1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

یادوں کی پٹاری پارٹ 1

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از ھارون رشید, ‏25 جنوری 2007۔

  1. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    سی دوران ھم نے وہاں لڑکی کے گھر والوں سے ٹیلیفون بات کی کہ اس آپکے داماد نے اس ھونے والی طلاق کا ذمہ دار ھمیں ٹھرا کر ھمیں بدنام کرنے کی کوشش کررھا ھے، اسے آپ لوگ سمجھائیں کہ ھمارے خلاف ایسی باتیں نہ کریں، وہ لوگ بھی حیران پریشان تھے، کہ وہ ایسا کیوں کررھا ھے انہوں نے کہا کہ،!!!!! یہ تو ھم سب کا یہاں پر آپس کا فیصلہ ھے کہ اس لڑکے کی زیادتیوں کی وجہ سے ھی ھم اپنی لڑکی کی مرضی سے ھی اس سے جان چھڑا رھے ھیں، اس میں آپکا کوئی عمل دخل نہیں ھے،جبکہ آپ لوگوں نے تو اس مسئلے کو ھر ممکن سلجھانے کی کوشش کی تھی،!!!! میں تو بہت زیادہ ھی پریشان ھوگیا تھا، میرے سارے دوست تو میری عادت کو سمجھتے تھے، اور اس کی حرکتوں کو بھی جانتے تھے، جب میں نے ان سب کو اصل حقیقت سے آگاہ کیا تو سب نے مل کر خوب اس پر لعن طعن کی، میں نے یہ پہلی غلطی کی تھی کہ کسی کو یہاں اپنے توسط سے بلوا کر اپنے آپ کو ذلیل کروایا، مجھے بہت ھی زیادہ دکھ ھوا، آخرکار نتیجہ صلح صفائی کا کچھ بھی نہیں نکلا، اور ان دونوں کی طلاق ھوگئی،!!!!!!

    میں بہت سے ایسے مظلوم لوگوں کی داستانوں کو یک جگہ کرکے تحریر کرنا چاہ رھا تھا، جو میرے سامنے کے واقعات ھیں، لیکن دل نہیں مانا کیونکہ میں نہیں چاھتا کہ کسی کی دل ازاری یا رسوائی ھو، مگر آپ سب جانتے ھیں کہ جتنی تیزی سے ھم ترقی کی منزلیں طے کررھے ھیں اسی تیزی سے ھم اپنے اخلاقیات اور خلوص کے رشتوں کو پامال کرتے جارھے ھیں،!!!!!!

    مجھے افسوس تو بہت ھوا کہ انکی شادی زیادہ دن تک نہیں چل سکی، مگر ایک لحاظ سے اس لڑکی کیلئے بہتر ھی ھوا، کہ آئندہ کی زندگی میں مزید تلخیوں اور پریشانیوں سے وہ بچ گئی اس کے علاوہ اس لڑکی کو یہ نصیحت بھی ھوگئی، کہ والدین کا جو بھی فیصلہ ھوتا ھے وہ ایک سچائی اور حقیقت سے قریب تر ھوتا ھے کیونکہ وہ اپنی زندگی کے تجربات کی روشنی میں چھان بین کرکے ھی کوئی فیصلہ کرتے ھیں، اگر وہ اس وقت جذبات سے قطع نظر اگر اپنے والدین کی بات مان لیتی تو اسے اس ناگہانی مسئلے سے دوچار نہ ھوتی، خیر طلاق کے پیپر دستخط کرانے کیلئے لڑکے سے کہا گیا پاکستای ایمبیسی جدہ سے تصدیق کروائیں، اس نے اس میں کافی تاخیر کی، لیکن لوگوں کے زبردستی کہنے سننے پر اس نے پیپر تصدیق کرواکر بھجوا دئے، پھر اس لڑکی نے وہاں والدین کی مرضی سے وہاں شادی کرلی اور اسکے کچھ عرصے بعد ان صاحبزادے نے بھی شادی کرلی، مجھے تو لگتا ھے کہ اس نے صرف باھر آنے کے چکر میں ھی پہلی بیوی کے ذریعے ھی اس سے شادی کا جھانسہ دے کر یہ قدم اٹھایا تھا، جب اس کا مقصد پورا ھوگیا تو اس نے شادی سے انکار کردیا لیکن سب جان پہچان کے لوگوں کے لعن طعن سے مجبور ھوکر شادی کیلئے رضامندی ظاھر کردی، اور اس نے شاید اپنا ایک انتقام لینے کیلئے بھی ھوسکتا ھے کہ یہ فیصلہ کیا ھو کہ مجھے اور ھمارے پڑوسیوں کو بدنام اور پریشان کرنے کیلئے سوچا ھو،!!!!

    بہرحال یہ کہانی تو ختم ھوگئی، مگر صاحبزادے اپنی دوسری شادی کرکے اسی ملازمت پر برقرار ھی رھے، اور کئی لوگوں نے مجھ سے سوال بھی کئے ساتھ ھی مشورہ بھی دیا کہ آپ اسے کسی طرح بھی کہہ کہلا کر اسے نوکری سے نکلوادیں، یا ھم کوئی ایسی صورت نکالتے ھیں کہ یہ صاحبزادے یہاں سے چلے جائیں، کیونکہ یہ جس لڑکی کی وجہ سے یہاں آیا تھا اسے تو اس نے طلاق دے دی اب اسکا یہاں رھنے کا کوئی جواز نہیں ھے،!!!! مگر میں نے انہیں یہ اقدام اٹھانے سے سختی سے منع کردیا تھا، کہ یہ بہت ھی غلط بات ھوگئی، چاھے کوئی بھی ھو اس کا رازق اللٌہ ھے، وہ اپنی قسمت کا رزق کما رھا ھے، اور ھم اپنے مقدر کا اللٌہ کی طرف سے دی ھوئی روزی روٹی کما رھے ھیں، ھمیں کوئی یہ حق نہیں پہنچتا ھے کہ کسی کی روزی کے پیچھے پڑ جائیں، یہ گناہ ھے، بس اب اس کے لئے یہی دعاء کرو کہ آئندہ کے لئے وہ اپنا بہتر راستہ چنے اور اللٌہ کی طرف سے اسے ھدایت بھی ملے،!!!!!

    ادھر ھمارے بڑے بیٹے جب وزٹ ویزے پر پہنچے، اس وقت میں آپریشن کے بعد گھر پر آرام کررھا تھا، جب میں کچھ بہتر ھوا اور کام پر جانے کے قابل ھوا تو میں نے سوچا کہ اسے کیوں نہ عارضی طور پر کسی کام پر کیوں نہ لگا دیا جائے، ایک جگہ خالی تھی تو میں وہاں کے انچارج سے بات کی، اس نے فوراً ھی اسے بلانے کیلئے کہا، اس وقت وہاں پر اسپتال کی مشہوری کے لئے ایک فلم بنانے کا جائزہ لیا جا رھا تھا، اور اتفاق سے میرے بیٹے کو پاکستان میں شادی کی مووی بنانے اور اسے ایڈیٹنگ کانٹ چھانٹ اور مکسنگ کا تجربہ اچھا خاصہ تھا، جو میں پسند نہیں کرتا تھا، یہاں ایک میڈیا سروس کا ڈپارٹمنٹ بھی تھا،انہوں نے اس کے تجربے کو دیکھتے ھوئے اسے اسپتال کی فلم بنانے کا ایک موقعہ دے دیا، جس میں وہ بہت ھی بہتر کامیاب رھا اور ایک اچھی فلم بناکر وہاں کے میڈیا افسران
    کا دل جیت لیا، اور اسے وہاں پر میڈیا اسسٹنٹ کے طور پر عارضی طور سے رکھ لیا گیا، وہ بھی بہت خوش ھوا کیونکہ وہاں ایک خوبصورت آڈیٹوریم بھی تھا، اور اسکے ساتھ مزید میڈیا سے تعلق ساونڈ پروجیکٹنگ سسٹم ساتھ بہترین اعلی اور جدید آلات نصب تھے، جہاں پر مختلف قسم کی میڈیکل سے متعلق پروگرام اور سیمینار ھوتے تھے، جنہیں چلانے کیلئے میرے بیٹے کو ھی ذمہ داری سونپ دی گئی، اور اس کے ساتھ وہاں پہلے سے ھی میرے ایک دوست بھی موجود تھے، انہوں نے بھی اسکی کافی مدد کی اور سارے کام سے آشنا بھی کرایا، جن کا میں کافی احسان مند ھوں،!!!!!

    اس اسپتال کی انتظامیہ نے اس کا کام دیکھتے ھوئے اسے کچھ تنخواہ بڑھا کر اسکے مستقل ویزے کا بندوبست بھی کردیا
    ---------------------------------

    اس اسپتال کی انتظامیہ نے اس کا کام دیکھتے ھوئے اسے کچھ تنخواہ بڑھا کر اسکے مستقل ویزے کا بندوبست بھی کردیا،!!!!!!!

    میں پہلے اپنے بیٹے کی اس ویڈیو مووی بنانے کے خلاف تھا، جو کہ وہ پاکستان میں ھی اکثر شادیوں میں جاکر اپنے اس ھنر کو آزماتا رھا،!!!!، کیونکہ اس کی وجہ سے رات رات بھر اسکا گھر سے غائب رھنا، اور دوپہر تک اس کا سوتے رھنا، پھر شام کو اس شادی کی ویڈیو کی رکارڈنگ کی مکسنگ اور اس رات کو پھر کسی اور شادی یا رسم مہندی میں بھاگم بھاگ پہنچنا، نہ کھانے کا ھوش تھا نہ پینے کا، اپنے اس مووی بنانے کے چکر میں اتنا محو ھو گیا تھا کہ اس کو گھر کا خیال بالکل نہیں تھا، جس کی وجہ سے مجھے اس کو اس کام کی طرف سے توجہ ھٹانے کیلئے یہاں بلانا پڑا، مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ اس کا جنونی شوق ھی اس کی آئندہ زندگی کی ملازمت کا بہتر مستقبل بن جائے گا،!!!!!

    کچھ ھی دنوں میں وہ یہاں سے مستقل ویزا لئے پاکستان گیا، اور دس روز میں ھی وہ مستقل ویزا پاسپورٹ پر لگوا کر یہاں واپس پہنچ گیا، اب مجھے اس کے سامنے شرمندگی ھونے لگی تھی کہ میں جس پیشے سے اس کو خوب ڈانٹتا تھا، آج اسی کے تجربے کی بدولت ایک صاف ستھری ملازمت حاصل کرسکا تھا، اور آج ایک اس اسپتال کے میڈیا سروس میں آڈیٹوریم کے تمام پروگام اور سیمینار کو ترتیب دے رھا ھے، اس کے علاوہ ویڈیو کانفرنس کے سسٹم اور فوٹو شاپ، ویب ڈیزائننگ کی تربیت بھی حاصل کرلی ھے، اور کمپیوٹر کے تمام نظام کو تو وہ پہلے سے ھی جانتا تھا‌، اللٌہ تعالیٰ کی بھی اس میں کیا مصلحت تھی وہ ھی خوب بہتر جانتا ھے،!!!!!!!

    اب تو وہ شادی شدہ بھی ھے، اسکی بیگم بھی اچھی خاصی پڑھی لکھی ھے، اور بہت ھی اچھے دل کی مالک ھے، اور وہ بھی یہاں ایک اسکول میں بچوں کو پڑھا رھی ھے،!!!!ا دوسرا چھوٹا بیٹا بھی اس وقت انٹرسائنس میں یہاں زیر تعلیم تھا اور ساتھ ھی وہ کمپیوٹر کی کلاسس بھی لے رھا تھا، اسے نیٹ ورکبگ کا بہت شوق ھے، وہ یہاں پر کچھ عرصے تک ایک نیٹ کیفے بھی اپنی مکمل ذمہ داری سے چلاتا بھی رھا تھا، جہاں سے اس نے بہت کچھ سیکھا، جبکہ مجھے خود اس نیٹ کیفے کی اس ملازمت سے میں بالکل ناخوش رھا، مگر میں نے کچھ نہیں کہا، سب کچھ اسی کی ذمہ داری پر چھوڑ دیا، اسنے مجھ سے یہی کہا کہ،!!!!! ابو،!!! آپ بالکل فکر نہ کریں ھم آپکے بیٹے ھیں اور ھمیں یہ خبر ھے کہ آپ ھمارے لئے کتنی فکر کرتے ھیں، آپ کی عزت رکھنا ھمارا اولین فرض ھے، !!!!!!! یہ اس نے اپنے بھائی کی طرف سے بھی مجھے یقین دلاتے ھوئے مزید کہا کہ،!!!!! ھم وعدہ کرتے ھیں کہ ھم کوئی ایسا کام نہیں کریں گے، جس سے آپکی عزت پر کوئی بھی حرف آئے،،!!!! ان دونوں نے یہاں کی ڈرائیونگ کا لائسنس بھی لے لیا ھے، مجھے بہت خوشی ھوئی،!!!! مگر میں نے آج تک گاڑی چلانے سے پرھیز کیا، سوائے موٹر سائیکل چلانے کے، وہ بھی صرف پاکستان میں شاید تقریباً ایک سال تک ھی چلائی ھوگی، مگر وہ بھی بغیر لائسنس کے،!!!!!!!!!!!!!

    آج کل کے بچوں کو میں نے دیکھا ھے، کہ وہ گھر میں رہ کر اس طرح ترقی نہیں کرسکتے جتنا وہ باھر رہ کر سیکھتے ھیں، مگر شرط یہی ھے کہ ان کی تربیت میں والدیں کا ھاتھ ضرور ھونا چاھئے، لیکن اس میں ان کے ساتھ زیادہ سخت ترین سختی یا پابندی نہیں ھونی چاھئے، مگر والدین کو چاھئے کہ اپنے بچوں کو شعور میں آنے کے بعد انہیں اس طرح اعتماد میں لیا جائے، کہ کم از کم انہیں اتنا ضرور احساس ھونا چاھئے، کہ والدین ھمارے موجود ھیں اگر کوئی غلط کام کریں گے، تو والدین کو دکھ اور افسوس ھوگا،!!!!! زیادہ مار پیٹ اور سختی سے بچوں کی نفسیاتی طور سے انکی سوچ سمجھ میں ایک ڈھیٹ پن آجاتا ھے جو آھستہ آھستہ انکے ساتھ برتاؤ میں کوئی مثبت پیش رفت اگر نہ ھوئی تو ان میں والدین سے مخالفت مول لینے اور سمجھیں کہ بغاوت کا رجحان بھی پیدا ھو جاتا ھے، آپ سب نے میری کہانی میں پڑھا ھوگا کہ میرے ساتھ والد کی بہت زیادہ سختی اور ان کے ڈر کی وجہ سے میرے اپنے اندر بغاوت کا عنصر پیدا ھو گیا تھا، جس کی وجہ سے میں ایک دفعہ بچپن میں پورے ایک سال سے اپنے اسکول سے والد کے ڈر سے غائب رھا اور گھر میں یہ ظاھر کرتا رھا کہ میں اسکول جارھا ھوں، اور ایک بار میں جب 17 سال کا تھا، تو میں نے بغیر بتائے ھوئے والد کی بہت زیادہ سختی کو اپنے دل میں بٹھاتے ھوئے گھر سے بھاگ گیا تھا، جس کی وجہ سے مجھے تو جو تکلیف ھوئی وہ تو ایک طرف لیکن میں نے اپنے بہن بھائیوں اور والدین کو اس وقت یہ حرکت کرکے بہت دکھ پہنچایا، اور میں سمجھتا ھوں کہ غلطی بالکل میری ھی تھی، لیکن میرے صرف والد کے رویہ نے مجھے بالکل مجبور کردیا تھا کہ میں مزید ایک غلط قدم اٹھاؤں، جو کہ بالکل ھی غلط فیصلہ تھا، جس کی وجہ سے میری پڑھائی کی طرف سے بھی توجہ کوئی خاص نہیں رھی، حالانکہ میری والدہ کا رویہ ھمیشہ سے نرم اور پرخلوص ممتا سے بھر پور رھا تھا، جس کا بھی میں نے والد کے ڈر کی وجہ سے ماں کی محبت سے بھی ناجائز فائدہ اٹھایا، ایک بات اور میں کہنا چاھوں گا کہ بہت زیادہ لاڈ پیار بھی بچے کا مستقبل بالکل تباہ کردیتا ھے، اس کے لئے ھمیں تربیت کیلئے میانہ روی کا راستہ اختیار کرنا چاھئے، بلکہ ھر معاملے میں،!!!!!!!!!!!!

    لیکن اس کے بعد میرے والد نے اپنا رویہ قدرتی طور سے بالکل ھی بدل دیا، اور بہت ھی سنبھل سنبھل کر مجھ سے پہلے تو میرے اندر کے خوف کو دور کیا، اور ایک سب سے پہلے دوستانہ رویہ اختار کیا، اور ھم سب بہن بھائیوں کو اپنا ایک اچھا خاصہ وقت دینے لگے، میرے ساتھ تو خاص کر انہوں نے بہت ھی احتیاط کی، ھوسکتا ھے کہ اس میں اس تبدیلی کی وجہ، ان کے دوست احباب کی ھی مدد یا مشورے اور نصیحتیں بھی شامل ھوں، جس کا کہ اثر یہ ھوا کہ میری زندگی میں ایک خوشگوار موڑ آیا، اور اس طرح میں نے والد کی مرضی کے مطابق ھی اپنے آپ کو ڈھال لیا، اور ان کے کہنے کے پر ھی اپنی پڑھائی کا رخ ان کے پسندیدہ مصمون اکاونٹس یعنی حساب کتاب کی طرف کردیا، جس میں خاطر خواہ کامیابی تو حاصل نہیں کی، لیکن ایک حد تک میں اس کی وجہ سے اپنے آپ کو آج اس عہدہ پر دیکھتے ھوئے فخر محسوس کرتا ھوں کہ جو کچھ بھی آج میں ھوں اپنے والدین کی وجہ سے ھی ھوں، اس کے علاوہ میں نے والدین کی رضامندی سے ھی شادی بھی کی اور ایک بہت ھی خوبصورت اور خوشحال زندگی اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ گزار رھا ھوں، اور اب تو شادی کو 30 سال بھی ھونے والے ھیں، والدین اور بزرگوں کی دعاؤں سے دو بچوں کی شادیوں کی ذمہ داریوں سے بھی اللٌہ تعالیٰ نے فارغ کردیا، جس کا کہ میں اسکا جتنا بھی شکر بجا لاؤں وہ کم ھے،!!!!!!!

    ھم نے بھی اپنے بچوں کے ساتھ بھی وہی رویہ اور تربیت کو اختیار کئے رکھا، جو ھم نے اپنی پچھلی زندگی کے تجربات سے سیکھا تھا، جس میں والدین کی راہنمائی اور بہتر تربیت بھی شامل تھی، کوشش ھم سب کرتے ھیں بس کبھی کبھی ھماری چند کوتاھوں کی وجہ سے ھم اپنی ھی مشکلات میں گرفتار ھوجاتے ھیں، بہتر سے بہتر ھمیں اپنے بچوں کا مستقبل ڈھونڈنا ھے، آگے اللٌہ مالک ھے وہی عزت دیتا ھے اور ذلت بھی،!!!!!!!!!!!!

    آج تو ساری ھی کہانی نصیحتوں اور اپنے تجربات کی روشنی میں گزار دیں، انشااللٌہ اگلی نشست میں اپنی کہانی کو لے کر چلوں گا،!!!!!
     
  2. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    فی الوقت انہیں دواؤں اور ڈرپ سے ان کے بلڈ پریشر، شوگر، اور دوسری علامات جو بہت ھی زیادہ کنٹرول سے زیادہ ھیں، انہیں کنٹرول میں لانے کی کوشش کی جارھی ھی، اس کے تمام رزلٹ اگر ضرورت کے مطابق ھوگئے تو ان کے پتے کا اپریشن کیا جائے گا، جیسا کہ میرا بھی اسی طرح کا 2002 میں آپریشن ھو چکا ھے، اس میں شاید 12 دن تک لگ سکتے ھیں، ان کی جو پیٹ میں پتے کی پتھریوں کی وجہ سے تکلیف تھی وہ اب دواؤں اور انجکشن کی وجہ سے بہتر ھے، لیکن اس کا مستقل علاج پتے کا آپریشن ھی ھے، جیساکہ وہاں کے سرجن نے کہا ھے، اور تمام علامات کے معتدل ھوتے ھی آپریشن کردیا جائے گا، ان کی عمر اس وقت 80 سال کے لگ بھگ ھے، اس لئے یہ مشکلات پیش آرھی ھیں، میری ان سے کل ٹیلیفوں پر بات چیت بھی ھوئی ھے، میں نے بہت ھی مشکل سے اپنے آنسوں کو ضبط کرتے ھوئے ان سے بات کی تھی، لیکن ان کی ھمت ھے کہ اس عمر میں مجھے صبر اور حوصلہ رکھنے کا سبق دے رھیں تھیں، وہ بہت ھی بلند حوصلے کی مالک ھیں، اللٌہ تعالیٰ انہیں اپنے حبیب (ص) :saw: کے صدقے صحت و تندرستی عطا فرمائے، آمین،!!!!!!!!!!!!

    آپ سب کی دعاؤں کا طلب گار،!!!!!!
    خوش رھیں،!!!!۔

    ------------------------

    آج میں اپنی ماں کو اپنے ماضی کی یادؤں میں ڈھؤنڈنے کی کوشش کررھا ھوں، وہ میرا بچپن مجھے اب تک یاد ھے جو وہ مجھے اپنے گود میں بٹھا کر کہانیاں سنایا کرتی تھیں، میرے ساتھ اور میری چھوٹی بہن کے ساتھ بالکل بچوں کی طرح کھیلا کرتی تہیں، کبھی وہ چھپ جاتیں اور ھم دونوں بہن بھائی انہیں کمروں میں تلاش کرتے تھے، وہ آوازیں لگاتی رھتیں کہ ھم انہیں خود ڈھونڈ لیں اور اس طرح ھمارا حوصلہ بڑھا کر ھمیں کہتیں کہ تم جیت گئے، اور میں ھار گئی،!!!!!!!!

    انکا اپنے ھاتھوں سے نوالے بنا بنا کر بڑے پیار سے کھانا کھلانا مجھے ابھی تک یاد ھے میں اب جب بھی چھٹی جاتا ھوں سب سے پہلے اپنی ماں کی گود میں سر رکھتا ھوں تو بالکل مجھے اپنا بچپن یاد آجاتا ھے، میرا دل چاھتا ھے کہ خوب پھوٹ پھوٹ کر روؤں، میری ماں بھی مجھے اپنے گلے لگا لیتی بالکل اسی طرح جیسے اپنے کسی چھوٹے بچے کو گود میں لئے ھو، ان کی آنکھوں میں آنسو بھی آجاتے تھے، میری بھی آنکھیں پر نم ھوجاتی تھیں، پھر میرے بچوں اور بیگم کی باری آتی تھی، میرے بچے بھی اپنی دادی سے بہت پیار کرتے ھیں،!!!!!!!

    آج وہ اسپتال میں داخل ھیں، اور سب لوگ ان کے لئے دعا گو ھیں، میرا ایک بیٹا جو پاکستان میں اپنی پڑھائی مکمل کررھا ھے، ان کی دیکھ بال میں مصروف ھے، بیٹی جو اپنے سسرال میں ھے وہ اور میرے داماد بھی اور ساتھ ھی میرے دو بھائی اور بھابھی بھی اور چاروں بہنیں ‌بھی ان کا خیال رکھ رھی ھیں، ساتھ ان سب کے بچے بھی اور ھمارے تینوں بہنوئی بھی وہیں پر انکی خدمت میں پیش پیش ھیں، یہاں ھم دو بھائی ھیں، میں اور میرے بھائی تو بس بالکل جانے کیلئے تیار بیٹھے ھیں، میری چھٹی بھی منظور ھوچکی ھے، ویسے تو 10 دسمبر کی سیٹیں بک ھیں، سب کے پاسپورٹ پر خروج دخول کے ویزے لگ چکے ھیں، ٹکٹ بھی آچکے ھیں، لیکن ھم کسی وقت بھی جانے کیلئے بالکل تیار بیٹھے ھیں، بڑا بیٹا فی الوقت کام کی زیادتی کی وجہ سے نہیں جاسکتا ھے،!!!!! شاید ھمارے جانے کے بعد پہنچے، میری والدہ بھی یہی چاھتی ھیں کہ میں جلد بازی نہ کروں اور آرام سے آؤں، ھر وقت انٹر نیٹ اور فون پر سب سے رابطہ قائم ھے، اور اللٌہ تعالیٰ سے امید ھے کہ وہ جلد ھی بہتر ھوجائیں گی،!!!!!!!!!
     
  3. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    آپ سب کی دعاؤں سے آج میری والدہ کی طبعیت بہت بہتر ھوگئی ھے، اور وہ اب کھانے پینے لگی ھیں، انکے پتے میں معمولی سا ورم باقی ھے، اس ورم کے ختم ھوتے ھی ان کا دو ھفتے کے اندر اندر آپریشن ھوجائے گا، اب وہ ماشاللٌہ چل پھر بھی رھی ھیں، دل سے جو دعائیں کی جائیں ان دعاؤں میں کافی اثر ھوتا ھے، آج میں بہت خوش ھوں بالکل ایک چھوٹے بچے کی مانند جیسے اسے کوئی دنیا کا کوئی بہت بڑا خوشیوں کا خزانہ مل گیا ھو،!!!!!!

    آپ سب کے لئے بھی میرے دل سے دعائیں نکل رھی ھیں، کہ آپ سب نے بھی میری والدہ کے حق میں دل سے دعائیں کی ھیں، کہ آج وہ ھنستی مسکراتی نظر آرھی ھیں، واقعی ماں ایک ایسی ھستی ھے کہ ان کے خاموش رھنے سے دل بالکل افسردہ ھوجاتا ھے اور ان کیے چہرے پر ایک مسکراھٹ انکی اولاد کو دنیا کی ھر دولت سے زیادہ عزیز لگتی ھے، ماں کا پیار اسکی اولاد کے لئے ایک بہت بڑی نعمت ھے، یہ ھمیں اس وقت احساس ھوتا ھے جب ھم ان سے دور ھوتے ھیں، اور اگر انہیں کوئی دکھ یا تکلیف کا سامنا ھوتا ھے، تو خود بخود انکی اولاد بھی تڑپتی ھے، جیسے ماں اپنی اولاد کو کبھی کسی تکلیف یا پریشانی میں کسی صورت دیکھ نہیں سکتی ھے، اسی لئے ھم اپنی کسی بھی دکھ تکلیف یا پریشانی کی کوئی بھی بات اپنی والدہ کو پہنچانے سے ھمیشہ گریز کرتے ھیں،!!!!!!!!!!!!!!

    ھمیشہ خوش رھیں اور اسی طرح مجھے اپنی دعاؤں میں شامل رکھیں،!!!!!!
     
  4. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    ھم نے بھی اپنے بچوں کے ساتھ بھی وہی رویہ اور تربیت کو اختیار کئے رکھا، جو ھم نے اپنی پچھلی زندگی کے تجربات سے سیکھا تھا، جس میں والدین کی راہنمائی اور بہتر تربیت بھی شامل تھی، کوشش ھم سب کرتے ھیں بس کبھی کبھی ھماری چند کوتاھوں کی وجہ سے ھم اپنی ھی مشکلات میں گرفتار ھوجاتے ھیں، بہتر سے بہتر ھمیں اپنے بچوں کا مستقبل ڈھونڈنا ھے، آگے اللٌہ مالک ھے وہی عزت دیتا ھے اور ذلت بھی،!!!!!!!!!!!!

    2004 کا دور چل رھا تھا، اور اللٌہ کے فضل و کرم سے ھماری زندگی پھر سےخوشیوں سے بھر پور اپنی پوری رفتار سے دوڑی چلی جارھی تھی، بڑے بیٹے کو بھی اسکے میڈیا کے شوق اور مرضی کی ملازمت مل چکی تھی، میں بھی حیران ھوں کہ اسکے اس شوق کو میں پہلے بالکل ناپسند کرتا تھا، لیکن خوشی کی بات یہ تھی کہ یہی میرے نزدیک اسکا برا شوق اسکی زندگی کا ایک حصہ بن چکا تھا، پہلے وہ شادیوں اور مختلف تقریبات کی فلمیں بنانے اور تصویریں کھینچنے میں دلچسپی لیتا تھا مگر اب تو یہاں اسکے پاس ایک آڈیٹوریم ھے جہاں وہ میڈیکل پروگرام اور سیمار اور مختلف علوم کے پروگرام ترتیب دیتا ھے اس کے علاوہ ویڈیو کانفرنسس کےذریئے مختلف بین الاقوامی اداروں کے مابین بھی چلاتا ھے، براہ راست میڈیکل آپریشن کے ذریئے دنیا کے مشہور مشہور سرجن اور ڈاکٹرز کے تاثرات اور مشورے بھی یہاں کے سرجن اور ڈاکٹرز تک کو آپریشن کے دوران پہنچاتا بھی ھے، اب مجھے میرا بیٹا اس انداز میں بہت اچھا لگتا ھے،!!!!!

    میں نے بھی اپنی جوانی کے ادوار کے وہ شوق جو میرے والد کو پسند نہیں تھے، جیسے سینما کی ملازمت اور پینٹنگ کے شوق سے بھی کچھ زیادہ تو نہیں لیکن کیش کے لین دین اور اسکے کھاتوں کے اندراج کے بارے میں بہت کچھ سیکھ چکا تھا، جو بعد میں مجھے دوران ملازمت مجھے نقد روپوں کے لین دین کیلئے کافی سودمند ثابت ھوا، یعنی انسان چاھے تو ھر دور میں کچھ نہ کچھ سیکھ سکتا ھے، مگر اسے غلط رنگ نہیں دینا چاھئے، یا اسکے غلط طریقہء استعمال کو نہیں اپنانا چاھئے،!!!!!!!

    یہ سال بھی بہت ھی اچھا رھا، یہاں ریاض میں ھی پاکستان انٹر نیشنل اسکول میں بچے زیر تعلیم تھے، بڑی بیٹی انٹر فائنل میں تھی اس سے چھوٹا بیٹا اور بیٹی میٹرک میں تھے اور سب سے چھوٹی بیٹی ابھی آٹھویں جماعت میں تھی، ایک اسکول کی وین انہیں لاتی لے جاتی تھی، کوئی ایسا مشکل مسئلہ نہ تھا، اسی طرح اس سال میں ان چاروں نے اچھے نمبروں سے اپنے اپنے کلاسس میں اچھی پوزیشن حاصل کرلی تھی، اپنے بچوں کے لئے اب میں چاہ رھا تھا کہ اب اس سے آگے کی تعلیم پاکستان میں حاصل کریں، کیونکہ اخراجات بھی ساتھ ساتھ بڑھتے جارھے تھے، اس لئے ھم سب نے مل کر یہی فیصلہ کیا کہ میں اور بڑا بیٹا یہیں پر اپنی اپنی ملازمت جاری رکھیں، اور چاروں بچوں کو پاکستان میں ھی آگے پڑھنے دیتے ھیں، ان کے ساتھ انکی والدہ کو پاکستان میں‌ رھنے دیا جائے تو بہتر رھے گا، یہ سوچا کہ ایک کوشش کرنے میں کیا حرج ھے، ورنہ تو روزبروز اخراجات میں کمی ھونے کے بجائے ھوتا جارھا تھا، کچھ بچت کی صورت بھی نظر نہیں آرھی تھی، اور ساتھ ھی ھر سال پاکستان آنے جانے میں ھی کافی کچھ خرچہ آجاتا تھا، کہ واپسی پر اپنے اوپر قرضہ لاد کر آنا پڑتا تھا،!!!!!!!!

    2005 کے سال کے شروع میں ھی یہاں سے چاروں بچوں کے اسکول چھوڑنے کے اور ایمگریشن سرٹیفکیٹ حاصل کئے، کیونکہ یہاں پر فیڈرل بورڈ سے یہ اسکول رجسٹرڈ تھا، اب سندھ بورڈ میں ٹرانسفر کے لئے ایمگریشن سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا ضروری تھا، جس کی وجہ سے سب کے لئے ایمیگریشن بورڈ کو تبدیل کرنے کیلئے ایک اچھی خاصی فیس کے ڈرافٹ فیڈرل بورڈ کے نام بنوائے، اور اسلام آباد بھجوا دئے، اور پاکستان جانے کی تیاری کرنے لگے، بچوں کو سال کا واپسی ویزا لگوا دیا، تاکہ وہ اگلی چھٹیوں میں واپس آسکیں، ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں ان سب کا ویزا ضائع نہیں کرنا چاھتا تھا،!!!!!!

    --------------------

    2005 کے سال کے شروع میں ھی یہاں سے چاروں بچوں کے اسکول چھوڑنے کے اور ایمگریشن سرٹیفکیٹ حاصل کئے، کیونکہ یہاں پر فیڈرل بورڈ سے یہ اسکول رجسٹرڈ تھا، اب سندھ بورڈ میں ٹرانسفر کے لئے ایمگریشن سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا ضروری تھا، جس کی وجہ سے سب کے لئے ایمیگریشن بورڈ کو تبدیل کرنے کیلئے ایک اچھی خاصی فیس کے ڈرافٹ فیڈرل بورڈ کے نام بنوائے، اور اسلام آباد بھجوا دئے، اور پاکستان جانے کی تیاری کرنے لگے، بچوں کو سال کا واپسی ویزا لگوا دیا، تاکہ وہ اگلی چھٹیوں میں واپس آسکیں، ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں ان سب کا ویزا ضائع نہیں کرنا چاھتا تھا،!!!!!!

    بچوں کی ھی خواھش پر کہ اب پاکستان جا ھی رھے ھیں تو کیوں نہ متحدہ امارات میں کچھ دن گزارتے ھوئے جائیں، وہاں پر بچوں کے ماموں اور مامی اپنی چار بیٹیوں کے ساتھ ھی رھتے تھے، ان کی بھی خواھش تھی کہ ھم ان کے پاس کچھ دن گزاریں، اب یہ خواھش بھی پوری ھونے جارھی تھی، اس سے پہلے بھی یہاں رھتے ھوئے دو دفعہ وہاں پر ایک یا دو دن کیلئے ان کے پاس رکے بھی تھے، مگر اس دفعہ بچوں کی خواھش کچھ زیادہ دن تک رکنے کی تھی، میں نے بھی انکی خواھش کا احترام کرتے ھوئے یہاں سے ھی متحدہ عرب امارات کا ویزا حاصل کیا، اور بچے اس دن کا بے چینی سے انتظار کرنے لگے، جس دن یہاں سے امارات ائرلائن سے روانہ ھونا تھا، ان دنوں وہاں پر فیسٹول کی گھما گھمی بھی تھی، بچوں کو وہاں کے گلوبل ولیج گھومنے کا بہت شوق تھا، جہان پر دنیا بھر کے ممالک کے علاوہ پاکستان کے ولیج پر بھی کافی رونق لگی ھوئی تھی، اور یہ بھی سنا تھا کہ ان دنوں بہت ھی خوبصورت اور کئی بہترین پروگرام بھی منقعد ھوتے ھیں،!!!!!

    بچوں کی خواھش تو اپنی جگہ لیکن ھمیں بھی وہاں جاتے ھوئے اچھا لگ رھا تھا، ایک طرف دبئی کی رونقیں بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھیں، اور دوسرے یہ کہ ھماری بیگم کے بھائی اور بھابھی اور انکے بچے وہاں موجود تھے، ان کے ساتھ شروع میں ھم پاکستان میں بھی خوب گھومے پھرے تھے 1988 میں تو پورے پاکستان کے ایک یادگار سفر پر ھم سب ایک ساتھ تھے، جب ان کی نئی نئی شادی ھوئی تھی، اور ھمارے چاروں بچے تھے مگر بہت چھوٹے تھے، پانچویں بیٹی تو اس وقت اس دنیا میں نہیں آئی تھی، غرض یہ کہ دونوں فیملیوں نے پاکستان میں کافی اچھا وقت بھی گزارا تھا، اور اب یہ حال ھے کہ برسوں میں کبھی کبھی ملاقات ھوجاتی ھے، اگر چھٹیوں میں ایک ساتھ جانے کا اتفاق ھوا ھو تو،!!!!!!!

    چلئے وہ دن بھی آگیا، کہ ھم دبئی کے بین الاقوامی ائرپورٹ پر ھم تمام بچوں کے ساتھ موجود تھے، وہاں کے ائرپورٹ میں داخل ھوتے ھی طبعیت خوش ھوجاتی ھے،اوپر مہمانوں کی گیلری میں دیکھا تو بچوں کے ماموں اور مامی بمعہ بچوں کے ھاتھ ھلاتے ھوئے نظر آئے، وہاں کے ائرپورٹ پر ھی وہاں کی انتظامیہ کی مہمان نوازی دیکھنے سے تعلق رکھتی ھے، جیسے ھی ایمیگریشن کے کاونٹر کے قریب پہنچے وھاں کے خوبصورت مقامی لباس میں ملبوس عورتوں اور لڑکیوں نے ھمارا پھولوں کے گلدستے دیتے ھوئے استقبال کیا، اور بہت عزت سے ایک جگہ آرام دہ کرسیوں پر بٹھایا اور پاسپورٹ لے لئے، اور دوسرے لوگ وہاں سب آئے ھوئے مسافروں کو چاکلیٹ اور ٹافیاں دے کر خوش کررھے تھے، میں نے یہ پہلے اس طرح کی مہمان نوازی نہیں دیکھی تھی، مجھے خود حیرانگی ھورھی تھی، کچھ ھی دیر میں ایک لڑکی ھمارے پاسپورٹ ھمارے حوالے کرتے ھوئے اپنے ساتھ باھر کی طرف لے گئی جہاں پر ھماری فلائٹ کا سامان ایک بیلٹ پر آرھا تھا، وہاں سے وہ بہت ادب کے ساتھ رخصت ھوگئی، اسی طرح بہت سی اور بھی لڑکے لڑکیاں خوبصورت لباس زیب تن کئے ھوئے تمام فیملیز کی مہماندری کیلئے میزبانی پر مامور تھیں، شاید وھاں کے فیسٹول کی مناسبت سے یہ سب کچھ شاندار مہمانداری کی روایت کو اپنائے ھوئے تھے،!!!!!!!!
     
  5. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    لئے وہ دن بھی آگیا، کہ ھم دبئی کے بین الاقوامی ائرپورٹ پر ھم تمام بچوں کے ساتھ موجود تھے، وہاں کے ائرپورٹ میں داخل ھوتے ھی طبعیت خوش ھوجاتی ھے،اوپر مہمانوں کی گیلری میں دیکھا تو بچوں کے ماموں اور مامی بمعہ بچوں کے ھاتھ ھلاتے ھوئے نظر آئے، وہاں کے ائرپورٹ پر ھی وہاں کی انتظامیہ کی مہمان نوازی دیکھنے سے تعلق رکھتی ھے، جیسے ھی ایمیگریشن کے کاونٹر کے قریب پہنچے وھاں کے خوبصورت مقامی لباس میں ملبوس عورتوں اور لڑکیوں نے ھمارا پھولوں کے گلدستے دیتے ھوئے استقبال کیا، اور بہت عزت سے ایک جگہ آرام دہ کرسیوں پر بٹھایا اور پاسپورٹ لے لئے، اور دوسرے لوگ وہاں سب آئے ھوئے مسافروں کو چاکلیٹ اور ٹافیاں دے کر خوش کررھے تھے، میں نے یہ پہلے اس طرح کی مہمان نوازی نہیں دیکھی تھی، مجھے خود حیرانگی ھورھی تھی، کچھ ھی دیر میں ایک لڑکی ھمارے پاسپورٹ ھمارے حوالے کرتے ھوئے اپنے ساتھ باھر کی طرف لے گئی جہاں پر ھماری فلائٹ کا سامان ایک بیلٹ پر آرھا تھا، وہاں سے وہ بہت ادب کے ساتھ رخصت ھوگئی، اسی طرح بہت سی اور بھی لڑکے لڑکیاں خوبصورت لباس زیب تن کئے ھوئے تمام فیملیز کی مہماندری کیلئے میزبانی پر مامور تھیں، شاید وھاں کے فیسٹول کی مناسبت سے یہ سب کچھ شاندار مہمانداری کی روایت کو اپنائے ھوئے تھے،!!!!!!!!

    شروع میں پہلی مرتبہ شاید دس بارہ سال پہلے جدہ سے ھم سب براستہ دبئی جا چکے تھے، مگر صرف ایک رات کیلئے کیونکہ دوسرے دن صبح ھی ھماری وہاں سے پاکستان کیلئے فلائٹ کی روانگی تھی، 9 گھنٹے کا وقفہ تھا تو ھمیں دبئی کے الامارات ھوٹل میں ائر لائن کی طرف سے ٹھرایا گیا تھا،بچوں کے ماموں جان نے ھی رات رات میں دبئی کی سیر بھی کرائی تھی،اس وقت ان کے بچے پاکستان چھٹی منانے گئے ھوئے تھے، اور پھر انہوں واپس صبح کو ائرپورٹ سے ھی رخصت کیا تھا،!!!!! اس وقت کے دبئی میں اور اب کی بار جو دبئی کو دیکھا تو کافی فرق نظر آیا، ایک یورپ اور امریکہ کے خوبصورت شہروں میں سے ایک نظر آرھا تھا،!!!!!!

    ائرپورٹ سے ھم اپنا اپنا سامان ٹرالیوں میں ڈال کر باھر نکلے، سامان کافی زیادہ تھا، کیونکہ ھم سب پاکستان جارھے تھے، جس کی وجہ سے ھمارے سالے صاحب کو ایک چھوٹا منی ٹرک کرایہ پر لینا پڑا، خوبصورت شاھراہوں سے گزرتے ھوئے ان کے گھر پہنچے، دو کاروں میں ھم سب فیملیز بیٹھ گئیں ایک شاید ان کے دوست کی کار تھی، منی ٹرک بھی پیچھے پیچھے پہنچ گیا، چھٹی منزل پر گھر تھا، میں سوچ رھا تھا کہ اتنا زیادہ سامان کہاں رکھیں گے، مجھے شرمندگی بھی ھو رھی تھی، خیر اب کیا کیا جائے، میں نے تو پہلے ھی کہہ دیا تھا کہ سامان بہت زیادہ ھوگا اس کے لئے ائرپورٹ پر ھی کہیں رکھنے کا بندوبست کرلینا تاکہ لانے لے جانے میں کوئی پریشانی نہ ھو، لیکن اس نے کہا کہ ائرپورٹ پر چارجز زیادہ لگ رھے تھے اس لئے میں نے اپنے فلیٹ کے کوریڈور میں ھی رکھنے کا بندوبست کرلیا ھے وہاں پر چار ھی فلیٹ ھیں اور سب جان پہچان کے ھی ھیں، کسی کو کوئی اعتراض نہیں ھو گا،!!!!!!!

    مجھے تو تمام بچوں اور فیملیز کے ساتھ چھوٹا موٹا سامان ھاتھ میں پکڑا کر اپنی بلڈنگ کی لفٹ کی طرف بھیج دیا، تاکہ میں ان سب کے ھمراہ اوپر ان کے فلیٹ میں پہنچوں، اور وہ میرے دونوں بیٹوں اور دوست کے ساتھ مل کر سامان کو اوپر پہنچانے میں مدد کریں گے، ان کا فلیٹ خوبصورت اور دو بیڈ روم اور ایک چھوٹا سا ڈرائینگ روم پر مشتمل تھا،جس کے ایک طرف باتھ روم اور اور دوسری طرف کچن بھی اچھا خاصہ بڑا تھا، انہوں نے اس فلیٹ کو بہت ھی خوبصورت زیبائش کے ساتھ آراستہ کیا ھوا تھا، بقرعید بھی دو دن کے بعد تھی، مجھے اب یہاں آکر افسوس اس بات کا ھو رھا تھا کہ ھم نے انہیں بہت تکلیف دی تھی، میں نے ان سے یہاں آنے سے پہلے تاکید بھی کی تھی کہ ھمارے لئے ایک ھوٹل میں ایک ہفتے کیلئے ایک کمرہ ضرور لے لینا، مگر انہوں نے جواب دیا تھا، کہ کوئی آپ لوگ غیر تھوڑی ھی ھو، میری بڑی بہن آرھی ھے، میرا گھر چھوٹا ھے لیکن آپ فکر ھی نہ کریں سب مل جل کر گزارا کرلیں گے،اس وقت اس کا کرایہ بھی شاید 65 ھرار درھم سالانہ تھا، جبکہ اس سے ڈبل تین چار کمروں کا فلیٹ یہاں ریاض میں 20 ھرار ریال سالانہ سے زیادہ نہ تھا، میں نے وہاں کی مہنگائی کا مکان کے کرایہ سے ھی اندازہ لگا لیا تھا،!!!!!!!

    جب وہ سب مل کر ھمارے سامان کو باھر کوریڈور کے دروازے کے ساتھ رکھ کر کمرے میں واپس آئے تو بہت تھکے ھوئے لگ رھے تھے، خاص خاص ساماں کو اندر ھی رکھ لیا تھا، میں نے پھر ایک بار ان سے معذرت کی، لیکن انہوں نے کہا کہ اگر پھر آپ نے ایسا کہا تو میں برا مان جاؤں گا، میرے گھر آپکا اور میری بہن بھانجے بھانجیوں کے ساتھ آنا میرے لئے بہت ھی خوش قسمتی کی بات ھے، پھر انہوں نےاپنی پاکستان کی پرانی سیرو سیاحت اور تفریحات کا ذکر کیا کہ ھم سب نے کتنا اچھا وقت مل جل کر خوب پاکستاں میں لطف اٹھایا تھا، یہ بات تو واقعی بالکل صحیح تھی کہ ان کے ساتھ ھم نے ایک دفعہ تفریح کے غرض سے پاکستان کے شمالی علاقوں کا دورہ کیا تھا، ویسے بھی اسے میری طرح گھومنے پھرنے کا بہت شوق تھا، اور مہمان داری کرنے میں تو وہ کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا تھا، اس نے پورے ھفتے کا پروگرام بھی پہلے سے ھی ترتیب دے دیا تھا،!!!!!!

    عید کے دن وہاں کی ایک پاکستانی کیمیونٹی سینٹر کی مسجد میں نماز پڑھی، جہاں پر مجھے تو بالکل ایسا لگا کہ میں پاکستان میں ھوں وہاں نماز سے پہلے مولانا صاحب اردو میں ھی واعظ فرما رھے تھے، مسجد کے باھر ٹینٹ بھی لگے ھوئے تھے، جہاں پر کافی تعداد میں پاکستانی اپنے بچوں کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے آئے ھوئے تھے، بالکل ھی پاکستانی ماحول لگ رھا تھا،!!!!!!

    ----------------------------

    عید کے دن وہاں کی ایک پاکستانی کیمیونٹی سینٹر کی مسجد میں نماز پڑھی، جہاں پر مجھے تو بالکل ایسا لگا کہ میں پاکستان میں ھوں وہاں نماز سے پہلے مولانا صاحب اردو میں ھی واعظ فرما رھے تھے، مسجد کے باھر ٹینٹ بھی لگے ھوئے تھے، جہاں پر کافی تعداد میں پاکستانی اپنے بچوں کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے آئے ھوئے تھے، بالکل ھی پاکستانی ماحول لگ رھا تھا،!!!!!!

    عید سے پہلے تو بچوں نے نزدیکی بازار میں جاکر پیدل ھی عید کی شاپنگ کی، انہیں تو یہاں بہت ھی اچھا لگ رھا تھا، بسوں کا بہت اچھا انتظام تھا،ھر جگہ کی بس بہت آسانی سے مل جاتی تھی، اس کے علاوہ ٹیکسیوں کی تو بھر مار تھی، ٹریفک کا انتظام اور کنٹرول بہت عمدہ تھا، اور ھر کوئی ٹریفک کے اصولوں اور قوانیں کا احترام کرتا تھا، وہاں ھرجگہ خاص کر اس شہر کے علاقوں میں فٹ پاتھ کے ساتھ پارکنگ کا کرایہ بھی دینا پڑتا تھا، جہاں پر رھائش تھی وہ علاقہ "بر دبئی" کہلاتا تھا، وہاں سے "ڈیرہ دبئی" کیلئے بیچ میں ایک سمندر کی خلیج کو عبور کرنا پڑتا تھا، یا سمندر کے اندر سے بھی ایک راستہ بنایا گیا تھا، اس خلیج کے دونوں کناروں پر رات کو روشنیاں اور خوبصورت عمارتیں دیکھنے سے تعلق رکھتی تھیں آر پار جانے کیلئے ھم نے موٹربوٹ سے ھی سفر کیا، اس کے علاوہ ساحل سمندر کے کنارے بھی گئے وہاں کا "جمیرا بیچ ھوٹل" تو بہت ھی شاندار تھا، اس سے تھوڑی دور پر سمندر کے اندر بنی ھوئی خوبصورت "برج العرب" ھوٹل کی عمارت جو بادبان کی کشتی سے مماثلت رکھتی تھی، بہت ھی سمندر کے کنارے سے دیکھنے میں ایسا لگتا تھا کہ سمندر کے بیچ کوئی ھلکے نیلے رنگ کی بادبانی کشتی کھڑی ھو،!!!!!!!

    ان دنوں ھلکی ھلکی بارشیں بھی ھورھی تھیں، اور بچے تو اس موسم میں اور بھی لطف اندوز ھورھے تھے، ایک دن ھم سب مل کر وہاں کے بڑے مشہور گارڈن شاید اس کا نام "صافی پارک" تھا، میں بھی گئے، جہاں پر "بار بی کیو" کا انتظام کیا اور چکن تکے بھون کر خوب مزے مزے سے کھائے، زیادہ تر بچے ھی ھر کام پر معمور تھے، وہاں پر ھی گارڈن کے بیچوں بیچ ایک خوبصورت جھیل بھی تھی، جہاں بچوں کی تفریح کیلئے خاص انتظام تھا، اور اس کے علاوہ ایک بہت بڑے ایک کنارے پر دو جہاز کھڑے کئے گئے تھے، جہاں انگلش میں پرانے زمانے کے شیکسپیئر کے اسٹیج شو براہ راست منعقد کئے گئے تھے، جس میں جنگ و جدل کے ماحول کو دکھایا گیا تھا، جسے دیکھ کر بہت ھی مزا آیا،!!!!!

    ایک دن شام کو وہاں کے ایک "دبئی میوزیم" بھی گئے، اندر تو وہاں کی ثقافت اور پرانے دور کے بارے میں ان کے استعمال کی چیزیں اور مجسمیں ایسے بنائے گئے تھے، جو نقل و حرکت بھی کررھے تھے، ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ بالکل اصلی ھوں، ایک جگہ لوھار کی دکان جس میں مجسمہ بنا ھوا لوھار ایک لوھے کی سلاخ کو کوٹ رھا تھا، ایک پنساری کی دکان دیکھی جہاں وہاں کے مقامی کو سودا بیچتے ھوئے دکھایا گیا تھا، اس کے علاوہ اونٹ بان اپنے ایک اونٹ کو اسکی نکیل پکڑے بازار لے جاتے ھوئے دکھایا گیا تھا،ساتھ ھی وہاں کی پرانی روایاتوں ‌کے رسم و رواج کو بھی اجاگر کیا گیا تھا وہاں کی پرانی تہذیب کے نوادرات بھی شیشوں کی الماریوں میں بند سجے ھوئے دیکھے، زیورات اور گھریلو استعمال کی چیزیں بڑے قرینے سے رکھی گئی تھیں، اور ساتھ ان کے بارے میں معلومات بھی درج تھیں،!!!!!!!!

    اکثر رات کو ھم سب باھر ھی مشہور مقامات کے ریسٹورانٹ میں کھانا کھاتے تھے، ھنوستانی اور پاکستانی چٹ پٹے کھانوں کی بھر مار تھی، ایک جگہ "رنگولی چآٹ" کے نام سے مشہور تھی، وہاں پر تو کئی دفعی پانی پھلے، گول گپے، چنے فروٹ چاٹ اکثر شام کو وہاں کھانے ضرور جاتے تھے، مشہور شاپنگ سینٹرز میں "برجمان سینٹر" بہت پسند آیا، ویسے وہاں کی ھر مارکیٹ اور بازار اور پارک بہت ھی خوبصورت تھے، عالیشان بلڈنگوں میں اس وقت "ٹوین امارات ٹاورز" بہت مشہور تھے جو شارع شیخ زاید پر موجود ھیں، اس کے علاوہ دبئی ٹاورز اور دوسری خوبصورت طویل قامت عمارتیں دیکھنے سے تعلق رکھتی تھیں، اب تو دبئی میں اور بھی بہت ساری خوبصورت جگہوں کا اضافہ ھوگیا ھوگا، جیسے "پام ٹری" اور مصنوئی اسکیٹنگ کی جگہ اور بہت ساری مشہور عجائب دنیا کے شاھکار اب تک بن چکیں ھونگی، دل تو بہت چاھتا ھے، لیکن وہاں کے اخراجات کو دیکھ کر دل کچھ ڈول سا جاتا ھے،!!!!!!!

    ان دنوں ھر جگہ فیسٹول کی وجہ سے رنگ برنگے میلے ھی نظر آتے تھے، سڑکوں پر شاپنگ سینٹرز میں دنیا بھر کے مملک کے لوگ پروگرام کررھے تھے، ایک دن ھم سب نے خاص کر " گلوبل ولیج " جانے کا فیصلہ کیا جہاں پاکستان سمیت دنیا کے ھر ملک کے بڑے بڑے اسٹالز جو ایک بڑی بڑی عمارتوں میں الگ الگ بہت ھی خوبصورتی سے بنائے گئے تھے، اور ساتھ ھی تفریحی پروگرام منعقد کئے گئے تھے، جو روزانہ شام کو شروع ھوتے اور رات گئے تک جاری رھتے تھے، جو دبئی سے کافی فاصلے پر تھا، وہاں پر ھم بذریعہ بس کے گئے تھے اور بہت ھی زیادہ لطف اٹھایا، میں اس گلوبل ولیج کو کبھی بھی نہیں بھول سکتا، ایسا لگتا تھا کہ ھم کسی امریکہ کے کسی بڑے شہر کی نمائش میں گھوم پھر رھے ھیں،!!!!!
     
  6. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    ان دنوں ھر جگہ فیسٹول کی وجہ سے رنگ برنگے میلے ھی نظر آتے تھے، سڑکوں پر شاپنگ سینٹرز میں دنیا بھر کے مملک کے لوگ پروگرام کررھے تھے، ایک دن ھم سب نے خاص کر " گلوبل ولیج " جانے کا فیصلہ کیا جہاں پاکستان سمیت دنیا کے ھر ملک کے بڑے بڑے اسٹالز جو ایک بڑی بڑی عمارتوں میں الگ الگ بہت ھی خوبصورتی سے بنائے گئے تھے، اور ساتھ ھی تفریحی پروگرام منعقد کئے گئے تھے، جو روزانہ شام کو شروع ھوتے اور رات گئے تک جاری رھتے تھے، جو دبئی سے کافی فاصلے پر تھا، وہاں پر ھم بذریعہ بس کے گئے تھے اور بہت ھی زیادہ لطف اٹھایا، میں اس گلوبل ولیج کو کبھی بھی نہیں بھول سکتا، ایسا لگتا تھا کہ ھم کسی امریکہ کے کسی بڑے شہر کی نمائش میں گھوم پھر رھے ھیں،!!!!!

    گلوبل ولیج کے بارے میں جیسا سنا تھا اس سے بھی بہت خوبصورت نظر آیا، بہت دیکھنے کی خواھش تھی، ھر ملک نے وہاں پر اپنے کلچر کے بارے میں بہتر سے بہتر معلومات فراھم کی تھیں اس کے علاوہ وہاں کی خاص مصنوعات کی نمائش بھی لوگوں کیلئے ایک دلچسپی کا باعث بنی ھوئی تھیں، گلوبل ولیج کی شاراھوں پر بھی ھر ملک کی روایات کے مطابق مارچ پاسٹ اور بینڈ باجوں کے ساتھ اعلیٰ اور منظم طریقوں سے وہاں کے فنکار الگ الگ ٹولیوں میں بٹے ھوئے اپنے اپنے ملکوں کی ثقافت اور فن کا مظاہرہ کررھے تھے، اس کے علاوہ پاکستان کے ایک خوبصورت اور سجے سجائے اسٹالز میں ھمارے پاکستان کی مصنوعات کی نمائش بھی لوگوں کی قابل توجہ کا مرکز بنی ھوئی تھیں، پاکستان کی دستکاری، پاکستان کے ھنرمند ھاتھوں کی تخلیق کی ھوئی خوبصورت چیزیں پاکستان کے بہترین کلچر کی نمائندگی کررھی تھیں، اور پاکستانی کھانے پینے کے اسٹالز پر تو دنیا کا رش موجود تھا، دوسری طرف پاکستانی ریسٹورانٹ اور مٹھائی کی دکانوں کو دیکھ کر تو لگتا تھا کہ ھم اپنے ملک میں گھوم رھے ھیں،!!!!

    بچوں کے لئے تو بہت سی تفریحی جدید قسم کے الیکٹرانک جھولے اور دوسرے تفریحی دلچسپیوں کے ساز و سامان دیکھ کر ھی بچوں کا تو خوشی کے مارے برا حال تھا، ھر جگہ انعامات کی اسکیمیں ھر مصنوعات کے اسٹال پر لوگوں کی خاص توجہ تھی، مختلف رنگا رنگ پروگرام بھی دلچسپی سے لوگ دیکھ رھے تھے، غرض کہ ھر طبقہ کے لوگوں کی تفریحات کا بہت ھی خوبصورتی اور سلیقہ سے انتظام کیا گیا تھا، اور ساتھ ھی سیکوریٹی اور ٹرانسپورٹ کا بھی اچھا خیال رکھا گیا تھا، وہاں پر کافی رات ھوچکی تھی اور کسی کا بھی واپس جانے کو دل نہیں کررھا تھا، وہیں پر ھی ایک پاکستانی ریسٹورانٹ میں کھانا کھایا، اور وہاں سے ایک بس کے ذریئے دبئی واپس آگئے، اور اتنے تھکے ھوئے سو گئے کہ کب صبح ھوئی کچھ پتہ ھی نہیں چلا، !!!!!!!

    ایک ہفتے سے زیادہ ھو گیا تھا لیکن دبئی سے واپسی کیلئے کوئی بھی تیار نہیں تھا، ان دنوں وقفہ وقفے سے ہلکی ہلکی پھوار بوندا باندی بھی ھورھی تھیں، جس کی وجہ سے دبئی کا موسم بہت ھی خوشگوار تھا، اور اوپر سے بہار کی آمد آمد تھی، سمندر کے کنارے اس موسم میں خوبصورت باغیچوں میں تو خوب لطف آرھا تھا،!!!!!

    آخری دنوں میں ھم نے سوچا کہ دبئی کے آس پاس کے شہروں کو بھی دیکھ لیا جائے، مگر صرف شارجہ ھی جاسکے جہاں ھم آدھے گھنٹے کی ڈرائیو‌ کے بعد پہنچ گئے، وہاں پر ایک عالیشان بلڈنگ میں ھماری کمپنی کا آفس بھی موجود تھا کچھ دیر کیلئے میں اپنے بیٹوں اور سالے صاحب کے ساتھ اس آفس کے اپنے پرانے ساتھیوں سے ملاقات بھی کی، وہاں سے فارغ ھوکر ھم شارجہ کے کرکٹ اسٹیڈیم کی طرف گئے، کبھی یہاں پر ون ڈے کرکٹ میچ کی بہاریں ھوا کرتی تھیں، اسٹیڈیم میں داخل ھوتے ھی مجھے وہاں کی کرکٹ کی رونقیں یاد آنے لگیں خاص کر وہ میاں داد کا آخری گیند پر چھکا جس نے پاکستان کو شکست سے بچا لیا تھا،جہاں پاکستان کو جیتنے کیلئے آخری گیند پر چار رن کی ضرورت تھی، اور ساری دنیا کی نظریں میاں داد کی آخری شاٹ پر لگی ھوئی تھیں، جب میاں داد نے ساری پاکستانی قوم کی دعاؤن اور اپنی ہمت اور جذبہ کو یکجا کرتے ھوئے جو اپنے بلے کو آتی ھوئی گیند پر زبردست شاٹ لگایا تو وہ گیند آسمانوں سے باتیں کرتی ھوئی اسٹیڈیم کی باونڈری کو پار کرگئی، تو لوگوں کا شور جو اٹھا تو گیند کی فضائی حدود کو بھی پار کرگیا تھا!!!!!!! میں اس وقت شارجہ کے خاموش اسٹیڈیم میں کھڑا ان ھی یادوں میں کچھ وقفے کیلئے کھو گیا تھا، وہی شور میرے کانوں میں گونج رھا تھا،!!!!!!!

    اب کیا دیکھتا ھوں کہ وہی اسٹیڈیم ایک خاموش اور سناٹے میں ایک ویرانے کا سماں باندھے ھوئے ھے، لیکن پھر بھی چند وہاں کے مقیم پاکستانی لڑکے مل کر اسی پچ پر اپنے کرکٹ کے شوق کو زندہ کئے ھوئے کھیل رھے تھے، مگر کوئی بھی تماشائی اسٹیڈیم کے آس پاس ھمارے علاوہ نظر نہیں آرھا تھا، مگر میں نے دیکھا کہ میرے چھوٹے بیٹے نے اس وقت ایک لڑکے کو ایک اچھا شاٹ کھیلتے ھوئے دیکھ کر تالیاں بجائی، تو اس لڑکے نے اپنے بلے کو اوپر اٹھا کر میرے بیٹے کی طرف دیکھتے ھوئے شکریہ ادا کیا، تو اس وقت میری آنکھوں میں آنسو آگئے تھے،!!!!!!

    ----------------------------------
     
  7. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]
     
  8. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ میں اپنی تمام پرانی یادگار تصویروں کو اکھٹا کرنے میں مصروف ھوں، اور انشااللٌہ میں دوبارہ اپنی کہانی کو انہیں یادگار تصاویر کے ساتھ مختصر خلاصے کے ساتھ پیش کرونگا، کچھ پاکستان میں بھی چند تصاویر رشتہ داروں اور عزیزوں کے پاس بھی ھیں،!!!!!!!

    یہاں پر اس وقت دو تصاویر پیش کرنے جارھا ھوں جو شاید 1988 میں پاکستان کے شمالی علاقوں کی سیر تفریح کے دوران لی گئی دو یادگار تصویریں ھیں جہاں میں بیگم اور چاروں بچوں کے ساتھ 20 سال پہلے کی تصاویر میں نظر آرھا ھوں، جو مینگورہ، سوات میں کھینچی گئی تھیں،!!!!!!!!!!!
    [​IMG]

    [​IMG]
     
  9. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    اب کیا دیکھتا ھوں کہ وہی اسٹیڈیم ایک خاموش اور سناٹے میں ایک ویرانے کا سماں باندھے ھوئے ھے، لیکن پھر بھی چند وہاں کے مقیم پاکستانی لڑکے مل کر اسی پچ پر اپنے کرکٹ کے شوق کو زندہ کئے ھوئے کھیل رھے تھے، مگر کوئی بھی تماشائی اسٹیڈیم کے آس پاس ھمارے علاوہ نظر نہیں آرھا تھا، مگر میں نے دیکھا کہ میرے چھوٹے بیٹے نے اس وقت ایک لڑکے کو ایک اچھا شاٹ کھیلتے ھوئے دیکھ کر تالیاں بجائی، تو اس لڑکے نے اپنے بلے کو اوپر اٹھا کر میرے بیٹے کی طرف دیکھتے ھوئے شکریہ ادا کیا، تو اس وقت میری آنکھوں میں آنسو آگئے تھے،!!!!!!

    مجھے اس وقت اس شارجہ اسٹیڈیم کی وہ رونقیں یاد آگئی تھیں، جو کبھی تمام تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ھوتا تھا، اور ھمارے کھلاڑیوں کی ھر اچھی کارکردگی پر تمام اسٹیڈیم شائیقین کی داد سے گونج اٹھتا تھا تو خاص کر بیٹنگ کرتے ھوئے ھمارے کھلاڑی اپنا بلا اٹھا کر شکریہ ادا کررھے ھوتے تھے،!!!!!

    میری کبھی بہت ھی خواھش رھی تھی کہ اس شارجہ اسٹیڈیم میں آکر خود اپنے سامنے اپنے قومی کھلاڑیوں کی شاندار کارکردگی دیکھوں، لیکن افسوس میں اس وقت آیا جب اس شارجہ اسٹیڈیم کو رونقوں کو نہ جانے کس کی نظر کھا گئی تھی،!!!!!!

    مگر مجھے اس بات کی خوشی ضرور تھی کہ وہاں کے مقامی پاکستانی بھائیوں اور دوسرے ایشیائی ملکوں کے نوجوان طبقے نے اپنی حد تک اسی شارجہ کرکٹ اسٹیڈیم کی یادوں کو تروتازہ کیا ھوا ھے،!!!!!!!

    دبئی میں رھتے ھوئے ھمیں دس دن گزرگئے اور پتہ ھی نہیں چلا، بچوں کی تو ڈبل عید ھوگئی تھی، ھر روز کہیں نہ گھومنے کا پروگرام بن جاتا تھا، آخر ایک نہ ایک دن وہاں سے واپس جانا ھی تھا، مزید سامان کا وزن بڑھ چکا تھا، اس لئے ھمیں کچھ سامان وھیں پر چھوڑنا پڑا، بچوں کے ماموں نے کہا کہ وہ اپنے ساتھ باقی کا سامان لے آئیں گے، کیونکہ ھمارے جانے کے بعد اگلے ھفتے ھی انکی پاکستان کے لئے روانگی تھی، ھم سب بہت ھی چہروں پر افسردگی لئے دبئی کے ائرپورٹ پر پہنچے، اور کچھ ھی دیر میں تمام ائرپورٹ کی کاروائیوں سے فارغ ھو کر سب کو الوداع کہتے ھوئے امارات کی فلائٹ کے لئے ائرپورٹ کے لاؤنج میں بیٹھ گئے، ایک طرف تو بہت ھی زیادہ خوشی تھی کہ ھم سب اپنے وطن جارھے ھیں مگر دوسری طرف کچھ افسوس اس بات کا بھی تھا کہ اپنے دبئی کی میزبانی اور سیر وتفریح کی رونقوں سے دور ھورھے تھے،!!!!!!

    کراچی ائرپورٹ پہنچتے ھی تمام رشتہ دار اور دوست احباب کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ھم نے عید کے دن ان کے ساتھ نہیں گزارے، 2005 کے شروع کے بہار کا موسم شروع چکا تھا، سردی کی لہر بھی کچھ کمزور پڑچکی تھی، موسم بہت ھی خوشگوار ھو چکا تھا، کہیں ایک جگہ تو ٹھکانہ نہیں تھا، سب سے پہلے تو والدہ کے یہاں پہنچے، وہاں پر حسب معمول سب بہن بھائی اپنی اپنی فیملیوں کے ساتھ موجود تھے، تحفے تحائف کی تقسیم بھی جاری تھی، کچھ گلے شکوئے بھی ساتھ ساتھ معمول کے مطابق جاری تھے، بہنوں کے شکوئے تو سر آنکھوں پر، کیونکہ ان کا تو حق بنتا ھے، چاھے وہ کتنی بڑی کیوں نہ ھوجائیں، باقی رشتہ داروں کے تو شکایتیں کبھی بھی ختم نہیں ھوتیں، جیسے ھی پہنچو وہ سب رشتہ دار جمع ھوکر والدہ کے سامنے ھی شروع ھوجاتے تھے، کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ میں والدہ کے روبرو کچھ کہہ نہیں سکتا تھا،!!!!!!!

    ان دنوں کچھ زیادہ شکایتیں سنائی نہیں دی ھر طرف سے دعوتوں کا سلسلہ کچھ بہت ھی خلوص کے ساتھ جاری تھا، میں بھی حیران تھا کہ کیا بات ھے، کہ ھر طرف رشتہ داروں کے علاؤہ دوست احباب عزیزوں میں بھی خوب خاطر مدارات ھورھی تھیں، مگر میرا دھیان اس طرف نہیں جارھا تھا جس کی وجہ سے ھماری بہت خلاف توقع خوب آؤ بھگت ھورھی تھی، میری اس حیرانگی کو محسوس کرتے ھوئے مجھے میری بیگم نے احساس دلایا کہ،!!!! آپ کہاں ھیں کیا کچھ خبر بھی ھے کہ اب ھمارے بچے بڑے ھوچکے ھیں، اور یہ جو کچھ آپ دیکھ رھے ھیں یہ اسی کی بدولت ھے، کیا آپ نے سوچا تھا کہ یہ وقت بھی آئے گا، اب آپ کے پاس کیا ھے، کیا آپ اس وقت کیلئے تیار ھیں، باھر رھتے ھوئے بھی ھم ایک چھوٹا سا گھر تک تو بنا نہیں سکے، اب آپ ان کی شادیوں کے لئے کیا کچھ کرسکیں گے، لوگوں کی سوچ تو یہ ھے کہ باپ اور بیٹا باھر سعودیہ میں خوب کما رھے ھیں،!!!!!!

    واقعی یہ تو میں نے بالکل ھی سنجیدگی سے سوچا ھی نہیں کہ اب تو ھماری شادی کو بھی 26 سال ھونے والے تھے، اور میرے بچے کب بڑے ھوگئے مجھے پتہ ھی نہیں چلا، مجھے تو کل کی ھی بات لگ رھی تھی کہ جن دنوں ھم اپنے چار چھوٹے بچوں کے ساتھ سوات اور مری کی خوبصورت وادیوں میں گھوم رھے تھے، اور ابھی ھم اپنے بچوں کے ساتھ دبئی سے گھومتے ھوتے ھوئے آرھے تھے، اتنے بڑے دورانیہ کا عرصہ پل بھر میں گرر گیا اور بچے بھی جوان ھوگئے، کچھ احساس ھی نہیں ھوا، اور یہاں پر تو سب لوگ ھم سے بہت کچھ توقع لگائے بیٹھے تھے، کہ ھم لوگ پہنچیں اور ھم سے بچوں کی شادیوں کے سلسلے میں بات چیت کریں،!!!!!!

    پہلے تو بہن بھائیوں کی ذمہ داریوں کو نبھاتے ھوئے کچھ زندگی گزر گئی اور کچھ اپنے بچوں کے ساتھ اس طرح شب و روز گزرے کہ بچت کی طرف کوئی توجہ ھی نہیں گئی، ایک فلیٹ بھی کبھی بک کرایا تھا،لیکن فوراً بعد وقت اور حالات ایسے نہیں تھے کہ اس کی قسطیں جمع کراسکے، جس کی وجہ سے وہ فلیٹ بھی منسوخ ھوگیا، اس سے پہلے بھی دو زمینوں کے کاغذات بھی کچھ سازشوں کی نظر ھوگئے، کچھ بیگم کے زیورات تھے، وہ بھی کچھ اپنی ذمہ داریوں کے بھینٹ چڑھ گئے، باقی جو کچھ بچتا تھا وہ ھمارے سب کے پاکستان آنے جانے اور شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں لینے دینے میں خرچ ھی برابر ھوجاتا تھا، جب پاکستان سے چھٹیاں گزار کر واپس جاتے تو ایک مزید قرضے کا بوجھ لاد کر پہنچ جاتے جسے سال بھر پھر اس بوجھ کو اتارنے میں ھی لگ جاتے تھے،!!!!!!
    اور اسی طرح یہ زندگی کا پہیہ گھومتا ھی رھا، ھوش جب آیا تو پاس کچھ بھی نہیں تھا،!!!!!!

    ---------------
    پہلے تو بہن بھائیوں کی ذمہ داریوں کو نبھاتے ھوئے کچھ زندگی گزر گئی اور کچھ اپنے بچوں کے ساتھ اس طرح شب و روز گزرے کہ بچت کی طرف کوئی توجہ ھی نہیں گئی، ایک فلیٹ بھی کبھی بک کرایا تھا،لیکن فوراً بعد وقت اور حالات ایسے نہیں تھے کہ اس کی قسطیں جمع کراسکے، جس کی وجہ سے وہ فلیٹ بھی منسوخ ھوگیا، اس سے پہلے بھی دو زمینوں کے کاغذات بھی کچھ سازشوں کی نظر ھوگئے، کچھ بیگم کے زیورات تھے، وہ بھی کچھ اپنی ذمہ داریوں کے بھینٹ چڑھ گئے، باقی جو کچھ بچتا تھا وہ ھمارے سب کے پاکستان آنے جانے اور شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں لینے دینے میں خرچ ھی برابر ھوجاتا تھا، جب پاکستان سے چھٹیاں گزار کر واپس جاتے تو ایک مزید قرضے کا بوجھ لاد کر پہنچ جاتے جسے سال بھر پھر اس بوجھ کو اتارنے میں ھی لگ جاتے تھے،!!!!!!
    اور اسی طرح یہ زندگی کا پہیہ گھومتا ھی رھا، ھوش جب آیا تو پاس کچھ بھی نہیں تھا،!!!!!!

    باھر ھم جیسے لوگ بس کیا بتائیں،؟؟؟؟ بہت ساری ذمہ داریوں کو نبھاتے رھتے ھیں، کیونکہ ھم سے ھمارے اپنے ملک میں جو لوگ بھی تعلق رکھتے ھیں، ان سب نے ھم باھر والوں سے بہت سی توقعات وابسطہ کی ھوئی ھوتی ھیں، اور ھماری بھی یہ مجبوری ھوتی ھے کہ ھم اپنے باھر کا بھرم رکھنے کیلئے اس سب کی جائز ناجائز خواھشوں کو پورا کرتے رھیں، اور اپنی خاص ذمہ داریوں کو ایک طرف کردیتے ھیں، جب ھماری اپنی ذمہ داریوں کا موقعہ آتا ھے، تو سب وہی لوگ بالکل پیچھے ھٹ جاتے ھیں، اور صرف وہی لوگ آپ کا ساتھ دیتے ھیں جنہیں آپ سے کوئی لالچ یا کوئی غرض نہیں ھوتا،!!!!!!!

    یہاں ھم سب اکثر اپنی زندگی کے رھن سہن کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھنے کے لئے بہت سارے دوسرے ذرائع اور وسائل کو استعمال میں لاکر مزید اپنے اوپر قرضہ کے بوجھ کا اضافہ کرلیتے ھیں، کیونکہ ھم سمجھتے ھیں کہ یہاں پر رھتے ھوئے ھم اس قرضے کو بنک یا کمیٹی کے ذریعے آسانی سے ماھانہ اقساط میں ادا سکتے ھیں، مگر یہاں ھم یہ ذرا سی بات سمجھ نہیں پاتے کہ ھر مہینے ان اقساط کی وجہ سے اپنی تنخواہ سے ایک اچھی خاصی رقم نکل جاتی ھے، اور جو کچھ باقی رہ جاتا ھے، اس سے پورا مہینہ گزارنا محال ھو جاتا ھے، جس کی وجہ سے پھر کسی دوسرے سے مزید قرضے کیلئے رجوع کرتے ھیں، اور پھر قرضہ پر قرضہ مزید چڑھاتے جاتے ھیں، اس کے علاوہ یہاں کی ھوائی نوکری کا کوئی بھروسہ نہیں کب اور کہاں پر کس وقت فارغ ھونے کا نوٹس مل جائے، تو پھر ان تمام قرضوں کی ادائیگی کس طرح ممکن ھوسکے گی،!!!!!

    مجھے بھی پاکستان جاکر فکر لگ گئی تھی، اب یہاں تو بیگم نے بھی آئندہ ھماری آنے والی ذمہ داریوں سے باخبر کردیا تھا، میں نے اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے کوئی بھی منصوبہ بندی نہیں کی ھوئی تھی، خاص کر بیٹیوں کے لئے،!!!!! اسی لئے میں نے فی الوقت اپنی بیگم کو منع کردیا تھا کہ ابھی کسی بھی اپنی بیٹی کے رشتہ آنے پر اپنا کوئی رد عمل ظاھر نہ کریں، کیونکہ ابھی ھم اس پوزیشن میں نہیں ھیں کہ ھم اپنی بیٹیوں کی شادی کے لئے لوگوں کے ناجائز مطالبات پر ھامی بھر لیں، ھاں اگر کوئی مناسب اور بغیر کوئی لالچ رکھنے والوں کی طرف سے کوئی اس سلسلے میں بات ھو تو غور کیا جاسکتا ھے، لیکن اس کے لئے کچھ وقت کی مہلت ضرور چاھئے ھوگی،!!!!!

    اللٌٌہ کی قدرت دیکھئے، کہ انہی چھٹیوں کے دوران بڑے ییٹے اور بیٹی کے لئے خاندان کے باھر سے اچھے اور مناسب رشتے آگئے اور کسی بھی رشتہ دار کو اس بات کی خبر نہ ھوئی، کسی تقریب میں بس ایک دو بار ملاقات ھوئی ھوگی، ایک جگہ تو براہ راست انکی دعوت پر اپنے بیٹے کے رشتہ کیلئے جانا پڑگیا، جس میں صرف میں، بیگم اور بچے شامل تھے اور کوئی ساتھ نہیں تھا، جس کا گلہ بعد میں سب نے کیا، بہرحال ھم جب پہنچے تو انہوں نے بہت خاطر مدارات کیں، بہت اچھے لوگ تھے، انہوں نے ھمارے بیٹے کو پہلے بھی کسی تقریب میں دیکھ کر پسند کیا تھا، اور لڑکی کی بھی اس میں پہلے سے ھی رضامندی شامل تھی، عام رسمی باتوں سے ھی ھم دونوں خاندانوں نے ایک دوسرے کو بے حد متاثر کیا، اور اس رشتہ کیلئے اسی وقت بغیر کچھ کہے سنے قبول کرلیا، مگر میں نے اپنے طور سے کہا کہ ھمیں کوئی جہیز وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں، بس بالکل سادگی سے نکاح کیا جائے، اور جب ھمارا بیٹا بہو کیلئے ویزے کا بندوبست کرلے تو بس ویزے کے جاری ھونے کے فوراً بعد ھی اپنی بیٹی کو سعودی عرب رخصت کردیجئے گا، کسی بھی شرط کے بغیر، ھم سعودیہ میں ھی باقی ولیمہ کی رسومات ادا کرلیں گے،!!!!!

    اس سے ھم نے اگلے سال تک کی مہلت مانگی اور وہاں سے واپس اپنی والدہ کے یہاں پہنچے، اور انہیں سب سے پہلے اپنے بیٹے کی خوشخبری سنائی، اسکے بعد آہستہ آہستہ تمام رشتہ داروں میں یہ خبر پھیل گئی، جس کا کہ ھر ایک نے بہت برا مانا، کیونکہ ھم نے کسی سے بھی اس معاملے میں کوئی صلہ مشورہ نہیں کیا تھا،!!! ھم نے بھی سب سے یہی کہا کہ اچانک ھی ھمیں یہ فیصلہ کرنا پڑا، کیونکہ مجھے واپس سعودی عرب جانا تھا،!!!!!

    اسی طرح بڑی بیٹی کا بھی رشتہ خاندان سے باھر آن پہنچا، بیٹے کی طرح ھی ایک تقریب میں ھی ھماری بیٹی کو پسند کیا گیا، میں چونکہ سعودی عرب جلدی واپس جانے کے چکر میں تھا، اس لئے کچھ جواب دینے سے قاصر تھا، میں نے بیگم سے کہا کہ،!!!! میں تو جارھا ھوں، بیٹی کا معاملہ ھے اس لئے اپنے ایک بھائی اور بھابھی کے گھر خاموشی سے ان سب کی لڑکے سمیت دعوت کرو اور حالات کا جائزہ لیتے ھوئے اگر لڑکے اور ان کے گھر والے اچھے اور مناسب شریف لوگ سمجھ میں آئیں تو بات پکی کرلینا اور اگلے سال یعنی 2006 میں بیٹے کےنکاح کے موقع پر بیٹی کی منگنی کا اعلان بھی کردیں گے، رشتہ داروں اور دوسرے عزیز و اقارب میں تو پہلے سے ھی کھلبلی مچ چکی تھی، کیونکہ زیادہ تر لوگ ھمارے بچوں سے اپنے بچوں کی شادیاں کرنے کیلئے تیار بیٹھے تھے، اس میں انکی کوئی لالچ ھو یا بچوں کے اچھے کردار اور اخلاق کی وجہ رھی ھو، یہ تو اللٌہ بہتر جانتا ھے، مگر سب بس اسی انتظار میں تھے کہ کوئی بات آگے بڑھائی جائے لیکن انہیں اچانک یہ دو خبریں سن کر بہت ھی زیادہ مایوسی ھوئی،!!!!!

    میں تو پاکستان سے اکیلا اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ ھی سعودیہ واپس آگیا، بیگم اور باقی چاروں بچوں کو کہا کہ اب یہاں پر ھی ایک اچھا سا مکان کریہ پر لے کر آپ لوگ یہیں پر اسکول اور کالج میں داخلہ لے لو اور پڑھائی جاری رکھو، بس یہ خیال رھے کہ ویزا ختم ھونے سے پہلے واپسی کا ویزا لگانے ضرور پہنچ جانا، سعودیہ میں پاکستانی انٹرنیشنل اسکول سے بچوں نے آگے پڑھنے کیلئے پہلے سے ھی ایمیگریشن کے تبادلہ کے لئے درخواست فیڈرل بورڈ اسلام آباد کو بھیجی ھوئی تھی،،!!!!! اب مجھے کچھ ھوش آیا تو میں نے بھی کچھ بچانے کی سوچی، جو قرضہ پہلے سے تھا، وہ شاید بچوں کی غیر حاضری میں ختم ھی ھو جائے، پھر کوئی نئے سرے سے آگے کی منصوبہ بندی کے بارے میں سوچیں گے، یہ سوچ کر اپنے دل کو تسلی دے ڈالی،!!!!!!
     
  10. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    میں تو پاکستان سے اکیلا اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ ھی سعودیہ واپس آگیا، بیگم اور باقی چاروں بچوں کو کہا کہ اب یہاں پر ھی ایک اچھا سا مکان کریہ پر لے کر آپ لوگ یہیں پر اسکول اور کالج میں داخلہ لے لو اور پڑھائی جاری رکھو، بس یہ خیال رھے کہ ویزا ختم ھونے سے پہلے واپسی کا ویزا لگانے ضرور پہنچ جانا، سعودیہ میں پاکستانی انٹرنیشنل اسکول سے بچوں نے آگے پڑھنے کیلئے پہلے سے ھی ایمیگریشن کے تبادلہ کے لئے درخواست فیڈرل بورڈ اسلام آباد کو بھیجی ھوئی تھی،،!!!!! اب مجھے کچھ ھوش آیا تو میں نے بھی کچھ بچانے کی سوچی، جو قرضہ پہلے سے تھا، وہ شاید بچوں کی غیر حاضری میں ختم ھی ھو جائے، پھر کوئی نئے سرے سے آگے کی منصوبہ بندی کے بارے میں سوچیں گے، یہ سوچ کر اپنے دل کو تسلی دے ڈالی،!!!!!!

    اب ھم دونوں باپ بیٹے یہاں پہنچ تو گئے، لیکن گھر بالکل سونا سونا لگ رھا تھا، میرا بیٹا ویسے خیال تو بہت رکھتا تھا، لیکن بعض اوقات وہ بھی پریشان ھوجاتا تھا، کچھ تھوڑا بہت میں نے پکانے کی کوشش بھی کی، لیکن جو عورتوں کو پکوان تیار کرنے میں ایک اپنا منفرد ذائقہ آتا ھے وہ ھمارے جیسے بہت کم لوگوں میں ایسا ذائقہ ملتا ھے، اس کے علاوہ عورتوں کو میں نے دیکھا ھے کہ باورچی خانہ میں اکثر بہت ھی زیادہ مشغول رھتی ھیں، لیکن پھر بھی وہ اپنے باورچی خانے کو صاف ستھرا اور چمکا کر رکھتی ھیں، اور اگر ھم ایک انڈا بھی فرائی کرتے ھیں تو کچن میں چاروں طرف افراتفری مچا دیتے ھیں، کچھ ادھر ادھر گندے برتن پھیلے ھوئے، تیل آدھا فرائی بین میں آدھا فرش پر اور کچھ چولہے پر پھیلا ھوا، کچھ اپنے کپڑوں پر بھی چھڑکا ھوا نظر آتا تھا، کئی دفعہ تو خود ھی فرش پر اپنے ھی پھیلائے ھوئے تیل پر پھسل جاتے تھے، غرض کے ھم مرد حضرات تو کچن کا حشر نشر کردیتے ھیں، واقعی جب گھر میں عورتیں نہیں ھوتیں تو ان کی قدر شدت سے محسوس ھوتی ھے، لیکن بعض مرد حضرات ایسے بھی دیکھے ھیں کہ جو کھانے پکانے میں اعلی درجے کی مہارت رکھتے ھیں، ان کی بیگمات بھی واقعی اپنی قسمت پر رشک کرتی ھوں‌ گی، !!!!!

    ھمارے بیٹے بھی ساتھ ھی ایک ھی کمپنی میں نوکری کرتے ھیں، اس کا بھی گھر میں دل نہیں لگتا تھا، بس میرے ساتھ جلدی جلدی کھانا کھایا اور برتنوں کو سمیٹ کر کچن کے سنک میں پھینکا اور اپنے دوستوں کی محفل کی طرف بھاگ جاتا تھا، اور میں بس ٹی وی کے آگے بیٹھے ادھر ادھر کے چینل گھماتا رھتا، کبھی چائے کو دل چاھا تو چائے خود ھی بنا کر پی لی، گھر کی ترتیب بگڑی ھوئی، بیڈ روم میں جو چادر بیڈ پر بیگم بھچا کر گئی تھیں، وہ ویسے کی ویسے ھی اس دن سے سلوٹوں میں لپٹی ھوئی پلنگ پر الٹ پلٹ ھورھی ھے، اور صاحبزادے کے کمرے میں تو الگ ھی برا حال ھے وہاں تو چادر بیڈ سے نیچے پڑی ھوئی ھے، صاحب زادے کو تو چادر اٹھانے کی بھی فرصت نہیں ھے، تکیہ کہیں پڑا ھوا ھے، کمبل کہیں اور ھے، ھم دونوں کے کپڑے بھی جو بچے استری کرکے قرینے سے ھم دونوں کی الماریوں میں الگ الگ ٹانگ گئے تھے، وہ بھی ایک ھفتے کے اندر اندر پہن کر میلے کپڑوں کی ٹوکری کی نذر ھوچکے تھے،!!!!!!!

    ایسی صورت تھی کہ دونوں ھی پریشان تھے، اور مجھے تو واقعی بیگم اور بیٹیوں کی قدر کا اندازہ اب کچھ زیادہ ھی ھورھا تھا، وہ گھر کا اندرونی انتظام کتنی خوبی سے انجام دیتے تھے کہ پتہ ھی نہیں چلتا تھا اور سارا گھر چمک رھا ھوتا تھا، کھانا ھمیشہ وقت پر تیار سامنے ھوتا تھا، کپڑے دھلے دھلائے استری کئے ھوئے الماریوں میں ٹنگے ھوتے تھے، اس کے علاوہ گھر کی تمام چیزیں بھی اپنی اپنی جگہ قرینے سے رکھی ھوتی تھیں، بڑی مشکل سے ایک دن چھٹی والے دن میں نے ھم دونوں کے ڈھیر سارے میلے کپڑے دھونے کی غرض سے نکالے، واشنگ مشین میں سارے کپڑے تو نہ دھل سکے لیکن میری کمر بیٹھ گئی، سونے پر سھاگہ یہ کہ وھیں پر کپڑے دھوتے دھوتے پیر پھسل گیا، اب تو نہ اٹھا جائے اور نہ ھی بیٹھا جائے، ڈاکٹر سے چھٹی لے کر گھر پر آرام سے تین دن کے لئے بستر پر لیٹ گیا، بہت ھی زیادہ مشکل ھو رھی تھی، بڑے بیٹے نے خیال تو بہت رکھا، مگر وہ بھی کیا کرے اس کی ڈیوٹی کے اوقات بعض مرتبہ الگ ھی ھوتے تھے کبھی کبھی تو رات گئے تک اپنی ڈیوٹی پر رھتا تھا، اور دوستوں کے ساتھ اپنی شامیں گزارنا بھی اسے بہت عزیز تھیں،!!!!!

    وہاں پاکستان میں بچوں کے مائیگریشن سرٹیفکیٹ نہ ملنے کی وجہ سے اسکولوں اور کالج میں داخلہ نہیں مل رھا تھا، حالانکہ فیڈرل بورڈ اسلام آباد میں درخواست مقررہ فیس کے ڈرافٹ کے ساتھ بھیجے ھوئے تین مہینے سے زیادہ ھونے والے تھے، پاکستان میں اپنے ھی ملک میں یہ بھی ھمارے بچوں کی تعلیم کے لئے ایک بہت مشکل ھے، جہاں بھی جاؤ دوسرے صوبہ کے بورڈ کا اجازت نامہ ضرور لے کر جاؤ ورنہ کسی دوسرے صوبہ کے اسکول میں داخلہ نہیں مل سکتا، پچھلی مرتبہ بھی پاکستان سے یہاں پر سندھ بورڈ سے فیڈرل بورڈ میں ٹرانسفر کیلئے بچوں کو سعودیہ میں ایک پاکستانی اسکول میں داخلہ کے لئے بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا، اور اس کی وجہ سے ھمارے بچوں کے دو تین سال ضائع بھی ھو گئے، اس کے علاؤہ ایک مسئلہ یہ بھی کہ ھر صوبے کے نصاب بھی بالکل مختلف ھیں،!!!!!

    ایمگریشن نہ ملنے کی وجہ سے بچوں نے یہی فیصلہ کیا کہ واپس سعودیہ چلتے ھیں، میں نے بھی ان کے اس فیصلے سے سکون کا سانس لیا، اور بچت کے منصوبہ کو فی الحال ایک طرف ھی کردیا، میں خود یہاں اپنے بیٹے کے ساتھ بہت پریشان تھا، گھر کی حالت بالکل غیر ھورھی تھی، اور پھر جب میرے بیٹے نے یہ سنا کہ سب گھر والے یہاں واپس آرھے ھیں تو اسے اپنی شادی کے بارے میں پریشانی لاحق ھوئی، فوراً ھی اس نے اپنی والدہ سے فون کہا کہ،!!!!! کم از کم آتے آتے میری منگنی کی رسم تو ادا کرتے ھوئے آؤ،!!!!! مجھ سے اس نے کچھ نہیں کہا مگر میرے سامنے کچھ اداس اداس رھنے لگا، میں نے بھی اپنی بیگم سے رابطہ کیا اور بیٹے کی اداسی اور پریشانی کے بارے میں بتایا، انہوں نے جواباً کہا کہ،!!!!! آپ کو کچھ پتہ بھی ھے کہ صاحبزادے اپنی منگنی کے پیچھے پڑے ھوئے ھیں، ابھی بہن کی شادی کے فکر کرنے کے بجائے اسے اپنی شادی کی جلدی ھے، !!!!! بیٹی کے لئے جو رشتہ آیا تھا اسے بھی بہت پسند کیا گیا تھا، لڑکے کے گھر والے بھی بہت ھی اچھے اخلاق کے مالک تھے، اور اگلے سال یعنی 2006 میں میرے وہاں چھٹی پر جانے کے بعد ھی بیٹی کی منگنی کے لئے رضامندی ظاھر کی گئی،!!!!!
    ------------------------------
     
  11. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    آپ سب کا بہت شکریہ، کہ میری اس کہانی"یادوں کی پٹاری" میں اتنی دلچسپی اور اس کیلئے اپنا قیمتی وقت دیا، اب میری یہ کہانی اپنا ایک طویل سفر کرتے ھوئے حال کی دہلیز کو چھونے والی ھے، 2005 کا سال گزر رھا ھے، اپنی زندگی کے ھر اچھے برے پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ھوئے اپنی اس کہانی کو آپ سب کی محبتوں اور خلوص کے ساتھ لے کر چلا ھوں، اب اس کا سفر آھستہ آھستہ اپنے حال کی منزل کے بالکل قریب پہنچنے والی ھے، میں یہ نہیں چاھتا کہ میرا اور آپکا ساتھ اتنی جلدی چھوٹ جائے، میری یہی کوشش رھے گی کہ حال کی منزل پر پہنچ کر بھی آپ سے روزمرہ کی اپنی زندگی کے تروتازہ واقعات پر روشنی ڈالتا ھوا چلوں،!!!!
    فی الوقت کچھ مزید اپنی یاد گار تصاویر چسپاں کرنے جارھا ھوں، ملاحظہ کیجئے،!!!!!!
    [​IMG]
    یہ تصویر میرے بچپن کے ان دنوں کی یاد دلاتی ھے، جب میں پرائمری اسکول کی تعلیم مکمل کرکے سیکنڈری اسکول میں داخلہ لینے جارھا تھا،1960 کا زمانہ تھا عمر 10 برس کی ھوگی،

    [​IMG]
    یہ تصویر اس وقت 1974 کی ھے جب میں نے اپنی سروس کیریئر کے آغاز کے دوران راولپنڈی شہر صدر میں ایک اس وقت کے مشہور فوٹوگرافر کی شاپ " بھٹی فوٹوگرافر" سے کھنچوائی تھی، اس وقت میرا تخلص " ارمان " تھا،!!!!!

    [​IMG]

    کراچی میں 1979 کی یہ میری وہ یادگار تصاویر ھیں جب میں دولہا بنا ھوا اپنی شادی کی تقریب میں اپنے دوستوں کے ساتھ اسٹیج پر نظر آرھا ھوں،!!!!!!!
    [​IMG]

    [​IMG]

    1982 کی ایک خصوصی یادگار تصویر حج کے موقعہ پر اپنی بیگم اور بچے کے ساتھ،!!!!!!!

    [​IMG]
    1984 کی ایک یادگار تصویر جس میں ‌راولپنڈی میں اپنی رھائش پر اپنے چھوٹے بھائی، بیگم اور دونوں بچوں کے ساتھ نظر آرھا ھوں، ھم دونوں بھائی اس وقت راولپنڈی میں سروس کررھے تھے، وقت اتنی تیزی سے گزر گیا کہ پتہ ھی نہیں چلا، اب میرے یہ دونوں بچے شادی شدہ ھیں،!!!!!!!

    [​IMG]
    1988 میں اپنی بیگم اور چاروں بچوں کے ساتھ لاھور میں علامہ اقبال (رح) کے مزار پر،!!!!!
     
  12. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]
     
  13. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    جدہ 1997 کے شروع میں وہاں کے ساحل سمندر (بحراحمر) کے کنارے پانچوں بچوں کی ایک تصویر،!!!!!
    [​IMG]
     
  14. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    دبئی کے صفا پارک میں "بار بی کیو" کا پروگرام بنایا تھا، وہاں کی ایک تصویر،!!!!!

    [​IMG]


    چھوٹا بیٹا شارجہ کرکٹ اسٹیڈیم میں،!!!!!!
    [​IMG]

    شارجہ اسٹیڈیم میں،!!!!! میرے اور میزبان کے بچوں کے ساتھ،!!!!!
    [​IMG]

    [​IMG]
     
  15. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]
     
  16. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]
     
  17. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    ایمگریشن نہ ملنے کی وجہ سے بچوں نے یہی فیصلہ کیا کہ واپس سعودیہ چلتے ھیں، میں نے بھی ان کے اس فیصلے سے سکون کا سانس لیا، اور بچت کے منصوبہ کو فی الحال ایک طرف ھی کردیا، میں خود یہاں اپنے بیٹے کے ساتھ بہت پریشان تھا، گھر کی حالت بالکل غیر ھورھی تھی، اور پھر جب میرے بیٹے نے یہ سنا کہ سب گھر والے یہاں واپس آرھے ھیں تو اسے اپنی شادی کے بارے میں پریشانی لاحق ھوئی، فوراً ھی اس نے اپنی والدہ سے فون کہا کہ،!!!!! کم از کم آتے آتے میری منگنی کی رسم تو ادا کرتے ھوئے آؤ،!!!!! مجھ سے اس نے کچھ نہیں کہا مگر میرے سامنے کچھ اداس اداس رھنے لگا، میں نے بھی اپنی بیگم سے رابطہ کیا اور بیٹے کی اداسی اور پریشانی کے بارے میں بتایا، انہوں نے جواباً کہا کہ،!!!!! آپ کو کچھ پتہ بھی ھے کہ صاحبزادے اپنی منگنی کے پیچھے پڑے ھوئے ھیں، ابھی بہن کی شادی کے فکر کرنے کے بجائے اسے اپنی شادی کی جلدی ھے، !!!!! بیٹی کے لئے جو رشتہ آیا تھا اسے بھی بہت پسند کیا گیا تھا، لڑکے کے گھر والے بھی بہت ھی اچھے اخلاق کے مالک تھے، اور اگلے سال یعنی 2006 میں میرے وہاں چھٹی پر جانے کے بعد ھی بیٹی کی منگنی کے لئے رضامندی ظاھر کی گئی،!!!!!

    2005 کا سال چل رھا تھا اور بچوں کی طرف سے فکرات میں مزید اضافہ ھوگیا تھا، ابھی تو چھٹی سے واپسی پر مزید قرضہ کے بوجھ میں دبے ھوئے تھے، افسوس اس بات کا تھا کہ بڑے ھونے کے ناطے اپنے بہن بھائیوں اور گھر کی ذمہ داریوں کو نبھاتے نبھاتے جب اپنے بچوں کی شادیوں کی ذمہ داریوں کا خیال آیا تو پریشانی سی ھوگئی کہ اب کیا ھوگا، کوئی بچت تو کی ھی نہیں تھی اور نہ ھی کوئی ایسی جائیداد تھی جسے بیچ کر اپنے بچوں کی شادیوں کی تیاری کی جاتی، میں نے بھی اب سب کچھ اللٌہ پر ھی چھوڑ دیا تھا جہاں اتنی ذمہ داریاں اچھی طرح نبھائی جا چکیں ھیں تو یہ بھی اللٌہ تعالیٰ اس مشکل وقت کو سنبھال لے گا،!!!!!!

    اپنے بڑے بیٹے کی خاموشی اور اداسی کو دیکھتے ھوئے مجبوراً مجھے اپنی بیگم سے فون پر رابطہ کرنا پڑا کہ،!!!!! بہتری اسی میں ھے کہ آپ لڑکی والوں کے گھر جاکر فی الوقت بیٹے کی منگنی کی رسم ادا کردیں اور شادی کیلئے تاریخ کسی مناسب وقت پر رکھ لیں گے، جب تک اپنی بیٹی کی شادی کے لئے تیاریوں کا بھی سوچ سکیں گے، کیونکہ یہ اچھی بات نہ ھوگی کہ بیٹی سے پہلے بیٹے کی شادی کی جائے، اور لوگ بھی خامخواہ باتیں بنائیں گے،!!!!!! ھماری بیگم نے بھی میری باتوں سے اتفاق کیا، اور یہاں آنے سے پہلے وہ بیٹے کی کی منگنی کی رسم لڑکی کے گھر جاکر ایک انگوٹھی پہنا کر ادا بھی کردی، جس میں ھماری والدہ اور ھمارے گھر کے خاص خاص چند لوگوں نے ھی شرکت کی، جس کی وجہ سے کافی رشتہ داروں کی ناراضگیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا، کئی تو کچھ زیادہ اس لئے بھی ناراض تھے کہ ان سے اپنے بیٹے کی شادی کے سلسلے میں مشورہ کیوں نہیں کیا گیا، اور بعض تو منگنی کی رسم کی دعوت نہ دینے پر بہت سخت نالاں تھے،!!!!!!

    کچھ رشتہ داروں اور عزیزوں میں سے چند ایسے بھی تھے جو اپنی بیٹیوں کے رشتے کیے لئے ھمارے بیٹے سے امید لگائے بیٹھے تھے، کچھ ھمارا بھی ارادہ تھا لیکن ھمارے بیٹے کی پسند کی وجہ سے ھمیں اس کی مرضی کے آگے ھتھیار ڈالنے پڑے، اور پھر ویسے بھی ھمارے بیٹے کی پسند بھی بہت اچھی تھی، لڑکی بھی اچھے اخلاق کی مالک تھی اس کے علاوہ ماسٹر بھی کررھی تھی، لڑکی کے گھر والے بھی بہت ھی زیادہ اچھے تھے، انکار کرنے کی کوئی بھی گنجائش نظر نہیں آئی، اور ویسے بھی بچوں کی اچھی جگہ اور انکی اپنی پسند سے شادی کرنے سے ایک ھماری والدین کی بہت بڑی ذمہ داریوں میں کچھ تھوڑی بہت بچت بھی ھوجاتی ھے،مگر افسوس اس بات کا ھوتا ھے کہ بعض اوقات لڑکے اپنی پڑھائی مکمل کئے ھوئے اور بغیر کسی نوکری چاکری یا کاروبار کے والدین کو اپنی پسند کی شادی کے لئے مجبور کرتے ھیں، جو کہ بالکل غلط ھے جبکہ میں بھی انہی لڑکوں کی فہرست میں تھا، جس کا احساس مجھے بعد میں ھوا، یہ عمر ھی ایسی ھوتی ھے کہ اس وقت کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا، اور جس کے بعد والدین کو ھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ھے، کیونکہ اولاد کی تکلیف کسی بھی صورت میں والدین برداشت نہیں کرسکتے،!!!!!!

    ---------------------

    کچھ رشتہ داروں اور عزیزوں میں سے چند ایسے بھی تھے جو اپنی بیٹیوں کے رشتے کیے لئے ھمارے بیٹے سے امید لگائے بیٹھے تھے، کچھ ھمارا بھی ارادہ تھا لیکن ھمارے بیٹے کی پسند کی وجہ سے ھمیں اس کی مرضی کے آگے ھتھیار ڈالنے پڑے، اور پھر ویسے بھی ھمارے بیٹے کی پسند بھی بہت اچھی تھی، لڑکی بھی اچھے اخلاق کی مالک تھی اس کے علاوہ ماسٹر بھی کررھی تھی، لڑکی کے گھر والے بھی بہت ھی زیادہ اچھے تھے، انکار کرنے کی کوئی بھی گنجائش نظر نہیں آئی، اور ویسے بھی بچوں کی اچھی جگہ اور انکی اپنی پسند سے شادی کرنے سے ایک ھماری والدین کی بہت بڑی ذمہ داریوں میں کچھ تھوڑی بہت بچت بھی ھوجاتی ھے،مگر افسوس اس بات کا ھوتا ھے کہ بعض اوقات لڑکے اپنی پڑھائی مکمل کئے ھوئے اور بغیر کسی نوکری چاکری یا کاروبار کے والدین کو اپنی پسند کی شادی کے لئے مجبور کرتے ھیں، جو کہ بالکل غلط ھے جبکہ میں بھی انہی لڑکوں کی فہرست میں تھا، جس کا احساس مجھے بعد میں ھوا، یہ عمر ھی ایسی ھوتی ھے کہ اس وقت کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا، اور جس کے بعد والدین کو ھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ھے، کیونکہ اولاد کی تکلیف کسی بھی صورت میں والدین برداشت نہیں کرسکتے،!!!!!!

    اب تو میں اپنی گزری ھوئی زندگی کے تجربات کی روشنی میں ھو قدم کو پھونک پھونک کر رکھنے کی کوشش میں لگا ھوا تھا، مگر ساتھ ساتھ اس بات کا بھی ڈر لگا رھتا تھا کہ کبھی اولاد کی طرف سے یہ کہنے کو نہ مل جائے کہ "ارے ابا جان،!!!! آپ بھی کس دقیانوسی زمانے کی باتیں کرتے ھیں، اب ھم بچے نہیں رھے ھمیں بھی زمانے کی تھپیڑوں نے وقت سے پہلے بہت کچھ سکھادیا ھے،!!!!!! بہت احتیاط کے باوجود بھی اولاد سے کچھ نہ کچھ سننے کو مل ھی جاتا تھا لیکن یہ بات ضرور تھی کہ میری اولاد کم از کم تہذیب کے دائرے میں رہ کر ھی جواب دیتی تھی، شاید یہ ان کی والدہ کی ھی بہت اچھی تربیت تھی، جوں جوں بچوں کی عمر میں پختگی آتی چلی گئی اس کے ساتھ ساتھ ان کا رویہ بہت ھی مودبانہ اور رکھ رکھاؤ میں ایک پروقار عزت دار شخصیت کی کرن بھی پھوٹتی ھوئی نظر آنے لگی تھی، جس کا کہ مجھے اپنے تمام بچوں پر فخر ھے،!!!!!!!

    میرے بیٹے کو شاید اس بات کا خوف تھا کہ شاید میری طرف سے اس کی پسند کی شادی میں رکاوٹ نہ آجائے، اس لئے وہ مجھ سے براہ راست بات کرنے کے بجائے اپنی بہن اور والدہ کے ذریعے مجھ تک پیغام پہچانے کی کوشش کرتا تھا، وہ کیونکہ اپنی والدہ کا لاڈلا بھی تھا اور اپنی گھر کی بڑی بہن سے بھی جو اس سے چھوٹی تھی، وہ آزادانہ گفتگو کرتا تھا، اور چونکہ میری بڑی بیٹی میری کچھ زیادہ لاڈلی رھی تھی اسی وجہ کو مدنظر رکھتے ھوئے سب اپنی بات کو منوانے کیلئے اس بہن کے ذریئے مجھے راضی کرنے کی کوشش میں لگے رھتے تھے، یہ بات تو ضرور تھی کہ میری یہ بڑی بیٹی بہت ھی باشعور اور تمام گھریلو امور کے نظام کو کو چلانے میں اپنی والدہ کی مدد کرتی رھی ھے اور سب بہن بھائی اس کی ھر بات کو تسلیم بھی کرتے تھے اور اس پر عمل بھی کرتے تھے، چھوٹا بیٹا بھی اب بڑا ھوچکا تھا اور پڑھائی کے ساتھ ساتھ کچھ وقت نکال کر پارٹ ٹائم کام بھی کرتا تھا، ساتھ ھی یہاں پر ڈرائیونگ لائسنس بھی حاصل کرلیا تھا، اور اسے میرے بھائی نے ایک اچھی حالت میں چلی ھوئی کار قسطوں میں دلوادی تھی، جس سے ھمیں بہت فائدہ ھوا، دوسرے باھر کا کام کے علاوہ، گھر کا سودا سلف لانے اور سب بہن بھائیوں کو اسکول لانے لے جانے کی ذمہ داری بھی وہ بخوبی نبھاتا تھا، مگر بڑے بیٹے نے ابھی تک لائسنس حاصل نہیں کیا تھا جبکہ اسے بھی گاڑی بہت اچھی چلانی آتی تھی، کئی باتوں میں وہ میری طرح ھی تھا میں نے بھی آج تک موٹر سائکل کے علاوہ کوئی گاڑی نہیں چلائی، اور نہ ھی کوشش کی،!!!!!!!

    باقی دونوں چھوٹی بیٹیاں بھی لاڈلی تو تھیں لیکن ساتھ ان کی فرمائشیں بھی بچپن کی جیسی ابھی تک قائم و دائم تھیں، جن کی فرمائشیں ان کی والدہ اور دونوں بھائی اور بڑی بہن مل کر کرتے تھے، مگر مجھے بعد میں پتہ چلتا تھا، حالانکہ میں منع تو نہیں کرتا تھا لیکن کبھی کبھی فضول خرچی پر نصیحتیں ضرور کرتا تھا، جس کا کہ دونوں چھوٹی کچھ وقفہ کیلئے موڈ بنا لیتی تھیں جس کا کہ مجھے دکھ بھی ھوتا تھا اور مجھے اس وقت تک چین بھی نہیں آتا تھا جبتک کہ میں ان دونوں کو گلے لگا کر منا نہیں لیتا تھا، سب سے چھوٹی تو بہت ھی مشکل سے مانتی تھی، ویسے بھی وہ سب کی لاڈلی تھی جس کا وہ خوب فائدہ بھی اٹھاتی تھی،!!!!!!!

    بیٹے کی پسند کی لڑکی ھم سب کو ھر لحاظ سے پسند بھی تھی، اس لئے بیٹا بھی یہی چاھتا تھا کہ جلد سے جلد اس کی شادی کا بندوبست ھوجائے کہ کہیں ایسا نہ ھو کہ وقت کی کوئی نازک گھڑی اس رشتہ میں دراڑ کا باعث نہ بن جائے، اس لئے وہ ساتھ ھی والدہ سے اپنی بہن کی شادی کا بھی ذکر کرتا رھتا اور بہن کی شادی کے اخراجات کیلئے بھی اپنی والدہ کو بے فکر رہنے تلقین کرتا رھتا جیسے اس نے پہلے سے بہن کی شادی کی مکمل تیاریاں کی ھوئی ھوں، ساتھ ھی یہ بھی والدہ کو کہتا کہ،!!!! اگر آپ کو یا اباجی کو یہ رشتہ کسی وجہ سے بھی منظور نہ ھو تو کوئی بات نہیں،!!!! میں آپ دونوں کے سامنے کوئی بھی ضد نہیں کرونگا، جیسا آپ لوگ کہیں گے میں ویسا ھی کروں گا لیکن کسی اور سے شادی نہیں کروں گا، یہ سب معلومات مجھے اپنی بیگم سے ھی ملتی رھتی تھیں، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں اپنے چھوٹے بیٹے سے زیادہ فری تھا بنسبت بڑے بیٹے کے، وہ ویسے بھی بہت ھی سنجیدہ رھتا تھا، اور مجھ سے تھوڑا بہت ڈرتا بھی رھا تھا، اور اب بھی شادی کے بعد اسکی وہی رویہ ھے، مگر اخلاق اور سب کی خدمت خلق میں سب سے آگے ھے، !!!!!
     
  18. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    یہ سب معلومات مجھے اپنی بیگم سے ھی ملتی رھتی تھیں، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں اپنے چھوٹے بیٹے سے زیادہ فری تھا بنسبت بڑے بیٹے کے، وہ ویسے بھی بہت ھی سنجیدہ رھتا تھا، اور مجھ سے تھوڑا بہت ڈرتا بھی رھا تھا، اور اب بھی شادی کے بعد اسکی وہی رویہ ھے، مگر اخلاق اور سب کی خدمت خلق میں سب سے آگے ھے، !!!!!

    بچوں کے رشتوں کی وجہ سے اب تو اپنی فیملی کی زندگی ایک نئے دور میں داخل ھونے جارھی تھی، اور میں نہیں چاھتا تھا کہ اس معاملے بہت سے لوگوں کی مداخلت ھو، کیونکہ پہلے بھی اپنے بہن بھائیوں کے رشتوں کی ابتدا میں بہت سارے لوگوں کی مداخلت کی وجہ سے رشتوں میں کوئی صحیح جوڑ نہ پیدا ھوسکا اور ساتھ ھی آپس کے تعلقات میں بھی کوئی صحیح خوشگواری بھی پیدا نہیں ھو سکی، اسکی وجہ یہی تھی کہ والدین سے زیادہ باھر کے لوگوں نے ھمارے بہن بھائیوں کے رشتوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، مگر چھوٹے بھائی نے ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ھوئے مجھے اور میری بیگم کو ھی اپنے رشتہ کی بات چیت کے لئے نامزد کیا تھا، کہ ھم ھی اس کے رشتے کیلئے تمام تیاری کریں، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ میں اس معاملے میں پھر کسی اور کو خوامخواہ آگے آنے نہیں دوں گا، اور پھر اس طرح میں نے ھی اس کے رشتے کی بات چیت سے لیکر اسکی شادی تک خود ھی اپنے آپ کو مکمل طور پر مصروف رکھا، اور اسکی جلد سے جلد اسکی مرضی کے مطابق تمام شادی کے کام سر انجام دیئے، جس کا ذکر میں پہلے ھی اپنی اس کہانی میں تفصیل سے کرچکا ھوں، آج وہ اپنی بیگم اور دونوں بچوں کے ساتھ یہاں القصیم میں خوشگوار زندگی گزار رھا ھے،!!!!!!

    اس اپنے بھائی کی شادی کے بعد تو مجھے اچھا خاصہ تجربہ ھوگیا تھا، اس لئے میں نہیں چاھتا تھا کہ اپنے بچوں کی شادی میں غیر ضروری لوگوں میں اس کا شور مچاؤں، میں نے بھی اپنی بیگم سے کہہ دیا تھا کہ خاموشی سے اپنے بیٹے کی منگنی میری امی کو لے جاکر بات پکی کرادو اور ساتھ ھی جو بیٹی کیلئے جو رشتہ آیا ھے، ان لوگوں کو گھر پر دعوت پر بلوالیں اور خود ھی فیصلہ کریں کہ وہ کیسے لوگ ھیں،اگر پسند آجائیں تو اپنی طرف سے پسندیدگی کا اظہار کردیں لیکن اس سے پہلے اپنی بیٹی کی رضا مندی بھی ضرور لے لیں، بعد میں بیٹے کی شادی کے موقعہ پر بیٹی کے رشتے کا بھی اعلان کردیں گے، مگر جب تک رشتے کی بات مکمل نہ ھو جائے اپنے چند گھر کے خاص لوگوں کے کسی اور کو علم نہیں ھونا چاھئے،!!!!!

    ھماری بیگم کے ساتھ ھماری بیٹی میں بھی ھر فیصلہ کرنے میں بہت اچھی خوداعتمادی تھی، اس لئے مجھے کسی بات کی فکر نہیں تھی، بیٹے کی منگنی سے فارغ ھوتے ھی تمام رشتہ داروں میں کھلبلی مچ گئی، میں تو اپنے اسی بیٹے کے ساتھ یہیں موجود تھا اور ٹیلیفون پر ھی رابطہ رھا اور تمام منگنی کی چھوٹی سی رسم ھم نیٹ پر ھی دیکھتے رھے، کئی لوگ ناراض بھی ھوگئے کہ انہیں اس بارے میں لاعلم رکھا گیا، اور دوسری طرف ھماری بیگم نے اپنے بھائی کے گھر ھی ھماری بیٹی کے رشتہ کے لئے ان لوگوں کو بلوا لیا جہاں پر لڑکے کی والدہ، خالہ اور بڑے بھائی تشریف لائے تھے، اور ھماری طرف سے ھماری بیگم بچے اور انکے ماموں مامی کے علاوہ ھمارے بچوں کی خالہ بھی شریک تھیں، دونوں فیملیوں نے ایک دوسرے کے مزاج کو باتوں ھی باتوں میں اچھی طرح جان لیا اور ایک دوسرے کی خوش اخلاقی سے بہت متاثر ھوئے، انہوں نے ھماری بیٹی کو پہلے بھی کسی تقریب میں دیکھا ھوا تھا، جہاں پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا تھا، اب تو انہوں نے باقاعدہ طور پر اس ھماری بیٹی کو اپنی بہو بنانے پر رضامندی کا اظہار کردیا، ھماری بیٹی بھی اس رشتہ سے بہت خوش نظر آرھی تھی، جب مجھے اس بات کا علم ھوا تو میری آنکھوں میں آنسوں کا ایک سیلاب آگیا،!!!!!

    ھماری بیگم اور باقی بچے بھی یہاں میرے پاس ان تمام معاملات کو طے کرکے واپس آگئے تھے، اور ھم سب نے ملکر آئندہ کی تیاری کے لئے منصوبے پر کام کرنے لگے، جن جن لوگوں کو پتہ چلتا جارھا تھا، وہ ساتھ ساتھ ناراضگیوں کا بھی اظہار کرتے جارھے تھے، مگر میں نے کسی کی طرف بھی دھیان نہیں دیا، کئی ایسے بھی لوگ تھے جو ان رشتوں کا سن کر بہت خوش بھی ھوئے، اور مبارکبادیں بھی دیں،!!!!!!

    آخر کو ھم سب نے اگلے سال 2006 جنوری کے مہینے کی چھٹیوں میں اپنے بیٹے کے نکاح کی تقریب کے انتظامات کا پروگرام بنا ھی لیا، وہاں پاکستان میں جو بھی مخلص رشتہ دار اور ساتھی تھے، انہوں نے ھمارے آنے سے پہلے ھی تمام تیاریاں مکمل کرلی تھیں، مگر ھم نے اپنی بیٹی کی منگنی کی رسم کے لئے ابھی کچھ طے نہیں کیا تھا، کیونکہ مجھے اپنی فائنل منظوری لڑکے اور ان کے گھر والوں کو دیکھنے کے بعد ھی دینی تھی، جوکہ رسماً ھی تھی کیونکہ میں ابھی تک لڑکے اور ان کے گھر والوں سے نہیں ملا تھا صرف تصویروں کے ذریعے ھی مجھ سے تعارف کرایا گیا تھا،!!!!!

    اب وہ دن بھی نذدیک آھی گئے جب ھم نے یہاں سے روانہ ھونا تھا، اخراجات کیلئے کوئی خاص رقم تو درکار نہیں تھی کیونکہ صرف بیٹے کا نکاح تھا جو لڑکی والوں کی طرف سے ھونا تھا اور سادگی سے بیٹی کی منگنی کا ایک اعلان کرنا تھا، بس شاید کچھ بچوں نے ان تقریبات کیلئے جوڑے وغیرہ تیار کرنے تھے جن کی تیاری پہلے ھی بچوں کی لآڈلی خالہ اور لاڈلے ماموں جان نے کر رکھی تھی، باقی بچوں کے ماموں، مامیاں اور خالو، خالہ اور دادی ساتھ تینوں چچا، چاچیاں اور پھوپھا، پھوپھیاں بھی اس تیاری میں پیش پیش تھے، اور ان سب کے بچوں میں خوشیوں کی ایسی تقریب پہلی بار ھونے جارھی تھی،اور ھمارے بچوں کی سہیلیاں دوست اور ھم عمر رشتے کے بہن بھائیوں کی ایک خاصی تعداد موجود تھی، جن کی ابھی شادیاں ھونا باقی تھیں، اور سب بہت خوش تھے اور منگنی مایوں اور مہندی کی رسومات کی تیاریوں کیلئے سب نے اپنے اپنے والدین پر اچھے اچھے جوڑے بنانے کی تیاریوں کیلئے ایک اچھا خاصہ بوجھ ڈال دیا تھا، جنوری 2006 کے درمیان کا دور تھا اور ھم سب ان تقریبات کیلئے پاکستان پہنچ چکےتھے، افسوس کہ بچوں کے نانا نانی اور دادا جاں اس دنیا میں نہیں تھے ورنہ تو وہ بہت ھی زیادہ خوش ھوتے کیونکہ ان دونوں بچوں سے ان سب کو بہت پیار تھا، میرے لئے اپنے بچوں کے رشتے کی شروعات کیلئے یہ پہلا موقعہ تھا اور ایک عجیب سی کیفیت لئے کچھ خوشی کے ملے جلےجذبات اور ساتھ ھی آنکھوں میں نمی لئے فکرات میں گم تھا، اور سوچ رھا تھا کہ جس دن بیٹی کی رخصتی ھوگی، اس دن میرا حال کیا ھوگا،!!!!!!
    --------------------------------

    جنوری 2006 کے درمیان کا دور تھا اور ھم سب ان تقریبات کیلئے پاکستان پہنچ چکےتھے، افسوس کہ بچوں کے نانا نانی اور دادا جاں اس دنیا میں نہیں تھے ورنہ تو وہ بہت ھی زیادہ خوش ھوتے کیونکہ ان دونوں بچوں سے ان سب کو بہت پیار تھا، میرے لئے اپنے بچوں کے رشتے کی شروعات کیلئے یہ پہلا موقعہ تھا اور ایک عجیب سی کیفیت لئے کچھ خوشی کے ملے جلےجذبات اور ساتھ ھی آنکھوں میں نمی لئے فکرات میں گم تھا، اور سوچ رھا تھا کہ جس دن بیٹی کی رخصتی ھوگی، اس دن میرا حال کیا ھوگا،!!!!!!

    کام کی زیادتی کی وجہ سے مجھے تو بڑی مشکل سے صرف 10 دن کی ھی چھٹی مل سکی تھی، اور بیٹے کے نکاح کے سلسلے میں کام بھی بہت سارے کرنے تھے، بیٹے کا نکاح کے علاوہ ساتھ ھی بیٹی کے رشتے کیلئے بھی مجھے خاص طور سے لڑکے کے گھر پہنچنا تھا، بیٹے کے نکاح کے کارڈ تو دلہن کے گھر والوں نے ھمیں پہنچا دیئے تھے، جسے میرے چھوٹے بیٹے نے ایک ھی دن میں جہاں جہاں وہ پہنچا سکا، پہنچا دئیے، ساتھ ھی میں نے اور بیگم نے بھی فون کے ذریعے باقی لوگوں کو دعوت دے دی، اور ساتھ ھی وقت کی کمی کا عذر پیش کرتے ھوئے معذرت بھی کرلی تھی، جس کی وجہ سے بہت سارے لوگ ناراض بھی ھوگئے کہ یہ کوئی طریقہ نہیں ھے، باقاعدہ طور پر گھر آئیں گے تو ھم بھی اس تقریب میں شرکت کرسکیں گے ورنہ نہیں، !!!!!!!! میں نے بھی جواباً یہی کہا کہ یہ میری مجبوری ھے کہ میرے پاس بہت سے کام ھیں، کیا آپ لوگ بغیر کسی شکایت اور کسی ناراضگی کے میرے کاموں میں ھاتھ بٹا نہیں سکتے، لیکن ناراضگی تو ایسی کچھ خاص لوگوں کے دل میں بیٹھی کہ دوبارہ انہوں نے بات کرنا بھی گوارہ نہیں کیا،!!!!!!

    میرے اپنے استاد جن کا میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا، پہلے میری ساری فیملی ان کے گھر پر نیچے کے پورشن میں رہ بھی چکے تھے، اور اس دفعہ بھی ان سے درخواست کی تھی کہ ھم اپنے بیٹے کے نکاح کی کچھ رسومات آپ کے گھر میں رہ کر کرنا چاھتے ھیں، کیونکہ وہ جہلم میں سکونت پزیر تھے اس لئے وہ مجھ سے ھمیشہ یہی کہتے تھے کہ تم جب بھی چھٹی آؤ میرے گھر پر ھی ٹہرا کرو، اسی بہانے میرے گھر کی دیکھ بھال بھی ھوجاتی ھے، مجھے اور میرے بچوں کو بھی یہاں کا علاقہ بہت اچھا لگتا تھا، بہت بارونق علاقے کے ساتھ ساتھ یہاں کے اڑوس پڑوس بھی بہت اچھے تھے، جہاں ان سب کے ساتھ بچوں نے 1997 سے 2002 تک اسی مکان میں ایک بہت ھی اچھا خوشگوار وقت گزارا تھا،!!!!!!!

    اس دفعہ بھی اپنے استاد محترم سے اجازت لے کر انہی کے مکان میں ھی ٹہرے تھے، ان کا مکان دو منزلہ تھا اور اوپر کے حصے میں پہلے سے ھی کرایہ دار موجود تھے، نیچے والے حصہ انہوں نے اپنے لئے ھی تیار کرکے رکھا ھوا تھا، لیکن ان کا یہاں بہت ھی کم آنا ھوتا تھا، اسی لئے میں ھی اپنی فیملی کے ساتھ وہاں پر اکثر ٹہرا کرتا، اس دفعہ بھی یہاں پر ھی ڈیرہ جما لیا کیونکہ اپنا آبائی گھر شہر کے آخری حصے میں تھا اور کافی دور بھی تھا، جب میں یہاں پہنچ جاتا تو والدہ بھی اکثر میرے پاس آجاتی تھیں، یہاں رھتے ھوئے ھمیں بہت سی آسانیاں تھیں، ھر قسم کی خریداری کے لئے بازار بھی نذدیک تھے، اور سب سے بڑھ کر یہاں کے آس پاس کے رھنے والے بھی بہت ھی ملنسار اور مہمان نواز اور رشتہ داروں سے بھی بڑھ کر ھم سب کا خیال رکھتےتھے، اس دفعہ تو ھم نے گھر پر کچھ پکایا بھی نہیں تھا، سب کچھ ھمیں اڑوس پڑوس کی طرف سے کھانے کا انتظام تھا ھر ایک نے باری باری ھمارے گھر کھانے اور ناشتہ کا بندوبست کررکھا تھا، اور حتیٰ کہ شادی کی سارے انتظامات تیاری میں بھی انہوں نے بہت ساتھ دیا تھا،!!!!!!!!

    ابھی ھمارے وہاں پہنچتے ھی ھمیں وہ گھر پہلے سے ھی صاف ستھرا ملا، اور دوسرے دن ھی بیگم نے کہا کہ بیٹی کی بات پکی کرنے آج ھی لڑکے کے گھر جانا ھے، شام کو ھم اپنی بیٹی کو گھر پر ھی ان کی خالہ کے ساتھ چھوڑ کر باقی بچوں کے ساتھ لڑکے والوں کے گھر پہنچ گئے یہ پہلے ھی ان کے ساتھ طے ھوچکا تھا، میں تو وہاں پہنچتے ھی کچھ نروس سا محسوس کررھا تھا لیکن نے ساتھ ھی میں نے اپنے آپ کو بہت ھی سنبھالا ھوا بھی تھا، ایک ڈرائنگ روم میں میرے دونوں بیٹے میرے ساتھ بیٹھے ھوئے تھے، اور ساتھ ھی لڑکے کے والد جو بہت ھی اخلاق سے میرے ساتھ گفت و شنید میں لگے ھوئے تھے، اور انکے دونوں بیٹے بھی موجود تھے، جو بہت ھی اچھے خوش اخلاق اور خوب سیرت لگے، ان میں سے ان کے چھوٹے بیٹے سے ھماری بیٹی کے رشتہ کی بات چل رھی تھی، ان کے بڑے بیٹے کی بات تو پہلے ھی طے ھوچکی تھی، مجھے پھر کیا اعتراض ھونا تھا، فوراً ھی میں نے اپنی بیگم کو بلوا کر رضامندی ظاھر کردی، جو دوسرے کمرے میں وہاں کی عورتوں سے محو گفتگو تھیں،!!!!!

    لڑکے والوں نے بھی آپس میں کچھ بات چیت کی اور پھر مجھ سے لڑکے کے والد محترم نے کچھ یوں گفتگو کا آغاز کیا، کہ،!!!!! دیکھیں بھائی صاحب ھم منگنی کی رسم کے بالکل قائل نہیں ھیں، ھم چاھتے ھیں کہ آپ ایک سادی سی رسم کرکے منگنی کے بجائے نکاح کردیں تو بہتر رھے گا اور جس وقت بھی آپکو سہولت ھو آپ اپنی بیٹی کی رخصتی کردیجئے گا، اس وقت میں نے اپنی بیگم کی طرف دیکھا وہ بھی حیران پریشان مجھے دیکھنے لگیں، کیونکہ ھم تو اپنی بیٹی کی منگنی کے سلسلے میں آئے تھے اور ادھر تو لڑکے والے نکاح کے لئے تیار بیٹھے ھیں ابھی تو ھماری طرف سے اپنی بیٹی کے نکاح کے لئے کوئی ایسی تیاری بھی نہیں تھی، اور ھمارے پاس وقت بھی نہیں تھا کیونکہ بیٹے کے نکاح کے تیسرے دن ھی ھماری واپسی بھی تھی،!!!!!!
     
  19. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    یہ سب معلومات مجھے اپنی بیگم سے ھی ملتی رھتی تھیں، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں اپنے چھوٹے بیٹے سے زیادہ فری تھا بنسبت بڑے بیٹے کے، وہ ویسے بھی بہت ھی سنجیدہ رھتا تھا، اور مجھ سے تھوڑا بہت ڈرتا بھی رھا تھا، اور اب بھی شادی کے بعد اسکی وہی رویہ ھے، مگر اخلاق اور سب کی خدمت خلق میں سب سے آگے ھے، !!!!!

    بچوں کے رشتوں کی وجہ سے اب تو اپنی فیملی کی زندگی ایک نئے دور میں داخل ھونے جارھی تھی، اور میں نہیں چاھتا تھا کہ اس معاملے بہت سے لوگوں کی مداخلت ھو، کیونکہ پہلے بھی اپنے بہن بھائیوں کے رشتوں کی ابتدا میں بہت سارے لوگوں کی مداخلت کی وجہ سے رشتوں میں کوئی صحیح جوڑ نہ پیدا ھوسکا اور ساتھ ھی آپس کے تعلقات میں بھی کوئی صحیح خوشگواری بھی پیدا نہیں ھو سکی، اسکی وجہ یہی تھی کہ والدین سے زیادہ باھر کے لوگوں نے ھمارے بہن بھائیوں کے رشتوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، مگر چھوٹے بھائی نے ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ھوئے مجھے اور میری بیگم کو ھی اپنے رشتہ کی بات چیت کے لئے نامزد کیا تھا، کہ ھم ھی اس کے رشتے کیلئے تمام تیاری کریں، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ میں اس معاملے میں پھر کسی اور کو خوامخواہ آگے آنے نہیں دوں گا، اور پھر اس طرح میں نے ھی اس کے رشتے کی بات چیت سے لیکر اسکی شادی تک خود ھی اپنے آپ کو مکمل طور پر مصروف رکھا، اور اسکی جلد سے جلد اسکی مرضی کے مطابق تمام شادی کے کام سر انجام دیئے، جس کا ذکر میں پہلے ھی اپنی اس کہانی میں تفصیل سے کرچکا ھوں، آج وہ اپنی بیگم اور دونوں بچوں کے ساتھ یہاں القصیم میں خوشگوار زندگی گزار رھا ھے،!!!!!!

    اس اپنے بھائی کی شادی کے بعد تو مجھے اچھا خاصہ تجربہ ھوگیا تھا، اس لئے میں نہیں چاھتا تھا کہ اپنے بچوں کی شادی میں غیر ضروری لوگوں میں اس کا شور مچاؤں، میں نے بھی اپنی بیگم سے کہہ دیا تھا کہ خاموشی سے اپنے بیٹے کی منگنی میری امی کو لے جاکر بات پکی کرادو اور ساتھ ھی جو بیٹی کیلئے جو رشتہ آیا ھے، ان لوگوں کو گھر پر دعوت پر بلوالیں اور خود ھی فیصلہ کریں کہ وہ کیسے لوگ ھیں،اگر پسند آجائیں تو اپنی طرف سے پسندیدگی کا اظہار کردیں لیکن اس سے پہلے اپنی بیٹی کی رضا مندی بھی ضرور لے لیں، بعد میں بیٹے کی شادی کے موقعہ پر بیٹی کے رشتے کا بھی اعلان کردیں گے، مگر جب تک رشتے کی بات مکمل نہ ھو جائے اپنے چند گھر کے خاص لوگوں کے کسی اور کو علم نہیں ھونا چاھئے،!!!!!

    ھماری بیگم کے ساتھ ھماری بیٹی میں بھی ھر فیصلہ کرنے میں بہت اچھی خوداعتمادی تھی، اس لئے مجھے کسی بات کی فکر نہیں تھی، بیٹے کی منگنی سے فارغ ھوتے ھی تمام رشتہ داروں میں کھلبلی مچ گئی، میں تو اپنے اسی بیٹے کے ساتھ یہیں موجود تھا اور ٹیلیفون پر ھی رابطہ رھا اور تمام منگنی کی چھوٹی سی رسم ھم نیٹ پر ھی دیکھتے رھے، کئی لوگ ناراض بھی ھوگئے کہ انہیں اس بارے میں لاعلم رکھا گیا، اور دوسری طرف ھماری بیگم نے اپنے بھائی کے گھر ھی ھماری بیٹی کے رشتہ کے لئے ان لوگوں کو بلوا لیا جہاں پر لڑکے کی والدہ، خالہ اور بڑے بھائی تشریف لائے تھے، اور ھماری طرف سے ھماری بیگم بچے اور انکے ماموں مامی کے علاوہ ھمارے بچوں کی خالہ بھی شریک تھیں، دونوں فیملیوں نے ایک دوسرے کے مزاج کو باتوں ھی باتوں میں اچھی طرح جان لیا اور ایک دوسرے کی خوش اخلاقی سے بہت متاثر ھوئے، انہوں نے ھماری بیٹی کو پہلے بھی کسی تقریب میں دیکھا ھوا تھا، جہاں پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا تھا، اب تو انہوں نے باقاعدہ طور پر اس ھماری بیٹی کو اپنی بہو بنانے پر رضامندی کا اظہار کردیا، ھماری بیٹی بھی اس رشتہ سے بہت خوش نظر آرھی تھی، جب مجھے اس بات کا علم ھوا تو میری آنکھوں میں آنسوں کا ایک سیلاب آگیا،!!!!!

    ھماری بیگم اور باقی بچے بھی یہاں میرے پاس ان تمام معاملات کو طے کرکے واپس آگئے تھے، اور ھم سب نے ملکر آئندہ کی تیاری کے لئے منصوبے پر کام کرنے لگے، جن جن لوگوں کو پتہ چلتا جارھا تھا، وہ ساتھ ساتھ ناراضگیوں کا بھی اظہار کرتے جارھے تھے، مگر میں نے کسی کی طرف بھی دھیان نہیں دیا، کئی ایسے بھی لوگ تھے جو ان رشتوں کا سن کر بہت خوش بھی ھوئے، اور مبارکبادیں بھی دیں،!!!!!!

    آخر کو ھم سب نے اگلے سال 2006 جنوری کے مہینے کی چھٹیوں میں اپنے بیٹے کے نکاح کی تقریب کے انتظامات کا پروگرام بنا ھی لیا، وہاں پاکستان میں جو بھی مخلص رشتہ دار اور ساتھی تھے، انہوں نے ھمارے آنے سے پہلے ھی تمام تیاریاں مکمل کرلی تھیں، مگر ھم نے اپنی بیٹی کی منگنی کی رسم کے لئے ابھی کچھ طے نہیں کیا تھا، کیونکہ مجھے اپنی فائنل منظوری لڑکے اور ان کے گھر والوں کو دیکھنے کے بعد ھی دینی تھی، جوکہ رسماً ھی تھی کیونکہ میں ابھی تک لڑکے اور ان کے گھر والوں سے نہیں ملا تھا صرف تصویروں کے ذریعے ھی مجھ سے تعارف کرایا گیا تھا،!!!!!

    اب وہ دن بھی نذدیک آھی گئے جب ھم نے یہاں سے روانہ ھونا تھا، اخراجات کیلئے کوئی خاص رقم تو درکار نہیں تھی کیونکہ صرف بیٹے کا نکاح تھا جو لڑکی والوں کی طرف سے ھونا تھا اور سادگی سے بیٹی کی منگنی کا ایک اعلان کرنا تھا، بس شاید کچھ بچوں نے ان تقریبات کیلئے جوڑے وغیرہ تیار کرنے تھے جن کی تیاری پہلے ھی بچوں کی لآڈلی خالہ اور لاڈلے ماموں جان نے کر رکھی تھی، باقی بچوں کے ماموں، مامیاں اور خالو، خالہ اور دادی ساتھ تینوں چچا، چاچیاں اور پھوپھا، پھوپھیاں بھی اس تیاری میں پیش پیش تھے، اور ان سب کے بچوں میں خوشیوں کی ایسی تقریب پہلی بار ھونے جارھی تھی،اور ھمارے بچوں کی سہیلیاں دوست اور ھم عمر رشتے کے بہن بھائیوں کی ایک خاصی تعداد موجود تھی، جن کی ابھی شادیاں ھونا باقی تھیں، اور سب بہت خوش تھے اور منگنی مایوں اور مہندی کی رسومات کی تیاریوں کیلئے سب نے اپنے اپنے والدین پر اچھے اچھے جوڑے بنانے کی تیاریوں کیلئے ایک اچھا خاصہ بوجھ ڈال دیا تھا، جنوری 2006 کے درمیان کا دور تھا اور ھم سب ان تقریبات کیلئے پاکستان پہنچ چکےتھے، افسوس کہ بچوں کے نانا نانی اور دادا جاں اس دنیا میں نہیں تھے ورنہ تو وہ بہت ھی زیادہ خوش ھوتے کیونکہ ان دونوں بچوں سے ان سب کو بہت پیار تھا، میرے لئے اپنے بچوں کے رشتے کی شروعات کیلئے یہ پہلا موقعہ تھا اور ایک عجیب سی کیفیت لئے کچھ خوشی کے ملے جلےجذبات اور ساتھ ھی آنکھوں میں نمی لئے فکرات میں گم تھا، اور سوچ رھا تھا کہ جس دن بیٹی کی رخصتی ھوگی، اس دن میرا حال کیا ھوگا،!!!!!!
    --------------------------------

    جنوری 2006 کے درمیان کا دور تھا اور ھم سب ان تقریبات کیلئے پاکستان پہنچ چکےتھے، افسوس کہ بچوں کے نانا نانی اور دادا جاں اس دنیا میں نہیں تھے ورنہ تو وہ بہت ھی زیادہ خوش ھوتے کیونکہ ان دونوں بچوں سے ان سب کو بہت پیار تھا، میرے لئے اپنے بچوں کے رشتے کی شروعات کیلئے یہ پہلا موقعہ تھا اور ایک عجیب سی کیفیت لئے کچھ خوشی کے ملے جلےجذبات اور ساتھ ھی آنکھوں میں نمی لئے فکرات میں گم تھا، اور سوچ رھا تھا کہ جس دن بیٹی کی رخصتی ھوگی، اس دن میرا حال کیا ھوگا،!!!!!!

    کام کی زیادتی کی وجہ سے مجھے تو بڑی مشکل سے صرف 10 دن کی ھی چھٹی مل سکی تھی، اور بیٹے کے نکاح کے سلسلے میں کام بھی بہت سارے کرنے تھے، بیٹے کا نکاح کے علاوہ ساتھ ھی بیٹی کے رشتے کیلئے بھی مجھے خاص طور سے لڑکے کے گھر پہنچنا تھا، بیٹے کے نکاح کے کارڈ تو دلہن کے گھر والوں نے ھمیں پہنچا دیئے تھے، جسے میرے چھوٹے بیٹے نے ایک ھی دن میں جہاں جہاں وہ پہنچا سکا، پہنچا دئیے، ساتھ ھی میں نے اور بیگم نے بھی فون کے ذریعے باقی لوگوں کو دعوت دے دی، اور ساتھ ھی وقت کی کمی کا عذر پیش کرتے ھوئے معذرت بھی کرلی تھی، جس کی وجہ سے بہت سارے لوگ ناراض بھی ھوگئے کہ یہ کوئی طریقہ نہیں ھے، باقاعدہ طور پر گھر آئیں گے تو ھم بھی اس تقریب میں شرکت کرسکیں گے ورنہ نہیں، !!!!!!!! میں نے بھی جواباً یہی کہا کہ یہ میری مجبوری ھے کہ میرے پاس بہت سے کام ھیں، کیا آپ لوگ بغیر کسی شکایت اور کسی ناراضگی کے میرے کاموں میں ھاتھ بٹا نہیں سکتے، لیکن ناراضگی تو ایسی کچھ خاص لوگوں کے دل میں بیٹھی کہ دوبارہ انہوں نے بات کرنا بھی گوارہ نہیں کیا،!!!!!!

    میرے اپنے استاد جن کا میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا، پہلے میری ساری فیملی ان کے گھر پر نیچے کے پورشن میں رہ بھی چکے تھے، اور اس دفعہ بھی ان سے درخواست کی تھی کہ ھم اپنے بیٹے کے نکاح کی کچھ رسومات آپ کے گھر میں رہ کر کرنا چاھتے ھیں، کیونکہ وہ جہلم میں سکونت پزیر تھے اس لئے وہ مجھ سے ھمیشہ یہی کہتے تھے کہ تم جب بھی چھٹی آؤ میرے گھر پر ھی ٹہرا کرو، اسی بہانے میرے گھر کی دیکھ بھال بھی ھوجاتی ھے، مجھے اور میرے بچوں کو بھی یہاں کا علاقہ بہت اچھا لگتا تھا، بہت بارونق علاقے کے ساتھ ساتھ یہاں کے اڑوس پڑوس بھی بہت اچھے تھے، جہاں ان سب کے ساتھ بچوں نے 1997 سے 2002 تک اسی مکان میں ایک بہت ھی اچھا خوشگوار وقت گزارا تھا،!!!!!!!

    اس دفعہ بھی اپنے استاد محترم سے اجازت لے کر انہی کے مکان میں ھی ٹہرے تھے، ان کا مکان دو منزلہ تھا اور اوپر کے حصے میں پہلے سے ھی کرایہ دار موجود تھے، نیچے والے حصہ انہوں نے اپنے لئے ھی تیار کرکے رکھا ھوا تھا، لیکن ان کا یہاں بہت ھی کم آنا ھوتا تھا، اسی لئے میں ھی اپنی فیملی کے ساتھ وہاں پر اکثر ٹہرا کرتا، اس دفعہ بھی یہاں پر ھی ڈیرہ جما لیا کیونکہ اپنا آبائی گھر شہر کے آخری حصے میں تھا اور کافی دور بھی تھا، جب میں یہاں پہنچ جاتا تو والدہ بھی اکثر میرے پاس آجاتی تھیں، یہاں رھتے ھوئے ھمیں بہت سی آسانیاں تھیں، ھر قسم کی خریداری کے لئے بازار بھی نذدیک تھے، اور سب سے بڑھ کر یہاں کے آس پاس کے رھنے والے بھی بہت ھی ملنسار اور مہمان نواز اور رشتہ داروں سے بھی بڑھ کر ھم سب کا خیال رکھتےتھے، اس دفعہ تو ھم نے گھر پر کچھ پکایا بھی نہیں تھا، سب کچھ ھمیں اڑوس پڑوس کی طرف سے کھانے کا انتظام تھا ھر ایک نے باری باری ھمارے گھر کھانے اور ناشتہ کا بندوبست کررکھا تھا، اور حتیٰ کہ شادی کی سارے انتظامات تیاری میں بھی انہوں نے بہت ساتھ دیا تھا،!!!!!!!!

    ابھی ھمارے وہاں پہنچتے ھی ھمیں وہ گھر پہلے سے ھی صاف ستھرا ملا، اور دوسرے دن ھی بیگم نے کہا کہ بیٹی کی بات پکی کرنے آج ھی لڑکے کے گھر جانا ھے، شام کو ھم اپنی بیٹی کو گھر پر ھی ان کی خالہ کے ساتھ چھوڑ کر باقی بچوں کے ساتھ لڑکے والوں کے گھر پہنچ گئے یہ پہلے ھی ان کے ساتھ طے ھوچکا تھا، میں تو وہاں پہنچتے ھی کچھ نروس سا محسوس کررھا تھا لیکن نے ساتھ ھی میں نے اپنے آپ کو بہت ھی سنبھالا ھوا بھی تھا، ایک ڈرائنگ روم میں میرے دونوں بیٹے میرے ساتھ بیٹھے ھوئے تھے، اور ساتھ ھی لڑکے کے والد جو بہت ھی اخلاق سے میرے ساتھ گفت و شنید میں لگے ھوئے تھے، اور انکے دونوں بیٹے بھی موجود تھے، جو بہت ھی اچھے خوش اخلاق اور خوب سیرت لگے، ان میں سے ان کے چھوٹے بیٹے سے ھماری بیٹی کے رشتہ کی بات چل رھی تھی، ان کے بڑے بیٹے کی بات تو پہلے ھی طے ھوچکی تھی، مجھے پھر کیا اعتراض ھونا تھا، فوراً ھی میں نے اپنی بیگم کو بلوا کر رضامندی ظاھر کردی، جو دوسرے کمرے میں وہاں کی عورتوں سے محو گفتگو تھیں،!!!!!

    لڑکے والوں نے بھی آپس میں کچھ بات چیت کی اور پھر مجھ سے لڑکے کے والد محترم نے کچھ یوں گفتگو کا آغاز کیا، کہ،!!!!! دیکھیں بھائی صاحب ھم منگنی کی رسم کے بالکل قائل نہیں ھیں، ھم چاھتے ھیں کہ آپ ایک سادی سی رسم کرکے منگنی کے بجائے نکاح کردیں تو بہتر رھے گا اور جس وقت بھی آپکو سہولت ھو آپ اپنی بیٹی کی رخصتی کردیجئے گا، اس وقت میں نے اپنی بیگم کی طرف دیکھا وہ بھی حیران پریشان مجھے دیکھنے لگیں، کیونکہ ھم تو اپنی بیٹی کی منگنی کے سلسلے میں آئے تھے اور ادھر تو لڑکے والے نکاح کے لئے تیار بیٹھے ھیں ابھی تو ھماری طرف سے اپنی بیٹی کے نکاح کے لئے کوئی ایسی تیاری بھی نہیں تھی، اور ھمارے پاس وقت بھی نہیں تھا کیونکہ بیٹے کے نکاح کے تیسرے دن ھی ھماری واپسی بھی تھی،!!!!!!
     
  20. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    اس وقت میں نے اپنی بیگم کی طرف دیکھا وہ بھی حیران پریشان مجھے دیکھنے لگیں، کیونکہ ھم تو اپنی بیٹی کی منگنی کے سلسلے میں آئے تھے اور ادھر تو لڑکے والے نکاح کے لئے تیار بیٹھے ھیں ابھی تو ھماری طرف سے اپنی بیٹی کے نکاح کے لئے کوئی ایسی تیاری بھی نہیں تھی، اور ھمارے پاس وقت بھی نہیں تھا کیونکہ بیٹے کے نکاح کے تیسرے دن ھی ھماری واپسی بھی تھی،!!!!!!

    مجھے بھی اسی وقت ھی کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنا تھا، مجھے فیصلہ کیا کرنا تھا یہ فیصلہ تو اللٌہ تعالیٰ کے دربار میں پہلے ھی ھوچکا تھا، یہ مشکل ضرور تھی کہ لوگوں کی ناراضگیوں کا پہلے بھی سامنا تھا اور اس بیٹی کے نکاح کے اعلان کے سنتے ھی لوگ تو ایک طوفان کھڑا کردیں گے مجھے لوگوں کے کہنے سننے کی ویسے بھی کوئی پرواہ نہیں تھی، اور ویسے بھی وقت کی کمی بھی تھی کہ لوگوں سے اس فیصلے کیلئے مشورہ لیا جاتا، بس ھمارے دل میں اس خاندان کی مہمانداری اور خوش اخلاقی کی خوبصورت ادا ھی گھر کر گئی تھی، اور ویسے بھی مذہبی گھرانہ ھے، اب ان کے اس نکاح کے فیصلہ کو میں انکار بھی نہیں کرسکتا تھا، ھماری بیٹی بھی بہت زیادہ مذھبی لگاؤ رکھتی ھے،!!!!!!!

    میں نے بس اپنی بیگم کو دیکھا ان کی نظروں سے اقرار کا اظہار محسوس کرتے ھی فوراً لڑکے کے والد کے نکاح کی تجویز کو قبول کرلیا، بس میں نے اتنا ھی کہا کہ،!!!!!! جیسا آپ بہتر سمجھتے ھیں ھمیں منظور ھے، اور صرف یہ درخواست ھے کہ بس رخصتی کیلئے ھمیں کچھ وقت چاھئے ھوگا،!!!! انہوں نے بھی اس بات کیلئے فوراً حامی بھر لی، اور بیٹے کے نکاح کے فوراً بعد کی تاریخ ھم دونوں فیملیوں نے آپس میں باھمی مشوروں سے طے کردی، جس کے تیسرے دن ھم سب کی سعودی عرب روانگی بھی تھی،،!!!!!

    اتنا کم وقت اور اتنے بڑے فیصلے میرے خیال میں شاید ھی کسی نے آج تک کئے ھوں گے، مجھے تو واقعی اپنے خاص کر نذدیکی رشتہ داروں سے بہت ڈر لگ رھا تھا کہ خوامخواہ ھی مجھے ان سب کے سوال جواب سے الجھنا پڑے گا، بیگم کو انکے رشتہ داروں سے اور مجھے میرے اپنے،!!!!!! خیر اس خیال کے آتے ھی میں نے اپنے سر کو جھٹک دیا، ھمارے بیٹی کے ھونے سسر جی نے فوراً ھی مٹھائی کی پلیٹ آگے کردی اور مبارکباد دینے لگے، وہ اور انکے سب گھر والے بہت خوش نظر آرھے تھے، ھم بھی بہت خوش تھے، اور پھر ایک دوسرے کو سب نے مبارکباد دی، مگر میری آنکھوں کے سامنے فوراً ھی اپنی بیٹی کے ر خصتی کے مناظر ایک دم سامنے آگئے، اور پھر آنسوں کا ایک سیلاب سا امڈ آیا، جسے میں اپنے رومال سے صاف کررھا تھا، اور ادھر میری بیگم کے ساتھ بھی کچھ ایسا ھی منظر دیکھا، وہ بھی ھنستے ھوئے اپنے آنسوؤں کو چھپانے کی ناکام کوشش کررھی تھیں،!!!!
    --------------------------------
    ھمارے بیٹی کے ھونے سسر جی نے فوراً ھی مٹھائی کی پلیٹ آگے کردی اور مبارکباد دینے لگے، وہ اور انکے سب گھر والے بہت خوش نظر آرھے تھے، ھم بھی بہت خوش تھے، اور پھر ایک دوسرے کو سب نے مبارکباد دی، مگر میری آنکھوں کے سامنے فوراً ھی اپنی بیٹی کے ر خصتی کے مناظر ایک دم سامنے آگئے، اور پھر آنسوں کا ایک سیلاب سا امڈ آیا، جسے میں اپنے رومال سے صاف کررھا تھا، اور ادھر میری بیگم کے ساتھ بھی کچھ ایسا ھی منظر دیکھا، وہ بھی ھنستے ھوئے اپنے آنسوؤں کو چھپانے کی ناکام کوشش کررھی تھیں،!!!!

    14 جنوری 2006 کو بیٹے کے نکاح کی رسم ایک ھال میں منعقد ھونے والی تھی جو ایک بارونق اور ایک خوبصورت شاہراہ پر تھا اور اس کے 4 دن بعد ھی لڑکے والوں کو اپنی بیٹی کے نکاح کی تاریخ 19 جنوری 2006 کی دے چکے تھے، وقت کی تنگی کی وجہ سے کسی ھال کا کوئی بندوبست نہیں ھوسکا تھا، اور نہ ھی بیٹی کے نکاح کے کارڈ بنوا سکے تھے، لیکن ھمارے محلے کے آس پاس کے جو میرے بیٹے کے دوست تھے، ان سب نے مل کر اپنے اثر رسوخ استعمال کرکے گھر کے نزدیک ھی ایک سرکاری پارک کے گراونڈ میں ھماری بیٹی کے نکاح کیلئے ایک دن کی منظوری لے لی تھی، اور وہاں پر شامیانہ لگانے اور اسے روشنیوں سے سجانے کے علاوہ دوسرے انتظامات کی ذمہ داریاں بھی سنبھالنے کا وعدہ کرچکے تھے،!!!!!

    مجھے واقعی جس طرح سے رشتہ داروں کی ناراضگیوں کے سامنا کرنے کا ڈر تھا وہی ھوا، میں تو بس فون پر ھی سب سے رابطہ قائم کرتا رھا، بہت سے لوگوں نے خوب غصہ میں بات کی، کئی نے تو فون پر بات کرنے سے ھی انکار کردیا، کیونکہ یہ تمام فیصلوں کے لئے ھم نے کسی سے بھی مشورہ نہیں کیا تھا سوائے والدہ کے،!!!! والدہ سے ھم نے تاریخ طے کرنے سے پہلے ھی اجازت لے لی تھی، کئی لوگوں نے تو بہت دل سے خوشی سے مبارکباد دی، اسکے علاوہ ایک دو خاص رشتہ داروں کو بھی جنہوں نے آخیر وقت تک ھمارا ساتھ دیا، بلکہ ھمارے بچوں کے ایک لاڈلے ماموں نے تمام شامیانے کی مزید ڈیکوریشن اور کھانے کا بندوبست اپنے خرچے پر کیا ان سے چھوٹے بھائی نے تو فوراً ھی ایک اچھی خاصی رقم اپنی بھانجی کے نکاح کی تیاری کیلئے اپنی بہن کے ھاتھ میں رکھ دی، اس کے علاوہ اور بھی تمام دوستوں اور رشتہ داروں نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ھر قسم کی مدد کی، جن کا کہ میں بہت بہت احسان مند ھوں،!!!!!

    مجھے اس بات سے بہت ھی دلی خوشی ھوئی کہ جو بھی ناراض رشتہ دار، دوست احباب تھے انہیں منانے کیلئے یہ مخلص لوگ ان کے گھروں پر گئے اور انہیں منا کر ھمارے بچوں کے نکاح میں شرکت کیلئے لے بھی آئے، میں ان سب سے گلے بھی لگا اور ساتھ سب سے صلاح اور مشورہ نہ کرنے کیلئے معذرت بھی کی، لیکن ان سب نے بعد میں ان رشتوں کی تعریفیں بھی کیں، اور کہا کہ کمال ھے آپ تو بہت ھی چھپے رستم نکلے، خاموشی خاموشی سے اتنے اچھے رشتے تلاش بھی کر لئے، چند لوگ ایسے بھی تھے جو بہت ھی دکھی اور غم زدہ تھے کیونکہ وہ ھمارے بچوں سے اپنے بچوں کا رشتہ کرانے کے خواھشمند تھے لیکن اس کا اطہار کرتے کرتے رہ گئے، جنہیں افسوس اس بات کا ھوا کہ ان کے ھاتھ سے ھمارے بچوں کے رشتے نکل گئے، مجھے بعد میں اس کا علم ھوسکا، جس کیلئے مجھے بھی افسوس ھوا، مگر کیا کرسکتے ھیں جو اللٌہ کی مرضی،!!!!!!

    میرے بڑے بیٹے نے اپنی اور بہن کے نکاح کی تمام تیاریوں کیلئے اپنی والدہ اور اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ اور ان کے ایک لاڈلے ماموں، مامی اور چھوٹی خالہ اور خالو کے ساتھ مل کر بخوبی انجام دیا، میں بس لوگوں سے ٹیلیفوں پر رابطہ کرکے نکاح کی دعوت دیتا رھا اور اسی سلسلے میں تمام آنے جانے والے مہمانوں کا استقبال اور انکے ساتھ انتظامات کی تیاریوں کو بھی دیکھتا رھا ساتھ ھی سب کو مشورں سے بھی نوازتا رھا، ساتھ ھی بے انتہا مصروفیات کی وجہ سے اپنی بیگم کے غصہ کو بھی کنٹرول کرتا رھا، کیونکہ اتنی جلدی میں کئے گئے اھم فیصلوں کی تیاریوں کو نبھانا بھی ایک بہت بڑا معرکہ ھے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان تقریبات کی تیاری میں ان کی ھمت کی داد دیتا ھوں، ساتھ ھی بیٹی اور بیٹے کو بھی جن کے نکاح تھے وہ بھی ان تیاریوں میں اپنے آپ کو ھلکان کئے ھوئے تھے،‌اور انہیں بھی کوئی ھوش نہیں تھا، اور چھوٹا بیٹا بھی کسی سے پیچھے نہیں تھا، اور دونوں چھوٹی بیٹیاں بھی اپنی حیثیت سے بھی زیادہ اپنی والدہ کا ھر حکم خندہ پیشانی سے بجا لارھی تھیں، اسکے علاوہ ھمارے بیٹوں کے دوستوں کے ساتھ ساتھ، ھماری بیٹیوں کی سہیلیاں بھی ھر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رھی تھیں، اور خوشی کی بات یہ تھی کہ سب کام اللٌہ کے فضل و کرم سے بہت ھی پرسکون اور منظم طریقے سے انجام پا رھے تھے، اس کے لئے میں اپنے تمام محلہ دار اڑوس پڑوس جو میرے رشتہ دار تو نہیں تھے لیکن انہوں نے رشتہ داروں اور اپنوں سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حق ادا کیا جس کے لئے میں ان سب کا احسان زندگی بھر نہیں بھول سکتا،!!!!!!
     
  21. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    اسکے علاوہ ھمارے بیٹوں کے دوستوں کے ساتھ ساتھ، ھماری بیٹیوں کی سہیلیاں بھی ھر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رھی تھیں، اور خوشی کی بات یہ تھی کہ سب کام اللٌہ کے فضل و کرم سے بہت ھی پرسکون اور منظم طریقے سے انجام پا رھے تھے، اس کے لئے میں اپنے تمام محلہ دار اڑوس پڑوس جو میرے رشتہ دار تو نہیں تھے لیکن انہوں نے رشتہ داروں اور اپنوں سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حق ادا کیا جس کے لئے میں ان سب کا احسان زندگی بھر نہیں بھول سکتا،!!!!!!

    13 جنوری 2006 کو میرے بیٹے کی رسم مہندی یا مایوں کی رسم گھر کے ساتھ ھی گلی میں مجھ سے اجازت لے کر ایک چھوٹا سا شامیانہ لگا کر بچوں نے ضد کرکے اپنے بھائی کی خوشیوں کو دوبالا کردیا، اس چھوٹی سی تقریب میں اپنے خاص خاص رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ میری بیٹی کے ھونی والی سسرال کو بھی خاص طور سے میرے ھونے والے داماد کے ساتھ دعوت دی گئی تھی، تاکہ جنہوں نے میرے داماد کو نہیں دیکھا وہ اب اچھی طرح دیکھ لیں اور اسی بہانے سب ھمارے خاص خاص رشتہ داروں سے ایک نئے رشتہ داری میں بندھنے والی فیملی کا بھی تعارف ھوجائے گا، اور ھماری بٹیا کے ھونے والے دولہا سے بھی ملاقات ھوجائے گی، خاص طور سے دولہا میاں کو دیکھنے کیلئے ھماری بٹیا کی کزنز اور سہیلیاں تو بہت ھی بے چین تھیں!!!!!

    محلے کی گلی تو روشنیوں سے خوب منوٌر تھی، اس چھوٹے سے شامیانے میں چند کرسیوں اور ٹیبل کو جوڑ کر ایک چھوٹا سا خوبصورت اسٹیج پیٹے کی مہندی کی رسم کے لئے بنادیا تھا اس کے سامنے ھی لڑکیاں نیچے دریوں پر بیٹھی ڈھولک بجا کر شادی بیاہ کے گیت گارھی رھی تھیں، اور اس سے آگے مہمانوں کیلئے ایک قطار میں ترتیب سے کرسیاں بچھی ھوئی تھیں، میں تو بس گھر کے گیٹ پر آکر بچوں کی اس طرح جھومتے گاتے دیکھ کر بہت ھی زیادہ خوش ھورھا تھا ساتھ ھی کبھی کبھی بیٹی کی جدائی کا سوچ کر غمزدہ بھی ھوجاتا تھا جبکہ اس دفعہ اسکا 5 دن بعد صرف نکاح ھی ھونا تھا، رخصتی کی تو بعد کی بات تھی، ساتھ ساتھ ھی مہمانوں کا رسماً استقبال بھی کررھا تھا،!!!!!!

    یہ میریے بچوں کی شادی کے سلسلے کی پہلی تقریب تھی، جس کی وجہ سے میرے اندر مجھے ایک ملے جلے سے جذبات محسوس ھورھے تھے، کبھی میں اپنے بیٹے کو دیکھتا اپنے دوستوں کے ساتھ خوشگپیوں میں مصروف تو کبھی اپنی بیٹی کو ھنستے مسکراتے اپنی سہیلیوں اور کزنوں سے باتیں کرتے ھوئے دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آجاتے،!!!!! نہ جانے اس خوشی کے موقع پر مجھے بابار رونا کیوں آجاتا تھا، میں پھر بھی اپنی کوشش کرتا کہ کسی کو میری اشکبار آنکھوں کے بارے میں علم نہ ھو، مگر میری بیگم اور میری بیٹی کو اس بات کا احساس ضرور ھوجاتا تھا، میرے گلے لگ کر میری بیٹی مجھے میرے غم کو ھلکا کرنے کی کوشش ضرور کرتی تھی، ادھر یہ منظر دیکھ کر بیگم خود بھی اپنی آنکھوں میں آنسو لئے نظر آرھی ھوتی تھیں،!!!!!

    مہمان تو تقریباً سب آچکے تھے، اور پہلے تو بیٹے کے سسرال والوں کا استقبال کیا جو کہ رسم کیلئے پہنچے تھے، ھمارے بیٹے کی ھونے والی دلہن کے والدین، بہنیں اور ان کے بھائی بھابھیاں اور رشتہ دار موجود تھے، میرے بیٹے نے بھی بڑھ کر ان سب کا استقبال کیا، میری تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا، انہیں بہت ھی پروقار طریقے سے بٹھایا گیا اور مہمانوں سے بھی تعارف کرایا، میرے بچوں کی شادیوں کے سلسلے میں اس جگمگاتی ھوئی پہلی تقریب میں سب لوگ بچے بچیاں خوش رنگ لباسوں میں ملبوس خوش باش ادھر ادھر گھوم پھر رھے تھے،!!!!!!

    بس انتظار تو صرف میری بیٹی کے ھونے والے سسرال کا تھا وہ بھی خاص طور سے سب لوگ اس میری لاڈلی بیٹی کے ھونے والے دولہا کو دیکھنے کیلئے بے چین تھے، میری بیٹی کو ویسے بھی ھمارے تمام رشتہ داروں عزیزوں میں سبھی بہت پسند کرتے تھے، اسکے اخلاق اور مہمانداری کی سب لوگ بہت تعریفیں کرتے تھے، اور اسے خوب چاھتے بھی تھے جہاں بھی وہ جاتی تھی ھر گھر میں اپنی خوشگفتاری سے ھر ایک کے دل میں گھر کرلیتی تھی، جس کی وجہ سے ھی ھر اس کی خوشی میں سب بڑھ چڑھ کر حصہ لے رھے تھے، خاص کر اسکی ٹیچریں بھی اس سے بہت خوش تھیں،!!!!

    ایک دم مجھے کچھ ڈھولک پر گانے بجانے کے شور کے ساتھ ساتھ ایک اور شور سنائی دیا، جس سے ڈھولک کی تھاپ بھی رک سی گئی، سب لڑکیاں اور بچے ایک طرف بھاگے، دیکھا تو میرے ھونے والے داماد اپنی والدہ، والد صاحب، ماموں اور بڑے بھائی کے درمیان ھنستے مسکراتے ھوئے سب سے ملتے ھوئے شامیانے کی طرف اپنے ایک پرکشش من موھنی شخصیت کے ساتھ چلے آرھے تھے، میں نے فورآً ھی آگے بڑھ کر ان سب کا استقبال کیا اور چند مخصوص کرسیوں پر بٹھا دیا گیا اور ساتھ آئی ھوئی عورتوں کو اندر گھر میں بھیج دیا، ابھی بھی میرے ھونے والے داماد کو سب بچوں اور بچیوں اور بیٹی کی سہیلیوں نے گھیرا ھوا تھا، ساتھ ھی سب رشتہ دار بھی باری باری اپنا تعارف کراتے ھوئے مل رھے تھے، سب کی خواھش تھی کہ اسے اچھی طرح دیکھ لیں کہ وہ کون خوش قسمت ھے جس کو میری بیٹی کیلئے چنا گیا ھے،!!!!!!!
    ------------------------------
    ایک دم مجھے کچھ ڈھولک پر گانے بجانے کے شور کے ساتھ ساتھ ایک اور شور سنائی دیا، جس سے ڈھولک کی تھاپ بھی رک سی گئی، سب لڑکیاں اور بچے ایک طرف بھاگے، دیکھا تو میرے ھونے والے داماد اپنی والدہ، والد صاحب، ماموں اور بڑے بھائی کے درمیان ھنستے مسکراتے ھوئے سب سے ملتے ھوئے شامیانے کی طرف اپنے ایک پرکشش من موھنی شخصیت کے ساتھ چلے آرھے تھے، میں نے فورآً ھی آگے بڑھ کر ان سب کا استقبال کیا اور چند مخصوص کرسیوں پر بٹھا دیا گیا اور ساتھ آئی ھوئی عورتوں کو اندر گھر میں بھیج دیا، ابھی بھی میرے ھونے والے داماد کو سب بچوں اور بچیوں اور بیٹی کی سہیلیوں نے گھیرا ھوا تھا، ساتھ ھی سب رشتہ دار بھی باری باری اپنا تعارف کراتے ھوئے مل رھے تھے، سب کی خواھش تھی کہ اسے اچھی طرح دیکھ لیں کہ وہ کون خوش قسمت ھے جس کو میری بیٹی کیلئے چنا گیا ھے،!!!!!!!

    پھر تو رسومات کا دور شروع ھوگیا، بیٹے کو اسکی بہنیں خالائیں اور پھوپھیاں ڈوپٹے کے سائے میں لے کر چلتی ھوئی گھر کے مین دروازے کے سامنے سے شامیانے میں داخل ھوتی ھوئی نظر آئیں، اور پھر اسے اسٹیج پر لگی ھوئی کرسیوں میں سے ایک کرسی پر بٹھا کر سب کی سب گھیر کر کھڑی ھوگئیں شاید رسومات کی تیاری ھورھی تھی، میری والدہ اور دلہن کی والدہ کے ساتھ نظر ارھی تھیں اور میری بہنیں سالیاں بھابھیاں اور میری بیٹیاں بھی خوب خوش آگے پیچھے بھاگتی ھوئی نظر آرھی تھیں، ایک یہ بھی ھماری یہ شادیوں کی چھوٹی چھوٹی رسمیں بھی ھماری ثقافت کا حصہ بنی ھوئی ھیں اور روز بروز ان رسموں کا اضافہ ھی ھوتا جارھا ھے،!!!!!

    جس کی جو حیثیت ھے اس حساب سے ان رسومات پر خرچ بھی کررھا ھے، مگر ان خرچوں پر حد سے آگے بڑھ جانا بھی بہت بڑی زیادتی ھے، مجھ سے کہا بھی گیا کہ کسی بڑے ھال میں یہ رسم ھونی چاھئے تھی آخر کو آپکے کے گھر میں یہ پہلی شادی کی رسم ھونے جارھی تھی، مگر میں نےکوشش یہی کی کہ کم سے کم اپنی گنجائش کے مطابق ھی خرچ ھو تو بہتر ھوگا، اور گھر میں بھی تاکید کی تھی، کیونکہ بعد میں اس کے لئے خمیازہ ھمیں ھی بھگتنا پڑے گا،!!! مگر کیا کیا جائے کہیں کہیں اپنے بچوں کی خوشیوں کی خاطر اپنی حدود کو بھی پھلانگنا پڑجاتا ھے،!!!!!

    رسومات سے فارغ ھوکر کھانے کا اھتمام شروع ھوگیا گھر کے صحن میں ھی دریوں پر دسترخوان بچھا کر مہمانوں کو کھانا پیش کیا گیا ایک چکن زعفرانی بریانی کی دیگ باھر سے پکوا کر منگوائی گئی تھی رائتہ گھر پر ھی بنایا گیا تھا، اور میٹھے میں ایک چھوٹی دیگ اشرفی زردہ کی باھر سے ھی تیار کی گئی تھی، پہلے تو مردوں کو کھلایا گیا جب تک عورتیں ڈھولک پر اپنے شادی بیاہ کے گیت گانے میں مصروف رھیں، میرے ساتھ میرے ھونے والے داماد اور ان کے والد، بھائی اور ساتھ سامنے انکے ماموں نے طعام نوش فرمایا، ایک طرف میرے بیٹے کے سسرال کے لوگ موجود تھے، اور میرے رشتہ دار بھی اس کھانے میں شامل تھے، میں نے اپنی ھر ممکن کوشش کی کہ ھر ایک کو کھانے کیلئے اچھی طرح پوچھوں اور سب کا خندہ پیشانی سے خیال رکھوں، میری بیگم کا دھیان بھی بار بار میری طرف ھوتا تھا کہ کہیں میں پریشان تو نہیں ھو رھا لیکن مجھے سب کے ساتھ خوش خوش باتیں کرتے ھوئے دیکھ کر وہ بہت ھی زیادہ مطمئین تھیں، کئی ھمارے گھر کے افراد تو کھانے کھلانے میں ھی مصروف رھے اور ان سب نے آخیر میں ھی باقی اپنے گھر والوں کے ساتھ ھی مل کر کھانا کھایا، پھر اسکے بعد عورتوں نے اس کھانے پینے کا انتظام اپنے ھاتھوں میں لے لیا،!!!!!

    میں اپنے تمام مہمانوں کے ساتھ باھر شامیانے کے نیچے چند کرسیوں کے ساتھ گھیرا ڈال کر رسماً ادھر ادھر کی حالات حاضرہ پر گفتگو شروع کردی کچھ نوجوان مہمان تو باھر ٹہلنے نکل گئے، اور میں کبھی اپنی بیٹی کے سسرال والوں کے ساتھ تو کبھی بیٹے کے سسرال سے آئے ھوئے مہمانوں کے ساتھ مہمانداری میں مشغول رھا اور ساتھ ھی اپنے تمام آئے ھوئے رشتہ داروں کے ساتھ ان سب کا تعارف بھی کراتا رھا، گو کہ اس تقریب میں جگہ کی مناسبت سے ھر خاص خاص رشتہ داروں کے گھر سے دو تین افرادکو ھی دعوت دی گئی تھی مگر اس کے باوجود کافی لوگوں کی تعداد موجود تھی، لیکن اللٌہ کا شکر ھے کہ کھانے اور مہمانداری میں کوئی کسر باقی نہیں رھی، بلکہ اللٌہ کے فضل و کرم سے بہت ھی برکت ھوئی، اور سب لوگ بہت خوش ھوئے،!!!!!!

    ھمارے خاندان میں نئی رشتہ داریاں قائم ھونے سے سب ھمارے خاص رشتہ داروں نے ان سے ملکر بہت ھی زیادہ تعریف کی، میری بھی شادی خاندان سے باھر ھوئی تھی، اور میرے دونوں بچوں کی شادیاں بھی خاندان سے باھر ھی ھونے جارھی تھیں، یہ سب اللٌہ کی طرف سے ھی اس کا کرم ھوتا ھے ورنہ انسان کے بس کی بات نہیں، ھر خاندان کا آگے بڑھنا اور نئے نئے رشتے استوار کرنا سب کچھ نصیب کی بات ھے، یہ تو میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ میرے بیٹے کی مہندی کی تقریب اتنی بھرپور خوشیوں کی رونقوں کے ساتھ اختتام کو پہنچے گی، کل 14 جنوری کو میرے بیٹے کے نکاح کی تقریب منعقد ھونے جارھی تھی، میں کافی مطمئیں تھا کہ سب لوگوں نے ملکر اتنے بہترین انتظام کے ساتھ ھر تیاری کی تھی کہ مجھے بالکل ھی کوئی دقت یا پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا،!!!!!
     
  22. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    اسکے علاوہ ھمارے بیٹوں کے دوستوں کے ساتھ ساتھ، ھماری بیٹیوں کی سہیلیاں بھی ھر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رھی تھیں، اور خوشی کی بات یہ تھی کہ سب کام اللٌہ کے فضل و کرم سے بہت ھی پرسکون اور منظم طریقے سے انجام پا رھے تھے، اس کے لئے میں اپنے تمام محلہ دار اڑوس پڑوس جو میرے رشتہ دار تو نہیں تھے لیکن انہوں نے رشتہ داروں اور اپنوں سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حق ادا کیا جس کے لئے میں ان سب کا احسان زندگی بھر نہیں بھول سکتا،!!!!!!

    13 جنوری 2006 کو میرے بیٹے کی رسم مہندی یا مایوں کی رسم گھر کے ساتھ ھی گلی میں مجھ سے اجازت لے کر ایک چھوٹا سا شامیانہ لگا کر بچوں نے ضد کرکے اپنے بھائی کی خوشیوں کو دوبالا کردیا، اس چھوٹی سی تقریب میں اپنے خاص خاص رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ میری بیٹی کے ھونی والی سسرال کو بھی خاص طور سے میرے ھونے والے داماد کے ساتھ دعوت دی گئی تھی، تاکہ جنہوں نے میرے داماد کو نہیں دیکھا وہ اب اچھی طرح دیکھ لیں اور اسی بہانے سب ھمارے خاص خاص رشتہ داروں سے ایک نئے رشتہ داری میں بندھنے والی فیملی کا بھی تعارف ھوجائے گا، اور ھماری بٹیا کے ھونے والے دولہا سے بھی ملاقات ھوجائے گی، خاص طور سے دولہا میاں کو دیکھنے کیلئے ھماری بٹیا کی کزنز اور سہیلیاں تو بہت ھی بے چین تھیں!!!!!

    محلے کی گلی تو روشنیوں سے خوب منوٌر تھی، اس چھوٹے سے شامیانے میں چند کرسیوں اور ٹیبل کو جوڑ کر ایک چھوٹا سا خوبصورت اسٹیج پیٹے کی مہندی کی رسم کے لئے بنادیا تھا اس کے سامنے ھی لڑکیاں نیچے دریوں پر بیٹھی ڈھولک بجا کر شادی بیاہ کے گیت گارھی رھی تھیں، اور اس سے آگے مہمانوں کیلئے ایک قطار میں ترتیب سے کرسیاں بچھی ھوئی تھیں، میں تو بس گھر کے گیٹ پر آکر بچوں کی اس طرح جھومتے گاتے دیکھ کر بہت ھی زیادہ خوش ھورھا تھا ساتھ ھی کبھی کبھی بیٹی کی جدائی کا سوچ کر غمزدہ بھی ھوجاتا تھا جبکہ اس دفعہ اسکا 5 دن بعد صرف نکاح ھی ھونا تھا، رخصتی کی تو بعد کی بات تھی، ساتھ ساتھ ھی مہمانوں کا رسماً استقبال بھی کررھا تھا،!!!!!!

    یہ میریے بچوں کی شادی کے سلسلے کی پہلی تقریب تھی، جس کی وجہ سے میرے اندر مجھے ایک ملے جلے سے جذبات محسوس ھورھے تھے، کبھی میں اپنے بیٹے کو دیکھتا اپنے دوستوں کے ساتھ خوشگپیوں میں مصروف تو کبھی اپنی بیٹی کو ھنستے مسکراتے اپنی سہیلیوں اور کزنوں سے باتیں کرتے ھوئے دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آجاتے،!!!!! نہ جانے اس خوشی کے موقع پر مجھے بابار رونا کیوں آجاتا تھا، میں پھر بھی اپنی کوشش کرتا کہ کسی کو میری اشکبار آنکھوں کے بارے میں علم نہ ھو، مگر میری بیگم اور میری بیٹی کو اس بات کا احساس ضرور ھوجاتا تھا، میرے گلے لگ کر میری بیٹی مجھے میرے غم کو ھلکا کرنے کی کوشش ضرور کرتی تھی، ادھر یہ منظر دیکھ کر بیگم خود بھی اپنی آنکھوں میں آنسو لئے نظر آرھی ھوتی تھیں،!!!!!

    مہمان تو تقریباً سب آچکے تھے، اور پہلے تو بیٹے کے سسرال والوں کا استقبال کیا جو کہ رسم کیلئے پہنچے تھے، ھمارے بیٹے کی ھونے والی دلہن کے والدین، بہنیں اور ان کے بھائی بھابھیاں اور رشتہ دار موجود تھے، میرے بیٹے نے بھی بڑھ کر ان سب کا استقبال کیا، میری تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا، انہیں بہت ھی پروقار طریقے سے بٹھایا گیا اور مہمانوں سے بھی تعارف کرایا، میرے بچوں کی شادیوں کے سلسلے میں اس جگمگاتی ھوئی پہلی تقریب میں سب لوگ بچے بچیاں خوش رنگ لباسوں میں ملبوس خوش باش ادھر ادھر گھوم پھر رھے تھے،!!!!!!

    بس انتظار تو صرف میری بیٹی کے ھونے والے سسرال کا تھا وہ بھی خاص طور سے سب لوگ اس میری لاڈلی بیٹی کے ھونے والے دولہا کو دیکھنے کیلئے بے چین تھے، میری بیٹی کو ویسے بھی ھمارے تمام رشتہ داروں عزیزوں میں سبھی بہت پسند کرتے تھے، اسکے اخلاق اور مہمانداری کی سب لوگ بہت تعریفیں کرتے تھے، اور اسے خوب چاھتے بھی تھے جہاں بھی وہ جاتی تھی ھر گھر میں اپنی خوشگفتاری سے ھر ایک کے دل میں گھر کرلیتی تھی، جس کی وجہ سے ھی ھر اس کی خوشی میں سب بڑھ چڑھ کر حصہ لے رھے تھے، خاص کر اسکی ٹیچریں بھی اس سے بہت خوش تھیں،!!!!

    ایک دم مجھے کچھ ڈھولک پر گانے بجانے کے شور کے ساتھ ساتھ ایک اور شور سنائی دیا، جس سے ڈھولک کی تھاپ بھی رک سی گئی، سب لڑکیاں اور بچے ایک طرف بھاگے، دیکھا تو میرے ھونے والے داماد اپنی والدہ، والد صاحب، ماموں اور بڑے بھائی کے درمیان ھنستے مسکراتے ھوئے سب سے ملتے ھوئے شامیانے کی طرف اپنے ایک پرکشش من موھنی شخصیت کے ساتھ چلے آرھے تھے، میں نے فورآً ھی آگے بڑھ کر ان سب کا استقبال کیا اور چند مخصوص کرسیوں پر بٹھا دیا گیا اور ساتھ آئی ھوئی عورتوں کو اندر گھر میں بھیج دیا، ابھی بھی میرے ھونے والے داماد کو سب بچوں اور بچیوں اور بیٹی کی سہیلیوں نے گھیرا ھوا تھا، ساتھ ھی سب رشتہ دار بھی باری باری اپنا تعارف کراتے ھوئے مل رھے تھے، سب کی خواھش تھی کہ اسے اچھی طرح دیکھ لیں کہ وہ کون خوش قسمت ھے جس کو میری بیٹی کیلئے چنا گیا ھے،!!!!!!!
    ------------------------------
    ایک دم مجھے کچھ ڈھولک پر گانے بجانے کے شور کے ساتھ ساتھ ایک اور شور سنائی دیا، جس سے ڈھولک کی تھاپ بھی رک سی گئی، سب لڑکیاں اور بچے ایک طرف بھاگے، دیکھا تو میرے ھونے والے داماد اپنی والدہ، والد صاحب، ماموں اور بڑے بھائی کے درمیان ھنستے مسکراتے ھوئے سب سے ملتے ھوئے شامیانے کی طرف اپنے ایک پرکشش من موھنی شخصیت کے ساتھ چلے آرھے تھے، میں نے فورآً ھی آگے بڑھ کر ان سب کا استقبال کیا اور چند مخصوص کرسیوں پر بٹھا دیا گیا اور ساتھ آئی ھوئی عورتوں کو اندر گھر میں بھیج دیا، ابھی بھی میرے ھونے والے داماد کو سب بچوں اور بچیوں اور بیٹی کی سہیلیوں نے گھیرا ھوا تھا، ساتھ ھی سب رشتہ دار بھی باری باری اپنا تعارف کراتے ھوئے مل رھے تھے، سب کی خواھش تھی کہ اسے اچھی طرح دیکھ لیں کہ وہ کون خوش قسمت ھے جس کو میری بیٹی کیلئے چنا گیا ھے،!!!!!!!

    پھر تو رسومات کا دور شروع ھوگیا، بیٹے کو اسکی بہنیں خالائیں اور پھوپھیاں ڈوپٹے کے سائے میں لے کر چلتی ھوئی گھر کے مین دروازے کے سامنے سے شامیانے میں داخل ھوتی ھوئی نظر آئیں، اور پھر اسے اسٹیج پر لگی ھوئی کرسیوں میں سے ایک کرسی پر بٹھا کر سب کی سب گھیر کر کھڑی ھوگئیں شاید رسومات کی تیاری ھورھی تھی، میری والدہ اور دلہن کی والدہ کے ساتھ نظر ارھی تھیں اور میری بہنیں سالیاں بھابھیاں اور میری بیٹیاں بھی خوب خوش آگے پیچھے بھاگتی ھوئی نظر آرھی تھیں، ایک یہ بھی ھماری یہ شادیوں کی چھوٹی چھوٹی رسمیں بھی ھماری ثقافت کا حصہ بنی ھوئی ھیں اور روز بروز ان رسموں کا اضافہ ھی ھوتا جارھا ھے،!!!!!

    جس کی جو حیثیت ھے اس حساب سے ان رسومات پر خرچ بھی کررھا ھے، مگر ان خرچوں پر حد سے آگے بڑھ جانا بھی بہت بڑی زیادتی ھے، مجھ سے کہا بھی گیا کہ کسی بڑے ھال میں یہ رسم ھونی چاھئے تھی آخر کو آپکے کے گھر میں یہ پہلی شادی کی رسم ھونے جارھی تھی، مگر میں نےکوشش یہی کی کہ کم سے کم اپنی گنجائش کے مطابق ھی خرچ ھو تو بہتر ھوگا، اور گھر میں بھی تاکید کی تھی، کیونکہ بعد میں اس کے لئے خمیازہ ھمیں ھی بھگتنا پڑے گا،!!! مگر کیا کیا جائے کہیں کہیں اپنے بچوں کی خوشیوں کی خاطر اپنی حدود کو بھی پھلانگنا پڑجاتا ھے،!!!!!

    رسومات سے فارغ ھوکر کھانے کا اھتمام شروع ھوگیا گھر کے صحن میں ھی دریوں پر دسترخوان بچھا کر مہمانوں کو کھانا پیش کیا گیا ایک چکن زعفرانی بریانی کی دیگ باھر سے پکوا کر منگوائی گئی تھی رائتہ گھر پر ھی بنایا گیا تھا، اور میٹھے میں ایک چھوٹی دیگ اشرفی زردہ کی باھر سے ھی تیار کی گئی تھی، پہلے تو مردوں کو کھلایا گیا جب تک عورتیں ڈھولک پر اپنے شادی بیاہ کے گیت گانے میں مصروف رھیں، میرے ساتھ میرے ھونے والے داماد اور ان کے والد، بھائی اور ساتھ سامنے انکے ماموں نے طعام نوش فرمایا، ایک طرف میرے بیٹے کے سسرال کے لوگ موجود تھے، اور میرے رشتہ دار بھی اس کھانے میں شامل تھے، میں نے اپنی ھر ممکن کوشش کی کہ ھر ایک کو کھانے کیلئے اچھی طرح پوچھوں اور سب کا خندہ پیشانی سے خیال رکھوں، میری بیگم کا دھیان بھی بار بار میری طرف ھوتا تھا کہ کہیں میں پریشان تو نہیں ھو رھا لیکن مجھے سب کے ساتھ خوش خوش باتیں کرتے ھوئے دیکھ کر وہ بہت ھی زیادہ مطمئین تھیں، کئی ھمارے گھر کے افراد تو کھانے کھلانے میں ھی مصروف رھے اور ان سب نے آخیر میں ھی باقی اپنے گھر والوں کے ساتھ ھی مل کر کھانا کھایا، پھر اسکے بعد عورتوں نے اس کھانے پینے کا انتظام اپنے ھاتھوں میں لے لیا،!!!!!

    میں اپنے تمام مہمانوں کے ساتھ باھر شامیانے کے نیچے چند کرسیوں کے ساتھ گھیرا ڈال کر رسماً ادھر ادھر کی حالات حاضرہ پر گفتگو شروع کردی کچھ نوجوان مہمان تو باھر ٹہلنے نکل گئے، اور میں کبھی اپنی بیٹی کے سسرال والوں کے ساتھ تو کبھی بیٹے کے سسرال سے آئے ھوئے مہمانوں کے ساتھ مہمانداری میں مشغول رھا اور ساتھ ھی اپنے تمام آئے ھوئے رشتہ داروں کے ساتھ ان سب کا تعارف بھی کراتا رھا، گو کہ اس تقریب میں جگہ کی مناسبت سے ھر خاص خاص رشتہ داروں کے گھر سے دو تین افرادکو ھی دعوت دی گئی تھی مگر اس کے باوجود کافی لوگوں کی تعداد موجود تھی، لیکن اللٌہ کا شکر ھے کہ کھانے اور مہمانداری میں کوئی کسر باقی نہیں رھی، بلکہ اللٌہ کے فضل و کرم سے بہت ھی برکت ھوئی، اور سب لوگ بہت خوش ھوئے،!!!!!!

    ھمارے خاندان میں نئی رشتہ داریاں قائم ھونے سے سب ھمارے خاص رشتہ داروں نے ان سے ملکر بہت ھی زیادہ تعریف کی، میری بھی شادی خاندان سے باھر ھوئی تھی، اور میرے دونوں بچوں کی شادیاں بھی خاندان سے باھر ھی ھونے جارھی تھیں، یہ سب اللٌہ کی طرف سے ھی اس کا کرم ھوتا ھے ورنہ انسان کے بس کی بات نہیں، ھر خاندان کا آگے بڑھنا اور نئے نئے رشتے استوار کرنا سب کچھ نصیب کی بات ھے، یہ تو میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ میرے بیٹے کی مہندی کی تقریب اتنی بھرپور خوشیوں کی رونقوں کے ساتھ اختتام کو پہنچے گی، کل 14 جنوری کو میرے بیٹے کے نکاح کی تقریب منعقد ھونے جارھی تھی، میں کافی مطمئیں تھا کہ سب لوگوں نے ملکر اتنے بہترین انتظام کے ساتھ ھر تیاری کی تھی کہ مجھے بالکل ھی کوئی دقت یا پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا،!!!!!
     
  23. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    یہ سب اللٌہ کی طرف سے ھی اس کا کرم ھوتا ھے ورنہ انسان کے بس کی بات نہیں، ھر خاندان کا آگے بڑھنا اور نئے نئے رشتے استوار کرنا سب کچھ نصیب کی بات ھے، یہ تو میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ میرے بیٹے کی مہندی کی تقریب اتنی بھرپور خوشیوں کی رونقوں کے ساتھ اختتام کو پہنچے گی، کل 14 جنوری کو میرے بیٹے کے نکاح کی تقریب منعقد ھونے جارھی تھی، میں کافی مطمئیں تھا کہ سب لوگوں نے ملکر اتنے بہترین انتظام کے ساتھ ھر تیاری کی تھی کہ مجھے بالکل ھی کوئی دقت یا پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا،!!!!!

    بیٹی کے نکاح کی تاریخ 19 جنوری 2006 کو طے پائی تھی، اس کے تین دن بعد ھم سب کی واپسی بھی تھی، آج 14 جنوری کو بیٹے کا نکاح تھا، آنے والے کل 15 جنوری کو بیٹی کے سسرال کے کچھ خاص خاص فیملی کے افراد نکاح کی تاریخ کی رسم ادا کرنے آرھے تھے، اور اسی بہانے انہوں نے ھماری بیٹی کو اپنے رشتہ داروں سے روشناس بھی کرانا تھا،!!!!

    بیٹے کے نکاح کے کارڈ جو انکی سسرال سے ملے تھے وہ تو تقسیم کئے جا چکے تھے، جہاں پر پہنچ نہ ھوسکی تھی وہاں زبانی ھی فون پر اطلاع پہنچادی تھی، کچھ لوگوں نے ناراضگی کا اظہار تو کیا تھا، اور نکاح میں شرکت نہ کرنے کی قسم کھائی تھی، لیکن نکاح والے دن اپنی فیملی کو لے کر پہنچ بھی گئے تھے، شاید نکاح کی کاروائی کے مناظر دیکھنے کیلئے، تاکہ کچھ نقص نکال کر دوسروں تک اس کی تشہیر کرسکیں، ایسا عورتوں کا ماننا تھا،!!!!! مگر مجھے ان سب کے آجانے پر بہت ھی زیادہ خوشی ھوئی،!!!!! میں گھر پر شام کے وقت سے ھی سب گھر والوں کو جلدی جلدی تیار ھونے کی تلقین کررھا تھا، ویسے تو نکاح میں شرکت کیلئے مہمانوں کو سیدھا ھال میں پہنچنے کیلئے کہہ دیا تھا لیکن چند خاص خاص رشتہ دار پہلے ھمارے گھر پہنچ چکے تھے اور ھمارے گھر میں ھی تیار ھورھے تھے، اسی لئے مزید دیر ھوتی جارھی تھی، میں تو بس گیٹ پر کرسی ڈال کر بیٹھ گیا تھا، اور سب پر ناراض ھورھا تھا، ایک بس بھی منگوا لی تھی تاکہ جو لوگ یہاں ھمارے گھر سے جارھے ھیں انہیں کوئی ھال میں پہنچنے کے لئے دقت نہ اٹھانی پڑے،!!!!!!!

    گھر میں تو ایک افراتفری مچی ھوئی تھی، شور ایک ھنگامہ، عورتیں تیار کیا ھورھی تھیں ایک طوفان کھڑا کیا ھوا تھا اپنے اپنے ملبوسات کی تعریفوں پل باندھ رھی تھیں، خریدی ھوئی اصل قیمت کے بجائے اس کی دس گناہ قیمت بتا رھی تھیں، کمرے کے ھر کونے میں ھر ایک نے اپنا الگ الگ ایک مورچہ بنایا ھوا تھا، جہاں وہ اپنا اپنا میک اپ کررھی تھیں، میک اپ کم اور اپنے ملبوسات اور جیولری کے بارے میں باتیں زیادہ کررھی تھیں، جیولری نقلی بھی ھوگی تو اسے اصلی ڈائمنڈ اور اصلی موتی کے بنے ھوئے ثابت کرنے کی کوشش کررھی تھیں، اور ساتھ ھی دوسروں کے ملبوسات اور جیولری میں نقص بھی نکال رھی تھیں،!!!!!!

    اگر میں ان خواتین کے مکالمے جوں کے توں اگر یہاں لکھنا شروع کردوں تو ھوسکتا کہ یہاں ھماری اردو کی مہربان محترم خاتون بہنیں اور بیٹیاں ناراض نہ ھوجائیں، مجھے عورتوں کی ان تقریبات میں کہے ھوئے مکالمے بہت اچھی طرح زبانی یاد ھیں، مگر میں معذرت چاھوں گا یہ کہتے ھوئے ان تقریبات میں مرد حضرات کا تو کباڑے پر کباڑا ھو جاتا ھے ایک تو ھر ایک تقریب کیلئے تو ھر ایک کو الگ الگ نیا اور بہترین جوڑا چاھئے کوشش یہ ھوتی ھے کہ آج تک کسی نے ایسا جوڑا پہنا نہ ھو، چاھے شوھر کی جیب اجازت دے یا نہ دے، اور اوپر سے مشہور بیوٹی پارلر سے بھی انہیں تیار ھونا ھے، تاکہ کوئی ان کی تعریف کرے یا نہ کرے لیکن وہ خود ھی پوچھ لیتی ھیں،!!!!!

    !!!!! "بہن بتاؤ تو صحیح میں،!!!! کیسی لگ رھی ھوں، گولڈن فیس بیوٹی پارلر سے میں تیار ھوئی ھوں" معلوم ھے کہ وہاں کی ریزرویشن بھی بہت ھی مشکل سے ملتی ھے، میں نے تو ایک مہینے پہلے ھی بکنگ کرالی تھی"!!!!

    وہ جان چھڑانے کیلئے جواب دیتی،!!!!!
    "واقعی بہت اچھی لگ رھی ھو، میں تو ویسے بھی بیوٹی پارلر سے تیار ھونے کی قائل نہیں ھوں، کیونکہ بچوں کے ساتھ اپنے میک اپ کو سنبھال کر رکھنا مشکل ھوجاتا ھے"، میری ساڑی دیکھی یہ میرے بھائی نے لندن سے بھیجی ھے اس پر خاص اصلی سونے کی زری سے کام ھوا ھے، بہت ھی زیادہ قیمتی ھے،"!!!!!
    اس بہن نے بھی جواب میں نہلے پر دھلا مار دیا، جبکہ وہ یہ ساڑی اپنی کسی دور کی رشتہ دار سے مانگ کر لائی تھی، یہ بھید بھی کسی خاتون نے کھول دیا تھا،!!!!!
    کسی کےپوچھنے پر کہ،!!!!!! "دیکھا کتنا جھوٹ بول رھی ھے کوئی بھی اصلی زری کا کام نہیں ھے یہ تو میری بڑی بہن سے مانگ کر لائی تھی، کئی دفعہ میری بہن نے پہنی ھوئی ھے"،!!!!!
    عورتیں بھی کہاں چھوڑتی ھیں، پوری معلومات حاصل کرکے رھتی ھیں کہ ایک دوسرے کی کہی ھوئی سچی یا جھوٹی باتوں کا جب تک سراغ نہ لگالیں چین سے نہیں بیٹھتیں،!!!!!
    بعد میں میاں جی کی شامت آجاتی ھے، اور خود بھی دل میں اپنے میاں کو دل میں گالیاں دے رھی ھوتی ھیں، اور گھر جاکر میاں جی کل کے دفتر جانے کی سوچتے ھیں اور ان کی بیویاں شروع ھوجاتی ھیں، اور میاں جی دل ھی دل میں سوچتے رھتے ھیں کہ،!!!!! کیا مصیبت ھے شادی بیاہ کسی کا ھوتا ھے اور بھگتنا کسی کو پڑتا ھے،!!!!!

    اکثر شوھروں کو تقریبات کے بعد کچھ اس طرح سننا پڑتا ھے،!!!!!!
    "دیکھا آپ نے نعیم صاحب کی بیگم نے "کلاس ون بیوٹی پارلر" سے میک اپ کروایا تھا، اور ھاروں صاحب کی بیگم کو دیکھا کتنی خوبصورت ساڑی پہنی ھوئی تھیں، وہ انہوں نے "گلیمرس شاپنگ سینٹر" سے کافی مہنگی خریدی ھے، آپکو تو مجھ پر ترس ھی نہیں آتا، مجھے تو دوسروں سے مانگ مانگ کر پہنا پڑتا ھے،!!!! مجھے بہت شرم آتی ھے کسی اور کے لباس پہن کر جاتے ھوئے،!!!!
    اور دیکھو سب تو اچھے مشہور بیوٹی پارلر سے تیار ھوتی ھیں اور آپ مجھے محلے کے بیوٹی پارلر کے علاوہ کہیں اور کی اجازت ھی نہیں دیتے،!!!!! میں ائندہ سے کسی بھی تقریب میں نہیں جاؤں گی،!!!! آپ نے دیکھا کہ جباربھائی تو کم از کم اپنی بیگم کو ھمیشہ ھر تقریب میں اچھے اچھے نئے جوڑوں کے ساتھ میچنگ کی جیولری بھی دلاتے ھیں، اور آپ تو ،!!!!! بس " !!!!!!!

    میاں جی کیا کریں بچارے یہ بیگم کی باتیں سن کر خاموشی سے اپنے بستر میں خواب غفلت کے مزے لینے لگتے ھیں کہ کم از کم خواب میں ھی کچھ اچھی باتیں سننے کو مل جائیں،!!!! اور بیگم ،!!!!بس وہ بھی بڑ بڑا کر سونے کا موڈ بنا لیتی ھیں اور پھر ایک ہفتہ تک بات چیت بند،!!!!!!
    مگر میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ بعض خواتین ایسے موقعوں پر اپنے شوھروں کی عزت بھی رکھتی ھیں اور اس کے علاوہ ان کی جیب کی گنجائش دیکھ کر ھی کچھ سوال کرتی ھیں،!!!!!!

    یہ سب میرا بتانے کا مقصد یہی ھے کہ ھمیں صرف اپنے آپ کو دیکھ کر میانہ روی کو اختیار کرنا چاھئے، اور اپنی اوقات میں رھتے ھوئے جتنی چادر ھے اتنے ھی پیر پھیلانے کی کوشش کریں تو ھمارے اپنے لئے ھی بہتر ھو گا اور پرسکون رھیں گے، !!!!ورنہ تو خود ھی سمجھ جائیں کہ ھماری یہ خوبصورت زندگی ایک عذاب بن کر ھمارے گلے میں ایک پھانسی کا پھندہ بن جاتی ھے، !!!!!!!

    اگر اس طرح لکھنے سے کسی کو دکھ ھوا ھو تو میں معافی کا خواست گار ھوں،!!!!!!!!

    مجھے تو باھر بیٹھے ھوئے کافی وقت ھوگیا تھا اور چند مرد حضرات بھی میرے آس پاس اپنی بیگمات کو گھر کے اندر بھیج کر بچوں کو گود میں لئے انہیں چپ کرانے کی ناکام کوشش میں لگے ھوئے تھے اور میرے سر کے درد کو مزید اشتعال دلا رھے تھے، میری بیگم بھی بس تیار ھوکر ادھر ادھر پریشان پھر رھی تھیں اور مہمان عورتوں کی فرمائشی پروگرام پر بھی ساتھ ساتھ عمل کررھی تھیں، مجھے باھر آکر خاموشی سے میرے کان میں مہمان عورتوں کی شکایت بھی کرتی جاتی تھیں، جس سے میرے پارے کی شدت میں مزید اضافہ بھی ھورھا تھا،!!!!!

    "ان عورتوں کے تو فیشن ھی ختم نہیں ھوتے،"
    میری بیگم نے خاموشی سے میرے کان میں سر گوشی کی،!!!!
    پھر دوبارہ انہیں چین نہیں آیا تو میرے غصہ ھونے سے پہلے ھی میرے پاس آکر شروع ھوگئیں،!!!!!!
    " دیکھا آپ نے،!!!!!کئی دفعہ خاص طور سے سب کو یاد دلایا تھا کہ سب لوگ اپنے اپنے گھروں سے تیار ھوکر سیدھا ھال میں پہنچ جائیں، مگر سب نے تو میرے گھر کو دھرم شالہ سمجھ لیا ھے، کوئی سرخی پورڈر مانگ رھا ھے تو کوئی گلے میں پہنے کیلئے میچنگ سیٹ مانگ رھا ھے، کوئی تو میری بچیوں سے اس وقت مہندی لگانے کو کہہ رھا ھے، اور کوئی تو اپنے بچوں کے میک اپ کیلئے درخواست کررھا ھے، کسی نے تو اپنے بچوں کو کھلا چھوڑ دیا ھے اور وہ گھر میں دھما چوکڑی مچائے ھوئے ھیں، کیا کہوں لوگ یہاں بھی جینے نہیں دیتے، میرے گھر کا تو سب نے ستاناس مار دیا ھے، آخر ھم انسان ھیں یا کیا، ؟؟؟؟؟؟؟؟"

    اتفاق سے باھر، اندر کی عورتوں کے شوھر حضرات کے کانوں میں بھی ھماری بیگم کی باتوں کی بھنک پڑ گئی، وہ بھی خاموشی سے اپنے بچوں کو اپنی گود میں چپ کراتے ھوئے میرے پاس سے آگے کو نکل لئے، میں نے بھی اپنی بیگم کو خاموشی سے اپنے آپ کو برداشت کرتے ھوئے سمجھایا کہ کوئی بات نہیں بس ایسے موقعوں پر تو کچھ نہ کچھ بدنظمی تو ھوتی ھے، اور جہاں بدنظمی ھو تو بدمزگی بھی ھو جاتی ھے خوامخواہ پریشان نہ ھو، یہ وقت بھی نکل جائے گا صرف اپنے بچوں کی خوشیوں کی طرف دیکھو، بس،!!!!!!

    مجھے خود بھی بہت ھی غصہ آرھا تھا کیونکہ کافی دیر ھوچکی تھی، میرے بیٹے دولہا میاں کو بھی ایک کمرے میں نہ جانے کون کون تیار کرنے میں لگے ھوئے تھے، تیاری کم اور ھنگامہ زیادہ ھو رھا تھا، میری بیگم بھی غصہ میں آکر صحن میں بیٹھ گئیں، میں بھی اب غصہ کس پر اتاروں، کبھی کبھی تو مجھے اس ھنگامے کو دیکھ کر ھنسی بھی آجاتی تھی، اب تو دولہا بھی تیار ھوکر صحن میں آگیا تھا مجھے بلایا گیا مووی بنوانے کیلئے، بیگم کے ساتھ بیچ میں بیٹے کو دولہا بنا کر کھڑا کردیا گیا، ادھر بچوں کے ماموں اور خالو نے پگڑی کی رسم ادا کی میرے چھوٹے بھائی کا بیٹا شاہ بالا بنا ھوا تھا ساتھ میں بچوں کی خالہ نے بھی اپنے بیٹے کو شاہ بالا بنا کر اسپئیر میں تیار کیا ھوا تھا کہ کہیں دوسرے شاہ بالے کی ضرورت نہ پڑ جائے، موویوں سے فارغ ھوئے تو دولہا میاں کی سجی ھوئی کار تک لے جانے میں کافی وقت لگ گیا، نہ جانے کیوں ھر قدم پر اتنی فضول رسومات کا آضافہ ھو گیا ھے کہ دولہا ھو یا دلہن دونوں بہت مشکل میں پڑجاتے ھیں، کہیں سر پر سے نوٹوں کو پھیر پھیر کے ایک طرف رکھے جارھے ھیں تو کہیں زبردستی دولہا دلہن کو مٹھائی ان کے منہ میں ٹھونس رھے ھیں، چاھے دل چاھے یا نہ چاھے،!!!!! اور دوسری طرف سے چند شرارتی بچے خاموشی سے وہی صدقہ اتارنے کے بعد کے نوٹوں کو اپنی جیبوں میں ٹھکانے لگانے میں مصروف رھتے ھیں،!!!!!

    میں بھی اپنے بچوں کی وجہ سے برداشت سے کام لے رھا تھا کیونکہ یہ انکی خوشیوں کا ایک موقعہ تھا، اور میری بڑی بیٹی بھی بار بار مجھے اشاروں سے ھی برداشت کرنے کیلئے درخواست کررھی تھی، میری والدہ بھی دوسری ایک ھماری بیگم کی خالہ سے باتیں کرکے اپنے آپ کو بہلا رھی تھیں، ان کے ساتھ میری بہنیں بھی موجود تھیں، ادھر مجھے ھال سے موبائل پر فون آرھے تھے بھئی خدارا جلدی بارات لے کر پہنچو، ھمارے آدھے مہمان تو وہاں پہلے سے ھی پہنچ چکے تھے کچھ تو فون پر محل وقوع جانے کی کوشش میں لگے ھوئے تھے، کیونکہ وہاں پر تو شادی ھالوں کی بھر مار ھے، کئی لوگ تو بھوک کے مارے دوسروں کی تقریبات میں بھی گھس کر اپنی بھوک مٹا لیتے ھیں اور کسی کو کچھ پتہ ھی نہیں چلتا کوں کس کا مہمان آیا اور کھا پی کر چلا گیا، ویسے بھی جب کھانا شروع ھوتا ھے تو ایک افراتفری مچ جاتی ھے، جبکہ ان دنوں کھانے پر پابندی تھی اور ھر جگہ کھانے کا انتظام بھی تھا، اور پولیس کی موبائل میں بیٹھے قانون کے محافظ بھی اسی موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی جیب گرم کرنے میں لگے رھتے ھیں، خود بھی کھاتے ھیں اور دوسروں کو بھی کھانا کھلانے پر کوئی چالان نہیں کرتے،!!!!! کتنے مہربان ھوتے ھیں اور لوگ ان کی شکائتیں کئے پھرتے ھیں،!!!!!
     
  24. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    یہ سب اللٌہ کی طرف سے ھی اس کا کرم ھوتا ھے ورنہ انسان کے بس کی بات نہیں، ھر خاندان کا آگے بڑھنا اور نئے نئے رشتے استوار کرنا سب کچھ نصیب کی بات ھے، یہ تو میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ میرے بیٹے کی مہندی کی تقریب اتنی بھرپور خوشیوں کی رونقوں کے ساتھ اختتام کو پہنچے گی، کل 14 جنوری کو میرے بیٹے کے نکاح کی تقریب منعقد ھونے جارھی تھی، میں کافی مطمئیں تھا کہ سب لوگوں نے ملکر اتنے بہترین انتظام کے ساتھ ھر تیاری کی تھی کہ مجھے بالکل ھی کوئی دقت یا پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا،!!!!!

    بیٹی کے نکاح کی تاریخ 19 جنوری 2006 کو طے پائی تھی، اس کے تین دن بعد ھم سب کی واپسی بھی تھی، آج 14 جنوری کو بیٹے کا نکاح تھا، آنے والے کل 15 جنوری کو بیٹی کے سسرال کے کچھ خاص خاص فیملی کے افراد نکاح کی تاریخ کی رسم ادا کرنے آرھے تھے، اور اسی بہانے انہوں نے ھماری بیٹی کو اپنے رشتہ داروں سے روشناس بھی کرانا تھا،!!!!

    بیٹے کے نکاح کے کارڈ جو انکی سسرال سے ملے تھے وہ تو تقسیم کئے جا چکے تھے، جہاں پر پہنچ نہ ھوسکی تھی وہاں زبانی ھی فون پر اطلاع پہنچادی تھی، کچھ لوگوں نے ناراضگی کا اظہار تو کیا تھا، اور نکاح میں شرکت نہ کرنے کی قسم کھائی تھی، لیکن نکاح والے دن اپنی فیملی کو لے کر پہنچ بھی گئے تھے، شاید نکاح کی کاروائی کے مناظر دیکھنے کیلئے، تاکہ کچھ نقص نکال کر دوسروں تک اس کی تشہیر کرسکیں، ایسا عورتوں کا ماننا تھا،!!!!! مگر مجھے ان سب کے آجانے پر بہت ھی زیادہ خوشی ھوئی،!!!!! میں گھر پر شام کے وقت سے ھی سب گھر والوں کو جلدی جلدی تیار ھونے کی تلقین کررھا تھا، ویسے تو نکاح میں شرکت کیلئے مہمانوں کو سیدھا ھال میں پہنچنے کیلئے کہہ دیا تھا لیکن چند خاص خاص رشتہ دار پہلے ھمارے گھر پہنچ چکے تھے اور ھمارے گھر میں ھی تیار ھورھے تھے، اسی لئے مزید دیر ھوتی جارھی تھی، میں تو بس گیٹ پر کرسی ڈال کر بیٹھ گیا تھا، اور سب پر ناراض ھورھا تھا، ایک بس بھی منگوا لی تھی تاکہ جو لوگ یہاں ھمارے گھر سے جارھے ھیں انہیں کوئی ھال میں پہنچنے کے لئے دقت نہ اٹھانی پڑے،!!!!!!!

    گھر میں تو ایک افراتفری مچی ھوئی تھی، شور ایک ھنگامہ، عورتیں تیار کیا ھورھی تھیں ایک طوفان کھڑا کیا ھوا تھا اپنے اپنے ملبوسات کی تعریفوں پل باندھ رھی تھیں، خریدی ھوئی اصل قیمت کے بجائے اس کی دس گناہ قیمت بتا رھی تھیں، کمرے کے ھر کونے میں ھر ایک نے اپنا الگ الگ ایک مورچہ بنایا ھوا تھا، جہاں وہ اپنا اپنا میک اپ کررھی تھیں، میک اپ کم اور اپنے ملبوسات اور جیولری کے بارے میں باتیں زیادہ کررھی تھیں، جیولری نقلی بھی ھوگی تو اسے اصلی ڈائمنڈ اور اصلی موتی کے بنے ھوئے ثابت کرنے کی کوشش کررھی تھیں، اور ساتھ ھی دوسروں کے ملبوسات اور جیولری میں نقص بھی نکال رھی تھیں،!!!!!!

    اگر میں ان خواتین کے مکالمے جوں کے توں اگر یہاں لکھنا شروع کردوں تو ھوسکتا کہ یہاں ھماری اردو کی مہربان محترم خاتون بہنیں اور بیٹیاں ناراض نہ ھوجائیں، مجھے عورتوں کی ان تقریبات میں کہے ھوئے مکالمے بہت اچھی طرح زبانی یاد ھیں، مگر میں معذرت چاھوں گا یہ کہتے ھوئے ان تقریبات میں مرد حضرات کا تو کباڑے پر کباڑا ھو جاتا ھے ایک تو ھر ایک تقریب کیلئے تو ھر ایک کو الگ الگ نیا اور بہترین جوڑا چاھئے کوشش یہ ھوتی ھے کہ آج تک کسی نے ایسا جوڑا پہنا نہ ھو، چاھے شوھر کی جیب اجازت دے یا نہ دے، اور اوپر سے مشہور بیوٹی پارلر سے بھی انہیں تیار ھونا ھے، تاکہ کوئی ان کی تعریف کرے یا نہ کرے لیکن وہ خود ھی پوچھ لیتی ھیں،!!!!!

    !!!!! "بہن بتاؤ تو صحیح میں،!!!! کیسی لگ رھی ھوں، گولڈن فیس بیوٹی پارلر سے میں تیار ھوئی ھوں" معلوم ھے کہ وہاں کی ریزرویشن بھی بہت ھی مشکل سے ملتی ھے، میں نے تو ایک مہینے پہلے ھی بکنگ کرالی تھی"!!!!

    وہ جان چھڑانے کیلئے جواب دیتی،!!!!!
    "واقعی بہت اچھی لگ رھی ھو، میں تو ویسے بھی بیوٹی پارلر سے تیار ھونے کی قائل نہیں ھوں، کیونکہ بچوں کے ساتھ اپنے میک اپ کو سنبھال کر رکھنا مشکل ھوجاتا ھے"، میری ساڑی دیکھی یہ میرے بھائی نے لندن سے بھیجی ھے اس پر خاص اصلی سونے کی زری سے کام ھوا ھے، بہت ھی زیادہ قیمتی ھے،"!!!!!
    اس بہن نے بھی جواب میں نہلے پر دھلا مار دیا، جبکہ وہ یہ ساڑی اپنی کسی دور کی رشتہ دار سے مانگ کر لائی تھی، یہ بھید بھی کسی خاتون نے کھول دیا تھا،!!!!!
    کسی کےپوچھنے پر کہ،!!!!!! "دیکھا کتنا جھوٹ بول رھی ھے کوئی بھی اصلی زری کا کام نہیں ھے یہ تو میری بڑی بہن سے مانگ کر لائی تھی، کئی دفعہ میری بہن نے پہنی ھوئی ھے"،!!!!!
    عورتیں بھی کہاں چھوڑتی ھیں، پوری معلومات حاصل کرکے رھتی ھیں کہ ایک دوسرے کی کہی ھوئی سچی یا جھوٹی باتوں کا جب تک سراغ نہ لگالیں چین سے نہیں بیٹھتیں،!!!!!
    بعد میں میاں جی کی شامت آجاتی ھے، اور خود بھی دل میں اپنے میاں کو دل میں گالیاں دے رھی ھوتی ھیں، اور گھر جاکر میاں جی کل کے دفتر جانے کی سوچتے ھیں اور ان کی بیویاں شروع ھوجاتی ھیں، اور میاں جی دل ھی دل میں سوچتے رھتے ھیں کہ،!!!!! کیا مصیبت ھے شادی بیاہ کسی کا ھوتا ھے اور بھگتنا کسی کو پڑتا ھے،!!!!!

    اکثر شوھروں کو تقریبات کے بعد کچھ اس طرح سننا پڑتا ھے،!!!!!!
    "دیکھا آپ نے نعیم صاحب کی بیگم نے "کلاس ون بیوٹی پارلر" سے میک اپ کروایا تھا، اور ھاروں صاحب کی بیگم کو دیکھا کتنی خوبصورت ساڑی پہنی ھوئی تھیں، وہ انہوں نے "گلیمرس شاپنگ سینٹر" سے کافی مہنگی خریدی ھے، آپکو تو مجھ پر ترس ھی نہیں آتا، مجھے تو دوسروں سے مانگ مانگ کر پہنا پڑتا ھے،!!!! مجھے بہت شرم آتی ھے کسی اور کے لباس پہن کر جاتے ھوئے،!!!!
    اور دیکھو سب تو اچھے مشہور بیوٹی پارلر سے تیار ھوتی ھیں اور آپ مجھے محلے کے بیوٹی پارلر کے علاوہ کہیں اور کی اجازت ھی نہیں دیتے،!!!!! میں ائندہ سے کسی بھی تقریب میں نہیں جاؤں گی،!!!! آپ نے دیکھا کہ جباربھائی تو کم از کم اپنی بیگم کو ھمیشہ ھر تقریب میں اچھے اچھے نئے جوڑوں کے ساتھ میچنگ کی جیولری بھی دلاتے ھیں، اور آپ تو ،!!!!! بس " !!!!!!!

    میاں جی کیا کریں بچارے یہ بیگم کی باتیں سن کر خاموشی سے اپنے بستر میں خواب غفلت کے مزے لینے لگتے ھیں کہ کم از کم خواب میں ھی کچھ اچھی باتیں سننے کو مل جائیں،!!!! اور بیگم ،!!!!بس وہ بھی بڑ بڑا کر سونے کا موڈ بنا لیتی ھیں اور پھر ایک ہفتہ تک بات چیت بند،!!!!!!
    مگر میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ بعض خواتین ایسے موقعوں پر اپنے شوھروں کی عزت بھی رکھتی ھیں اور اس کے علاوہ ان کی جیب کی گنجائش دیکھ کر ھی کچھ سوال کرتی ھیں،!!!!!!

    یہ سب میرا بتانے کا مقصد یہی ھے کہ ھمیں صرف اپنے آپ کو دیکھ کر میانہ روی کو اختیار کرنا چاھئے، اور اپنی اوقات میں رھتے ھوئے جتنی چادر ھے اتنے ھی پیر پھیلانے کی کوشش کریں تو ھمارے اپنے لئے ھی بہتر ھو گا اور پرسکون رھیں گے، !!!!ورنہ تو خود ھی سمجھ جائیں کہ ھماری یہ خوبصورت زندگی ایک عذاب بن کر ھمارے گلے میں ایک پھانسی کا پھندہ بن جاتی ھے، !!!!!!!

    اگر اس طرح لکھنے سے کسی کو دکھ ھوا ھو تو میں معافی کا خواست گار ھوں،!!!!!!!!

    مجھے تو باھر بیٹھے ھوئے کافی وقت ھوگیا تھا اور چند مرد حضرات بھی میرے آس پاس اپنی بیگمات کو گھر کے اندر بھیج کر بچوں کو گود میں لئے انہیں چپ کرانے کی ناکام کوشش میں لگے ھوئے تھے اور میرے سر کے درد کو مزید اشتعال دلا رھے تھے، میری بیگم بھی بس تیار ھوکر ادھر ادھر پریشان پھر رھی تھیں اور مہمان عورتوں کی فرمائشی پروگرام پر بھی ساتھ ساتھ عمل کررھی تھیں، مجھے باھر آکر خاموشی سے میرے کان میں مہمان عورتوں کی شکایت بھی کرتی جاتی تھیں، جس سے میرے پارے کی شدت میں مزید اضافہ بھی ھورھا تھا،!!!!!

    "ان عورتوں کے تو فیشن ھی ختم نہیں ھوتے،"
    میری بیگم نے خاموشی سے میرے کان میں سر گوشی کی،!!!!
    پھر دوبارہ انہیں چین نہیں آیا تو میرے غصہ ھونے سے پہلے ھی میرے پاس آکر شروع ھوگئیں،!!!!!!
    " دیکھا آپ نے،!!!!!کئی دفعہ خاص طور سے سب کو یاد دلایا تھا کہ سب لوگ اپنے اپنے گھروں سے تیار ھوکر سیدھا ھال میں پہنچ جائیں، مگر سب نے تو میرے گھر کو دھرم شالہ سمجھ لیا ھے، کوئی سرخی پورڈر مانگ رھا ھے تو کوئی گلے میں پہنے کیلئے میچنگ سیٹ مانگ رھا ھے، کوئی تو میری بچیوں سے اس وقت مہندی لگانے کو کہہ رھا ھے، اور کوئی تو اپنے بچوں کے میک اپ کیلئے درخواست کررھا ھے، کسی نے تو اپنے بچوں کو کھلا چھوڑ دیا ھے اور وہ گھر میں دھما چوکڑی مچائے ھوئے ھیں، کیا کہوں لوگ یہاں بھی جینے نہیں دیتے، میرے گھر کا تو سب نے ستاناس مار دیا ھے، آخر ھم انسان ھیں یا کیا، ؟؟؟؟؟؟؟؟"

    اتفاق سے باھر، اندر کی عورتوں کے شوھر حضرات کے کانوں میں بھی ھماری بیگم کی باتوں کی بھنک پڑ گئی، وہ بھی خاموشی سے اپنے بچوں کو اپنی گود میں چپ کراتے ھوئے میرے پاس سے آگے کو نکل لئے، میں نے بھی اپنی بیگم کو خاموشی سے اپنے آپ کو برداشت کرتے ھوئے سمجھایا کہ کوئی بات نہیں بس ایسے موقعوں پر تو کچھ نہ کچھ بدنظمی تو ھوتی ھے، اور جہاں بدنظمی ھو تو بدمزگی بھی ھو جاتی ھے خوامخواہ پریشان نہ ھو، یہ وقت بھی نکل جائے گا صرف اپنے بچوں کی خوشیوں کی طرف دیکھو، بس،!!!!!!

    مجھے خود بھی بہت ھی غصہ آرھا تھا کیونکہ کافی دیر ھوچکی تھی، میرے بیٹے دولہا میاں کو بھی ایک کمرے میں نہ جانے کون کون تیار کرنے میں لگے ھوئے تھے، تیاری کم اور ھنگامہ زیادہ ھو رھا تھا، میری بیگم بھی غصہ میں آکر صحن میں بیٹھ گئیں، میں بھی اب غصہ کس پر اتاروں، کبھی کبھی تو مجھے اس ھنگامے کو دیکھ کر ھنسی بھی آجاتی تھی، اب تو دولہا بھی تیار ھوکر صحن میں آگیا تھا مجھے بلایا گیا مووی بنوانے کیلئے، بیگم کے ساتھ بیچ میں بیٹے کو دولہا بنا کر کھڑا کردیا گیا، ادھر بچوں کے ماموں اور خالو نے پگڑی کی رسم ادا کی میرے چھوٹے بھائی کا بیٹا شاہ بالا بنا ھوا تھا ساتھ میں بچوں کی خالہ نے بھی اپنے بیٹے کو شاہ بالا بنا کر اسپئیر میں تیار کیا ھوا تھا کہ کہیں دوسرے شاہ بالے کی ضرورت نہ پڑ جائے، موویوں سے فارغ ھوئے تو دولہا میاں کی سجی ھوئی کار تک لے جانے میں کافی وقت لگ گیا، نہ جانے کیوں ھر قدم پر اتنی فضول رسومات کا آضافہ ھو گیا ھے کہ دولہا ھو یا دلہن دونوں بہت مشکل میں پڑجاتے ھیں، کہیں سر پر سے نوٹوں کو پھیر پھیر کے ایک طرف رکھے جارھے ھیں تو کہیں زبردستی دولہا دلہن کو مٹھائی ان کے منہ میں ٹھونس رھے ھیں، چاھے دل چاھے یا نہ چاھے،!!!!! اور دوسری طرف سے چند شرارتی بچے خاموشی سے وہی صدقہ اتارنے کے بعد کے نوٹوں کو اپنی جیبوں میں ٹھکانے لگانے میں مصروف رھتے ھیں،!!!!!

    میں بھی اپنے بچوں کی وجہ سے برداشت سے کام لے رھا تھا کیونکہ یہ انکی خوشیوں کا ایک موقعہ تھا، اور میری بڑی بیٹی بھی بار بار مجھے اشاروں سے ھی برداشت کرنے کیلئے درخواست کررھی تھی، میری والدہ بھی دوسری ایک ھماری بیگم کی خالہ سے باتیں کرکے اپنے آپ کو بہلا رھی تھیں، ان کے ساتھ میری بہنیں بھی موجود تھیں، ادھر مجھے ھال سے موبائل پر فون آرھے تھے بھئی خدارا جلدی بارات لے کر پہنچو، ھمارے آدھے مہمان تو وہاں پہلے سے ھی پہنچ چکے تھے کچھ تو فون پر محل وقوع جانے کی کوشش میں لگے ھوئے تھے، کیونکہ وہاں پر تو شادی ھالوں کی بھر مار ھے، کئی لوگ تو بھوک کے مارے دوسروں کی تقریبات میں بھی گھس کر اپنی بھوک مٹا لیتے ھیں اور کسی کو کچھ پتہ ھی نہیں چلتا کوں کس کا مہمان آیا اور کھا پی کر چلا گیا، ویسے بھی جب کھانا شروع ھوتا ھے تو ایک افراتفری مچ جاتی ھے، جبکہ ان دنوں کھانے پر پابندی تھی اور ھر جگہ کھانے کا انتظام بھی تھا، اور پولیس کی موبائل میں بیٹھے قانون کے محافظ بھی اسی موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی جیب گرم کرنے میں لگے رھتے ھیں، خود بھی کھاتے ھیں اور دوسروں کو بھی کھانا کھلانے پر کوئی چالان نہیں کرتے،!!!!! کتنے مہربان ھوتے ھیں اور لوگ ان کی شکائتیں کئے پھرتے ھیں،!!!!!
     
  25. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    ادھر مجھے ھال سے موبائل پر فون آرھے تھے بھئی خدارا جلدی بارات لے کر پہنچو، ھمارے آدھے مہمان تو وہاں پہلے سے ھی پہنچ چکے تھے کچھ تو فون پر محل وقوع جانے کی کوشش میں لگے ھوئے تھے، کیونکہ وہاں پر تو شادی ھالوں کی بھر مار ھے، کئی لوگ تو بھوک کے مارے دوسروں کی تقریبات میں بھی گھس کر اپنی بھوک مٹا لیتے ھیں اور کسی کو کچھ پتہ ھی نہیں چلتا کوں کس کا مہمان آیا اور کھا پی کر چلا گیا، ویسے بھی جب کھانا شروع ھوتا ھے تو ایک افراتفری مچ جاتی ھے، جبکہ ان دنوں کھانے پر پابندی تھی اور ھر جگہ کھانے کا انتظام بھی تھا، اور پولیس کی موبائل میں بیٹھے قانون کے محافظ بھی اسی موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی جیب گرم کرنے میں لگے رھتے ھیں، خود بھی کھاتے ھیں اور دوسروں کو بھی کھانا کھلانے پر کوئی چالان نہیں کرتے،!!!!! کتنے مہربان ھوتے ھیں اور لوگ ان کی شکائتیں کئے پھرتے ھیں،!!!!!

    آخرکار، کافی دیر میں سب تیار ھوکر بس میں بیٹھنے کی تیاری کر رھے تھے، اور اس سے پہلے دولہا میاں اپنی سجی سجائی کار میں بیٹھ چکے تھے، تاکہ بس روانہ ھو تو باقی کی کاریں بھی دولہا کی کار کے پیچھے پیچھے چل پڑیں، میں بھی نہ جانے کس طرح کسی کی گاڑی میں شاید بیٹھ کر ھال تک پہنچ گیا، مجھے کچھ یاد نہیں کیونکہ میں خود بھی ٹینشن میں تھا، دلہن کا سہرا وغیرہ دوسرا سامان کسی نے مجھے تھمادیا تھا، ھال پہنچتے ھی کسی کے ھاتھ میں یہ سامان پکڑایا اور میں وھیں ھال کی سیڑھیوں کے پاس لوگوں کی رہ نمائی کیلئے کھڑا ھو گیا،!!!!!!

    ھال کے جانے والے مین سیڑھیوں کے سامنے سب سے پہلے دولہے کی کار کو آنے دیا گیا بعد میں تمام براتی اسکے پیچھے انتظار میں کھڑے ھو گئے، کہ دولہا میاں نکلیں تو ان کے پیچھے پیچھے داخل ھوں، کار میں دولہا میاں کے سالے صاحبان نے ایک رسم کے لئے روکا ھوا تھا، جیسے ھی اس رسم سے فارغ ھوئے تو دولہا کو اسکی بہنیں اور خالائیں ساتھ ساتھ چلتی ھوئی سیڑھی کے اوپر چلتی رھیں، جہاں پر راستے کے دونوں طرف لڑکیوں نے پھول پتیوں کی تھالیاں اپنے ھاتھوں میں رکھی ھوئی تھیں، اور سب باراتیوں پر پھول نچھاور کررھی تھیں، سب سے آگے تو دولہا میں اپنی بہنوں کے ساتھ تھے اور ساتھ ساتھ خواتین خوب بنی سنوری زرق برق لباس پہنے چل رھی تھیں، اور ایک بچہ بھی ان کے ساتھ نہیں تھا، دولہا جو پگڑی اور شیروانی میں بہت غضب ڈھا رھا تھا، اس کے آس پاس زرق برق لباس پہنے ھوئی خواتین، لڑکیاں اور نئی شادی شدہ لڑکیاں بھی اپنے دلہن کے لباس میں اور دولہن والوں طرف سے ایک لائن میں دونوں طرف لڑکیاں ھاتھوں سے گلاب کے پھول کی پتیاں نچھاور کرتے ھوئے کچھ گیت بھی گا رھی تھیں، سب سے آگے کچھ خواتین پھولوں کے ھار بھی پہنائے جارھی تھیں، بہت ھی زبردست استقبال کا سماں بندھا ھوا تھا،!!!!!!!

    سب سے آخیر میں ان خواتین کے پیچھے مرد حضرات اپنے اپنے بچوں کو گود میں اٹھائے اور جو بچے چل سکتے تھے ان کی انگلیاں پکڑی ھوئی تھیں، بے چارے اباجان کیا کریں ان کی بیگمات کو تو انہی تقریبات میں سجنے اور بننے سنورنے کا موقع ملتا ھے، پھر اپنے ھی بچوں سے دور بھاگتی ھیں کہ کہیں میک اپ خراب نہ ھوجائے یا کہیں بالوں کا ڈیزائن بگڑ نہ جائے، اور کامدار ساڑی ھو یا دوپٹہ بچوں کے ھوتے ھوئے تو اسے سنبھالنا مشکل ھوتا ھے، ایسے میں شوہروں کی کمبختی آجاتی ھے، سب سے پیچھے اپنے روتے گاتے بچوں کے ساتھ لڑکھتے لڑکاتے چلے آرھے ھوتے ھیں ، ایک تو دفتر سے آؤ پھر بیگم کو بیوٹی پارلر لے جاؤ اور خود ھی گھر پر بچوں کو تیار کرو، پھر بیگم صاحبہ کا موبائل پر فوں آتا ھے کہ میں تیار ھوگئی ھوں مجھے آکر لے جائیں،!!!!!!

    ایسے بے چارے شوہروں کے ساتھ تو بہت ھی ظلم ھوتا ھے، انہیں اپنی تیاری کے بارے میں کہا جاتا ھے کہ کہ الماری میں کوئی بھی نیا جوڑا نکال کر استری کرلینا اور سوٹ کی کیا ضرورت ھے بچے چیونگم یا ھاتھ لگا کر خراب کردیں گے، اکثر عورتوں کو تو اپنے شوھروں کے بننے سنورنے سے چڑ ھوتی ھے، انہیں اس بات کا ڈر لگا رھتا ھے کہ کہیں یہ کسی تقریب میں کسی خاتون کو لائن تو نہیں مار رھے، اور ایسی ھی تقریبوں میں عورتیں اپنے شوھروں کی طرف بھی نظریں جمائی ھوئی ھوتی ھیں، مگر بے چارے شوھر کیا کریں، وہ اب اس حالت میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو لادے ھوئے کس کس طرف دیکھیں گے، سارا وقت تو بچوں کو باھر چیز دلانے یا پھر گود میں سلانے میں گزر جاتا ھے، اور پھر کھانا کھانے کی پریشانی الگ، ایسی ھی ایک تقریب میں میں نے ایک صاحب سے جو رشتہ دار بھی تھے، اور اپنے بچوں کے گھیرے میں تھے، میں نے ھمدردی میں پوچھ لیا، کچھ ضرورت ھو تو لادوں، انہوں نے بھی بلاتکلف کہہ ڈالا ارے ھاں،!!!! سید صاحب ایک پلیٹ قورمے کی اور چار نان اور بس ایک پلیٹ میں بریانی پکڑ لینا، یار کیا کروں بچوں نے تنگ کیا ھوا، ادھر سے میں نے ایک اپنے بیٹے کو آتا دیکھ کر ان کی طرف بھیج دیا کہ دیکھو بیٹا انکل کو کسی چیز کی ضرورت ھے انہیں لادینا، اور بعد میں پتہ نہیں چلا کہ ان بے چارے ماموں کو کھانا ملا یا نہیں،!!!!!!!

    میں نارتھ ناظم آباد کی بارونق شاہراہ پر ایک خوبصورت ھال کے اوپر والے حصے کی طرف جانے والی سیڑھیوں کے عین شروع میں ھی ایک طرف کھڑا اپنے لوگوں کا استقبال کررھا تھا اور سیڑھی کے اوپر جانے کا اشارہ بھی کررھا تھا، کہ کہیں وہ نچلے گراونڈ فلور پر غلطی سے نہ چلے جائیں کیونکہ وہاں پر کسی اور فیملی کی تقریب تھی، اکثر ایسی غلط فہمی کی بناء پر مہمان ایک دوسرے کی تقریب میں چلے بھی جاتے ھیں، اور جان پہچان والوں کو ڈھونڈتے رھتے ھیں، شکر ھے کہ آج کل موبائل فوں کی سہولت ھے، ورنہ تو انسان ایک دوسرے کی تلاش میں بھٹکتا ھی رھے، میں نے تو وہاں پاکستان میں وھاں پر ھی رھنے والوں کو دیکھا کہ ھر کے پاس اپنی ٹرانسپورٹ ھے، موٹر سائکل کا تو اس ھال کے سامنے انبار لگا ھوا تھا اور سڑکوں کے دونوں طرف کاروں کی ایک لمبی قطار پارک کی ھوئی تھیں، ھر ایک کی جیب میں اعلی قسم کا قیمتی موبائل اور ساتھ میں ھر بچے کے پاس بھی مختلف میوزیکل کیمرے والا موبائل موجود تھا، !!!!!

    میں نے تو یہی محسوس کیا ھے کہ ھم باھر رھنے والوں سے ھمارے ملک میں بسنے والے بہت بہتر ھیں، جہاں جہاں نظر دوڑائی ھے، ھر کوئی جس کے پاس سائیکل تھی وہ اب موٹر سائیکل پر آگیا ھے، اور جس کے پاس موٹر سائیکل تھی اب وہ سڑکوں پر کار دوڑائے پھرتا ھے، اب تو نئی نئی ماڈل کی کاروں کی ضرورت روزبروز بڑھتی چلی جارھی ھے، پاکستان میں بننے والی کاروں کے مینوفیکچرر بھی ملک کی ضرورت پوری کرنے سے قاصر ھیں، پہلے تو ڈاکیہ گھر پر سائکل یا پیدل ڈاک بانٹنے چلا آتا تھا، اب تو ھل گلی محلے میں موٹر سائیکل اور وین پر کورئیرز سروسز والے ڈاک بانٹتے پھر رھے ھیں، ڈاکخانے تو اب ویران ھی ھوگئے ھیں، اب تو گھر سے ھی آپکی ڈاک یا پارسل ایک فون پر وصول کرنے آجاتے ھیں، دودھ والے بھی اب سائیکلوں کے بجائے موٹرسائیکلوں پر دودھ کے بھرے ڈرم لادے لادے گھر گھر دودھ بانٹتے پھرتے ھیں،!!!!!

    سڑکوں پر گاڑیوں کا ایک سیلاب ھے بعض اوقات فری سگنل ھونے کے باوجود ٹریفک جام ھوجاتا ھے،!!!! بازاروں میں شاپنگ میں عورتوں اور بچوں کا اژدھام ھے، شادی ھالوں کی بکنگ ھی نہیں مل رھی ھے وہ تو منہ مانگے دام وصول کررھے ھیں، ھم باھر رھنے والے تو بہت ھی مجبور ھیں ان اخراجات کو دیکھتے ھوئے پریشان ھوجاتے ھیں، لیکن وہاں کے مستقل رھنے والے نہ جانے ان اخراجات کو کیسے برداشت کررھے ھیں، اللٌہ ھی جانتا ھے، وہاں رھتے ھوئے لوگوں نے اپنے اپنے گھر بنوا لئے، اور ادھر ھم ھیں کہ ایک زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی ابھی تک خریدنے کے قابل نہیں ھوئے، ھر دوسرے بندے نے اپنی مستقل نوکری کے ساتھ پارٹ ٹائم ملازمت بھی کی ھوئی ھے اس کے علاوہ ھر دوسرے گھر میں ٹیوشن کی دکان سجی ھوئی ھے، اپنے بچے تو دوسری جگہ ٹیوشن پڑھ رھے ھیں اور دوسروں کے بچے خود پڑھا رھے ھیں،!!!!

    جبکہ کم سے کم تنخواہ پانچ ہزار سے دس ھزار تک ھے، ایک مزدور کو میں نے بڑی مشکل سے منت سماجت کرکے اپنے گھر کی ایک چھوٹی سی مرمت کرنے کیلئے آدھے دن کی مزدوری کیلئے 700 روپے پر راضی کیا، ایک الیکٹریشن کو میں نے دو گھنٹے کام کرنے کیلئے ایک ھزار روپے دیئے اور سامان کی قیمت الگ دی،!!!!!!
    میں نے اپنے ھر ایک چھوٹے اور بڑے طبقے کے لوگوں سے بات بھی کی جن کا کہ پورے پاکستان سے کسی نہ کسی علاقے سے تعلق ھے، لیکن سب مہنگائی کیلئے پریشان تو ھیں لیکن گھر کے تمام اخراجات اور بچوں کی تعلیم اور دوسری تقریبات کے اخراجات بھی پورے کررھے ھیں، ھر ایک کے پاس موبائل بھی ھے، اور اس میں سے چوری بھی ھوجائے تو بھی کسی کو کوئی غم نہیں ھے بلکہ وہ تو اپنے موبائل کی چوری ھونے کی خبر اتنے جوش و خروش سے سناتا ھے جیسے اسے کوئی تمغہ ملا ھو اور دوسرے دن ھی وہ اپنا نیا موبائل اپنے دوستوں کو بڑے فخر سے دکھا رھا ھوتا ھے، کہ دیکھو میں نے آج ھی بالکل جدید طرز کا موبائل چور بازار سے خریدا ھے، مگر موبائل کی سم کا نمبر تو وہی ھے ، کیونکہ موبائل کمپنی وہی سم نمبر اگر چوری ھوجائے تو دوسری سم اسی نمبر کی اجراء بھی کردیتی ھے، میں نے کئی ایک سے پوچھا کہ گزارا کیسے ھورھا ھے، جواب میں تو بڑی مشکلات اور پریشانی کا ذکر ھوتا ھے، ایک نے کہا کہ !!!!! یار بہت مشکل سے گزارا ھوتا ھے، دن رات محنت کرنے کے باوجود گھر کا خرچہ بڑی مشکل سے پورا ھوتا ھے،!!!!!

    اگر کم سے کم آمدنی والے کسی سے تفصیل پوچھو تو کہتے ھیں ،!!!! کیا بتاؤں یار!!! 8ہزار روپے تنخواہ ملتی ھے، ایک پآرٹ ٹائم جاب کرکے 3 ھزار روپے وھاں سے مل جاتے ھیں اور باقی چند ٹیوشن ھیں جن سے 6 ھزار کے لگ بھگ مزید اضافہ ھو جاتا ھے اس طرح ملا جلا کر 18 سے 20 ھزار روپے مل ھی جاتے ھیں، باقی گھر پر ایک بھائی بھی کچھ نہ کچھ 10 ھزار تک لے ھی آتا ھے، اور ایک بہن بھی کچھ ٹیوشن وغیرہ گھر پر کرلیتی ھے، ان سب کی تمام آمدنی سے گزارا ھو ھی جاتا ھے، مطلب یہ کہ 40 سے 45 ہزار کسی نہ کسی طرح مہینے میں آھی جاتے ھیں، میرے پاس ایک موٹر سائیکل ھے اور بھائی تو بس میں ھی آتا جاتا ھے، بس میں ایک طرف کا کرایہ 10 روپے سے 14 روپے تک کا ھے،!!!!!

    میں تو یہ سن کر حیران ھورھا ھوں کہ جن کی آمدنی زیادہ ھے، تو وہ لوگ کتنا کما رھے ھوں گے، وہاں ھر گھر میں ٹی وی فرج بھی دیکھا ھر دوسرے گھر میں نیٹ اور ٹی وی کیبل بھی لگا ھوا ھے، جس کا کرایہ کم سے کم ماہانہ 500 روپے تو ھوگا ھی، بچے بچے کے پاس موبائل ھے جن کے ایک موبائل کا کم سے کم ایک سو روپے تو ھوگا ھی، اگر گھر میں پانچ بچے ھیں تو ان کا خرچ 500 روپے روز کا ضرور ھوگا،!!!!!

    رات رات بھر لوگوں کو گاڑیوں میں اکیلے بھی اور فیملیوں کے ساتھ بھی گھومتے ھوئے دیکھا گیا کسی کو فکر بھی نہیں ھے، بازاروں میں فوڈ اسٹریٹ پر تو رات کا چٹ پٹے کھانوں اور ائس کریم قلفیوں کیلئے جانا تو ایک فیشن بن چکا ھے اور بچے اپنے والدین کو ضد کرکے لے جارھے ھیں، اور ایک دن میں ھی دو تین ہزار روپے خرچ کرنا تو کوئی بات ھی نہیں ھے، !!!! بازاروں میں شاپنگ کرنے والوں کا پہلے سے زیادہ رش ھے، میں تو ایک سو روپے کا نوٹ خرچ کرنے کیلئے پریشان ھوتا ھوں مگر وہاں تو بچے ایک ھی وقت میں ابا جی سے سو روپے کا نوٹ لے جاکر ھضم کر جاتے ھیں،!!!!! بھیک مانگنے والے تو اب دس روپے سے کم نہیں مانگتے،!!!! ان کی ڈیمانڈ بھی مھنگائی کے ساتھ ساتھ بڑھ گئی ھے، اس دفعہ تو میں نے تو وہاں دس روپے سے کم کا نوٹ بھی نہیں دیکھا،!!!!!!

    میری خود سمجھ میں نہیں آرھا کہ ھم باھر رھنے والے تو ھمیشہ ھی چھٹیاں گزارنے کے بعد مقروض ھوکر واپس آتے ھیں، اور پورا سال قرض اتارنے میں ھی گزارتے ھیں اور پھر سے نئے قرضے لینے کی تیاری میں لگ جاتے ھیں،!!!!!! اور پاکستان جاکر وھاں کے لوگوں کی عیاشیاں دیکھ کر حیران پریشان ھوتے رھتے ھیں،!!!

    ھر دوسرے بندے کے پاس اب تو بنک کے کریڈٹ کارڈ موجود ھیں وہ تو چھوٹی موٹی دکانوں سے خریداری نہیں کرتا اب تو بڑے بڑے شاپنگ سنٹر کھل گئے ھیں، سپر اسٹورز ھیں کہاں لوگ ایک ھی وقت میں 15 ھزار سے 20 ھزار روپے کی شاپنگ بڑی بے فکری سے کررھے ھیں، جانے یہ لوگ کس طرح بنک کے کریڈٹ کارڈز کا بوجھ اتارتے ھونگے، تنخواہ دیکھو تو 20 ھزار روپے ماہانہ سے زیادہ نہیں ھے،!!!!!!!

    معاف کیجئے گا میں نہ جانے کہاں سے کہانی کو لے گیا، آپ بھی کیا سوچ رھے ھونگے، ھاں تو میں کہہ رھا تھا کہ باراتی تقریباً سبھی پہنچ گئے تھے، میں بھی اپنی بیٹی کے ھونے والے سسر صاحب سے محو گفتگو تھا اور انہیں ھر ممکن خوش رکھنے کی کوشش میں لگا ھوا تھا کیونکہ آخر کو میری بیٹی نے ان کے گھر جانا ھے اور میرے سمدھی بھی بننے والے تھے، وہ بہت اچھے ملنسار بھی تھے ان کے دونوں بیٹے بھی ھمارے رشتہ داروں کے ساتھ باتوں میں لگے ھوئے تھے اور ان کی والدہ بھی ھماری والدہ کے ساتھ دنیا اور دینداری کی باتوں میں مشغول نظر آئیں،میں بھی ادھر ادھر سب مہمانوں سے ملتا رھا اور ھمارے بیٹے کے سسر صاحب جو ‌آج بس تھوڑی دیر میں بننے والے تھے ان سے بھی وقتاً فوقتاً خوب گپ شپ جاری رھی، مجھے یس گھما گھمی شور شرابے میں احساس ھو نہیں رھا تھا کیا بول رھا ھوں اور کیا سن رھا ھوں،!!!!!!!

    کچھ دیر میں میجھے بلوایا گیا، شاید بیٹے کے نکاح کے فارم قاضی صاحب پوچھ پوچھ کر بھر رھے تھے، میں وہاں پہنچا تو تقریباً فارم بھرا جاچکا تھا میں نے بھی احتیاطاً ایک نظر فارم پر ڈالی کہ کہیں کوئی غلطی نہ رہ جائے، کوئی شرائط تو تھی نہیں بس 50 ھزار روپے کا مہر لکھنے کیلئے مجھ سے پوچھا گیا جس کی رضامندی میں پہلے ھی دے چکا تھا، اس مہر اور شرائط سے کچھ نہیں ھوتا بس دعاء کرنی چاھئے کہ نوبیہانا جوڑے کو اللٌہ تعالیٰ خوش رکھے اور آپس میں محبت دے،!!!! جب نکاح کے فارم دولہا دلہن کے کوائف اور گواھوں اور وکیل کے نام بھرے جاچکے تو قاضی صاحب نے لڑکی کی رضامندی کیلئے لڑکی کے وکیل کو اندر بھیجا تاکہ دلہن سے اس نکاح کی رضا مندی لے لیں اور ساتھ دستخط بھی،!!!!!!!

    دلہن کو تو ابھی اسٹیج پر نہیں لایا گیا تھا، اسے ایک کمرے میں ھی بٹھائے رکھا تھا تاکہ نکاح کی کاروائی کے بعد ھی اسے وھاں سے لے جایا جائے، وکیل صاحب وہاں پہنچے اور نکاح کی ساری کہانی پڑھنے کے بعد تین دفعہ قبولیت کیلئے زبان سے کہلوایا گیا، جب لڑکی نے ھاں کردی تو بس فوراً ھی دلہن کے دستخط چاروں فارم پر کرواکر وکیل صاحب نے قاضی صاحب کو دے دئے اور پھر سب گواھان اور وکیل کے دستخط کرواکر دولہا میاں کے پاس اسٹیج پر پہنچے اور پھر تمام وھی کہانی دولہے میاں کو دھرانےکے بعد تین دفعہ کہا کہ بتایئے کیا آپکو قبول ھے، دولہا نے کیا کہنا تھا فوراً ھی اقرار کردیا، اور بس قاضی صاحب فوراً کھڑے ھوئے اور دعائیں پڑھیں، بس ھر کیا تھا مبارکباد دینے والوں کی لائن لگ گئی، اور چھواروں کی پڑیا کے ساتھ ٹافیاں اور میٹھی چھالیہ کے چھوٹے چھوٹے پیکٹ بھی لوگوں میں بٹنے لگیں،!!!!!!

    میں بھی لوگوں سے گلے مل کر مبارکبادیاں وصول کررھا تھا سب سے پہلے تو اپنی والدہ کے پاس گیا اور انہوں نے مجھے اپنے سینے سے لگا کر مجھے بہت بہت مبارکباد دی اور ماتھے پر پیار کیا اسی وقت میرا بیٹا جو دولہا بنا ھوا تھا اس نے بھی اپنی دادی کے پاس جاکر ان سے مبارکباد وصول کی اور دعائیں لیں، اور پھر اپنی والدہ اور بھائی بہنوں سے ملا، اسکی والدہ نے بھی اسے گلے لگا کر دعائیں دی اور خوب پیار کیا، مین بھی ساتھ ھی تھا، اس وقت میری اور بیگم کی آنکھوں میں آنسوؤں کی لڑیاں چھلک رھی تھی،!!!!!!

    میں ساتھ ساتھ دلہن والوں کو مبارکباد بھی دے رھا تھا، اسی وقت میں نے اللٌہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس کی مہربانی اور کرم سے ھم اپنی ایک ذمہ داری سے فارغ ھوچکے تھے، بس اب اپنی بیٹی کے نکاح کے بارے میں سوچنے لگا جو کہ چار روز بعد 19 جنوری کو ھونا تھا، مجھے کچھ چکر سے آئے اور میں ایک کرسی پر بیٹھ کر اپنے آپ کو ھوش میں لانے کیلئے کچھ دیر کیلئے اپنی آنکھیں بند کرلی،!!!!!! کسی کو کسی طرف دھیان ھی نھیں تھا ھر طرف شور اور ھنگامہ اور کھانے پینے کی تیاریاں ھو رھی تھیں، ساتھ ھی مووی وغیرہ بھی بنائی جارھی تھیں، جو کہ ایک اب ھر شادی کا ایک مہنگا ترین جز بن چکا ھے، دلہن کو اسٹیج پر دولہا میاں کے ساتھ بٹھایا گیا اور رسومات کا آغاز ھو گیا جو میری بہنیں اور والدہ ھماری بیگم کے ساتھ انجام دے رھی تھیں، اور دوسری طرف کھانے پینے کا آغاز ھو چکا تھا، لیکن مجھ سے ایک دو چمچ کے علاوہ کچھ بھی کھایا نہیں گیا،!!!!!!!
    --------------------------------

    اپنے بیٹے کے نکاح کے وقت، میں لوگوں سے تو محو گفتگو ضرور تھا لیکن نگاھیں اپنی بیٹی کی طرف ھی تھیں، جو اپنے بھائی کے نکاح میں بہت ھی خوش رنگ جھلملاتے ھوئے زرق برق لباس کو لہراتی ھوئی خوش باش اِدھر سے اُدھر تتلی کی طرح اڑتی پھر رھی تھی، اور میں بھی اسے خوش دیکھ کر اپنے دل ھی دل میں بہت خوش ھو رھا تھا، اس نکاح میں اس کے ھونے والے سسرال سے ساس سسر صاحبان اور اسکے ھونے والے دولہاجی اور اسکے جیٹھ جی بھی تشریف لائے تھے جو کہ میرے ساتھ ھی بیٹھے ھوئے تھے علاوہ ھماری بٹیا کی ساس صاحبہ کے، جو ھماری بیگم کے ساتھ ھمارے خاندان کی بڑی عمر رسیدہ عورتوں، لڑکیوں سے مصافحہ اور تعارف حاصل کرنے میں مصروف تھیں، اور وہ آخر تک میری والدہ کے ساتھ ھی بیٹھی ھوئی نظر آئی تھیں،!!!!!!

    میں اپنے ھونے والے داماد جی کو بھی دیکھ رھا تھا کہ وہ بھی بہت ھی تابیعداری اور انکساری کے ساتھ مجھ سے باتوں میں مشغول تھے، خوشی کی بات یہ تھی کہ وہ حافظ قران تھے، اور بی بی اے کیا ھوا تھا ایم بی اے کرنے کی تیاری تھی ساتھ ھی فی الحال وہ ایک میڈیکل فارما کمپنی کے کسی شعبے سے منسلک بھی ھیں، ان کے بڑے بھائی اور والد صاحب بھی بہت ھی خوش اخلاق اور ملنسار ھیں، اور ان کا میں اپنے ھر مبارک دینے کیلئے آنے والے حضرات سے تعارف بھی ساتھ ساتھ کراتا جارھا تھا، جن کا کہ پہلی مرتبہ انہیں دیکھنے کا موقع مل رھا تھا، کھانے میں چائینیز ڈشیں ھی نظر آرھی تھی، اس کے ساتھ چکن کارن سوپ اور ٹھنڈی بوتلیں ساتھ چائے کا بھی انتظام تھا، مجھے بھی میرے داماد جی نے ایک کپ میں کارن سوپ پیش کیا لیکن میں بس دو چار چمچ ھی لے سکا باقی مجھ سے ھمت نہیں ھوئی ھاں شاید چائے کے ایک دو گھونٹ بھی پی ھی لئےتھے، لیکن بالکل دل نہیں چاہ رھا تھا،!!!!!!!!!!

    ان دنوں کھانے پر سرکاری طور سے بالکل پابندی تھی، لیکن پھر بھی لوگ کچھ نہ کچھ پابندیوں کو توڑتے ھوئے انتظام کرھی لیتے تھے اور لوگ یہ بات بھی جانتے تھے، اس کے علاوہ کچھ عقلمند لوگ زیادہ تر اپنے گھر سے خود بھی اور بچوں کے ساتھ کھانا وغیرہ کھا پی کر ھی آتے ھیں، کیونکہ انہیں معلوم ھی تھا کہ اگر کھانے کا انتظام ھوا بھی تو آدھی رات کے بعد تک بھوکا رھنا زیادتی ھوگا، اور بچے تو بھوک میں مزید پریشان کرتے ھیں،!!!!!!

    اور خواتین تو اپنے بچوں کو مرد حضرات کے حوالے کرکے اپنے کپڑوں اور سجاوٹ کو سنبھالنے کیلئے کچھ اپنے آپ کو آزاد بھی رکھنا چاھتی ھیں، جس کی وجہ سے مجبوراً ان تقریبات میں ان کے شوہروں، بھائیوں اور بیٹوں کو ھی اپنے بچوں اور چھوٹے بہن بھائیوں کو بھی سنبھالنا پڑتا ھے، اس طرح انہیں دوسری خواتین کی طرف دیکھنے کا بھی بہت کم موقع ملتا ھے، اور انکی بیگمات بھی مطمئین رھتی ھیں، لیکن اکثر واپسی پر کسی کے بچے کسی اور کے ساتھ انگلی پکڑے نظر آتے ھیں، اور کچھ تو اپنے بچے ڈھونڈتے میں لگے رھتے ھیں، کوئی تو اپنے گود کے بچے کو میز پر ھی سلا کر بھول جاتے ھیں اور سوچتے رھتے ھیں کہ کس میز پر سلایا تھا، اور یہ حقیقت ھے کہ بعض بڑے شہروں میں ایسے موقعوں پر ایسا بھی ھوتا ھے،!!!!!!!!

    ایسی تقریبات میں تو مجھ شریف آدمی کے پاس بھی اکثر لوگ اپنے بچوں کو چھوڑ جاتے ھیں کہ سید بھائی ذرا خیال رکھنا میں بس ابھی آیا،!!!! بس پھر بعد میں مجھے ھی یہ اعلان کروانا پڑتا ھے، کہ یہ بچے کس کے ھیں بھائی ،!!!!!

    لیکن اکثریت خواتین کی ایسی ھے جنہیں کھانے پینے کے شوق سے اتنی دلچسپی نہیں ھوتی جتنی کہ اپنی خوب سے خوب تر رنگ برنگی تیاری میں، جو ھمیشہ انہی تقریبات کے انتظار میں رھتی ھیں کیونکہ انہیں بننے سنورنے دیکھنے دکھانے کا جو موقع ملتا ھے، جو کہ ان کا حق بھی بنتا ھے، اور ان سب زرق برق سجی سجائی خواتین اور لڑکیوں کی وجہ سے ھی ایسی تقریبات میں رونق بھی رھتی ھے،!!!!!!

    بیٹے کا صرف نکاح ھی تھا، رخصتی کیلئے ابھی کچھ طے نہیں ھوا تھا، میں نے تو بیٹے سے کہہ دیا تھا کہ،!!!!! "جیسے ھی تم اپنی بیگم کے ویزے کا بندوبست کرلو گے اسی وقت انشااللٌہ رخصتی بھی ھوجائے گی، اور ساتھ ھی اگر اللٌہ کو منظور ھوا تو تمھاری بہن کی رخصتی بھی کردیں گے،"!!!!!! " یعنی تمھاری بہن کو وداع کردیں گے اور تمھاری بیگم کو لے آئیں گے،!!!!!"

    کھانے پینے کے بعد سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت لیتے ھوئے ھال کی سیڑھیوں سے نیچے اتر رھے رتھے، ساتھ ساتھ میں اپنے لوگوں سے ملتے ھوئے اپنی بیٹی کے 19 جنوری کے روز چار دن بعد نکاح کی دعوت کا دوبارہ سے یاد دہانی بھی کررا رھا تھا، اور گھر جاکر باقاعدہ طور دعوت نہ دے سکنے کی معذرت بھی،!!!!!

    ھماری بہو اور انکے والدین بہن بھائیوں، رشتہ داروں سے بھی واپسی پر ھی نکلتے نکلتے کچھ دیر کیلئے لیکن بہت اچھی خوشگوار ملاقات رھی دلہن تو ھم سے اسی وقت بہت ھی گھل مل گئی تھی لگتا تھا کہ جیسے برسوں سے جان پہچان ھے، وہ سب بھی بہت ھی خندہ پیشانی اور خوش اخلاقی سے پیش آئے، اور باتوں باتوں میں ھم نے بھی ان تمام بہترین انتظامات کا شکریہ ادا کیا، آخر میں جب تمام مہمان جانے لگے تو ساتھ ھی ھم لوگ اپنے بیٹے کو لئے اور اسکی دلہن والے اپنی بیٹی کو ساتھ لئے، تمام فوٹو سیشن اور مووی کی فلمبندی سے فارغ ھوتے ھوئے اپنے اپنے گھر کو روانہ ھونے کی تیاری کرنے لگے، آخر تک ھمارے ساتھ ھماری بیٹی کے چار دن بعد ھونے والے سسر جی اور ساس صاحبہ، اور ھمارے دامادجی، ان کے بھائی صاحب بھی رکے رھے، اور ھم سب کی شادی ھال سے اپنے اپنے گھروں کو واپسی بہت ھی خوش اسلوبی سے انجام پائی، !!!!!!
     
  26. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    دوسرے دن 15 جنوری 2006 کو ھم سب بس نکاح کی مصروفیات کی وجہ سے اتنے تھک چکے تھے کہ کافی دیر بعد نیند سے بیدار ھوئے، کام تو بہت تھے اور وقت بہت کم تھا کیونکہ آج شام کو ھماری بیٹی کے ھونے والی سسرال سے کچھ مہمان نکاح کی باضابطہ تاریخ رکھنے کی رسم ھونے والی تھی جس میں ان کے وہ عزیز اور زشتہ دار فیملیاں بھی شرکت کرنے والی تھیں، جنہوں نے ھماری بیٹی کو اب تک دیکھا نہیں تھا، اس لئے کچھ ھم نے ان سب کیلئے رات کے کھانے کا بھی انتظام کیا ھوا تھا، اللٌہ تعالیٰ ان سب کو خوش رکھیں جنہوں نے ھماری ان تمام تقریبات کے انتظامات کیلئے ھمیں پتہ ھی نہیں چلنے دیا، اور نہ ھی کسی قسم کی پریشانی یا فکر لاحق ھوئی،!!!!!!

    ھمیں تو بس پروگرام بتا دیا جاتا تھا، اور صرف یہی کہا کہ آپ صرف مہمانوں کا استقبال کریں اور مرد حضرات کے ساتھ گپ شپ کریں اور خواتین کا استقبال کرنے کیلئے ھماری بیگم کو ذمہ دار بنا دیا تھا، ساتھ میں ان کی مدد کیلئے ھماری بیٹیاں اور انکی خالایں، سہیلیاں بھی موجود تھیں، اور میرے ساتھ میرے بیٹے، انکے دوست خالو، ماموں بھی ساتھ ساتھ میری مدد کرتے رھے،!!!!!! غرض کہ ھمیں کسی بھی وقت کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ھوئی،!!!!!

    شام کو سب لوگ تمام تیاریاں مکمل کرکے ھم سب بیٹی کے ھونے والے سسرال سے مہمانوں کی آمد کے انتظار میں بیٹھ گئے، اور ڈرائنگ روم میں مرد حضرات کے بیٹھنے کا انتظام کیا تھا اور ساتھ کے بڑے کمرے میں خواتین کا انتظام تھا اور اسکے ساتھ ھی ایک چھوٹے بیڈ روم میں بیٹی کو تیار کیا جارھا تھا، میں بھی کبھی کبھی اندر جاکر اپنی بیٹی کو چھپ کر دیکھ لیتا تھا، مجھے اس بات سے بھی بہت خوشی تھی کہ وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ بہت خوش وخرم نظر آرھی تھی، اسے بھی یہ رشتہ بہت پسند تھا، میں بھی یہی چاھتا تھا کہ اپنی بیٹے بیٹیوں کے شادی کے سلسے میں ان پسند اور نا پسند کو اولین فوقیت دی جائے اور ھماری پسند کے ساتھ ساتھ بچوں کی رضامندی کا احترام بھی بہت ضروری ھے، آج کل کے بچے اب پہلے جیسے نہیں رھے بہت ھی باشعور ھیں، وہ اپنا ھر فیصلہ بہت ھی سوچ سمجھ کر کرتے ھیں جس سے بعد میں والدین کو کسی طرح کی زحمت نہ اٹھانی پڑے،!!!!!!!

    میں بھی ان مہمانوں سے پہلی بار ملنے جارھا تھا، کیونکہ پہلے بس اپنے ھونے والے داماد کے والدین، ماموں اور بھائی سے ھی ملاقات ھوئی تھی، باقی ان کے رشتہ داروں کو تو نہ میں جانتا تھا میرے کوئی بھی رشتہ دار، آج کی شام ان سب سے ملاقات ھونے والی تھی، میں اندرونی طور س اپنے دل ھی دل میں سوچ رھا تھا کہ نہ جانے ان سے ملنے کے بعد ان لوگوں کا کیا رویہ ھو کیسے لوگ ھونگے، اور ھمارے رشتہ داروں کا بھی سلوک ان کے ساتھ کیسا ھو، کیونکہ ھر خاندان میں جب بچوں کے رشتے باھر کئے جاتے ھیں تو بہت سی پیچیدگیاں پیدا ھو جاتی ھیں، اور ساتھ بہت سی ناراضگیاں بھی جنم لیتی ھیں، لیکن میں خود بھی بچوں کے رشتے باھر ھی کرنے کے حق میں ھوں مگر پھر بھی دیکھ بھال کے، رشتہ داروں میں کئے گئے رشتے اکثر میں نے نبھتے ھوئے نہیں دیکھے، آپس کی رشتے داریوں میں بھی دراڑیں پڑگئیں، مگر باھر کے رشتوں میں نبھانے کا زیادہ بہتر تناسب پایا گیا، بشرطیکہ آپ بچوں کو بھی جن کے رشتے ھونے جارھے ھیں انہیں بھی ان فیصلوں میں شامل ھی نہ کریں بلکہ تحقیقات اور نظر ثانی کی بھی اجازت دینی چاھئے، تاکہ وہ اپنے من پسند آئیڈیل کی خواھشات کے مطابق ھی کوئی بہتر فیصلہ اپنے حق میں کرسکیں،!!!!!!!

    ------------------------------
     
  27. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    دوسرے دن 15 جنوری 2006 کو ھم سب بس نکاح کی مصروفیات کی وجہ سے اتنے تھک چکے تھے کہ کافی دیر بعد نیند سے بیدار ھوئے، کام تو بہت تھے اور وقت بہت کم تھا کیونکہ آج شام کو ھماری بیٹی کے ھونے والی سسرال سے کچھ مہمان نکاح کی باضابطہ تاریخ رکھنے کی رسم ھونے والی تھی جس میں ان کے وہ عزیز اور زشتہ دار فیملیاں بھی شرکت کرنے والی تھیں، جنہوں نے ھماری بیٹی کو اب تک دیکھا نہیں تھا، اس لئے کچھ ھم نے ان سب کیلئے رات کے کھانے کا بھی انتظام کیا ھوا تھا، اللٌہ تعالیٰ ان سب کو خوش رکھیں جنہوں نے ھماری ان تمام تقریبات کے انتظامات کیلئے ھمیں پتہ ھی نہیں چلنے دیا، اور نہ ھی کسی قسم کی پریشانی یا فکر لاحق ھوئی،!!!!!!

    ھمیں تو بس پروگرام بتا دیا جاتا تھا، اور صرف یہی کہا کہ آپ صرف مہمانوں کا استقبال کریں اور مرد حضرات کے ساتھ گپ شپ کریں اور خواتین کا استقبال کرنے کیلئے ھماری بیگم کو ذمہ دار بنا دیا تھا، ساتھ میں ان کی مدد کیلئے ھماری بیٹیاں اور انکی خالایں، سہیلیاں بھی موجود تھیں، اور میرے ساتھ میرے بیٹے، انکے دوست خالو، ماموں بھی ساتھ ساتھ میری مدد کرتے رھے،!!!!!! غرض کہ ھمیں کسی بھی وقت کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ھوئی،!!!!!

    شام کو سب لوگ تمام تیاریاں مکمل کرکے ھم سب بیٹی کے ھونے والے سسرال سے مہمانوں کی آمد کے انتظار میں بیٹھ گئے، اور ڈرائنگ روم میں مرد حضرات کے بیٹھنے کا انتظام کیا تھا اور ساتھ کے بڑے کمرے میں خواتین کا انتظام تھا اور اسکے ساتھ ھی ایک چھوٹے بیڈ روم میں بیٹی کو تیار کیا جارھا تھا، میں بھی کبھی کبھی اندر جاکر اپنی بیٹی کو چھپ کر دیکھ لیتا تھا، مجھے اس بات سے بھی بہت خوشی تھی کہ وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ بہت خوش وخرم نظر آرھی تھی، اسے بھی یہ رشتہ بہت پسند تھا، میں بھی یہی چاھتا تھا کہ اپنی بیٹے بیٹیوں کے شادی کے سلسے میں ان پسند اور نا پسند کو اولین فوقیت دی جائے اور ھماری پسند کے ساتھ ساتھ بچوں کی رضامندی کا احترام بھی بہت ضروری ھے، آج کل کے بچے اب پہلے جیسے نہیں رھے بہت ھی باشعور ھیں، وہ اپنا ھر فیصلہ بہت ھی سوچ سمجھ کر کرتے ھیں جس سے بعد میں والدین کو کسی طرح کی زحمت نہ اٹھانی پڑے،!!!!!!!

    میں بھی ان مہمانوں سے پہلی بار ملنے جارھا تھا، کیونکہ پہلے بس اپنے ھونے والے داماد کے والدین، ماموں اور بھائی سے ھی ملاقات ھوئی تھی، باقی ان کے رشتہ داروں کو تو نہ میں جانتا تھا میرے کوئی بھی رشتہ دار، آج کی شام ان سب سے ملاقات ھونے والی تھی، میں اندرونی طور س اپنے دل ھی دل میں سوچ رھا تھا کہ نہ جانے ان سے ملنے کے بعد ان لوگوں کا کیا رویہ ھو کیسے لوگ ھونگے، اور ھمارے رشتہ داروں کا بھی سلوک ان کے ساتھ کیسا ھو، کیونکہ ھر خاندان میں جب بچوں کے رشتے باھر کئے جاتے ھیں تو بہت سی پیچیدگیاں پیدا ھو جاتی ھیں، اور ساتھ بہت سی ناراضگیاں بھی جنم لیتی ھیں، لیکن میں خود بھی بچوں کے رشتے باھر ھی کرنے کے حق میں ھوں مگر پھر بھی دیکھ بھال کے، رشتہ داروں میں کئے گئے رشتے اکثر میں نے نبھتے ھوئے نہیں دیکھے، آپس کی رشتے داریوں میں بھی دراڑیں پڑگئیں، مگر باھر کے رشتوں میں نبھانے کا زیادہ بہتر تناسب پایا گیا، بشرطیکہ آپ بچوں کو بھی جن کے رشتے ھونے جارھے ھیں انہیں بھی ان فیصلوں میں شامل ھی نہ کریں بلکہ تحقیقات اور نظر ثانی کی بھی اجازت دینی چاھئے، تاکہ وہ اپنے من پسند آئیڈیل کی خواھشات کے مطابق ھی کوئی بہتر فیصلہ اپنے حق میں کرسکیں،!!!!!!!

    ------------------------------
     
  28. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    آج موڈ کچھ اداس سا ھے، کیونکہ کل میں اپنے شہر ریاض سے جارھا ھوں، اپنے پرانے ساتھیوں اور دوستوں کو چھوڑ کے کیونکہ میرا تبادلہ جدہ ھو چکا ھے، اور وہاں پر فی الوقت کوئی صحیح ٹھکانہ نہیں ھے، ھوسکتا ھے کہ آپ سب سے بھی کچھ دنوں تک رابطہ نہ ھوسکے،!!!!!!

    مگر خوشی کی بات یہ ھے کہ اپنے بیوی بچوں کو اپنے بھائی کی فیملی سے براستہ القصیم میں ملاتا ھوا مدینہ منورہ پہنچوں گا، جہاں وہ اس مبارک ربیع الاوٌل کے مہینے میں کچھ دنوں تک مسجد نبوی (ص) میں عبادت اور زیارت روضہ مبارک (ص) کی سعادت حاصل کرسکیں گے، اور میں وہاں سے براستہ مکہ مکرمہ عمرہ کرکے اپنے پرانے شہر جدہ میں ڈیوٹی پر حاضر ھوجاؤّں گا،!!!!!

    آپ سب سے دعاؤں کی درخواست ھے، یہ تمام سفر اور عبادات کے دوران میں اللٌہ تعالی خیر خیریت رکھے، آمین،!!!!!

    اللٌہ تعالیٰ جو بھی کوئی فیصلہ کرتا ھے اسی میں کچھ نہ کچھ بہتری ضرور ھوتی ھے، ھمیں ھر حال میں اسکا شکربجا لانا چاھئے،!!!!!!

    خوش رھیں،!!!!!!
     
  29. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    آج موڈ کچھ اداس سا ھے، کیونکہ کل میں اپنے شہر ریاض سے جارھا ھوں، اپنے پرانے ساتھیوں اور دوستوں کو چھوڑ کے کیونکہ میرا تبادلہ جدہ ھو چکا ھے، اور وہاں پر فی الوقت کوئی صحیح ٹھکانہ نہیں ھے، ھوسکتا ھے کہ آپ سب سے بھی کچھ دنوں تک رابطہ نہ ھوسکے،!!!!!!

    مگر خوشی کی بات یہ ھے کہ اپنے بیوی بچوں کو اپنے بھائی کی فیملی سے براستہ القصیم میں ملاتا ھوا مدینہ منورہ پہنچوں گا، جہاں وہ اس مبارک ربیع الاوٌل کے مہینے میں کچھ دنوں تک مسجد نبوی (ص) میں عبادت اور زیارت روضہ مبارک (ص) کی سعادت حاصل کرسکیں گے، اور میں وہاں سے براستہ مکہ مکرمہ عمرہ کرکے اپنے پرانے شہر جدہ میں ڈیوٹی پر حاضر ھوجاؤّں گا،!!!!!

    آپ سب سے دعاؤں کی درخواست ھے، یہ تمام سفر اور عبادات کے دوران میں اللٌہ تعالی خیر خیریت رکھے، آمین،!!!!!

    اللٌہ تعالیٰ جو بھی کوئی فیصلہ کرتا ھے اسی میں کچھ نہ کچھ بہتری ضرور ھوتی ھے، ھمیں ھر حال میں اسکا شکربجا لانا چاھئے،!!!!!!

    خوش رھیں،!!!!!!
     
  30. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    میرے دوستوں، ساتھیوں، بچوں اور بھائی بہنوں،!!!!!!
    السلام علیکم،!!!!!

    آپ سب کی میری اپنی اس کہانی "یادوں کی پٹاری" میں بےانتہا دلچسپی، مجھے آپ سب کے مناظر کی تعداد سے ھی اندازہ ھوجاتا ھے، جس کی تعداد 90 ہزار تک پہنچنے والی ھے،!!!!!
    ابھی میری اس کہانی میں میری بیٹی کے نکاح کا سلسلہ شروع ھورھا ھے، میں نے کئی دفعہ چاھا کہ لکھنا شروع کروں، لیکن مجھ سے لکھا نہ جا سکا، دو لائنیں لکھتا ھوں تو آنکھوں میں ایک آنسوں کا سیلاب ایک دم آجاتا ھے، اور کمپیوٹر کی اسکرین اور کی بورڈ مجھے بالکل دھندلا نظر آنے لگتا ھے، اس وقت بھی میری آنکھوں میں آنسو ھیں لیکن بہت مشکل سے لکھا جارھا ھے،!!!!!!!!!!!!

    حالانکہ میری بیٹی اپنے سسرال میں بہت خوش ھے، اسکے شوھر اسے بہت چاھتے ھیں، اور ساس سسر بھی اسے اپنی بیٹی کی طرح سمجھتے اور بہت چاھتے بھی ھیں کیونکہ ان کی کوئی بیٹی نہیں ھے، صرف ان کے دو بیٹے ھیں جن میں سے چھوٹے بیٹے سے میری بیٹی کی شادی ھوئی ھے، جبکہ بڑے بیٹے اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد شادی کریں گے اور ویسے ان کی بھی بات پکی ھو چکی ھے، میں نے اتنی مختصر فیملی میں آپس میں اتنا پیار کہیں نہیں دیکھا، میری بیٹی کی ساس صاحبہ تو میری بیٹی کو اپنی نظروں سے اوجھل ھونے نہیں دیتی، کیونکہ انکی بہو ان کی بیٹی کے روپ میں مل گئی ھے، پہلے انہوں نے کافی عرصہ گھر میں بالکل اپنے آپ کو تنہا محسوس کیا ھے، اس کی وجہ دونوں بیٹے پڑھائی اور نوکری کے سلسلے میں دن بھر باھر رھتے ھیں، اور انکے شوھر اپنی دکان پر رھتے ھیں اور رات گئے سب ایک جگہ اکھٹے ھوتے ھیں، اس لئے ان کی بہو کے آنے سے ان کے گھر میں رونق آگئی ھے، مہمانوں کا بھی اب خوب آنا جانا رھتا ھے، اور انکی چھوٹی پوتی تو سب گھر والوں کی جان ھے، اور وہ اب دادی بن کر بہت خوش ھیں، بہو کو اپنی بیٹی مانتی ھیں ساتھ انکی پوتی بھی ان کیلئے ایک نعمت سے کم نہیں ھے،!!!!!!!!!!

    واقعی میری بیٹی ھے ھی اسی قابل کہ سب اس سے بہت پیار کرتے ھیں، ھر ایک کا خیال رکھنا، ملنسار، خوش اخلاق اور اللٌہ تعالیٰ نے اس کی گود میں ایک ننھی منی بیٹی دے دی ھے اب تو گھر کے سارے افراد اس ننھی منی بچی "عمارہ" کو گود میں لئے خوب پیار کرتے ھیں، اس گھر کی عمارہ رونق بن چکی ھے،!!!!!!!

    میں اپنی پوری کوشش کروں گا، جیسے ھی میرے حواس درست ھوئے اور لکھتے وقت مجھے کوئی دقت نہ ھوئی تو میں شروع کردوں گا،!!!!!!!!

    مجھے واقعی بیٹی کا احساس اس کی شادی کے بہت زیادہ ھوا، پہلے بھی میں اسے بہت چاھتا تھا، لیکن اسکی شادی کے بعد ایسا لگتا ھے کہ میرا گھر بالکل سونا سونا سا ھو گیا ھے، جبکہ میری دونوں چھوٹی بیٹیاں بھی مجھے بہت چاھتی ھیں میرا بہت خیال رکھتی ھیں، وہ دونوں میری آنکھوں میں آنسو دیکھتی ھیں تو فوراً مجھ سے لپٹ جاتی ھیں اور میرے آنکھوں میں آنسوؤں کو صاف کرنے لگتی ھیں،!!!!! ساتھ ھی بیگم اور میرے دونوں بیٹے بھی اداس ھوجاتے ھیں،!!!!! اور سب مجھے مل کرخوب ھنسانے کی کوشش کرتے ھیں،!!!!!

    آپ سب کو بھی یہ احساس ھوگا، جب آپ کی بیٹیاں بڑی ھوں گی اور پھر جب وہ اتنے لاڈ پیار کے بعد آپ سے رخصت ھوکر اپنے گھر چلی جائیں گی، بہت ھی کٹھن مرحلہ ھے اپنی بیٹی کو رخصت کرنا، میں نے اپنی بہنوں کو بھی اپنے سامنے رخصت ھوتے ھوئے دیکھا ھے، لیکن مجھے اتنا دکھ نہیں ھوا، میں ان کی رخصتی میں قدرتی طور پر اپنے والدین کو روتا ھوا دیکھ کر خود بھی غم زدہ ضرور ھوگیا تھا،!!!! اور بعد میں، خود میں نے اپنے والدین کی اپنی بیٹیوں کے جدا ھونے کے بعد انکی حالت دیکھی ھے،!!!!! جس کا احساس مجھے اب اپنی بیٹی کی رخصتی پر ھوا ھے، کہ بیٹی کی جدائی کیسی ھوتی ھے،!!!!!!!

    اللٌہ تعالیٰ ھر ایک کی بیٹیوں اور بہنوں کو زندگی بھر خوشیاں اور کامرانیاں دکھائے، آمین،!!!!!!!!
     

اس صفحے کو مشتہر کریں