ لوگوں نے اسے بھیج دیا تو ٹھیک ھے ورنہ میں اسے طلاق دے دوں گا اور یہ کہہ کر وہ واپس دبئی چلاگیا،!!!!!!!

    چوتھے یا پانچویں دن میں شام کو ان کے گھر پہنچا تو وہ وہاں پر موجود نہیں تھا، لیکن زادیہ دوسرے کمرے میں سورھی تھی اور میں اور باجی بیٹھک میں باتوں میں مصروف تھے اور کچن میں خالہ چائے بنانے میں مصروف تھیں، کیونکہ انہیں میرے آنے کا وقت معلوم تھا، اور میرے آنے سے پہلے وہ ھمیشہ چائے تیار رکھتی تھیں، انہوں نے ھمیشہ بچپن سے میرا اپنے بچوں سے زیادہ خیال رکھا تھا اور آج بھی ان کی وہی چاھت تھی، جیسے ایک ماں کی ھوتی ھے اور وہ ان دنوں بہت ھی دکھ و غم اور کرب کے عالم میں گزر رھی تھیں، اور مجھے سب پوری داستان باجی نے سنائی اور مجھ سے پوچھا کہ تمھاری کیا رائے ھے، میں نے جواب دیا کہ زادیہ ھی اب بہتر بتا سکتی ھے کہ وہ کیا چاھتی ھے میں اس بارے میں آپکو کوئی مشورہ نہیں دے سکتا، مگر میں اس بات کا وعدہ کرتا ھوں کہ جب تک آپ سب مکمل طریقے اور اپنی رضامندی سے دبئی شفٹ نہیں ھوجاتے میں آپ لوگوں کو نہیں چھوڑسکتا چاھے اس کے لئے مجھے اپنی گھر سے کیوں نہ کتنی ھی مخالفت اٹھانی پڑے، کیونکہ اب آپ لوگ میری ذمہ داری ھیں،!!!!!!!

    1978 کا زمانہ اور مئی کے گرمیوں کا موسم، اور میں پورٹ قاسم کے پروجیکٹ پر اور وھاں کا کام اسٹارٹ ھوچکا تھا، ھماری کمپنی کو وہاں پر ایک اھم پروجیکٹ ملا ھوا تھا اور ساتھ ساتھ اسٹیل ملز کا کام بھی تقریباً 40٪ ھماری ھی کمپنی کے پاس تھا، مجھے اسی دوران سعودی عرب جانے کیلئے ٹرانسفر آرڈر ملا، وہاں پر بھی ھماری کمپنی کے ھر چھوٹے بڑے شہر میں کام چل رھے تھے، اور مجھے کہا گیا کہ میں اپنا پاسپورٹ اور کچھ تصویریں ذونل آفس میں جمع کرادوں اور اگلے ھفتے تک جانے کے لئے تیار رھیں، شاید میرے حق میں یہ بہتر بھی تھا کہ میں کچھ قرض دار بھی ھوگیا تھا، اور وھاں جاکر انکی میں کچھ اچھی طرح مدد بھی کرسکتا تھا،!!!!

    میں نے ان سب کو یہ خوشخبری سنائی، اپنے سعودی عرب جانے کی اور میں نے یہ بھی باجی سے کہا کہ میں ان سے رابطے میں رھوں گا اور اگر کسی وجہ سے خدانخواستہ زادیہ کو وہ طلاق دے بھی دیتا ھے تو میں زادیہ سے شادی کرنے کے لئے سب سے پہلے اپنی خدمات پیش کرونگا، اگر زادیہ کی مرضی ھو تو، اور مجھے ایک طرح سے خوشی بھی ھوگی کہ آپ لوگوں کے ساتھ زندگی بھر کیلئے ایک رشتہ میں بندھ جانے کیلئے !!!!!!!!
     
  4. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    میں نے ان سب کو یہ خوشخبری سنائی، اپنے سعودی عرب جانے کی اور میں نے یہ بھی باجی سے کہا کہ میں ان سے رابطے میں رھوں گا اور اگر کسی وجہ سے خدانخواستہ زادیہ کو وہ طلاق دے بھی دیتا ھے تو میں زادیہ سے شادی کرنے کے لئے سب سے پہلے اپنی خدمات پیش کرونگا، اگر زادیہ کی مرضی ھو تو، اور مجھے ایک طرح سے خوشی بھی ھوگی کہ آپ لوگوں کے ساتھ زندگی بھر کیلئے ایک رشتہ میں بندھ جانے کیلئے !!!!!!!!

    میں نے بھی باجی سے اپنی خواھش ظاھر کردی تھی، مگر اس دوران میں نے زادیہ سے کبھی اس موضوع پر گفتگو نہیں کی اور نہ ھی میں نے اپنے دل کی کوئی خواھش کا اظہار کیا، باجی نے اگر زادیہ سے اس کی مرضی معلوم کی ھو یا نہیں اس کا مجھے باجی نے کوئی ذکر نہیں کیا، اور نہ ھی میں نے پوچھنے کی کوشش کی، بس اپنی رائے دے دی تھی کہ میں زادیہ کو اپنانے کیلئے تیار ھوں اگر خدانخواستہ اس کا شوھر طلاق دے یا زادیہ خود اپنی مرضی سے علیحدہ ھو کر اس سے قلع لے لے، میں نے آفس میں اپنا نیا پاسپورٹ داخل کردیا تھا، تاکہ سعودی عرب کا ویزا لگ جائے، جیساکہ مجھے کمپنی سے ھدایت ملی تھیں، پاسپورٹ کو بنانے میں کچھ دیر ھوگئی تھی ورنہ میں ‌اب تک سعودی عرب میں ھی ھوتا،!!!!!

    یہاں گھر پر اسی دوران چار پانچ مہینے پہلے جس کا میں پہلے ذکر نہ کرسکا تھا ایک میرے دوست جو کہ ھمارے ڈویژنل آفس میں کام کرتے تھے، اور ان کے والد صاحب بھی الریاض سعودی عربیہ میں اسی کمپنی میں ملازم تھے، اور میرے ساتھ کراچی کے ایک پروجکیٹ پر بھی ساتھ ھی کچھ عرصہ رھے تھے، ان کے بیٹے کے ساتھ والد صاحب شام کو ان کے گھر چلے گئے اور ان کی خوب آؤ بھگت اور خوب خاطر مدارات ھوئی جس کی وجہ سے اباجی تو بہت متاثر ھوئے، اور ان کی لڑکی انہیں پسند آگئی، جو انکی خوب خاطر مدارات کررھی تھی، اور والد صاحب کی عادت تھی کہ جہاں انکی پسند کی لڑکی دیکھی، فوراً ھی اسے میرے لئے پسند کرلیتے تھے، اور مجھے بتائے بغیر ھی ان کے گھر والوں سے میرے لئے رشتہ کی بات بھی شروع کردیتے تھے، مجھے ان سے اس سلسلے میں شروع سے ھی شکایت رھی تھی!!!!!!

    جب والد صاحب میرے دوست کے گھر سے آئے، میں اس وقت گھر پر نہیں تھا لیکن کچھ دیر بعد ھی میں گھر پہنچ چکا تھا، کافی رات ھوچکی تھی اور میں اکثر رات کو کھانا باھر ھی کھا کر آتا تھا، اور وہ اسی چیز کو لے کر پریشان تھے اور ان کو شک تھا کہ میں ابھی تک زادیہ کے گھر جاتا ھوں اور وہ دونوں لڑکیاں مجھے ان سے چھیننے کی کوشش کررھی ھیں، اسی وجہ سے وہ چاھتے تھے کہ میری جلد سے جلد کہیں بھی شادی ھوجائے، اور میں انکی ھر شادی کی خواھش کو غصہ سے ٹھکرادیتا تو وہ کسی دوسری طرف چل دیتے اور بھی اسی کی کڑی تھی وہ گھر پر ھی میرا انتظار کررھے تھے، جب میں نے انھیں بیٹھے ھوئے دیکھا اور کافی مجھے مکھن لگا رھے تھے تو میں سمجھ گیا کہ آج اور ابھی کسی لڑکی کا شجرہ نسب کھلنے والا ھے،!!!

    میں ان کے ساتھ بیٹھ گیا پھر انہوں نے میرے دوست کی بہن کی تعریفوں میں قصیدے پڑھنے شروع کردئے، وہ ایسی ھے ویسی ھے بہت خوبصورت ھے گھر کا سارا کام وہ کرتی ھے اور کیا ذائقہ دار کھانے پکاتی ھے اور یہ سن کر پھر پہلے کی ظرح میں گرم ھوگیا اور بالکل ھی انکار کردیا اور کہا کہ کیا گھر کیلئے آپ نوکرانی تلاش کرنے گئے تھے، جب میں نے پہلے کہہ دیا تھا کہ میں ابھی کسی صورت میں شادی کرنا نہیں چاھتا تو آپ مجھے بغیر بتائے ھوئے میرے دوست کے گھر کیوں گئے وہ میرا دوست ھے اور مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میرے دوست کے گھر میں میرا رشتہ ھو اور میرا دوست میرے بارے میں کیا سوچے گا،!!! والد صاحب نے جواب دیا ارے بیٹا تمھارے دوست کی مرضی سے ھی گیا تھا اور ان کی ھی یہ خواھش تھی کہ ان کی بہں کی شادی تم سے ھو، اور اس لئے مجھے اپنی بہں کو دکھانے کیلئے گھر لے گئے تھے اور انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر آپکو پسند آجائے تو اپنے بیٹے سید سے بات کرکے دیکھئے گا، اگر وہ راضی ھے تو ھمارے لئے ایک اچھا رشتہ مل جائے گا اور ھماری دوستی رشتہ داری میں بدل جائے گی،!!! میں نے پھر کوئی جواب نہیں دیا اور غصہ میں کوئی جواب نہیں دیا، اور سونے چلا گیا بعد میں انہوں نے والدہ سے کیا بات ھوئی معلوم نہیں !!!!!!!!

    وہ سمجھے کہ شاید مین نیم راضی ھوں، اس لئے وہ دوسرے دن والدہ کو بھی ساتھ لے گئے اور بات بھی پکی کر آئے، اور ان کو گھر پر دعوت بھی دے دی، کہ وہ سب مجھے دیکھ لیں، اب ان دنوں ڈویژنل آفس میں جب بھی میرا اپنے دوست کا سامنا کرتا تو میں بالکل شرمندہ ھوجاتا، اور وہ بھی مجھ سے ہنس کر پیش آتا، اور کوئی اس موضوع پر بات بھی نہیں کرتا تھا، اور میری خاموشی کو اس نے یہی سمجھا کہ شاید مجھے یہ رشتہ پسند ھے، اور دفتر میں بھی کئی لوگوں نے مجھے کہا کہ یہ بہت اچھے لوگ ھیں اور بہتر ھے کہ یہاں شادی کرلو اور وہ تمھارا دوست بھی ھے، میں انہیں کوئی بھی جواب نہیں دیتا، ان کے گھر والے آئے اور مجھے دیکھ کر خوشی خوشی پسند کرکے چلے گئے، میں نے پھر سب اپنے گھر والوں سے کہا کہ اب کوئی بھی ان کے گھر نہیں جائے گا، اس طرح وہ سمجھ جائیں گے کہ لڑکے کو یہ رشتہ پسند نہیں ھے!!!!!!!!

    اسی طرح گھر پر کوئی کسی نے مجھ سے پھر کوئی شادی کی بات نہیں کی، میں بھی خاموش ھی رھا اور نہ ھی گھر سے کوئی میرے دوست کے گھر گیا، میرے دوست کے گھر والے پریشان تھے کہ نہ جانے کیا بات ھے کہ ھماری طرف سےخاموشی چھائی ھوئی ھے، جبکہ انہوں نے اپنے والد صاحب جو سعودی عربیہ میں تھے ان سے بھی رضامندی لے لی تھی وہ تو بلکہ بہت ھی خوش ھوئے کیونکہ وہ میرے ساتھ بھی کام کرچکے تھے، اور انہوں نے بھی وہاں اہنے تمام ساتھیوں کو اس رشتہ کے بارے میں بتا دیا تھا، اور وہاں پر تقریباً میرے سارے استاد جنہوں نے مجھے سارا اکاؤنٹس کام سکھایا تھا اور ھر ایک کے ساتھ میں نے اسی کمپنی کے ھیڈآفس راولپنڈی اور کراچی میں بیٹھ کر کام کو سیکھا تھا، جو اسی کمپنی کی ھی توسط سے ٹرانسفر ھوکر پہلے ھی سے سعودی عرب میں پہنچ چکے تھے، اور وہ بھی میرے اس رشتہ سے بہت خوش تھے!!!!!

    جب چار پانچ مہینے ھوگئے اور میرا ٹرانسفر سعودی عرب ھونے والا تھا تو اِدھر دوست کی والدہ کو بہت فکرلاحق ھوئی کہ نہ جانے کیا بات ھے کہ ھمارے گھر سے کوئی جواب نہیں آیا، انہوں نے اپنے بیٹے جو میرا دوست تھا اس سے غصہ میں پوچھا کہ اب تک کیوں وہاں سے جواب نہیں آیا، ان سے پو چھو ورن ھماری بیٹی کیلئے رشتے آرھے ھیں جو مجھے پسند ھوگا میں وہاں ھاں کردوں گی، مگر میرے دوست نے اپنی امی سے کہا کہ میری بہن کی شادی صرف اور صرف وہیں ھوگی اور کہیں نہیں، ھاں اگر میرے دوست کی شادی ھوجاتی ھے تو پھر میں کچھ سوچوں گا، اور آخر وہ دن آھی گیا جس دن مجھے آفس سے پاسپورٹ اور ٹکٹ مل گیا اور مجھے دوسرے دن ھی سعودی عرب کے دارالحکومت الریاض کیلئے روانہ ھونا تھا،!!!!!!!!!!!!

    ----------------------------------

    جب چار پانچ مہینے ھوگئے اور میرا ٹرانسفر سعودی عرب ھونے والا تھا تو اِدھر دوست کی والدہ کو بہت فکرلاحق ھوئی کہ نہ جانے کیا بات ھے کہ ھمارے گھر سے کوئی جواب نہیں آیا، انہوں نے اپنے بیٹے جو میرا دوست تھا اس سے غصہ میں پوچھا کہ اب تک کیوں وہاں سے جواب نہیں آیا، ان سے پو چھو ورن ھماری بیٹی کیلئے رشتے آرھے ھیں جو مجھے پسند ھوگا میں وہاں ھاں کردوں گی، مگر میرے دوست نے اپنی امی سے کہا کہ میری بہن کی شادی صرف اور صرف وہیں ھوگی اور کہیں نہیں، ھاں اگر میرے دوست کی شادی ھوجاتی ھے تو پھر میں کچھ سوچوں گا، اور آخر وہ دن آھی گیا جس دن مجھے آفس سے پاسپورٹ اور ٹکٹ مل گیا اور مجھے دوسرے دن ھی سعودی عرب کے دارالحکومت الریاض کیلئے روانہ ھونا تھا،!!!!!!!!!!!!

    زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے ملک سے باھر جارھا تھا، اور خوشی اس بات کی زیادہ تھی کہ ارض مقدسہ میں حج، عمرہ اور زیارت بھی سرکارنبی کی ھوجائے گی، میں اتنا گنہگار بندہ اور کہاں سے آج میری سنی گئی اور بلاؤہ آگیا، بعض اوقات میں سوچتا ھوں کہ میں کتنا خوش قسمت تھا کہ مجھ سے کہیں زیادہ بہتر قابلیت رکھنے والے لوگ اس کمپنی میں موجود تھے، لیکن میرا نام جانے والوں کی لسٹ میں جانے کہاں سے آگیا، وہ بھی بغیر کسی سفارش کے، سبحان اللٌہ!!!!!

    میں جانے کے ایک دن پہلے ھی باجی کے گھر پہنچا تاکہ ان سے بھی اجازت لے لوں، اور خالہ سے بھی دعائیں لےلئیں، اور زادیہ سے بس رسماً ھی سلام دعاء ھوئی، اور سب کو الوداع کہتا ھوا نیچے اترا اور موٹرسائیکل اسٹارٹ کرکے چند ایک اور دوستوں سے ملتا ھوا اپنے گھر پہنچا جہاں پہلے ھی سے مہمانوں کی بھرمار تھی، اور باری باری سب مجھے مبارکباد دے رھے تھے، اور میں بالکل ھونق بنا ھوا تھا، ایک سوٹ کیس گھر پر تیار ھوچکا تھا اور ایک اور ھینڈ بیگ تیار ھورھا تھا، ساری رات اسی طرح باتوں اور لوگوں سے ملنے ملانے میں ھی گزر گئی، اور کچھ دوست بھی رات گئے تک گھر پر ملنے آتے رھے، پھر اسی طرح فجر کا وقت ھوگیا نماز کے بعد کچھ دیر کےلئے لیٹا، لیکن نیند بالکل نہیں آئی، صبح ائرپورٹ کے لئے نکلنا تھا، !!!!!!!

    کمپنی کی گاڑی گھر پر آچکی تھی مجھے ائرپورٹ لے جانے کیلئے بڑی وین تھی اس میں تقریباً گھر کے تمام افراد آچکے تھے، اور باقی تمام محلے والوں اور دوستوں کو وھیں گھر پر ھی الوداع کیا کچھ نے کہا کہ ھم ائرپورٹ پر ھی ملیں گے، اور کچھ رشتہ دار بھی اپنی اپنی گاڑیوں میں آئے ھوئے تھے، وہ بھی ائرپورٹ ھی جانا چاھتے تھے، اور ایک قافلہ جاتے جاتے بن گیا تھا ایسا لگتا تھا کہ کسی کی بارات جارھی ھے، میں نے جاتے جاتے امی سے کہہ دیا تھا کہ میری شادی کے بارے میں اب کوئی بات نہیں ھوگی اور نہ ھی کسی سے میری شادی کیلئے کوئی گفت شنید کرنے کی ضرورت ھے، جب مجھے شادی کرنی ھوگی میں آپکو بتا دونگا، بس اس کے باوجود بھی آپلوگوں نے میرے متعلق کسی سے بھی میری شادی کے بارے میں ھاں کی تو میرے لئے بہت مشکل ھوجائے گی، اور آپکو میری خاطر شرمندگی اٹھانی پڑے گی، والدہ نے کہا کہ اچھا ٹھیک ھے،!!!!!

    والدہ کے وعدہ پہ میں بالکل مطمئین تھا اور میں نے ائرپورٹ پر سب سے ایک دفعہ اور الوداع کہا میں ویسے ھی ایک عجیب ھی طرح بوکھلایا ھوا تھا، مجھے کچھ پتہ نہیں چل رھا تھا کہ کس سے مل رھا ھوں کون مجھے کیا کہہ رھا ھے، کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرھا تھا، اتنے لوگ ملنے آئے ھوئے تھے، کہ ایک دوسرے کو پہچاننے میں بھی دشواری ھورھی تھی بہرحال فلائیٹ کے تیار ھونے اعلان ھوچکا تھا، میں نے سب کو آخری بار ھاتھ کے اشارے سے الوداع کہتے ھوئے، اپنے ایک سوٹ کیس اور بیگ کو ایک ٹرالی پر ڈالے ھوئے اندر پہنچ گیا اور فلائیٹ کاؤنٹر پر بورڈنگ پاس لیا اور سوٹ کیس تو لگیج میں چلا گیا، اور میں بس بیگ اٹھائے امیگریشن کاونٹر پر گیا وھاں کچھ دیر بعد نمبر آگیا، اسے پاسپورٹ دیا اس نے پاسپورٹ پر ویزا وگیرہ چیک کرکے خروج کی مہر لگادی اور میں پاسپورٹ اور ٹکٹ کے ساتھ بورڈنگ پاس کو ھاتھ میں لے کر سیکوریٹی چیک کراتا ھوا ائرپورٹ لاؤنج میں بیٹھ گیا اور بس انتظار کرتا رھا کہ فلائیٹ کی روانگی کا اعلان سننے کیلئے !!!!!!!

    جیسے ھی فلائیٹ کا اعلان ھوا تو میں بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ اٹھ گیا اور لائن سے ھوتا ھوا باھر نکلا تو ایک بس کھڑی تھی، اس میں سب لوگ بیٹھے تو میں بھی ان کے ساتھ بیٹھ گیا میں خود بھی لوگوں کے ساتھ ھی چل رھا تھا، کیونکہ میں پہلی مرتبہ ھی ھوائی جہاز میں سفر کررھا تھا،لیکن کسی پر یہ ظاھر نہیں کررھا تھا کہ میں پہلی مرتبہ سفر کررھا ھوں، وہ بس سیدھے ھی جہاز کے قریب پہنچی جہاں دو سیڑھیاں لگی ھوئی تھیں، میں بھی لوگوں کے ساتھ اس میں سے ایک سیڑھی پر چڑھ گیا، اور جہاز پر ایک ائرھوسٹس نے مجھے دیکھتے ھی خوش آمدید کہا اور میرے بورڈنگ پاس کو دیکھتے ھوئے مجھے راستہ دکھایا، وھاں سے میں سیٹوں کے نمبر دیکھتا ھوا اپنی سیٹ کے پاس پہنچ کر پہلے اپنا بیگ اوپر کے کھلے ھوئے کیبنٹ میں رکھا اور سیٹ پر جاکر بیٹھ گیا اتفاق سے کھڑکی کے پاس سیٹ ملی تھی، میں بس کھڑکی سے باھر کی ظرف بڑے شوق سے دیکھ رھا تھا!!!!!!!

    کچھ ھی دیر میں جہاز کے روانہ ھونے کا اعلان ھوا اور کہا گیا کہ اپنی اپنی بیلٹ باندھ لیں، مجھے بیلٹ تو نظر آئی مگر کس ظرح سے باندھوں یہ سمجھ میں نہیں آیا، میں نے برابر والے کو دیکھا تو اس نے بھی ابھی تک بیلٹ کو چھوا تک نہیں تھا، پھر میں نے دیکھا کہ ائرھوسٹس جہاز میں سفر کے بارے میں ھدایت دے رھی تھی، اور اس نے جیسے ھی بیلٹ کو باندھنے کا طریقہ بتایا، میں نے بہت ھی غور سے دیکھا اور ذھن میں رکھتے ھوئے اپنی بیلٹ کو باندھ لیا، شکر ادا کیا کہ ایک مرحلہ تو پورا ھوا، فوراً ھی جہاز نے حرکت کی تو میں سنبھل گیا اور کھڑکی سے باھر دیکھنے لگا فوراً ھی ایک ائرھوسٹس میرے نزدیک آئی میں پہلے تو ڈر گیا کہ کہیں یہ باھر جھانکنے کے لئے منع تو نہیں ‌کررھی مگر وہ تو ایک ٹافیوں کی ایک چھوٹی سی ٹوکری لئے کھڑی تھی، میں نے ایک ٹافی شکریہ کہتے ھوئے اٹھائی، اس نے بھی بڑے مسکراتے ھوئے جواب دیا اور آگے چلی گئی، اب جہاز ایک رن وے پر آکے کھڑا ھو گیا اور ایک انگلش میں اعلان کیا کہ جہاز اڑنے کیلئے تیار ھے، اور ایک دم اس نے اسپیڈ پکڑی اور رن وے پر دوڑنے لگا!!!!!!!!

    میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا اور چند سیکنڈ مین جہاز نے رن وے کو چھوڑدیا، میرے کان بند ھوگئے اور میں کھڑکی سے کراچی شہر کو دیکھ رھا تھا بس کچھ ھی دیر میں سمندر نطر آیا اور بالکل نیچے بڑے بحری جہاز چھوٹے چھوٹے نظر آرھے تھے پھر کچھ اور جہاز اوپر جاتے ھی بادلوں کے جھنڈ میں سے نکلتا ھوا بادلوں کے اوپر آگیا، نیچے اب سفید بادل بہت ھی خوبصورت نظر آرھے تھے، دن کا وقت تھا اس لئے سب کچھ صاف صاف نظر آرھا تھا، میں نے دیکھا کہ لوگ اپنی اپنی بیلٹ کو کھول رھے تھے، اور ساتھ ھی اناؤنسمنٹ بھی ھورھی تھی، فوراً کھانا بھی ائر ھوسٹس کھانے کی ٹرالی کھینچتے ھوئے لے آئی اور ایک ٹرے مجھے پکڑادیا، میں نے اپنے سامنے کی سیٹ کے بیک سے کھانے کی ٹرے کھولی اور اس میں کھانے کی ٹرے رکھی، اس میں ایک چکن کا فرائیڈ پیس تھا اور کچھ چاول اور کچھ مصالےدار گوشت بھی بھنا ھوا رکھا تھا، کھانا مزے کاتھا لیکں کچھ پھیکا پھیکا سا تھا، مجھے اچھا لگآ !!!!!

    کھانے سے فارغ ھوکر چائے لے کر آئی، چائے بھی پی لی اس کے بعد خالی ٹرے لینے آئی، اس طرح ایک رونق بھی لگی رھی، میں بھی برابر والے سے باتیں کرتا رھا وہ بھی پہلی مرتبہ سفر کررھا تھا، پھر تقریباً ڈھائی گھنٹے بعد الریاض ائرپورٹ پر جہاز کے اترنے کا اعلان ھوا، اور پھر سب نے سیٹ بیلٹ باندھ لی، میں نے بھی اسی طرح کیا، اور پھر کھڑکی سے جہاز کو نیچے ھوتے ھوئے دیکھ رھا تھا، اور کچھ ھی دیر میں سارا شہر نظر آنے لگا اور ایک دھم سی آواز آئی میں ڈر گیا شاید جہاز کے پہئیے کھل گئے تھے پھر پندرہ منٹ میں جہاز کے پہئیے زمین کو چھو رھے تھے،!!!!!!!!
     
  5. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    کھانے سے فارغ ھوکر چائے لے کر آئی، چائے بھی پی لی اس کے بعد خالی ٹرے لینے آئی، اس طرح ایک رونق بھی لگی رھی، میں بھی برابر والے سے باتیں کرتا رھا وہ بھی پہلی مرتبہ سفر کررھا تھا، پھر تقریباً ڈھائی گھنٹے بعد الریاض ائرپورٹ پر جہاز کے اترنے کا اعلان ھوا، اور پھر سب نے سیٹ بیلٹ باندھ لی، میں نے بھی اسی طرح کیا، اور پھر کھڑکی سے جہاز کو نیچے ھوتے ھوئے دیکھ رھا تھا، اور کچھ ھی دیر میں سارا شہر نظر آنے لگا اور ایک دھم سی آواز آئی میں ڈر گیا شاید جہاز کے پہئیے کھل گئے تھے پھر پندرہ منٹ میں جہاز کے پہئیے زمین کو چھو رھے تھے،!!!!!!!!

    1978 کا سال مئی کا مہینہ، گرمیوں کا موسم، میری عمر تقریباً 28 سال اور آج میں اپنے وطن سے دور، مگر ارض مقدسہ کے ایک شہر الریاض میں میرا ھوائی جہاز لینڈ کررھا تھا، مجھے ایک طرف سے تو خوشی بھی تھی کہ ایک میری دیرینہ خواھش ارض مقدسہ کی زیارت پوری ھورھی تھی اور دوسری طرف تھوڑا بہت دکھ تو اپنوں سے دور ھونے کا بھی تھا، جیسے ھی جہاز ایک جگہ جاکر رکا تو میں ‌نے کھڑکی سے دیکھا کہ دو سیڑھیاں ھمارے جہاز کی طرف بڑھ رھی ھیں، کچھ ھی منٹ میں سیڑھیاں لگنے کے فوراً بعد جہاز کے دو دروازے کھل گئے، اور تمام مسافر آہستہ آہستہ ایک قطار میں دروازے کی طرف چلنے لگے، جہاں سیڑھی لگی ھوئی تھی، میں بھی اپنا چھوٹا بیگ کیبنٹ سے نکال کر ھاتھ میں اٹھائے ھوئے جیسے ھی میں دروازے کی طرف پہنچا تو ایک دم شدید تپش کا جھونکا لگا ایسا لگا کہ باھر آگ لگی ھوئی ھے، اور بمشکل سیڑھیوں سے اترتا ھوا، نیچے کھڑی ھوئی بس میں چڑھا تو کچھ سکون ملا،اتنی شدید گرمی تو میں نے پاکستان میں کہیں بھی نہیں دیکھی تھی،!!!!!!!

    بہرحال یہ میرا اتفاق تھا باھر جانے کا، اس لئے بہت سنبھل سنبھل کر دوسروں کی تقلید کرتا ھوا چل رھا تھا، جیسے ھی بس رکی، جلدی جلدی اتر کر ائرپورٹ کی بلڈنگ کے اندر پہنچ کر میں سیدھا امیگریشن کی لائن میں لگ گیا اور ایمیگریشن کا انفارمیشن کارڈ جو جہاز میں ھی ملا تھا، پہلے ھی میں اسے بھر چکا تھا اور پاسپورٹ کے ساتھ ھی رکھ لیا تھا، جیسے ھی کاونٹر پر پہنچا تو میں نے اپنا پاسپورٹ اور ایمیگریشن کارڈ کاونٹر پر رکھا وپاں کی سیکوریٹی کے بندے نے پہلے تو مجھے غور سے دیکھا اور پاسپورٹ پر ویزے کو چیک کیا ((((اور کمپیوٹر میں کچھ تصدیق کے لئے کچھ کلک کیا،))))!!!! یہ میں نے روانی میں غلط لکھ دیا، اس وقت کمپیوٹر استعمال میں نہیں تھا، معذرت چاھتا ھوں، اور شیر افضل صاحب کی طرف سے اصلاح کے لئے میں ان کا شکر گزار اور ممنوں ھوں !!!!)))) پھر ایک دخول کی مہر لگا کر مجھے پاسپورٹ دے دیا، اور ایمیگریشن کارڈ اپنے پاس ھی رکھ لیا، میں نے پاسپورٹ کو سنبھال کے اپنی جیب میں رکھ لیا اور ھاتھ میں اپنے بیگ کو اٹھائے ھوئے اس بیلٹ پر پہنچا، جہاں پر ھمارے جہاز کا ساماں چکر لگا رھا تھا، کچھ ھی دیر میں مجھے اپنا سوٹ کیس نظر آگیا، اسے فوراً ھی چلتی ھوئی بیلٹ پر سے اٹھایا، اور کسٹم حکام کے کاؤنٹر پر پہنچا اور سوٹ کیس اور بیگ کا اپنا سارا سامان انہوں نے چیک کیا اور چاک سے لکیر مار کر انہوں نے کلئیر کردیا، اور اپننے سوٹ کیس اور بیگ کو اچھی طرح بند کیا اور باھر نکلنے والے گیٹ کی طرف چل دیا،

    مجھے کراچی سے یہاں تک پہنچنے ھی کوئی بھی مشکل پیش نہیں آئی، مجھے ویسے بھی دفتر میں یہ سب کچھ سفر کی تمام احتیاطی تدابیر پہلے سے ھی واضع کردی تھیں، اس کے علاؤہ میں لوگوں کے نقش قدم پر ھی اپنے قدم ملاتا ھوا چل رھا تھا، تاکہ کسی کو بھی یہ محسوس نہ ھو کہ میں پہلی بار سفر کررھا ھوں، کیونکہ سنا تھا کہ پہلی مرتبہ سفر کرنے والوں کے ساتھ کئی مشکلیں بھی پیش آئیں اور مذاق کا نشانہ بھی بنے، ایک واقعہ سنا تھا کہ ایک مسافر جو پہلی مرتبہ سفر کررھا تھا اس نے برابر والے سے کہا جو کھڑکی کے پاس بیٹھا تھا، “کہ بھائی صاحب گرمی لگ رھی ھے ذرا یہ کھڑکی تو کھول دینا“، مگر آپ یقین کریں وہ آدمی میں نہیں تھا،!!!!!! جیسے ھی باھر نکلا تو میں نے ایک صاحب کو دیکھا جو مجھے ھی دیکھ کر ھاتھ ھلا رھے تھے جو میرے ساتھ کراچی میں ایک پروجیکٹ پر کام بھی کر چکے تھے، اور ان کا بیٹا بھی جوکہ میرا دوست بھی تھا، کراچی میں اسی کمپنی کے آفس میں والد صاحب کے ساتھ کام کررھا تھا اور آج کل ان کی بیٹی سے میرے رشتے کی بات بھی چل رھی تھی،!!!!!!

    انہوں نے سلام دعاء کے بعد مجھ سے میرے منع کرنے کے باوجود سوٹ کیس لے لیا اور خیر خیریت پوچھتے ھوئے ساتھ ھی چل رھے تھے، اور ھم دونوں ڈرائیور کے ساتھ پارکنگ میں پہنچے وھاں کمپنی کی کار میں بیٹھ کر دفتر کی طرف روانہ ھوگئے، وہ میرے بہت ھی اچھے مہربان تھے، اور انہیں کی بیٹی کے رشتے کے لئے والد صاحب بہت بضد تھے کہ میرا رشتہ یہیں پر ھو لیکن میں پہلے ھی اپنی والدہ سے اس رشتے سے انکار کرکے یہاں آگیا تھا، جیسا کہ پہلے تفصیل سے میں نے تحریر بھی بیان کرچکا ھوں، اب مجھے ان کے ساتھ چلتے ھوئے بہت شرمندگی ھو رھی تھی، مگر انہوں نے اس موضوع پر مجھ سے کسی قسم کی کوئی بات نہیں کی اور نہ ھی کوئی مجھے انکی طرف سے کوئی ایسا محسوس ھوا تھا کہ انکی بیٹی کے ساتھ میرا رشتہ ھونے والا ھے، مگر دفتر کے ساتھ رھائیش تھی جہاں پہنچنے پر انہوں نے میری کافی خاطر مدارات کی اور لوگوں سے میرا تعارف بھی کرایا جو مجھے نہیں جانتے تھے، کیونکہ اکثریت مین زیادہ تر لوگ مجھے پہلے سے ھی جانتے تھے اور وھاں پر میرے تمام سینئیر استاد صاحبان بھی موجود تھے،!!!!!!!

    وہاں پر سب لوگوں نے میرا پرتپاک خیر مقدم کیا، شام ھوچکی تھی دفتر میں سب سے سلام دعاء کرنے کے بعد میرے دوست کے والد مجھے وہاں کے ڈائیریکٹر کے پاس لے گئے اور انہوں نے بھی خیر خیریت پوچھی اور پھر کچھ رسمی بات چیت کے بعد میں نے اجازت لی اور باھر لکل کر اپنے کمرے میں چلا آیا، پھر کچھ نہا دھو کر تازہ دم ھوگیا پھر وہی میرے کمرے میں اپنے ایک دوست کو لے آئے اور میرا تعارف وغیرہ کرایا، اور پھر انکے دوست نے میرا اچھا خاصہ انٹرویو لے ڈالا، اب ایسا لگ رھا تھا کہ شاید ان صاحب کو میرے اس رشتے کے بارے میں معلوم ھوچکا ھے، اور وہ مجھے کہہ رھے تھے کہ جہاں تمھارا رشتہ ھونے جارھا ھے وہ بہت اچھے لوگ ھیں، میں اس پوری فیملی کو اچھی طرح جانتا ھوں، وغیرہ وغیرہ، میں نے بھی کوئی جواب نہیں دیا، پھر ھم تینوں ھی بازار چلے گئے اور مجھے کچھ ضرورت کی چیزیں خرید کر دیں اور پیسے بھی ادا کردئیے، میں نے کہا کہ میں یہ پیسے آپ کو بعد میں لوٹا دونگا، کیونکہ وہاں کی کرنسی اس وقت میرے پاس نہیں تھی،!!!!!!
    -----------------------------------------
    وہاں پر سب لوگوں نے میرا پرتپاک خیر مقدم کیا، شام ھوچکی تھی دفتر میں سب سے سلام دعاء کرنے کے بعد میرے دوست کے والد مجھے وہاں کے ڈائیریکٹر کے پاس لے گئے اور انہوں نے بھی خیر خیریت پوچھی اور پھر کچھ رسمی بات چیت کے بعد میں نے اجازت لی اور باھر لکل کر اپنے کمرے میں چلا آیا، پھر کچھ نہا دھو کر تازہ دم ھوگیا پھر وہی میرے کمرے میں اپنے ایک دوست کو لے آئے اور میرا تعارف وغیرہ کرایا، اور پھر انکے دوست نے میرا اچھا خاصہ انٹرویو لے ڈالا، اب ایسا لگ رھا تھا کہ شاید ان صاحب کو میرے اس رشتے کے بارے میں معلوم ھوچکا ھے، اور وہ مجھے کہہ رھے تھے کہ جہاں تمھارا رشتہ ھونے جارھا ھے وہ بہت اچھے لوگ ھیں، میں اس پوری فیملی کو اچھی طرح جانتا ھوں، وغیرہ وغیرہ، میں نے بھی کوئی جواب نہیں دیا، پھر ھم تینوں ھی بازار چلے گئے اور مجھے کچھ ضرورت کی چیزیں خرید کر دیں اور پیسے بھی ادا کردئیے، میں نے کہا کہ میں یہ پیسے آپ کو بعد میں لوٹا دونگا، کیونکہ وہاں کی کرنسی اس وقت میرے پاس نہیں تھی،!!!!!!

    ایک ہفتہ مجھے تو بالکل ہی نیند نہیں آئی، نیا نیا شہر اور ایک عجیب سی اجنبیت، مگر شکر ھے کہ کچھ دنوں بعد آہستہ آہستہ میرا دل لگ گیا تھا، کیونکہ ھمارے ساتھ سب پاکستانی ھی تھے، اور زیادہ تر سب مجھے جانتے تھے کیونکہ ھم ایک دوسرے سے 1971 سے لے کر اب تک کہیں نہ کہیں ساتھ کام کر چکے تھے اور سب سے اچھی بات یہ تھی کہ میرے تمام استاد یہیں پر موجود تھے جن کے ساتھ میں نے کام کیا اور بہت کچھ سیکھا بھی تھا، ایک دفعہ مجھے اور بھی موقعہ مل گیا ان کے ساتھ کام کرنے کا ، الریاض میں اس کمپنی کا سنٹرل آفس تھا، اور مختلف شہروں میں، ھر جگہ اس کمپنی کے ریرتعمیر پروجیکٹ چل رھے تھے، مجھے تقریباً یہاں چھ مہینے تک سنٹرل آفس میں ھی رھنا پڑا کی، کیونکہ جس الظھران کے پروجیکٹ کیلئے یہاں بھیجا گیا تھا، وہ ابھی شروع ھوا ھی نہیں تھا، اس لئے مجھے یہیں پر رکنا پڑا، اسی عرصہ میں جو بھی چھٹی جاتا اسکی جگہ مجھے بٹھا دیا جاتا، یہ بھی اچھا ھوا کہ ساری سیٹوں پر مجھے یہاں کا سسٹم اور کام کے طریقے اچھی طرح واقف ھوگیا تھا،!!!!!

    اسی دوران یہاں سے مجھے اپنے تمام آفس کے ساتھیوں کے ساتھ پہلی بار مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جانے کا اللٌہ تعالیٰ نے ایک موقع بھی دیا، جہاں مجھے عمرہ اور حج کرنے کی سعادت اور حضور اکرم :saw: کے دربار میں حاضری دینے کا شرف بھی نصیب ھوا تھا، الریاض سے ھم آفس کے ساتھیوں نے پہلے عمرے کا پروگرام بنایا جو کہ میری خوش قسمتی تھی کہ آتے ھی مجھے یہ سعادت نصیب ھورھی تھی اور الریاض سے مکہ مکرمہ تقریباً 1000 کلومیٹر کے فاصلہ کا سفر ھم نے اپنی کمپنی کی ھی بس سے تقریباً 20 گھنٹے میں طے کیا، پہلی مرتبہ باھر سے جب میں نے خانہ کعبہ کے میناروں کو دیکھا تو لبیک لبیک کہتے ھوئے میری آنکھوں سے آنسو جاری ھوگئے اور جسم بھی کپکپا رھا تھا اور جب اندر پہنچا تو خانہءکعبہ کو اپنے سامنے دیکھ کر تو ایک سکتہ سا طاری ھوگیا، !!!

    راستے میں ھی طائف میں اپنی کمپنی کے گیسٹ ھاؤس کمپاونڈ میں ھی احرام باندھ لیا گیا تھا، عمرہ ادا کرنے کے بعد دل ھی نہیں نہیں چاھتا تھا کہ اس کعبہ اللٌہ کی دیواروں کو چھوڑدوں، خیر دوسرے دن ھی مدینہ شریف کیلئے روانگی ھوئی، اور جیسے ھی مدینہ منورہ کے شہر میں داخل ھوئے تو ایک پرسکون اور دلوں کو ٹھنڈک سی راحت ملی، یہاں بھی ایک ھوٹل میں سامان وغیرہ رکھ کر اور تروتازہ ھوکر وضو سے فارغ ھوئے اور جلدی جلدی مسجد نبوی :saw: کی طرف بڑھے وھاں نوافل سے فارغ ھوئے تو عشاء کا وقت تھا روضہ مبارک کی جالیوں کے ساتھ ھی باجماعت نماز پڑھی، اور اسکے فوراً بعد روضہ مبارک کی جالیوں کی طرف بڑھے اور اسکے آس پاس تمام مقدس جگہوں پر دو دو نفل پڑھے خاص کر ریاض الجنہ کے دروازے کے پاس اور ممبر کے پاس جہاں حضورعالم نبی پاک :saw: نماز پڑھتے تھے، اور جو جو جگہ ملی بیٹھ کر دعائیں اور تسبیح پڑھی، آنکھوں کے سامنے دربار نبی :saw: کی جالیاں اور آنکھوں سے آنسوں کا ایک سیلاب سا امڈ رھا تھا، وھاں سے اٹھے تو سلام ادا کرنے کیلئے روضہ مبارک نبی پاک :saw: کے قریب پہنچے سلام و درود پڑھا اور ساتھ ھی حضرت ابو بکر صدیق :rda: اور ان کے ساتھ حضرت عمر ابن خطاب :rda: وہاں پر بھی ان پر سلام بھیجا اور پھر باھر نکل کر سامنے ھی بازار سے ھوتے ھوئے جنت البقیع کے مقبرات پر بھی زیارت کیلئے گئے،!!!!

    اس سے پہلے مدینہ شریف آتے ھوئے راستے میں جنگ بدر کے مقام پر گئے اور بعد میں مختلف زیارتوں پر بھی گئے اور ھر جگہ نوافل بھی ادا کئے، جس میں خاص طور سے مسجد قباء، مسجد قبلتین، جنگ احد کا مقام، اور سات مساجد جنگ قندق کا مقام، میقات پر ابیارعلی :rda: اور کئی مساجد جو اھم مقدس یادگار ھیں، وہاں مدینہ شریف میں دوسرے دن واپسی کی تیاری ھوگئی، وہاں سے واپس جاتے ھوئے بہت دکھ ھو رھا تھا لیکن مجبوری تھی، سروس کا معاملہ تھا، یہ میرا پہلی عمرہ اور زیارت کوکبھی نہیں بھول سکتا تھا، اور اس کے بعد حج کرنے کی بھی سعادت نصیب ھوئی، اسی طرح اتنا لمبا سفر جو اس وقت الریاض سے بذریعہ بس 20 گھنٹے کے قریب لگتے تھے آور آج کل سڑکیں اچھی اور چوڑی ھونے اور ڈبل روڈ ھونے کی وجہ سے تو 10 گھنٹے سے بھی پہلے مکہ مکرمہ پہنچ جاتے ھیں،!!!!!!

    -------------------------------------

    س سے پہلے مدینہ شریف آتے ھوئے راستے میں جنگ بدر کے مقام پر گئے اور بعد میں مختلف زیارتوں پر بھی گئے اور ھر جگہ نوافل بھی ادا کئے، جس میں خاص طور سے مسجد قباء، مسجد قبلتین، جنگ احد کا مقام، اور سات مساجد جنگ قندق کا مقام، میقات پر ابیارعلی اور کئی مساجد جو اھم مقدس یادگار ھیں، وہاں مدینہ شریف میں دوسرے دن واپسی کی تیاری ھوگئی، وہاں سے واپس جاتے ھوئے بہت دکھ ھو رھا تھا لیکن مجبوری تھی، سروس کا معاملہ تھا، یہ میرا پہلی عمرہ اور زیارت کوکبھی نہیں بھول سکتا تھا، اور اس کے بعد حج کرنے کی بھی سعادت نصیب ھوئی، اسی طرح اتنا لمبا سفر جو اس وقت الریاض سے بذریعہ بس 20 گھنٹے کے قریب لگتے تھے آور آج کل سڑکیں اچھی اور چوڑی ھونے اور ڈبل روڈ ھونے کی وجہ سے تو 10 گھنٹے سے بھی پہلے مکہ مکرمہ پہنچ جاتے ھیں،!!!!!!

    سبحان اللٌہ اب تک کئی حج اور بے شمار عمرے اور زیارت روضہ مبارک :saw: اللٌہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ھوچکے ھیں، اب بھی یہاں دل یہی چاھتا ھے کہ ساری زندگی بس یہیں گزرجائے، اور موت بھی آئے تو دیار نبی :saw:کے روضہ اقدس کے چوکھٹ پر آئے، جو سکون قلب اور راحت زندگی کا لطف یہاں ھے وہ کہیں پر بھی نہیں ھے، !!!!!

    اللٌہ تعالیٰ کا مجھ گنہگار پر بہت ھی زیادہ کرم اور عنائت رھی کہ میری زندگی میں اس نے یہاں پر خوشیاں ھی خوشیاں اپنے حبیب:saw: کے صدقے میں میری جھولی میں بھر دیں، میں نے کچھ بھی اپنی زندگی میں کوئی پائی پیسہ بچایا نہیں ھے اور نہ ھی میری کوئی جائیداد ھے، لیکن میرا گھر اور میری چھوٹی سی فیملی بہت خوش و خرم ھے، یہیں میرے ساتھ بھی ھیں اور میرے بچے بھی مجھ سے اور اپنی والدہ سے بہت پیار کرتے ھیں بہن بھائیوں میں آپس میں بھی بہت پیار اور محبت ھے، اور دوسرے اپنے خاندانوں میں تمام لوگوں کی بہت عزت کرتے ھیں، اگر مجھ سے کسی سے کوئی ناراضگی ھو بھی جائے تو یہ کسی نہ کسی ظرح ملاپ کرادیتے ھیں، اور اب ماشااللۃ دو بچوں کا نکاح بھی ھوگیا ھے، ان کے سسرال والے تو اور بھی بہت بااخلاق اور خلوص کے اعلیٰ درجے کے انسانیت سے بھر پور احترام کی شخصیات کے مالک ھیں، اللہ تعالیٰ ان سب کو خوشیاں دکھائے، آمین،!!!! بڑی بیٹی پر تو اللٌہ تعالیٰ نے اتنا کرم کیا ھے کہ وہ سات سال سے ھر سال رمضان مبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف میں بلاناغہ بیٹھ رھی ھے، ھم کتنے خوش قسمت والدین ھیں کہ ھمیں تو اللٌہ تعالیٰ نے ھماری زندگی میں ھی ھم گنہاگاروں کو جنٌت کے نظارے دکھا دئیے، سبحان اللٌہ!!!!!!

    اب میرا یہاں آگے کچھ اور لکھنے کی ھمت بھی نہیں ھورھی بس دل یہی چاھتا ھے کےاس ارض مقدس کے بارے میں ھی آپ سب کو بتاتا رھوں، لیکن آپ سے ایک وعدہ بھی کیا ھے کہ اپنی جو بھی اچھی اور بری زندگی گزری ھے وہ سب کچھ آپ سب کے سامنے پیش کرسکوں اور ساتھ ساتھ یہاں کے بارے میں بھی جو بھی ھم نے دیکھا ھے وہ بھی آپ سب کے سامنے لاتا رھونگا، مجھے خوشی بھی ھے کہ یہاں کے سب قدردان اور خلوص اور محبت سے پڑھنے والے ناظرین، جس دل چسپی سے اس میری ناچیز کی کہانی کو پڑھ رھے ھیں، میں جتنا بھی انکا شکریہ ادا کروں کم ھے، اللٌہ تعالیٰ آپ سب کو خوشیاں دکھائے اور حج عمرہ ادا کرنے کی سعادت اور نبی اکرم :saw: کے روضے کی زیارت نصیب فرمائے، آمینَ!!!!!!

    اب اجازت چاھوں گا اور انشااللٌہ کل سے باقاعدہ طور سے پھر سے اپنی کہانی کو اسی تسلسل کے ساتھ شروع کرونگا جہاں پر سلسلہ ختم ھوا تھا، آج شام تک کچھ انٹرنیٹ میں کوئی پرابلم تھی جس کی وجہ سے زیادہ کچھ لکھ نہیں سکا امید ھے کہ آپ سب کچھ خیال نہیں کریں گے،!!!!!!!!
     
  6. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    یہاں ریاض آئے ھوئے بھی مجھے چھ مہینے ھوگئے تھے، اور اسی دوران حج اور عمرہ بھی کی سعادت اور روضہ مبارک :saw: کی زیارت بھی نصیب ھوگئی، اور مجھے کیا چاھئے اللٌہ تعالیٰ نے مجھ گنہگار پر اتنا کرم کیا، کہ میری یہ خاص دلی خواھشات کو پورا کیا، جو میں کبھی خوابوں میں بھی سوچ نہیں سکتا تھا، !!!!!!

    آفس کا کام بھی بہت اچھی طرح انجام پا رھا تھا، شروع شروع میں گھر کی یاد بہت آئی لیکن بعد میں وہاں کے لوگوں کے مخلصانہ سلوک کی وجہ سے دل لگ گیا، اور میرے لئے دو فیملیوں کو بھی ساتھ لے کر چلنا تھا، اس کے علاوہ میرا کچھ قرضہ بھی ھوگیا تھا، اس کیلئے مجھے کچھ نہ کچھ تو قربانی دینی ھی تھی اور اللٌہ تعالیٰ نے یہ مجھے بہت اچھا موقعہ بھی دے دیا تھا، جس سے میری تمام مشکلات بھی حل ھورھی تھیں، اور میں زادیہ کے مسئلے کو لے کر بھی بہت فکر مند تھا، میں چاھتا تھا کہ وہ کسی طرح بھی اپنی زندگی کو سہل، سکون اور اپنی نیک خواھشات کے مطابق گزارسکے، ھر وقت میرا ان سب سے رابطہ رھتا، اور ضرورت کے مظابق انہیں اخراجات کیلئے بھیجتا بھی رھتا تھا، مجھے ایک طرف سے یہ بھی اطمنان بھی تھا جب سے ان کے چچا جو ابوظہبی میں تھے، ان سے بھی ان کا رابطہ قائم تھا ، اور وہ کوشش یہی کررھے تھے کہ کسی طرح بھی یہ تینوں وہاں پہنچ جائیں،!!!!

    ادھر والد میری شادی کو لئے ھوئے بہت ھی زیادہ کچھ سنجیدہ بھی تھے اور مجھے ھمیشہ خط لکھ کر شادی پر ھی زور دے رھے تھے، ان کو بھی یہ یقین تھا کہ میں ابھی تک زادیہ لوگوں کے ساتھ تعلقات رکھے ھوئے ھوں، اور وہ لوگ ان کے بیٹے کو یعنی مجھ کو ان سے چھین لیں گے اور وہ بھی اپنی جگہ پر صحیح تھے، کوئی بھی اگر انکی جگہ پر ھوتا تو وہ بھی یہی سوچتا، اور والد صاحب اور والدہ یہ بالکل نہیں چاھتے تھے کہ زادیہ سےشادی تو دور کی بات ھے، میں کوئی بھی ان لوگوں سے تعلقات رکھوں، مگر میں ان تینوں کو اس طرح بے یار و مددگار اس منجھدار میں چھوڑ کر تو نہیں جاسکتا تھا، اور نہ ھی میرا ضمیر گوارہ کرتا، بہرحال اب اس مشکل وقت کو کسی نہ کسی طرح لے کر تو چلنا تھا، !!!!!!

    باجی کی طرفسے مجھے اب تک یہی پتہ چلا تھا کہ زادیہ کے شوھر نے کافی عرصہ سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا، اس کا یہی کہنا تھا کہ فی الحال زادیہ کو بھیج دو، اور باقی باجی اور خالہ کا ویزا بعد میں بھیجے گا شاید وہ زد پر اڑ گیا تھا اور ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ اگر وہ کچھ دنوں بعد نہیں پہنچی تو اسے وہ طلاق دے دے گا، جس کے جواب میں میں نے باجی سے یہی کہا تھا کہ اگر خدا نخواستہ اگر ایسی بات ھوتی بھی ھے تو میں زادیہ سے شادی کرنے کیلئے تیار ھوں بشرطیکہ زادیہ اس کے لئے راضی ھو، ورنہ اسکی جو مرضی!!!! باجی اور ان کی امی بھی یہی چاھتی تھیں کہ اس سے زادیہ کا کسی نہ کسی طرح چھٹکارہ مل جائے اور مجھ سے اس کی شادی ھو جائے، !!!!!!

    اور اسی دوران نیا سال 1979 بھی شروع ھوچکا تھا، اور میرا ٹرانسفر الظہران کے پروجیکٹ پر بھی ھوچکا تھا اور ادھر گھر سے میرے والد کا میری شادی کے لئے روزانہ دباؤ بڑھتا جارھا تھا اور وہ یہی چاھتے تھے کہ میرے دوست کی بہن سے میری شادی ھوجائے جن سے آخری بار اسی سلسلے میں ملنے ان کے گھر گئےتھے اور لڑکی کو بھی پسند کر آئے تھے، بعد میں اس دوست کے تمام گھر والے اور قریبی رشتہ دار بھی مجھے دیکھنے آئے، اور میرے بارے میں دوست کے والد جو یہاں میرے ساتھ تھے ان کی بھی رضامندی لے لی تھی، اور وہ یہاں میرا بہت خیال رکھتے تھے، میں تو دونوں طرفسے بری طرح پھنس گیا تھا کہ کیا کروں، میں نے آخری بار زادیہ کو خود ھی لکھا، کہ تمھیں اپنا بنانے کی ایک دل میں عرصے سے خواھش تھی اور اب بھی ھے اگر تم اس سے پسند نہیں کرتی ھو اور اس سے علیحدہ ھونا چاھتی ھو، تو میں ھر وقت تمھارا دل سے منتظر رھونگا، میں تمھیں چاھتا تھا اور اب بھی میرے دل میں تمھارے لئے وہی جذبات ھیں، اور اگر تمھاری مرضی ھے تو مجھے لکھ دو، ھاں یا نہ مجھے کوئی اعتراض نہیں ھوگا،!!!!!

    ایک ھفتے کے بعد مجھے اس کا جواب ملا، جس کا کہ مضمون کچھ اس ظرح سے ملا جلا تھا،!!!! کہ ڈیر سید تمھاری اس قربانی کا بہت بہت شکریہ، میں نہیں چاھتی کہ کوئی مجھ پر ترس کھائے اور مجھ پر کسی طرح کا احسان کرے، میری جو بھی زندگی ھے جیسی بھی ھے میں اس میں بہت خوش ھوں اور میرے معاملات میں کسی کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ مجھ پر احسان کرکے مزید مجھے پریشان کرے، میں ‌کسی کی بھی مہربانی کی قیمت میں اپنے آپ کو کسی کے احسان یا ھمدردی کے بھینٹ نہیں چڑھا سکتی، میرا یہی مشورہ ھے کہ تم اپنے والدین کی بات مان لو اور وہ جہاں کہتے ھیں شادی کرلو اور والدین کا جو بھی فیصلہ ھوتا ھے اپنی اولاد کیلئے بہتر ھی ھوتا ھے، اسی میں تمہاری اور ھماری بھلائی بھی ھے،!!!!! اور بھی بہت لمبا چوڑا خط لکھا تھا، جس کا مجموعی طور پر یہی مطلب تھا، میں تو زادیہ کا یہ خط پڑھ کر چکرا ساگیا، مجھے اس سے اس طرح کے جواب کی توقع نہیں تھی اور نہ اس سے اس طرح کے سخت گیر الفاظوں کی امید تھی، اس وقت ان حالات کے دوران میں نے یہ کبھی بھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ جو کچھ بھی میں ان کیلئے کررھا تھا کہ مجھے اس کے بدلے میں زادیہ کو پانے کی خواھش تھی، میں جو کچھ بھی کررھا تھا صرف ایک انسانیت کی رو سے اور ان سے جو بھی رشتہ تھا اس کے ناتے یہ تو میرا فرض بنتا تھا، اور میں کوئی اس پر ترس، رحم یا مہربانی نہیں کررھا تھا، نہ جانے اس کے دل میں یہ کیسے بات سما گئی،!!!!!!!!!

    زادیہ کے اس طرح کے خط لکھنے سے مجھے بہت ھی زیادہ افسوس ھوا اور رات بھر میں سو نہیں سکا، دوسرے دن میں پریشان حال آفس میں ھی بیٹھا تھا کہ والد صاحب کا خط بھی موصول ھوگیا، انہوں نے تو بہت ھی جذبات میں ڈوب کر خط لکھا تھا جو میرے خیال میں ان کے الفاظ ھو ھی نہیں سکتے تھے، انہوں نے جو مجھے لکھا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ بیٹا میں اب اپنے آپ کو بہت کمزور اور لاغر سمجھ رھا ھوں، نہ جانے کب اور کس وقت میری زندگی میرا ساتھ چھوڑ دے، بس میری اب آخری خواھش یہی ھے کہ میں تمھارا سہرا اپنی زندگی میں ھی دیکھ لوں، اگر تم یہاں اپنے دوست کی بہن سے شادی نہیں کرنا چاھتے تو مجھے تم اپنی پسند بتا دو یا جہاں تم چاھتے ھو میں تمھاری شادی جلد سے جلد کرنا چاھتا ھوں اور یہ میری بس تم سے التجا ھے اور یہ آخری میرے دل کی خواھش بھی ھے، مجھے فوراً اس کا جواب دو، ورنہ بیٹے تمھاری اپنی مرضی ھے جیسا چاھو،!!!!!!!

    جاری ھے،!!!!!!

    --------------------------------
    زادیہ کے اس طرح کے خط لکھنے سے مجھے بہت ھی زیادہ افسوس ھوا اور رات بھر میں سو نہیں سکا، دوسرے دن میں پریشان حال آفس میں ھی بیٹھا تھا کہ والد صاحب کا خط بھی موصول ھوگیا، انہوں نے تو بہت ھی جذبات میں ڈوب کر خط لکھا تھا جو میرے خیال میں ان کے الفاظ ھو ھی نہیں سکتے تھے، انہوں نے جو مجھے لکھا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ بیٹا میں اب اپنے آپ کو بہت کمزور اور لاغر سمجھ رھا ھوں، نہ جانے کب اور کس وقت میری زندگی میرا ساتھ چھوڑ دے، بس میری اب آخری خواھش یہی ھے کہ میں تمھارا سہرا اپنی زندگی میں ھی دیکھ لوں، اگر تم یہاں اپنے دوست کی بہن سے شادی نہیں کرنا چاھتے تو مجھے تم اپنی پسند بتا دو یا جہاں تم چاھتے ھو میں تمھاری شادی جلد سے جلد کرنا چاھتا ھوں اور یہ میری بس تم سے التجا ھے اور یہ آخری میرے دل کی خواھش بھی ھے، مجھے فوراً اس کا جواب دو، ورنہ بیٹے تمھاری اپنی مرضی ھے جیسا چاھو،!!!!!!!

    میں بھی کچھ زیادہ ھی جذبات میں آگیا تھا، دونوں خطوط کے الفاظوں کے جذباتی حدود، ایک دوسرے سے بالکل برعکس آپس میں اس طرح ٹکرائے کہ میں نے بھی مجبوراً اپنے فیصلہ کو والد صاحب کے حق میں کردیا، اور انہیں خط لکھ دیا کہ آپ اپنی مرضی سے جہاں آپ خوش ھیں وہیں میری شادی کر سکتے ھیں، بہتر یہی ھوگا کہ جہاں آپ اس وقت میرے دوست کی بہن سے میرے رشتے کیلئے بات چیت کررھے ھیں اور وہ لڑکی آپکو پسند بھی ھے، جن کے والد یہاں اسی کمپنی میں ملازم بھی ھیں، اور سب مجھ سے ھی امید باندھے ھوئے ھیں، تو میں یہی چاھوں گا کہ آپ وھاں جاکر ان کو اس شادی کیلئے ھاں کردیں،!!!!

    اس سے پہلے کہ میں واقعات کو آگےبڑھاؤں، یہ بتاتا چلوں کہ جو مجھے بعد میں پتہ چلا کہ والد صاحب زادیہ کا گھر ڈھونڈھتے ھوئے انکے گھر پہنچ گئے اور ان سے نہ جانے کس ظرح اور کیسے ملاقات ھوگئی، یہ تو مجھے معلوم نہیں ‌ھوسکا، بس اتنا ھی پتہ چلا کہ مجھے خط لکھنے سے پہلے والد صاحب ان سب سے ملے اور ان سے تمام گلے شکوئے دور کئے اور ان سب سے شاید یہی کہا کہ سید کیلئے ایک لڑکی دیکھی ھے، اور کافی عرصہ سے بات چیت چل رھی ھو اور میں نے انکو زبان بھی دے دی ھے اور وہ کچھ بتاتا بھی نہیں اور شادی سے بھی انکار کررھا ھے، صرف آپ لوگ ھی اسے اس بات پر راضی کرسکتے ھیں، اسے خط لکھ کر اس کو راضی کریں تاکہ میری عزت رہ جائے، کیونکہ مجھے معلوم ھے کہ وہ آپلوگوں کی بات کو کبھی نہیں ٹالے گا، اور اس کی شادی میں ساری تیاری بھی آپلوگوں نے ھی کرنی ھے،!!!!!

    1979 کا سال چل رھا تھا، اور مارچ یا اپریل کا مہینہ تھا، والد صاحب میرا خط ملتے ھی میرے دوست کے ساتھ ھی جو ان کے ساتھ ھی ایک الگ سیکشن میں کام کرتا تھا، ان کے گھر پہنچ کر یہ خوشخبری سنادی کہ میرے بیٹے نے آپکی بیٹی سے اس شادی کیلئے رضامندی ظاھر کردی ھے، اور میرا دوست بھی بہت خوش تھا کیونکہ انکی والدہ بہت ھی زیادہ پریشان تھیں کیونکہ کافی دن ھوگئے تھے اور والد صاحب میری ھی وجہ سے انہیں اب تک کوئی جواب نہیں دے سکے تھے اور میرے دوست نے اپنی والدہ کو یہی کہا تھا کہ میری بہن کی شادی اگر ھوگی تو صرف سید سے ھی ھوگی، جبکہ ان کی والدہ کے پاس ان کی بیٹی کیلئے رشتے بھی آرھے تھے مگر وہ اپنے بیٹے کی وجہ سے مجبور بھی تھیں، لیکن والد صاحب کے پہنچنے سے پہلے وہ دل برداشتہ ھوچکی تھیں اور ایک اچھے رشتے کیلئے ھاں کہنے جا ھی رھی تھیں، کہ والد صاحب پہنچ گئے،!!!!!!!

    یہ بھی بعد میں میرے علم میں یہ بات آئی کہ اسی دن وہاں سے وہ سیدھا زادیہ کے گھر پہنچے اور انہیں بھی مبارکباد دی اور شاید انکا شکریہ بھی ادا کیا ھوگا، کہ میرا بیٹا مان گیا ھے، اور انہیں تینوں کو وہ اپنے گھر پر بلا کر یہ کہتے ھوئے چلے گئے کہ اب جلدی سے ایک منگنی کی رسم ادا ھوجائے اور اس کیلئے آپلوگوں نے ھی تیاری کرنی ھے اور شادی کی بھی تاریخ وغیرہ بھی اسی دن رکھ لیں گے، کیونکہ سید بھی شاید مئی کے مہینے میں سالانہ چھٹی لیکر پہنچ جائے، وہاں سے وہ گھر پہنچے اور گھر پر امی اور بہن بھائیوں کو میرا خط دکھایا اور سب بہت ھی خوش ھوگئے، اور دوسرے دن باجی، زادیہ اور ان کی والدہ پہلی مرتبہ والد صاحب کی دعوت پر گھر پہنچ گئیں اور لازمی بات ھے کہ آپس میں گلے شکوئے بھی ھوئے ھونگے، چلو اسی بہانے ھی سہی دونوں فیملیوں میں تعلقات تو بحال ھوگئے،!!!!!!!

    ھماری والدہ تو بالکل سیدھی سادھی تھیں، اس لئے زادیہ لوگوں نے ھی اور میرے بہں بھائیوں نے ملکر تمام خریداری وغیرہ کی، ساتھ ھی منگنی کی تاریخ آپس میں ظے کرکے، اور تمام تیاری کرکے مقررہ تاریخ کو چند جان پہچان کے لوگوں کے ساتھ پہنچ گئیں، منگنی کی رسم بڑی دھوم دھام سے ادا ھوئی، اور یہ طے پایا کہ 9 جون 1979 کو نکاح اور رخصتی ھوگی، مجھے اس وقت پتہ چلا جب یہ ساری تفصیل بمعہ چار پانچ فوٹو گراف، کے ساتھ ایک رجسٹری پوسٹ کے ساتھ میرے چھوٹے بھائی نے بھیجی تھیں، ان تصویروں میں ھی باجی، زادیہ اور خالہ کو بھی میری ھونے والی دلہن کے ساتھ دیکھا، اور مجھے یہ حیرانگی ھوئی کہ والد صاحب نے کس طرح ان لوگوں سے دوستانہ ماحول پیدا کیا ھوگا جبکہ وہ ان سب سے سخت نفرت کرتے تھے،!!!!!!!
     
  7. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    ھماری والدہ تو بالکل سیدھی سادھی تھیں، اس لئے زادیہ لوگوں نے ھی اور میرے بہں بھائیوں نے ملکر تمام خریداری وغیرہ کی، ساتھ ھی منگنی کی تاریخ آپس میں ظے کرکے، اور تمام تیاری کرکے مقررہ تاریخ کو چند جان پہچان کے لوگوں کے ساتھ پہنچ گئیں، منگنی کی رسم بڑی دھوم دھام سے ادا ھوئی، اور یہ طے پایا کہ 9 جون 1979 کو نکاح اور رخصتی ھوگی، مجھے اس وقت پتہ چلا جب یہ ساری تفصیل بمعہ چار پانچ فوٹو گراف، کے ساتھ ایک رجسٹری پوسٹ کے ساتھ میرے چھوٹے بھائی نے بھیجی تھیں، ان تصویروں میں ھی باجی، زادیہ اور خالہ کو بھی میری ھونے والی دلہن کے ساتھ دیکھا، اور مجھے یہ حیرانگی ھوئی کہ والد صاحب نے کس طرح ان لوگوں سے دوستانہ ماحول پیدا کیا ھوگا جبکہ وہ ان سب سے سخت نفرت کرتے تھے،!!!!!!!

    منگنی کی تصویروں میں زادیہ اور باجی کو دیکھ کر حیران تھا اور بار بار ان تصویروں کو دیکھ کر اپنی ھونے والی بیگم کے ساتھ ساتھ ان کو بھی دیکھ رھا تھا، ساتھ یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رھا تھا کہ زادیہ کے چہرے پر کیسے تاثرات ھیں، تصویروں میں تو وہ بہت سنجیدہ سی نظر آئی، لیکن باجی کچھ مسکرا رھی تھیں مگر خالہ جان کچھ اداس اداس سی لگ رھی تھیں، بہرحال اب تو فیصلہ ھو چکا تھا مگر صرف مجھے زادیہ کے جواب سے بہت دکھ پہنچا تھا، اس سے مجھے اس بات کی توقع نہیں تھی، مگر کبھی یہ بھی دل میں خیال آیا کہ کہیں والد صاحب کے دباؤ میں آکر یا ان کی منت سماجت کی وجہ سے اس نے اس ظرح کا خط لکھا کہ میں والد صاحب کے فیصلے پر اپنا سر جھکا دوں، اوپر والا ھی بہتر جانتا ھے،

    مجھے مئی کے مہینے میں ھی سال پورا ھونے والا تھا اور میں نے چھٹی کیلئے درخواست بھی دے دی تھی، اور میری سیٹ 31 مئی کی رات کی تھی، ایک اور واپسی کا سفر کراچی کیلئے تیار تھا، مگر مجھے اب کوئی اتنی زیادہ خوشی نہیں تھی، ادھر باجی کا ویزا ان کے چچا نے کسی نہ کسی طرح بھجوادیا تھا، اور میرے پہنچنے سے پہلے ھی وہ اپنے چچا کے پاس ابوظہبی پہنچ گئیں، اور یہ مجھے وہاں پہنچنے پر ھی پتہ چلا تھا، جس دن میں کراچی پہنچا اس دن شاید جمعہ کا دن تھا اور یکم جون کی تاریخ تھی، اور صبح صبح کا وقت تھا گرمی شدت کی تھی،!!!!!

    جیسے ھی میں ائر پورٹ کے باھر نکلا تو سب گھر والے آئے ھوئے تھے سب بہں بھائی اور دوسرے عزیز اقارب بھی تھے، اور سب لوگ تقریباً پھولوں کے ھار لے کر آئے ھوئے تھے اور باری باری مجھے پہنا رھے تھے اور شادی کے ساتھ ساتھ حج اور عمرے کی مبارکباد دے رھے تھے، میں تو پھولوں کے ھار سے لد چکا تھا،سارے ھاروں کو گلے سے اتارا اور کسی کو پکڑا کر پھر سب گاڑی کی طرف چل دئے، جو کمپنی ھی کی طرف سے آئی تھی، ابھی میں گاڑی میں بیٹھنے والا ھی تھا کہ اچانک ایک رکشہ سامنے آکر رکا، میں نے دیکھا کہ اس میں سے پہلے زادیہ باھر نکلی اور اسکے بعد خالہ باھر آئیں اور انہوں نے مجھے گلے لگایا اور ماتھے پر پیار کیا، اور زادیہ نے ایک بہت ھی خوبصورت سا پھولوں کا ھار میرے گلے میں ڈالا اور ھاتھ ملاتے ھوئے مبارکباد دی، اور بس میں اسکے چہرے کو ھی دیکھ رھا تھا، اور اس نے اپنا چہرہ نیچے جھکایا ھوا تھا، !!!!!
    ------------------------------
    جیسے ھی میں ائر پورٹ کے باھر نکلا تو سب گھر والے آئے ھوئے تھے سب بہں بھائی اور دوسرے عزیز اقارب بھی تھے، اور سب لوگ تقریباً پھولوں کے ھار لے کر آئے ھوئے تھے اور باری باری مجھے پہنا رھے تھے اور شادی کے ساتھ ساتھ حج اور عمرے کی مبارکباد دے رھے تھے، میں تو پھولوں کے ھار سے لد چکا تھا،سارے ھاروں کو گلے سے اتارا اور کسی کو پکڑا کر پھر سب گاڑی کی طرف چل دئے، جو کمپنی ھی کی طرف سے آئی تھی، ابھی میں گاڑی میں بیٹھنے والا ھی تھا کہ اچانک ایک رکشہ سامنے آکر رکا، میں نے دیکھا کہ اس میں سے پہلے زادیہ باھر نکلی اور اسکے بعد خالہ باھر آئیں اور انہوں نے مجھے گلے لگایا اور ماتھے پر پیار کیا، اور زادیہ نے ایک بہت ھی خوبصورت سا پھولوں کا ھار میرے گلے میں ڈالا اور ھاتھ ملاتے ھوئے مبارکباد دی، اور بس میں اسکے چہرے کو ھی دیکھ رھا تھا، اور اس نے اپنا چہرہ نیچے جھکایا ھوا تھا، !!!!!

    زادیہ اور خالہ بھی ھمارے ساتھ ھی کمپنی کی گاڑی میں بیٹھ گئیں، اور سب گھر والے بھی اسی جو ایک اچھی خاصی بڑی وین تھی، اس کے علاوہ اور بھی دوست اور احباب بھی اپنی اپنی گاڑیوں میں اپنی فیملیوں کے ساتھ آئے تھے سب ایک قافلے کی صورت میں گھر پہنچے، اور کچھ تو ائرپورٹ سے ھی بعد میں گھر آنے کا وعدہ کرکے چلے گئے تھے باقی ساتھ ھی گھر تک آئے تھے اور کچھ دیر بعد وہ بھی شام کو آنے کا کہہ کر چلے گئے، زادیہ اور انکی امی گھر پر ھی تھے اور ایسا ھی لگ رھا تھا کہ جیسے وہ بھی اسی گھر کی خاص ممبر ھی ھوں، کتنے عرصے بعد میں ان کو اور ھمارے گھر والوں کو ایک ساتھ اس طرح ساتھ بیٹھے ھنستے بولتے دیکھ رھا تھا، اور سب مل جل کر اس طرح کام کررھے تھے کہ لگتا ھی نہیں تھا کوئی پرائے لوگ ھیں یہ معجزہ کیسے ھوگیا مجھے بہت ھی تعجب ھورھا تھا،

    باجی کا پتہ چلا کہ وہ تو اپنے چچا کے پاس ابوظہبی گئی ھوئی ھیں، ھوسکتا ھے وہ زادیہ اور اس کے شوھر کے مسئلے کو اپنے چچا کے ساتھ مل کر سلجھانے گئی ھوں، انکی کمی مجھے بہت محسوس ھورھی تھی، کیونکہ ایک وھی تھیں جن سے میں ان سے اپنے دل کی بات کہہ سکتا تھا، زادیہ سے میں نے اپنے گھر پر بات کرنے کی کوشش کی لیکن وہ مجھے دیکھ کر فوراً کترا جاتی تھی، اور کسی اور طرف متوجہ ھوجاتی، نہ جانے کیوں مجھ سے وہ کسی بھی موضوعّ پر بات کرنا ھی نہیں چاھتی تھی، خالہ سے میں ضرور بات کررھا تھا اور وہ مجھے اچھی طرح جواب بھی دے رھی تھیں، اور اگر زادیہ یا باجی کے بارے میں بات کرنا چاھتا تو وہ بھی اس موضوع پر کوئی بھی بات نہیں کرنا چاھتی تھیں اور مجھے بس اشارے سے ھی خاموش کرادیتیں، بس روزمرہ معمول کی ھی باتیں ھورھی تھیں اور میری ھونے والی دلہن کی تعریفیں اور میرے حج، عمرہ اور زیارتوں پر ھی وہاں کے بارے میں ھی باتیں ھوتی رھی،!!!!

    آج شام کو ھی گھر پر دلہن کے گھر والے کچھ خاص ھی رسم کرنے آرھے تھے، آج ھی تو میں آیا تھا اور شادی میں ابھی 8 دن باقی تھے، ویسے بھی میں بہت تھکا ھوا تھا اور زادیہ کے بارے میں ھی بہت سے سوالات میرے ذھن میں پریشان کررھے تھے، اور زیادہ تر زادیہ ھی میری شادی اور تمام رسموں کی تیاری میں اھم کردار نبھا رھی تھی، سب کی سرغنہ لگ رھی تھی،!!!!!!

    اور مجھے یہ بھی بعد میں پتہ چلا کہ وہاں میرے سسرال میں بھی زادیہ ہی ان کی تمام شادی کی تیاریوں میں ان کا ھاتھ بٹا رھی تھی، اور میری دلہن کی اچھی خاصی دوست بھی بن چکی تھی، اور ساتھ ساتھ میری ھونے والی دلہن کو خاص طور سے میرے بارے میں تفصیل سے بتا بھی رھی تھی، کہ تم بہت خوش قسمت ھو کہ تمھیں ایک بہت ھی اچھا ساتھی ملنے والا ھے، اور جو کچھ میں کہہ رھی ھوں اس پر عمل کروگی تو وہ ھمیشہ تمھارا ایک اچھا دوست بن کررھے گا اور میں چاھتی ھوں کہ تم اسکے ساتھ خوش رھو وغیرہ وغیرہ اس کے ساتھ ھی زادیہ نے میری تمام عادتیں، میری پسند اور نا پسند سب کچھ میری دلہن کو سمجھا دیا اور مجھے کھانے میں کیا کیا خاص طور سے پسند ھے، اور اسکا دیکھو اس طرح خیال رکھنا، اس ظرح نہ کرنا،!!! نہ جانے کیا کیا کہہ دیا،!!!! مگر اس وقت میری ھونے والی دلہن کچھ حیران بھی تھی کہ یہ سب کچھ اسکے ھونے والے دولہے کے بارے میں کیسے جانتی ھے اور مجھے کیوں ان کی تعریفیں اور عادات پسند نا پسند بتا رھی ھے، !!!!!!!

    مجھے پریشانی اس بات کی تھی کہ وہ سب سے تو ھنس کر بات کررھی تھی اور مجھے جیسے ھی دیکھتی تو خاموش ھو جاتی، کئی دفعہ کوشش بھی کی لیکن کچھ بھی نہیں بس خاموشی ھی اس کا جواب ھوتا اور بس یہی کہتی بہت کام ھے راستہ چھوڑو، میں بھی چپ ھو جاتا، کبھی کبھی یہ میں نے اس کے منہ سے دوسری لڑکیوں سے یہ کہتے ھوئے ضرور سنا کہ آج کل کے لوگ تو بزدل اور ڈرپوک ھیں، یہ مجھے پر تنز کررھی تھی یا کوئی اور بات تھی میں کچھ سمجھ ھی نہیں سکا تھا!!!!!

    گھر میں تو ھر طرف رونقیں لگی ھوئی تھیں، شام کو دلہن کے گھر والے کچھ رسموں کے بہانے محفل سجانے آنے والے تھے، میں یہ سب کچھ حیرانگی سے دیکھ رھا تھا، محلے کی لڑکیاں اور ھماری بہنیں بھی زادیہ کی ھی نگرانی میں ھر کام میں ھاتھ بٹارھی تھیں، کچھ بڑی بوڑھیاں بھی ایک طرف کونے میں بیٹھی اپنے گھر کا رونا رورھی تھیں کبھی کوئی اپنی بہؤ کی شکایت تو کوئی اپنی بیٹی کے سسرال میں ظلم کی داستان سنارھی تھیں، اور کوئی تو اپنے بیٹے پر جورو کے غلام ھونے کا الزام لگا رھی تھی، ان کے ساتھ ھماری والدہ اور زادیہ کی والدہ بھی بیٹھی ان کی ھاں میں ھاں ملا رھی تھیں خدارا ان عورتوں کو کب عقل آئے گی،!!!!!!

    میں سونا بھی چاھتا تھا اور اس رونق میں بار بار زادیہ کی تمام حرکتوں پر نطر بھی رکھے ھوئے تھا، وہ بھی کنکھیوں سے مجھے دیکھتی بھی اور فوراً منہ دوسری طرف کرلیتی تھی، میں تو اس دن بہت ھی تھک گیا تھا ایک تو میں رات بھر کا جگا ھوا تھا اور ملنے والوں میں بھی کافی مصروف رھا، اور دوپہر کا کھانا کھا کر بس سب سے باتیں کرتے ھوئے، اسی ھنگامے میں وھیں فرش پر ھی ایک دری بچھی ھوئی تھی وہیں سو گیا تھا، کسی نے میرا سر آٹھایا اور میرے سر کے نیچے تکیہ رکھا، نیند کی غنودگی میں ھی ایک ھلکی سی اسکی جھلک دیکھی وہ زادیہ ھی تھی، !!!!!!!!
    ---------------------------------------
    میں سونا بھی چاھتا تھا اور اس رونق میں بار بار زادیہ کی تمام حرکتوں پر نطر بھی رکھے ھوئے تھا، وہ بھی کنکھیوں سے مجھے دیکھتی بھی اور فوراً منہ دوسری طرف کرلیتی تھی، میں تو اس دن بہت ھی تھک گیا تھا ایک تو میں رات بھر کا جگا ھوا تھا اور ملنے والوں میں بھی کافی مصروف رھا، اور دوپہر کا کھانا کھا کر بس سب سے باتیں کرتے ھوئے، اسی ھنگامے میں وھیں فرش پر ھی ایک دری بچھی ھوئی تھی وہیں سو گیا تھا، کسی نے میرا سر آٹھایا اور میرے سر کے نیچے تکیہ رکھا، نیند کی غنودگی میں ھی ایک ھلکی سی اسکی جھلک دیکھی وہ زادیہ ھی تھی، !!!!!!!!

    میری نیند اس شور میں بار بار ڈسٹرب ھور ھی تھی، اور کسی کمرے میں کوئی خالی جگہ بھی نہیں تھی، یہیں سب سے ھی بہتر تھا، آخر کو مجھے اٹھا ھی دیا کہ بس چلو اٹھو اور تیار ھوجاؤ، لڑکی والے آنے والے ھیں،شام ھو رھی تھی، میں نہا دھو کے تیار ھوگیا اور ایک نیا شلوار قمیض کا جوڑا پہنا جو شاید آج کی ھی تقریب کے لئے خریدا گیا تھا، بہت خوبصورت تھا اور پہنے کے بعد اور بھی اچھا لگ رھا تھا اور پتہ چلا کہ پسند بھی زادیہ کی ھی تھی، ھر چیز کے بارے میں پوچھو تو یہی جواب ملتا تھا کہ یہ بھی زادیہ نے ھی اپنی پسند سے خریدا ھے، میں بھی تیار ھوکر اپنے دوستوں کے ساتھ جو اسی تقریب کے لئے آئے ھوئے تھے اور کچھ کو تو اس تقریب کا پتہ ھی نہیں تھا، سب سے میں گپ شپ کرنے بیٹھ گیا، اور اِدھر اُدھر کی باتیں شروع ھوگئی، ھر کوئی باھر کے ملک کے بارے میں ھی پوچھ رھا تھا، کیسی سروس ھے اور حج، عمرہ اور زیارت کی سعادت کی مبارکبادیں لوگ دیتے رھے،!!!!!

    اسی اثناء میں پتہ چلا کہ لڑکی والے آگئے ھیں، ان کے ساتھ جو مرد حضرات آئے تھے وہ یہاں ھمارے پاس آگئے اور ھمارے سسر صاحب جو اسی کمپنی میں ریاض میں کام کررھے تھے، انہوں نے اپنے ساتھ آنے والوں سے میرا تعارف کرایا، اور باری باری سب سے گلے ملایا اور دعائیں لیں، جو مجھے جانتے نہیں تھے، اور ان کے بیٹے جو میرے دوست بھی تھے وہ یہیں اسی کمپنی میں میرے والد صاحب کے ساتھ ھی کام کرتے تھے وہ میرے پاس آئے اور گلے لگا کر انہوں خیر خیریت دریافت کی، اور وہاں کےحال احوال میں مصروف گفتگو ھوگئے، میں بھی رسماً سب سے ھر ایک کے مختصراً جوابات دے رھا تھا، اور ان کے ساتھ آئے ھوئے بچے بھی میرے آگے پیچھے پھر رھے تھے، اور ایک دوسرے کو میری طرف ھی اشارہ کرکے بتا رھے تھے کہ یہی ھیں وہ جو باجی کے دولہا ھیں،!!!!

    میرے دوست نے بتایا کہ یہ سب تمھارے سالے ھیں، مجھ سمیت ملاکر چھ بھائی ھیں، اور دو سالیاں بھی ھیں لیکن وہ تو بہت چھوٹی ھیں، میں نے کہا کہ یار ان سے بھی ملا دو، ایک تو اشارہ کرکے انہوں نے کہا دیکھو ایک تو تمھارے سسر کی گود میں ھے اور دوسری میرے ساتھ کھڑی ھے شاید تین سال کی ھوگی، میں نے حساب لگایا کہ یہ تو کل 9 بہن بھائی ھیں، سب سے بڑے تو میرے دوست ھی تھے، اور ان سے جو چھوٹی تھیں ان سے ھی میری شادی ھونے والی تھی، بس پہلی بار ھی منگنی کی تصویروں میں دیکھا تھا، ان کی عمر اس وقت شاید 18برس کی رھی ھوگی اور میری 29 سال، تقریباً 10 سال کا فرق تھا اور باقی 5 بھائی سب پڑھ ھی رھے تھے، اور 2 بہنیں تو ابھی چھوٹی ھی تھیں، خیر ھم بھی کسی سے پیچھے نہیں تھے، ھم بھی تعداد میں آٹھ بہن بھائی، چار بہنیں اور چار بھائی ھیں، میں نے بھی سب کا تعارف اسی وقت کرادیا، میرا دوست تو پہلے ھی سے جانتا تھا، لیکن ایک دوسرے کے گھر آنا جانا نہیں تھا یہ پہلی بار ھی دونوں فیملیوں کا اس شادی کی وجہ سے ایک دوسرے سے ملاقات ھوگئی تھی،!!!!

    کچھ ھی دیر میں رسم کے لئے عورتوں کے کمرے میں مجھے جانا پڑا، وہاں ایک کرسی میں بٹھا دیا گیا اور چاروں ظرف ایک ھنگامہ کمرہ تو خیر بڑا ھی تھا لیکن مہمانوں کی تعداد کچھ زیادہ تھی اور میری نطر سب سے پہلے زادیہ پر پڑی جو اپنی والدہ کے ساتھ ایک کونے میں بیٹھی یہ سب تماشہ دیکھ رھی تھی، اور چپکے چپکے اپنی والدہ کے کان میں کچھ تبصرہ کرتی جارھی تھی، اور پھر ایک بڑا سا پھولوں کا ھار ھماری ساس نے میرے گلے میں ڈالا اور ھتیلی میں شاید کچھ پان کے پتے یا پتہ نہیں کچھ مٹھائی وغیرہ رکھی اور کچھ نوٹ وغیرہ میرے اوپر سے چکر لگا کر شاید نطر اتاری اور پھر بلائیں لیں، پھر انہوں نے ایک چمچ مٹھائی کا ایک ٹکڑا میرے منہ میں ڈال دیا، یعنی اس طرح رسم کا باقائدہ سے افتتاح ھو گیا، پھر باری باری سب کا تانتا لگ گیا اور سب نے وھی کیا جو ھماری ساس نے کیا تھا، میری تو حالت غیر ھوگئی، اس وقت میں زیادہ میٹھا نہیں کھاتا تھا، لیکن ھر کوئی بضد ھی تھا کہ وہ مٹھائی کھلاکر ھی چھوڑے گا، ایسا لگ رھا تھا کہ جیسے میرا مٹھائی کھانے کا کوئی مقابلہ ھو رھا تھا مجھے تو ایسا بھی محسوس ھوا کہ جیسے کہ قربانی کے بکرے کو قربانی سے پہلے رنگ و روغن کرکے ھار پھول وغیرہ پہنا کر چارہ کھلاتے ھیں اور اس کے آگے پیچھے خوب ھنگامہ ھوتا ھے، یہ سب کچھ ویسا ھی لگ رھا تھا، میں نے پھر زادیہ کی طرف دیکھا وہ بھی اپنی ھنسی ضبط نہ کرسکی تھی اور منہ چھپا کر اپنی اماں کی ساڑی کے پلو میں اپنا منہ چھپا رھی تھی،!!!!!!

    میں نے بھی بڑی مشکل سے ضبط کرکے مٹھائی کھاتا رھا اور جب یہ مقابلہ ختم ھوگیا تو میں بھی تمام سامنے یٹھی ھوئی لڑکیاں جو سسرال سے ھی آئی تھیں، کرسی سے اتر اور ان کے سامنے جاکر بیٹھ گیا اور سب سے الٹا میں نے بھی مذاق شروع کردیا، کچھ تو دلہن کی سہیلیاں تھیں کچھ رشتے کی بہنیں تھیں، اور ایک دلہن کی سہیلی اور ایک کزن دونوں کچھ زیادہ تیز لگتی تھیں ان سے ھی مذاقاً اِدھر اُدھر کی گفتگو شروع کردی، اور دلہن کے بارے میں پوچھنا شروع کردیا کہ وہ کیسی ھے، کیا کررھی تھی، اور میرے بارے میں کیا رائے رکھتی ھے، وغیرہ وغیرہ، ایک بولی آپ تو بہت بے شرم ھیں ابھی شادی ھوئی نہیں اور ابھی سے حال احوال پوچھ رھے ھیں آپ تو بہت تیز لگتے ھیں اور ھماری سہیلی تو بہت معصوم اور بھولی بھالی ھے، !!! میں نے کہا کہ ھم بھی کچھ زیادہ ھی پہلے معصوم تھے، آپلوگوں کو دیکھ کر مجبوراً معصومیت چھوڑ دی ھم نے، اور میں نے بھی اسی طرح خوب مذاق کیا اور وہ لڑکیاں بھی خوب فری ھوگئیں،!!!!!

    اور میں نے اچانک دیکھا کہ زادیہ اٹھ کر جاچکی تھی، شاید وہ یہ میرا اس طرح لڑکیوں سے مذاق کرنے سے وہ دلبرداشتہ ھوگئی ھو یا شاید پھر اور کسی کام سے چلی گئی ھو، کیونکہ مجھے میرا وہ لڑکپن کا زمانہ یاد آگیا جب زادیہ یہ دیکھتی کہ میں کسی لڑکی سے مذاق کررھا ھوں یا کوئی لڑکی مجھ نے فری ھونے کی کوشش کرتی تو وہ فوراً ھی مجھ سے ناراض ھوجاتی تھی، اور غصہ سے پیر پٹختی ھوئی چلی جاتی تھی، اور پھر اسے مجھے منانا بہت مشکل ھوتا تھا اور پھر میں باجی کا سہارا لیتا تھا، اب تو باجی بھی یہاں نہیں تھی!!!!!!!
     
  8. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    اور میں نے اچانک دیکھا کہ زادیہ اٹھ کر جاچکی تھی، شاید وہ یہ میرا اس طرح لڑکیوں سے مذاق کرنے سے وہ دلبرداشتہ ھوگئی ھو یا شاید پھر اور کسی کام سے چلی گئی ھو، کیونکہ مجھے میرا وہ لڑکپن کا زمانہ یاد آگیا جب زادیہ یہ دیکھتی کہ میں کسی لڑکی سے مذاق کررھا ھوں یا کوئی لڑکی مجھ نے فری ھونے کی کوشش کرتی تو وہ فوراً ھی مجھ سے ناراض ھوجاتی تھی، اور غصہ سے پیر پٹختی ھوئی چلی جاتی تھی، اور پھر اسے مجھے منانا بہت مشکل ھوتا تھا اور پھر میں باجی کا سہارا لیتا تھا، اب تو باجی بھی یہاں نہیں تھی!!!!!!!

    مجھے فکر ھوگئی کہ زادیہ اٹھ کر کہاں چلی گئی، چھوٹا بھائی کیمرہ لئے اِدھر اُدھر تصویریں کھینچنے میں مگن تھا اور دلہن والوں کی طرف سے بھی فوٹو گرافی جاری تھی، شکر ھے کہ اس وقت یہ مووی بنانے کا چکر نہیں تھا، میرا ان لڑکیوں کے ساتھ شائستہ قسم کا مذاق چلتا رھا، میں نے دیکھا کہ زادیہ کچن میں میری بہنوں کے ساتھ کھانے وغیرہ کے انتطامات مین مشغول تھی، ایک کمرے میں عورتوں کیلئے اور دوسرے کمرے میں مردوں کیلئے کھانا لگایا گیا، بازار سے ھی شاید بریانی اور قورمہ بنوایا گیا تھا اور تافتان روغنی نان بھی کسی خاص نانبائی کے تندور سے خریدی گئی تھیں، مردوں کی بنسبت عورتوں کی تعداد کچھ زیادہ تھی اسی لئے ان کیلئے بڑے کمرے میں انتظام کیا گیا تھا، اور مین بھی دونوں ھی طرف کے انتظامات دیکھ رھا تھا، اور باری باری ھر ایک سے اخلاقاً اور رسماً پوچھتا بھی جارھا تھا، کہ ارے بھائی صاحب کھائیے نا، آپ نے تو ہاتھ ھی روک لیا، تکلف نہ کیجئے گا، کچھ تو ھمارے یہاں کے لوگ بہت واقعی بے تکلف تھے اور مذاق کا ذوق رکھتے تھے، اور جیسے ھی تھال سامنے جاتا تو ساری بوٹیاں کھینچ کر اپنی پلیٹ میں ڈال کر کہتے کہ ارے دولہے میاں یار کچھ بوٹیاں وغیرہ کچھ نطر نہیں آرھی ھیں، اپنے دوست یعنی دلہن کے بھائی سے بھی کہتا جاتا کہ دیکھو اپنے لوگوں کو کہیں تکلف نہ کریں، میں بھی سب سے ھر ممکن پوچھتا رھا، اور میرے ساتھ ساتھ زادیہ بھی عورتوں میں سب کی بہت اچھی طرح مہمان نوازی کررھی تھی، سب سے تو مسکرا مسکرا کر پوچھ رھی تھی اور جیسے ھی میری طرف نطر پڑتی بالکل سنجیدہ ھوجاتی، میں نے کیا قصور کیا تھا پتہ نہیں؟؟؟؟؟

    کھانے کا دور ختم ھوا تو میٹھے کا دور چلا جس میں شاید زردے کے میٹھے چاول ھی تھے، آخر کو یہ رسم ختم ھوئی تو جان میں جان آئی، بس میں تو سب کو رخصت کرنے کےلئے باھر گیا، دلہن کی والدہ بار بار مجھے اپنے برقے کے نقاب میں سے جھانک جھانک کر دیکھ رھی تھیں، مگر پتہ نہیں انھوں نے گھر پر صحیح طرح سے دیکھا بھی تھا یا نہیں کیونکہ وہ بےچاری بھی بہت ھی سیدھی سادھی تھیں، مجھے دیکھ کر شاید اپنی بیٹی کے قسمت کا اندازہ لگانا چاھتی ھونگی، اور میں وھیں سے اپنے دوستوں کے ساتھ باھر ٹہلنے چلا گیا، میں نے تو کھانا کھایا ھی نہیں تھا اور سب اپنے اپنے چکر میں تھے اور مجھے کسی نے نہیں پوچھا، وہاں گھر پر مجھے ڈھونڈ رھے تھے، جس جس نے کھانا نہیں کھایا تھا ان کیلئے آخیر میں گھر پر ھی دستر خوان بچھا دیا گیا تھا، میں بھی کسی کے بلانے پر گھر پہنچا، تو سب کھانے میں مشغول تھے بہرحال میں بھی جگہ بنا کر بیٹھ ھی گیا، اور کھانے وغیرہ سے فارغ ھوئے تو کافی رات ھوچکی تھی، اور سب لوگ تو باتوں میں لگ گئے ، میں پھر باھر نکل آیا، باھر گیٹ کے پاس ھی آس پاس کے ھی دوست باھر کھڑے تھے، ان سے ھی کافی دیر تک گپ شپ لگاتا رھا، کیونکہ ایک سال کے بعد ھی ان سب سے ملاقات ھوئی تھی، اور آج سارا دن میں ھی اس رسم کی وجہ سے ھی باھر نکلنے کا موقع نہیں ملا تھا،!!!!

    کافی دیر کے بعد ابا جی کے اندر سے ھی چیخنے چلانے کی آواز آئی کہ بلاؤ اسکو اتنی رات ھوگئی ھے اور کہو کہ سو جائے اسے صبح میرے ساتھ آفس جانا ھے اور بہت کچھ کام بھی ھے، میں نے دل میں سوچا کہ یہاں پر بھی اس کمپنی میں چھٹیوں میں کیا کام کرنے کا رواج ھے کیا، میں اندر آگیا اور والد صاحب نے اپنی حساب کتاب کی ڈائری کھول دی، اور تمام شادی کے انتطامات کے بارے میں مجھے بتانے لگے، میں نے کہا کہ جو کچھ بھی اپنے آپنے انتطام کیا ھوگا بہتر ھی ھو گا، زادیہ اور میری بہنیں تو اُوپر کے کمروں میں سونے جاچکی تھیں اور نیچے خالہ ھماری امی سے بات چیت میں مصروف تھیں اور باقی فیملیز جو دور سے آئے ھوئے تھے، وہ بھی تقریباً اوپر کے کمروں میں ھی ان کا سونے کا انتظام کیا گیا تھا، اور مرد حضران نیچےبرابر کے کمرے میں سب کیلئے نیچے فرش پر ھی بستر لگا دیا گیا تھا، اور ایک دو تو صحن میں ھی چارپای لگا کر چادر اوڑھے خرانٹے بھر رھے تھے!!!!!

    میں بھی اسی کمرے میں ایک بڑے صوفے پر ھی چادر تان کے سو گیا اور صبح سورج چڑھنے کے بعد ھی آنکھ کھی، والد صاحب تو دفتر جاچکے تھے، لیکن ہدایت دے گئے تھے کہ جب بھی نواب صاحب اٹھیں تو دفتر بھیج دینا، میں نے بھی ھاتھ منہ دھو کر ناشتہ وغیرہ کیا، ناشتہ بھی زادیہ نے ھی لا کر میرے سامنے رکھا، اور ناشتے سے فارغ ھوتے ھی چائے بھی زادیہ ھی لے کر آئی اور میرے ہاتھ میں تھما دی، اور ناشتے کے برتں اٹھا کر چلی گئی، نہ جانے کیوں میرا اتنا خیال کررھی تھی، مگر مجھ سے صحیح طرح بات نہیں کرتی تھی، پھر تیار ھوکر بیٹھا ھی تھا کہ ایک دوست اپنی موٹر سائیکل پر آگیا، میری اتنی اچھی خوبصورت موٹرسائیکل کو والد صاحب نے موقعہ پا کر میرے سعودی عرب جاتے ھی بیچ دی تھی، کیونکہ اسے روزانہ چھوٹے بھائی صاحب گھماتے پھرتے تھے، میں پھر اپنے دوست کے ساتھ آفس چلاگیا!!!!!!

    دنوں کا پتہ ھہی نہیں چلا اور مہندیوں اور مائیوں کی رسمیں بھی ھمارے والد صاحب کے حکم سے اپنے اپنے گھروں میں منا لیں، کیونکہ آنے جانے کیلئے کیلئے کافی فاصلہ طے کرنا پڑتا تھا، کراچی کے ایک کونے میں ھمارا گھر تھا اور لڑکی والوں کا گھر سمندر کے کنارے تھا، اور ایک طرف کا فاصلہ اس وقت تقریباً 50 کلو میٹر تو ھوگا ھی، لیکن ایک بات تھی کہ ان کے گھر کے نذدیک ھی سمندر تھا جسکی لہروں کے شور کی آوازیں ان کے گھر تک سنائی دیتی تھیں، مگر تمام لڑکیوں نے مجھ سے اس بات کی شکایت تو کی تھی کہ یہ کیا بات ھوئی، کہ مھندی کی رسم اپنے اپنے گھروں میں ھوگی، مگر زادیہ نے کوئی شکایت نہیں کی اور نہ ھی وہاں رھتے ھوئے اپنے لئے کوئی فرمائیش کی، !!!!!

    ایک تو وقت کم تھا اور ابھی تک بہت ساری تیاری باقی تھی، والد صاحب اپنے دفتر کے دوستوں کے ساتھ باھر کے تمام شادی کے انتظامات میں لگے ھوئے تھے اور اندر کے تمام کاموں کی زادیہ ھی نگرانی کررھی تھی اور ساتھ محلے کی لڑکیاں اور بہنیں بھی مدد کررھی تھیں، میں تو بس ھاتھ پر ھاتھ دھرے مہمان نوازی میں ھی مصروف رھتا تھا، گھر پر مھندی اور مائیوں کی رسمیں بھی ھوگئیں اور لڑکیوں نے ڈھولک پیٹ پیٹ کر پوری گلی میں شور ڈالا ھوا تھا اور باھر سے میرے چھوٹے بھائی نے پورے گھر کو ایک الیکٹرک ڈیکوریشن والے کے ساتھ مل کر بہت ھی خوبصورت طریقے سے جھل مل کرتی ھوئی رنگ برنگی لائیٹوں سے سجایا ھوا تھا اور روزانہ اس میں کسی نئی روشنی کا اضافہ بھی ھوجاتا تھا، !!!

    آخر کو وہ دن آھی گیا، یعنی 9 جون 1979 بروز ھفتہ جس دن میں ایک شادی کے خوبصورت بندھن میں بندھنے جارھا تھا، ایک عجیب سی ھی کیفیت تھی، شادی کارڈ بھی بھائی نے بہت ھی خوبصورت چھپوائے ھوئے تھے، اس وقت شادی کے ھال کا اتنا رواج نہیں تھا، گھر کے سامنے کسی بڑی گلی میں یا کوئی میدان ھو تو وہیں گنجائیش کے مطابق شامیانہ لگادیا جاتا تھا اور اسٹیج وغیرہ کا انتظام بھی ھو جاتا تھا مگر اس زمانے میں یہ بات ضرور تھی کے دلہن کو شامیانے میں دولہا کے ساتھ کبھی نہیں بٹھایا جاتا تھا، جیسا کہ آج کل ھوتا ھے، ھمیں شام کو سات بجے بارات لے کر دلہن کے گھر پہنچنا تھا جس کے لئے کم از کم دو گھنٹے سفر میں ضرور لگ سکتے تھے، اور شام کے چھ بج چکے تھے لیکن ابھی دور دور تک کوئی کنٹریکٹ کی دو بسیں اور ایک سجی ھوی کار نہیں نطر ارھی تھیں، جن صاحب کے ذمہ یہ کام تھا وہ ابھی تک بسوں اور کار کو لےکر نہیں پہنچے تھے، اور اس کے علاؤہ ایک ملٹری بینڈ بھی تھا لیکن وہ اپنی گاڑی میں پہنچ چکے تھے، اور شام پانچ بجے سے بینڈ پر نغمے سنارھے تھے اور میں سوٹ بوٹ میں تیار اوپر سے ایک من کا سہرا اس گرمی میں لادے ھوئے تھا اور میں پسینے میں شرابو ایک کرسی پر بیٹھا ھوا شام 5 بجے سے خوار ھو رھا تھا، اور میرا یہاں اپنا ھی بینڈ بج رھا تھا!!!!!
    -----------------------------
    آخر کو وہ دن آھی گیا، یعنی 9 جون 1979 بروز ھفتہ جس دن میں ایک شادی کے خوبصورت بندھن میں بندھنے جارھا تھا، ایک عجیب سی ھی کیفیت تھی، شادی کارڈ بھی بھائی نے بہت ھی خوبصورت چھپوائے ھوئے تھے، اس وقت شادی کے ھال کا اتنا رواج نہیں تھا، گھر کے سامنے کسی بڑی گلی میں یا کوئی میدان ھو تو وہیں گنجائیش کے مطابق شامیانہ لگادیا جاتا تھا اور اسٹیج وغیرہ کا انتظام بھی ھو جاتا تھا مگر اس زمانے میں یہ بات ضرور تھی کے دلہن کو شامیانے میں دولہا کے ساتھ کبھی نہیں بٹھایا جاتا تھا، جیسا کہ آج کل ھوتا ھے، ھمیں شام کو سات بجے بارات لے کر دلہن کے گھر پہنچنا تھا جس کے لئے کم از کم دو گھنٹے سفر میں ضرور لگ سکتے تھے، اور شام کے چھ بج چکے تھے لیکن ابھی دور دور تک کوئی کنٹریکٹ کی دو بسیں اور ایک سجی ھوی کار نہیں نطر ارھی تھیں، جن صاحب کے ذمہ یہ کام تھا وہ ابھی تک بسوں اور کار کو لےکر نہیں پہنچے تھے، اور اس کے علاؤہ ایک ملٹری بینڈ بھی تھا لیکن وہ اپنی گاڑی میں پہنچ چکے تھے، اور شام پانچ بجے سے بینڈ پر نغمے سنارھے تھے اور میں سوٹ بوٹ میں تیار اوپر سے ایک من کا سہرا اس گرمی میں لادے ھوئے تھا اور میں پسینے میں شرابو ایک کرسی پر بیٹھا ھوا شام 5 بجے سے خوار ھو رھا تھا، اور میرا یہاں اپنا ھی بینڈ بج رھا تھا!!!!!

    آج میں ابنے عملی زندگی کے بہت ھی حساس اور نازک دور میں داخل ھونے جارھا تھا، جس کا مرکز پوری زندگی کے بہت ھی نازک سے محیط دائرہ میں مقید ھوتا ھے، جو ایک ذرا سی غلط جنبش سے اس زندگی کے محیط دائرہ کو توڑ پھوڑ کر برباد کرسکتا ھے، یہ ایک زندگی کا بہت ھی ایک اھم فیصلہ ھوتا ھے لیکن بعض لوگ اسے محض وقت گزاری کا ایک مشغلہ بھی سمجھتے ھیں، اور کچھ تو بس ایک فریضہ سمجھ کر پوری زندگی اپنے ازدواجی زندگی کے حقوق کو نطر انداز کر کے گزار دیتے ھیں اور اس کے تقدس بندھن کے رشتے کی جذباتی اور حساس قدروں کو پامال کردیتے ھیں، جس کی وجہ سے پوری ازدواجی زندگی پریشانیوں اور دکھوں کے ساتھ ایک کرب کے عالم میں گزرتی ھے،!!!

    کیا ھم نے اس مسئلے کو کبھی سنجیدگی سے سوچا ھے یا اسے افہام و تفہیم سے حل کرنے کی کوشش کی ھے، یا کبھی یہ سوچا ھے کہ اس طرح کی نوعیت میں آپکی اپنی اولاد پر کیا اثر پڑتا ھے، ؟؟؟؟؟

    میں نے اپنی اس کہانی سے اپنی زندگی کے ھر اچھے اور برے پہلو پر روشنی ڈالنے کی ھر ممکن کوشش کی ھے جسے اگر غور سے پڑھا جائے تو ھم بہت کچھ اپنی زندگی میں اچھی او خوشگوار تبدیلیاں لا سکتے ھیں، اگر ھم کچھ کسی سے سبق سیکھنا چاھیں تو کوئی مشکل نہیں ھے، اگر ھم اپنے دل سے اپنے حقوق اور فرائض کو پہچانے اور دوسروں سے اسکا موازنہ کریں، جو اچھائیاں ھیں اسے اپنا لیں اور جو برائیاں نطر آتی ھیں اسے چھوڑ دیں، اس میں صرف آپکے اپنے مصمٌم ارادے کا عمل دخل ھے اور کچھ بھی نہیں، جب تک آپ اپنی سوچ کو مثبت پہلؤں کی طرف مائل نہیں کریں‌ گے، آپ اپنے اندر کوئی بھی بہتر اور خوب تر انقلاب نہیں لاسکتے،

    اسی طرح میری کہانی میں آپ خود ایمانداری سے اچھے اور بُرے پہلؤں کو تلاش کیجئے اور ساتھ ھی اپنی زندگی کو ایک مثالی مشعل راہ پر گامزن کرنے کی کوشش بھی کیجئے، !!!!!!

    جاری ھے،!!!!!!
    --------------------

    اسی طرح میری کہانی میں آپ خود ایمانداری سے اچھے اور بُرے پہلؤں کو تلاش کیجئے اور ساتھ ھی اپنی زندگی کو ایک مثالی مشعل راہ پر گامزن کرنے کی کوشش بھی کیجئے، !!!!!!

    ھمیں شام کو سات بجے بارات لے کر دلہن کے گھر پہنچنا تھا جس کے لئے کم از کم دو گھنٹے سفر میں ضرور لگ سکتے تھے، اور شام کے چھ بج چکے تھے لیکن ابھی دور دور تک کوئی کنٹریکٹ کی دو بسیں اور ایک سجی ھوی کار نہیں نطر ارھی تھیں، جن صاحب کے ذمہ یہ کام تھا وہ ابھی تک بسوں اور کار کو لےکر نہیں پہنچے تھے، اور اس کے علاؤہ ایک ملٹری بینڈ بھی تھا لیکن وہ اپنی گاڑی میں پہنچ چکے تھے، اور شام پانچ بجے سے بینڈ پر نغمے سنارھے تھے اور میں سوٹ بوٹ میں تیار اوپر سے ایک من کا سہرا اس گرمی میں لادے ھوئے تھا اور میں پسینے میں شرابو ایک کرسی پر بیٹھا ھوا شام 5 بجے سے خوار ھو رھا تھا، اور میرا یہاں اپنا ھی بینڈ بج رھا تھا!!!!!

    جون کی گرمی میں دولہا بنا ھوا، اُوپر سے سوٹ چڑھایا ھوا، اور سونے پر سہاگہ سر سے پیر تک بھاری بھر کم تازہ پھولوں کا بنا ھوا سہرا، اور اسی حالت میں مجھے عصر کی نماز پڑھانے گھر کے سامنے کی مسجد میں لے گئے، پسینے میں نہایا ھوا واپس ھوا، گھر کے اندر جانے لگا تو اندر جانے سے منع کردیا کیونکہ دولہا ایک دفعہ گھر سے باھر نکلے تو واپس بغیر دلہن کے گھر میں داخل نہیں ھوسکتا، وجہ یہ تھی کہ اس وقت یہ ایک بُرا شگون مانا جاتا تھا، یہ ایک اور مشکل آگئی، گھر کے باھر ھی ایک کرسی پر بیٹھ گیا، ایک چھوٹا سا شامیانہ لگا ھوا تھا، اس میں بٹھا دیا گیا، بس چارے کی کمی تھی، ورنہ یہی لگتا کہ قربانی کے دنوں میں کوئی سجا سجایا قربانی کا بکرا شامیانے میں قربانی کیلئے تیار بیٹھا ھے، !!!!

    صرف ایک ھی دری اس شامیانے میں تھی اور کرسی گھر کے اندر سے منگوائی اور میں اکیلا اس پر سہرا باندھے بیٹھا ھوا تھا، میرے چاروں طرف بچے چکر لگا رھے تھے اور جیسے ھی موقعہ ملتا سہرے کے پھول توڑ کر بھاگ جاتے، مجھے کچھ بھی نظر نہیں آرھا تھا، بڑی مشکل سے ھاتھ سے سہرے کو ھٹاتا، باھر کا نظارا دیکھتا اور ساتھ ھی کچھ ھوا بھی کھانے کو مل جاتی، اور پسینہ تھا کہ خشک ھونے کا نام ھی نہیں لیتا تھا، جبکہ اس وقت سہرے کو ھٹانا بھی بدشگونی تھی، یہ بھی ممنوع تھا کہ نکاح سے پہلے دولہا اپنا منہ نہیں دکھا سکتا تھا کیا کیا توھمات اور بدعتیں اس وقت لوگوں نے پال رکھی تھیں، !!!!!

    دو لڑکے میری چوکیداری کررھے تھے، اس کے باوجود شرارتی بچے اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے تھے، ایک کسی دوست نے نوٹوں کا ھار بھی ڈال دیا تھا اور مجھے کان میں سنا بھی دیا تھا کہ 100 روپے کا ھار ھے خیال رکھنا، اس میں سے بھی بچوں کو موقعہ مل گیا تھا کہ ایک ایک نوٹ اس طرح توڑ رھے تھے جیسے درختوں سے پتٌے اور دوسری طرف بینڈ باجے والے شروع تھے اور وہ بھی میرے نذدیک آکر چکر لگاتے ھوئے بینڈ بجاتے ھوئے مارچ پاسٹ بھی کررھے تھے، ان کے ڈرم بجانے والے کو تو شاید مجھ سے کوئی دشمنی ھی تھی جو کہ عیں میرے کانوں کے پاس آکر ھی ڈرم پر اپنا ڈنڈا زور سے چلاتا کہ میرے کاں کے پردے تھر تھرانے لگتے اور کچھ شوقیہ نوجوان میرے اوپر سے نوٹوں کو گھما پھرا کر بینڈ والے کو دے رھے تھے یا شاید اپنی جیب مین واپس ڈال رھے تھے، اور کچھ تو نہ جانے شاید سکے میری طرف اچھالتے تو سارے بچے سکے چننے کیلئے میرے اوپر ھی کود جاتے کئی دفعہ تو میں کرسی سے گرتے گرتے بچا، کیا عجب تماشہ تھا، مجھے تو لگتا کہ شاید ھی میں بالکل صحیح سلامت نکاح کیلئے پہنچ سکوں!!!!

    شام کے پانچ بجے یہاں ھمارے گھر سے برات کو روانہ ھونا تھا، سات بجے نکاح کا ٹائم تھا اور اس وقت سات تو یہیں بجنے والے تھے، باراتی بھی جمع ھوچکے تھے اور مرد اور بچے میرے چھوٹے سے شامیانے کے گرد چکر لگا رھے تھے، ایسا بھی لگ رھا تھا کہ شاید الیکشن کا زمانہ ھے اور ووٹ مانگنے کیلئے میں کوئی امیدوار ھاتھ پھیلائے ھار پھول پہنے بیٹھا ھوں، بسیں اب تک نہیں پہنچی تھی اور سجی ھوئی کار جو میرے لئے آنی تھی اس کا بھی دور دور تک کوئی پتہ نہیں تھا، ادھر والد صاحب کا پارہ گرم، انکی چیخ پکار میرے کانوں تک پہنچ رھی تھی، !!! اگر کام نہیں آتا ھے تو ذمہ داری کیوں لیتے ھیں ان لڑکوں کا تو دماغ ھی خراب ھے، کام کے نہ کاج کے، الو کے پٹھے، گدھے، کام چور،!!!! اور نہ جانے کیا کیا شور کرھے تھے، تقریباً سارے مہمان آچکے تھے، گھر میں سجی سجائی زرق برق لباسوں میں ملبوس عورتوں اور لڑکیوں سے بھرا ھوا تھا، پریشان حال ایک دوسرے سے کوئی اپنے بچوں کا پتہ پوچھ رھی تھیں، اور کچھ تو حسب عادت ایک دوسرے کے کپڑوں اور زیورات کی معلومات میں ھی الجھی ھوئی تھیں، اور باھر مرد حضرات انتظامات کی بدنظمی کے بارے میں بحث کررھے تھے،!!!!!!

    وہاں دلہن والوں کا کیا حال ھورھا ھوگا، وہ بھی ھمیں گالیاں ھی دے رھے ھونگے، شکر ھے کہ سوا سات بجے بسیں تو پہنچ گئیں، پتہ چلا کہ وہ بسیں کسی غلط علاقے میں پہنچ گئی تھیں، اور سجی ھوئی کار ان بسوں کے آگے ھی تھی لیکن یہاں آتے آتے مین روڈ ایک سگنل سے اندر ھمارے علاقے کی طرف مڑگئی لیکن پیچھے بس والے نے نہیں دیکھا وہ سیدھا ھے نکل گیا اس کے پیچھے دوسری بس بھی چلاچل، اور سجی ھوئی کار میں دفتر کے دو تین دوست موجود تھے، جن کی ذمہ داری مٹھائی کا ٹوکرے، نکاح کے چھوارے اور دلہن کا سہرا، ساتھ گاڑیوں کا انتظام وغیرہ تھا ایک تو ویسے ھی لیٹ ھوچکے تھے، پیچھے مڑ کر دیکھا تو پتہ چلا کہ بسیں ھی غائب تھیں انہوں نے کچھ آگے جاکر پھر واپس کار کو موڑ لیا تھا اور بسوں کو ڈھونڈنے چلے گئے، اور یہاں بسیں تو پہنچ گئیں لیکن دولہے کی کار غائب، لے بھیا ایک اور مشکل آن پڑی،!!!!

    خیر والد صاحب نے اعلان کردیا کہ پہلے ساری خواتین بس میں چڑھ جائیں، یہ سنتے ھی ساری خواتیں کا ایک ریلا گھر سے تیزی سے گرتا پڑتا نکلا کچھ بچے ادھر گرے کچھ ادھر اور سیدھے بس میں خواتیں گھس گئیں، بچوں کی کسی کو فکر نہیں تھی بے چارے انکے شوھر حضرات ھی اپنے اپنے بچوں کو ڈھونڈتے پھر رھے تھے، بسوں میں ایک شور برپا تھا، بچوں اور خواتین کی چیخ و پکار اور کھڑکی میں ھی سے ساری عورتیں اپنے اپنے لوگوں کو اپنے بچوں کو ڈھونڈنے کی ہدائت دے رھی تھیں، کئی عورتوں نے بسوں میں ساتھ کی سیٹوں پر بھی قبضہ کیا ھوا تھا، کسی کو بیٹھنے نہیں دے رھی تھیں، بڑی ھی مشکل تھی، ایک اور بس کا انتطام کرنا پڑا تو کہیں جاکر سب باقی جن کو جگہ نہیں ملی تھی اس میں بیٹھ گئے،!!!!!

    اور خاص خاص گھر کی عورتیں گھر پر ھی تھیں ان کے لئے کمپنی کی دو وین ٹائپ بھی گاڑیاں الگ سے کھڑی تھیں، اور آخیر میں یہ بھی کمپنی کی دونوں وین میں جاکر بیٹھ گئیں، اور مغرب کا وقت بھی گزر چکا تھا، اور میں بےچارہ اکیلا دو بھائیوں کے ساتھ ٹینٹ میں اب تک کرسی ڈالے سوٹ بوٹ پہنے بھاری بھرکم سہرا سر پر چڑھائے دولہے کی کار کے انتطار میں بیٹھا اپنی قسمت کو کوس رھا تھا کہ یہ کیا مصیبت ھے شادی ھے یا کوئی طوفان بدتمیزی ھے، یہ کیسا انتطام تھا ھر کوئی اپنی ھی مرضی کررھا تھا اور مجھے شام کے پانچ بجے سے باھر شدید گرمی میں سوٹ بوٹ اوپر سے ایک من کا سہرا باندھ کر بٹھا دیا تھا اور ایک نوٹوں کا ہار بھی تھا شاید سارے نوٹ بچے ھی توڑ کر لے گئے تھے، اور اب شاید ساڑے سات بج رھے تھے ، آپ خود سوچئے کہ میرا کیا حال ھوا ھوگا، پسینہ تو کئی دفعہ نکلا اور کئی دفعہ خشک بھی ھوگیا، میرے اندر کی حالت میں ھی جانتا تھا، دس پندرہ منٹ کی بےھوشی کی نیند بھی وھیں کرسی پر بیٹھے بیٹھے لے لی تھی،!!!!

    میرا کوئی خاص ھی امتحان اوپر والا لے رھا تھا، سب گاڑیاں ساتھ بینڈ باجے والوں کی پک اپ بھی چلنے کو تیار، بس دولہے کی کار کا انتظار، اخر وہ انتطار کی گھڑی ختم ھوئی اور شامیانے کے عیں سامنے کار کو لایا گیا اور مجھے اٹھانے کی کوشش کی گئی، لیکن ایسا لگتا تھا کہ میرا سارا جسم ھی سن یعنی ساکت ھوگیا ھو بڑی مشکل سے اٹھا، اور بھائیوں نے سہارا دیتے ھوئے اٹھایا اور کار کی پچھلی سیٹ میں بٹھا دیا گیا، سامنے ڈرائیور کے ساتھ شاید مجھ سے چھوٹا بھائی بیٹھ گیا، اور میرے ساتھ بیٹھنے کیلئے باھر جھگڑا ھو رھا تھا کہ دولہے کے ساتھ کس کو بٹھایا جائے، نہ جانے کیا فیصلہ ھوا کہ ایک دروازے سے اسلام آباد سے آئی ھوئی میری کزن بیٹھی اور دوسرا دروازہ کھلتے ھی مجھے ایک جانی پہچانی سی خوشبو آئی، میں نے اپنے سہرے کے جھروکوں سے جھانکا تو کیا دیکھتا ھوں کہ زادیہ ھی میرے ایک سائڈ پر بیٹھنے کی کوشش کر رھی تھی،!!!!!!!!!
     
  9. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    آپ کو تو واقعی بہت تعجب ھوا ھوگا، کہ یہ اچانک میرے برابر میں زادیہ کیوں آکر بیٹھ گئی اور دوسری طرف میری کزن، جس کا نام نور تھا اور اسلام آباد سے ھی خاص طور سے میری شادی میں شرکت کرنے کیلئے ھی آئی تھی، یہ تو شاید کچھ گھر والوں کی شرارت ھوگی ورنہ کم از کم ان حالات میں زادیہ تو کبھی بھی بیٹھنے کی جرٌت نہیں کرسکتی تھی، میں سچ بتاؤں تو کچھ کچھ دل میں اسے دیکھ کر خوشی بھی محسوس ھو رھی تھی کہ زادیہ کے ساتھ شادی تو نہ ھو سکی لیکن کم سے کم آج وہ کافی عرصہ بعد میرے ساتھ بیٹھی تو ھے، وہ بھی ایک دولہے میاں کے ساتھ، وہ بیٹھ تو گئی مگر راستے بھر اس نے کوئی ایک بات تک نہیں کی، جبکہ میں نے راستہ میں ایک مرتبہ اسکا ھاتھ پکڑا تو اس نے بری طرح جھٹک کر اپنا ھاتھ مجھ سے چھڑا لیا، اب بھی اس میں بہت طاقت تھی،!!!!!

    جب میں نے دیکھا کہ وہ کچھ بات کرنا ھی نہیں چاھتی تو میں اپنی کزن نور کے ساتھ ھی اپنی گفتگو جاری رکھی، اور اپنے اسلام آباد کے ان سنہرے دور کے بارے میں ھی باتیں کررھا تھا، جب میں اپنی راولپنڈی میں ان کے ساتھ گھومنے پھرنے جاتا تھا، وہ بھی خوب مزے مزے سے ان یادوں کو دھرا رھی تھی، اور میں بھی زادیہ کو تنگ کرنے کیلئے کچھ زیادہ ھی نور کو یاد دلا رھا تھا، میں نور کو بھی اپنے بچپن سے جانتا تھا، اور زادیہ سے پہلے ھی ھمارے پرانے محلے میں اسی زادیہ کے گھر میں ھی نور اور اسکے گھر والے رھتے تھے، مگر ان کے والد کو ان کی کمپنی کی طرفسے مکان مل گیا تھا، اس لئے اپنا مکان زادیہ کے گھر والوں کے حوالے کرگئے تھے، کاش کہ نور وھاں سے نہ جاتی، لیکن نہ جانے قسمت کوکیا منظور تھا، نور تو چلی گئی لیکن زادیہ کو میرے سپرد کرگئی، اس وقت میں شاید پانچویں جماعت میں تھا، مگر اکثر بیشتر نور اپنے والدین کے ساتھ ھمارے گھر آتی جاتی تھیں، اور زادیہ اور ان کے گھر والے بھی ایک ساتھ ھمارے گھر ایک اچھا وقت گزارتے تھے، نور اور انکے گھر والے بھی بہت اچھے تھے،بعد میں ان کے والد کے تبادلے کی وجہ سے وہ لوگ اسلام آباد ھی شفٹ ھوگئے، جب تک میں راولپنڈی میں رھا ان سب نے میرا بہت خیال بھی رکھا تھا، !!!!!!

    ھاں بات ھو رھی تھی اپنی بارات کی جس میں دولہا بنے اپنے گھر سے ایک پوری بارات کے ساتھ ایک سجی سجائی کار میں جارھے تھے، ایک طرف میری کزن نور اور دوسری طرف زادیہ تھی، زادیہ ویسے بھی اس بدانتظامی سے بہت پریشان تھی اور پروگرام کے مطابق اسے تو شام کو چار بجے ھی دلہن کے گھر پہنچنا تھا، اور وہاں پر اس نے دلہن کو تیار کرنا تھا، میک اپ اور دوسرے انتظامات بھی کرنے تھے، زادیہ ھی دونوں طرف کے گھر کے اندر کے انتظامات دیکھ رھی تھی، کیونکہ یہ ایک شادی کی اتنی بڑی تقریب پہلی ھی مرتبہ ھی ھو رھی تھی اور دونوں گھر والوں کے لوگ بہت ھی سیدھے سادہ پر خلوص لوگ تھے اور انہیں شادیوں کا کوئی خاص تجربہ بھی نہیں تھا اس لئے زادیہ دونوں ھی طرف کے اندر کے تمام معاملات کو اچھی طرح سنبھال بھی رھی تھی، !!!!

    زادیہ کی ان خدمات کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ھے اس نے ایسے وقت میں دونوں فیملیوں کا بہت ساتھ دیا، جبکہ شادی کی تیاریوں کے بارے میں کوئی کسی کو خاص تجربہ نہیں تھا، بارات کی ترتیب ایسے تھی کہ میری کار کے آگے کچھ اور دوستوں اور عزیز و اقارب کی اپنی اپنی سواریوں میں تھے، میرے پیچھے ھماری خاص فیملیز دو وین میں تھی، اس کے پیچھے بینڈ باجے والوں کی وین تھی اور اسکے پیچھے تین بسیں کھچاکھچ بھری ھوئی تھیں پتہ نہیں اتنے باراتی کہاں سے آگئے تھے، لگتا تھا کہ سارے علاقے کا بلاؤہ تھا، بڑی مشکل سے اس علاقے میں تقریباً رات کے 9 بجے پہنچے اور پتہ چلا کہ ایک بس اور بینڈ باجے والے کسی اور طرف نکل گئے، تو سب کو کچھ دور پہلے ھی رکنا پڑا،!!!!!

    دور سے ھی ایک بہت بڑا شامینہ رنگ برنگی قمقموں سے روشن جھل مل کرتا نطر ارھا تھا، اور سڑک کی دوسری طرف دور سے سمندر کی شور مچاتی ھوئی موجیں دھندلا سا ایک عجیب سا ھی تاثر دے رھی تھیں، شکر ھے کہ چند لڑکے موٹر سائیکلوں پر جاکر اسی بس اور بینڈ باجوں کو پکڑ لائے، شاید بینڈ باجے والے بھی سوئے ھوئے تھے، فوراً ھی انکھیں ملتے ھوئے اپنی وین میں سے نکلے اور میری کار کے آگے ھی تیں لائنوں میں کھڑے ھوکر نغمے ااپنے لگے، اور پھر آہستہ آہستہ چلنے لگے سب سے آگے اب کا لیڈر ایک ڈنڈا ھاتھ مٰں گھماتا ھوا چل رھاتھا، اور پھر دور سے وہں دلہں کے علاقے کے لوگ بھی بھاگ کر آگئے اور بینڈ باجے والوں کے ساتھ ھی رقص کرتے ھوئے، ھم سب کو اپنی منزل کی طرف لے کر چلے!!!!!

    شکر ھے کے ساڑے نو بجے تک ھم سب وہاں پہنچ ھی گئے، میری کار کے رکتے ھی چاروں طرف سے دنیا پہنچ گی اور اندر ایسے جھانک رھے تھے، جیسے کوئی کار میں عجوبہ بیٹھا ھو، ادھر دونوں زادیہ اور نور مجھے اکیلا چھوڑ کے کار سے ایسے بھاگے کہ جیسے کسی جیل سے چھٹکارا ملا ھو، اور ساتھ ھی اچانک دونوں طرف سے میرے ساتھ میری دلہں کے بھائی گھس کر بیٹھ گئے اور مجھ سے نیک شگون مانگنے لگے، میں نے کہا بھائی اب تک یہاں پہنچتے پہنچتے جیب خالی ھوگئی ھے آج معاف کردو کل دیکھ لیں گے، لیکن دونوں بلکل ٹس سے مس نہیں ھوئے، پھر آگے بیٹھے ھوئے بھائی نے سو سو کے دو نوٹ نکال کر دئے تو جان خلاصی ھوئی،!!!!!
    ---------------------------------------

    شکر ھے کے ساڑے نو بجے تک ھم سب وہاں پہنچ ھی گئے، میری کار کے رکتے ھی چاروں طرف سے دنیا پہنچ گی اور اندر ایسے جھانک رھے تھے، جیسے کوئی کار میں عجوبہ بیٹھا ھو، ادھر دونوں زادیہ اور نور مجھے اکیلا چھوڑ کے کار سے ایسے بھاگے کہ جیسے کسی جیل سے چھٹکارا ملا ھو، اور ساتھ ھی اچانک دونوں طرف سے میرے ساتھ میری دلہں کے بھائی گھس کر بیٹھ گئے اور مجھ سے نیک شگون مانگنے لگے، میں نے کہا بھائی اب تک یہاں پہنچتے پہنچتے جیب خالی ھوگئی ھے آج معاف کردو کل دیکھ لیں گے، لیکن دونوں بلکل ٹس سے مس نہیں ھوئے، پھر آگے بیٹھے ھوئے بھائی نے سو سو کے دو نوٹ نکال کر دئے تو جان خلاصی ھوئی،!!!!!

    کار کے چاروں طرف ایک تو بچوں نے اور دوسری طرف بینڈ والوں نے دماغ خراب کیا ھوا تھا، کچھ ھمارے لوگ کچھ اس طرف کے لوگوں نے ایک اور تماشہ بنایا ھوا تھا کچھ تو ھوا میں گورنمنٹ کے سکے لٹا رھے تھے اور کچھ تو باری باری میرے سر پر نوٹ رکھ رھے تھے اور بینڈ کا سرغنہ باجے کی دھن کے ساتھ لکڑی گھماتا ھوا آتا اور نوٹ کو میرے سر کے سہرے پر سے اُٹھاتا رھا، اس نے اور دیر کردی مجھے ھلنے ھی نہ دیا، اور کہا کہ دولہا میاں ھماری روزی روٹی کاسوال ھے کچھ دیر رک جاؤ، کیونکہ اس کی کمائی جو ھورھی تھی، میں بڑی مشکل سے اپنے بھائیوں اور دوستوں کے سہارے آہستہ آہستہ پنڈال کی طرف بڑھتا رھا سہرا اتنا گھنا تھا کہ ھاتھ سے کھولنا بھی مشکل تھا، مجھے تو کچھ نظر نہیں آرھا تھا، بڑی مشکل سے مجھے انہوں نے اسٹیج کی ظرف چڑھایا، اسٹیج کو تو بہت ھی خوبصورت طریقے سے سجایا ھوا تھا لیکن اسٹیج پر فرشی انتظام تھا ایک دری کے اوپر قالین بچھا ھوا تھا، وہیں آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا، اور پھر سہرے کو ھاتھوں سے بڑی مشکل سے تھوڑا سا ھٹا کر دیکھا، تو ایک بہت ھی بڑا مہمانوں کا مجمع کرسیوں پر برجمان تھا اور اسکے آگے سامنے صوفوں پر ھماری کمپنی کے ڈائریکٹر اور اعلیٰ افسران بیٹھے ھوئے تھے اور دونوں پارٹی کی طرفسے دعوت پر آئے ھوئے تھے، کیونکہ ھم باپ بیٹا اور دلہن کے بھائی اور والد بھی اسی کمپنی میں سروس کرتے تھے، اور سب نے شکر ادا کیا کہ تین گھنٹے کی تاخیر سے ھی لیکن پہنچ تو گئے، !!!!!

    میرے ساتھ میرے دوست بیٹھے ھوئے تھے، مولوی صاحب کو فوراً بلایا گیا، دونوں کے والدین کی ڈھنڈائی مچ گئی، دونوں پتہ نہیں کہاں غائب تھے، میں نے سوچا کہ میں نے بھی کافی وقت ھوگیا ان کی آواز نہیں سنی تھی، پتہ لگا کہ وہ دونوں اس شادی سے بےخبر دور ھی بیٹھے گپ شپ مار رھے تھے، کیونکہ دونوں بھی کافی عرصہ کے بعد ایک دوسرے سے ملے تھے، مولوی صاحب نے اپنے رنکاح کے رجسٹر اور فارم نکالے اور دونوں کے والدین سے پوچھ پوچھ کر تمام کوائف، گواہ اور دلہن کے وکیل کے نام اور شرائط، وغیرہ لکھنے لگے، جوں جوں وقت گزرتا جارھا تھا میری حالت غیر ھوتی جارھی تھی، پھر کچھ دیر خاموشی رھی، مین پریشان میں نے برابر بیٹھے ھوئے دوست سے پوچھا، کہ یہ مولانا نکاح کیوں نہیں پڑھا رھے، اس نے جواب دیا کہ چندا ابھی لڑکی سے اقرار کرانے دلہن کے وکیل گھر پر گئے ھیں، پہلے لڑکی اقرار کرے گی پھر بیٹا تم سے پوچھا جائے گا، اور میں نے اس سے یونہی مذاقاً پوچھا کہ اگر لڑکی نے انکار کردیا تو،؟؟؟ اس نے جواب دیا پھر تو بیٹا بغیر کھانا کھائے ھی یہاں سے بھاگنا پڑے گا،!!! دلہن کو تو میں نے صرف تصویروں میں ھی دیکھا تھا، شکل سے تو اچھی خوبصورت لگتی تھی، لیکن سیرت اور عادت کی کیسی تھی یہ تو بعد میں ھی پتہ چل سکے گا!!!!

    شکر ھے وہ لوگ جلدی سے ھی دلہن کی رضامندی لے آئے اور شاید دستخط بھی لے لئے تھے، اور پھر مولانا صاحب نے کچھ تلاوت کی اور بعد میں ساری تفصیل فلاں صاحب کی فلاں لڑکی بمعہ دو فلاں فلاں گواھان اور وکیل کے، مہر مبلغ 163 روپے کے آپکی زوجیت میں دیا جاتا ھے کیا آپ کو قبول ھے، جواب دیجئے کہ کیا آپ کو قبول ھے، مجھے ایک دوست سے کہا کہ ابے بولتا کیوں نہیں!!! میں نے کہا کیا مجھ سے کچھ کہہ رھے ھیں،!!!!اس نے جواب دیا کہ اور کس سے دولہا تو ھے یا اور کوئی ھے،!!!!، میں نے بھی اس سے مذاقاً ھی کہا کہ کیا کہنا ھے،!!!!
    پھر مولوی صاحب نے ذرا تنک کے کہا دولہے میاں جواب دیجئے، قبول ھے ، اس سے پہلے کہ دوست کا تھپڑ پڑتا میں کہہ دیا “جی ھاں قبول ھے“ پھر انہوں نے دو دفعہ اور دھرایا میں نے بھی اسی طرح “قبول ھے، قبول ھے“ دو مرتبہ کہہ دیا، ذرا زور سے کہئے پھر میں نے کچھ بلند آواز میں کہا تو پھر مولانا دعاء مانگنے لگے،!!!!

    اور اس ظرح میں بھی کنواروں کی فہرست سے نکل کر شادی شدہ لوگوں میں شامل ھوگیا تھا اور شکر ھے کہ سہرے کو اُٹھانے کی اجازت مل گئی تھی، پھر کچھ جان میں جان آئی، اس وقت جتنے بھی میرے دوست ساتھ تھے کسی کی بھی شادی نہیں ھوئی تھی، چھوارے بٹنے شروع ھوگئے اور ساتھ ھی لوگ مجھ سے گلے مل کر باری باری مبارکباد بھی دینے لگے، دوست سارے چھواروں میں ھی مگن تھے، میں نے کہا کہ کیا کررھے ھو ابھی کھانا بھی کھانا ھے، چھوارے بعد میں کھا لینا!!!! ایک دوست نے کہا کہ تم نہیں جانتے دوست کی شادی کے نکاح کے فوراً اگر چھوارے کھائے جائیں تو شادی کے امکانات بہت قریب ھوجاتے ھیں، !!!!
    -----------------------------------

    اور اس ظرح میں بھی کنواروں کی فہرست سے نکل کر شادی شدہ لوگوں میں شامل ھوگیا تھا اور شکر ھے کہ سہرے کو اُٹھانے کی اجازت مل گئی تھی، پھر کچھ جان میں جان آئی، اس وقت جتنے بھی میرے دوست ساتھ تھے کسی کی بھی شادی نہیں ھوئی تھی، چھوارے بٹنے شروع ھوگئے اور ساتھ ھی لوگ مجھ سے گلے مل کر باری باری مبارکباد بھی دینے لگے، دوست سارے چھواروں میں ھی مگن تھے، میں نے کہا کہ کیا کررھے ھو ابھی کھانا بھی کھانا ھے، چھوارے بعد میں کھا لینا!!!! ایک دوست نے کہا کہ تم نہیں جانتے دوست کی شادی کے نکاح کے فوراً اگر چھوارے کھائے جائیں تو شادی کے امکانات بہت قریب ھوجاتے ھیں، !!!!

    نکاح تو ھوگیا تھا اور کھانے کی ظرف لوگوں کا رجحان ھوگیا تھا رات کے بارہ بجنے والے تھے، کافی دیر ھوچکی تھی، ھماری کمپنی کے افسران اور تمام اسٹاف کیلئے ایک علیحدہ ھی کھانے کا مخصوص انتظام کیا گیا تھا، اور ان کی بیگمات کا بھی عورتوں کی طرف الگ ھی انتظام تھا اور خاص رشتہ داروں اور باراتیوں کیلئے بھی عورتوں اور مردوں کا الگ الگ خاص جگہ پر ھی بندوبست تھا، اور ان کے عام لوگ جو محلے کے اور دور کے رشتہ دار تھے سب کیلئے بھی ایک علیحدہ انتظام کیا گیا تھا، بہت ھی اچھا اور منظم طریقے سے انتظام کیا ھوا تھا اور اس میں تمام محلے دار اور ان کے تمام بھائیوں کے علاوہ دفتر کے تمام دوستوں کی محنت اور لگن ھی نے اس ایک بہت بڑی تقریب کے نظام کو بہتر سے بہتر بنایا، جس کی وجہ سے کسی کو بھی کوئی پریشانی نہیں ھوئی، اور انہوں نے خاص کر کھانے کا انتظام ایک فائیو اسٹار ھوٹل کو دیا تھا، جس کی وجہ سے کھانے کے دوران ایک بہترین نطم ضبط بھی تھا، کھانا وہیں تیار بھی ھوا تھا اور شاھی طریقے سے پیش کیا گیا تھا، اس ھوٹل کے بیرے بھی اپنے مخصوص لباس میں بہت ھی اچھے لگ رھے تھے، اور کھانا بھی بہت ھی ذائقہ دار تھا، مجھے اور میرے دوستوں کو تو اسٹیج پر ھی کھانا پیش کیا گیا تھا، کھانے میں شاھی بادامی قورمہ، روغنی نان اور مغلئی تافتان اور اس کے ساتھ اسپیشل چکن پریانی جس کا ذائقہ میں تو آج تک نہیں بھولا، اسکے علاؤہ اسپشل سلاد، دھی کا رائتہ اور میٹھے میں کوئی پہت ھی مزیدار کچھ کھیر ٹائپ کی چیز بھی تھی، اور تمام دوست بھی آج تک وہ شادی کےکھانے کو یاد کرتے ھیں، اس کی وجہ یہ بھی تھی کے ان کے تعلقات وھاں کے کیٹرنگ منیجر سے ایک خاص فیملی کی طرح تھے، اور وہ بھی بمعہ فیملی کے یہاں مدعو بھی تھے اور انہوں نے خاص طور سے یہ سارا انتظام اپنی ھی نگرانی میں کرایا بھی تھا، اور خاص رعایت بھی ان کی وجہ سے ھوئی تھی، !!!!!

    کھانے سے فارغ ھونے کے بعد مجھے زنان خانے میں بلوایا گیا تاکہ کچھ رسومات کے بعد دلہن کو رخصت کیا جائے، مگر جانے سے پہلے دوستوں نے سمجھا دیا تھا کہ اس وقت کچھ مذاق بھی ھوتا ھے ذرا سنبھل کر جانا، مگر شکر ھے کہ ایسی کوئی بات نہیں ھوئی، بہت ھی زیادہ رش تھا، دلہن کے بھائی ھی اس رش میں سے مجھے ساتھ لیکر اوپر کی منزل پر پہنچے جہاں دو کرسیاں تھیں مجھے وہاں ایک کرسی پر بٹھا دیا، اور دوسری کرسی شاید دلہن کیلئے ھی تھی، میں بھی بہت احتیاط سے بیٹھا کہ کہیں مذاق کا نشانہ نہ بن جاؤں، بہرحال بعد میں میری بہنیں اور دوسرے دلہن کی خالہ اور ماموں زاد بہنیں اور سہیلیاں بھی میرے آس پاس جمع ھوگئیں، ھماری دلہن کی بہنیں تو ابھی بہت ھی چھوٹی تھیں، ان کو تو ھماری شادی کی کوئی بات یاد بھی نہیں ھے اور اب تو کئی بچوں کی امٌائیں ھیں، بس وہ اُس وقت کی تصویریں دیکھ کر حیران ھوتی ھیں کہ کیا جوڑی تھی،!!!!!

    سب لڑکیاں مجھ سے ویسے ھی باتوں باتوں میں ھی مذاق کررھی تھیں، اور میں بھی سب سے اپنے اسی انداز میں باتیں کررھا تھا، مگر میری نظریں تو کسی اور کو بھی ڈھونڈھ رھی تھیں، مگر وہ نظر آکر نہیں دے رھی تھی کسی سے پوچھ بھی نہیں سکتا تھا، رخصتی کا وقت ھو چلا تھا کہ اچانک تھوڑے سے وقفے کے بعد کیا دیکھتا ھوں کہ زادیہ ھی دلہن کو پکڑے ھوئے، اور سنبھالتی ھوئی میری ظرف آرھی تھی،!!!!!!!
     
  10. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    سب لڑکیاں مجھ سے ویسے ھی باتوں باتوں میں ھی مذاق کررھی تھیں، اور میں بھی سب سے اپنے اسی انداز میں باتیں کررھا تھا، مگر میری نظریں تو کسی اور کو بھی ڈھونڈھ رھی تھیں، مگر وہ نظر آکر نہیں دے رھی تھی کسی سے پوچھ بھی نہیں سکتا تھا، رخصتی کا وقت ھو چلا تھا کہ اچانک تھوڑے سے وقفے کے بعد کیا دیکھتا ھوں کہ زادیہ ھی دلہن کو پکڑے ھوئے، اور سنبھالتی ھوئی میری ظرف آرھی تھی،!!!!!!!

    دلہن کو میرے ساتھ والی کرسی پر بٹھا دیا گیا جو کہ مکمل سہرے میں ڈوبی ھوئی تھی، کچھ رسومات کے بعد رخصتی کی تیاری شروع ھوئی، رونا پیٹنا مچ گیا، دلہن کے بھائی اور والدین اور تمام سہیلیاں، اور ماموں خالہ زاد بہنیں باری باری گلے مل کر رورھی تھیں اور ایک دلہن قران شریف کے سائے میں اپنے بابل کا گھر چھوڑ رھی تھی، اسی کار کو ان کے گھر کے مین دروازے کے نزدیک لایا گیا، سب سے ملتی ملاتی ھوئی دلہن کو سہارا دیتے ھوئے کار تک لایا گیا تو ان کے والد نے اپنی لاڈلی بیٹی کو گلے لگایا، جو ان سے آج رخصت ھو رھی تھی اور خوب رو رھے تھے، جیسے ھی ان کی بیٹی کار میں بیٹھی وہ ایک دم بے ھوش سے ھوکر گر پڑے، میں نے فوراً انہیں سہارا دیا اور اپنے گلے لگایا، میں نے کہا کہ خالو آپ کیوں پریشان ھورھے ھیں آپکی بیٹی ھمارے گھر جارھی ھے کسی غیر کے ھاں نہیں، !!! پھر انہوں نے مجھے اپنی بیٹی کے بارے میں کہا کہ بیٹے،!! وہ اس گھر کی بڑی ھی لاڈلی تھی، اس سے کوئی بھول چوک ھوجائے تو معاف کردینا اور نہ جانے بے چارے اپنی بیٹی کی جدائی میں صدمہ سے نڈھال کیا کچھ کہتے رھے، اور میں ان کی ھر ممکن دل جوئی اور یقین دلاتا رھا، اور پھر میرے والد صاحب نے بھی گلے لگا کر ان کی کافی ھمت بندھائی،!!!!!

    پھر باری باری میں نے دلہن کے بھائیوں کو گلے لگایا، اور ان کے باقی رشتہ داروں سے بھی ملا اور آخر میں ان کی والدہ کے پاس گیا انہوں نے میرے سر پر ھاتھ پھیرا، وہ کچھ کہہ تو نہیں سکتی تھیں کیونکہ ان کی بھی ھچکی بندھی ھوئی تھی، ایسا لگ رھا تھا کہ وہ کہہ رھی ھوں کہ بڑے لاڈ پیار سے پلی ھوئی بیٹی کو تمھارے حوالے کررھی ھوں، اس کا خیال رکھنا، ان کی ھچکیوں میں ھی اپنی بیٹی کے لئے بہت سی التجائیں چھپی ھوئی تھیں، جس کا وہ اظہار نہیں کر پا رھی تھیں، سارا ماحول غمزدہ تھا ھر طرف ھچکیاں ھی بندھی ھوئی تھیں، لگتا تھا کہ سارے محلے کی لاڈلی بیٹی کو میں لئے جارھا تھا، پھر مجھے بھی دوسری طرفسے کار میں بٹھا دیا اور دلہن کے ساتھ میری والدہ بیٹھ گئیں، سامنے ایک دوست جو گاڑی چلا رھا تھا اور اس کے ساتھ مجھے کچھ یاد نہیں کون بیٹھا تھا، اور سارے ساتھ آئے ھوئے بھی بسوں اور دوسری گاڑیوں میں بیٹھ چکے تھے والد صاحب اور میرے بھائی تمام اپنے لوگوں کو اکھٹا کرتے ھوئے بسوں میں سوار کرا رھے تھے!!!!!!

    وھاں سے پھر یہ سارا قافلہ اس محلے کی لڑکی کو دلہن بنا کر لے کر نکلا اور وھاں کی گلی کو سونا کرتا ھوا چلا گیا، بیچ میں سمٹی ھوئی دلہن کے ایک طرف میں تھا، دوسری طرف والدہ بیٹھی ھوئی تھیں اور دلہں شاید گرمی سے بے چیں تھی، والدہ نے اسے اپنی طرف کندھے میں ھاتھ ڈال کر سہارا دیا ھوا تھا، اور شاید کسی چیز یا گتے سے دلہن کو ھوا جھل رھی تھیں، مجھے خوشی ھوئی کہ ھماری اماں کے دل میں اپنی بہؤ کے لئے بہت پیار امڈ رھا تھا، دعاء یہی کر رھا تھا کہ ھمیشہ ان کے دل میں اسی طرح اپنی بیٹی کی طرح پیار اور محبت قائم رھے، رات کے تقریباً ڈھائی بجے ھم اپنے گھر پر پہنچے، تو کچھ سکون ملا لڑکیاں تو دلہن کو لے کر دلہن کے سجے سجائے کمرے میں لے گئیں، اور میں اپنے دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ محو گفتگو رھا، اب تک میں نے اپنی دلہن کی شکل تک نہیں دیکھی تھی، !!!!

    ایک وقت وہ تھا کہ دلہن کو آخر تک کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا اور نہ ھی آج کی طرح دلہن کو نکاح کے بعد پنڈال میں دولہا کے ساتھ منہ کھول کر بٹھایا جاتا تھا، اور نہ ھی ولیمہ کے دن، اور نہ کوئی موؤی وغیرہ کا زمانہ تھا بس کیمرہ سے تصویریں ضرور کھینچی جاتی تھیں، اور ایک یادگار کے طور پر ایک البم تیار کی جاتی تھی، اور اب تو وہ رسم و رواج بھی ختم ھوتے جارھے تھے جو کہ ھمارے کلچر سے جڑی تھیں، دولہے دلہن کا سہرا، بینڈ باجا اور وہ شادی بیاہ کے گیت جو لڑکیاں گھر کے اندر بیٹھ کر گاتی تھیں اور علاقائی رقص کرتی تھیں، جہاں مرد حضرات پر مکمل طور پر پابندی ھوتی تھی، اور دلہن کے مائیوں کی رسم کے بعد سے لے کر رخصتی ھونے تک کوئی غیر مرد یا دولہا تک دلہن کا چہرہ نہیں دیکھ سکتا تھا، اس کے علاؤہ میک اپ صرف گھر کے اندر ھی کیا جاتا اور اُس وقت مائیوں کی رسم کے بعد دلہن کو باھر نکالنا بہت ھی معیوب سمجھا جاتا تھا، !!!!!!

    اب تو دلہن پہلے ھی ھر رسم میں مائیوں، مہندی ھو اور شادی ھو یا ولیمہ ھو سب میں بیوٹی پارلر سے میک اپ کرا کے، سج سجا کر گھر کے بجائے سیدھا شادی حال میں پہنچتی ھے، باراتیوں کے بیچ ھی سے میک اپ سے تھپی ھوئی زرق برق لباس میں، چہرہ کھولے ھوئے، سب کو ھاتھ ھلاتی ھوئی سیدھے ڈائس پر جا بیٹھتی ھے، سہرے کا تو ذکر ھی نہیں ھوتا، صرف ایک چھوٹا سا ھار کبھی کبھی گلے میں کافی ھوتا مگر وہ بھی نکال دیا جاتا ھے کہ اس سے جوڑا خراب ھوجاتا ھے، بس اب تو ھاتھوں میں ھی گلدستے لے کر بیٹھنے کا رواج ھے، کبھی کبھی تو ایسا بھی ھوتا ھے کہ بیوٹی پارلر کے میک اپ سے دلہن کا اپنا چہرہ اتنا بدل جاتا ھے، کہ دلہن کی اپنی اصل شناخت بھی ختم ھو جاتی ھے، اور جب دولہا دوسرے دن اپنی دلہن کا منہ دھلا ھوا دیکھتا ھے تو حیران ھوتا ھے کہ کیا اسی سے میری شادی ھوئی تھی، یہ تو وہ نہیں لگتی، کبھی کبھی تو مغالطے میں اپنی ھی دلہن سے ھی پوچھ بیٹھتا ھے، کہ بہن کیا آپ نے میری دلہن کو دیکھا ھے، ابھی کچھ دیر پہلے تو یہیں تھی !!!!!
    --------------------------------------

    وھاں سے پھر یہ سارا قافلہ اس محلے کی لڑکی کو دلہن بنا کر لے کر نکلا اور وھاں کی گلی کو سونا کرتا ھوا چلا گیا، بیچ میں سمٹی ھوئی دلہن کے ایک طرف میں تھا، دوسری طرف والدہ بیٹھی ھوئی تھیں اور دلہں شاید گرمی سے بے چیں تھی، والدہ نے اسے اپنی طرف کندھے میں ھاتھ ڈال کر سہارا دیا ھوا تھا، اور شاید کسی چیز یا گتے سے دلہن کو ھوا جھل رھی تھیں، مجھے خوشی ھوئی کہ ھماری اماں کے دل میں اپنی بہؤ کے لئے بہت پیار امڈ رھا تھا، دعاء یہی کر رھا تھا کہ ھمیشہ ان کے دل میں اسی طرح اپنی بیٹی کی طرح پیار اور محبت قائم رھے، رات کے تقریباً ڈھائی بجے ھم اپنے گھر پر پہنچے، تو کچھ سکون ملا لڑکیاں تو دلہن کو لے کر دلہن کے سجے سجائے کمرے میں لے گئیں، اور میں اپنے دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ محو گفتگو رھا، اب تک میں نے اپنی دلہن کی شکل تک نہیں دیکھی تھی، !!!!

    زادیہ بھی دلہن کے کمرے میں دلہن کے ساتھ مصروف گفتگو تھی، مجھے یہ بعد میں ھی پتہ چلا کہ زادیہ منگنی سے لے کر رخصتی تک زیادہ تر دلہن کے ساتھ ھی رھی تھی اور اس نے میری عادتوں کے بارے میں تفصیل سے میری دلہن کے گوش گزار کردی، ساتھ یہ بھی کہا کہ “تم بہت ھی خوش قسمت ھو کہ تمھیں ایک بہت ھی پیار اور محبت کرنے والے شوھر کے ساتھ ساتھ ایک بہتریں دوست مل رھا ھے،“ میرے کیا کیا شوق ھیں، مجھے کھانے میں کیا کیا پسند ھے، اور مجھے کس طرح وہ اپنے دل میں بٹھا سکتی ھے، زادیہ نے اپنی ھر ممکن کوشش کی کہ میری دلہن کو میرے مزاج کے بارے میں ھر چیز واضع کردی تاکہ مجھے سمجھنے میں اور میرے دل میں جگہ پانے کیلئے اسے کوئی مشکل پیش نہ آئے، میری بیگم نے یہ ساری تفصیل مجھے بعد میں بتائی کہ “ھم دونوں میں جو ایک اعتماد اور ایک دوسرے پر بھروسہ، پیار اور محبت ھے، اسکا سہرا زادیہ کے سر ھی جاتا ھے“، انہوں نے اس بات کا بھی اضافہ کیا کہ، “پہلے یہ شک بھی ھوا تھا، کہ کیا وجہ ھے کہ جو خوبیاں آپکی مجھے یہ بتا رھی ھے، اور مجھ پر ھی اتنا اس نے یہ کرم کیوں کررھی ھے، مجھے تو زادیہ نے آپ کے متعلق اتنا کچھ بتا دیا تھا کہ ایسا لگتا تھا کہ میں اور آپ ایک دوسرے کو برسوں سے بہت اچھی طرح جانتے ھیں، مگر مجھے یہ بھی تعجب ھوا کہ پھر کیا وجہ تھی کہ زادیہ نے آپ کو حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی، ایسا لگتا تھا کہ وہ آپ کو بہت چاھتی تھی، اور آپ کو پانے میں ناکام رھی، اور اب صرف وہ چاھتی تھی کہ آپ کی زندگی میں کوئی بھی غم نہ آئے، اور ھمیشہ خوش رھیں“،!!!!!!

    شادی کے دوسرے دن دلہن کے گھر والے صبح پہنچ گئے، اور ان کیےیہن بھائی اور خالہ زاد ماموں زاد بہنیں بھی ساتھ تھیں نے، سب نے مجھے اس دن بہت اچھی طرح سے دیکھا، گپ شپ کی اور بہت ھی خوش ھوئیں، انکے چھوٹے بہن بھائی بھی بہت خوش تھے، اور میں بھی سب کے ساتھ خوب گھل مل گیا تھا اس لئے کوئی بھی اجنبیت محسوس نہیں ھو رھی تھی، دلہن کی خاص سہیلی بھی ان کے ساتھ ھی آئی تھیں، وہ بھی اپی سہیلی سے مل کر بہت خوش ھوئی، کیونکہ دلہن بہت خوش اور سب سے خوب ھنس ھنس کر باتیں بھی کررھی تھیں، ان سب کے آنے سے پہلے ھی زادیہ نے دلہن کو اچھی طرح تیار کیا تھا، اور مجھے بھی محترمہ نے ہدایت کی کہ فوراً تیار ھوجاؤ، کیونکہ دلہن کے گھر والے آتے ھی ھونگے،!!!!!!!

    زادیہ بھی گھر میں سب کی دادی اماں بنی ھوئی تھی، اور ھر بات میں روک ٹوک کر رھی تھی، کافی ھدایتیں بھی دے رھی تھی، سارے گھر پر ھی اس کا رعب چل رھا تھا، اور ساتھ سب اس کی تابعداری بھی کر رھے تھے، کیونکہ اس شادی کے ھر کام کی ذمہ داری ھمارے اباجان نے زادیہ ھی کے سپرد کی ھوئی تھی اور والد صاحب کی طرف سے خاص حکم بھی تھا کہ سارے انتظامات زادیہ ھی کے ھدائت پر ھونے چاھئے، اور اگر میں بھی کوئی کسی کام کیلئے اپنے گھر میں کسی سے کہتا تو یہی جواب ملتا کہ زادیہ سے پوچھ لو، اور پھر کیا مجھے خود ھی وہ کام کرنا پڑتا، میں نہیں چاھتا تھا کہ میں کسی کام کیلئے زادیہ کو کہوں، اور اگر اسے یہ پتہ چل جاتا کہ اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام ھوا ھے تو وہ شور مچادیتی !!!!!!

    آج شام کو ولیمہ کی دعوت تھی، میرے چھوٹے بھائیوں اور دوستوں نے تمام باھر کا انتطام سنبھالا ھوا تھا، اور گھر کے اندر کا کام زادیہ کی ھی نگرانی میں ھورھا تھا، اور اس نے ھی شام کے ولیمہ کیلئے دلہن کو تیار کیا تھا اور دن بھر وہ بار بار دلہن کے پاس آتی جاتی رھی، مجھے تو اس نے سارے دن دلہن سے کچھ بات چیت بھی کرنے نہیں دیا اور مجھے جب بھی موقع ملتا میں اپنی دلہن کے سامنے بیٹھ کر گپ شپ کرنے لگ جاتا لیکن زادیہ مجھے اپنی دلہن کے پاس بیٹھنے ھی نہیں دیتی تھی، پتہ نہیں اسے کیسے پتہ چل جاتا تھا فوراً ھی مجھے بھگا دیتی اور کہتی کہ “ابھی پوری زندگی پڑی ھے باتیں کرنے کیلئے، جاؤ نیچے بہت کام ھیں، آج پتہ نہیں تمھیں کیا کیا انتظامات کرنے ھیں،“ مجھے غصہ تو آتا تھا لیکن کسی مصلحت کی وجہ سے خاموش ھو جاتا، زادیہ کی والدہ میرا ساتھ دیتی تھیں، باجی تو اپنے چچا کے پاس ابوظہبی میں ھی تھیں،!!!!!!!
    --------------
    آج شام کو ولیمہ کی دعوت تھی، میرے چھوٹے بھائیوں اور دوستوں نے تمام باھر کا انتطام سنبھالا ھوا تھا، اور گھر کے اندر کا کام زادیہ کی ھی نگرانی میں ھورھا تھا، اور اس نے ھی شام کے ولیمہ کیلئے دلہن کو تیار کیا تھا اور دن بھر وہ بار بار دلہن کے پاس آتی جاتی رھی، مجھے تو اس نے سارے دن دلہن سے کچھ بات چیت بھی کرنے نہیں دیا اور مجھے جب بھی موقع ملتا میں اپنی دلہن کے سامنے بیٹھ کر گپ شپ کرنے لگ جاتا لیکن زادیہ مجھے اپنی دلہن کے پاس بیٹھنے ھی نہیں دیتی تھی، پتہ نہیں اسے کیسے پتہ چل جاتا تھا فوراً ھی مجھے بھگا دیتی اور کہتی کہ “ابھی پوری زندگی پڑی ھے باتیں کرنے کیلئے، جاؤ نیچے بہت کام ھیں، آج پتہ نہیں تمھیں کیا کیا انتظامات کرنے ھیں،“ مجھے غصہ تو آتا تھا لیکن کسی مصلحت کی وجہ سے خاموش ھو جاتا، زادیہ کی والدہ میرا ساتھ دیتی تھیں، باجی تو اپنے چچا کے پاس ابوظہبی میں ھی تھیں،!!!!!!!

    مجھے آج باجی کی بھی یاد آرھی تھی، آج وہ ساتھ ھوتیں تو میری اس شادی کی تقریب میں شریک ھوتیں، کیونکہ میں نے ایک دن ان سے وعدہ بھی کیا تھا کہ میں تمھارے بغیر کبھی سہرا نہیں باندھوں گا، لیکن افسوس کہ میں ان سے کیا ھوا اس وعدہ کا مان نہ رکھ سکا تھا، آج کے ولیمہ کے لئے بقول میرے بھائی اور دوستوں کے سب تیاریاں مکمل تھیں، اور مجھے کہا گیا کہ کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ھے، ادھر والد صاحب بھی ساری تیاریوں کی دیکھ بھال کررھے تھے، گھر کے سامنے دو حصوں میں شامیانہ لگ رھا تھا ایک میں کھانے کا بندوبست تھا اور دوسرے میں مہمانوں کے بیٹھنے کا انتطام تھا، اور ایک شامیانہ گلی میں لگایا گیا تھا، جس میں عورتوں کے بیٹھنے کے لئے اھتمام تھا، اور ایک چھوٹا سا اسٹیج بھی تھا شاید دلہن کے رونمائی کے لئے ھو،!!!!!

    مجھے بھی حکم مل گیا کہ شام ھونے سے پہلے تیار ھوجاؤں، اور آج کیلئے ایک سفاری سوٹ کا انتظام تھا، میرے وقفے وقفے سے دوست ملنے آتے رھے اور انتظامات کی تیاری میں مدد بھی کرتے رھے گھر تو روشنیوں سے ایک ھفتے پہلے ھی سے روشنیوں سے جگمگا رھا تھا، آج شامیانے نے ایک اور رونق کا اضافہ کردیا تھا، شامینے میں بھی کرسیاں ایک قرینے اور ترتیب سے لگ چکی تھیں اور روشنی کا بھی خاص انتظام تھا، ایک ظرف کھانا بھی پک رھا تھا، والد صاحب کے ایک دوست نے خاص طور سے اسپیشل حیدرآبادی پکوان بنوانے والوں کو بلوایا ھوا تھا، بقول انکے کہ ھر کھانے کا ذائقہ بھول جاؤ گے، اگر یہ پکوان کھا لیا تو، میں نے احتیاطاً پوچھ ھی لیا کہ بھئی آج کے کھانے مین کیا کیا ھے تو انہوں نے فرمایا کہ میاں آج حیدرآبادی مغلئی پکوان پک رھا ھے، جس میں کچے گوشت کی دم کی بریانی، بادامی قورمہ، بگھارے بیگن، لوکی کی کھیر، خوبانی کا میٹھا، اور اسپیشل حیدرآبادی رائتہ ساتھ رنگ برنگی سلاد کے علاؤہ بھی بہت کچھ ھے، !!!!!!!

    شام ھونے والی تھی میں تمام انتظامات سے مظمئین ھو کر اپنی تیاری میں لگ گیا، نہا دھوکر سفاری سوٹ پہنا، اچھا لگ رھا تھا، میں نے سوچا کہ اپنی دلہن کو ذرا اپنا چہرہ تو دکھا دوں، بڑی مشکل تھی، نہ جانے زادیہ کون کوں سے جنم کے بدلے رھی تھی، اُوپر مجھے جانے ھی نہیں دیتی تھی، ساری دنیا اوپر نیچے جارھی تھی مگر میرے لئے تو اس نے کرفیو لگایا ھو تھا، لگتا تھا کہ اس نے میرے پیچھے اپنے جاسوس چھوڑے ھوئے تھے، جیسے ھی میں اوپر دلہن کے کمرے میں جانے کی کوئی کوشش کرتا تو فوراً زادیہ نہ جانے کہاں سے آ ٹپکتی اور مجھے اشارے سے واپس جانے کے لئے کہتی، مجھے مجبوراً واپس ھونا پڑتا، اس بار میں نے کہا کہ اب تو جانے دو شام ھوگئی ھے،!!!اس نے جواب دیا کہ، نا، نا، نا، دلہن اب تیار ھونے جارھی ھے، اس لئے اب تو سب کا داخلہ بند، آپ جا سکتے ھیں اور آج ماشااللٌہ آپ کچھ زیادہ ھی اسمارٹ لگ رھے ھیں،!!!! اور یہ کہہ کر دروازہ اندر سے بند کردیا اور جتنے بھی دلہن کے کمرے میں موجود تھے سب کو وہ پہلے کمرے سے باھر بھیج چکی تھی،!!!!

    بہت ھی سخت دل ھے، میں یہ کہتا ھوا نیچے سیڑھیوں سے اترنے لگا، سامنے انکی امی نے مجھے گھیرلیا اور پھر ماشااللٌہ کہتے ھوئے بلائیں لینے لگیں اور ماتھے پر پیار کیا اور ڈھیروں دعائیں دیں، وہ زیادہ تر میری والدہ کے ساتھ ھی بیٹھی رھتیں اور دونوں نیچے فرش پر دری بچھائے چھوٹے موٹے ھاتھ سے کام کرتی ھوئیں آپس میں گپ شپ کرتی رھتیں، مجھے خوشی بھی ھوتی کہ کتنے عرصے بعد یہ دونوں آج پھر اسی طرح سے ھنسی خوشی بات کررھی ھیں، وہ ویسے بھی بھی بہت دکھی تھیں، ایک بڑی بیٹی ابوظہبی میں اور شوھر کا ساتھ نہیں رھا، چھوٹی بیٹی کے غم کو سینے سے لگائی ھوئی تھیں، ان کا ایک بہت بڑا ارمان تھا کہ کاش انکی زادیہ کی شادی میرے ساتھ ھوجاتی، اس کا انہیں بہت ھی ایک دلی صدمہ تھا کہ حالات کچھ ایسے ھوگئے تھے کہ اپنی اس خواھش کو پائےتکمیل تک نہ پہنچا سکی تھیں،!!!!!!!
     
  11. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    بہت ھی سخت دل ھے، میں یہ کہتا ھوا نیچے سیڑھیوں سے اترنے لگا، سامنے انکی امی نے مجھے گھیرلیا اور پھر ماشااللٌہ کہتے ھوئے بلائیں لینے لگیں اور ماتھے پر پیار کیا اور ڈھیروں دعائیں دیں، وہ زیادہ تر میری والدہ کے ساتھ ھی بیٹھی رھتیں اور دونوں نیچے فرش پر دری بچھائے چھوٹے موٹے ھاتھ سے کام کرتی ھوئیں آپس میں گپ شپ کرتی رھتیں، مجھے خوشی بھی ھوتی کہ کتنے عرصے بعد یہ دونوں آج پھر اسی طرح سے ھنسی خوشی بات کررھی ھیں، وہ ویسے بھی بھی بہت دکھی تھیں، ایک بڑی بیٹی ابوظہبی میں اور شوھر کا ساتھ نہیں رھا، چھوٹی بیٹی کے غم کو سینے سے لگائی ھوئی تھیں، ان کا ایک بہت بڑا ارمان تھا کہ کاش انکی زادیہ کی شادی میرے ساتھ ھوجاتی، اس کا انہیں بہت ھی ایک دلی صدمہ تھا کہ حالات کچھ ایسے ھوگئے تھے کہ اپنی اس خواھش کو پائےتکمیل تک نہ پہنچا سکی تھیں،!!!!!!!

    زادیہ کی والدہ مجھے بچپن سے ھی بہت چاھتی تھیں اور زادیہ کی نانی جان جب تک وہ حیات تھیں، مجھ پر تو وہ جان چھڑکتی رھیں، اور اکثر وہ تو زادیہ کو میری مناسبت سے چھیڑتی بھی تھیں، وہ بچپن کی یادیں اب کہیں بہت دور تنہائیوں کے ساتھ ھی گم ھوچکی تھیں، اب مجھے اس بچپن کی یاد اسی وقت آتی ھے جب میں پاکستان جاتا ھوں اور اس اپنے پرانے محلے کی طرف اپنے کسی پرانے دوستوں سے ملنے جاتا ھوں، اب تو میری شادی ھوچکی تھی اور میری بیگم نے میرا اتنا خیال رکھا،میری ھر ضرورت میرے خیالات، مجھے کیا پسند ھے، ان سب کا شروع دن سے ھی اپنے خلوص اور محبت سے میرا دل جیت لیا، تمام تر ان کی خدمات میرے عین مزاج کے مطابق ھی ھوتی تھیں، مجھے تعجب بھی تھا کہ یہ دلہن تو میرے بالکل عیں توقعات سے بھی زیادہ خوب تر نکلی، کبھی اس نے مجھے کسی شکایت کا موقع نہیں دیا،!!!!!!

    بعد میں مجھے میری بیگم نے ساری تفصیل بتائی تھی کہ جب تک زادیہ ان کے پاس رھی، اس نے میرے متعلق تمام حالات، عادات و اطوار سے مکمل آگاھی کردی تھی کہ وہ میرے مزاج کو سمجھتے ھوئے میرا کس ظرح خیال رکھے گی، میری ھر اچھی بری عادت کی شناخت کرادی تھی، اس نے ایک قسم کی ٹریننگ دے دی تھی اور واقعی وہ اس میں کامیاب بھی رھی اور میں اسکا بہت ھی ممنون ھوں اور یہ احسان بھی میں اسکا میں زندگی بھر بھی نہیں اتار سکتا، جس طرح اس نے میری خوشیوں کو میری جھولی میں ڈال دیا ھے کہ آج تک میرے دل سے اس کیلئے دعائیں ھی نکلتی ھیں، میری بیگم کو میری اس تمام کہانی کے بارے میں پوری طرح علم ھے اور انہوں نے آج تک کبھی بھی کسی بات کو دل پر نہیں لیا، اور برا نہیں مانا،!!!!!!

    ولیمہ کی تیاری بڑے زور شور سے جاری تھی، ھماری گلی کے ھر فرد نے اس تیاری میں خوب مدد کی اس کے علاوہ والد صاحب کے تمام مسجد اور دفتر کے ساتھی بھی ساتھ ساتھ ھر ممکن پوری اور صحیح طرح کی دیکھ بھال میں لگے رھے، اور ساتھ ھی چھوٹے بھائی کے دوست بھی بالکل آگے آگے ھر کام میں پیش پیش تھے، گھر کے اندر تو زادیہ نے اپنی ھر ممکن کوشش کی اور کوئی بھی کسی قسم کی پریشانی نہیں آنے دی اور تمام گھر کی اور محلے کی لڑکیوں نے زادیہ کے ھر حکم پر خوب محنت سے کام کیا، جتنے بھی لوگ تھے سب ایسا لگتا تھا کہ سب اپنے قریبی رشتہ دار ھیں، ساری تیاریاں ھوچکی تھیں بس اب دلہن والوں کا انتظار تھا، ھماری طرف کے تقریباً سارے مہمان تو آچکے تھے، !!!!!

    عشاء کے کچھ دیر بعد ھی پنڈال کے سامنے ھی ایک بس آ کر رکی اور اس میں سے سب چھوٹے بڑے مرد حضرات، زرق برق لباس میں ملبوس بچے بچیاں اور لڑکیاں ساتھ بڑی بوڑھی عورتیں بھی لکڑی ٹیکتی ھوئی بس سے اتریں اور سب کا میرے بھائی، میں خود اور والد صاحب ھی استقبال کررھے تھے اور ساتھ ساتھ سلام دعاء بھی کہہ رھے تھے، اور سارے آنے والے زیادہ تر مجھے ھی دیکھ رھے تھے، ایک بڑی بی میرے نزدیک یہ کہتی ھوئی آئیں ارے بھئی ھٹو،!!! مجھے بھی تو دیکھنے دو ھماری بٹیا کس لڑکے سے بیاھئی گئی ھے، اپنے موٹے موٹے چشموں میں سے مجھے دیکھا اور کہا کہ ماشااللٌہ شکل سے تو ٹھیک ٹھاک ھی لگتا ھے، اللٌہ ھماری بٹیا کو خوشیاں دکھائے اور دعائیں دیتی ھوئی آگے بڑھ گئیں، میں اس وقت ان کے رشتہ داروں کو صحیح طرح پہچانتا نہیں تھا، کوئی کہتا ارے مجھے پہچانا، میں بس ھاں میں ھاں ھی ملا دیتا تھاَ!!!!!!

    دفتر کے مہمان زیادہ تر کچھ اپنی ھی گاڑیوں میں اور کچھ بسوں اور رکشہ ٹیکسیوں میں ھی پہلے ھی پہنچ چکے تھے، اور سب دفتر کے دوست احباب تو دونوں ھی کی طرف سے مدعو تھے، یہ ھم کہہ سکتے ھیں کہ یہ شادی دفترمیڈ تھی یعنی اس شادی کی کوششوں میں تمام دفتر والوں ‌کا ھاتھ تھا، کیونکہ ھم دونوں کے والد اور مجھ سمیت دلہن کے بھائی بھی اسی کمپنی میں سروس کرتے تھے، اور یہ ایک اتفاق تھا کہ میرے سسر میرے ساتھ اسی کمپنی میں سعودیہ میں تھے، اور میرے والد اور دلہن کے بڑے بھائی کراچی میں ایک ھی ساتھ اسی کمپنی کے ڈویژنل آفس میں کام کرتے تھے، جس کا کہ ایک بہت اچھا ماحول تھا اور مجھے اس بات پر فخر بھی تھا کہ سعودیہ میں یہ پاکستانی کنسٹرکشن کمپنی خود ھی کفیل تھی اور ویزے بھی اسی کمپنی کے نام سے جاری ھوتے تھے، اور اس کمپنی کے پاس خود ھی لوگوں کو سعودیہ بھیجنے کے ساتھ ساتھ لائسنس کا اختیارنامہ بھی تھا،!!!!

    ارے پھر کدھر میں آفس کی باتیں لے کر بیٹھ گیا، سارے مہماں تقریباً آچکے تھے ساتھ کافی تحفے تحائف بھی تھے کچھ تو سلامی کے نوٹ لفافے میں رکھ کر بھی دے رھے کچھ لوگ مجھے بھی پکڑا رھے تھے، لفافے تو میں خود ‌اپنی جیب میں رکھ رھا تھا اور عورتین دلہن کے ساتھ بیٹھی ھوئی میری بہنوں‌کو دے رھی تھی، یہاں بھی کافی مہمان آئے تھے ڈر بھی لگ رھا تھا کہ کھانا کم نہ پڑ جائے، مگر جنہوں نے انتظام کیا ھوا تھا انہوں نے یہ یقین دلادیا تھا کہ فکر نہ کریں اوٌل تو کھانا کم نہیں پڑے گا اور اگر خدانخواستہ کم پڑجائے تو ایمرجنسی کھانے کا بھی انتظام ھے، ایک نئے اسٹائیل اور حیدرآبادی ذائقہ کے ساتھ یہ کھانا لوگوں کو بہت پسند ایا، مگر چند ایک قورمے او بگھارے بیگن میں تمیز نہ کرسکے، انہوں نے بگھارے بیگن کو چن چن کر بوٹیاں سمجھ کر ڈال لیں اور جب دیکھا کہ یہ تو بیگن ھیں ‌تو بہت شرمندگی ھوئی، بہرحال خیرخیریت سے ولیمے کی یہ دعوت اختتام کو پہنچی، اور پھر آھستہ آھستہ لوگ اپنے اپنے گھروں کے لئے رخصت ھونے لگے، !!!!!
    ---------------------------------------
    ارے پھر کدھر میں آفس کی باتیں لے کر بیٹھ گیا، سارے مہماں تقریباً آچکے تھے ساتھ کافی تحفے تحائف بھی تھے کچھ تو سلامی کے نوٹ لفافے میں رکھ کر بھی دے رھے کچھ لوگ مجھے بھی پکڑا رھے تھے، لفافے تو میں خود ‌اپنی جیب میں رکھ رھا تھا اور عورتین دلہن کے ساتھ بیٹھی ھوئی میری بہنوں‌کو دے رھی تھی، یہاں بھی کافی مہمان آئے تھے ڈر بھی لگ رھا تھا کہ کھانا کم نہ پڑ جائے، مگر جنہوں نے انتظام کیا ھوا تھا انہوں نے یہ یقین دلادیا تھا کہ فکر نہ کریں اوٌل تو کھانا کم نہیں پڑے گا اور اگر خدانخواستہ کم پڑجائے تو ایمرجنسی کھانے کا بھی انتظام ھے، ایک نئے اسٹائیل اور حیدرآبادی ذائقہ کے ساتھ یہ کھانا لوگوں کو بہت پسند ایا، مگر چند ایک قورمے او بگھارے بیگن میں تمیز نہ کرسکے، انہوں نے بگھارے بیگن کو چن چن کر بوٹیاں سمجھ کر ڈال لیں اور جب دیکھا کہ یہ تو بیگن ھیں ‌تو بہت شرمندگی ھوئی، بہرحال خیرخیریت سے ولیمے کی یہ دعوت اختتام کو پہنچی، اور پھر آھستہ آھستہ لوگ اپنے اپنے گھروں کے لئے رخصت ھونے لگے، !!!!!

    آخر میں میرے کچھ خاص دوست ھی باقی رہ گئے تھے، اور ھم سب خالی پنڈال میں ھی کرسیوں پر بیٹھے گپ شپ لگا رھے تھے، اور کچھ بچے بھی وہیں روشنی کی وجہ سے کھیلتے ھوئے دھما چوکڑی مچائے ھوئے تھے، اور بھائی اور ان کے دوست سب ڈیکوریشن کا سامان کراکری سنبھال رھے تھے، ساتھ ھی ڈیکوریشن کے بندے بھی اپنی کرسیاں اور شامینے میں لگی ھوئی تمام چیزیں اکھٹا کررھے تھے، آدھی رات ھونے کو تھی، دوستوں نے بھی اجازت لی اور میں گھر میں گھسا، وھاں ابھی بھی عورتوں کی محفل لگی ھوئی تھی، کچھ تو خاص کر باتیں سننے کیلئے ھی بیٹھی تھیں کہ دلہن کے گھر والوں نے کیا جہیز دیا، کتنا سونا لڑکی کو چڑھایا، اور آج دولہا دلہن کو سلامی میں کتنا مال ملا اور جب تک سارے تحفے کھل کر دیکھے نہ گئے ان ھمدرد عورتوں نے جان نہیں چھوڑی، اور ساری کہانی سمیٹتی ھوئی بڑی مشکل سے گھر سے نکلیں، دلہن اُوپر ھی میری بہنوں اور ان کی سہیلیوں کے ساتھ ان عورتوں کے جھنجھٹ سے الگ تھلگ گپ شپ مین مصروف تھیں، لگتا تھا کہ بہت خوش ھے، مجھے دیکھتے ھی دلہن کچھ خاموش سی ھوگئی، میں بھی ان سب کے ساتھ گپ شپ میں لگ گیا اور خوب ھنساتا رھا،اور زادیہ تو اتنی تھک چکی تھی کہ وہ دلہن کے برابر والے کمرے میں ھی سو گئی تھی، اسکے ساتھ اور بھی لڑکیاں جو پورے دن کی تھکان کی وجہ سے بے خبر سورھی تھیں،!!!!!

    اتنے میں والدہ آئیں اور مجھے سلامی کے پیسے ایک پوٹلی میں باندھ کر تھما گئیں، جب میں نے دیکھا کہ یہ کیا اس میں تو نوٹ شاید سلامی کے اکھٹا کئے ھوئے تھے، میں کیا کرتا واپس ھی ان کو دینے نیچے گیا تو ایک دو عورتوں کی باتیں سننے کو مل گئیں، ایک کہہ رہی تھی کہ ارے سیٌد کی اماں!!! تمھارا دماغ خراب ھے جو ساری سلامی دلہن کو دے آئیں، یہ تو تمھارا حق ھے، دیکھو ابھی سے اگر تم کنٹرول کروگی تو اچھا ھوگا ورنہ تو تمھاری بہو سب کچھ سمیٹ کر تمھارے بیٹے سمیت یہ جا اور وہ جا،!!!!!!! میں نے دل میں یہ سوچا دیکھو آج دلہن کو آئے ھوئے دوسرا دن ھے اور باھر کی عورتوں نے والدہ کے کان بھرنا شروع کردیئے، جیسے ھی میں کمرے میں داخل ھوا اور میں نے ان خاتون کو گھور کر دیکھا تو فوراً ھی وھی بڑی بی نے اپنا برقعہ سنبھالا اور والدہ سے اجازت لیتی ھوئی اپنا راستہ لیا،!!!!!!

    نیچے کمرے میں سارے تحفے تحائف بکھرے ھوئے تھے، اور جو عورتیں باقی بچ گئی تھیں، انہوں نے بھی مجھے دیکھ کر وہاں سے کھسکنے میں ھی اپنی عافیت سمجھی، میں نے سارے پیسوں کی سلامی والی پوٹلی اور جو میری جیب میں بھی تھے وہ سب نکال کر والدہ کو دے دئے، اتنے میں والد صاحب بھی باھر کے تمام کاموں سے سے فارغ ھوکر گھر کے اندر آگئے وہ بھی بہت تھکے ھوئے تھے، مگر خوش بہت تھے کہ سارے کام ان کی خواھش کے مطابق ھوگئے تھے، مجھے بھی خوش دیکھ کر میری پیٹھ تھپ تھپائی اور دعائیں دیں، انکے پیچھے میرے چھوٹے بھائی بھی داخل ھوگئے اس نے بہت ھی کام کیا تھا سارے باھر کا انتظام اسی کے ھاتھ میں تھا اور بخوبی سارے کام کامیابی سے نبٹ چکے تھے، اس میرے بھائی نے میرا بہت ساتھ دیا، یہ میری دو چھوٹی بہنوں کے بعد تھا اور ھر وقت میرا اور اپنی بھابھی کا بہت خیال رکھتا رھا، !!!!

    سب تھکے ھوئے تھے، سب باری باری جہاں جس کو جگہ ملی سو گیا، میں بھی اپنی دلہن کی طرف اپنے کمرے میں چل دیا، اور وھاں پر اب بھی میری سب سے چھوٹی بہنیں اپنے بھانجے سمیت اپنی بھابھی کے ساتھ محو گفتگو تھیں، اور انکی بھابھی بھی انہیں کوئی شہزادی کی کہانی بہت پیار سے سنا رھی تھی، مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی بھی ھوئی کہ اس گھر میں دلہن کی شروعات بچوں کے ساتھ ایک پیار محبت کی کہانی سے ھی شروع ھونے جارھی تھی،!!!!!!!
     
  12. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    سب تھکے ھوئے تھے، سب باری باری جہاں جس کو جگہ ملی سو گیا، میں بھی اپنی دلہن کی طرف اپنے کمرے میں چل دیا، اور وھاں پر اب بھی میری سب سے چھوٹی بہنیں اپنے بھانجے سمیت اپنی بھابھی کے ساتھ محو گفتگو تھیں، اور انکی بھابھی بھی انہیں کوئی شہزادی کی کہانی بہت پیار سے سنا رھی تھی، مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی بھی ھوئی کہ اس گھر میں دلہن کی شروعات بچوں کے ساتھ ایک پیار محبت کی کہانی سے ھی شروع ھونے جارھی تھی،!!!!!!!

    ھر دن کوئی نہ کوئی رسم ھوتی ھی رھتی تھی، اور اسی سلسلے میں تیسرے یا چوتھے روز میرا بھی سسرال آنا جانا رھا، اور وہ بھی اسی طرح گھر آتے جاتے رھے، دوستوں کے یہاں‌، رشتہ داروں میں بھی دعوتوں اکثر اھتمام رھتا تھا، میری چھٹیاں بھی ڈیڑھ مہینے تک ھی تھیں، اور دن بہت جلدی جلدی گزر رھے تھے، زادیہ اور اسکی امی نے بھی چار یا پانچ دن تک رھیں اسکے بعد ان دونوں نے ھم سب کی اپنے گھر پر دعوت کا کہہ کر گھر والوں سے اجازت لی، ان دنوں میں انہوں نے اپنی کافی خدمات انجام دیں، خاص کر زادیہ نے کچھ زیادہ ھی کیا، وہ تو زیادہ تر دلہن کو ھر رسم کیلئے تیار ھونے اور میک اپ وغیرہ میں مدد کرتی رھی، اور زیادہ تر اپنا وقت دلہن کے ساتھ ھی گزارا اور تمام ھمارے گھر کے طور طریقوں سے روشناس بھی کرایا اور ھر ایک رشتہ دار کا بھی ساتھ ساتھ تعارف کراتی رھی،!!!!!!!

    دن بھی بہت جلدی جلدی گزرتے جارھے تھے اور اب ھم دونوں میاں بیوی اپنے اوقات میں بھی آگئے تھے، اور جو بھی جمع پونجی تھی وہ بھی ختم ھونے جارھی تھی، وقت بھی اتنا نہیں تھا کہ مری یا سوات وغیرہ گھومنے جاسکتے، اور کچھ فلوس کی بھی اتنی گنجائیش نہیں تھی، جبکہ زادیہ نے جاتے جاتے مجھے خاص طور سے مری یا سوات اپنی دلہن کو لے جانے کیلئے بہت زور دے کر گئی تھی، لیکن اسکی یہ خواھش میں پوری نہ کر سکا، جسکا مجھے آج تک افسوس ھے، خیر کراچی میں اپنی بیگم کو جہاں جہاں لے کر جاسکا لے گیا، اور خوب گھومایا پھرایا بھی، اور اسی طرح ھم دونوں میں ایک اچھی طرح سے بھروسہ اعتماد کے علاوہ پیار اور محبت کا جذبہ بھی جاگ اٹھا، اور اتنا پیار بڑھ گیا کہ آخری دنوں میں ایک دوسرے کو ایک پل کے لئے بھی انکھوں سے اوجھل نہیں کر سکتے تھے،!!!!!

    جہاں بھی جانا دونوں نے مل کر ساتھ ھی نکل پڑنا، گھر کاسودا لانے اگر وہ میری امی جان کے ساتھ جارھی ھیں تو میں بھی خاموشی سے ان کے پیچھے پیچھے مارکیٹ پہنچ جاتا اور سودا وغیرہ سنبھالنے میں مدد کرتا تھا، میری بیگم بھی ھنس پڑتی، اور اگر جس دن بیگم کو ان کی والدہ یا بہن بھائی اپنے گھر لجاتے تو میرا تو گھر پر وقت گزارنا بہت ھی مشکل ھو جاتا، اور میرے اپنے بہن بھائی کبھی کبھی میری اس بے چینی کو دیکھتے ھوئے میرا مذاق بھی اُڑاتے، اور مجھے بہت تنگ کرتے کہ بھائی آپکے سسرال والے تو بھابھی کو ایک ھفتے کیلئے لے گئے ھیں، اب کیا ھوگا پھر جب مجھ سے رھا نہیں جاتا تو مین ایک دو کو اپنے ساتھ لے کر یا کبھی اکیلا بھی اسی دن شام کو اپنے سسرال بن ٹھن کر پہنچ جاتا تھا، اور وھاں پر تو میں کچھ زیادہ ھی رونق لگاتا، کیونکہ بیگم کی سہیلیاں اور خالہ ماموں زاد بہنیں بھی وہیں پہنچ جاتیں، اور مجھ سے تو ساری ھی خوب مذاق وغیرہ کرتی رھتی، یہ سب کچھ اتنا فری ھو کر اپنے گھر میں مذاق وغیرہ نہیں کرسکتا تھا،!!!!!

    واپسی میں اپنی دلہن کو ساتھ ھی لے کر آتا تھا، اسلئے کہ چھٹیاں اب ختم ھوتی جارھی تھیں، اور اگر رات زیادہ ھوجاتی تو مجھے وہیں رکنا پڑتا، جس کا کہ والدین کچھ محسوس بھی کرتے تھے، کیونکہ میری غیر حاضری میں وہ خواتیں گھر پر آجاتیں اور ساتھ ھی اپنی عادت کے مطابق والدہ کو خبردار بھی کرتیں کہ دلہن کو بیٹے کے ساتھ زیادہ دیر باھر رھنے سے منع کرو ورنہ تمھیں ایک دن اپنے بیٹے سے ھاتھ دھونا پڑے گا، وہ جورو کا غلام ھوجائے گا اور نہ جانے کیا کیا میری والدہ کا دماغ خراب کرتی رھتیں لیکن شکر ھے کہ والدین نے ان لوگوں کی باتوں پر زیادہ دھیان نہیں دیا،!!!!!!
    --------------------------------
    واپسی میں اپنی دلہن کو ساتھ ھی لے کر آتا تھا، اسلئے کہ چھٹیاں اب ختم ھوتی جارھی تھیں، اور اگر رات زیادہ ھوجاتی تو مجھے وہیں رکنا پڑتا، جس کا کہ والدین کچھ محسوس بھی کرتے تھے، کیونکہ میری غیر حاضری میں وہ خواتیں گھر پر آجاتیں اور ساتھ ھی اپنی عادت کے مطابق والدہ کو خبردار بھی کرتیں کہ دلہن کو بیٹے کے ساتھ زیادہ دیر باھر رھنے سے منع کرو ورنہ تمھیں ایک دن اپنے بیٹے سے ھاتھ دھونا پڑے گا، وہ جورو کا غلام ھوجائے گا اور نہ جانے کیا کیا میری والدہ کا دماغ خراب کرتی رھتیں لیکن شکر ھے کہ والدین نے ان لوگوں کی باتوں پر زیادہ دھیان نہیں دیا،!!!!!!

    ڈیڑھ مہینہ کا پتہ ھی نہیں چلا، سب کچھ دعوتوں اور مہمان نوازی کے ھی نذر ھوگئے، دن اور رات انہیں مصروفیت میں گزرتے چلے گئے، وقت کے گزرنے کا احساس ھی نہیں ھوا، ڈیوٹی بھی ضروری تھی جولائی 1979 کے درمیان اب وہ وقت آگیا تھا، کہ سب سے وداع لینا تھا، اب تو زندگی کے ساتھ ایک اور میری ھمسفر میری شریک حیات بھی تھی، شادی کے بعد چھٹیوں کے مختصر سے دں اور یہ چند دنوں کی ملاقات میں ھم ایک دوسرے کے اتنے نزدیک آگئے تھے، کہ یہ جدائی بہت مشکل نظر آرھی تھی، اور مجھے یہ امید نہیں تھی کہ میں اس شادی کے بعد اپنی دلہن کے ساتھ اتنا خوش رہ سکوں گا لیکن یہ اللٌہ تعالیٰ کا کرم ھی ھوا کہ ھم دونوں کو ایک دوسرے سے اتنی محبت ھوگئی کہ ایک پل بھی ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے اور اب واپس جانا بھی تھا،!!!!

    جی بھر کر دیکھ بھی نہ پائے تھے ان کو
    کہ جانے کب سحر ھوگئی جاگتے جاگتے

    ھماری ساس صاحبہ، بہت ھی اللٌہ والی تھیں اور ھر وقت ذکر الٰہی، میں مصروف رھتی تھیں، اللٌہ تعالیٰ انہیں جنت الفروس میں جگہ دے، اکثر کہا کرتی تھیں کہ نکاح کے دو بول ھی دلوں میں خودبخود ایک محبت کا چراغ روشن کردیتے ھیں، پھر میاں بیوی دونوں کا فرض بن جاتا ھے کہ اس روشنی کو ھمیشہ قائم و دائم رکھیں اور اسی ظرح زندگی بھر محبت کے اس روشن چراغ کو جلائے رکھیں، ساتھ ھی اپنے ھاتھوں کے گھیرے سے اسکی حفاظت بھی کرنی ھے کہ یہ چراغ بجھ نہ پائے چاھے کتنے ھی طوفان اور بادوباراں کیوں نہ آئیں،!!!!!!!

    آخر وہ دن آھی گیا جس دن سب سے رخصت ھونا تھا، زادیہ کے گھر بھی آخری دنوں میں ھم دونوں مل کر آگئے تھے، اور ان دونوں کا خدمت اور خلوص کا شکریہ بھی بہت ادا کیا جو کہ ھماری شادی کے دوران انہوں نے ھم دونوں کا ساتھ اپنوں سے بڑھ کر دیا، یہ میں آج تک بھول نہیں سکتا، آج سب گھر والے بمعہ میری بیگم کے مجھے ائرپورٹ چھوڑنے جارھے تھے، اور میں سوچ رھا تھا کہ کیا میں اب ان سب کے بغیر پھر مزید ایک سال تک رہ پاؤں گا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
     
  13. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    آخر وہ دن آھی گیا جس دن سب سے رخصت ھونا تھا، زادیہ کے گھر بھی آخری دنوں میں ھم دونوں مل کر آگئے تھے، اور ان دونوں کا خدمت اور خلوص کا شکریہ بھی بہت ادا کیا جو کہ ھماری شادی کے دوران انہوں نے ھم دونوں کا ساتھ اپنوں سے بڑھ کر دیا، یہ میں آج تک بھول نہیں سکتا، آج سب گھر والے بمعہ میری بیگم کے مجھے ائرپورٹ چھوڑنے جارھے تھے، اور میں سوچ رھا تھا کہ کیا میں اب ان سب کے بغیر پھر مزید ایک سال تک رہ پاؤں گا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

    ائرپورٹ پر تین گھنٹے پہلے ھی پہنچ گئے تھے، کیونکہ سب لوگوں سے ملنے ملانے میں کافی وقت لگ جاتا اور اندر امیگریشن اور سامان کی کاونٹر پر بھی ایک اچھا خاصہ وقت لگ جاتا ھے، وھاں ائرپورٹ پر کافی رش تھا اور مجھے الوداع کہنے کافی لوگ آئے ھوئے تھے، اور سب سے مختصراً مختصراً ملاقات بھی کررھا تھا، زادیہ بھی اپنی والدہ کے ساتھ مجھے الوداع کہنے آئی ھوئی تھی اور وہ شاید میری بیگم کو سمجھانے کی کوشش کررھی تھی، کیونکہ وہ ایک کونے میں کھڑی آنسوں سے ھچکیاں لے کر رو رھی تھی، اور دوسرے اسکی سہیلیاں اور رشتہ دار بھی اسے دلاسہ دے رھے تھے، انکے والد کی چھٹیاں ابھی باقی تھی، اس لئے انہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ شاید مزید ایک ماہ اور رھیں گے، انہوں نے تو ریاض جانا تھا اور میں اب دھران جارھا تھا، !!!!!!

    اور ھماری والدہ، والد اور بہن بھائی بھی کافی اداس تھے، ان سب سے مل ملا کر آخیر میں اپنی بیگم سے ملنے گیا، اسے دیکھ کر میری آنکھوں میں بھی آنسو آگئے، اسے میں نے سمجھایا کہ فکر نہ کرو، میں جلد ھی چھ مہینےکے اندر ھی دوبارہ چھٹی لے کر آجاؤنگا، بہرحال مجبوراً سب کو ھاتھ ھلاتا ھوا ائرپورٹ کی عمارت کے اندر داخل ھوگیا، بورڈنگ پاس لیتا ھوا ایمیگریشن کاونٹر سے پاسپورٹ پر خروج کی مہر لگواتا ھوا جلدی جلدی لاؤنج میں پہنچ گیا کیونکہ میری فلائٹ کی روانگی کا اعلان ھوچکا تھا، اور آھستہ آھستہ لوگ اپنا بورڈنگ پاس چیک کراتے ھوئے بس میں بیٹھ رھے تھے، جو ھمیں جہاز کے پاس لے گئی، وہاں سیڑھی پر چڑھتے ھوئے اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا، آج مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رھا تھا، بس کھڑکی سے باھر اپنے ملک کی پاک سر زمین کو ایک بار پھر سے جدا ھوتے ھوے دیکھ رھا تھا، اور جہاز کراچی شہر کو چھوڑنے کیلئے رن وے پر دوڑ لگا رھا تھا!!!!!!!!

    اسی ظرح اپنی یادوں میں گم تھا، ائرھوسٹس کھانا لے کر آئی مگر دل نہیں چاھا، اسے منع کردیا، پچھلی دفعہ جب آیا تھا تو میں بہت خوش تھا، جہاز میں ھر چیز کو بڑی حسرتوں سے دیکھ رھا تھا، کیونکہ وہ میرا پہلا سفر تھا، اور آج تو کسی چیز کو بھی دل نہیں چاہ رھا تھا، تقریباً ڈھائی گھنٹے کا سفر تھا، سیٹ کو پیچھے کرکے سونے کی کوشش بھی کی لیکن نیند نہیں آئی، دھران ائرپورٹ پر اترتے ھی جب تمام ائرپورٹ کی کاروائی کے بعد سامان لے کر باھر نکلا تو میرے آفس کے دوست مجھے لینے آئے ھوئے تھے انہوں نے شادی کی مبارکباد دی اور مجھے کمپنی کی کار میں لیتے ھوئے کمپنی کے رھائشی کمپاونڈ میں مجھے اپنے کمرے تک چھوڑ کر یہ کہتے ھوئے واپس چلے گئے کہ آرام کرو اور پھر شام کو ملاقات ھوگی، میرا کمرہ تو بالکل کاٹنے کو دوڑ رھا تھا، باھر نکلا تو ھر طرف سناٹا تھا کیونکہ سارے لوگ ڈیوٹی پر گئے ھوئے تھے، میں بھی ریکریشن ھال میں گیا اور وھاں ٹی وی کھول کر پروگرام دیکھنے لگا، اور وھاں کچن میں جاکر چائے اپنے لئے ایک چائے بنوائی، اور چائے پیتے ھوئے سب کو باری باری یاد کررھا تھا، وہ تمام شادی کے ھنگامے، ملنا جلنا، گھومنا پھرنا اب بالکل ایک خواب سا لگ رھا تھا،!!!!!!

    شام کو تمام ساتھیوں نے ڈیوٹی سے واپس آکر مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا، میں اب تک اسی لباس میں ویسے ھی ٹی وی کے سامنے بیٹھا تھا، سب لوگ مجھے مبارکباد دے رھے تھے، اور پھر اس ھال میں کافی رونق ھوگئی، کچھ لوگ کیرم کھیلنے میں مصروف ھوگئے اور کچھ ٹیبل ٹینس کی طرف کھیل میں لگے ھوئے تھے، مگر میرا ذہن ابھی تک پاکستان میں ھی تھا کہیں بھی دل نہیں لگ رھا تھا، کچھ دوستوں نے کہا بھی کہ چلو ذرا الخبر شہر گھوم کر ھی آتے ھیں، لیکن میں نے منع کردیا، اتنے میں رات کا کھانا ٹیبل پر لگ چکا تھا، بھوک اب بھی نہیں لگ رھی تھی، پھر بھی بڑی مشکل سے دو چار نوالے کھائے اور اپنے کمرے میں سونے چلا گیا، کچھ دوست آئے بھی لیکن بس کمرے میں ھی ان سے کچھ گپ شپ کی اور ان کے جانے کے بعد سونے کی بہت کوشش کی، لیکن آنکھوں میں نیند کا دور دور تک کوئی اتا پتہ نہیں تھا،!!!!!!!
    ؂----------------------

    شام کو تمام ساتھیوں نے ڈیوٹی سے واپس آکر مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا، میں اب تک اسی لباس میں ویسے ھی ٹی وی کے سامنے بیٹھا تھا، سب لوگ مجھے مبارکباد دے رھے تھے، اور پھر اس ھال میں کافی رونق ھوگئی، کچھ لوگ کیرم کھیلنے میں مصروف ھوگئے اور کچھ ٹیبل ٹینس کی طرف کھیل میں لگے ھوئے تھے، مگر میرا ذہن ابھی تک پاکستان میں ھی تھا کہیں بھی دل نہیں لگ رھا تھا، کچھ دوستوں نے کہا بھی کہ چلو ذرا الخبر شہر گھوم کر ھی آتے ھیں، لیکن میں نے منع کردیا، اتنے میں رات کا کھانا ٹیبل پر لگ چکا تھا، بھوک اب بھی نہیں لگ رھی تھی، پھر بھی بڑی مشکل سے دو چار نوالے کھائے اور اپنے کمرے میں سونے چلا گیا، کچھ دوست آئے بھی لیکن بس کمرے میں ھی ان سے کچھ گپ شپ کی اور ان کے جانے کے بعد سونے کی بہت کوشش کی، لیکن آنکھوں میں نیند کا دور دور تک کوئی اتا پتہ نہیں تھا،!!!!!!!

    میرا یہاں ایک ایک دن بہت مشکل سے گزر رھا تھا، اب وہاں زادیہ کے گھر کی بھی اتنی فکر نہیں تھی، کیونکہ باجی کے چچا جو ابوظہبی میں تھے انہوں نے بھی انکے ماہانہ اخراجات کا بندوبست کردیا تھا، باجی بھی وھیں پر تھیں، اور وہ اپنے والد کےحق کیلئے اپنے چچا سے وہاں لڑرھی تھی، شاید ھوسکتا ھے کہ ان کے دادا نے کوئی وصیت یا جائداد ان کے لئے چھوڑی ھو اور اس کا حصہ انہیں نہ ملا ھو، اس لئے چچا نے بھی مجبوراً ان سب کی کفالت کی ذمہ داری بھی لے لی تھی، بقول انکی والدہ کے، میں نے پھر بھی یہی کہا کہ اگر کسی بھی مدد کی ضرورت ھو تو میں ھمیشہ حاضر ھوں لیکن زادیہ نے کسی قسم کی کوئی بھی مدد لینے سے انکار کردیا تھا،!!!!!!!

    میرا ذھن بھی آہستہ آہستہ زادیہ کے رویہ کی وجہ سے ان کی طرف سے ھٹتا ھی چلا گیا، اور پھر شادی کے بعد اللٌہ ھی بہتر جانتا ھے کہ کیونکر میری ساری دل میں چھپی ھوئی ایک محبت جو کبھی زادیہ کےلئے تھی وہ رفتہ رفتہ اپنی شریک حیات کی طرف منتقل ھوتی جارھی تھی، اور میرے لاکھ چاھنے کے باوجود بھی میرا ذہن زادیہ کی طرف بالکل بھی مائل نہیں ھو رھا تھا، اور میرے لئے بھی یہی بہتر تھا کہ جس طرف کا اب راستہ ھی بند ھوگیا ھو تو اس گلی سے اب گزرنے کا کیا فائدہ، میں نے بھی اب اپنی تقدیر کے فیصلے کو قبول کرلیا تھا، اور یہ میری تقدیر میرے حق میں ھی نکلی، کیونکہ شادی کے بعد میری بیگم کے مراسم کچھ ایسے دوستانہ ھوگئے کہ میں سب کچھ بھول گیا، اس نے میرے یہ مختصر قیام کے دوران میرا اتنا خیال رکھا کہ مجھے خود تعجب ھورھا تھا، مجھے تو لگتا تھا کہ بیگم سے برسوں سے ھی بہت ھی خوبصورت مراسم ھیں، ان چند دنوں میں اس نے میرے دل میں جگہ بنا لی تھی،!!!!!!!

    اسی طرح بہت ھی مشکل سے میں چھ مہینے ھی گزار پایا تھا کہ مزید اور مجھے یہاں رھنا مشکل ھو رھا تھا، یہاں دھران میں ان چھ مہینوں میں تقریباً ھر ھفتے میری بیگم ھر کسی کے ھاتھ جو پاکستان سے آرھا ھوتا تھا اسکے ھاتھ کچھ مزادار پکوان بنا کر ضرور بھیجتی تھیں، اور کراچی میں انکےبھائی جو تھے، وہ سارے بھیجنے کے انتظام کردیتے تھے، کیونکہ جو بھی یہاں آرھا ھوتا تھا، وہ انکے بھائی کے پاس ضرور آتا تھا کیونکہ کراچی کے آفس میں یہ آنے جانے کا محکمہ بھی انکے پاس ھی تھا، اور ساتھ ھی مجھے تازہ ترین اپنی بیگم کے خطوط بھی مل جاتے تھے، اور ان کا ھر خظ خوشبوں سے تر اور اتنے منتخب اشعار وہ لکھ کر بھیجتیں کہ دل تڑپ اٹھتا تھا، اور خط کا مضمون ایسا رومانی انداز میں ھوتا تھا کہ دل بار بار پڑھ کر بھی مچل جاتا تھا، اور اسی طرح میں بھی خطوظ کے جوابات بھی دیتا تھا!!!!!!

    فروری یا مارچ 1980 کے بہار کے موسم کا دور تھا، میں نے فوراً ھی دلبرداشتہ ھوکر ایمرجنسی کی چھٹی کے لئے درخواست دے دی اور وہ اتفاقاً منظور بھی ھوگئی، بس ٹکٹ اپنا ھی لینا تھا، مجھے تو اپنی خوشی سنبھالے نہیں سنبھل رھی تھی، بہت ھی میں بے چینی سے ایک ھفتہ گزارا کیونکہ ایک ھفتہ بعد ھی مجھے اپنے پیارے وطن میں اپنے گھر کے لئے روانہ ھونا تھا، جہاں کوئی میرا انتظار کر رھا تھا،!!!!!!!!
    ------------------------------------
    فروری یا مارچ 1980 کے بہار کے موسم کا دور تھا، میں نے فوراً ھی دلبرداشتہ ھوکر ایمرجنسی کی چھٹی کے لئے درخواست دے دی اور وہ اتفاقاً منظور بھی ھوگئی، بس ٹکٹ اپنا ھی لینا تھا، مجھے تو اپنی خوشی سنبھالے نہیں سنبھل رھی تھی، بہت ھی میں بے چینی سے ایک ھفتہ گزارا کیونکہ ایک ھفتہ بعد ھی مجھے اپنے پیارے وطن میں اپنے گھر کے لئے روانہ ھونا تھا، جہاں کوئی میرا انتظار کر رھا تھا،!!!!!!!!

    پھر چھ ماہ بعد ھی ھم گھر پہنچ گئے، ائرپورٹ پر کافی لوگ مجھے لینے آئے تھے، اس دفعہ کچھ زیادہ ھی سامان ساتھ تھا، دو ٹرالی فل بھری ھوئی، تین بیگ اور چند بڑے بڑے ڈبوں میں پیکینگ، سب میں زیادہ تر تحفے تحائف ھی تھے اور اس کے وزن کا کرایہ بھی ایک اچھی خاصی رقم دے کر آیا تھا، شادی کے بعد پہلی بار گھر جارھا تھا، اس لئے خوب دل کھول کر خریداری کی اور اس کے لئے ایک کمیٹی بھی ڈال دی تھی، پہلی کمیٹی لے کر سال بھر کا قرضہ چڑھا کر پھر پہنچے سرکار اپنے گھر کے دربار میں، جہاں بڑی واہ واہ ھوئی، سب چیزیں سب کے سامنے کھول کر رکھ دیں، سب بہنوں اور ھماری بیگم نے تمام نزدیکی رشتہ داروں کے لئے حصہ باٹی کردی، اور کچھ بہن کی شادی کےلئے بھی رکھ لیا تھا جو اسی ھفتے میں طے ھورھی تھی، اس طرح سارے بیگ بھی اور دوسرے پیکنگ کے ڈبے بھی خالی ھوگئے، اور گھر والوں کے ھر ایک حصہ میں ایک دو چیزیں ھی آئیں، جہاں جہاں ملنے گئے ساتھ کچھ لے کر بھی گئے، کیونکہ یہ شادی کے بعد پہلا ھی موقعہ تھا کہ چھٹی پر آیا تھا، اس لئے ھر ایک کے نصیب میں جو تھا وہ دے دیا،!!!!!!

    اسی چھٹی کے دوران دوسری بہن کی شادی بھی طے ھوگئی تھی، اور کچھ دن شادی کی مصروفیت میں ھی نکل گئے، اور ایک ھفتہ بچا تھا وہ میں نے زیادہ تر وقت اپنی بیگم کے ساتھ گزارنے کی کوشش کی، اس مختصر سے دنوں میں میری بیگم نے پہلے کی طرح بہت ھی خدمت کی اور بہن کی شادی میں بھی کافی مصروف رھیں، اور ساری تیاری بھی انہوں نے ھی کی، سب گھر والے بھی میری بیگم سے بہت خوش تھے کیونکہ اس بہن کی شادی کے موقعہ پر بہت ھی تمام کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور انہوں نے اس گھر کی بڑی بہو کا حق بھی ادا کر دیا، میں بھی خوش تھا اور سارے بہن بھائی اور ھمارے اماں اباجی بھی بہت ھی خوش تھے میں بھی یہی چاھتا تھا کہ ھمارا یہ گھرانا والدین کی نگرانی میں خوش و خرم رھے،!!!!

    آخر پھر وھی دن واپس جانے کا آ گیا، پھر وھی غم زدہ دلوں میں آنکھوں میں آنسو دے کر واپس ھو لئے، پھر شادی کا ایک سال بھی اسی رنج غم میں بیت گیا، شادی کی سالگرہ میں نے اپنے کمرے مین خاموشی سے بیگم کے رومانوی خطوط اور شادی کے سالگرہ کے خوبصورت کارڈ دیکھ دیکھ کر ھی منائی، پاکستان سے ھر ھفتے کوئی نہ کوئی سے آتا رھتا تھا اور ساتھ اپنے دفتر سے میرے گھر کا پارسل بھی لے آتا تھا اور گھر کے بنے ھوئے تازہ اور لذیذکھانوں کے ساتھ ساتھ خطوط بھی مل جاتے تھے، اور میں اپنے ان خطوط میں سے سب سے پہلے اپنی بیگم کا ھی خط پڑھتا تھا، دوسروں کے خطوط کے ساتھ تو واقعی کچھ زیادہ ھی نا انصافی ھوتی تھی، وہ سب سے آخیر میں ھی پڑھتا تھا، میں جب تک اپنی بیگم کا خط پڑھتا میرے دوست میرے کھانوں کے پارسل کچن میں گرم کرنے کیلئے لے جاتے، جب تک میں بیگم کا تازہ ترین خط پڑھ کر فارغ بھی ھوجاتا، اور پھر میں دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر اپنی بیگم کے تازہ ذائقے دار کھانوں میں مصروف ھوجاتا، مگر میرا خیال تو وہیں اپنی بیگم کے خیالوں میں ھی رھتا، !!!!!!!

    میرے دوست بھی اس دن کا بے چینی سے انتظار کرتے تھے جب کوئی پاکستان سے آرھا ھوتا تھا، میرے تین چار ھی خاص دوست تھے، جنہیں میری بیگم کے ھاتھ کے کھانے بہت پسند تھے اور یہ تو طے تھا کہ ھر ھفتے میں دو تیں بار کسی نہ کسی کی آمد ضرور ھوتی تھی، اور شاید کوئی ایسا بندہ ھوگا جسے میرے گھر سے پارسل نہ ملتا ھو اور آُدھر بھی میرے سالے صاحب جیسے ھی کسی دں کوئی جانے والا ھوتا فوراً ھی گھر میں خبر دے دیتے اور پھر ھماری بیگم اسی دن ھی کھانے تیار کردیتیں اور ان کے بھائی صاحب شام کو یا صبح کے وقت جو بھی فلائٹ کا ٹائم ھوتا سب سے چیزیں کھانے اور خطوظ اکھٹا کرتے اور اس آدمی تک پہنچا دیتے یا وہ خود وہ دفتر آجاتا، جس نے اس دن دھران جانا ھوتا تھا اور ساتھ ھی ٹکٹ اور پاسپورٹ بھی حوالے کرتے تھے، کیونکہ انہی کی پاسپورٹ اور ٹکٹ کی ذمہ داری بھی تھی، میرا ھی نہیں اور بھی دوسرے لوگوں کا یہ ھمارے سالے صاحب گھر گھر جاکر پیغام بھی دیتے کہ فلاں آدمی ریاض یا دھران جارھا ھے اگر کچھ ساماں یا خط بھجوانا ھو تو دفتر پہنچانا دیں، ورنہ اگر کوئی پہچانے والا نہ ھو تو یہ ھمارے سالے صاحب خود ھی گھر سے لے آتے تھے، انہوں نے بھی لوگوں کی بہت خدمت کی ھے، اور کافی دعائیں لی ھیں، میں تو آخر انکا بہنوئی تھا وہ بھی اکلوتا، اور دوست بھی تھا، میرے ساتھ تو انہوں نے بہت کچھ مہربانیاں کی، میں ان کا کس کس بات کا شکریہ ادا کروں !!!!!

    اسی سال 1980 میں میری سالانہ چھٹی بھی نزدیک ھی تھی،پھر میں نے اس موقعہ کو بھی غنیمت جانا اور جولائی یا اگست کا مہینہ تھا اور رمضان مبارک کے آخری روزے چل رھے تھے، میری چھٹی منظور بھی ھوگئی، اور میں نے اپنا پھر ایک اور سفر کی تیاری کی، کچھ اور قرض پھر بڑھ گیا اور عید الفطر سے دو دن پہلے کراچی پہنچ گیا، یہ میری خوش قسمتی بھی تھی کہ مجھے شادی کے بعد سال میں دو دفعہ گھر جانے کا موقعہ ملا تھا، میں بھی خوش اور میری بیگم بھی خوش،!!!!!
     
  14. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    سی سال 1980 میں میری سالانہ چھٹی بھی نزدیک ھی تھی،پھر میں نے اس موقعہ کو بھی غنیمت جانا اور جولائی یا اگست کا مہینہ تھا اور رمضان مبارک کے آخری روزے چل رھے تھے، میری چھٹی منظور بھی ھوگئی، اور میں نے اپنا پھر ایک اور سفر کی تیاری کی، کچھ اور قرض پھر بڑھ گیا اور عید الفطر سے دو دن پہلے کراچی پہنچ گیا، یہ میری خوش قسمتی بھی تھی کہ مجھے شادی کے بعد سال میں دو دفعہ گھر جانے کا موقعہ ملا تھا، میں بھی خوش اور میری بیگم بھی خوش،!!!!!

    اس دفعہ میں نے کچھ زیادہ ساماں نہیں خریدا تھا، بس ایک ھی سوٹ کیس لے کر گیا تھا، جس میں صرف بچوں کی چاکلیٹ اور سویٹ وغیرہ اور کچھ اپنی بیگم اور بہن بھائیوں کے لئے چھوٹی موٹی چیزیں تھیں، اس دفعہ بھی تقریباً دیڑھ مہینے تک چھٹیاں گزاری ایک فائدہ یہ ضرور ھوا کہ عید الفطر گھر پر سب کے ساتھ منائی، پچھلی دفعہ جب چھٹی آیا تھا تو تقریباً تمام رشتہ داروں اور خاص خاص جان پہچان کے لوگوں کے لئے کافی سامان لے کر گیا تھا، اور کوشش کی تھی کہ سب کو کچھ نہ کچھ مل ھی چائے، مگر بعد میں مجھے یہ سن کر بہت ھی افسوس ھوا کہ زیادہ تر لوگوں کو ان تحفوں سے کوئی خوشی نہیں ھوئی، بس ھر ایک کے طعنے ھی سننے کو ملے کہ اس کو یہ دیا تو ھمیں یہ دیا، فلانی چیز تو یہاں بھی ملتی ھے، اس کی کیا ضرورت تھی، کسی نے کہا کہ ھمارے ایک بچے کو دیا تو دوسرے کو نہیں ‌دیا، اتنی ساری شکایتیں سن کر مجھے بہت ھی افسوس ھوا، میں نے جو چیزیں خریدیں وہ تو ایک طرف لیکن اس سامان کا زائد کرایہ بھی ادا کیا تھا، اسی لئے اس دفعہ میں کسی کیلئے کچھ نہیں لے گیا، علاؤہ صرف اپنے گھر والوں کےلئے،!!!!!!!

    تقریباً سارے لوگ ائرپورٹ پر آئے تھے، کچھ تو حیران ھی رہ گئے کہ میں اس دفعہ تو بس ایک ھی چھوٹا سا سوٹ کیس لے کر آیا ھوں، کچھ تو شاید انتظار میں تھے کہ شاید پیچھے اور کوئی ٹرالیاں آرھی ھونگی، اور جب میں ایک سوٹ کیس لے کر سب کے ساتھ پارکنگ کی طرف چلا تو کچھ لوگوں کو بہت مایوسی ھوئی تھی، مگر پھر بھی میری بیگم نے اپنی تمام چیزیں جو میں بڑے شوق سے ان کے لئے لایا تھا، وہ بھی بانٹ دیں، اور میرے اعتراض کرنے پر مجھ سے کہا کہ مجھے کچھ نہیں چاھئے آپ آگئے میرے لئے بہت ھے، اور ساتھ ھی میرے سسرال والوں نے کبھی بھی کسی قسم کی شکایت کا موقعہ نہیں دیا، بلکہ انہوں نے ھمیں بہت کچھ دیا اور اب تک ان کے سارے بہن بھائی ھمارا بہت خیال رکھتے ھیں، اس کے علاوہ وہ سب میری والدہ اور میرے بہن بھائیوں کا بھی ھر طرح سے خیال رکھنے کے ساتھ ان کی ھر ضرورت کو بھی مد نظر رکھتے ھیں، کیونکہ میں یہاں پردیس میں ھوں،!!!!

    میری بیگم کے چھ بھائی اور دو چھوٹی بہنیں ھیں اور ماشااللٌہ سب ھی شادی شدہ ھیں، میرے ساس سسر کا تو انتقال ھوچکا ھے وہ دونوں بھی میرے ساتھ بہت ھی اچھا سلوک روا رکھتے تھے، ان دونوں نے بھی خاص طور سے مجھے اپنے بچوں سے بھی زیادہ پیار اور خلوص سے نوازا، اللٌہ تعالیٰ ان دونوں کو جنت الفردوس میں جگہ دے، آمین اور مجھے اس بات کا بھی فخر حاصل ھے کہ انہوں نے بمعہ انکی چھوٹی بیٹی کے ھم سب بیوی اور بچوں کے ساتھ مل کر حج عمرہ اور زیارت نبوی:saw: کی سعادت بھی حاصل کی، وہ دونوں میرے بچوں سے بہت پیار کرتے تھے آخر کو وہ میرے بچوں کے نانا نانی تھے اور میرے بچے بھی ان پر جان چھڑکتے تھے، اور بچوں کے چھ ماموں بھی ھیں، اس وقت دو دبئی میں ھیں اور چار پاکستان میں ھیں اور سب شادی شدہ اور بچوں والے ھیں اور اپنے اپنے گھروں میں ماشااللہ بہت خوش ھیں!!!!

    مین نے ان تمام بہن بھائیوں میں ایک خاص بات دیکھی کہ وہ سب الگ الگ لیکن ھمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ بہت پیار سے رھتے ھیں، ھر تقریب میں ‌سب ساتھ اکھٹا ھوتے ھیں اور سب مل جل کر کبھی کبھی گھومنے یا پکنک منانے بھی جاتے ھیں، کبھی کسی نہ کسی کے گھر میں اکھٹا ھوکر اپنے اپنے گھروں سے کچھ نہ کچھ پکا کر لاتے ھیں اور اکھٹے بیٹھ کر انجؤائے بھی کرتے ھیں، کوئی اگر کسی بات سے ناراض بھی ھو جاتا ھے تو سب ملکر اسے منانے بھی چلے جاتے ھیں، اور سب بہن بھائی ایک دوستوں کی طرح مذاق بھی کرتے رھتے ھیں اور جب اکھٹا ھوتے ھیں تو کافی لظف آتا ھے، اور جب ھم لوگ یہاں سے پاکستان جاتے ھیں تو یہ سب ملکر ھمارے اعزاز میں خوب ھلہ گلہ اور خوب رونقیں لگاتے ھیں اور سب خاص خاص پکوان سے ھماری خوب خاطر تواضع بھی کرتے ھیں، اور اسی ظرح ھمارے گھر میں بھی سب بہنیں اور بھائی اکھٹا ھوتے ھیں اور کافی رونق رھتی ھے والدہ اور بہنیں بھی خوب خاطر تواضع کرتی ھیں، اور بھائی اور انکی فیملیاں بھی شرکت کرتی ھیں، ویسے بھی ھمارے جانے کے شیڈول کے مطابق ھی سب ملکر ھی کوئی نہ کوئی شادی بیاہ کی تقریب،کہیں سالگرہ تو کہیں بچوں کی رسم بسم اللٌہ یا پھر کوئی عقیقہ کی ھی تقریب منعقد کر لیتے ھیں، تاکہ ھم بھی ان خوشیوں میں شریک ھوسکیں اور باقی جگہوں سے بھی سب رشتہ دار پہنچ جاتے ھیں، جس سے رونقوں میں چار چاند لگ جاتے ھیں، اور سب سے ملاقات کا ایک بہانہ بھی ھو جاتا ھے،!!!!!!

    مگر ان تمام تقریبات سے ھم دونوں میاں بیوی بعض اوقات بہت تھک بھی جاتے ھیں، لیکن سب لوگ اپنی محبتوں سے ھمارے آنے کے وقت ھی تمام تیاریاں کرتے ھیں، تو ان کی خلوص کی خاطر ھمیں ھر تقریب میں شرکت کرنا لازم ھو جاتا ھے، اپنی چھٹیوں میں ھم دونوں گھر پر کم اور دوسرے گھروں میں زیادہ ھی مدعو رھتے ھیں، اور رات اگر زیادہ ھو جاتی تو وہیں پر ٹھرنا بھی پڑ جاتا ھے، اور اسی طرح میری چھٹیاں بھی بہت جلد ھی ختم ھو جاتیں اور ھماری بیگم کو مجھ سے شکوہ ھی رھتا لیکن اس دفعہ یہ وعدہ کیا تھا کہ انشااللٌہ آپ سعودی عرب ضرور آئیں گی، اور پھر چھٹیاں بھی ختم ھوگئیں اور میں یہاں دھران واپس آگیا، اس دفعہ بھی واپس آنے کا کافی دکھ ھوا، اور سب کی بہت یاد آئی اور بیگم کی تو خاص طور سے کہ بس چھٹی گئے تو مہمانوں کی طرح ھی خاطریں ھوئیں اور پھر چھٹیاں ختم،!!! اور پھر میں نے یہاں آکر اپنی بیگم کو بلانے کے لئے ویزے کے انتظامات شروع کردئیے، کیونکہ اس طرح آنا جانا اپنی بیگم کے ساتھ زیادتی ھی تھی،!!!!!!
    ------------------------------------------

    مگر ان تمام تقریبات سے ھم دونوں میاں بیوی بعض اوقات بہت تھک بھی جاتے ھیں، لیکن سب لوگ اپنی محبتوں سے ھمارے آنے کے وقت ھی تمام تیاریاں کرتے ھیں، تو ان کی خلوص کی خاطر ھمیں ھر تقریب میں شرکت کرنا لازم ھو جاتا ھے، اپنی چھٹیوں میں ھم دونوں گھر پر کم اور دوسرے گھروں میں زیادہ ھی مدعو رھتے ھیں، اور رات اگر زیادہ ھو جاتی تو وہیں پر ٹھرنا بھی پڑ جاتا ھے، اور اسی طرح میری چھٹیاں بھی بہت جلد ھی ختم ھو جاتیں اور ھماری بیگم کو مجھ سے شکوہ ھی رھتا لیکن اس دفعہ یہ وعدہ کیا تھا کہ انشااللٌہ آپ سعودی عرب ضرور آئیں گی، اور پھر چھٹیاں بھی ختم ھوگئیں اور میں یہاں دھران واپس آگیا، اس دفعہ بھی واپس آنے کا کافی دکھ ھوا، اور سب کی بہت یاد آئی اور بیگم کی تو خاص طور سے کہ بس چھٹی گئے تو مہمانوں کی طرح ھی خاطریں ھوئیں اور پھر چھٹیاں ختم،!!! اور پھر میں نے یہاں آکر اپنی بیگم کو بلانے کے لئے ویزے کے انتظامات شروع کردئیے، کیونکہ اس طرح آنا جانا اپنی بیگم کے ساتھ زیادتی ھی تھی،!!!!!!

    گھر پر تو ھمیشہ ھر مہینے باقائدگی سے اپنی والدہ کے نام پر ھی بنک ڈرافٹ بنا کر بھیجتا رھا تھا، مگر سال میں دو دفعہ چھٹی جانے کی وجہ سے دوکمیٹیاں ڈالنی پڑیں، اور آدھی تنخواہ تو اب کمیٹیوں میں ھی چلی جاتی تھی، اور اب اُوپر سے یگم کو بلانے کا بھی مسئلہ تھا، مکان کا تو کوئی پرابلم نہیں تھا، کمپنی کی فیملی رھائش موجود تھی، اور نہ ھی کوئی ویزے کی قیمت دینی پڑتی، لیکن ٹکٹ تو خریدنا ھی پڑتا، اس طرح تو اور مزید قرضہ پر قرضہ چڑھتا جائے گا، اور بیگم کے آنے کے بعد تو اور مزید اخراجات بڑھ جائیں گے، کیونکہ خرچہ بھی تو دو جگہ تقسیم ھوجائے گا، مگر مجھے اسکی اس وقت کوئی پروا نہیں تھی، کیونکہ دل و دماغ پر تو بیگم ھی چھائی ھوئی تھیں !!!!!

    میں نے بیگم کے لئے وزٹ ویزے کے لئے کمپنی کو درخواست دے دی تھی، اور اس کی منظوری بھی ھوگئی، اور ویسے بھی مشکل نہیں تھی، کیونکہ ھمارے آفس کے مرکزی دفتر ریاض میں ھمارے سسر صاحب جو موجود تھے، ویزے کے اجراء میں کچھ دو تین مہینے لگ گئے تھے، کچھ دستاویزات کی تصدیق مکمل نہیں تھی اور پھر نکاح نامہ کا عربی میں ترجمہ اور اس کی تصدیق میں کچھ وقت اور لگ گیا اور مجھے اتنی معلومات بھی نہیں تھیں، آخر کار نئے سال 1981 کے شروع ھوتے ھی موسم بہار کے شروع ھونے سے پہلے ھی سردیوں کے اختتام سے پہلے ھی ویزا مل گیا، اور میں تو خوشی سے دیوانہ ھی ھوا جارھا تھا،!!!!!!!

    فوراً ھی یہ خوشخبری پاکستان بمعہ ویزے کی رسید کے پہنچا دی، شادی کو ڈیڑھ سال بھی ھوچکا تھا، اور لوگوں کو ایک اور پریشانی لاحق ھوچکی تھی کہ اب تک کوئی ننھا مہمان کیوں نہیں آیا، جس کو دیکھو وہی پوچھتا چلا آتا تھا کہ بھائی سید کیا ھوا، ابھی تک کوئی خوشخبری نہیں آئی، کوئی یہ کہتا ھوا آتا کہ یار کوئی مٹھائی وغیرہ کب کھلاؤ گے، میں تو یہاں تنگ تھا اور اُدھر ھماری بیگم کے ساتھ بھی کچھ ایسی ھی صورت حال تھی، وہ ھی سب کو جوابات دے دے کر تنگ آچکی تھیں، جب تک اللٌہ کا حکم نہ ھو تو کیا کرسکتے ھیں، لوگوں کو تو بہانہ ملنا چاھئے، تنگ کرنے کیلئے،!!!!!

    بہرحال ادھر ھمارے بڑے سالے صاحب کو ویزے کی رسید پہنچ چکی تھی، انہوں نے سارے انتظامات کئے، ایک تو ان کی بہن کا معاملہ تھا، اور ویسے بھی دفتر میں ھماری ھی کمپنی کے تمام لوگوں کے لئے سعودی عرب آنے جانے والوں کے پاسپورٹ ویزے اور ٹکٹ کی ذمہ داری بھی انہی کے سر تھی، ادھر سعودی عرب کے سنٹرل آفس ریاض میں ھمارے سسر صاحب تھے اور کراچی کے آفس میں ھمارے سالار آعظم تھے، فکر کس بات کی تھی، فوراً ھی بیگم کے بھیا نے ویزے اور ٹکٹ کا بندوبست کیا، اور ھماری بیگم کو الرٹ کردیا، کہ تیار رھیں کبھی بھی سعودی عرب جانا ھوسکتا ھے، ھماری بیگم بھی خوش اور ھماری بھی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رھا، اب تو ایک ایک دن گزارنا مشکل ھورھا تھا،!!!!!

    آخر وہ دن بھی آھی گیا، غالباً مارچ 1981 کے شروع کے دن تھے، اور مجھے کراچی کے دفتر سے ایک ٹیلکس بذریعہ ریاض آفس کے ملا کہ آپکی زوجہ محترمہ آج رات کو دھران ائرپورٹ پہنچ رھی ھیں، ھماری کمپنی کے فیملی کمپاونڈ میں ایک مکان کا پہلے ھی بندوبست کر چکا تھا، اور صفائی وغیرہ بھی کرالی تھی، وھاں پہلے ھی سے کمپنی کی طرف سے تمام ضرورت کے استعمال کی سہولتیں موجود تھیں، گیس کا چولہا، ریفریجریٹر، ائرکنڈیشنڈ اور تمام فرنیچر بھی موجود تھا، بس کچھ ضروری برتن، کراکری وغیرہ اور کھانے پکانے کا سامان، روزمرہ کی استعمال کی چیزیں، ساتھ کچھ سودا وغیرہ جو بھی سمجھ میں آیا، پہلے ھی سے لے کر رکھ لیا تھا، لیکن آج کا دن تو ایسا لگتا تھا کہ وقت رک گیا تھا، سب لوگ مبارکبادیں بھی دے رھے تھے اور میرے دوست چھیڑ بھی رھے تھے، کہ بھئی اب کہاں نظر آؤ گے،!!!!!!

    آج کے دن میں دفتر میں بیٹھا بس بار بار وقت کو ھی دیکھ رھا تھا، کام میں بالکل دل ھی نہیں لگ رھا تھا، ادھر ڈرائیور کو بھی کہہ دیا تھا، اور اسے بار بار یاد بھی دلارھا تھا وہ بھی میرا بہت خیال رکھتے تھے، انہوں نے کہا بھی کوئی فکر نہ کرو، میں رات کو آپکو وقت سے پہلے ھی لے جاونگا، خیر بڑی مشکل سے شام ھوگئی، اور اپنے آفس کام وغیرہ سمیٹا، سیدھا نئے گھر میں گیا اور اسکی حالت کا تسلٌی بخش جائزہ لیا اور ھر ایک جگہ کی سیٹنگ وغیرہ دیکھی، جب اظمنان ھوگیا تو باھر نکلا، فلائٹ کے آنے کا ٹائم بھی نزدیک ھی تھا اور وہ ڈرائیور صاحب بھی کار کو چمکا کر لے آئے، اس وقت دھران ائرپورٹ، یہاں کے ائر فورس بیس میں ھی تھا اور ھماری کمپنی ائر فورس کے بیس کا ھی کام بھی کررھی تھی، اور ھمارے پاس وہاں کے اجازت نامہ کے شناختی کارڈ بھی تھے جو ھم دونوں نے خاص ظور پر اپنی سامنے کی جیبوں پر لگائے ھوئے تھے جس سے ائرپورٹ کے اندر جا سکتے تھے، رھائشی کمپاؤنڈ بھی ائرپورٹ کے نزدیک ھی تھا!!!!!!

    دھران ائرپورٹ پہنچے تو ابھی فلائٹ آنے میں ابھی بھی کچھ وقت باقی تھا آج کا دن ایسا لگتا تھا کہ ایک سال کا دن ھے جو گزرتا ھی نہیں تھا، بہرحال فلائٹ کے زمین پر لینڈ کرنے کا وقت ھو گیا تھا، جیسے ھی جہاز نے رن وے کو چھوا اِدھر میرے دل نے دھڑکنا شروع کردیا، میری بیگم انکے بھائی کے دوست کی فیملی کے ساتھ ھی آرھی تھیں، اس لئے مجھے کوئی اتنی زیادہ فکر نہیں تھی، مگر پھر بھی انکے لئے تو جہاز کا یہ پہلا پہلا سفر تھا، فلائٹ کے آنے کے ایک گھنٹہ بعد ھی اپنی بیگم کو دیکھا تو وہ انہی فیملی کے ساتھ خراماں خراماں باھر آرھی تھیں، اور مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرھا تھا لگتا تھا کہ کہ کوئی ایک خوبصورت خواب دیکھ رھا ھوں،!!!!!!!!!
     
  15. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    دھران ائرپورٹ پہنچے تو ابھی فلائٹ آنے میں ابھی بھی کچھ وقت باقی تھا آج کا دن ایسا لگتا تھا کہ ایک سال کا دن ھے جو گزرتا ھی نہیں تھا، بہرحال فلائٹ کے زمین پر لینڈ کرنے کا وقت ھو گیا تھا، جیسے ھی جہاز نے رن وے کو چھوا اِدھر میرے دل نے دھڑکنا شروع کردیا، میری بیگم انکے بھائی کے دوست کی فیملی کے ساتھ ھی آرھی تھیں، اس لئے مجھے کوئی اتنی زیادہ فکر نہیں تھی، مگر پھر بھی انکے لئے تو جہاز کا یہ پہلا پہلا سفر تھا، فلائٹ کے آنے کے ایک گھنٹہ بعد ھی اپنی بیگم کو دیکھا تو وہ انہی فیملی کے ساتھ خراماں خراماں باھر آرھی تھیں، اور مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرھا تھا لگتا تھا کہ کہ کوئی ایک خوبصورت خواب دیکھ رھا ھوں،!!!!!!!!!

    وہ ھماری دلہن، اپنے بڑے بھائی کے دوست کی فیملی کے ساتھ ھی چلی آرھی تھیں، ماشااللٌہ ساڑی پہنے اُوپر سے سنہرے جال سے بنی ھوئی شال اوڑھے واقعی ایک نئی دلہن کی طرح سجی سجائی چلی آرھی تھیں، انہیں دیکھ کر تو مجھے یہ یقین ھی نہیں ھورھا تھا کہ آج اس ظرح میری دلہن اس عرض مقدسہ پر قدم رکھ رھی تھیں، ساتھ ھی دور سے ھی وہ مسکراتی ھوئیں اپنی ھمسفر کو اشارے سے شاید میرا تعارف بھی کرارھی تھیں، جیسے ھی وہ نزدیک پہنچی، تو سلام دعاء کے بعد انکے ساتھ آنے والی فیملی کا میں نے بہت شکریہ ادا کیا، اور ساتھ آنے والی محترمہ نے جواباً یہ کہا کہ ماشااللٌہ آپ کی بیگم تو لاکھوں میں ایک ھیں، آپ لوگ ھمارے گھر ضرور تشریف لائے گا ھم دمام میں رھتے ھیں، اور میں نے بھی ھاں میں ھاں ملادی کہ ضرور آئیں گے پھر ان سے اجازت لے کر اپنی کار کی طرف بڑھ گئے آگے آگے میرے دوست جو ڈرائیور بھی تھے، سوٹ کیس پکڑے ھوئے آگے آگے چل رھے تھے، اور میں بیگم کے ساتھ خوش گپیاں کرتے ھوئے انکے پیچھے پیچھے پارکنگ کی طرف چل رھا تھا،!!!!!!

    کار میں بس باتیں کرتے ھوئے پتہ ھہی نہیں چلا کہ کب گھر آگیا فوراً ھی چونکتے ھوئے کار کا دروازہ کھولا اور پھر سوٹ کیس اٹھاتے ھوئے اپنے دوست کا شکریہ ادا کیا، کاش میرے پاس بھی ایک کار ھوتی اور ساتھ لائسنس بھی ھوتا، مگر میں نے آج تک موٹر سائیکل کے سوا اور کوئی گاڑی نہیں چلائی، اور نہ ھی اس کے بارے میں کبھی سوچا، بہرحال بیگم نے گھر کا پہلے باھر جو ایک چھوٹا سا خوبصورت لآن تھا اس کابخوبی جائزہ لیا اور پھر گھر میں داخل ھوکر ھر چیز کو قرینے اور سجاوٹ کے ساتھ دیکھ کر بہت ھی زیادہ خوش ھوئیں، اور میں بھی کچھ ذرا فخر اور رعب سے اپنی گردن کو اکڑا کر انہیں سب کچھ دیکھا رھا تھا جبکہ یہ مکاں ھمارے استاد محترم کے نام پر کمپنی نے دیا ھوا تھا، اور اس کا ایک حصہ انہوں نے مجھے دے دیا تھا، وہ اس وقت وہاں کے چیف اکاونٹنٹ تھے اور میں اکاونٹس ڈپارٹمنٹ میں سینئیر اکاونٹنٹ کی حیثیت سے ان کا اسسٹنٹ تھا، اور سارے اکاونٹس سیکشن کی ذمہ داری میرے ھی سپرد کی گئی تھی، اور اتفاق سے وہ میرے والد اور میرے سسر صاحب کے دوستوں میں سے بھی تھے اور والد صاحب اور ھمارے سسر جی نے ان کے ساتھ پہلے ایک ساتھ مختلف اوقات میں کام بھی کیا تھا، اور اسی لئے بھی میرا بہت خیال رکھتے تھے، اور اپنے بچوں سے زیادہ مجھے چاھتے تھے، !!!!!!

    اور اس کے علاؤہ بھی پہلے اسی کمپنی میں جو میرے سینئر اساتذہ تھے وہ سب بھی میرے والد صاحب اور میرے سسر جی کے ساتھیوں میں سے تھے، اور یہی وجہ تھی کہ ھر جگہ مجھے اپنے والد کی وجہ ھی سے کافی لوگوں نے عزت دی اور سب ان کے ساتھی مجھے اپنے بچوں کی طرح ھی پیش آتے تھے، ان ھی تعلقات کی وجہ سے مجھے کافی فائدہ ھوا، جہاں بھی میرا تبادلہ ھوا مجھے میرے والد صاحب اور سسر صاحب کی وجہ سے ھی بہت زیادہ عزت ملی کیونکہ دونوں نے شروع سے ھی ان سب کے ساتھ بہت اچھا وقت گزارا تھا اورسب لوگ ان دونوں کی بہت عزت کرتے تھے!!!!!!!
    --------------------------------------------

    اور اس کے علاؤہ بھی پہلے اسی کمپنی میں جو میرے سینئر اساتذہ تھے وہ سب بھی میرے والد صاحب اور میرے سسر جی کے ساتھیوں میں سے تھے، اور یہی وجہ تھی کہ ھر جگہ مجھے اپنے والد کی وجہ ھی سے کافی لوگوں نے عزت دی اور سب ان کے ساتھی مجھے اپنے بچوں کی طرح ھی پیش آتے تھے، ان ھی تعلقات کی وجہ سے مجھے کافی فائدہ ھوا، جہاں بھی میرا تبادلہ ھوا مجھے میرے والد صاحب اور سسر صاحب کی وجہ سے ھی بہت زیادہ عزت ملی کیونکہ دونوں نے شروع سے ھی ان سب کے ساتھ بہت اچھا وقت گزارا تھا اورسب لوگ ان دونوں کی بہت عزت کرتے تھے!!!!!!!

    ھماری بیگم بھی زندگی میں پہلی بار پاکستان سے باھر نکلی تھیں، اور وہ بھی بہت ھی زیادہ خوش تھیں، انکی والدہ تو ان سے بھی زیادہ خوش اور مجھے ھمیشہ بہت ھی دعائیں دیتی رھتی تھیں، اور گھر بھی ماشااللٌہ بہت اچھا تھا ھر کمرے میں ائرکنڈیشنڈ لگے ھوئے تھے، جوکہ پاکستان میں ھم سوچ بھی نہیں سکتے تھے، لیکن یہاں شدید گرمی کے باعث اسکے بغیر گزارا بھی نہیں تھا، اور ُپٹرول سستا ھونے کی وجہ سے بجلی کے نرخ بھی بہت کم تھے، کیونکہ زیادہ تر یہاں بجلی کے جنریٹر وغیرہ بھی ڈیزل سے چلتے تھے اور ڈیزل تو پٹرول کے مقابلے میں اور بھی بہت سستا تھا،!!!!!!

    گھر تو پہلے ھی سے مکمل طرح سے فرنشڈ تھا، بس کچھ ذرا اُوپر اُوپر سے تھوڑا بہت اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ٹپ ٹاپ کرلیا تھا، کچھ دو چار گلدستے ڈائیننگ ٹیبل اور ڈرائینگ روم میں سجا دیئے تھے، اور ایک دو اچھی پینٹنگ بھی بازار سے لاکر دیواروں پر ٹانگ دی تھیں، اور برتنوں کو کیبنٹ میں قرینے سے صاف کرکے رکھ دیئے تھے ساتھ ھی ریفریجریٹر میں تازہ پھل، سبزیاں، چکن اور مٹن قیمہ وغیرہ دھو دھا کر بھر دیئے، اس کے علاؤہ جو جو سمجھ میں آیا مصالے جات اور گھر میں استعمال ھونے والی چیزیں بھی لے آیا تھا، اور یہ سب کچن میں اپنی اپنی جگہ پر رکھ دی تھیں ، یہ تو ایک ہفتہ پہلے سے ھی تیاری کررھا تھا، کچھ نہ کچھ روزانہ ھی لے آتا تھا بس سبزی، پھل، گوشت اور تازہ پکانے کی چیزیں تو آج ھی لے آیا تھا، یہی چیزیں ھماری بیگم دیکھ دیکھ کر خوش ھو رھی تھیں، کہ مجھ میں یہ گھر گرھستی کا قرینہ کب سے پیدا ھو گیا، !!!!!!

    بیگم کے آنے کے بعد پہلا ھفتہ تو بہت ھی مصروف ترین گزرا اور اڑوس پڑوس میں جو ھماری کمپنی میں کام کرنے والے افسران کی فیملیز رھتی تھیں، ان کے یہاں بھی تقریبآً ھر روز کسی نہ کسی کے گھر دعوتوں میں ھی رھے، اس کے علاؤہ ھر شام کو انہیں دھران کے آس پاس نزدیکی شہر الخبر اور دمام کی سیر کرائی اور جان پہچاں کی جو ان شہروں میں رھتی تھیں ان فیملیز نے بھی ھم دونوں کی دعوتیں کیں، اور اس ظرح سے پہلا ھفتہ تو بہت ھی ملنے ملانے اور گھومنے پھرنے میں لگ گیا، دوسرے ھفتے کیلئے عمرہ اور روضہ مبارک :saw: کی زیارت کیلئے میں نے پہلے سے ھوئی جہاز کی سیٹیں بک کرادی تھیں، دھران سے طائف، ظائف سے مدینہ، مدینہ سے واپسی ریاض جہاں ھمارے سسر صاحب اور ھمارے ماموں سسر بھی تھے، ریاض سے پھر واپسی کیلئے دھران کی سیٹیں اسی ترتیب سے ھی بک کرائیں تھی، اور ایک ھفتہ کی چھٹی بھی لے لی تھی اور سفر کا شیڈول بھی اسی کے مطابق تھا، !!!!!!!

    جمعہ کادن تھا، ھم دھران سے بذریعہ فلائٹ طائف پہنچے وھاں باھر نکلے تو ھماری کمپنی کا ڈرائیور موجود تھا، وھاں پر ھمارے پہنچنے کی اطلاع جانے سے پہلے ھی میں دے چکا تھا، اس بات کی ھمیں بہت ھی سہولت تھی کہ طائف میں بھی ھماری کمپنی کا ایک پروجیکٹ چل رھا تھا اور وھاں کے پروجیکٹ ڈائریکٹر نے خاص طور سے تمام کمپنی کے ملازمین کے لئے عمرہ اور حج کی سہولت کی خاطر کئی گیسٹ ھاؤس اپنے ھاوسنگ کمپاونڈ میں بنائے ھوئے تھے اور ھر آنے جانے والوں کی وہاں پر کافی خاطر مدارات بھی ایک ھوٹل کی طرح بغیر کسی اجرت کے فراھم کیا کرتے تھے، کتنی بڑی سعادت اور ثواب حاصل کرتے تھے، سبحان اللٌہ، !!!! ھمارے لئے بھی ایک گیسٹ ہاؤس کھول دیا گیا تھا، ڈرائیور نے ھمیں چابی دی، اور کہا کہ آپ لوگ کھانا وغیرہ سے فارغ ھو کر عمرہ کیلئے احرام کی تیاری یہیں سے کرلیں، پھر مجھے بلالیں تاکہ آپ دونوں کو میں مکہ مکرمہ لے جاؤں گا، کیونکہ مجھے ھی آپ دونوں کو عمرہ کرانے کی ذمہ داری پر معمور کیا گیا ھے، اور مجھے خوشی بھی ھوگی کہ میں آپ دونوں کو عمرہ کراؤں کیونکہ آپ دونوں کے والد صاحبان میرے اچھے دوست بھی ھیں !!!! سبحان اللٌہ یہ اللٌہ کی شان اور کرم ھی رھا اور اسکے حبیب :saw: کے صدقہ ھر جگہ اللٌہ تعالیٰ نے ھمیں ھر سہولت عطا فرمائی، جس کا کہ ھم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے،!!!!!!

    میں تو پہلے بھی اسی طرح حج اور عمرہ کی سعادت حاصل کر چکا تھا اور یہ میرا اپنی بیگم کے ساتھ یہ پہلا اتفاق تھا، احرام کی تیاری کے بعد وہاں کی مسجد میں اس وقت شاید عصر کی نماز پڑھی اور دو رکعت نفل پڑھ کر عمرہ کی نیٌت کی، اور فوراً ھی عمرہ کیلئے تیار ھوکر گاڑی میں بیٹھ گئے جو گاڑی چلارھے تھے وہ بھی احرام کی حالت میں تھے، بیگم پیچھے بیٹھی ھوئی ذکر الٰہی میں مصروف تھیں اور میں آگے بیٹھا ھوا تھا، وھاں سے کچھ ھی دیر میں ھم مکٌہ مکرمہ پہنچ گئے اور راستہ بھر تلبیح پڑھتے رھے، جیسے ھی کعبۃ اللٌہ کے میناروں کو بیگم نے دیکھا تو برداشت نہ کر سکیں اور خوب رونے لگیں، میں نے بھی جب پہلی مرتبہ ان میناروں کو دیکھا تھا، تو خود بخود آنکھوں سے آنسو جاری ھوگئے تھے، ایک اللٌہ تعالیٰ کے جاہ و جلال کا منظر دکھائی دیتا تھا اور ایک الگ سی ھی بدن میں ایک اللہ تعالیٰ کا ایک ڈر خوف سے رقعت کی کیفیت طاری ھوجاتی تھی،!!! سبحان اللۃ،!!!!!

    اور پھر جیسے ھی ھم دونوں کعبۃاللٌہ کے اندر پہنچے تو کعبہ کو غلاف کعبہ میں دیکھ کر روح تڑپ سی گئی، آنکھوں سے آنسو رکنے کا نام ھی نہیں لیتے تھے، دو نفل ادا کئے اور پھر ان صاحب کے پیچھے پیچھے وہ جو دعائیں پڑھ رھے تھے، ھم بھی ساتھ ساتھ دھراتے ھوئے خانہءکعبہ کا طواف کررھے تھے اور طواف کے بعد مقام ابراھیم کے نزدیک ھی دو دو نفل ادا کئے اور پھر وہ صاحب ھمیں آب زم زم کے پاس لے گئے وھاں آب زم زم پیا اور پھے سعی کرنے کیلئے صفا مروہ کی طرف گئے اور سعی سے فارغ ھوکر ھم نے بال ترشوائے اور پھر نفل ادا کئے اس سے پہلے عمرہ کے دوران ھی مغرب کی نماز ادا کی عمرے کے مکمل ھونے کے بعد ھی عشاء کا وقت ھو چلا تھا، عشاء کی نماز پڑھ کر ((((ھم نے کچھ مشروبات نوش فرمائے)))) ھمیں ان صاحب نے کہا جو ھمیں لے کر آئے تھے کہا کہ کیا آپ لوگ کچھ ٹھنڈے مشروبات نوش فرمائیں گے،؟؟؟، کھانا دیر سے ھی کھایا تھا اس لئے کچھ زیادہ بھوک نہیں تھی اور پھر ھماری رات کے کھانے کی دعوت بھی طائف میں ھی تھی، تو اس لئے ان کی بات سے انکار کرنا ھم نے مناسب نہیں سمجھا،!!!!!!!
    -------------------------------------

    اور پھر جیسے ھی ھم دونوں کعبۃاللٌہ کے اندر پہنچے تو کعبہ کو غلاف کعبہ میں دیکھ کر روح تڑپ سی گئی، آنکھوں سے آنسو رکنے کا نام ھی نہیں لیتے تھے، دو نفل ادا کئے اور پھر ان صاحب کے پیچھے پیچھے وہ جو دعائیں پڑھ رھے تھے، ھم بھی ساتھ ساتھ دھراتے ھوئے خانہءکعبہ کا طواف کررھے تھے اور طواف کے بعد مقام ابراھیم کے نزدیک ھی دو دو نفل ادا کئے اور پھر وہ صاحب ھمیں آب زم زم کے پاس لے گئے وھاں آب زم زم پیا اور پھے سعی کرنے کیلئے صفا مروہ کی طرف گئے اور سعی سے فارغ ھوکر ھم نے بال ترشوائے اور پھر نفل ادا کئے اس سے پہلے عمرہ کے دوران ھی مغرب کی نماز ادا کی عمرے کے مکمل ھونے کے بعد ھی عشاء کا وقت ھو چلا تھا، عشاء کی نماز پڑھ کر ھمیں ان صاحب نے کہا جو ھمیں لے کر آئے تھے کہا کہ کیا آپ لوگ کچھ ٹھنڈے مشروبات نوش فرمائیں گے،؟؟؟، کھانا دیر سے ھی کھایا تھا اس لئے کچھ زیادہ بھوک نہیں تھی اور پھر ھماری رات کے کھانے کی دعوت بھی طائف میں ھی تھی، تو اس لئے ان کی بات سے انکار کرنا ھم نے مناسب نہیں سمجھا،!!!!!!!

    مکہ سے عمرہ کی سعادت کے بعد ھم واپس طائف کے لئے روانہ ھوئے، دل تو چاھتا تھا کہ بس خانہءکعبہ سامنے بیٹھے رھیں اپنے رب کی حمد و ثنا کرتے رھیں، سبحان اللٌہ، کیا شان ھے،!!!!

    وہان سے سیدھا ظائف میں اپنی ھی کمپنی کے پروجیکٹ کے اسٹاف ھاوسنگ کمپاونڈ پہنچ کر اپنے گیسٹ ھاؤس میں احرام بدلا اور کچھ تازہ دم ھوئے، رات کے کھانے کا اچھا انتظام تھا، اس سے فارغ ھوکر رات بھر آرام کیا، اور پھر صبح ھی ھماری فلائٹ مدینہ منورہ کے لئے تھی، سب دوستوں کا شکریہ ادا کرتے ھوئے وھاں سے فوراً ناشتے سے فارغ ھو کر مقامی ائرپورٹ پہنچے، اور جو صاحب ھمیں رخصت کرنے آئے تھے ان کا شکریہ ادا کیا اور ائرپورٹ کی بلڈنگ میں داخل ھوگئے، فلائٹ بالکل تیار تھی، سیدھے وھیں سے ساماں کاونٹر پر حوالے کیا، وھاں سے دو بورڈنگ پاس حاصل کئیے لاونج میں سے ھوتے ھوئے بس میں جا بیٹھے، وہ ھمیں جہاز کے نذدیک لے گئی، سیڑھی پر چڑھتے ھوئے جہاز کے اندر داخل ھوگئے، جیسے ھی اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھے تو دیکھا کہ میری بیگم کے آنکھوں میں آنسو تھے، میں نے وجہ پوچھی تو جواب ملا کہ“ میں اپنی خوش قسمتی پر جتنا ناز کروں کم ھے، کہ آللہ نے مجھے یہ دن دکھایا کہ میں آپ کے ساتھ عمراہ کبھی کیا اور اب مدینہ شریف کی زیارت کیلئے جا رھی ھوں“، !!!!!!!

    مجھ گنہگار پر تو اللٌہ نے خاص طور سے کرم کیا ھوا تھا، ھر جگہ جہاں کی خواھش دل میں جاگی وہ پورا کرتا چلا گیا، اور پھر بیگم بھی بہت ھی زیادہ خوش تھیں کہ شادی کے فوراً ڈیڑھ سال بعد ھی انہیں یہ سعادت نصیب ھوگئی تھی، اور اب بھی جب ھم مکہ مدینہ کیلئے روانا ھوتے ھیں تو راستے بھر ھماری بیگم کی آنکھوں میں آنسو ھی تیرتے رھتے ھیں، یہاں پر ھماری سب سے بڑی خواھش یہی رھتی ھے کہ جیسے ھی موقع ملتا ھے ھم فوراً ھی مکہ مدینہ جانے کی ٹھان لیتے ھیں، جب بھی ھم نے جانے کی نیت کی اللٌہ تعالیٰ نے فوراً ھی اس کی منظوری دلوادی،، جدہ میں جب تک تھے تو تقریباً ھر مہینے ھی اللٌہ
    ‌تعالیٰ ھماری سن لیتا تھا، ریاض میں چھ مہینے یا سال میں ایک دفعہ ضرور جاتے ھیں،!!!!!!!

    جاری ھے،!!!!!!
     
  16. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    1978 سے پہلے مجھ گنہگار کی دل میں سب سے بڑی خواھش یہ یھی تھی کہ میں ایک دفعہ یہاں ارض مقدسہ کی زیارت کرلوں،
    لیکن اس نے تو لگتا ھے کہ مجھے یہاں مستقل ھی بلالیا ھے، سبحان اللٌہ، یہ اللٌہ تبارک و تعالیٰ کا احسان ھے کہ میں نے یہاں سے تین مرتبہ نوکری چھوڑی بھی لیکن واپس اس کی قدرت مجھے واپس یہاں لے آئی،!!!!!!

    ایک واقعہ جو میں شاید پہلے بھی تحریر کرچکا ھوں کہ جب میں کسی وقت پینٹنگ کا شوق رکھتا تھا تو ایک بڑے بزرگ سے صاحب میری پینٹنگ کی دکان پر تشریف لائے تھے، اور مجھے اپنے گھر پر لے گئے اور کہا کہ یہاں دیوار پر کعبہ شریف اور گنبد خضرا کی تصویریں بنادو اور انہوں نے مجھے ایک اخبار پکڑا دیا جس میں دونوں مقدس جگہوں کی تصویریں بنی ھوئی تھیں، میں نے پہلے کبھی ایسی مقدس مقامات کی تصویریں بنائی نہیں تھیں، میں نے پھر بھی ھامی بھر لی، اور واپس دکان جاکر ضرورت کا سامان مختلف رنگ اور برش وغیرہ لئے اور واپس سیدھا ان کے گھر آیا اور اخبار کو سامنے رکھ کر شروع ھوگیا، دیوار کو صاف کرکے پہلے چاک سے اسکیچ بنایا اور اس میں برش سے رنگ بھرنا شروع ھوگیا، میں کوئی اتنا مشاق یا ماھر پینٹر یا آرٹسٹ تو نہیں تھا، لیکن جب تصویر مکمل ھوئی، تو مجھے خود حیرانگی ھوئی کہ اخبار میں چھپی ھوئی تصویر سے زیادہ خوبصورت دونوں لگ رھی تھیں، اور وھیں اسی جگہ شاید 1970 یا 1971 کا دور ھوگا، پھر سے ایک دلی خواھش بھی جاگ اٹھی تھی، کہ کاش اللٌہ تعالیٰ مجھے اس ارض مقدصہ پر پہنچادے،اس وقت وہ بزرگ بھی بہت ھی زیادہ خوش ھوئے تھے، وہ اس کمرے میں عبادت کیا کرتے تھے،!!!!!

    شاید ان کی دعاء ھی تھی کہ اللٌہ تعالیٰ نے مجھے 1971 میں ھی ایسی کمپنی میں نوکری دلادی جس کے توسط سے 7سال بعد مئی 1978 میں میرا تبادلا سعودی کردیا گیا، جبکہ والد صاحب اور میرے ھونے والے سسر بھی اسی کمپنی میں تھے، لیکن انہوں نے کبھی بھی میرے ٹرانسفر کی بات ھی نہیں کی تھی، اور وہ ابھی مجھے اپنے سے الگ بھی نہیں کرنا چاھتے تھے، اور مجھے قدرتی ایک دن سعودی عرب سے آئے ھوئے ڈائریکٹر صاحب نے زونل آفس میں بلوایا، جو یہاں‌ کے ڈائریکٹر صاحب کے کمرے میں بیٹھے ھوئے تھے، انہوں نے میرا تعارف کرایا، کہ میرے پاس یہ لڑکا سید ھے جو آپ کے معیار پر پورا اترے گا گو کہ میں اسکو خود نہیں چھوڑنا چاھتا ھوں لیکن تم نے مجھ سے سعودی عرب کے ایک نئے پروجیکٹ کیلئے ایک اکاونٹنٹ مانگا ھے، اس نے یہاں دو پروجیکٹ پر کام کیا ھے، اور ابھی اس وقت اس نے پورٹ قاسم کے پروجیکٹ کو شروع کیا ھے، پھر انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم سعودی عرب جاؤ گے میں نے جواباً خوشی سے ھاں کردیا، اور انہوں نے فوراً کہا کہ جاؤ تیاری کرو، میں تو حیران پریشان رہ گیا، کیونکہ ایک اکاونٹنٹ کی جگہ تھی اور پورے پاکستان میں اسی کمپنی میں مجھ سے بہت بہتر اور قابل لڑکے بھی موجود تھے، اور ھر ایک کی لازمی خواھش بھی تھی،!!!!!!

    میں واقعی اپنی قسمت پر رشک کرتا ھوں، کہ اس سعودی عرب میں آنے کے بعد میری شادی ھوئی، اور اب اپنے بچوں کی شادیاں ھورھی ھیں، اور اب تک میں یہیں ھوں، جبکہ تین دفعہ چھوڑ کر بھی گیا لیکن ھر بار واپس یہیں پہنچ گیا اور بس اب تو یہی ایک آخری ارزو ھے کہ موت بھی آئے تو حضورپاک:saw: کے روضہ مبارک کی چوکھٹ پر آئے،،، آمین،!!!!!

    خوش رھیں،!!!!!!
     
  17. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    ثم آمین۔ یہ دیکھئے کسی خوش نصیب کی یہ آرزو کیسے پوری ہوئی ۔۔۔مجھے یہ تصویر ایک عاشقِ رسول (ص) دوست نے بھیجی ہے جس کے مطابق یہ خوش نصیب شخص مسجد نبوی شریف میں دوران نماز حالتِ سجدہ میں اپنی جان، محبوبِ خدا (ص) کے قدموں میں نچھاور کر گیا۔۔۔۔۔
    [​IMG]
     
  18. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    مجھ گنہگار پر تو اللٌہ نے خاص طور سے کرم کیا ھوا تھا، ھر جگہ جہاں کی خواھش دل میں جاگی وہ پورا کرتا چلا گیا، اور پھر بیگم بھی بہت ھی زیادہ خوش تھیں کہ شادی کے فوراً ڈیڑھ سال بعد ھی انہیں یہ سعادت نصیب ھوگئی تھی، اور اب بھی جب ھم مکہ مدینہ کیلئے روانہ ھوتے ھیں تو راستے بھر ھماری بیگم کی آنکھوں میں آنسو ھی تیرتے رھتے ھیں، یہاں پر ھماری سب سے بڑی خواھش یہی رھتی ھے کہ جیسے ھی موقع ملتا ھے ھم فوراً ھی مکہ مدینہ جانے کی ٹھان لیتے ھیں، جب بھی ھم نے جانے کی نیت کی اللٌہ تعالیٰ نے فوراً ھی اس کی منظوری دلوادی،، جدہ میں جب تک تھے تو تقریباً ھر مہینے ھی اللٌہ ‌تعالیٰ ھماری سن لیتا تھا، ریاض میں چھ مہینے یا سال میں ایک دفعہ ضرور جاتے ھیں،!!!!!!!

    میں واقعی اپنی قسمت پر رشک کرتا ھوں، کہ اس سعودی عرب میں آنے کے بعد میری شادی ھوئی، اور اب اپنے بچوں کی شادیاں ھورھی ھیں، اور اب تک میں یہیں ھوں، جبکہ تین دفعہ چھوڑ کر بھی گیا لیکن ھر بار واپس یہیں پہنچ گیا اور بس اب تو یہی ایک آخری ارزو ھے کہ موت بھی آئے تو حضورپاک کے روضہ مبارک کی چوکھٹ پر آئے،،، آمین،!!!!!

    بہار کا موسم، گرمیوں کی آمد آمد تھی اور سال 1981 کا تھا، اور ھم دونوں عرض مقدسہ پر عمرہ اور زیارتوں کی سعادت حاصل کررھے تھے، اور اللٌہ تعالیٰ ھمیں تمام تر سہولتیں دئیے چلا جارھا تھا، جہاز میں یہی سوچتے سوچتے وقت گزر گیا، اور کچھ دیر بعد ھی ھمارا جہاز مدینہ منورہ کے ائرپورٹ پر اتر رھا تھا، وہاں سے ٹیکسی کے ذریئے ھم مسجد نبوی (ص) :saw: کے لئے روانہ ھوئے، دور سے جیسے ھی مسجد نبوی(ص) کے مینار نظر آئے، آنکھوں سے پھر ایک بار آنسوؤں کی جھڑ لگ گئی، راستے بھر درود شریف پڑھتے ھوئے حرم نبوی شریف (ص) پہنچے اور نذدیک ھی ایک ھوٹل جس کا نام “فندق الحرم“ تھا ابھی تک مجھے یاد ھے، وھاں ایک کمرہ کرایہ پر لیا، ھوٹل بہت اچھا تھا، سامان وغیرہ رکھ کر وضو کیا اور فوراً ھی نیچے اتر گئے، اور ھمارے قدم سامنے ھی مسجد نبوی (ص) کی طرف تیز تیز چلنے لگے، بیگم تو عورتوں کی جانب چلی گئیں اور میں دوسری ظرف سے اندر داخل ھوگیا اور سیدھا چلتا ھوا روضہ مبارک (ص) کے سامنے بیٹھ گیا، جہاں ایک کھلا صحن تھا اور وہاں سے گنبد خضریٰ بھی نظر آرھا تھا، اور نفل نمازؤن کے ساتھ ساتھ درود شریف کا ورد بھی زبان پر جاری تھا،!!!!

    بسم اللہ الرحمن الرحیم

    الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم
    الصلوۃ والسلام علیک یا حبیب اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم

    اللٰھمَ صلِّ علیٰ سیدنا ومولانا محمدوعلیٰ آلہ و صحبہ و بارک وسلم

    اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی اِبراھیم وعلی آل اِبراھیم اِنک حمید مجید ہ
    اللھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی اِبراھیم وعلی آل اِبراھیم انک حمید مجید ہ‌


    اور ابھی بھی کوشش یہی کرتا ھوں کہ وھاں ھی جاکر بیٹھوں کیونکہ سامنے روضہ مبارک (ص) کی جالیاں اور نگاہ اوپر دوڑاؤ تو گنبد خضریٰ نظروں کے سامنے ھوتا ھے، سبحان اللٌہ،!!! وھاں ھم نے مغرب اور عشا کی نماز پہلے دن اور دوسرے دن فجر کی نماز کے بعد بیگم نے روضہ مبارک(ص) پر عورتوں کے اوقات میں سلام پڑھا اور درود شریف کا ورد کرتی رھیں، اور نوافل ادا کئے، میں نے تو مغرب اور عشاء کی نمازوں کے وقفہ میں ھی زیارت کرلی تھی، جب بیگم روضہ مبارک کی زیارت کی سعادت سے واپس آئیں تو پہلے سیدھا جنت البقیع کے مقام پر گئے، وہاں درود اور سلام ادا کرتے ھوئے تمام قبروں کی زیارت کی پھر ناشتے سے فارغ ھوکر وہاں سے شہر مدینہ کی اطراف کی باقی مقدس مساجد اور غزوات کے مقامات کی زیارتوں کے لئے ایک ٹیکسی کرایہ پر لی تاکہ ایک ھی وقت میں تمام زیارتوں کی سعادت بھی حاصل ھوجائے، مسجد قبا، مسجد قبلتین، سات مساجد غزوہ قندق کا مقام، غزوہ احد کا مقام کی زیارتوں کے وقت بھی ھمیں ایک عجیب سی روحانی تسکین اور سکون قلب حاصل ھورھا تھا، سبحان اللٌۃ،!!!!!

    واپس آئے تو سیدھا ھوٹل گئے اور تازہ دم ھوکے دوپہر کے کھانے کے لئے پاکستانی ریسٹورنٹ میں گئے، کھانا کھا کر فارغ ھوئے تو ظہر کی اذان ھورھی تھی، اسلئے فوراً مسجد نبوی (ص) میں داخل ھوگئے، نماز پڑھ کر بازار سے کچھ تسبح اور جاءنماز خریدیں ساتھ ھی کھجور بھی وہاں کی تبرکات کے ظور پر لیں، کیونکہ پاکستان میں اکثر لوگ وہاں کی تبرکات کے لئے خواھشات رکھتے ھیں،، اسی اثناء میں عصر کا وقت ھوگیا تھا فوراً ھی جلدی جلدی سارا سامان ھوٹل کے کمرے میں رکھا اور مسجد نبوی (ص) میں ‌عصر کی نماز پڑھی اور ساتھ ھی روضہ مبارک (ص) کی جالیوں کے ساتھ الوداعی سلام پڑھا اور درود شریف کاورد کیا ساتھ ھی تمام مقدس جگہوں پر نوافل ادا کئے، اور کیونکہ اسی روز شام کی ھماری وھاں سے ریاض کیلئے واپسی کی فلائٹ تھی، اس لئے ھوٹل میں جاکر سامان پیک کیا اور ھوٹل کا بل ادا کرکے ائرپورٹ بذریعہ ٹیکسی روانہ ھو گئے،!!!

    راستے میں ھمیں افسوس ھورھا تھا، کہ مسجد نبوی (ص) میں ھم صرف پانچ وقت کی ھی نمازیں ھی ادا کرسکے، یہ اللٌہ تعالیٰ کا کرم ھی رھا کہ کہ عمرہ اور زیارت بہت ھی سکون اور آرام سے ھوگیا جبکہ ھماری بیگم امید سے تھیں، اور انہیں اس بات کی یہ بھی خوشی تھی کہ پہلی اولاد کی امید کو اپنے بظن میں لئے عمرے اور زیارت کی سعادت حاصل کی، اور ھم دونوں نے بہت دعائیں کیں اس پہلی اولاد کی سلامتی کیلئے، کیونکہ اس سے پہلے تین دفعہ مایوسی کا منہ دیکھنا پڑا تھا، لیکن اس دفعہ اپنے حبیب کے صدقے ھمیں کامل یقین تھا کہ اس دفعہ ھمیں اللٌہ تعالی اولاد کی نعمت سے محروم نہیں کرے گا، اور اللٌہ کی رحمت اور برکت سے ھی ھمارے گھر میں 21 دسمبر 1981 کو پہلے مہمان یعنی لڑکے کی ولادت ھوئی اور جس کا نام ھمارے والد صاحب نے “سید حبیب الرحمن“ رکھا،!!!!!!!
     
  19. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    واپس آئے تو سیدھا ھوٹل گئے اور تازہ دم ھوکے دوپہر کے کھانے کے لئے پاکستانی ریسٹورنٹ میں گئے، کھانا کھا کر فارغ ھوئے تو ظہر کی اذان ھورھی تھی، اسلئے فوراً مسجد نبوی (ص) میں داخل ھوگئے، نماز پڑھ کر بازار سے کچھ تسبح اور جاءنماز خریدیں ساتھ ھی کھجور بھی وہاں کی تبرکات کے ظور پر لیں، کیونکہ پاکستان میں اکثر لوگ وہاں کی تبرکات کے لئے خواھشات رکھتے ھیں،، اسی اثناء میں عصر کا وقت ھوگیا تھا فوراً ھی جلدی جلدی سارا سامان ھوٹل کے کمرے میں رکھا اور مسجد نبوی (ص) میں ‌عصر کی نماز پڑھی اور ساتھ ھی روضہ مبارک (ص) کی جالیوں کے ساتھ الوداعی سلام پڑھا اور درود شریف کاورد کیا ساتھ ھی تمام مقدس جگہوں پر نوافل ادا کئے، اور کیونکہ اسی روز شام کی ھماری وھاں سے ریاض کیلئے واپسی کی فلائٹ تھی، اس لئے ھوٹل میں جاکر سامان پیک کیا اور ھوٹل کا بل ادا کرکے ائرپورٹ بذریعہ ٹیکسی روانہ ھو گئے،!!!

    راستے میں ھمیں افسوس ھورھا تھا، کہ مسجد نبوی (ص) میں ھم صرف پانچ وقت کی ھی نمازیں ھی ادا کرسکے، یہ اللٌہ تعالیٰ کا کرم ھی رھا کہ کہ عمرہ اور زیارت بہت ھی سکون اور آرام سے ھوگیا جبکہ ھماری بیگم امید سے تھیں، اور انہیں اس بات کی یہ بھی خوشی تھی کہ پہلی اولاد کی امید کو اپنے بظن میں لئے عمرے اور زیارت کی سعادت حاصل کی، اور ھم دونوں نے بہت دعائیں کیں اس پہلی اولاد کی سلامتی کیلئے، کیونکہ اس سے پہلے تین دفعہ مایوسی کا منہ دیکھنا پڑا تھا، لیکن اس دفعہ اپنے حبیب کے صدقے ھمیں کامل یقین تھا کہ اس دفعہ ھمیں اللٌہ تعالی اولاد کی نعمت سے محروم نہیں کرے گا،

    غالباً اپریل 1981 کا زمانہ تھا، موسم تقریباً خوشگوار ھی تھا، کچھ اتنی تپش بھی نہیں تھی، ریاض ائرپورٹ پر ھمارے سسر صاحب ساتھ ماموں سسر بھی موجود تھے، انکے ساتھ ھم اپنے ماموں سسر کے گھر پہنچے، آپ اس وقت سٹی بینک جو اب سعودی امریکن بینک ھے ،وھاں کے جنرل منیجر کے گھر پر ملازم تھے، انہیں بہت ھی اچھا گھر ملا ھو تھا، ھمیں انہوں نے سٹی بنک کے کمپاونڈ کے گیسٹ ھاؤس میں ٹھرایا تھا، بہت خوبصورت کمپاؤنڈ تھا، ھمارے سسر صاحب نے اپنے جاننے والے دوستوں کی فیملیز سے ھمارا تعارف کرایا، ساتھ ھم ان کے یہاں دعوتوں میں ‌بھی مدعو تھے اور خوب گھومایا پھرایا، بھر دوسرے دن ھماری فلائٹ دھران کے لئے تھی، ائرپورٹ پہنچے اور تقریباً ایک ہفتہ بعد ھم اپنے گھر پہنچے، ھماری بیگم تو بہت خوش تھیں اور اپنی خوش قسمتی پر بہت ناز کررھی تھیں کہ شادی کے ڈیڑھ سال بعد ھی انہوں نے عرض مقدسہ جاکر عمرہ اور زیارات کرلیں، جو وہ کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتی تھیں،!!!!!!

    مجھے بھی اپنے آپ پر فخر تھا کہ اس سروس کی بدولت مجھے یہ سب کچھ اللٌہ تعالیٰ کے کرم سے نصیب ھوا، اور وہ دن آگیا جس دن ھماری بیگم کو واپس جانا تھا، ، اور پھر ھماری بیگم کو بہت احتیاط بھی کرنی تھی اور یہاں پر دیکھنے بھالنے کیلئے کوئی نہ تھا، اس لئے انہیں واپس جانا ضرور تھا، اور یہ وعدہ ضرور کیا تھا کہ میں خوشخبری والے دن پاکستان میں ھونگا، اسی وعدے پر اپنی بیگم کو رخصت کیا، اور پھر یہاں تین مہینے گزار کر پاکستان واپس چلی گئیں، اس دوران ھمارے سسر صاحب بھی یہاں ھمارے ماموں سسر کے ساتھ تشریف لائے بھی تھے، اب تو ان کے بغیر تو یہاں پر میرا ایک ایک دن گزارنا مشکل ھوگیا تھا، !!!!1

    آخر وہ خوشخبری کا دن بھی آگیا کہ جس دن ھمارے گھر ایک ننھا مہمان کے آنے کی امید تھی، مجھے تو بہت ھی مشکل سے چھٹی ملی، میں تو فوراً ھی وہاں سے ایمرجنسی چھٹی پر پاکستان پہنچ گیا، پہچنے سے ایک دن پہلے ھی یعنی 21 دسمبر 1981 کو بیٹے کی ولادت ھوچکی تھی، مجھے نہیں بتایا گیا، کیونکہ میں ننھے مہمان کی آمد سے پہلے پہنچنا چاھتا تھا، خیر کراچی ائرپورٹ پر سب موجود تھے، وھاں پر سب لوگ مجھے مبارکباد دینے لگے، میرا تو خوشی کے مارے کوئی ٹھکانا ھی نہیں تھا، !!!!!!!!

    جاری ھے،!!!!!!
    ------------------------------------

    آخر وہ خوشخبری کا دن بھی آگیا کہ جس دن ھمارے گھر ایک ننھا مہمان کے آنے کی امید تھی، مجھے تو بہت ھی مشکل سے چھٹی ملی، میں تو فوراً ھی وہاں سے ایمرجنسی چھٹی پر پاکستان پہنچ گیا، پہچنے سے ایک دن پہلے ھی یعنی 21 دسمبر 1981 کو بیٹے کی ولادت ھوچکی تھی، مجھے نہیں بتایا گیا، کیونکہ میں ننھے مہمان کی آمد سے پہلے پہنچنا چاھتا تھا، خیر کراچی ائرپورٹ پر سب موجود تھے، وھاں پر سب لوگ مجھے مبارکباد دینے لگے، میرا تو خوشی کے مارے کوئی ٹھکانا ھی نہیں تھا، !!!!!!!!

    ائرپورٹ سے گھر تو مجھے سب لے آئے، مگر اسپتال جانے کیلئے کہا گیا کہ شام تک چلیں گے، ابھی کھانا وغیرہ تو کھا لیں، اور کچھ تازہ دم بھی ھوجائیں، سردی بھی اچھی خاصی تھی، مگر میں تو بے چین تھا کہ پہلے اپنے بیٹے کو دیکھوں، ایک عجیب سا احساس انجانی سی خوشی میں اپنے اندر محسوس کررھا تھا، پہلی اولاد کی خوشی کا وہ احساس آج بھی مجھے یاد ھے، کتنا خوشگوار وہ حسین دن تھا کہ میں بیان نہیں کرسکتا، ھر ایک کے چہرے پر مسکراھٹ اور خوشیوں سے پھولا نہیں سما رھا تھا، والدہ تو شاید اسپتال میں اپنی بہو کے پاس تھیں، والدکو تو بس میں کیا کہوں انکی خوشی سے کھلے ھوئے چہرے کو دیکھ کر میں بھی بہت خوش تھا، اور کیوں نہ ھو ان کے یہاں پہلاپہلا پوتا جو اللٌہ نے دیا ھے،!!!!!

    کھانا بھی خوشی کے مارے کھایا نہیں گیا، مجھے تو شرم آرھی تھی کہ میں والد سے کہوں کہ مجھے اسپتال لے چلو، اور سب بہن بھائی مجھے کہہ رھے تھے، کہ اباجی سے پوچھو اور چلو، میری تو ھمت ھی نہیں پڑرھی تھی، اور دل تو ویسے بہت بے قرار تھا، ایک اور محلے کی خالہ آئیں اور کہا، ارے بیٹا تم ابھی تک اپنے بیٹے کو دیکھنے کے اسپتال نہیں گئے، !!!! ابھی میں کچھ کہتا ادھر اباجی فوراً بول پڑے، اسپتال میں شام کو ملنے کے اوقات ھوتے ھیں، بس تھوڑی دیر میں چلتے ھیں،!!!

    میں تو اس وقت بھی والد صاحب سے بہت ڈرتا تھا، میں تو مجبور تھا اور سارے میرے پیچھے پڑے تھے، آدھے تو پہلے ھی سے اسپتال میں ھماری والدہ کے پاس تھے، اور ھم یہاں بیٹھے ابا جی کے حکم کا انتظار کررھے تھے، آخر بڑی بی نے تنک کر کہا کہ،!!!! تم تو اب ایک بیٹے کے باپ ھوگئے ھو، اب ایسا بھی کیا ڈرنا، چلو میرے ساتھ چلو،!!!!
    میں نے کہا کہ نہیں اباجی کے ساتھ ھی سب کو لے کر جاؤنگا،!!!! اور پھر تو وہ بڑی بی خود ھی یہ کہتی ھوئی نکل پڑیں، کہ میں خود ھی چلی جاؤنگی،!!!! اور وہ کسی ایک میرے بھائی کو لے کر چلی گئیں اور گھر پر شاید میرے ساتھ ایک بہن اور بھائی ھی گھر میں موجود تھے،باقی سب اسپتال ھی میں رونق جمائے ھوئے تھے، اور ھم تینوں یہاں اباجی کے حکم کا انتظار کر رھے تھے،!!!!

    ھم سب تو تیار ھی تھے، ابا جی بڑی مشکل سے اٹھے، اور کہا کہ،!!! میں کہے دیتا ھوں میرے پوتے کا نام میں اپنی مرضی سے رکھونگا، کیونکہ سب لوگ نئے نئے ماڈرن نام رکھنے کے چکر میں ھیں،!!!! میں تو کچھ نہ بولا خاموشی سے گردن ھی ھلا دی، اور پھر بس اسٹاپ کی طرف چل دہیے، دو بسیں بدل کر ھم سب تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں اسپتال پہنچے، وہاں پر مجھے باھر باغیچہ میں سب لوگ مل گئے، خوب گھما گھمی لگی ھوئی تھی، سب کے مزے آرھے تھے، رونق لگی ھوئی تھیَ، میں تو بھائی کے ساتھ ھی زچہ بچہ وارڈ میں پہنچ گیا، وہاں ھماری اماں اور ساس صاحبہ کو دیکھا اور بچہ تو ایک جھولے میں تھا فوراً ھی بچے کی نانی نے اُٹھا کر مجھے دکھایا، اور مین تو بس دیکھتا ھی رہ گیا، کہ آج دیکھو میں بھی صاحب اولاد ھوگیا کل یہ بڑا ھو گا مجھے ابو ابو کہ کر پکارے گا، ان چند لمحات میں نہ جانے اپنی سوچوں کو کہاں سے کہاں لے گیا،!!!!!

    اسی بچے کو دیکھتے ھوئے بیگم کی طرف دھیان بالکل نہیں گیا، فوراً ھی ادھر اپنی بیگم کو دیکھا، انہوں نے تو اپنا چہرے کو چادر میں ھی چھپایا ھوا تھا، شاید وہ مجھ سے ناراض لگتی تھیں، یا شرما رھی ھونگی، میں نے پوچھا کہ کیا بات ھے ھم سے کس بات کا پردہ، !!!!! تو انکی ایک سہیلی نے جواباً کہا کہ،!!! جناب کچھ خبر بھی ھے آپ نے اپنا وعدہ نہیں نبھایا،،!!! میں نے پوچھا کہ وہ کونسا وعدہ، !!!! جواب ملا کہ،!!! آپ جو تاخیر سے پہنچے ھیں،!!!! میں نے کہا کہ،!!! بھئی کیا کرسکتا ھوں مجبوری تھی، سیٹ ھی آج کی ملی تھی اور مجھے کیا خواب آیا تھا کہ صاحبزادے میرے آنے سے پہلے ھی وارد ھوجائیں گے،!!!!!!

    سامنے سے والد صاحب وارڈ میں داخل ھوئے، اور سب ظرف خاموشی ھوگئی، آتے ھی انہوں نے اپنا اعلان صادر فرما دیا، کہ میں نے اس بچے کا نام آج سے “سید حبیب الرحمٰن“ رکھا دیا ھے، مجھے تو یہ نام اچھا ھی لگا تھا اور سب لوگوں کو بھی بہت پسند آیا، جبکہ کچھ تو پہلے ھی اسکا نام “ذیشان“ رکھنے کا سوچ رھے تھے، لیکن والد صاحب نے جو نام رکھا تھا وہ سب کو ھی پسند آیا، ھر طرف خوشیاں ھی خوشیاں بکھری ھوئی تھیں، ھمارے ساس اور سسر بھی اپنے پہلے نواسے کو دیکھ کر خوش ھورھے تھے اور والدین بھی پہلے پوتے کو دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سما رھے تھے، آخر کار بیگم سے رھا ھی نہیں گیا اور انکی نطریں میری ظرف جیسے ھی گھومیں میں نے بھی آنکھوں ھی آنکھوں میں انہیں بیٹے کی مبارکباد دے دی،!!!!!!!
     
  20. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    اکثر میں سو چتا ھوں کہ:!!!!!!!!!

    میں کتنا خوش قسمت ھوں، کہ میرا گھر اس راستہ پر ھے جو مدینہ منورہ کو جاتا ھے،!!!!!!

    میں ھر روز جب اپنے گھر کے دروازے کے باھر کھڑا ھوتا ھوں تو لب سڑک بہت بڑا ایک بورڈ آویزاں ھے، جس پر جانے والوں کی نشاندھی کے لئے مدینۃ المنورہ لکھا ھوا ھے، میں اسے ھمیشہ گھر سے نکلتے اور داخل ھوتے ھوئے دیکھتا ھوں،

    میں کتنا خوش قسمت ھوں، کہ میرا گھر اس راستہ پر ھے جو مدینہ منورہ کو جاتا ھے،!!!!!!

    میرے لئے یہ کیا کم ھے کہ اپنے شہر کے آخیر میں مدینہ منورہ کے راستے پر اپنے گھر کے دروازے سے ان تمام عاشق رسول (ص) کو الوداع کہتا ھوں جو دربار نبی کی (ص) زیارت کے لئے جارھے ھوتے ھیں، اس راستہ کو سلام کرتا ھوں جو ان عاشقان رسول (ص) کی قدموں کی سواریوں کی چاپ اپنے سینے پر سے گزارتا ھے،

    میں کتنا خوش قسمت ھوں، کہ میرا گھر اس راستہ پر ھے جو مدینہ منورہ کو جاتا ھے،!!!!!!!

    جس سے میرے گھر میں برکت ھی برکت ھے، کہ ھر مدینے آنے جانے والا میرے گھر پر مہمان ھے، آنے والے کی پیروں کی دھول کو اپنے سینے سے لگاتا ھوں اس دھول کا کوئی ذرہ تو دیار نبی (ص) کر دربار کا تو ھوگا اور جانے والون کے ماتھے پر پیار کرتا ھوں کہ وہ یہ اپنا ماتھا اس دربار نبی(ص) میں جالیوں کے ساتھ آللٌہ کے حضور ماتھا تو ٹیکے گا،

    میں کتنا خوش قسمت ھوں، کہ میرا گھر اس راستہ پر ھے جو مدینہ منورہ کو جاتا ھے،!!!!!!!

    میرا مکتب بھی اسی راستہ پر ھے اور میرا گھر بھی اسی راستہ پر ھے، اس راستے کی اپنی ایک الگ ھی مہک ھے، یہ راستہ شمال کی ‌طرف سے ھوتا ھوا میرے سرکار مدینہ (ص) کے در پر جاتا ھے، اور جنوب کی طرف سے ھوتا ھوا اللٌہ کے گھر پر جاتا ھے، اور اسی راستہ کے درمیاں میرا گھر ھے،

    میں کتنا خوش قسمت ھوں، کہ میرا گھر اس راستہ پر ھے جو مدینہ منورہ کو جاتا ھے،!!!!!!

    (((((((((((((((((((((((((((((سبحان اللٌہ )))))))))))))))))))))))))))))‌


    مجھے اس بات کی بہت ھی زیادہ خوشی ھے بلکہ میرے لئے ایک بہت بڑی خوش قسمتی بھی ھے کہ میرا گھر بالکل لب سڑک (ھائی وے) پر ھے، جو شمال کی طرف قصیم سے ھوتی ھوئی مدینہ منورہ کی طرف رخ کرکے رواں دواں ھے اور دوسری طرف جنوب کی طرف ریاض کے مرکزی شہر سے گررتی ھوی دوشاخہ بن جاتی ھے ایک شاخ طائف اور مکہ مکرمہ کی طرف اور دوسری شاخ دمام ،دھران اور الخبر کی طرف نکل جاتی ھے، !!!!!!

    اگر میں اپنے گھر کے بیرونی دروازے پر سڑک کی طرف منہ کرکے کھڑا ھوں، تو سامنے مشرق کی طرف الریاض کا خوبصورت ائرپورٹ ھے اور میرے پیچھے مغرب میں کعبۃ اللٌہ قبلہ کا رخ ھے اور جو میرے گھر کے سامنے مین شارع ھے، میرے دائیں طرف شہر کے بیچوں بیچ سے ھوتی ھوئی ایک طرف طائف اور مکہ مکرمہ کی طرف رخ کر لیتی ھے اور دوسری طرف وہ شارع دمام ، دھران اور الخبر کی طرف نکل جاتی ھے، اور اسی طرح بائیں جانب یہی شارع منطقہ القصیم سے ھوتی ھوئی مدینہ منورہ کی طرف رخ اختیار کر لیتی ھے، میرے گھر سے تقریباً 1000 کلومیتر کے فاصلے پر مکہ مکرمہ ھے اور مدینہ منورہ کا فاصلہ تقریباً 900 کلو میٹر ھے، اور مکہ مدینہ کے درمیاں تقریباً 450 کلومیٹر کا فاصلہ ھوگا، ھم سب اگر بزریعہ سڑک یہاں سے عمرہ اور زیارت کے لئے نکلتے ھیں تو پہلے مدینہ منورہ جاتے ھیں جہاں 8 یا 9 گھنٹے تک پہنچ جانے ھیں، اور وھاں سے عمرہ کیلئے مکہ مکرمہ تقریباً 4 یا 5 گھنٹے میں پہنچتے ھیں، ریاض کیلئے واپسی اگر مکہ مکرمہ سے براہ راست ھو تو تقریبآ 9 یا 10 گھنٹے کےدرمیان پہنچ جاتے ھیں، مجھے یہ باتیں آپ سب سے شئیر کرکے دلی سکون ملتا ھے، میں ایک بہت ھی گنہگار بندہ ھوں لیکن اللٌہ تعالیٰ نے مجھ ناچیز کو ان برکتوں سے نوازا ھے کہ میں اور میری فیملی تمام اس بات پر اسکا جتنا بھی شکر بجا لائیں کم ھے، اور جب بھی عمرہ اور زیارت کی نیت کرتے ھیں، االلٌہ تعالیٰ فوراً سن لیتا ھے، اور ھم سب کبھی بزریعہ بس یا کوئی بڑی گاڑی کرایہ پر لے کر 5 دن یا 7 دن کے لئے نکل جاتے ھیں اور لیکن ھماری واپسی ھمیشہ جمعہ کی نمار مکہ مکرمہ میں پڑھ کر ھی ھوتی ھے، اور آدھی رات تک واپس تمام برکتیں اور رحمتیں سمیٹے ھوئے اپنے گھر پہنچ جاتے ھیں،

    یہ سب اللٌہ تعالیٰ کا احسان اور اسکے حبیب کے صدقے مجھ پر بہت بڑی کرم نوازی ھے،!!!!!میں اس گھر سے جدا نہیں ھونا چاھتا، کیونکہ یہ گھر میرے لئے ھر لحاظ سے اللٌہ کی رحمت سے بہت ھی زیادہ برکتی ثابت ھوا ھے، بس اب ایک آخری خواھش یہی ھے کہ موت آئے تو پاک نبی (ص) کی چوکھٹ پر جاکر دم نکلے،!!!!،آمین،!!!!

    بسم اللہ الرحمن الرحیم

    مولایَ صلِّ وسلّم دائماً ابداً
    علیٰ حبیبکَ خیر الخلق کُلّھِمِ
    محمد سیّد الکونینِ والثقلین
    والفریقینِ مِن عُرب و مِن عَجَمِ

    الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم
    الصلوۃ والسلام علیک یا حبیب اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم
    اللٰھمَ صلِّ علیٰ سیدنا ومولانا محمدوعلیٰ آلہ و صحبہ و بارک وسلم

    اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی اِبراھیم وعلی آل اِبراھیم اِنک حمید مجید ہ
    اللھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی اِبراھیم وعلی آل اِبراھیم انک حمید مجید ہ‌
     
  21. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    یہ میری کہانی “ یادوں کی پٹاری“ کا ایک موڑ ھے، اس کو اس لڑی میں لانے کا مقصد میرا صرف یہی ھے کہ ھمارے معاشرے میں ھم سب کیا کیا اپنا کردار نبھا رھے ھیں، ھر کوئی خوب سے خوب تر کے چکر میں ھے اور اپنی آمدنی کو جائز ناجائز طریقوں سے اضافہ کرنے کیلئے اپنے ذرایع اور وسائل کو غلط استعمال میں لا رھا ھے،!!!!

    ایک دفعہ شاید سنمبر 1989 میں جب مجھے اسی اسپتال کے لئے اکاؤنٹنٹ کی ملازمت کے سلسلے میں ایک آفر لیٹر ملا اور میں نے اسے قبول کرکے اپنے دستخط کئے اور واپس بھیج کر ویزے کا انتظآر کرتا رھا، مگر افسوس کہ ویزا لیٹ ھوگیا کیونکہ یہاں پاکستان میں تمام ویزے میڈیکل فیلڈ کے تھے، تو اکتوبر 1989کے آخیر میں میرے نام پر ھی ویزا بھیجا گیا، کسی ایجنٹ کے نام پر نہیں تھا، اس لئے میں نے سوچا کہ کیوں نہ خود ھی قسمت آزمائی کی جائے، فوراً ھی میں سعودی سفارت خانہ پہنچا، وہاں پہلے ویزا کنفرم کیا، اور فارم کے ساتھ پاسپورٹ جمع کرادیا، لیکن ویزے کی قسم “میل نرس“ کی ھی تھی،
    دوسرے دن ھی مجھے پاسپورٹ بمعہ ویزا اسٹمپ ھوئے مل گیا، مجھے خود حیرانگی ھوئی، کہ کوئی بھی پریشانی آٹھائے ھوئے میرے پاسپورٹ پر ویزا لگ گیا جبکہ پہلے پاسپورٹ کی تجدید کے لئے کافی پریشانی اٹھانی پڑی تھی،!!!!!!

    چلئے خیر اب ھم پہنچے پروٹیکٹر آفس جہاں پر نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ کی اسٹمپ لگتی ھے اور ساتھ ھی انشورینس بھی کرانی پڑتی ھے، پہلے دن تو کچھ تاخیر سے پہنچا تو لائن میں لگ کر جب کھڑکی تک پہنچا تو کھڑکی بند اور پھر دوسرے دن صبح صبح پہنچ گیا اس وقت بھی بہت بڑی لمبی لائن لگی ھوئی تھی، ایسا لگتا تھا کہ لوگوں نے یہیں پر ھی بستر لگائے ھوئے تھے، بہرحال جب نمبر آیا تو فارم پاسپورٹ کے ساتھ دیا، تو اس نے یہ کہہ کر واپس کردیا کہ پاسپورٹ پر اپنا پیشہ بدلواؤ، میں نے کہا کہ بھئی پاسپورٹ پر تو پرائویٹ سروس لکھا ھوا ھے، کھڑکی سے اس نے غصہ میں جواب دیا کہ تمھیں نظر نہیں اتا، کہ ویزے پر پیشہ تو “میل نرس“ کا ھے، پاسپورٹ پر بھی یہی پیشہ ھونا چاھئے،

    ٌلائن میں لگنے سے پہلے مجھے ایک صاحب ملے تھے اور کہا بھی تھا کہ اگر میں کام جلدی کروانا چاھتے ھیں تو میں کرادونگا، وھی صاحب میرے پاس آئے اور اپنی ٹوپی سیدھی کرتے ھوئے بولے، !!!!!!
    کیا ھوا بھائی کام نہیں ھوا،؟؟؟؟؟؟

    میں نے مایوسی کی حالت میں کہا کہ،!!!
    نہیں اس نے پاسپورٹ پر پیشہ بدلوانے کو کہا ھے،!!!!!!

    اس آدمی نے میرا پاسپورٹ لیا اور دیکھنے لگا، اور کچھ دیکھ کر کہا!!!!
    ھاں بھئی پاسپورٹ آفس جاؤ اور وہاں سے اپنا پیشہ بدلوا کر لاؤ، اور باقی کام میں کرادوں گا،!!!!!

    میرا سارا دن وہیں پر ضائع ھو گیا ، مجھے یہ تو معلوم تھا کہ ویزا “میل نرس“ کا ھی تھا، کیونکہ یہاں پاکستان میں اس اسپتال کے سارے ویزے میڈیکل فیلڈ سے ھی تعلق رکھتے تھے، اور میرے پاسپورٹ پر صرف “پرائویٹ سروس“ ھی لکھا ھوا تھا، مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ اس پر کوئی اعتراص تو نہیں ھونا چاھئے تھا، کیونکہ سعودی ایمبیسی نے کوئی بھی اعتراض نہیں ‌اٹھایا تھا، میں نے وھاں سعودی عرب میں اسی اسپتال میں ٹیلیفوں پر بات کی کہ یہ مسئلہ ھے، وھاں سے جواب ملا کہ آپ کا پیشہ یہاں آئیں گے تو بدل دیا جائے گا، لیکن اس وقت ھمارے پاس پاکستان کیلئے صرف میڈیکل پیشے سے تعلق رکھنے والے ھی ویزے ھیں، مجبوری ھے!!!!!

    مجبوراً میں وہاں پاسپوٹ آفس پہنچا، کافی پریشانی اٹھائی لیکن سیدھے طریقے سے میرا پیشہ بدل نہیں سکا، جبکہ میں نے ساری صورت حال انہیں بتائی کہ میں تو ایک اکاؤنٹنٹ ھوں اور مجھے وھاں سے ایک آفر لیٹر میں بھی دکھایا جس میں اکاونٹٹ کی ھی تقرری ھی لکھی ھوئی تھی، لیکن وہاں کے کسی بھی انچارج کو میں قائل نہ کرسکا، انہوں نے کہ یہ اسی صورت ھوسکتا ھے کہ آپ “میل نرس“ کا سرٹیفیکیٹ یہاں کے مقامی اسپتال سے لے آئیں اور وہ “میڈیکل کونسل آف نرسنگ“ سے تصدیق شدہ ھونا چاھئے،!!!!

    میں پاسپورٹ آفس کے مین گیٹ سے مایوسی کے عالم میں باھر نکلا تو کافی لوگ میری حالت دیکھ کر چپک گئے، بھائی صاحب آپ بتائے آپ کا کام کیا ھے ھم فوراً ابھی اسی وقت آپکا کام کرادیں گے، مجھے سامنے ھی وھی آدمی نظر آیا جس نے میرے پاسپورٹ کی تجدید کرائی تھی، وہ میرے پاس آیا اور سب لوگوں کو یہ کہہ کر بھگا دیا کہ یہ میرے گاھک ھیں،!!!، میں بھی انکی ٹیبل کے سامنے ایک اسٹول پر جاکر بیٹھ گیا، اور ساری روداد سنادی، انہوں نے کہا کہ جب میں یہاں آپکا خادم باھر میز لگا کر بیٹھا ھوں تو آپ کو اِدھر اُدھر بھٹکنے کی کیا ضرورت ھے،پہلے بھی آپکو پاسپورٹ تجدید کرانے میں کتنی مشکل پیش آئی تھی اور میں نے آپکا کام ایک گھنٹے میں کروادیا تھا، اب جب بھی کوئی بھی پاسپورٹ کے علاوہ بھی کوئی اور کسی بھی گورنمنٹ کے کھاتے کا کام ھو میرے پاس تشریف لائیں، میں یقین کے ساتھ کہتا ھوں کہ آپکا کام فوراً سے پیشتر کروادوں گا، مگر جیسا کام ویسا ھی دام بھی ھوگا!!!!

    مجبوری تھی کیونکہ اس ویزے کے آتے ھی میں یہاں ایک اچھی خاصی نوکری چھوڑ بیٹھا تھا، شادی شدہ بال بچوں کے ساتھ تھا اور والدین بہن بھائی سب تھے ساتھ ھی گھر کا میں بڑا بیٹا بھی تھا، کیا کرتا مجبوراً میں نے اس سے پوچھا اسکے کتنے دام ھونگے،اس نے 500 روپے کا نسخہ بتایا اور 300 روپے گورنمنٹ کی فیس اس کے علاؤہ تھی جوکہ میں پہلے ھی بنک میں جمع کراچکا تھا، میں نے بھی کچھ رقم اسی سلسلے کے لئے ایک دوست سے ادھار لی ھوئی تھی، اسی وقت اسے اس کی مطلوبہ رقم اس کے ھاتھ میں رکھی، اور اس نے مجھ سے پاسپورٹ اور فارم لئے اندر چلا گیا، اور صرف آدھے گھنٹے کے اندر اندر وہ باھر آگیا، میں سمجھا کہ شاید میرا کام نہیں ھوا، لیکن اس نے مجھے پاسپورٹ دے دیا، کھول کر دیکھا تو میرے پیشہ تبدیل ھوچکا تھا، اور ایک صفحہ پر تصدیق شدہ مہر کے ساتھ اور متعلقہ انچارج کے ساتھ، !!!!!!

    کمال ھے میں نے اس سے پوچھا بھئی یہ کیسے ھوگیا، اس نے جواب دیا کہ جتنے بھی اندر بیٹھے ھیں، سارے چور ھیں اور ھم سے پیسہ لے کر کام کرتے ھیں، اور ھم بھی یہاں پر کچھ ان کی بدولت کچھ نہ کچھ کما لیتے ھیں، اگر کوئی بھی کام ھوا کرے میرے پاس بلاجھجک چلے آنا، میں تمھارے لئے کچھ نہ کچھ رعائت کردونگا، میری شکل پہچان لو، یہیں میں گیٹ کے سامنے بیٹھتا ھوں،!!!!!!

    میں نے بھی سکون کا سانس لیا، اور دوسرے دن صبح صبح پروٹیکٹر آفس پہنچا اور میں جاکر سیدھا لائن میں لگ گیا، میں نہیں چاھتا تھا کہ اس آدمی سے ملوں اور پھر کوئی دوسرا غلط طریقہ اختیار کروں، اب تو کوئی مسئلہ بھی نہیں تھا اور پاسپورٹ پر پیشہ “میل نرس“ کا تبدیل ھوچکا تھا، مجھے اس وقت مکمل امید تھی کہ اب کوئی اعتراض نہیں اٹھے گا، جب میرا نمبر آیا تو انھوں نے میرا نرسنگ کا سرٹیفکیٹ مانگا جو کہ “پاکستان میڈیکل کونسل آف نرسنگ“ سے تصدیق شدہ بھی ھو، اور اس کے علاوہ انہوں نے ایک اور مسئلہ کھڑا کردیا کہ بھئی آج کل تو میڈیکل اسٹاف کو باھر جانے کیلئے وزارتِ صحت“ یعنی “منسٹری آف ھیلتھ“ سے اجازت نامہ یعنی “نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹ“ لینا ضروری ھے، میں نے ان کو پھر نئے سرے سے پھر اپنے اکاونٹنٹ‌ کی سروس کا لیٹر دکھاتے ھوئے ساری روداد سنائی، مگر انہوں نے اپنی مجبوری ظاھر کرتے ھوئے انکار کردیا، !!!!!

    جیسے وھاں سے مایوس ھوکر باھر نکلا وہی آدمی پھر مل گیا، اور کہا،!!!! ھاں بھائی سناؤ تمھارا کام بنا یا نہیں،!!!!!

    میں نے جواب دیا کہ!!!! نہیں انہوں نے انکار کردیا، کیونکہ انہیں وزارتِ صحت سے اجازت نامہ چاھئے، اب یہ میں کہاں سے لاؤں،!!!!!!

    اس نے فوراً کہا،!!!
    دیکھو اس چکر میں نہ پڑو، اگر تم چاھتے ھو کہ تمھارا کام ھوجائے، تو مجھے کہو میں تمھارا آج ھی اور اسی وقت تمھارا کام کرادیتا ھو،!!!!!!

    میں نے کہا کہ،!!!!
    کیسے ھوگا یہ کام بھائی صاحب،!!!!

    اس نے جواب دیا کہ،!!!
    بس صرف پانچ ہزار روپے ھدیہ دینا ھوگا اور باقی گورنمنٹ کی فیس اور انشورینس وغیرہ الگ سے ادا کرنے ھونگے،!!!!!

    میں نے کہا کہ،!!!!
    اس کے علاؤہ کوئی چارہ نہیں ھے، !!!!!

    اس نے تنزیہ انداز میں کہا کہ،!!!
    ھاں دوسری تجویز بھی ھے، یہاں سے تمھیں اسلام آباد جانا ھوگا، وھاں پر وزارت صحت کے دفتر پہنچو، اور اپنی درخوست دو تو شاید وہ کچھ تمھاری فریاد پر غور کریں اور تمھیں باھر جانے کا اجازت نامہ دے دیں، مگر یہ اتنا آسان نہین ‌ھے بھائی، مجھے 5000 روپے دو اور فوراً اپنا کام ابھی اور اسی وقت کرالو،!!!!

    میرا دل نہیں مانا میں تو یہ سمجھا کہ شاید یہ مجھ سے بس روہے اینٹھنا چاھتا ھے، میں نے اس سے کل کے آنے کا بہانہ کرکے اس سے جان چھڑائی اور وہ شخص مجھے آخری وقت تک قائل کرنے کی کوشش کرتا رھا، لیکن میں اسکی ھاں میں ھاں ملاتا ھوا بس اسٹاپ تک پہنچا، وہ بھی میرے پیچھے پیچھے چلا آرھا تھا، شاید آج اس کے پاس کوئی مرغا نہیں پھنسا تھا اور آخرکار مجھے اسکو چائے پلا کر ھی فارغ کرنا پڑا، مجھے تو وہ کوئی فراڈ ھی لگ رھا تھا،!!!!!!

    تھک ھار کر میں گھر پر آگیا اور مجھے بہت ھی دکھ ھو رھا تھا، اسی چکر میں اچھی خاصی نوکری چھوڑ بیٹھا تھا، اور ادھار پر ادھار لئے جارھا تھا، ویزا تو لگ چکا تھا، پاسپورٹ پر بھی پیشہ تبدیل ھوچکا تھا، اور اسی دوران ویزے کو لگے ھوئے بھی ایک مہینہ گزر چکا تھا، ویزے کی معیاد شاید تین مہینے کی تھی، نومبر1989 کا آخری ھفتہ چل رھا تھا، نوکری چھوڑے ھوئے بھی دو مہینے ھو چکے تھے، ایک ھمارے جاننے والوں کے پاس پارٹ ٹائم ایک جاب کرنے لگا، جہاں سے وہ مجھے گزارے کیلئے ھر ھفتے کچھ نہ کچھ گزارے کیلئے میرے ھاتھ میں رقم رکھ دیتے تھے، میں ان کا احسان زندگی بھر نہیں بھول سکتا کہ انہوں نے میری اس مشکل کے دنوں میں مدد کی،!!!!

    بہرحال میں کچھ مایوس ھو چکا تھا، ھر کوئی مجھے ایک نیا مشورہ دے رھا تھا، والد صاحب مجھ سے الگ ناراض تھے، کہ نوکری چھوڑ کر ویزے کے چکر میں دو مہینے ضائع کرچکا تھا، جبکہ انہیں تمام کہانی سنا بھی دی لیکن انہیں سمجھ نہ آئی، خیر میں دوسرے دن ھی صرف اپنی بیگم کو اور امی کو بتا کر اسلام آباد روانہ ھوگیا، تاکہ وہاں سے وزارت صحت سے میرے باھر جانے کا اجازت نامہ لے لوں، شناختی کارڈ پاسپورٹ اور تمام ضروری دستاویزات، اسکول کالج سب اصل سرٹیفکیٹ اور ڈگری لئے اسلام آباد پہنچ گیا، دسمبر 1989 کا مہینہ شروع ھوچکا تھا،!!!!!

    وہاں اپنے ایک رشتہ دار کے یہاں پہنچا انہیں اپنی تمام کہانی شروع سے سنائی، اور وہ مجھے انکے دوست کے پاس لے گئے، انہکو پھر نئے سرے سے ساری کہانی سنادی، انہوں نے کہا کہ میں کوشش کرکے دیکھتا ھوں، دوسرے دن ان صاحب سے بات ھوئی تو انہوں نے کہا کہ بہت مشکل ھے اس کے لئے تو سب سے نرسنگ کا سرٹیفکیٹ بنوانا پڑے گا پھر اسے “پاکستان میڈیکل کونسل آف نرسنگ“ سے رجسٹر کروا کر باقائدہ تصدیق کرانا ھوگا، اور پھر اس تمام پروسس کے بعد آپ باھر جانے کیلئے وزارت صحت کو اجازت نامہ کیلئے درخواست دینی ھوگی، اب ان کی مرضی ھے کہ اجازت دیں یا نہ دیں،!!!!

    اس تمام کاروائی کیلئے ایک صاحب نے کہا کہ وہ یہ سارے کام کروادیں گے لیکن اس پر 45000 روپے تک کا خرچہ آئے گا، میں تو سر پکڑ کر بیٹھ گیا، ھر دفعہ کوئی نئی مشکل کھڑی ھوجاتی ھے، پھر میں نے ایک کوشش اور ایک اور دوست جو میرے ساتھ پہلے 1978 سے 1983 تک سعودی عرب میں ایک کنسٹرکشن کمپنی میں ساتھ کام کرچکے تھے، ان کے پاس پہنچا، وہ مجھے ایک کسی حکومت وقت کے ایک سیاسی کارکن کے پاس لے گئے، وہ مجھے فوراً ساتھ لے کر راولپنڈی کے پروٹیکٹر آف امیگریشن کے آفس لے گئے اور وھاں وہ مجھے سیدھا ایک ڈائریکٹر کتے پاس لے گئے، انہوں نے کہا کہ فارم وغیرہ بھر دو، اور کھڑکی پر جمع کرادو، فارم پہلے ھی سے میرے پاس پہلے کا بھرا ھوا رکھا تھا اس فارم پر انہوں نے دستخط کئے، اور میں نے کاونٹر پر جمع کرادیا، اور جو میرے ساتھ آئے تھے وہ واپس چلے گئے، خیر مجھے انتظار کرنے کو کہا گیا کچھ ھی دیر میں ایک صاحب نے مجھے کاونٹر سے ھی پاسپورٹ بغیر پروٹیکٹر اسٹیمپ کے واپس کردیا، میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے کاغذات مکمل نہ ھونے کا بہانہ کیا، دو تین دفعہ اسی طرح سفارش سے کام کرانے کی کوشش کی لیکن ناکام رھا، اب تو میں ھمت ھار چکا تھا،!!!!!

    اسی طرح مجھے وہاں پر تقریباً 20 دن گزر چکے تھے، سخت سردیوں کے دن تھے میں نے اپنا ارادہ باھر جانے کا ترک کیا، اور راولپنڈی میں اپنی پرانی کنسٹرکشن کمپنی کے ھیڈ آفس پہنچ گیا اور وھاں اپنے تمام پرانے دوستوں سے ملاقات کی، ایک میرے پرانے باس جناب خواجہ خالد محمود صاحب کے پاس کافی دیر تک بیٹھا، اور اپنے سارے دکھ درد ان سے کہہ ڈالے، اور کہا کہ مجھے اب دوبارا یہیں پر آپ مجھے نوکری دلوادیں کیونکہ میں واپس خالی ھاتھ اسی طرح نہیں جاسکتا، کیونکہ والد صاحب بہت غصہ ھونگے، میں تو ان سے پوچھے بغیر یہاں آیا تھا،!!!!

    خواجہ خالد محمود صاحب نے مجھے کافی حوصلہ دلایا، اور کہا کہ،!!!! ایک کوشش اور کرکے دیکھتے ھیں، ایک میرے ڈاکٹر دوست ایک اسپتال میں کام کرتے ھیں، گھبراؤ نہیں، اگر کہیں کچھ نہ ھوسکا تو اسی کمپنی میں تمھارے لئے ضرور کوشش کریں گے، اور انشااللہ تعالی میری دعاء یہی ھے کہ تم خالی ھاتھ واپس نہیں جاؤ گئے،!!!!!

    وہ پھر مجھے اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے اور وہاں ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا، اور بعد میں میں نے ان سے اجازت لی، انہوں نے مجھے تاکید کی کہ شام کو یہیں میرے گھر پر آجانا تو ھم دونوں مل کر ساتھ اسپتال ایک دوست کے پاس چلیں گے اور تمھارے نرسنگ کے سرٹیفکیٹ کے بارے میں معلومات کریں گے، اسکے وزارت ھیلتھ میں بھی کافی تعلقات ھیں !!!!!!!

    مجھے ایک اور امید کی کرن نظر آئی، اور کچھ دل میں ایک سکوں سا محسوس ھوا، اسی دوران میں وھاں سے وقت گزارنے کیلئے ایک دوست کے پاس چلا گیا، اور شام ھوتے ھی وعدے کے مظابق خالد صاحب کے گھر پہنچا، تو دیکھا کہ ان کے گھر پر تالا لگا ھوا تھا، میں نے وہاں کھڑے ھوئے چند لوگوں سے پوچھا کہ خوجہ خالدصاحب کا پتہ ھے کہاں چلے گئے، ان میں سے ایک نے جواب دیا کہ ان کا کچھ دیر پہلے ھی ھارٹ اٹیک کے سبب انتقال ھوچکا ھے ان کی میت اس وقت ان کے والد صاحب کے گھر پر ھے، جو کوہ نور ملز میں کام کرتے ھیں،اور وہیں انکے بنگلے سے ھی رات کو عشاء کے بعد ان کی تدفین نزدیکی قبرستان میں ھوگی،!!!!

    یہ سنتے ھی میرے پیروں کے تلے سے زمین نکل گئی اور مجھے چکر سے آنے لگے اور میں ‌وہیں زمین پر بیٹھ گیا، اور میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے،!!!!!!

    اپنی زندگی میں ایسی ٹریجڈی میں‌ نے کبھی نہیں دیکھی تھی، کچھ وقت پہلے ھی میں نے ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا تھا، وہ میرے بہت ھی مہربان انجارج رھے تھے، جب میں اسی شہر راولپنڈی میں ھی اس کمپنی میں 1983 سے 1985 تک میرا ان کا بہت ھی اچھا ساتھ رھا تھا، اور وہ ھمیشہ سب کے ساتھ بغیر کسی عذر کے خدمت کرتے رھے، اور آج شاید میری ان سے آخری ملاقات ھونی تھی، اس لئے میں ان سے کسی کام کے سلسلے میں مدد کیلئے آیا تھا، لیکن وہ میری مدد کئے بغیر ھی چلے گئے، مگر ان کی دعاء آج تک مجھے یاد ھے کہ “ انشااللہ تعالی میری دعاء یہی ھے کہ تم خالی ھاتھ واپس نہیں جاؤ گے“،!!!!!“

    میں وھاں سے سیدھا خواجہ خالد محمود صاحب کے گھر کوہ نور ملز کے رھائشی بنگلوز میں پہنچا، اور وہاں پر کافی ھزاروں کی تعداد میں لوگ ان کا آخری دیدار کرنے آئے تھے، ان میں سے کافی میرے بھی جاننے والے تھے اور سب کی آنکھوں میں آنسو تھے اور کچھ تو دھاڑیں مار کر رو رھے تھے، انکے بھائی سے میری اچانک ملاقات ھوئی، ان سے میری ملاقات ان کے مرحوم بھائی کے گھر پر ھی دوپہر میں کھانے پر ملاقات ھوئی تھی، وہ مجھ سے لپٹ گئے اور روتے ھوئے کہہ رھے تھے کہ آج آپکے ساتھ وہ دوپہر میں کھانے پر بالکل صحیح سلامت تھے ، اور اس وقت دیکھو ان کی میت رکھی ھوئی ھے،!!!! انکے والد صاحب بھی بہت رورھے تھے،!!!!!

    مجھے وہ اپنے ساتھ اندر لے گئے اور آخری دیدار کرایا، مجھے یقیں ھی نہیں آرھا تھا کہ انکا انتقال ھو گیا ھے، ان کا چہرہ بالکل ھشاش بشاش لگ رھا تھا، لگتا تھا کہ وہ ابھی اٹھیں گے اور کہیں گے چلو سید بھائی اور میرے ساتھ میرے کام کے لئے چل دیں گے، ان کے اس حادثہ کے بعد تو میں نے اپنا باھر جانے کا اردہ بدل ھی لیا تھا،!!!!!!

    خواجہ صاحب کی تدفین کے بعد سب سے رخصت لیتا ھوا، میں سیدھا اپنے دوست کے پاس آیا اور دوسرے دن اسی اپنی پرانی کمپنی میں دوستوں سے ملنے کیلئے گیا، اس دن اس کمپنی میں بالکل سوگ کا عالم تھا، سب سے ملتے ھوئے میں اجازت لے رھا تو ایک انکے ھی دوست جناب حاجی نسیم صاحب نے مجھ سے کہا کہ تمھارا کام اب میں کراونگا اس وقت میرے ساتھ چلو، وہ میرے والد صاحب کے دوستوں میں سے بھی تھے، مگر میں بے دلی سے صرف انکا دل رکھنے کیلئے ان کے ساتھ چل دیا،

    وہ مجھے ان کے دوست کی ایک ٹریول ایجنسی پر لے گئے، اور وہاں انہون نے کہا کہ یہ میرے بچوں سے بھی زیادہ عزیز ھے اس کا کام ھونا چاھئے، ساری کہانی پھر سے میں نے سنائی، انہوں نے کہا کہ،!!!! کوئی مسئلہ ھی نہیں حاجی صاحب کل اسکا کام ھوجائے گا، اپ کوئی فکر ھی نہ کریں میں نے انہیں سارے دستاویزات دکھائے، انہوں نے کہا کہ مجھے کچھ نہیں چاھئے آپ بس مجھے پاسپورٹ دے دیں اور کل آکر کسی بھی وقت لے جائیں، !!!!!!

    مجھے امید تو بالکل نہیں تھی لیکن مجھے مرحوم خواجہ خالد محمود صاحب کی ایک دعاء پھر یاد آرھی تھی،!!!!!

    انشااللہ تعالی میری دعاء یہی ھے کہ تم خالی ھاتھ واپس نہیں جاؤ گئے،!!!!!

    دوسرے دن میں اسی ٹریول ایجنسی پر پہنچا اور وھاں پر انہوں نے مجھے کچھ انتظار کرنے کو کہا اور کسی کو ٹیلیفون کیا پھر کچھ ھی دیر میں ایک صاحب داخل ھوئے انہوں نے ان صاحب کو میرا پاسپورٹ دیا، انہوں نے پاسپورٹ کو چیک کیا اور مجھے تھما دیا کہ جاؤ بیٹا خوش رھو تمھارا کام ھوگیا، بس مجھے صرف 219 روپے انہیں دینے پڑے، مجھے تو یہ حیرت انگیز ھی دکھائی دے رھا تھا، اور مجھے یہ یقین ھی نہیں
    ‌آرھا تھا کہ میرا کام ھوگیا ھے اور وہ بھی صرف 219 روپے میں،!!!!!!!! اور میں 31 دسمبر 1989 کو کراچی ائرپورٹ سے جدہ کیلئے ایک سعودیہ کی پرواز سے روانہ ھوگیا،!!!!!!

    پرواز کے دوران میرے کانوں میں مرحوم خواجہ خالد محمود صاحب کی یہ دعاء گونجتی رھی تھی،!!!!!!!!

    انشااللہ تعالی میری دعاء یہی ھے کہ تم خالی ھاتھ واپس نہیں جاؤ گئے،!!!!!
    ---------------------
     
  22. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    ایک اور میری “یادوں کی پٹاری“ کا ایک نازک موڑ جہاں میں بہت بڑی بڑی آزمائشوں سے گزرا جو آگے اپنی ایک تسلسل کے ساتھ بیان کرونگا
    لیکن اس کی ایک چھوٹی سی کڑی آپ کی نذر کرنا چاھوں گا، ھوسکتا ھے کہ کچھ میرے دوست اس سے ناراض بھی ھوسکتے ھیں، لیکن یہ ایک حقیقت ھے، !!!!!!

    میں 1998 کے وسط میں، سعودی عرب سے اپنے کنٹریکٹ ایگریمنٹ کو قبول نہ کرتے ھوئے استعفیٰ دے دیا تھا اور پاکستان پہنچتے ھی مجھے ایک پاکستانی کنسٹرکشن کمپنی کی توسط سے “ترکمانستان“ کے دارالحکومت “اشک آباد“ میں بھی ایک سال کے لئے کام کے سلسے میں جانے کا اتفاق ھوا تھا، جو پہلے کبھی روس کی ریاست تھی، اب ایک مکمل اسلامی ریاست ھے، وھاں کے مسلمان اب تک اندھیروں میں بھٹکے ھوئے ھیں کیونکہ وھاں پر اسلامی درس و تدریس کا کوئی خاص انتظام نہیں ھے، لیکن کسی سہانے خوابوں کے ایک ملک پرستان سے بھی کم نہیں ھے!!!!!

    وھاں ھر گھر میں چاھے مسلم ھو یا غیر مسلم، ھر ایک کے گھر میں ایک لائبریری ضرور ھوتی ھے جہاں ھر قسم کا لٹریچر، کلچر، ادب اور تمام مذاھب کی کتابیں تشریح کے ساتھ انکی ھی زبان میں موجود ھیں اور انہیں فرصت کے اوقات میں وہ سب زیادہ تر کچھ وقت ان کتابوں کا مطالعہ ضرور کرتے ہیں، ایک غیرمسلم سے میری کچھ بات چیت ھوئی تو اس نے ھمای کتاب قران شریف کو عظیم کتاب کہا اور اس نے یہ بھی کہا کہ آپکی کتاب ایک مکمل ضابطہ حیات ھے، اور ھم نے آپکی اس مذہبی کتاب سے بہت کچھ سیکھا ھے، اور اب تک سیکھ رھیں ھیں، میں نے کہا کہ!!!!!! تو آپ اس مذہب کو اختیار کیوں نہیں کرلیتے، تو اس نے جواب دیا کہ!!!!!، اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کا مذہب دنیا کا بہترین مذہب ھے، آپکی کتاب دنیا کی ایک مکمل ضابطہ حیات ھے، اور تمام مسائل کا حل اس میں موجود ھے اور آپکے لیڈر (حضرت) محمد (ص) دنیا کے سب سے بڑے عالم ھیں، میرا دل تو چاھتا ھے کہ میں آپ کا مذھب اختیار کروں لیکن جب میں آپلوگوں کی اکثریت کو یہاں دیکھتا ھوں اور جب ان کے کردار کو دیکھتا ھوں تو سوچتا ھوں کہ کہیں میں آپ جیسا ھی نہ ھوجاؤں، اس نے یہ بھی کہا کہ،!!!! مانا کہ مجھ میں بہت سی برائیاں ھیں اور میں آپکی کتاب کے مطابق ان برائیوں کو قبول بھی کرتا ھوں، لیکن کم از کم میں آپکے لیڈر کی سیرت پر 50٪ تو عمل کرتا ھوں، آپ لوگ تو انکی 10٪ سیرت پر بھی عمل نہیں کرتے، میں نے پوچھا کہ!!! ‌وہ کیسے ؟؟؟؟؟؟
    تو اس نے کافی اچھے کردار سے متعلق باتیں زبانی مجھے بتائیں، اور ھماری کتاب کے حوالے بھی دئیے،!!! میں یہ سن کر بہت ھی حیران بھی ھوا اور اس کے علاؤہ اس نے تمام حدیثوں کے حوالے سے بھی کافی باتیں کیں، اور مسلمانوں کی کردار کشی اس طرح کی کہ میں خود بھی بہت شرمندہ ھوا، کیا لکھوں کچھ سمجھ میں نہیں آتا، کچھ اسکی زبانی کچھ اشعار آپکی نذر کررھا ھوں،!!!!!!!!!!

    مجھ میں تجھ سا فرق نظر نہیں آتا جاتا ھے
    جو میں کرتا ھوں تو بھی وھی کرتا جاتا ھے

    میں تو پیتا ھوں اپنی ایک عادت ھے لیکن
    تو کس دکھ میں اپنا غم غلط کرتا جاتا ھے

    محرم نا محرم کی تمیز مجھے کیا معلوم
    تو ھر کسی کو بغل میں دبائے چلا جاتا ھے

    میں تو وفا کرتا ھوں ساتھ نبھاتا بھی ھوں
    تو جان چھڑا کر دور ھی سے بھاگا جاتا ھے

    میں تو سچ کا سچا، ساتھ دینے والا ھوں
    تو بلاجھجک جھوٹ ھر جگہ بولتا جاتا ھے

    میں سب کو گلے لگاتا، دنیا میں ھر جگہ
    تو نفرتوں کے ھر طرف جال بچھاتا جاتا ھے

    میں تو تیری کتاب، روز بلا ناغہ پڑھتا ھوں
    تو نے کبھی دیکھا، بس ورق پلٹاتا جاتا ھے

    مجھ میں لاکھ برائی لیکن دکھ نہیں دیتا
    تو زخموں پر نمک، بار بار چھڑکتا جاتا ھے

    میں لاکھ برا صحیح، لیکن برا نہیں چاھتا
    تو دنیا میں برائی کے قصیدے سناتا جاتا ھے

    میں کم از کم غصٌہ، نہیں کرتا کسی پر
    تو روز ھی دنیا میں، فساد پھیلاتا جاتا ھے

    میں نے تیری کتاب سے ھی لیا سبق ھے
    تو اتنے بڑا خزانے کو، کہاں چھوڑتا جاتا ھے

    میں علم و ادب سے مالامال ھوں آج مگر
    تو خزانے کو بازار میں اب ڈھونڈتا جاتا ھے

    میں نے سیکھا ادب تیری ھی کتاب سے
    تو اس کا مطلب ھم سے پوچھتا جاتا ھے

    میں نے تو سیکھا صبر تیرے بزرگوں سے
    تیرے تو صبر کا پیمانہ لبریز ھوتا جاتا ھے

    اپنے حصے کا بھی دوسروں کو دیتے تھے
    تو لوگوں سے چھین کر بھاگتا جاتا ھے

    تیرے بزرگوں کو پیار تھا ایمان سے مگر
    تو خود مال دولت کو گلے لگاتا جاتا ھے

    ھر دل کے ارمان کو اجاڑتا تیرا کام ھے
    بدنصیب ھے گھر کو اپنے جلاتا جاتا ھے
     
  23. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    آپ کی آنٹی دراصل اپنی بہو کو لانے گئی ھیں، بڑے بیٹے اور بیٹی کا نکاح تو پچھلے سال ھی ھو گیا تھا، بس ویزے کا انتظار ھے، انہوں نے ویزے کی تاخیر کی وجہ سے پاکستان میں کچھ اپنے قیام کی مدت بڑھا لی ھے، جیسے ھی ویزا ملے گا ھمارے بڑے صاحب زادے یہاں سے پاکستان روانہ ھوجائیں گے، اور اپنی والدہ اور بہنوں کے ساتھ بمعہ اپنی دلہن کے واپس آئیں گے، اور ھم یہاں اپنی بیگم کے انتظار میں بیٹھے ھیں بمعہ بڑی بیٹی کے، اور یہاں پر وھی اکیلی میری اور اپنے دونوں بھائیوں کی خدمت کررھی ھے،!!!!!جبکہ وہ بھی انشااللٌہ اگلے سال ھم سے رخصت ھوکر اپنے سسرال چلی جائے گی، !!!!!!

    پاکستان سے ایک بہو بیٹی بن کر ھمارے پاس آرھی ھے اور یہاں سے ھماری بیٹی بعد میں کسی اور خاندان کی بہو بن کر جانے والی ھے، اللٌہ تعالیٰ اسے اپنے سسرال میں بیٹی سے بھی زیادہ پیار ملے اور ھمارے گھر جو کسی کی بیٹی بہو بن کر آرھی ھے، اسے بھی اللٌہ تعالی ھمیں توفیق دے کہ ھم اسے بھی اپنی بیٹیوں سے زیادہ پیار اور محبت دے سکیں، آمین،!!!!!!!!!!

    شکر اللٌہ کا کہ اب ایک ظویل انتظار کی گھڑیاں ختم ھوچکی ھیں اور ھماری بہو کا ویزا بھی مل گیا ھے اور ھمارا بیٹا بھی پاکستان پہنچ چکا ھے جہاں پر انکی والدہ اور دو چھوٹی بہنیں انتظار کررھی تھیں، دو دن پہلے ھماری بہو کا ویزا پاسپورٹ پر لگ چکا ھے، اور آج رات آپکی آنٹی اپنی بہو کو ان کے گھر سے رخصت کرانے کی تیاریاں کر چکی ھیں اور کل رات کو پاکستان سے انکی واپسی بھی ھورھی ھے، اور یہاں ریاض میں ایک ھمارے بچوں کی چھوٹی خالہ پہلے سے ھی پاکستان سے پہنچ چکی ھیں، جو ان سب کی استقبال کی تیاری میری بڑی بیٹی کے ساتھ مل کر کریں گی اور خالو بھی جو یہیں سروس کرتے ھیں میرے چھوٹے بیٹے کے ساتھ مل کر باھر کے کام کاج میں مصروف ھیں،!!!

    آپ سب کی دعاؤں سے ایک اور نئی خوشی ھمارے گھر کی دہلیز پر دستک دینے والی ھے، آج پاکستاں میں میری بہو کی رخصتی کی ایک چھوٹی سی تقریب ھورھی ھے، جسکا نکاح سادگی سے ھی ڈیڑھ سال پہلے ھوچکا تھا، جسے لانے کیلئے میری بیگم، بمعہ میرے بیٹے اور دو چھوٹی بیٹیاں پاکستان میں اس وقت موجود ھیں اور میں اپنے ایک چھوٹے بیٹے اور بیٹی کے ھمراہ یہاں پر ھوں، ساتھ بچوں کی چھوٹی خالہ بھی یہاں پہلے ھی پہنچ چکی ھیں، ھم سب کو افسوس تو بہت ھے کہ ھم اس موقعہ پر ان سب کے ساتھ نہیں ھیں، لیکن آفس کے کام کی مصروفیت کی وجہ سے میں شریک ھونے سے قاصر تھا، اور میری بڑی بیٹی اور چھوٹا بیٹا بھی میری ھی وجہ سے نہ جاسکے، جس کا مجھے دکھ بھی ھے، کہ ان دونوں نے میری وجہ سے اپنے بھابھی کی اس تقریب میں شرکت نہ کرسکے، بہر حال انشااللٌہ اگلے سال مارچ یا اپریل میں ھم سب میری بڑی بیٹی کی رخصتی میں ضرور ساتھ ھونگے، !!!!!!

    اس دلہن کے ھمارے گھر میں آنے سے مجھے امید ھے کہ وہ میری اپنی بیٹیوں سے بھی زیادہ پیار پائے گی،،!!!!آج میں اگر کسی کی بیٹی کو اپنی بیٹی سمجھ کر اپنے ساتھ پیار اور محبت سے رکھونگا تو مجھے امید ھے کہ اللٌہ تعالیٰ میری بیٹی کو بھی دوسرے گھر میں خوشیاں نصیب کرے گا،!!!!!!آمین

    اللٌہ تعالیٰ سے دعاء ھے کہ سب تمام بیٹیوں اور بہنوں کو ڈھیروں خوشیاں دکھائے اور ان کی تمام نیک خواھشات اور تمناؤں کو پورا کرئے، آمین،!!!!!!

    ابھی یہاں عشاء کی اذان ھورھی ھے، یہاں کے رات کے آٹھ بج چکے ھیں اور پاکستان میں 10 بج چکے ھونگے،!!!!!

    اجازت چاھتا ھوں، اپنی دعاؤں مین یاد رھئے،

    اللٌہ حافظ،!!!!!
    --------------------
    سامنے سے والد صاحب وارڈ میں داخل ھوئے، اور سب ظرف خاموشی ھوگئی، آتے ھی انہوں نے اپنا اعلان صادر فرما دیا، کہ میں نے اس بچے کا نام آج سے “سید حبیب الرحمٰن“ رکھا دیا ھے، مجھے تو یہ نام اچھا ھی لگا تھا اور سب لوگوں کو بھی بہت پسند آیا، جبکہ کچھ تو پہلے ھی اسکا نام “سید ذیشان“ رکھنے کا سوچ رھے تھے، لیکن والد صاحب نے جو نام رکھا تھا وہ سب کو ھی پسند آیا، ھر طرف خوشیاں ھی خوشیاں بکھری ھوئی تھیں، ھمارے ساس اور سسر بھی اپنے پہلے نواسے کو دیکھ کر خوش ھورھے تھے اور والدین بھی پہلے پوتے کو دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سما رھے تھے، آخر کار بیگم سے رھا ھی نہیں گیا اور انکی نطریں میری ظرف جیسے ھی گھومیں میں نے بھی آنکھوں ھی آنکھوں میں انہیں بیٹے کی مبارکباد دے دی،!!!!!!!

    دسمبر 1981 کے آخری دن تھے اور سردی میں کچھ شدت بھی زوروں پر تھی، گھر میں خوشیاں ھی خوشیاں بکھری ھوئی تھیں، بیگم اسپتال سے گھر پر منتقل ھو چکیں تھیں، مگر وہ بہت ھی زیادہ غمزدہ تھیں، کیونکہ وہ نہیں چاھتی تھیں کہ میں اس طرح باھر رھوں، اور سال میں ایک دفعہ چھٹی میں ملاقات ھو، اور اب تو ایک بچے کی ذمہ داری بھی تھی، میں نے کافی سمجھانے کی کوشش کی کہ کچھ عرصہ مزید انتظار کرلو یا تو میں تمھیں مستقل ویزے پر بلوا لوں گا، یا پھر میں خود واپس اپنا تبادلہ پاکستان کرالونگا، اور میرا بھی اب بالکل دل نہیں چاہ رھا تھا کہ واپس جاؤں، لیکن کیا کروں مجبوری تھی نوکری کا معاملہ تھا، اور بیگم نے بھی ڈھائی سال میں اب تک ایک دفعہ سعودی عرب کا چکر لگا چکی تھیں اور میں بھی یہ تیسری یا چوتھی مرتبہ پاکستان آیا تھا، لیکن پھر بھی ایک ایسا لگتا تھا کہ کچھ تشنگی باقی ھے،!!!!!!

    شادی کے بعد ڈھائی سال میں اگر ڈھائی مہینے ساتھ رھیں تو یہ بھی ایک زیادتی ھے، میں نے یہ بھی سوچا کہ اگر کوئی بھی 20 سال کا عرصہ اگر باھر گزارتا ھے اور سالانہ چھٹی بھی آتا ھو تو اس 20 سال کے عرصہ میں صرف 20 مہینے یعنی کہ صرف دو سال سے بھی کم عرصہ وہ بھی قسطوں میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گزارنا بہت ھی زیادہ افسوس کی بات ھے،!!!!

    میں نے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی لیکن بیگم بضد ھی رھیں کہ اب اور اس سے زیادہ بالکل بھی نہیں!!!!، بیگم بھی اپنی جگہ ٹھیک تھیں اور میں اپنی نوکری کی وجہ سے بھی مجبور تھا، کوئی دوسری نوکری ملنا بھی مشکل تھا، اور گھر والے بھی یہی چاھتے تھے کہ میں واپس چلا جاؤں، اپنی کشتی تو ایک منجھدار میں ‌پھنسی ھوئی ھچکولے کھارھی تھی، مگر بیگم اپنی ضد پر ھی اٹکی ھوئی تھیں، مجبوراً مجھے قسم کھانا پڑی، کہ میں اب تمھیں چھوڑ کر نہیں جاؤنگا، لیکن افسوس کہ میں حالات کے پیش نظر اپنی قسم کو برقرار نہ رکھ سکا، جس کا مجھے آج تک افسوس ھے، اور مجھے واپس جانا پڑا، اور اپنی بیگم کی آنکھوں میں آنسو دے کر رخصت ھوگیا، لیکن اس وعدے کے ساتھ کہ میں جلد ھی بلوالونگا،!!!!!

    لیکن جو میں نے قسم توڑی تھی اسکا بہت ھی افسوس ھوا، بہرحال اللٌہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے، واپس آکر چوتھے مہینے ھی میں نے دوبارہ بیگم اور بچے کا ویزا داخل کردیا اور بیگم اب دوسری مرتبہ اپنے بچے حبیب الرحمن کے ساتھ پہنچ چکی تھیں، اور اس دفعہ سب سب بڑی بات کہ انہوں نے عمرہ کے ساتھ ساتھ حج کی سعادت بھی نصیب ھوگئی، اور ساتھ ھی انکی کچھ ناراضگی بھی کھی حد تک ختم ھو چکی تھی،!!!!!

    اور ایک خاص بات کہ ھمارے بچے حبیب نے 6 یا 7 مہینے کی عمر میں ھم دونوں کے ساتھ 1982 میں سخت گرمیوں کے موسم میں حج کی سعادت بھی حاصل کی،!!!! میرا تو دوسرا حج تھا لیکن بیگم کا 6 مہینے کے بچے کے ساتھ یہ پہلا حج تھا، سخت ترین گرمیوں کے دن تھے، اور واقعی ھماری بیگم کی ھمت کی داد دینی پڑتی ھے کہ انہوں نے اس بچے کے ساتھ اور دھران سے مکہ مکرمہ تک بزریعہ کار تقریباً 26 گھنٹے کا سفر کیا جو ھم دوستوں نے مل کر ایک حج کا قافلہ ترتیب دیا تھا، اور سب کی فیملیوں کے ساتھ مل کر تقریباً چار گاڑیوں کا انتظام کیا تھا، !!!!!

    بعض اوقات تو یہ چھوٹا چھ سات مہینے کا بچہ حبیب الرحمٰن گرمی سے بے چین ھو کر بہت چیخ و پکار کرتا تھا، اور نماز پڑھتے ھوئے خانہء کعبہ میں حج کے دوران یہ تپتے ھوئے فرش پر تڑپ رھا ھوتا تھا، کئی دفعہ تو اسے گود میں اٹھا کر بھی نماز پڑھنی پڑی، حج کے مکمل ھونے کے فوراً بعد ھی حبیب کی والدہ برداشت نہ کر سکیں اور بے ھوش ھوگی تھیں، جنہیں میں اپنے دوست کی گاڑی میں اسی بے ھوشی کے عالم میں طائف لے آیا تھا، جہاں ھماری کمپنی کا رھائیشی کمپاونڈ تھا، وھاں پر جاکر کچھ دوائی وغیرہ کھلائیں اور پورا دن آرام کیا تب کہیں جاکر وہ کچھ سنبھل گئیں، !!!!!!

    یہ اللٌہ کا کرم و مہربانی ھی کی وجہ سے اور پیارے حبیب (ص) کے صدقے انکا حج مکمل ھوچکا تھا، اور حج کے بعد تو ھمارا بیٹا اور بھی صحت مند اور سب کی آنکھوں کا تارا ھوگیا تھا، اس کی معصوم شراتیں آج بھی مجھے یاد ھیں!!!!!
     
  24. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    ہ اللٌہ کا کرم و مہربانی ھی کی وجہ سے اور پیارے حبیب (ص) کے صدقے انکا حج مکمل ھوچکا تھا، اور حج کے بعد تو ھمارا بیٹا اور بھی صحت مند اور سب کی آنکھوں کا تارا ھوگیا تھا، اس کی معصوم شراتیں آج بھی مجھے یاد ھیں!!!!!

    اگست کا مہینہ1982 کا سال میں گرمیوں کے دن اور ارض مقدسہ پر اپنے پہلے بیٹے اور بیگم کے ساتھ ایک ایسی خوشی جو شاید میں نے کبھی اپنی زندگی کبھی محسوس نہیں کی تھی، پہلی اولاد کو اپنے سامنے معصوم سی شرارتیں کرتے ھوئے دیکھتے ھوئے جو مسرت ھوتی ھےکہ میں بتا نہیں سکتا، تین مہینے بھی دیکھتے ھی دیکھتے گزر گئے، اور بیگم اور بیٹے کا ویزا بھی ختم ھو رھا تھا، اور ان کو واپس جانا تھا، واسی کیلئے مجھے دھران سے ریاض واپس آنا تھا، کیونکہ وھاں سے ھماری بیگم کے بڑے بھائی جو ایک سال پہلے ھی اسی کمپنی میں ٹرانسفر ھوکر آچکے تھے۔ اور وہ اب چھٹی واپس جارھے تھے، ان کے ساتھ ھی میں نے سوچا کہ واپس بھیج دوں، ایک دن پہلے ھی میں ریاض پہنچ چکا تھا، ھمارے سسر بھی وہیں پر تھے انہیں کے ساتھ سارا دن گزارا اور رات کے وقت کی فلائٹ تھی،!!!

    جب رات کو ائرپورٹ سے واپس چھوڑ کر آئے تو میرا دل بہت اداس تھا اسی اداسی میں دوسرے دن میں بھی دھران واپس پہنچ گیا، یہاں پر بھی کسی کام میں دل نہیں لگ رھا تھا، تین مہینے بعد میری بھی چھٹی جانے کا وقت آرھا تھا، بڑی مشکل سے وقت گزرا ادھر ھماری بیگم بھی پاکستاں میں بہت ھی اداس تھیں، مگر ان کے ساتھ تو ھمارا بیٹا بھی تھا، جس کے سہارے وہ اپنا کچھ جی کو بہلا بھی رھی تھیں، اور یہ بھی امید تھی کہ میں بھی پہنچ جاؤنگا، مگر ان کی زد بھی تھی کہ یا تو میں پاکستان واپس آجاؤں یا پھر میں انہیں یہاں سعودیہ بلوالوں، جوکہ ابھی فی الحال ممکن نہیں تھا، ایک تو میں ابھی کمپنی میں اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ اپنے ساتھ فیملی رکھ سکوں، اور اس کے علاؤہ سارے اخراجات بھی مجھے خود کرنے پڑتے اور اس تنخواہ میں گزارا بھی مشکل ھوتا،،!!!!!

    میں خود بھی اپنے آپ کو سمجھا نہیں پا رھا تھا، اور دھران کا بھی پروجیکٹ مکمل ھوچکا تھا، اور تقریباً کافی اسٹاف جدہ کے نئے اسٹیڈیم کے پروجیکٹ پر ٹرانسفر بھی ھوچکے تھے، یہاں بھی مجھے چار سال سے زیادہ قیام کو ھوچکے تھے، اور مجھے بھی آخر میں یہاں سے تمام حساب کتاب ختم کرکے واپس جانا تھا، لیکن ایک دو نئے پروجیکٹ یہاں کے ایک نذدیکی کے علاقے الھفوف میں مل جانے کی وجہ سے مجھے کچھ عرصہ کیلئے یہاں دھران میں ھی روک دیا گیا تھا، مگر میرا دل اب بالکل ھی نہیں لگ رھا تھا، میں نے فوراً ھی وہاں پر اپنی کمپنی کی انتظامیہ سے درخواست کی کہ میرا تبادلہ واپس پاکستان کردیا جائے، لیکن انتظامیہ نے منظوری نہیں دی بلکہ انھوں نے مجھے مستقل فیملی ویزے کی پیشکش دے دی اور ساتھ ھی فیملی کے سال میں آنے جانے کا ھوائی جہاز کا ٹکٹ اور ساتھ ھی رھائش اور میڈیکل کی سہولت بھی دینے کا وعدہ کیا، مگر تنخواہ میں اضافے کیلئے نئے ایگریمنٹ تک انتظار کرنے کیلئے کہا گیا جس کیلئے شاید ابھی ایک سال اور باقی تھا، میں نے انکار کردیا، میں مزید ایک سال تک انتظار نہیں کرسکتا تھا،!!!!!

    آخر میں یہی فیصلہ ھوا کہ میں اپنی اس سال کی چھٹی گزار کر آجاؤں اس کے بعد تنخواہ کے بارے میں فیصلہ کریں گے، میں نے بھی اسی کو بہتر جانا اور چھٹی چلا گیا، اور پھر اپنے بچے اور بیگم کے ساتھ اور والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ کچھ دن ھنس بول کر گزارے، لیکن اس دفعہ چھٹیوں میں وہ بات نہیں تھی، کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ پھر واپس اکیلے جانا ھے اور نہ جانے وہاں پر کیا فیصلہ ھو، شادی سے پہلے تو انسان کسی نہ کسی طرح گزار لیتا ھے، لیکن شادی کے بعد اکیلے کہیں بھی رھنا بہت ھی مشکل ھوتا ھے، لیکن کئی لوگ ایسے بھی میں نے دیکھے جو اپنے بچوں سے ملنے کئی کئی سال تک اپنے گھر نہیں جاتے، اور نہ جانے کس مجبوری کے تحت اتنا بڑا دل کر لیتے ھیں،!!!!!
    ---------------------------------------------------------

    کراچی پہنچتے ھی میں نے تیزگام سے راولپنڈی کیلئے ائرکنڈیشنڈ سلیپر کے تیسرے دن کی دو ٹکٹ کی سیٹیں کرالی، بیگم اور اپنے بیٹے کے ساتھ پھر ایک اور اتفاق کہ کافی دنوں بعد پھر اپنی پسندیدہ ٹرین تیزگام سے سفر کرنے کا اتفاق ھورھا تھا،!!!!

    آج پھر میں تیزگام سے راولپنڈی کیلئے سفر کررھا تھا، مگر اپنی بیگم اور بچے کے ساتھ، 1983 کاسال اور مہینہ شاید مئی یا جون کا تھا، گرمیؤن کے دن تھے، اس لئے ائرکنڈیشنڈ سلیپر میں سفر کررھا تھا، مجھے اپنے بچے کی زیادہ فکر تھی، میں کبھی خود کبھی بچپن سے اسی تیزگام میں اپنے والدین کے ساتھ سفر کرتا رھا، اور آج میرا بیٹا جو تقریباً ڈیڑھ سال کا ھونے والا تھا آج وہ اپ ھمارے ساتھ اسی تیزگام میں سفر کررھا ھے، مگر تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ کہ وہ ائرکنڈیشنڈ بوگی میں سفر کررھا ھے، جس میں بہت سکون ھے، کوئی بھی باھر کی آواریں نہیں آرھی، کھڑکی مکمل ظور پر بند ھے، بس باھر کا منظر دیکھ ھی سکتے ھیں، کوئی آواز سن نہیں سکتے، اور نہ ھی کھڑکی سے کسی کو آواز دے سکتے ھیں، بس ٹرین جب چلتی ھے تو بہت ھی آھستہ اسکی مدھم سی کھٹ کھٹا کھٹ کی سر سنائی دیتے ھیں، !!!!!

    خیر وہ بات نہیں تھی، کیونکہ مجھے تو باھر کی آوازوں میں دلچسپی تھی، ایک چھوٹا سا ایک کمپارٹمنٹ ھی تھا، دروازے کو بھی لاک کرکے رکھا ھوا تھا، مسافروں کا بھی کوئی شور نہیں تھا، لگتا تھا کہ اپنی ھی ایک دنیا ھے، بس اپنے بچے سے کھیلتے خوش گپیاں کرتے ھوئے وقت کو پاس کررھے تھے، کبھی دروازے پر دستک ھوتی تو سامنے یا تو ٹکٹ چیکر ھوتا یا ڈائیننگ کار کا ویٹر، اور کوئی شور شرابا نہیں تھا، ضرورت کی چیزیں سب موجود تھیں، بس ویٹر سے کھانے کے وقت کچھ لنچ ، ڈنر ایک دفعہ صبح کا ناشتہ منگوالیا تھا، ایک دو دفعہ چائے بھی منگوالی تھی، دوسرے دن تیزگام لاھور کے اسٹیشن پر تھی، اور جب وھاں سے چلی تو مزید چھ یا سات گھنٹے میں راولپنڈی پہنچ گئی،!!!
     
  25. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    آج میں تیزگام کے سفر کو زیادہ طول نہیں دونگا، کیونکہ اس سفر میں اپنی ایک پہچان، اپنی سوچ، اپنی ایک امنگ نہیں نظر آئی، وہ خوشی وہ مسرت مجھے دکھائی نہیں دی، میں خود حیران پریشان تھا کہ مجھے وہ اس سفر میں اپنا پن نظر نہیں آرھا تھا جبکہ میرے ساتھ میری بیگم اور ایک ھنستا مسکراتا سا بچہ بھی تھا لیکن نہ جانے کیوں ایک عجیب سی گھٹن محسوس ھورھی تھی، !!!!

    وجہ جو مجھے نظر آئی وہ یہ تھی کہ میں آج سب سے الگ تھلگ سفر کررھا تھا، ایک ائرکنڈیشنڈ سلیپر کے کمپارٹمنٹ میں، جو کہ چاروں طرف سے سیل بند تھا، سوائے ٹریں کی ھلکی سی کھٹ کھٹا کھٹ سنائی دے رھی تھی، لوگوں کا ھجوم بھی آس پاس نہیں تھا، شیشے کی کھڑکی بھی بند، باھر کی آواز اندر نہیں آسکتی تھی، اسٹیشن کی گھما گھمی نظر تو آتی تھی لیکن بے آواز تھی، چیزیں بیچنے والے باھر آوازیں لگا رھے تھے لیکن بند شیشے سے ھم باھر تو دیکھ سکتے تھے لیکن باھر سے وہ لوگ ھمیں دیکھ نہیں سکتے تھے، اپنے لوگوں سے یہ کیسی دوری تھی اپنی ثقافت سے جڑے ھوئے ان سادہ لوح لوگوں سے ھم لوگ بہت ھی دور ھوتے جارھے تھے،!!!!

    آج کیونکہ اب اتنی حیثیت بڑھ گئی تھی، کہ ھر باحیثیت آدمی کو صرف اپنی سہولت نظر آتی تھی، کسی عام آدمی کی زندگی سے کوئی غرض نہیں تھا، وھی عام ادمی جو غریب ضرور گے لیکن اس کے دل میں ایک عزم ایک جوش ھے، اسکی زندگی میں ایک خوشی ھے وہ جس بھی حالت میں ھے ھر لمحہ کو دوسروں کیلئے وقف کردینا چاھتا ھے، وہ ھر اپنی خوشی کو دوسروں میں بانٹنا چاھتا ھے ھر ایک کو عزت اور احترام سے ادب سے دیکھتا ھے، لیکن آج جس کے پاس کچھ تھوڑا سا بھی پیسہ آجائے تو وہ ان سب خوشیوں سے اپنا منہ موڑ لیتا ھے اور ھر کسی کی خوشی کو چھین کر اس پر قبضہ کرنا چاھتا ھے، اور جب انہیں ان لوگوں کی ضرورت ھوتی ھے تو وہ انہی عام لوگوں کے گھروں پر دستک دیتے ھیں، بھیک مانگتے ھیں، صرف ایک ایک ووٹ کیلئے،!!!!

    خیر بات ھورھی تھی راولپنڈی کے اسٹیشن کی جہاں تیزگام پہنچ چکی تھی، میرا ایک دوست مجھے لینے آیا ھوا تھا، جسے میں نے پہلے سے ھی اطلاع دی ھوئی تھی، جبکہ ابھی تک کوئی رھائش کا بندوبست نہیں ھوا تھا، مگر اس نے وعدہ کیا تھا کہ جب میں وہاں پہنچ جاؤں تو مکان تلاش کرلیں گے، فی الحال وہ ھمیں اپنے گھر لے گیا، اور کچھ دن تک ان کے گھر ویسٹریج کے ایک علاقے میں ٹہرے رھے، اور میں مکان کی تلاش کے ساتھ ساتھ ڈیوٹی پر بھی جارھا تھا، بڑی مشکل سے ایک مکان ٹینچ بھاٹہ میں ایک چھوٹا اچھا مکان مل گیا، نیچے مکان مالک اور انکی فیملی رھتی تھی اور اوپر ھم نے500 روپے کرایہ پر مکان لے لیا تھا، جو آج کل چھ ھراز تک کرایہ پر مل جائے تو بھی غنیمت ھے، اور اس وقت تنخواہ 2500 تک تھی، 1983 میں بھی کہتے تھے کہ مہنگائی ھے، کیونکہ جب 1972 میں میرا ٹرانسفر یہاں ھوا تھا تو اس وقت یہی مکان 50 روپے کرائے پر باآسانی سے مل جاتا تھا، مگر اس وقت تنخواہ 200 سے 300 تک مل جاتی تھی اور آرام سے گزارا ھوجاتا تھا، لیکن اب تو 20 ہزار روپے بھی تنخواہ ھو تو گزارا نہیں ھوتا،!!!!!

    بہرحال اس تنخواہ میں گزارا مشکل سے ھوتا تھا، جو کچھ بھی ساتھ سعودیہ سے پیسے ملے تھے، یہاں سب برابر ھی ھوگئے، وہاں پہنچنے کے ایک سال بعد 1984 فروری میں ایک ھماری بیٹی کا آضافہ ھوگیا، اسی دوران ایک دوسرے مکان جو دفتر کے نذدیک تھا شفٹ ھوگئے، جس کا کرایہ 600 روپے تک تھا اور تنخواہ میں بھی کوئی خاص اضافہ نہیں ھوا تھا، شاید 300 روپے تک بڑھ چکے تھے، اور اب تو چھوٹا بھائی بھی یہیں ساتھ ھی تھا اسے بھی یہاں ایک ادارے میں سروس مل گئی تھی،!!!!! اور وہ ھمارے ساتھ ھی رہ رھا تھا،!!!!!

    1985 کے درمیان ایک چھوٹی سی بات پر غصہ میں 15 سال کی اچھی خاصی نوکری چھوڑ دی، اور مجھے واپس کراچی واپس آنا پڑا اور ایک رینٹ اے کار میں ملازمت ملی لیکن تنخواہ 2500 روپے تھی، اس دفعہ مجھے بہت تکلیف اٹھانی پڑی، مجھے اپنی پچھلی نوکری کو چھوڑ کر بہت ھی پریشانیاں اٹھائیں، لگی لگائی روزی کو اس طرح چھوڑنا اللٌہ کو بھی ناگوارگزرتا ھے،میں چار سال تک بہت ھی مشکلات اور تکلیفوں سے دوچار رھا جو میں اگلی نشست میں بیان کرونگا، اپنے دوستوں سے یہی التجا ھے کہ بغیر کسی وجہ کہ نوکری چھوڑ دینا اچھی بات نہیں ھے، کہ میں نے چار سال تک جو پریشانیاں اٹھائیں، وہ میرا دل ھی جانتا ھے،!!!!!

    -------------------------------
    1985 کے درمیان ایک چھوٹی سی بات پر غصہ میں 15 سال کی اچھی خاصی نوکری چھوڑ دی، اور مجھے واپس کراچی واپس آنا پڑا اور ایک رینٹ اے کار میں ملازمت ملی لیکن تنخواہ 2500 روپے تھی، اس دفعہ مجھے بہت تکلیف اٹھانی پڑی، مجھے اپنی پچھلی نوکری کو چھوڑ کر بہت ھی پریشانیاں اٹھائیں، لگی لگائی روزی کو اس طرح چھوڑنا اللٌہ کو بھی ناگوارگزرتا ھے،میں چار سال تک بہت ھی مشکلات اور تکلیفوں سے دوچار رھا جو میں اگلی نشست میں بیان کرونگا، اپنے دوستوں سے یہی التجا ھے کہ بغیر کسی وجہ کہ نوکری چھوڑ دینا اچھی بات نہیں ھے، کہ میں نے چار سال تک جو پریشانیاں اٹھائیں، وہ میرا دل ھی جانتا ھے،!!!!!

    میں نے یہ بہت غلطی کی تھی کہ جذبات میں آکر اتنی پرانی سروس چھوڑدی، مگر جس دن نوکری چھوڑی اسی دن شام کو دفتر میں اسلام آباد سے ایک دوست کا ٹیلیفون آگیا، کہ انکے آفس کی کراچی کی برانچ میں ایک اکاونٹنٹ کی جگہ خالی ھے، یہ دوست بھی میرے ساتھ اسی کمپنی میں تھا اور بہت پہلے ھی یہاں سے جا چکا تھا، نہ جانے اسے کیسے پتہ چلا کہ میں نے یہ سروس چھوڑ دی ھے،!!!!!

    میں اسی دن دوست کے ھیڈ آفس اسلام آباد پہنچا اور اس نے اپنے اکاونٹس منیجر سے ملا دیا، بس انہوں نے دو چار باتیں کیں اور تنخواہ 2500 روپے پتائی اور انکی کمپنی جو ایک انٹرنیشنل رینٹ-اے- کار کمپنی تھی، اور اتفاق دیکھئے اسی دن انہوں نے مجھے تقرری کا لیٹر بھی دے دیا اور ساتھ ھی اسلام آباد سے کراچی کا ھوائی جہاز کا ٹکٹ بھی تھما دیا، اور تاکید کی کہ میں فوراً ھی کراچی پہنچتے ھی وہاں کے منیجر کو رپورٹ کروں، میں نے کہا کہ مجھے یہاں سے اپنا فائنل حساب کتاب بھی لینا ھے اور اس کے لئے مجھے کم از کم دو دن درکار ھیں، لیکن وہ نہیں مانے کہنے لگے کہ وہاں پر آپکا کل پہنچنا بہت ضروری ھے ورنہ کسی اور نے اگر ڈیوٹی پر رپورٹ کردی تو ھمارے لئے مشکل ھو جائے گی، کیونکہ ھم نہیں‌چاھتے کہ وہاں پر ھماری مرضی کے بغیر کسی کی تقرری ھو،!!!!!

    بیگم اور دونوں بچے تو ایک ھفتہ قبل ھی کراچی کسی تقریب کے سلسلے میں جاچکے تھے، اور مجھے یہاں چھٹی نہیں مل رھی تھی، اور یہی وجہ تھی کہ مجھے نوکری چھوڑنی پڑی، دوسرے دن صبح پرانی کمپنی سے جلدی جلدی حساب کتاب لے کر، اور اپنے چھوٹے بھائی کو جو میرے ساتھ ھی رھتا تھا، اسکے حوالے تمام سامان حوالے کیا، اس ہدائت پر کہ اگر اچھی قیمت ملتی ھے تو بیچ دینا ورنہ کراچی میں کارگو کروادینا، جلدی جلدی میں دو سوٹ کیس میں جو کپڑے اور ضروری چیزیں تھیں، انہیں پیک کیا، اور اسلام آباد ائرپورٹ پہنچ گیا، سب کو اظلاع پہلے ھی دے چکا تھا، اور سب وہاں حیران تھے، کہ میں بذریعہ ھوائی جہاز آرھا تھا، کیونکہ یہ میرا پہلا ھوائی سفر کا اتفاق تھا،!!!!

    کراچی ائرپورٹ سے جیسے باھر نکلا تو دیکھا کہ ایک باوردی ڈرائیور اس رینٹ-اے-کار کا ایک بورڈ لئے کھڑا تھا، جس پر میرا نام لکھا تھا، میں نے اسے ھاتھ سے اشارا کیا اس نے فوراً ھی مجھے سلام کیا اور مجھ سے سامان کی ٹرالی لے لی، اور پارکنگ کی طرف چل پڑا، میں بھی اسکے پیچھے، اور تمام گھر والے بھی ائرپورٹ پر موجود تھے، سب سے ملا، اور سب حیران کہ میں نے پہلی مرتبہ سوٹ اور ساتھ ٹائی لگا رکھی تھی، سب گھر والے بھی پریشان کہ ایک تو سوٹ ٹائی میں ملبوس اور دوسرے کسی کمپنی کی گاڑی مجھے لینے آئی تھی، گھر والے تو سوزوکی پک اپ میں آئے تھے، کچھ تو میرے ساتھ بیٹھ گئے، اور میرا سامان کو ڈرائیور نے ایک سوٹ کیس تو اپنی کار میں ڈالا اور دوسرا سوٹ کیس اور باقی سامان پک اپ میں رکھ دیا، اور پھر گھر کی طرف روانہ ھوگئےَ!!!!!
    -------------------------------------
    کراچی ائرپورٹ سے جیسے باھر نکلا تو دیکھا کہ ایک باوردی ڈرائیور اس رینٹ-اے-کار کا ایک بورڈ لئے کھڑا تھا، جس پر میرا نام لکھا تھا، میں نے اسے ھاتھ سے اشارا کیا اس نے فوراً ھی مجھے سلام کیا اور مجھ سے سامان کی ٹرالی لے لی، اور پارکنگ کی طرف چل پڑا، میں بھی اسکے پیچھے، اور تمام گھر والے بھی ائرپورٹ پر موجود تھے، سب سے ملا، اور سب حیران کہ میں نے پہلی مرتبہ سوٹ اور ساتھ ٹائی لگا رکھی تھی، سب گھر والے بھی پریشان کہ ایک تو سوٹ ٹائی میں ملبوس اور دوسرے کسی کمپنی کی گاڑی مجھے لینے آئی تھی، گھر والے تو سوزوکی پک اپ میں آئے تھے، کچھ تو میرے ساتھ بیٹھ گئے، اور میرا سامان کو ڈرائیور نے ایک سوٹ کیس تو اپنی کار میں ڈالا اور دوسرا سوٹ کیس اور باقی سامان پک اپ میں رکھ دیا، اور پھر گھر کی طرف روانہ ھوگئےَ!!!!!

    تمام گھر والے حیران پریشان ھوگئے کہ یہ کیا ماجرا ھے، ایسی آؤ بھگت اور وہ بھی نئی کمپنی کی جانب سے، شاید کوئی بڑی افسری کی نوکری مل گئی ھے، مجھے تو صرف اکاونٹنٹ کی ھی نوکری ملی تھی، میں نے بھی سب کے سامنے ذرا اپنی گردن اکڑا لی، گھر پہنچ کر میں نے کمپنی کے ڈرائیور کو کچھ دیر رکنے کے لئے کہا، گھر پر ایک پیالی چائے پی کر اور سب سے مل کر اسی کار میں بیٹھ کر آفس پہنچ گیا، وھان کے منیجر سے ملاقات ھوئی، بہت ھی نفیس انسان تھے،!!!

    باقی اسٹاف سے بھی ملاقات ھوئی، کوئی زیادہ اسٹاف نہیں تھا 20کے قریب ڈرائیور حضرات تھے، اور ھر ایک پاس شیڈیول کے مطابق کاریں تھیں ایک ھمارا کاونٹر ایک 5 اسٹار ھوٹل میں تھا، منیجر اور اکاونٹنٹ کے علاوہ ایک ایڈمن اسٹنٹ ایک اکاونٹس کلرک، اور ایک سپروائیزر اور 6 کاونٹر اسٹنٹ تھے، اور ایک چوکیدار بھی تھے جو رات کو تمام کاروں کی دیکھ بھال پر مامور تھے، جو مختلف اوقات میں ڈیوٹی انجام دیتے تھے، بہرحال سب سے ملاقات کرائی گئی سب پہت اچھے تھے، مجھے سب سے مل کر خوشی ھوئی،!!!!

    کافی رات تک وھاں کا نطام دیکھتا رھا اور اسلام آباد سے بھی کچھ تھوڑا بہت سمجھ کر آیا تھا، سارے سسٹم کو سمجھنے میں مجھے ایک ھفتہ لگا، اور پھر شروع ھوگیا، اور اللٌہ کے کرم سے وھاں کا بزنس بھی بڑھتا گیا، میری تنخواہ ایک سال میں بڑھا دی گئی اور ساتھ ھی عہدہ بھی بڑھا دیا گیا، میرے کام سے انتظامیہ بھی خوش تھی، بس خوش وہ لوگ نہیں تھے، جن کی اوپر کی آمدنی میری وجہ سے کھٹائی میں پڑگئی تھی، انہیں میری ترقی سے بھی کچھ حسد سی ھو گئی تھی اور مجھے یہ بالکل قطعی علم نہیں تھا کہ مجھ سے کچھ لوگ نالاں بھی ھیں، اور میرے خلاف سازشوں کا جال بن رھے ھیں، اور گروپ بندی خاموشی سے ھورھی تھی، اور میں بالکل بے خبر اپنے کام میں مصروف تھا!!!!!
     
  26. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    کافی رات تک وھاں کا نطام دیکھتا رھا اور اسلام آباد سے بھی کچھ تھوڑا بہت سمجھ کر آیا تھا، سارے سسٹم کو سمجھنے میں مجھے ایک ھفتہ لگا، اور پھر شروع ھوگیا، اور اللٌہ کے کرم سے وھاں کا بزنس بھی بڑھتا گیا، میری تنخواہ ایک سال میں بڑھا دی گئی اور ساتھ ھی عہدہ بھی بڑھا دیا گیا، میرے کام سے انتظامیہ بھی خوش تھی، بس خوش وہ لوگ نہیں تھے، جن کی اوپر کی آمدنی میری وجہ سے کھٹائی میں پڑگئی تھی، انہیں میری ترقی سے بھی کچھ حسد سی ھو گئی تھی اور مجھے یہ بالکل قطعی علم نہیں تھا کہ مجھ سے کچھ لوگ نالاں بھی ھیں، اور میرے خلاف سازشوں کا جال بن رھے ھیں، اور گروپ بندی خاموشی سے ھورھی تھی، اور میں بالکل بے خبر اپنے کام میں مصروف تھا!!!!!

    ایک بات تو بتانا ھی بھول گیا کہ 5 نومبر 1985 ھمارے یہاں ایک اور بیٹے کی پیدائش ھوئی، جس کانام سید دانش رکھا گیا، لیکن افسوس کہ اس کی پیدائش کے فوراً بعد ھی وہ بہت سخت بیمار ھوگیا جسے شاید سوکھے کی بیماری کہتے ھیں، اور اس کی پیدائش کے تقریباً 6 مہینے تک ھم دونوں میاں بیوی اسے گود میں اٹھائے اٹھائے نہ جانے کتنے ڈاکڑوں حکیموں، یہاں تک کہ عالموں اور مولویوں سے رجوع کیا اس کے علاوہ دو تین اسپتال میں بھی یہ ننھی سی جان داخل رھی، لیکن ھر طرف سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا آخرکار سب نے صاف جواب دے دیا کہ اس کا بچنا پہت مشکل ھے بس اللٌہ سے دعاء کریں،!!!!!!

    ایک جگہ میں نے اپنے بیٹے کی اس بیماری کے متعلق کچھ حوالہ بھی دیا تھا، شاید آپ سب نے پڑھا بھی ھو!!!!!

    جہاں تک بیماری کا تعلق ھے، اسکے لئے علاج اور معالجہ کی سہولت کو بروئے کار ضرور لانا چاھئے، علاج سنت بھی ھے، اور دل کو ایک اطمنان بھی حاصل ھوجاتا ھے، لیکن کئی دفعہ بہت سے واقعات ایسے بھی رونما ھوئے ھیں کہ بغیر علاج کے بھی شفا ملی ھے اور کئی ایسے بھی واقعات دیکھنے میں آئے ھیں، جو کافی علاج کے بعد بھی افاقہ نہ ھوا، اور اللٌہ توکل سے ھی وہ بیماری ختم ھوگئی، اور کئی تو وفات بھی پا گئے، جہاں علاج معالجہ کا حکم ھے، وہاں بعض علاج میں ناکامی کے بعد اللٌہ تعالیٰ کے مکمل یقین اور دعاؤں کے ساتھ عقیدت سے بھی شفا ملی ھے !!!

    ایک میں بھی اپنا ھی ایک حقیقی واقعہ پیش کرنا چاھوں گا، کہ میرا دوسرا بیٹا جو پیدا ھونے کے چھ ماہ بعد تک مسلسل بیمار رھا اور ھم نے ان چھ مہینوں کے دوران تمام بڑے ھسپتالوں، بہترین ڈاکڑوں، مستند طبیبوں، کے علاؤہ عاملوں، مولویوں، دیسی ٹوٹکے اور جو کچھ بھی ھم سے ھوسکتا تھا ھم نے سب آزمالئے، لیکن کہیں بھی اسکی صحت بہتر نہ ھو پائی اور روز بروز وہ بلکل کمزور ھوگیا، دو تین دفعہ تو کئی کئی دن اسپتالوں میں داخل بھی رھا اور سب نے بالآخر یہ شبہ ظاھر کردیا، کہ یہ اس کا بچنا بہت مشکل ھے بس کوئی اللٌہ تعالیٰ کی طرف سےمعجزہ یا دعاء ھی اس کو بچا سکتا ھے، اور سونے پر سہاگہ کہ آخر میں اسے خسرہ کے دانے نکل آئے، جس سے تو رھی سہی امید بھی ختم ھوگئی تھی، اور ھم بس کرگئے اور جو علاج چل رھا تھا ھم نے بند کردیا اور یہ واقعہ میری زندگی کا سب سے بڑا صبر آزما دور تھا، مگر ھم میاں بیوی پھر بھی اللٌہ کی ذات سے مایوس نہیں ھوئے، اور ھم نے بس اللٌہ تعالیٰ سے دعاؤں پر ھی اکتفا کیا،

    اور آپ یقین جانے کہ خسرہ کے دوران اسکی بے ھوشی اور سکتے کا عالم ایسا تھا کہ اکثر نے تو اس کے لئے موت کی دعاء مانگی کہ اس کو اس مشکل سے اللٌہ تعالیٰ نجات دلادے، مگر اگر اسے کچھ ھوجاتا تو یہ ھم دونوں کے لئے یہ بہت مشکل تھا کہ اپنے آپ کو سنبھال سکتے، شاید پاگل ھی ھوجاتے، میری بیوی کی حالت تو پہلے سے ھی بالکل غیر تھی، مگر ھم دونوں نے صرف اور صرف اللٌہ تعالیٰ کی ذات سے ھی امید رکھی اور اس بات کا مکمل یقین بھی رکھا کہ وہ ھمارے بیٹے کو اپنے حبیب (ص) کے صدقے شفا ھی دے گا،!!!!!

    اور جیسے ھی خسرہ کے دانے مندھم پڑے میرا بیٹا آھستہ آھستہ ٹھیک ھونا شروع ھوگیا، اور چند ھی دنوں میں بالکل صحت مند ھوگیا، سبحان اللٌہ کیا اللٌہ کی شان تھی، جو کسی علاج سے ٹھیک نہیں ھو سکا وہ اللٌہ کی دی ھوئی ایک دوسری بیماری کے بعد ایک معجزے کی طرح ٹھیک ھوگیا، اس نے ھم سب کی تڑپ آہ اور فریاد سن لی تھی،!!!!!

    اس مشکل کے وقت میں مجھے اپنی نئی نوکری کو بھی دیکھنا پڑتا تھا، بیٹے کے ٹھیک ھونے کے بعد آھستہ آھستہ سروس پر بھی کنٹرول ھوتا چلا گیا، اور اچھی خاصی کامیابی بھی حاصل کرلی تھی اور 1986 کے درمیان میں ایک سال مکمل ھونے کے بعد تنخواہ میں بھی اضافہ ھوگیا، اور 1989 میں مجھے وھاں کا اسسٹنٹ منیجر بنا دیا گیا لیکن کچھ لوگوں کو میری اس ترقی سے حسد اور مایوسی بھی ھوئی، کیونکہ کچھ لوگوں کی آوپر کی آمدنی میں بہت کچھ کمی ھوگئی تھی، اس لئے انہوں نے میرے خلاف ایک مہم کا آغاز بھی کردیا، جس کی وجہ سے مجھے بعد میں بہت سے نقصانات بھی اٹھانے پڑے، نوکری چھوڑنی پڑی اور ساتھ ھی معاشی حالات بہت خراب سے خراب ھوتے چلے گئے، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میرے پاس میرے اسی چھوٹے بچے کیلئے دودھ کے پیسے بھی نہیں تھے، جسکی تفصیل میں بعد میں اگلی نشست میں تحریر کرونگا،!!!!!!!

    ----------------------------------

    س مشکل کے وقت میں مجھے اپنی نئی نوکری کو بھی دیکھنا پڑتا تھا، بیٹے کے ٹھیک ھونے کے بعد آھستہ آھستہ سروس پر بھی کنٹرول ھوتا چلا گیا، اور اچھی خاصی کامیابی بھی حاصل کرلی تھی اور 1986 کے درمیان میں ایک سال مکمل ھونے کے بعد تنخواہ میں بھی اضافہ ھوگیا، اور 1989 میں مجھے وھاں کا اسسٹنٹ منیجر بنا دیا گیا لیکن کچھ لوگوں کو میری اس ترقی سے حسد اور مایوسی بھی ھوئی، کیونکہ کچھ لوگوں کی آوپر کی آمدنی میں بہت کچھ کمی ھوگئی تھی، اس لئے انہوں نے میرے خلاف ایک مہم کا آغاز بھی کردیا، جس کی وجہ سے مجھے بعد میں بہت سے نقصانات بھی اٹھانے پڑے، نوکری چھوڑنی پڑی اور ساتھ ھی معاشی حالات بہت خراب سے خراب ھوتے چلے گئے، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میرے پاس میرے اسی چھوٹے بچے کیلئے دودھ کے پیسے بھی نہیں تھے، جسکی تفصیل میں بعد میں اگلی نشست میں تحریر کرونگا،!!!!!!!

    1985 کا سال میرے لئے بہتر ثابت نہیں ھوا، اور یہ حالات میرے ساتھ 1989 تک تقریباً 4 سال بہت ھی پریشان کن رھے، ایک تو وجہ جو میرے سمجھ میں آئی کہ ایک لگی لگائی 14 سال کی بہترین سروس کو جذبات میں آکر چھوڑ دی، اور دوسری بات 1983 میں سعودی عرب سے واپسی کے بعد روزہ اور نماز کی پابندی بھی چھوڑ دی، صرف جمعہ کی نماز مسجد میں جاکر پڑھ لیتے تھے، باقی اگر موڈ ھوا تو پڑھ لی ورنہ نہیں،!!!!

    بیٹے کی پیدائش کے بعد اسکی 6 ماہ تک بیماری میں پریشانی کے دن گزرے، اسکے ٹھیک ھوتے ھی آفس میں سازشوں کا جال میرے خلاف چلا، کیونکہ سب کے کھانے پینے کا سلسلہ بند ھوچکا تھا، کمپنی کو اس کی وجہ سے فائدہ ھورھا تھا، جس کی وجہ سے تین چار لوگ اپنی نوکری سے ھاتھ دھو بیٹھے، جس میں سے ایک منیجر صاحب جو نئے نئے آئے تھے ان کا بھی پتہ صاف ھوگیا، جبکہ وہ ان لوگوں میں قطعاً شامل نہیں تھے، اور بہت ھی اچھے ایماندار انسان تھے اور ایک اچھے گھرانے سے تعلق بھی تھا، اور میرے اچھے دوست بھی تھے،جس کا مجھے بہت ھی زیادہ افسوس ھوا،!!!!

    اور پھر مجھے ان کی جگہ وہاں کا منیجر بنادیا، جس کی وجہ سے چند اور پرانے مالکان کے منہ چڑھے لوگ جو ابھی تک کمپنی میں موجود تھے، اور اچھی پوزیشن میں بھی تھے، وہ میرے سامنے تو بہت اچھے تھے لیکن میرے پیچھے مجھ سے میری ترقی ھونے پر حسد کرنے لگے ھے، اور ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جو لوگ نکالے جاچکے تھے، وہ ان کی اوپر کی آمدنی کا ایک ذریعہ بھی تھے، میں تو بس اپنی اس پریشانیوں کو اپنے ساتھ لئے صبر اور شکر کے ساتھ نوکری کرتا جارھا تھا،!!!!

    اس کے علاؤہ اسی سروس کے دوران گھر کے حالات کچھ ایسے خراب ھوئے کہ والد صاحب اور ایک مجھ سے چھوٹے بھائی کے علاؤہ سب لوگ مجھ سے ناراض رھنے لگے، بچے کی بیماری میں کچھ اتنا زیادہ قرض چڑھ گیا تھا کہ آدھی سے زیادہ تنخواہ تو آفس سے جو قرضہ لیا ھوا تھا اس میں ختم ھوجاتی تھی، باقی جو باھر سے بھی کافی قرضہ لیا ھوا تھا، وہ بھی ساتھ ساتھ اتار رھا تھا، گھر میں کچھ بھی اپنی تنخواہ سے نہیں دے پاتا تھا، جس کی وجہ سے ایک بھائی اور والد کے علاوہ سب بہن بھائی اور ساتھ دوسرے رشتہ دار بھی مل کر مجھے برا بھلا اور طعنے دینے لگے تھے، والدہ بے چاری خاموش تھیں لیکن دوسروں کی باتوں ‌میں آچکی تھیں اور سارا الزام میری بیوی اور میرے تینوں بچوں پر آرھا تھا، میں اسی پریشانی میں بہت سخت بیمار ھوگیا جس کے لئے ذمہ دار بھی میری بیوی اور بچوں کو ٹہرایا گیا، جس کی وجہ سے میری بیگم اپنے تینوں بچوں کو لے کر واپس اپنے والدین کے گھر منتقل ھوگئیں، دفتر سے مجھے چھٹی لینا پڑی، ایک دن میری کچھ زیادہ ھی طبیعت خراب ھوئی اور ساتھ ھی مجھ سے چھوٹے بھائی کی شادی بھی طے پاگئی، تو والد صاحب فوراً ھی میرے سسرال گئے اور میری بیگم اور بچوں کو ساتھ لے آئے،!!!!!

    میری طبیعیت بھی کچھ سنبھلنے لگی تھی، اور میرے بچے بھی میرے ساتھ تھے میں اپنے بچوں سے بہت پیار کرتا تھا، گھر میں ایک بار پھر چھوٹے بھائی کی شادی کا زور شور تھا، اس گھر میں ایک بہو اور آگئی وہ رشتہ میں پھوپھی زاد بھی تھی، اسکی بہت آؤبھگت ھورھی تھی، میری بیگم بھی اس کی خدمت میں لگی رھی، اور ساتھ سب کا خیال رکھنا اپنے بچوں کو سنبھانا، ھر کام وہ بہت ھی سلیقے سے کررھی تھی گھر کا ماحول ایک بار پھر بہت اچھا ھوچکا تھا، مجھے بھی سکون تھا دفتر کی پریشانی الگ تھی لیکن گھر میں ھنسی خوشی دیکھ کر مجھے بہت اطمنان تھا، اور دونوں بہویں گھر میں بہت خوش تھیں دونوں مل جل کر اپنی نندوں اور دیوروں کے ساتھ گھر میں ایک خوشگوار ماحول بنائے ھوئے تھیں،!!!

    اس وقت میں، والد صاحب اور مجھ سے چھوٹا بھائی سروس کررھے تھے اور دو بھائی ابھی پڑھ رھے تھے اور دو چھوٹی بہنیں بھی زیرتعلیم تھی، باقی دو بہنوں کی شادیاں ھوچکی تھیں، ھم سب ملا کر آٹھ بہن بھائی تھے، اور گھر میں سب ھنسی خوشی تھے، لیکن باھر کے رشتہ داروں اور اڑوس پڑوس کی عورتوں کو یہ ھنستا بستا گھر دیکھا نہ گیا، وہ حیران پریشان کہ اتنا آگ لگانے کے باوجود بھی اس گھر میں اب تک جھگڑا کیوں نہیں ھوا،!!!!

    جیسے ھی میں آفس سے گھر پہنچتا گھر میں پہلے سے موجود کچھ تو مجھ سے کہتیں کہ،!!! ارے بیٹا تمھاری بیوی تو اس طرح مشقت کرتے کرتے اپنی حالت خراب کر لے گی، دیکھو نا چھوٹی بہو تو گھر کا کوئی بھی کام کاج نہیں کرتی، بس ھم نے یہی دیکھا کہ سارا دن بے چاری لگی رھتی ھے اور ھم سے تو بات کرنے کا وقت ھی نہیں ملتا ھے بےچاری کو ،!!!!

    اور مجھے اپنی بیگم سے پتہ چلتا کہ وہی عورتیں دوسری بہو کو پرانی بہو کے خلاف اکساتی رھتیں ھیں اور کچھ تو ھماری اماں کے کانوں میں دونوں بہوؤں کے خلاف کاروائی کررھی ھوتیں تھیں، مگر میں اور میری بیگم نے آپس میں یہی تہیہ کیا ھوا تھا کہ کسی کی بھی باتوں کا کوئی اثر نہیں لیں گی، اور اسی طرح وقت گزرتا رھا، دفتر کے حالات میں اور بھی خرابی آتی جارھی تھی، گھر میں کچھ بھی پیسے میں نہیں دے پارھا تھا، جس کی وجہ سے کچھ حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ دفتر میں میرے خلاف لوگوں کی سازش مکمل طور سے کامیاب ھوگئی، اور ادھر گھر میں ایسے حالات کشیدہ ھوئے کہ مجھے والد صاحب نے اجازت دے دی کہ میں باھر کہیں اور مکان کرایہ پر لے لوں، میں اور میری بیگم تو یہ بالکل نہیں چاھتے تھے، لیکن مجبوری بھی تھی، ایک دن تو کچھ زیادہ ھی جھگڑا ھوا، ایک تو میں دفتر سے پریشان گھر پر آیا ادھر گھر کا ماحول بگڑا ھوا تھا،!!!

    مجبوراً میں نے اپنے ایک دور کے رشتہ دار کے یہاں ٹیلیفون کیا کہ مجھے چند دنوں کیلئے ایک اپنا کمرہ دے دیں، انہوں نے فوراً حامی بھر لی اور میں نے اپنی بیگم کے ساتھ ملکر تین سوٹ کیسوں میں ضرورت کے کپڑے وغیرہ ڈالے اور کچھ ضروری سامان سمیٹا اور والد صاحب ستے اجازت لی اور مجھ سے چھوٹے بھائی نے میرے سامان کو پیک کرنے میں مدد کی اور ٹیکسی لے کر آیا اور ھمارے ساتھ نئے گھر تک چھوڑنے بھی آیا، وہاں اوپر کی منزل میں ایک اچھا خاصہ کمرہ تھا، اسی میں کچھ صاف صفائی کرکے کہیں سے دو گدے اور چادریں دو تکئے لے کر آیا اور زمیں پر بچھا دیئے رات کا کھانا بازار سے لے کر آیا اور چھوٹے بچوں کے لئے دودھ ڈبل روٹی اور کچھ ضرورت کی چیزیں لے کر آیا، اور رات کسی نہ کسی طریقے سے گزاردی، اور صبح صبح دفتر چلا گیا،!!!!
     
  27. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    جبوراً میں نے اپنے ایک دور کے رشتہ دار کے یہاں ٹیلیفون کیا کہ مجھے چند دنوں کیلئے ایک اپنا کمرہ دے دیں، انہوں نے فوراً حامی بھر لی اور میں نے اپنی بیگم کے ساتھ ملکر تین سوٹ کیسوں میں ضرورت کے کپڑے وغیرہ ڈالے اور کچھ ضروری سامان سمیٹا اور والد صاحب ستے اجازت لی اور مجھ سے چھوٹے بھائی نے میرے سامان کو پیک کرنے میں مدد کی اور ٹیکسی لے کر آیا اور ھمارے ساتھ نئے گھر تک چھوڑنے بھی آیا، وہاں اوپر کی منزل میں ایک اچھا خاصہ کمرہ تھا، اسی میں کچھ صاف صفائی کرکے کہیں سے دو گدے اور چادریں دو تکئے لے کر آیا اور زمیں پر بچھا دیئے رات کا کھانا بازار سے لے کر آیا اور چھوٹے بچوں کے لئے دودھ ڈبل روٹی اور کچھ ضرورت کی چیزیں لے کر آیا، اور رات کسی نہ کسی طریقے سے گزاردی، اور صبح صبح دفتر چلا گیا،!!!!

    1986 کے سال کا آخیر دور چل رھا تھا، پہلی دفعہ اپنے گھر سے علیحدہ ھونا پڑا، تین چھوٹے بچوں کا ساتھ تھا، بڑا بیٹا 5 سال کا ھونے والا تھا، اس سے چھوٹی بیٹی جو 3 سال کی تقریباً ھوچکی تھی اور اس وقت چھوٹا بیٹا ایک سال کے لگ بھگ ھوگا،!!!!

    سب سے پہلے اپنے بیٹے کو ایک نزدیکی پرائویٹ اسکول جس کا نام فلبرائیٹ گرامر اسکول تھا، اس میں داخل کرایا، یہاں آنے کے دوسرے دن ھی میرا چھوٹا بھائی میرا سارا سامان بمعہ فرنیچر اپنے دوستوں کی مدد سے یہاں ایک ٹرک میں لے آیا، جبکہ میری بیگم اس بات سے راضی نہیں تھیں، کہ ایک آدھ ہفتے کے بعد ھم واپس گھر چلے جائیں گے، لیکن والد صاحب اس بات پر راضی نہیں تھے، انہوں نے یہی کہا کہ یہ ھمیشہ کا مسئلہ رھے گا بہتر ھے کہ میں گھر سے دور ھی رھوں، کیونکہ انہوں نے پہلے بھی اپنی تمام تر کوششیں کرڈالیں، کہ دوسری بہو بیگم کے آنے بعد گھر کا ماحول بہتر ھوجائے، لیکن یہ ممکن نہ ھوسکا اور گھر میں جھگڑے بڑھتے چلے گئے،!!!!!

    اور مجھے یہاں گھر پر سب کچھ سنبھالنا مشکل ھورھا تھا، والدین سے الگ ھوکر رھنا بہت مشکل مرحلہ تھا، صبح صبح اپنے بیٹے کو اسکول چھوڑنا اور پھر بس میں بیٹھ کر دفتر جانا، دوپہر میں بیگم ھی بیٹے کو اسکول سے لے آتی تھیں، میں شام کو گھر آتا تو کچھ نہ کچھ پریشانی سامنے کھڑی ھوتی تھی، تنخواہ ایڈوانس میں ھی لے لیتا تھا اور مہینہ ختم ھونے سے پہلے ھی سب تنخواہ برابر ھوجاتی تھی، روز بروز قرضہ بھی بڑھتا جارھا تھا، سودا سلف خود ھی لے کر آنا، بچوں ‌کے دودھ اور کھانے پینے کا خاص طور پر خیال رکھنا، اور کبھی کوئی بیمار ھے تو کبھی کوئی، ہفتہ میں تین چار دن ڈاکٹر کے کلینک پر رات کو لائن میں کسی نہ کسی بچے کو گود میں لئے بیٹھا ھی رھتا تھا، ساتھ بیگم بھی اکثر بیمار رھتی تھیں، اور چھوٹے بچوں کا ساتھ بچوں کی شرارتیں بھی اس وقت اچھی نہیں لگتی تھیں،!!!!!

    اکثر رات کو میں دفتر سے دیر تک ھی گھر پہنچتا تھا، دفتر میں بھی ایک ٹینشن چل رھی تھی، گھر آتے ھی کوئی نہ کوئی مسئلہ درپیش رھتا، میں بہت ھی تھک جاتا تھا، دفتر سے آتے آتے ڈیڑھ گھنٹہ بھی لگ جاتا تھا، اس تھکن کے باوجود بھی مجھے مجبوراً کبھی کبھی بچوں پر ترس آجاتا اور مجبور ھو کر بچوں کو کسی نزدیکی پارک میں گھما پھرا کر لے آتا، بیگم کی طبیعیت کچھ زیادہ ھی خراب رھنے لگی تھی، 1987 کا سال شروع ھو چکا تھا اور ایک نئے مہمان کی آمد آمد بھی تھی، بیگم کو اس حالت میں ‌سنبھالنا بھی مشکل تھا، کبھی کبھی ھماری ساس صاحبہ آکر دیکھ جاتی تھیں، اور ھماری دو چھوٹی سالیاں ایک شاید 10 سال کی تھی اور دوسری تقریباً 12 سال کی تھی وہ دونوں اپنے اسکول سے چھٹی کرکے یہاں آجاتیں اور گھر کو اور بچوں کو سنبھالتی تھیں، بہت ھی مشکل آن پڑی تھی،!!!!!

    ھمارے گھر سے صرف چھوٹا بھائی اور والد صاحب کبھی کبھی آجاتے تھے، اس کے علاوہ اور کوئی نہیں آتا تھا، بہت ھی سخت رنجشیں چل رھی تھیں، اور دوسرے رشتہ دار اور محلہ دار سب بہت خوش تھے، کہ وہ ھمیں گھر سے علیحدہ کرکے بہت خوش تھے، مکان مالک جو ھمارے رشتہ دار تھے وہ بھی تھوڑا بہت خیال کرلیتے تھے، لیکن کہاں تک ان کے بھی چھوٹے چھوٹے بچے تھے، اب تو روز بروز بیگم کی طبیعیت کچھ زیادہ ھی بگڑنے لگی تو میں نے یہی فیصلہ کیا کہ سسرال کے نزدیک ھی مکان لے لوں، تاکہ بیوی بچوں کی طرف سے کچھ تو بے فکر ھوجاؤں، اور پھر وہاں سے دفتر بھی نزدیک تھا،!!!!!!!

    ---------------------------------------

    ھمارے گھر سے صرف چھوٹا بھائی اور والد صاحب کبھی کبھی آجاتے تھے، اس کے علاوہ اور کوئی نہیں آتا تھا، بہت ھی سخت رنجشیں چل رھی تھیں، اور دوسرے رشتہ دار اور محلہ دار سب بہت خوش تھے، کہ وہ ھمیں گھر سے علیحدہ کرکے بہت خوش تھے، مکان مالک جو ھمارے رشتہ دار تھے وہ بھی تھوڑا بہت خیال کرلیتے تھے، لیکن کہاں تک ان کے بھی چھوٹے چھوٹے بچے تھے، اب تو روز بروز بیگم کی طبیعیت کچھ زیادہ ھی بگڑنے لگی تو میں نے یہی فیصلہ کیا کہ سسرال کے نزدیک ھی مکان لے لوں، تاکہ بیوی بچوں کی طرف سے کچھ تو بے فکر ھوجاؤں، اور پھر وہاں سے دفتر بھی نزدیک تھا،!!!!!!!

    انسان ایک طرف کی جنگ لڑسکتا ھے اگر چاروں طرف سے پریشانیاں کا رخ اپنے طرف ھو تو سنبھالنا بہت مشکل ھوجاتا ھے، اور یہ بھی حقیقت ھے کہ جب انسان اپنے رب سے دور ھوتا چلا جاتا ھے تو تمام مشکلات گھیرے میں لے لیتی ھیں، اور کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے،!!!!!

    یہی کچھ صورتِ حال کچھ میری بھی تھی،اب تو یہ حال ھوگیا تھا کہ جو جمعہ کی نماز پڑھتا تھا، اس سے بھی غافل ھونے لگا، پریشانیوں میں الجھ کر بس شاید پاگل ھونے کی حد تک تجاوز کرچکا تھا، میں اب اپنے سسرال کے نذدیک شفٹ ھوچکا تھا، اس طرح مجھے ایک طرف سے کچھ سکون حاصل ھوچکا تھا، اب میں نے تھوڑا دفتری معاملات میں جو مشکلات پیش آرھی تھیں، اس کی طرف میں نے تھوڑا سا دھیان دینے کی کوشش کی تو پتہ لگا کہ چند ایک لوگوں کا رویہ میرے ساتھ کچھ بدلا بدلا سا نظرآرھا تھا،اور کچھ زیادہ غور سے جائزہ لینا تو معلوم ھوا کہ میرے خلاف ھی انہوں نے آہستہ آہستہ ایک محاذ بنانا شروع کردیا ھے،!!!!!

    یہ سب کچھ ایک ڈرائیور نے جو انتہائی ایماندار اور میرے بھروسے کا آدمی تھا، اس نے مجھے ساری روداد سے آشنا کرایا، میں نے بھی اس سے یہی کہا کہ اگر تم میرا بھلا چاھتے ھو تو تم بھی انہی میں شامل رھو، ایک تو اس میں ‌تمھاری بھی بہتری ھے کہ وہ تمھیں تنگ نہیں کریں گے، دوسرے کہ ان کی ھر حرکت پر نظر رکھو، اور مجھے خاموشی سے ان کی ھر بری حرکت کے بارے میں مجھے اطلاع دیتے رھو، میں یہ چاھتا ھوں کہ کم از کم کمپنی کو کسی قسم کا نقصان نہ ھو، چند لوگ اپنے مستقل گاھکوں سے مل کر کمپنی کو نقصان پہنچانے میں لگے ھوئے ھیں، جس کا میں نے اندازہ لگایا کہ وہ اپنی تنخواھوں سے چار گنا زیادہ پیسہ کما رھے ھیں، مگر مجھ سے نالاں اس لئے ھیں کہ میں ان کی اس اوپر کی آمدنی کی راہ میں ایک رکاوٹ بنتا چلا جارھا تھا،!!!!!
     
  28. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    چند لوگ اپنے مستقل گاھکوں سے مل کر کمپنی کو نقصان پہنچانے میں لگے ھوئے ھیں، جس کا میں نے اندازہ لگایا کہ وہ اپنی تنخواھوں سے چار گنا زیادہ پیسہ کما رھے ھیں، مگر مجھ سے نالاں اس لئے ھیں کہ میں ان کی اس اوپر کی آمدنی کی راہ میں ایک رکاوٹ بنتا چلا جارھا تھا،!!!!!

    دو ایک نے مجھے ایک اچھی خاصی رقم ھر مہینے دینے کا لالچ بھی دیا، اور اس کے علاوہ تحفے تحائف بھی دینے کی کوشش کی، لیکن میں نے مکمل طور سے انکار کردیا، ایک دو دفعہ تو مجھے دوپہر کے کھانے کی دعوت پر بھی لے گئے، اور مجھے سمجھانے کی کوشش بھی کی، کہ اس طرح پابندی لگانے سے کوئی فائدہ نہ ھوگا، اور بھی دوسرے طریقے کار ھیں، جس میں آپ کچھ نہیں کرسکتے، لیکن آپ کی وجہ سے کچھ آسانیاں پیدا ھو جائیں گی، کچھ مہربانی کریں، میں نے ان سے کہا کہ میں نوکری چھوڑ سکتا ھوں لیکن مگر انتظامیہ کا بھروسہ توڑ نہیں سکتا،!!!!!!

    وہ لوگ بھی مجھ سے تنگ آگئے، آخرکار انہوں نے مجھے کئی طریقوں سے بلیک میل کرنے کی کوشش کی، لیکن قدرتی کامیاب نہ ھوسکے، ادھر گھر پر ھمارے یہاں ایک اور مہمان کا اضافہ بیٹی کی صورت میں ھوا، اور ادھر میری تنخواہ میں بھی اضافہ ھوگیا، میری اپنی پوری کوشش تھی کہ محنت اور ایمانداری سے اس ادارے کو چلاؤں، لیکن میرے راستے میں رکاوٹیں بہت تھیں،!!!!

    اسی مشکل اور تکلیف دہ سازشوں سے بچتا بچاتا میں اپنی ھر ممکن کوششوں کے ساتھ کام کو لے کر چل رھا تھا، اور ساتھ ھی میں نے چند نئے ایماندار لوگوں کی بھرتی بھی کرائی، لیکن ان لوگوں نے ان کے ساتھ تعاون نہیں کیا، بلکہ چند ایک کو اپنی سازش میں ‌شریک بھی کرلیا، میرے اپنے بھروسے کے آدمی ان کے ساتھ شامل ھوگئے، مگر میں نے ھمت نہیں ھاری، اور انہیی لوگوں کی نئی نئی چالبازیوں کے درمیان اپنے آپ کو لے کر چلتا رھا،!!!!

    ایک بڑے پروجیکٹ کے لئے ھماری کمپنی کو ایک کام ملا، جس میں ھر ایک اپنی اپنی ڈیوٹیاں ھمارے ایک منیجر صاحب نے سمجھا دیں تھیں، اور وہ بہت ھی اچھے انسان تھے، میں اس وقت سینئر اکاونٹنٹ کے عہدے پر فائز تھا، اور میرے ساتھ دو اسٹنٹ تھے، ایک باھر کی وصولی میں لگا رھتا اور دوسرا میرے ساتھ میری مدد کرتا تھا اور دونوں ‌بھی بہت اچھے تھے، باقی فیلڈ میں کافی لوگ تھے جو مختلف دمہ داریوں پر اپنی ڈیوٹیاں نبھا رھے تھے، اس پروجیکٹ پر ھمارے منیجر صاحب اور انکی پوری ٹیم شامل تھی، جس میں سے چند ایک نے گھپلا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور کامیاب بھی رھے جس کا اندازہ مجھے ھوگیا تھا، میں نے منیجر صاحب کو اس بات کی اطلاع بھی دی لیکن انہوں نے میری بات پر زیادہ دھیان نہیں دیا، وہ سب کو ھی ایماندار سمجھتے تھے، یہ پروجیکٹ تو زبردست کامیاب بھی ھوا، مگر چند ایک نے بدنظمی اور بے احتیاطی کی وجہ سے کافی فائدہ بھی اٹھایا،!!!!!!!

    جب میرے پاس ان تمام ٹھیکیداروں کے بل آئے، تو میں نے دیکھا کہ ان بلوں کے ساتھ تمام شواھدات کی مستنند دستاویزات نہیں تھیں اور جس پر میں نے اعتراض کیا اور رقوم کی ادائیگی کرنے سے انکار کردیا، بلکہ اس کی مکمل تحقیقات کے لئے انتظامیہ کے علم میں ایک رپورٹ پیش کردی، اس کے نتیجے میں انتظامیہ کی طرف سے ایک تحقیقاتی ٹیم پہنچ گئی اور انہوں نے تمام اپنی مکمل تحقیقات اور شواھدات کے ساتھ اعلیٰ انتطامیہ کو پیش کردیں، اور تمام بلوں کی رقوم کی ادآئیگی کو روکنے کا حکم دے دیا، اور سارے بل وغیرہ شاید عدالتی کاروائی کیلئے انتظامیہ نے اپنے قانونی مشیر کے حوالے کردیئے گئے، اور ساتھ ھی کچھ چند ایک فیصلوں کے ساتھ منیجر صاحب اور ان کے ایڈمن اسسٹنٹ کو معطل کردیا گیا جبکہ دونوں ‌بالکل بے قصور تھے، اور جن کی حرکتیں تھیں وہ اس ادارے میں موجود ھی رھے، بلکہ انکو تو اس پروجیکٹ کی شاندار کامیابی پر اسپیشل بونس دئے گئے، مجھے بھی بونس سب سے زیادہ ملا اور اس کے علاوہ مجھے وھاں کے اسسٹنٹ منیجر کے عہدہ پر ترقی دے دی گئی اور ساتھ ھی منیجر کے عہدے کے مطابق تنخواہ میں مزید اضافہ کردیا گیا اور مجھے اپنی مرضی سے اپنے اسٹاف میں بھرتی کی اجازت دے دی گئی،!!!!!

    میں نے مزید اچھے اچھے ایماندار اور مہنتی لڑکوں کو اس ادارے میں روشناس کرایا، کچھ کو نکال بھی دیا لیکن ان لوگوں کے ساتھ میں کچھ نہیں کر سکتا تھا جو فیلڈ میں تھے اور کمپنی کے بزنس کا دارومدار بھی انہی لوگوں کی وجہ سے تھا، اور وہ ساتھ ساتھ کمپنی کو لوٹ بھی رھے تھے اور ساتھ ھی کمپنی کے نفع میں کمی بھی پہنچا رھے تھے، مگر ان لوگوں کو میری ترقی دیکھی نہیں گئی، اور وہ تو پہلے ھی میرے خلاف تھے اب اس میں کچھ مزید اضافہ ھوگیا تھا، مجھے انہوں نے تنگ کرنا شروع کردیا تھا،!!!!!!

    اسی طرح اسی ماحول میں رھتے ھوئے میں نے 1989 ستمبر کے مہینے تک وقت گزارا اور اپنی سروس کے دوران سالانہ چھٹی تک نہیں‌ لی اب میں بہت تھک چکا تھا، میں نے چھٹی کی درخوست پیش کی جو منظور ھوگئی، اپنی ذمہ داریاں ایک اپنے فیلڈ کے سپروائزر کو دے کر موقع سے فائدہ اٹھاتے ھوئے میں اپنی بیگم اور بچوں سمیت کمپنی کے خرچے پر چھٹیاں گزارنے کیلئے پھر اسی میری پسندیدہ ٹرین تیزگام سے لاھور روانہ ھوگیا، میرے ساتھ چار بچے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، اور اس دفعہ میرا پروگرام لاھور شہر گھومنے کے علاوہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات سوات کالام اور مری نتھیا گلی ایبٹ آباد بھی گھومنے کا تھا،!!!!!!! ‌
    ---------------------------------------------
     
  29. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    بسم اللہ الرحمن الرحیم


    آج پھر سے میں اپنی کہانی اپنی زبانی “یادوں کی پٹاری“ کو اللٌہ کا نام لے کر شروع کررھا ھوں جو سب سے بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ھے،

    میں آپ سب کا مشکور اور ممنون ھوں کہ آپ نے میری اس چھوٹی سی کاوش کو پسند کیا اور میرے زندگی کے یادگار لمحات کی یاداشتوں کے ساتھ میرے ساتھ ھمسفر رھے، اور میری بیماری کے دوران میری صحتیابی کے لئے دعائیں کرتے رھے، اللٌہ تعالیٰ آپ سب کی زندگیوں میں خوشیاں ھی خوشیاں دکھائے اور نیک تمناؤں اور خواھشات کی تکمیل کرے، آمین،!!!!!!!!!!!
    :titli: :titli: :titli: :titli: :titli: :titli: :titli: :titli: :titli:


    اسی طرح اسی ماحول میں رھتے ھوئے میں نے 1989 ستمبر کے مہینے تک وقت گزارا اور اپنی سروس کے دوران سالانہ چھٹی تک نہیں‌ لی اب میں بہت تھک چکا تھا، میں نے چھٹی کی درخوست پیش کی جو منظور ھوگئی، اپنی ذمہ داریاں ایک اپنے فیلڈ کے سپروائزر کو دے کر موقع سے فائدہ اٹھاتے ھوئے میں اپنی بیگم اور بچوں سمیت کمپنی کے خرچے پر چھٹیاں گزارنے کیلئے پھر اسی میری پسندیدہ ٹرین تیزگام سے لاھور روانہ ھوگیا، میرے ساتھ چار بچے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، اور اس دفعہ میرا پروگرام لاھور شہر گھومنے کے علاوہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات سوات کالام اور مری نتھیا گلی ایبٹ آباد بھی گھومنے کا تھا،!!!!!!! ‌

    :titli: :titli: :titli: :titli: :titli: :titli:


    تیزگام کا سفر تو ھمیشہ ھی سے مجھے پسند تھا اور ھر بار میں نے سفر کیلئے تیزگام کو ھی ترجیح دی، میں نے اپنا تفصیلی پروگرام پہلے ھی سے اپنی کمپنی کو دے دیا تھا، اور کراچی، لاھور، اسلام آباد میں ان کی برانچیں تھیں، اور پاکستان ٹورزم اور اچھے رسٹ ھاؤسس کے علاؤہ ھر بڑے ھوٹل سے سیر و تفریح کی غرض سے آنے والوں کیلئے ان کے بزنس تعلقات ھر علاقے میں بھی تھے، اور یہ تمام ادارے اس کمپنی کے اسٹاف کو رعائیتاً سہولتیں بھی مہیا کرتے تھے اور اب بھی ویسا ھی ھے، کیونکہ ھماری کمپنی رینٹ اے کار کے علاؤہ انٹرنیشنل طور پر ٹورز اینڈ ٹریول کا بزنس بھی عروج پر تھا، اور دنیا بھر سے ٹورسٹ پاکستان میں گھومنے پھرنے کی غرض سے ھماری کمپنی سے ھی رابطہ کرتے تھے،!!!!!!

    میرا پروگرام بھی ایک مکمل ٹور پیکیج ھی تھا جو اس کمپنی کی ایک اسٹاف سہولتوں میں سے ایک تھا جس سے ھر سال فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا، جب ھم لاھور کے اسٹیش سے باھر نکلے، تو باھر ھی ایک باوردی ڈرائیور ھماری کمپنی کا ایک چھوٹا سا سائن بورڈ لے کر کھڑا تھا جسے میں نے پہچان لیا اس سے مصافحہ کرنے کے بعد اس نے ھمیں اپنی کار تک لے جانے میں راہنمائی کی، اور قلی سے سامان ڈگی کھول کر رکھوایا، اور باقی سب سکون کے ساتھ کار میں بیٹھ گئے، اچھی بڑی ائرکنڈیشنڈ کار تھی اور وھاں کے منیجر نے خاص طور سے میرے لئے بھیجی تھی، اسٹیشن سے سیدھا ھمیں ڈرائیور نے ایک ھوٹل میں پہنچایا جہاں پر ھمارے لئے پہلے سے ھی کمرے بک تھے، اور ھمیں بڑے شاھانہ طور سے ایک پروٹکول کے ساتھ ھوٹل کے کمروں تک لے جایا گیا، اور ڈرائیور نے پوچھا کہ وہ کس وقت حاضر ھوجائے، میں نے اسے شام کا وقت دیا تاکہ جب تک ھم کچھ آرام کرلیں اور کچھ ناشتہ بھی کرلیں، بھوک بھی سخت لگی ھوئی تھی،!!!!

    یہ تو سچی بات ھے کہ پہلی مرتبہ زندگی میں اس طرح کی عیاشی ھورھی تھی، ھمیں تو ھوائی جہاز کا بھی ٹکٹ مل جاتا، لیکن ھمارے سالے صاحب اور انکی نئی نویلی دلہن بھی ساتھ تھیں، اور اس وقت ان کے لئے ٹکٹ علیحدہ سے خریدنا پڑتا، اس لئے ٹرین سے ھی سفر کرنے کو غنیمت جانا، لاھور میں دو دن کا رکنے کا پروگرام تھا، ھوٹل بھی بہت خوبصورت تھا اور کمرے بھی سجے سجائے جو ھم کبھی خوابوں میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے، ھمیں دو کمروں کی اجازت تھی، اس لئے ایک کمرہ ھم نے نئے شادی شدہ جوڑے کو دے دیا تھا اور دوسرے ساتھ کے کمرے میں ھم اپنے چار بچوں کے ساتھ تھے، جو اس وقت چھوٹے چھوٹے سے تھے،ان کے لئے ھوٹل والوں نے بچوں کیلئے اکسٹرا بیڈ بھی ڈال دیئے تھے،!!!!!!
     
  30. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    یہ تو سچی بات ھے کہ پہلی مرتبہ زندگی میں اس طرح کی عیاشی ھورھی تھی، ھمیں تو ھوائی جہاز کا بھی ٹکٹ مل جاتا، لیکن ھمارے سالے صاحب اور انکی نئی نویلی دلہن بھی ساتھ تھیں، اور اس وقت ان کے لئے ٹکٹ علیحدہ سے خریدنا پڑتا، اس لئے ٹرین سے ھی سفر کرنے کو غنیمت جانا، لاھور میں دو دن کا رکنے کا پروگرام تھا، ھوٹل بھی بہت خوبصورت تھا اور کمرے بھی سجے سجائے جو ھم کبھی خوابوں میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے، ھمیں دو کمروں کی اجازت تھی، اس لئے ایک کمرہ ھم نے نئے شادی شدہ جوڑے کو دے دیا تھا اور دوسرے ساتھ کے کمرے میں ھم اپنے چار بچوں کے ساتھ تھے، جو اس وقت چھوٹے چھوٹے سے تھے،ان کے لئے ھوٹل والوں نے بچوں کیلئے اکسٹرا بیڈ بھی ڈال دیئے تھے،!!!!!!

    ناشتے کے بعد سفر کی تھکان کی وجہ سے اس دن ایسے سوئے کہ شام کو ھی آٹھے وہ بھی ٹیلیفون کی گھنٹی کی آواز پر جو کہ کافی دیر سے بج رھی تھی، دوسری طرف ھماری ڈیوٹی پر معمور ڈرائیور تھے، جو کہ وقت مقررہ پر پہنچ چکے تھے، اب دوپہر کے کھانے کا تو ٹائم نہیں تھا، لیکن بھوک تو لگ رھی تھی، سوچا چلو باھر ھی کھالیں گے، جلدی جلدی تیار ھوئے، اور بیگم نے بچوں کو تیار کیا، برابر کے کمرے سے بچوں کی مامی اور ماموں کی نئی نویلی جوڑی کو بھی بچے پہلے ھی آٹھا چکے تھے، جلدی جلدی ھم سب ھوٹل کی لابی میں پہنچے، اور ڈرائیور کی راہنمائی میں کار کی طرف چل دیئے، میں اپنے بڑے دو بچوں کو لے کر آگے بیٹھا اور پیچھے میری بیگم ایک چھؤٹی بچی کو گود میں لئے اور چھوٹے بیٹے کو مامی نے گود میں بٹھا لیا اور ماموں بھی ساتھ بیٹھ گئے، بچوں کی عمریں 2 سال سے لے کر 8 سال تک کی تھیں، اور ھر ایک میں ڈیڑھ یا دو سال کا فرق تھا، ستمبر 1989 کا زمانہ تھا موسم بھی خوشگوار ھی تھا،!!!!

    سب سے پہلے کھانے کیلئے ایک ریسٹورنٹ میں پہنچے، ڈرائیور کو بھی کہا لیکن انہوں نے معذرت کرلی، بھوک سب کو لگی ھوئی تھی، کھا پی کر وھاں سے سب سے پہلے بادشاھی مسجد کی طرف گئے، مسجد میں داخل ھونے سے پہلے میں گیٹ کے ساتھ علامہ اقبال کے مزار پر حاضری دی، تصویریں بھی ساتھ ساتھ کھینچتے رھے، پھر اسکے بعد مسجد کے سامنے لال قلعہ کے اندر داخل ھوئے اور مغل بادشاھوں کے فن تعمیر کے حیرت انگیز شاھکار کو دیکھا اور قلعہ کے اندر خاص طور سے شیش محل کا اچھی طرح سے جائزہ لیا، اندر کے میوزیم کی نادر نمونے دیکھے، وھاں سے پیدل ھی گھومتے ھوئے ایک بڑی سڑک پار کرتے ھوئے اپنے چھوٹے سے قافلے کے ساتھ مینار یادگار پاکستاں کی طرف نکل گئے، جہاں کہ پاکستان کی قرارداد 1940 کو منظور ھوئی تھی، اوپر جانے کی ھمت تو نہیں ھوئی، لیکن باھر ھی سے اس کا نظارہ کیا اور تصویریں بھی کھینچیں، اور اس کے اطراف کے گارڈن میں کچھ دیر بیٹھ کر کار میں انارکلی بازار میں چلے آئے، لاھور کا اس وقت کا بہت ھی خوبصورت اور مشہور بازار تھا، خیر آج بھی اسی طرح اسکی رونق ھے، مگر اب تو بہت سارے ماڈرن شاپنگ سینٹر بن چکے ھیں،!!!!!

    انارکلی بازار سے ھوتے ھوئے ھمیں ڈرائیور علامہ اقبال پارک لے گئے جو کہ بہت ھی خوبصورت پارک تھا اور کچھ فاصلے پر ریس کورس پارک میں یا اس کے قریب ھی رنگ برنگے اترتے چڑھتے فوارے چل رھے تھے رات کا وقت تھا تو اور بھی خوبصورت لگ رھےتھے، اس کے علاوہ رات گئے تک کار میں ھی گھومتے رھے اور ڈرائیور جو ایک ھماری فیملی ممبر کی طرح ھی تھے، انہوں نے لاھور کی ھر مشہور جگہ گھمانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اسی دوران داتا دربار میں بھی حاضری دی اور اس طرح وقت کا پتہ ھی نہیں چلا اور آدھی رات ھوچکی تھی، فوراً ھی ھوٹل واپس پہنچے، اور ڈرائیور کو کل صبح 10 بجے کا آنے کہہ کر اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے، خوب تھک چکے تھے، ایسے سوئے کہ صبح سورج نکلنے کے کافی دیر بعد آنکھ کھلی،!!!!

    پھر جلدی جلدی تیار ھوکر ھوٹل کے باھر نکلے تو ڈرائیور صاحب اپنی کار چمکا کر تیار کھڑے تھے ناشتہ سے فارغ ھوتے ھی ھم وھاں سے سیدھے شالامار باغ گئے، پھر دریائے راوی کے پار انارکلی اور آصف جاہ کے مقبروں کو دیکھتے ھوئے اور بھی لاھور کے تاریخی شہر کئے کئی مغل بادشاھوں کی یادگاروں کی سیر کی، اس کے علاوہ ایک ھمارے جاننے والوں کے گھر بھی پہنچے جو “چوبرجی“ کے قریب ھی رھتے تھے،جہاں رات کا کھانا انھوں نے بڑے اھتمام سے ھمارے لئے تیار کیا جسے ھم نے بڑے شوق سے کھایا تین چار دنوں بعد ھمیں گھر کا کھانا نصیب ھوا، وھاں سے سیدھا ھم واپس ھوٹل پہنچے اور دوسرے دن ھمیں بذریعہ بس راولپنڈی روانہ ھونا تھا، اس لئے ڈرائیور نے ھمیں دوسرے دن صبح صبح بس اسٹینڈ پر چھوڑ کر الوداع کہا، وہ بہت ھی اچھے مخلص انسان تھے، انہوں نے ھمارے لاھور کے قیام کے دوران یہ بالکل محسوس نہیں ھونے دیا کہ ھم کسی اجنبی شہر میں ھیں، وھاں لوگ بھی بہت ھی زندہ دل اور بہت ھی ملنسار تھے، جہاں جہاں گئے ھمارا بہت ھی اچھی طرح سے پیش آئے، اور مہربان اور شفیق رویہ کا برتاؤ رکھا یہ لاھور کا دورہ میں اپنی زندگی میں کبھی نہیں بھول سکتا ھوں، !!!!!!

    تیسرے دن ھم لاھور سے بذریعہ بس راولپنڈی پہنچے، اور وہاں سے ٹیکسی کرکے اسلام آباد کے ایک گیسٹ ھاؤس پہنچے جہاں پر ھمارے لئے ایک چھوٹا سا دو کمروں کا اپارٹمنٹ بک تھا، وھاں پہنچ کر تازہ دم ھوئے اور دوپہر کے کھانے کا آرڈر دے دیا، کھانا کھانے سے پہلے ھی میں میں نے وہاں کے اپنے دفتر کے ہیڈ آفس سے رابطہ کرکے اپنے آنے کی اطلاع دی اور پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت اپنے پروگرام کی تفصیل انکو بتائی، انہوں نے پہلے ھی سے ھمارے لئے ایک اچھی بڑی ائرکنڈیشنڈ کار ایک ڈرائیور کر ساتھ تیار کرکے رکھی تھی، اس دن تو وقت زیادہ ھوچکا تھا، بس اسلام آباد کی ھی سیر کی جس میں سب سے پہلے فیصل مسجد گئے، پھر دامن کوہ پہاڑوں کے اوپر پہنچے، اور جناح سپر مارکیٹ اور ارجنٹیئنا پارک اس کے علاوہ ارد گرد کے مقامی جگہوں اور پارکس کے علاوہ راول ڈیم ، شکرپڑیاں ساتھ ھی آبپارہ کے ساتھ یاسمین گارڈن بھی خوب تسلی سے گھومے پھرے اور پھر دوسرے دن کا پروگرام بھی ڈرائیور کو بتا کر گیسٹ ھاؤس میں اپنے اپنے کمروں جاکر سو گئے،!!!!

    رات کا اکثر ھم بس کچھ لائٹ سا ھی کھا لیتے تھے، کوئی کھانے کا خاص اھتمام نہیں کرتے تھے، یا اگر کسی جاننے کے یہاں چلے گئے تو مشکل ھوجاتا تھا کیوں وہ لوگ تو اچھا خاصہ اھتمام کرتے تھے، اور پھر گھر کا کھانا تو ھم بہت شوق سے ھی کھاتے تھے، دوسرے دن سے ھمارا بہت ھی لمبا پروگرام تھا،وادی سوات کالام اور ایبٹ آباد، نتھیا گلی اور واپسی میں مری کے علاقہ جات بھور بن، گھوڑا گلی، جھیکا گلی اور موڑہ شریف جانے کا تھا، ڈرائیور کو تمام ھدائتیں دے چکا تھا اور اسے تمام راستوں اور ھماری رھائیش کی سہولتوں کے بارے مکمل علم تھا، اور بچوں کے ماموں اور مامی بھی بہت خوش تھے کیونکہ ان کا ھنی مون بہت ھی خوبصورت طریقے سے چل رھا تھا،!!!!!!!
    ----------------------------
    رات کا اکثر ھم بس کچھ لائٹ سا ھی کھا لیتے تھے، کوئی کھانے کا خاص اھتمام نہیں کرتے تھے، یا اگر کسی جاننے کے یہاں چلے گئے تو مشکل ھوجاتا تھا کیوں وہ لوگ تو اچھا خاصہ اھتمام کرتے تھے، اور پھر گھر کا کھانا تو ھم بہت شوق سے ھی کھاتے تھے، دوسرے دن سے ھمارا بہت ھی لمبا پروگرام تھا،وادی سوات کالام اور ایبٹ آباد، نتھیا گلی اور واپسی میں مری کے علاقہ جات بھور بن، گھوڑا گلی، جھیکا گلی اور موڑہ شریف جانے کا تھا، ڈرائیور کو تمام ھدائتیں دے چکا تھا اور اسے تمام راستوں اور ھماری رھائیش کی سہولتوں کے بارے مکمل علم تھا، اور بچوں کے ماموں اور مامی بھی بہت خوش تھے کیونکہ ان کا ھنی مون بہت ھی خوبصورت طریقے سے چل رھا تھا،!!!!!!!

    شکر ھے کہ صبح صبح سب کو اُٹھانے میں کوئی دقت نہیں ھوئی، کیونکہ گزشتہ رات خوب گھوم پھر کر تھک گئے تھے اس لئے سب کو بہت‌ گہری نیند آگئی تھی، اور جلد ھی سو گئے تھے، ویسے بھی اس وقت عشاء کے بعد زیادہ تر اسلام آباد میں سناٹا ھی ھوجاتا تھا، ابھی ھم ناشتہ کی تیاری ھی کررھے تھے تو ڈرائیور صاحب گاڑی لے کر آگئے، سب نے دو بڑے ھینڈ بیگ میں اپنی اپنی ضرورت کی استعمال کی چیزیں اور پہنے کے کپڑے وغیرہ رکھ لئے تھے، ناشتے سے فارغ ھوتے ھی سامان کار کی ڈگی میں رکھا، اور اگلے سفر کیلئے تیار ھوگئے، ڈرائیور کو بھی ھمارے پاکستان کے تمام خوبصورت علاقوں کے راستوں کا بخوبی علم تھا، اور میں ان کا نام بھول گیا ھوں بہت ھی اچھے انسان تھے، انہوں نے ھمارے ساتھ ایک ھی فیملی کی طرح بہت اچھا وقت گزارا،!!!!!

    اسلام آباد سے نکلے تو آب پارہ سے ھوتے ھوئے زیرو پوانٹ سے راولپنڈی کی طرف نکلے مری روڈ سے ھوتے ھوئے، اپنے ان تمام علاقوں کو دیکھتے ھوئے بھی جارھے تھے جہاں ھم نے ایک کافی عرصہ گزارا تھا، کمیٹی چوک سے نکل رھے تھے تو دائیں ھاتھ پر ایک سڑک راجہ بازار اور موتی بازار کو جارھی تھی اور بائیں ھاتھ پر موتی محل سینما اور ایک اور سینما تھا، آگے نکلے تو لیاقت باغ کو اپنے سیدھے ھاتھ کی طرف پایا اور اس ھاتھ کی طرف سنگیت سینما اور ریالٹو سینما کو دیکھا، اور آگے کی طرف مریڑ چوک کی طرف کو ایک ریلوئے پل کے دو موھری والے پل کے نیچے سے نکلے، اور سیدھا صدر بازار کے علاقے میں پہنچ گئے، وھاں سے کچھ راستے کے لئے کھانے پینے کی اشیاء کی خریداری کی، اور کھانے پینے کی ساری ذمہ داری ھمارے بچوں کے ماموں نے لی ھوئی تھی، کیونکہ ان کا پہلا پہلا ھنی مون جو تھا، بڑے خوش تھے، وہ اپنی نئی نویلی دلہن کے ساتھ اور ھمارے دو چھوٹے بچوں اور ان کی اماں یعنی ھماری بیگم اور میں ڈرائیور کے ساتھ ھی زیادہ تر اپنے دو بڑے بچوں کے ساتھ ھی تمام سفر میں بیٹھا رھا،!!!!!

    صدر کینٹ بازار سے نکلے تو پشاور روڈ پر ھماری کار نے رخ اختیار کیا اور اسی موڑ پر میں نے اپنے بچپن کے کینٹ پبلک اسکول کو دیکھا اور اپنے بچپن کی یادوں میں کھو گیا، ابھ ان یادوں میں ھی کھویا ھوا تھا کہ سیدھے ھاتھ کی طرف ریس کورس گراونڈ کو گزرتے ھوئے دیکھ رھا تھا اور بائیں ھاتھ کی طرف قاسم مارکیٹ کا علاقہ تھا جہاں میرا پچپن کھیل کود میں گزرا تھا وہ دن یاد آگئے جب ھمارے والد ھم دونوں بہن بھائی کی انگلی پکڑ کر ھر شام کو پیدل گھر سے ریس کورس گراونڈ میں گھمانے لے جاتے تھے، ساتھ ساتھ میں سب کو اپنی بچپن کی یادوں کے بارے میں بتاتا بھی جارھا تھا، آگے بائیں ھاتھ پر ریڈیو پاکستان کو دیکھا اور اس سے پہلے ایک سڑک جس کا نام چیرنگ کراس تھا، اس کو دائیں طرف گزرتے ھوئے دیکھا جو ویسٹریج کے علاقے کی طرف جاتی تھی، کچھ اور آگے بڑھے تو میرا پہلے کا دفتر نظر آیا جو تین منزلہ تھا اور رھائیش بھی ساتھ ھی تھی، جہاں شادی سے پہلے اور شادی کے بعد کے وقت کی خوبصورت اور خوشگوار یادوں کا سامنا ھو گیا جو چوھڑ کا علاقہ کہلاتا تھا، وھاں کچھ دیر کیلئے رکے اور چند اس وقت کے ملنے والے خاندان سے ملے جو بہت ھی شفیق اور مہربان لوگ تھے، بہت مشکل سے انہوں نے اجازت دی، انہوں نےچائے اور کچھ ناشتہ کا بندو بست کیا ھوا تھا، اس مختصر وقت کی ملاقات کیلئے وہ لوگ بہت ناراض ھوئے، واپسی پر تفصیلی ملاقات کا وعدہ کیا اور وھاں سے نکل پڑے،!!!!!
     

اس صفحے کو مشتہر کریں