1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ہاں معلوم ہے ۔۔ "ایک آفس بوائے ہوتا."

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از دُعا, ‏23 جولائی 2015۔

موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
  1. دُعا
    آف لائن

    دُعا ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مارچ 2015
    پیغامات:
    5,102
    موصول پسندیدگیاں:
    4,604
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
    ایک آدمی نے ایک بڑی کمپنی میں نوکری کے لیے اپلائی کیا ۔ مالک نے اس سے انٹرویو کیا
    اسے کہا کہ تمہیں. ۔ میں ملازمت دے رہا ہوں۔ مجھے اپنا ای میل ایڈریس دو تاکہ باقی کی
    فارمیلٹی ۔کب کام پر آنا ہے وغیرہ
    وغیرہ اس میں بھیج دوں
    "آدمی نے کہا سر میرے پاس نہ کمپيوٹر ہے اور نہ ہی میرا کوئی ای میل ایڈریس ہے "
    میں معذرت خواہ ہوں یہ نوکری پھر آپکو نہیں مل سکتی ہے ۔ مالک نے جواب دیا..
    وہ آدمی خاموشی سے اٹھا اور وہاں سے نکل آیا..مگر اب وہ سوچ رہا تھا کہ کیا کرے کیونکہ اب اسکے پاس بس 10 ڈالر تھے ۔ اسکے پاس کوئی چارہ نہ بچا تو مارکیٹ گیا اور دس ڈالر سے ٹماٹر خریدے اور گھر،گھر جا کر بیچنے لگا تین گھنٹوں میں اسنے 60 ڈالر کمالیے ۔ تو اسکو لگا کہ میں اس طرح گذارا کرسکتا ہوں ۔ وہ ٹماٹر بیچتا رہا اور اسکو منافع ہوتا رہا ۔ دوکان بنائی، پھر مارکیٹ بناڈالی کوئی پانچ سال کے بعد اسکی مارکیٹ اس علاقے میں سب سے بڑی مارکیٹ بن گی ۔۔
    ایک دن اس نے اپنی فیملی کےلیےلائف انشورنس خریدنے کا سوچا ۔ انشورنس ایجنٹ سے سب طے ہوا آخر میں اس نے کہا، جناب مجھے اپنا ای میل دیں باقی کی تفصیل میں میل کــر دوں گا آدمی نے کہا میرا ای میل نہیں ہے ایجنٹ نے حیران ہوکر کہا ۔۔ سر آپ اتنے کامیاب آدمی ہیں سوچیں اگر ای میل ایڈریس بھی ہوتا تو کتنے کامیاب ہوتے اور کہاں کے کہاں پہنچے ہوتے ؟
    آدمی نے رک کر ذرا پیچھے مڑ کر سوچا اور کہا ہاں معلوم ہے ۔۔ "ایک آفس بوائے ہوتا."
    ياد رکھيے۔ کبھی بھی مایوس نہ ہوں اگر كبهى ایک دروازہ کسی کے لیے نہیں کھلتا تو اسكى جگہ اللّٰہ تعالٰی کئی اور دوسرے دروازے کھول ديتا ہے ، بس انسان اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوئے محنت کرے تو يقيناً كاميابى ضرور ملتى ہے
     
  2. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    اچھی شئیرنگ کا شکریہ
     
    دُعا نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. نظام الدین
    آف لائن

    نظام الدین ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2015
    پیغامات:
    1,981
    موصول پسندیدگیاں:
    2,049
    ملک کا جھنڈا:
    بہت اچھی شیئرنگ ہے ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اب اپنے ای میل ایڈریس کا کیا کریں؟
     
    نوشین فاطمہ عبدالحق اور دُعا .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. دُعا
    آف لائن

    دُعا ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مارچ 2015
    پیغامات:
    5,102
    موصول پسندیدگیاں:
    4,604
    ملک کا جھنڈا:
    بہت شکریہ
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. دُعا
    آف لائن

    دُعا ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مارچ 2015
    پیغامات:
    5,102
    موصول پسندیدگیاں:
    4,604
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ
    بات ای میل ایڈریس کی نہیں ہورہی ۔اس کو غور سے پڑھیں اس میں کہا کیا گیا ہے۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. نظام الدین
    آف لائن

    نظام الدین ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2015
    پیغامات:
    1,981
    موصول پسندیدگیاں:
    2,049
    ملک کا جھنڈا:
    بہت غور سے اور بار بار پڑھا لیکن بونگی ہی لگی۔ پورا واقعہ ایک لطیفہ ہی ہے ۔۔۔ بس آخری پیراگراف میں اللہ پر بھروسہ کرنے کا درس ہے ۔۔۔۔۔۔۔ جو کہ اس لطیفہ سے مطابقت نہیں رکھتا۔
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. دُعا
    آف لائن

    دُعا ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مارچ 2015
    پیغامات:
    5,102
    موصول پسندیدگیاں:
    4,604
    ملک کا جھنڈا:
    پھر تو اپنی اپنی سمجھ کی بات ہے۔
    اگر بونگی لگی تھی تو اچھی شئیرنگ والا کمنٹ کیوں کیا؟
    کمنٹس کا مقصد فارمیلٹی پوری کرنا نہیں ہوتا۔۔
     
  8. نظام الدین
    آف لائن

    نظام الدین ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2015
    پیغامات:
    1,981
    موصول پسندیدگیاں:
    2,049
    ملک کا جھنڈا:
    بونگی اچھی لگی اس لئے کمنٹ کردیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہا ہا
    ۔۔۔۔
    لطیفے سبق آموز نہیں ہوتے ۔۔۔ صرف مزاح کے لئے ہوتے ہیں ۔۔۔ ان سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا جاتا۔۔۔۔۔ گزارش ہے کہ لطیفے کو صرف مزاح کے طور پر لیا جائے نہ کہ کسی سبق حاصل کرنے کے لئے۔۔۔۔۔۔۔
     
    Last edited: ‏23 جولائی 2015
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. دُعا
    آف لائن

    دُعا ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مارچ 2015
    پیغامات:
    5,102
    موصول پسندیدگیاں:
    4,604
    ملک کا جھنڈا:
    چلیں جیسے آپ کو لگے ۔میں کیا کہہ سکتی ہوں۔میں صرف ان تحریروں کو شئیر کرتی ہوں جن میں میرے خیال میں کچھ نا کچھ پوائنٹ ضرور ہوتا ہے سمجھنے کے لیے ۔۔
    ہر انسان اپنی سوچ اور سمجھ کے مطابق ہی کام کرتا ہے۔شکریہ آپ کا۔
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. نظام الدین
    آف لائن

    نظام الدین ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2015
    پیغامات:
    1,981
    موصول پسندیدگیاں:
    2,049
    ملک کا جھنڈا:
    میرے خیال میں اس میں تو ٹیکنالوجی سے دوری کا سبق موجود ہے۔۔۔۔۔۔ بہرحال اچھا مزاح تھا۔۔۔۔ اور اس کو صرف مزاح کے طور پر ہی لیا ہے میں نے۔
     
  11. دُعا
    آف لائن

    دُعا ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مارچ 2015
    پیغامات:
    5,102
    موصول پسندیدگیاں:
    4,604
    ملک کا جھنڈا:
    آپ کو یہ ایک لطیفہ لگ رہا ہے کمال ہے ویسے۔۔۔۔
    میں آپ کو کچھ نہیں کہہ سکتی فی الحال۔جو آپ کو سمجھ آئی وہی ٹھیک ہے اور جو مجھے آئی وہ بھی ٹھیک ہے۔شکریہ آپ کا۔
     
    پاکستانی55 اور نظام الدین .نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    اچھی شیئرنگ ہے۔ مجھے تو حقیقت پر مبنی لگتی ہے۔

    کے ایف سی کے بانی بھی اسی کیفیت سے گزرے ہیں اور آج عالم میں ان کا کاروبار ہے۔

    اس پوسٹنگ میں بہت اہم پیغام پنہاں ہے۔ اور وہ یہ بات ہے کہ ضروری نہیں ہر انسان وہ ٹول استعمال کرتا ہوجو اکثریت کے زیر استعمال ہوں۔ بلکہ اس دنیا میں کامیاب ہونے کے لئے محنت، جذبہ اور لگن چاہیں۔

    مزید برآں جو لوگ اللہ تعالی پر بھروسہ کرکے کسی بھی کام کا آغاز کرتے ہیں اللہ تعالی انھیں ضرور سرفرازی سے نوازتے ہیں۔

    شکریہ میشی ۔۔۔۔۔۔

    آپ کے مثبت روے اور خوش اخلاقی کو سلام۔
     
    ملک بلال اور دُعا .نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. دُعا
    آف لائن

    دُعا ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مارچ 2015
    پیغامات:
    5,102
    موصول پسندیدگیاں:
    4,604
    ملک کا جھنڈا:
    غوری بھائی بتائیں نظام الدین بھائی کو اس میں "بونگی" والی کیا بات ہے
    اتنا اچھا سبق ہے اس میں ۔۔انسان ضروری نہیں کہانیوں قصوں سے سیکھے۔۔
    سیکھنے کے لیے ہم عام سی باتوں یا کسی کے زندگی کا تجربہ ہی کافی ہوتا ہے۔
    اور سب سے بڑا سبق "محنت میں عظمت ہے" بھی ہے اس میں۔اس نے یہ نہیں دیکھا یہ کام کیا ہے ایک چھوٹے سے کام سے شروع کیا اور کہاں تک پہنچا وہ انسان
    رہی بات اس میں ای میل وغیرہ کی تو غوری بھائی نے بالکل صحیح کہا کامیاب ہونے کے لیے محنت کا جذبہ ہونا ضروری ہے۔ضروری نہیں آپ کے پاس ہر وہ ٹول ہو جو سب کے پاس ہیں ۔کامیابی کے لیے صرف محنت ضروری ہوتی ہے اور کچھ نہیں ۔
    دنیا میں بہت سے لوگ ہیں جن کے پاس کوئی ایسی ٹیکنالوجی والی سہولت موجود نہیں مگر پھر وہی لوگ محنت سے دنیا میں کامیاب انسان بن جاتے ہیں۔
    بس اسی وجہ سے میں نے شئیر کیا تھا اس کو۔شکریہ غوری بھائی
    غوری بھائی نظام الدین بھائی
     
    Last edited: ‏24 جولائی 2015
    نظام الدین، ملک بلال اور غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    نظام بھائی آپ نے عید کے پرمسرت موقع پر مزاح کے لئے میشی کی پوسٹ پر تبصرہ کیا ہے اب سچ سچ بھی اپنا کمنٹ دے دیں۔
     
  15. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    اچھی شیئرنگ ہے :)
    انسان اپنی صلاحیتیوں کو پہچان لے اور اپنے زور بازو پر بھروسہ کرے اور باقی سب اللہ پہ چھوڑ دے تو کامیابی یقینا اس کے قدم چومتی ہے۔
     
    دُعا، نظام الدین اور غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  16. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    لطیفوں سے سبق حاصل کریں
    آپ اگر زندگی میں استاد چاہتے ہیں تو آپ کوئی بابا‘ کوئی ٹیچر یا کوئی اتالیق تلاش نہ کریں‘ آپ بازار سے لطیفوں کی کوئی کتاب خریدیں‘ اس کتاب کے پہلے صفحے پر استاد محترم لکھیں اور اس کے بعد اس کتاب کو اپنا استاد مان لیں‘ آپ کو زندگی میں کسی سیانے‘ کسی مشیر کی ضرورت نہیں رہے گی‘ آپ جب بھی کسی مسئلے کا شکار ہوں‘ آپ بس اس کتاب کا مطالعہ شروع کر دیں‘ آپ کو چند صفحات بعد اپنے مسئلے کا حل مل جائے گا‘ یہ میرا تجربہ بھی ہے اور مشاہدہ بھی‘ ہم جن لطائف کو غیر سنجیدہ یا مذاق سمجھتے ہیں یہ دراصل انتہائی سنجیدہ اور فلسفے سے بھرپور ہوتے ہیں‘ آپ کسی لطیفے پر ہنسنے کے بعد اس کا سنجیدگی سے جائزہ لیں‘ آپ کو اس میں دانائی اور سمجھ داری کا کوئی نہ کوئی حیران کن پہلو ملے گا‘ دنیا میں جس طرح مذہب کی کتابوں‘ روحانی دستاویزات اور دانش کے مکتوبات میں نیکی اور خدائی پیغام کو واقعات کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے بالکل اسی طرح معاشرے اپنی دانش لطائف میں چھپا دیتے ہیں‘ لوگ ان لطائف کو ہنسی مذاق کی بات سمجھ کر لوک دانائی کو قہقہوں میں اڑا دیتے ہیں مگر یہ ہنسی مذاق کی باتیں نہیں ہوتیں‘ یہ عملی زندگی کے کامیاب ترین سبق ہوتے ہیں اور آپ اگر زندگی میں دس پندرہ لطیفے پلے باندھ لیں تو آپ کو باقی زندگی کسی قسم کی رہنمائی یا دانش کی ضرورت نہیں رہتی۔
    میں نے برسوں پہلے لطیفہ سنا تھا کوئی صاحب اپنے لان میں دھوتی باندھ کر‘ اوپر شرٹ پہن کر اور گلے میں ٹائی لٹکا کر بیٹھے تھے‘ کسی نے پوچھا آپ نے دھوتی کیوں باندھ رکھی ہے‘ انھوں نے ہنس کر جواب دیا ’’ میں اپنے لان میں بیٹھا ہوں یہاں کس نے آنا ہے‘‘ پوچھنے والے نے پوچھا ’’ لیکن اوپر شرٹ اور ٹائی کیوں پہن رکھی ہے‘‘ انھوں نے جواب دیا ’’ ہو سکتا ہے کوئی آ ہی جائے‘‘ میں نے قہقہہ لگایا اور لطیفے کو پلے باندھ لیا‘ مجھ سے جب بھی کوئی شخص ملاقات کا وقت لیتا ہے تو میں دھوتی کے اوپر ٹائی لگا لیتا ہوں یعنی میں اپنے معمول کے کام جاری رکھتا ہوں کیونکہ مجھے یقین ہوتا ہے‘ یہ شخص اول تو آئے گا نہیں اور اگر آ گیا تو یقینا لیٹ ہو گا اور میرا یہ اندازہ ننانوے فیصد درست نکلتا ہے‘ میں اپنی اسی پالیسی کی وجہ سے ہمیشہ کوفت اور خفت سے بچ جاتا ہوں‘ میرے کام کا ہرج نہیں ہوتا‘ میں اسی طرح کسی سے ملنے جاتا ہوں تو میں احتیاطاً دھوتی ساتھ لے جاتا ہوں یعنی گھر سے وقت گزارنے کا کوئی نہ کوئی بندوبست کرکے نکلتا ہوں‘ کتاب ساتھ لے جاتا ہوں‘ لیپ ٹاپ یا تسبیح ساتھ لے جاتا ہوں یا پھر اپنے دفتر کا کوئی ادھورا کام ساتھ لے جاتا ہوں اور یہ بندوبست نوے فیصد کیسز میں میرے کام آتا ہے‘ میں نے برسوں پہلے باپ اور بیٹے کا وہ لطیفہ پڑھا تھا جس میں وہ دونوں گدھے پر سوار ہوتے ہیں ‘ لوگ اعتراض کرتے ہیں۔
    یہ کتنے ظالم ہیں‘ چھوٹے سے گدھے پر دو لوگوں کا بوجھ ڈال رکھا ہے‘ باپ بیٹے کو گدھے پر بٹھا کر خود پیدل چلنے لگتا ہے تو لوگ بیٹے سے کہتے ہیں‘ جوان ہو کر خود گدھے پر بیٹھا ہے اور بوڑھے باپ کو پیدل چلا رہا ہے‘ بیٹا باپ کو سوار کر دیتا ہے اور خود پیدل چلنے لگتا ہے‘ دیکھنے والے باپ کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں‘ خود گدھے پر بیٹھا ہے اور بیٹے کو پیدل چلا رہا ہے‘ دونوں پیدل چلنے لگتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں کس قدر بے وقوف ہیں‘ سواری ہونے کے باوجود پیدل چل رہے ہیں اور آخر میں دونوں تنگ آ کر گدھے کو کندھوں پر اٹھا لیتے ہیں تو لوگ پاگل ای اوئے‘ پاگل ای وئے کے نعرے لگانے لگتے ہیں‘ میں نے اس لطیفے سے سیکھا‘ دنیا ایک ایسی جج ہے جسے آپ کی کوئی دلیل مطمئن نہیں کر سکتی‘ آپ اگر اچھی زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو آپ دوسروں کی رائے پر توجہ دیے بغیر اپنے راستے میں چلتے رہیں‘ آپ اچھی اور مطمئن زندگی گزاریں گے ورنہ آپ دوسری صورت میں اپنے آپ کو جسٹی فائیڈ کرتے کرتے کھپ جائیں گے‘ میں نے بچپن میں لطیفہ پڑھا‘ ایک شخص ٹرین میں پٹ رہا تھا اور ہر بار پٹتے پٹتے کہتا تھا‘ اپنے باپ کی اولاد ہے تو میرے بیٹے کو مار کر دکھا‘ مارنے والے نے بیٹے کو بھی جڑ دی‘ اس نے کہا اگر تم نسلی ہو تو میری بیوی کو مار کر دکھاؤ‘ اس نے بیوی کو بھی لگا دی۔
    وہ اس طرح خود بھی مار کھاتا رہا اور اپنے پورے خاندان کو بھی پٹواتا رہا‘ مارنے والا مار مار کر تنگ آ گیا تو اس نے پوچھا‘ تم اپنے ساتھ اپنے پورے خاندان کو کیوں پٹوار رہے ہو‘ اس نے جواب دیا تا کہ یہ گھر جا کر یہ نہ کہہ سکیں‘ ابا کو مار پڑی تھی‘ میں نے اس لطیفے سے جانا‘ ہمارے اردگرد بے شمار ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی خفت چھپانے کے لیے اپنے عزیزوں‘ رشتے داروں اور دوستوں کو بھی اپنی ناکامی میں گھسیٹ لیتے ہیں‘ میں نے بے شمار طالب علم دیکھے جو نہ خود پڑھتے تھے اور نہ ہی اپنے کسی دوست کو پڑھنے دیتے تھے‘ میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو خود کام کرتے ہیں اور نہ ہی کسی دوست کو کرنے دیتے ہیں اور میں نے نشے کے شکار زیادہ تر لوگوں کے دوستوں کو بھی نشئی دیکھا‘ کیوں؟ کیونکہ یہ لوگ ’’میرے بچے کو بھی مار‘‘ کی کیٹگری سے تعلق رکھتے ہیں‘ ان کی کوشش ہوتی ہے‘ یہ اگر ناکام ہیں تو ان کے کسی عزیز‘ رشتے دار یا دوست کو بھی کامیاب نہیں ہونا چاہیے تا کہ دوست ان کے بارے میں یہ نہ کہہ سکیں ’’ ابا کو مار پڑی تھی‘‘۔
    میں نے اس طرح طوطے کے لطیفے سے سیکھا‘ انسان کو کبھی اپنی اوقات سے بڑا مسئلہ پیدا نہیں کرنا چاہیے‘ طوطے نے جہاز میں ائیر ہوسٹس کو چھیڑا‘ خاتون ہنس پڑی‘ مسافر نے بھی طوطے کی نقل میں ائیر ہوسٹس کو چھیڑ دیا‘ ائیر ہوسٹس نے مسافر اور طوطے دونوں کو جہاز سے باہر پھینک دیا‘ مسافر نیچے گر رہا تھا تو طوطے نے اس سے پوچھا ’’ کیا تمہیں اڑنا آتا ہے‘‘ مسافر نے جواب دیا ’’ نہیں‘‘ طوطے نے قہقہہ لگا کر کہا ’’ پھر تمہیں ائیر ہوسٹس سے پنگا لینے کی کیا ضرورت تھی‘‘ میں نے گاؤں کے شریف چوہدری سے بھی سبق سیکھا‘ چوہدری صاحب نے دعویٰ کیا‘ گاؤں کے لوگ بہت بدتمیز ہیں مگر یہ میری دل سے عزت کرتے ہیں‘ پوچھنے والے نے پوچھا ’’ لیکن آپ پھر دس دس بندقوں والے ساتھ کیوں رکھتے ہیں‘‘ چوہدری صاحب نے جواب دیا ’’ لوگ ان بندوق والوں کی وجہ سے تو میری دل سے عزت کرتے ہیں‘‘ میں نے اس لطیفے سے سیکھا ‘ہمارے جیسے منافق معاشروں میں عزت کرانے کے لیے صرف شرافت کافی نہیں ہوتی‘ آپ کا مضبوط ہونا بھی ضروری ہوتا ہے اور بچے نے دوسرے بچے سے کہا ‘میرے دادا جی کی زمین اتنی وسیع تھی کہ گھوڑے دوڑتے تھے مگر پوری زندگی دوڑنے کے باوجود زمین کا دوسرا کنارہ نہیں آتا تھا‘ دوسرے بچے نے کہا‘ میرے دادا جی کے پاس اتنی لمبی لاٹھی تھی کہ وہ زمین پر کھڑے ہو کر آسمان کے تارے سیدھے کر لیتے تھے‘ پہلے نے پوچھا لیکن تمہارے دادا جی اتنی بڑی لاٹھی رکھتے کہاں تھے۔
    دوسرے نے جواب دیا‘ تمہارے دادا جی کی زمین پر۔ میں نے اس سے سیکھا‘ آپ کبھی شیخی نہ ماریں کیونکہ آپ اگر اس فیلڈ میں سیر ہیں تو دنیا کی لاٹھی سوا سیر ہے اور آپ دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے‘ آپ حقیقت کی دنیا میں رہیں‘ آپ کبھی مار نہیں کھائیں گے‘ کوے نے بزرگ کوے کو راکٹ دکھایا اور پوچھا ’’ اس کی اسپیڈ اتنی تیز کیوں ہے‘‘ بزرگ کوے نے جواب دیا ’’ بیٹا جس کی دم پر آگ لگی ہو‘ اس کی اسپیڈ اتنی ہی تیز ہوتی ہے‘‘ معلوم ہوا‘ آپ کی دم پر جب تک آگ نہیں لگے گی آپ راکٹ نہیں بنیں گے اور غریب شخص نے مولوی صاحب کو ختم قرآن کی دعوت دی‘ مولوی صاحب نے سائل کی غربت سے اندازہ لگایا‘ یہ ’’فیس‘‘ ادا نہیں کر سکے گا لہٰذا اس نے پڑوس کے محلے کو دور قرار دے دیا‘ دوسرے شہر کے سیٹھ نے بلایا تو مولوی صاحب نے فرمایا ’’ہاں‘ ہاں دس منٹ کی بات ہے‘ میں ابھی پہنچ جاؤں گا‘‘ پتہ چلا کہ اگر انسینٹو ہو تو دوریاں کم ہو جاتی ہیں اور اگر نہ ہو تو قربتیں بھی فاصلوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔
    یہ وہ چند لطائف ہیں جو حقیقت میں ہمارے معاشرے کے استاد ہیں اور ہم ان سے عملی زندگی کے سبق سیکھ سکتے ہیں‘ آپ اب وہ لطیفہ بھی سنیے جو موجودہ حکومت کا فلسفہ ہے اور یہ لوگ دن رات اس پر کاربند نظر آتے ہیں‘ لکھنو کے کسی بانکے کو مار پڑ رہی تھی‘ وہ مار کھاتا تھا‘ اٹھتا تھا اور مارنے والے سے کہتا تھا ’’اب کے مار تو‘‘ مارنے والا ایک اور جڑ دیتا تھا‘ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک مارنے والا تھک نہ گیا اور اس نے مار کھانے والے کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے اور لہو لہان بانکا سینہ تان کر گھر واپس چلا گیا۔


    میشی وش ، غوری اور نظام الدین جی کے لیے خاص طور پر :)
     
    عمر خیام، الکرم، ھارون رشید اور 5 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. رفاقت حیات
    آف لائن

    رفاقت حیات ممبر

    شمولیت:
    ‏14 دسمبر 2014
    پیغامات:
    318
    موصول پسندیدگیاں:
    244
    ملک کا جھنڈا:
    عمدہ
     
    دُعا نے اسے پسند کیا ہے۔
  18. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    واہ جی واہ بہت خوب۔
    آپ نے جو لکھا ہے اس کے لئے ایک علیحدہ لڑی ہونا چاہیے کہ اس موضوع میں کہنے سننے کے لئے بہت ہے۔
    جبکہ میشی نے نہایت سادگی سے ایک سادہ سا خاکہ پیش کیا تھا جس میں پوشیدہ راز انسان کو کامیابیوں کی منازل طے کرواسکتاہے۔
    تاہم میں یہی کہوں گا کہ دوسروں کو سیٹسفائی کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی پنگا لئے بغیر آپ کی کاوشوں کو بآسانی اپریشیئٹ کردے۔ لیکن کچھ شرارت پسند بال کی کھال کے بہت شوقین ہوتے ہیں۔
     
    دُعا نے اسے پسند کیا ہے۔
  19. نوشین فاطمہ عبدالحق
    آف لائن

    نوشین فاطمہ عبدالحق ممبر

    شمولیت:
    ‏11 جولائی 2015
    پیغامات:
    76
    موصول پسندیدگیاں:
    129
    ملک کا جھنڈا:
    سوچنے والی بات ہے سر ! :soch:
     
    دُعا اور نظام الدین .نے اسے پسند کیا ہے۔
  20. نوشین فاطمہ عبدالحق
    آف لائن

    نوشین فاطمہ عبدالحق ممبر

    شمولیت:
    ‏11 جولائی 2015
    پیغامات:
    76
    موصول پسندیدگیاں:
    129
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوبصورت شئیرنگ ۔ تھینک یو !
    ہمارے ایک استاد کہا کرتے تھے "اگر کامیابی چاہتے ہو تو آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ جس چیز کو دنیا چھوڑ دے تم اسے پکڑ لو ۔ نایاب ہونے کی وجہ سے اس کی قدر و قیمت بڑھ جایا کرتی ہے "
     
    دُعا, غوری, ملک بلال اور مزید ایک رکن نے اسے پسند کیا ہے۔
  21. نظام الدین
    آف لائن

    نظام الدین ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2015
    پیغامات:
    1,981
    موصول پسندیدگیاں:
    2,049
    ملک کا جھنڈا:
    کیا بات ہے جناب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زبردست۔۔۔۔ واقعی آپ نے قائل کردیا ہم کو۔۔۔۔۔ بہت عمدہ
     
    دُعا اور ملک بلال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  22. نظام الدین
    آف لائن

    نظام الدین ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2015
    پیغامات:
    1,981
    موصول پسندیدگیاں:
    2,049
    ملک کا جھنڈا:
    غوری بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔۔ بس بات کچھ ہضم نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔۔ ورنہ میشی وش سسٹر کی پوسٹس یقینآ بہت عمدہ اور قابل تحسین ہوتی ہیں۔
     
    دُعا اور غوری .نے اسے پسند کیا ہے۔
  23. نظام الدین
    آف لائن

    نظام الدین ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2015
    پیغامات:
    1,981
    موصول پسندیدگیاں:
    2,049
    ملک کا جھنڈا:
    محنت میں عظمت ہے، یہ جملہ ہمیں بچپن سے سننے کو ملتا ہے۔ نصابی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ لیکن شاید اب عظمت حاصل کرنے کے خواہشمند ہی ہمارے معاشرے میں ناپید ہو رہے ہیں یا ہم نے نصیحتوں کو صرف سننے سنانے اور پڑھنے پڑھانے کی چیزیں سمجھ لیا ہے۔ عملی طور پر تو ہم ان نصیحتوں سے بہت دور ہیں، جنکا ڈھنڈورا پیٹتے ہماری زبان نہیں تھکتی۔ محنت دین کا شعار تھی جبکہ آج کام چوری ہماری پہچان بن چکی ہے۔ چنانچہ جب ہم محنت سے کام کرنا بھولے تو سر بلندی ہم سے روٹھ گئی، دنیا کی امامت ان لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی جو محنت کر رہے تھے۔ ہم مغلوب ہوگئے ، ذلت و رسوائی ہمارا مقدر بن گئی، آج جب ہم غیروں سے اپنا موازنہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے محنت کو اپنا شعار بنایا۔ ترقی یافتہ دنیا میں ایک عام مزدور سے لے کر اعلیٰ ترین افسران تک اور یہاں تک کہ حکمرانوں تک سب ہی ہارڈورکر ہیں۔ سخت محنت کرنے والے ہیں، صرف اپنی ملازمت میں محنت نہیں کرتے بلکہ اپنے گھروں میں بھی محنت کرتے ہیں۔ ذاتی ملازمین رکھ کر عیش کی زندگی بسر نہیں کرتے۔ ان کے ہاں نہ بلا عذر چھٹی کا تصور ہے اور نہ کاموں پر لیٹ آنے کا، کام کے اوقات بھی گپیں لگا کر ضائع نہیں کرتے ان اوقات کو محنت کے ذریعے پوری طرح استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جسمانی اور ذہنی طور پر فٹ رہتے ہیں۔ بیماریاں بھی ہمارے مقابلے میں کم کم ہی ان کے قریب آتی ہیں۔ برعکس طور پر ہماری صورتحال یہ ہے کہ ہم مجموعی طور پر سست، کاہل اور کام چور ہو چکے ہیں، کام سے بھاگنے کے بہانے ڈھوڈنڈتے ہیں۔ بلا عذر چھٹیاں کرنے کا رواج بھی ہے، کام پر جاتے بھی ہیں تو چار و ناچار۔ اسی لیے کاموں پر دیر سے آنا ہماری پہچان ہے۔ چند منٹوں کی تاخیر تو ہمارے ہاں کوئی معنی ہی نہیں رکھتی۔ بے دلی کے ساتھ جب کام پر پہنچتے ہیں تو کام کے اوقات میں بھی اپنے کام کے ساتھ انصاف نہیں کرتے۔ بلکہ المیہ یہ ہے کہ جو شخص محنت سے ایسا کام کر رہا ہوتا ہے اسے بیوقوف سمجھتے ہیں۔ اب ایسی صورت میں کام کا معیار کیا ہوگا؟ اور پھر ایسی صورت میں ہمارے افراد اپنے اپنے شعبے میں کیسے کمال اور عظمت حاصل کر سکتے ہیں؟ ظاہر ہے محنت کے بغیر یہ سب کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ ہمارے ہاں ایک غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے، عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ''یار ہمارے ہاں محنت کی قدر ہی نہیں ہے میں نے بڑی محنت کر کے دیکھا ہے''۔ یہ بالکل غلط بات ہے، محنت اپنی قدر خود کرواتی ہے ۔
     
  24. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    پیارے بھائی آپ جیسا بھلا مانس کیسے میری نظر سے اوجھل رہ سکتا ہے مجھے یقین تھا کہ آپ ایسے نہیں ہیں مگر کہیں نہ کہیں کچھ گڑبڑ ہوگئی اور الحمد للہ اب اس کا احساس بھی ہوگیا۔

    آپ کی پوسٹس قابل تحسین ہونے کے ساتھ ساتھ کھانے کے آخر میں شامل ڈیزرٹس کی طرح شیریں ہوتی ہیں۔

    خوش رہیے۔
     
    دُعا اور نظام الدین .نے اسے پسند کیا ہے۔
  25. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    بھائی اتنی اچھی تحریر کے لئے علیحدہ سے ایک لڑی بنائیں تاکہ سبھی لوگ اس سے مستفیذ ہوسکیں۔

    سبحان اللہ

     
    ھارون رشید، دُعا اور نظام الدین نے اسے پسند کیا ہے۔
  26. دُعا
    آف لائن

    دُعا ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مارچ 2015
    پیغامات:
    5,102
    موصول پسندیدگیاں:
    4,604
    ملک کا جھنڈا:
    واہ جی کیا کمال کا لکھا ہے سر جی ۔۔زبردست امیزنگ
    سیکھنے کے لیے دیوار پر لکھا ہوا ایک فقرہ ہی انسان کو بدل دیتا ہے ۔پھر یہ لطیفے ہنسی مزاح کی تحریریں واقعی قابل غور باتیں ہیں۔سوچنے سمجھنے کے لیے ایک نیا رخ فراہم کیا آپ نے سر جی۔واقعی کبھی اس حد تک غور نہیں کیا۔بہت اچھے انداز میں قائل کیا آپ نے سر جی۔آپ کا شکریہ
    سر جی زندہ باد:)
     
    غوری، نوشین فاطمہ عبدالحق اور ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  27. دُعا
    آف لائن

    دُعا ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مارچ 2015
    پیغامات:
    5,102
    موصول پسندیدگیاں:
    4,604
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ بھائی۔مجھے سمجھ آگئی تھی آپ اس کو صحیح انداز میں سمجھ نہیں پائے۔سر جی نے زبردست انداز میں سمجھایا ہے ۔
    اور حوصلہ افزائی کے لیے آپ کا بھی بہت شکریہ
     
    نظام الدین، غوری اور نوشین فاطمہ عبدالحق نے اسے پسند کیا ہے۔
  28. دُعا
    آف لائن

    دُعا ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مارچ 2015
    پیغامات:
    5,102
    موصول پسندیدگیاں:
    4,604
    ملک کا جھنڈا:
    آپ کا بھی بہت شکریہ سسٹر
    جی بالکل
    میرے خیال میں یہ ایک بہترین طریقہ ہے کامیابی حاصل کرنے کا۔
    خوش رہیئے
    :)
     
    غوری اور نوشین فاطمہ عبدالحق .نے اسے پسند کیا ہے۔
  29. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    ملک بلال صاحب کی صلاحیات شادی کے بعد نکھر آئی ہیں [​IMG]
     
    نظام الدین, غوری, ملک بلال اور مزید ایک رکن نے اسے پسند کیا ہے۔
  30. دُعا
    آف لائن

    دُعا ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مارچ 2015
    پیغامات:
    5,102
    موصول پسندیدگیاں:
    4,604
    ملک کا جھنڈا:
    ہااہاہاہاہااہا
    چھکا۔۔۔:p
     
    غوری، ملک بلال اور ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  31. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    یہ میں نے نہیں لکھا :)
    یہ جاوید چوہدری کا ایک پرانا کالم تھا۔ موضوع کی مناسبت سے ذہن میں آیا تو نیٹ سے ڈھونڈ کر ادھر شیئر کر دیا:)
    لیکن واقعی اس میں سوچنے کا ایک نیا رخ دکھایا گیا ہے۔
     
    الکرم اور نوشین فاطمہ عبدالحق .نے اسے پسند کیا ہے۔
موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اس صفحے کو مشتہر کریں