1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پسندیدہ غزلیات، نظمیات

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از عبدالجبار, ‏21 نومبر 2006۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    میں شاخ سے اڑا تھا ستاروں کی آس میں
    مرجھا کے آ گرا ہوں مگر سرد گھاس میں

    سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح
    دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں

    صحرا کی بود و باش ہے اچھی نہ کیوں لگے
    سوکھی ہوئی گلاب کی ٹہنی گلاس میں

    چمکے نہیں نظر میں ابھی نقش دور کے
    مصروف ہوں ابھی عملِ انعکاس میں


    تارہ کوئی ردائے شبِ ابر میں نہ تھا
    بیٹھا تھا میں اداس بیابانِ یاس میں

    جوئے روانِ دشت! ابھی سوکھنا نہیں
    ساون ہے دور اور وہی شدت ہے پیاس میں


    کانٹوں کی باڑ پھاند گیا تھا مگر شکیب
    رستہ نہ مل سکا مجھے پھولوں کی باس میں

    شکیب جلالی​
     
    پاکستانی55 اور سلطان مہربان .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    حصارِ ذات سے نکلوں تو تجھ سے بات کروں
    تری صفات کو سمجھوں تو تجھ سے بات کروں

    تو کوہسار میں، وادی میں، دشت و صحرا میں
    میں تجھ کو ڈھونڈ نکالوں تو تجھ سے بات کروں!

    تو شاخ شاخ پہ بیٹھا ہے، پھول کی صورت،
    میں خار خار سے اُلجھوں تو تجھ سے بات کروں!

    ترے اشاروں سے بڑھ کر ترا بیاں مبہم
    میں تیری بات کو سمجھوں تو تجھ سے بات کروں!

    تو اتنا دور کہ پہچاننا بھی مشکل ہے
    تجھے قریب سے دیکھوں تو تجھ سے بات کروں!

    جھجک جھجک کے اگر ہو تو بات بات نہیں!
    میں تیری آنکھ میں‌ جھانکوں تو تجھ سے بات کروں!

    تو میرا دوست ہے، دشمن ہے یا کہ کچھ بھی نہیں؟
    میں تیرے دل کو ٹٹولوں‌ تو تجھ سے بات کروں

    مری خموش لبی پر شکائتیں کیسی؟
    میں اپنے آپ سے بولوں تو تجھ سے بات کروں

    یہ وہ مقام ہے، یا میں ہوں یا مری خلوت
    میں اس مقام سے گزروں تو تجھ سے بات کروں

    یہ موج موج تلاطم، یہ ڈوبنا میرا
    میں اتفاق سے ابھروں تو تجھ سے بات کروں!

    زبانِ قیس پہ ہر وقت تیری باتیں ہیں
    زبانِ قیس جو سیکھوں تو تجھ سے بات کروں
     
    پاکستانی55 اور سلطان مہربان .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    سلسلہ در سلسلہ

    دما دم، زندگی کے دامنوں کی
    پرانی بیل، ادھڑتی جارہی ہے

    مگر وقتِ رواں کی سوزنوں سے
    نئی اِک شال کڑھتی جارہی ہے

    پرانی ڈھولکوں پر، زندگانی
    نئی اک کھال مڑھتی جارہی ہے

    شب، آخر ہوچکی ہے، پھر بھی گیتی
    نئے افسانے گڑھتی جارہی ہے

    انوکھے مدرسوں کی سمت ہستی
    بیاض تازہ پڑھتی جارہی ہے

    رُو پہلی چاندنی چھِٹکی ہے، پھر بھی
    سنہری دھوپ چڑھتی جارہی ہے

    مسافر، صبح سے جولاں ہے، پھر بھی
    مَسافت ہے کہ بڑھتی جارہی ہے

    جوش ملیح آبادی
     
    نعیم اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    شب، آخر ہوچکی ہے، پھر بھی گیتی
    نئے افسانے گڑھتی جارہی ہے
    ۔۔۔۔
    مسافر، صبح سے جولاں ہے، پھر بھی
    مَسافت ہے کہ بڑھتی جارہی ہے

    بہت اعلی ۔ @محبوب خان بھائی ۔ عمدہ انتخاب
     
    محبوب خان نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا، سبھی راحتیں سبھی کلفتیں
    کبھی صحبتیں، کبھی فرقتیں، کبھی دوریاں کبھی قربتیں

    یہ سخن جو ہم نے رقم کیے یہ ہیں ورق سب تیری یاد کے
    کوئی لمحہ صبحِ وصال کا ، کوئی شامِ ہجر کی مدتیں

    جو تمھاری مان لیں ناصحا ! تو رہے گا دامنِ دل میں کیا
    نہ کسی عدو کی عدوتیں، نہ کسی صنم کی مروتیں

    چلو آؤ تم کو دکھائیں ہم جو بچا ہے مقتلِ شہر میں
    یہ مزار اہلِ صفا کے ہیں، یہ ہیں اہلِ صدق کی تربتیں

    میری جان آج کا غم نہ کر، کہ نہ جانے کاتبِ وقت نے
    کسی اپنے کل میں بھی بھول کر کہیں لکھ رکھی ہوں مسرتیں

    فیض
     
    محبوب خان نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    بہت ہی زبردست ۔۔۔۔نعیم بھائی۔
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]
    جنگل کی شاہزادی
    جوش ملیح آبادی

    * * * *
    ست ہے جو دل میں، وہ تیر کھینچتا ہوں
    اک ریل کے سفر کی تصویر کھینچتا ہوں
    گاڑی میں گنگناتا مسرور جا رہا تھا
    اجمیر کی طرف سے جے پور جا رہا تھا
    تیزی سے جنگلوں میں یوں ریل جا رہی تھی
    لیلیٰ ستار اپنا گویا بجا رہی تھی
    خورشید چھپ رہا تھا رنگیں پہاڑیوں میں
    طاؤس پر سمیٹے بیٹھے تھے جھاڑیوں میں
    کچھ دُور پر تھا پانی، موجیں رکی ہوئی تھیں
    تالاب کے کنارے شاخیں جھکی ہوئی تھیں
    لہروں میں کوئی جیسے دل کو ڈبو رہا تھا
    میں سو رہا ہوں، ایسا محسوس ہو رہا تھا
    اک موجِ کیف پرور دل سے گزر رہی تھی
    ہر چیز دلبری سے یوں رقص کر رہی تھی
    تھیں رخصتی کرن سے سب وادیاں سنہری
    ناگاہ چلتے چلتے جنگل میں ریل ٹھہری
    کانٹوں پہ خوبصورت اک بانسری پڑی ہے
    دیکھا کہ ایک لڑکی میدان میں کھڑی ہے
    زاہد فریب، گل رخ، کافر، دراز مژگاں
    سیمیں بدن، پری رخ، نوخیز، حشر ساماں
    خوش چشم، خوبصورت، خوش وضع، ماہ پیکر
    نازک بدن، شکر لب، شیریں ادا، فسوں گر
    کافر ادا، شگفتہ، گل پیرہن، سمن بُو
    سروِ چمن، سہی قد، رنگیں جمال، خوش رو
    گیسو کمند، مہ وش، کافور فام، قاتل
    نظارہ سوز، دلکش، سرمست، شمعِ محفل
    ابرو ہلال، مے گوں، جاں بخش، روح پرور
    نسریں بدن، پری رخ، سیمیں عذار، دلبر
    آہو نگاہ، نورس، گلگوں، بہشت سیما
    یاقوت لب، صدف گوں، شیریں، بلند بالا
    غارت گرِ تحمل، دل سوز، دشمنِ جاں
    پروردۂ مناظر، دوشیزۂ بیاباں
    گلشن فروغ، کمسن، مخمور، ماہ پارا
    "دلبر کہ در کفِ اُو موم است سنگِ خارا"
    ہر بات ایک افسوں ہر سانس ایک جادو
    قدسی فریب مژگاں، یزداں شکار گیسو
    صحرا کی زیب و زینت، فطرت کی نورِ دیدہ
    برسات کے ملائم تاروں کی آفریدہ
    چہرے پہ رنگِ تمکیں، آنکھوں میں بے قراری
    ایمائے سینہ کوبی، فرمانِ بادہ خواری
    لوہا تپانے والی جلووں کی ضوفشانی
    سکّے بٹھانی والی اٹھتی ہوئی جوانی
    ڈوبے ہوئے سب اعضا حُسنِ مناسبت میں
    پالی ہوئی گلوں کے آغوشِ تربیت میں
    حُسنِ ازل ہے غلطاں شاداب پنکھڑی میں
    یا جان پڑ گئی ہے جنگل کی تازگی میں
    حوریں ہزار دل سے قربان ہو گئی ہیں
    رنگینیاں سمٹ کر 'انسان' ہو گئی ہیں
    چینِ ستمگری سے ناآشنا جبیں ہے
    میں کون ہوں؟ یہ اُس کو معلوم ہی نہیں ہے
    ہر چیز پر نگاہیں حیرت سے ڈالتی ہے
    رہ رہ کے اڑنے والی چادر سنبھالتی ہے
    آنچل سنبھالنے میں یوں بل سے کھا رہی ہے
    گویا ٹھہر ٹھہر کر انگڑائی آ رہی ہے
    کچھ دیر تک تو میں نے اُس کو بغور دیکھا
    غش کھا رہی تھی عقبیٰ، چکرا رہی تھی دنیا
    گاڑی سے پھر اتر کر اُس کے قریب آیا
    طوفانِ بے خودی میں پھر یہ زباں سے نکلا
    اے درسِ آدمیّت، اے شاعری کی جنت
    اے صانعِ ازل کی نازک ترین صنعت
    اے روحِ صنفِ نازک، اے شمعِ بزمِ عالم
    اے صبحِ روئے خنداں، اے شامِ زلفِ برہم
    اے تُو کہ تیری نازک ہستی میں کام آئی
    قدرت کی انتہائی تخئیلِ دلربائی
    بستی میں تُو جو آئے، اک حشر سا بپا ہو
    آبادیوں میں ہلچل، شہروں میں غلغلہ ہو
    رندانِ بادہ کش کے ہاتوں سے جام چھوٹیں
    تسبیحِ شیخ الجھے، توبہ کے عزم ٹوٹیں
    نظروں سے اتِّقا کے رسم و رواج اتریں
    زہّاد کے عمامے، شاہوں کے تاج اتریں
    آنکھیں ہوں اشک افشاں، نالے شرر فشاں ہوں
    کیا کیا نہ شاعروں کے ملبوس دھجیاں ہوں
    شہروں کے مہ وشوں پر اک آسمان ٹوٹے
    پروردۂ تمدن عشووں کی نبض چھوٹے
    اس سادگی کے آگے نکلیں دلوں سے آہیں
    جھک جائیں دلبروں کی خود ساختہ نگاہیں
    تیری ادا کے آگے شرما کے منہ چھپائیں
    ناپے ہوئے کرشمے، تولی ہوئی ادائیں
    تیری نظر کی رَو سے ہو جائیں خستہ و گم
    مشق و مزاولت کے پالے ہوئے تبسم
    امن و اماں کے رخ کو بے آب و رنگ کر دے
    دنیا کو حسن تیرا میدانِ جنگ کر دے
    کتنی ہی قسمتوں کے بدلے فلک نوشتے
    خوں اور دوستی کے کٹ جائیں کتنے رشتے
    تصنیف ہوں ہزاروں چبھتے ہوئے فسانے
    اِن انکھڑیوں کی زد پر کانپیں شراب خانے
    تیرے پجاریوں میں میرا بھی نام ہوتا
    اے کاش جنگلوں میں میرا قیام ہوتا
    یہ بَن، یہ گل، یہ چشمے، مجھ سے قریب ہوتے
    شاعر کے زیرِ فرماں یہ سب رقیب ہوتے
    کیوں، میری گفتگو سے حیرت فروش کیوں ہے؟
    اے زمزموں کی دیوی اتنی خموش کیوں ہے؟
    بجنے لگیں وفا کی محفل میں شادیانے
    ہاں دے لبوں کو جنبش، اے سرمدی ترانے
    یوں چپ ہے، مجھ سے گویا کچھ کام ہی نہیں ہے
    یہ وہ ادا ہے جس کا کچھ نام ہی نہیں ہے
    سننا تھا یہ کہ ظالم اِس طرح مسکرائی
    فریاد کی نظر نے، ارماں نے دی دُہائی
    عشوہ، جبیں پہ لے کر دل کی امنگ آیا
    چہرے پہ خون دوڑا، آنکھوں میں رنگ آیا
    شرما کے آنکھ اٹھائی، زلفوں پہ ہات پھیرا
    اتنے میں رفتہ رفتہ چھانے لگا اندھیرا
    چمکا دیا حیا نے ہر نقشِ دلبری کو
    دانتوں میں یوں دبایا چاندی کی آرسی کو
    سُن کر مری مچلتی آنکھوں کی داستانیں
    اُس کی نگاہ میں بھی غلطاں ہوئی زبانیں
    شرما کے پھر دوبارہ زلفوں پہ ہات پھیرا
    دیکھا تو چھا چکا تھا میدان پر اندھیرا
    کچھ جسم کو چُرایا، کچھ سانس کو سنبھالا
    کاندھے پہ نرم آنچل انگڑائی لے کے ڈالا
    تاریک کر کے، میری آنکھوں میں اک زمانہ
    جنگل سے سر جھکا کر ہونے لگی روانہ
    ہونے لگی روانہ، ارماں نے سر جھکایا
    دل کی مثال کانپا رہ رہ کے بن کا سایا
    بے ہوش ہو چلا میں، سینے سے آہ نکلی
    اتنے میں رات لے کر قندیلِ ماہ نکلی
    مڑ کر جو میں نے دیکھا، امید مر چکی تھی
    پٹری چمک رہی تھی، گاڑی گزر چکی تھی


    جوش ملیح آبادی
     
    محبوب خان اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب۔۔۔غوری بھائی۔۔۔۔۔جوش صاحب اسلام آباد میں ابدی نیند سورہے ہیں۔۔۔کئی دفعہ تربت پر فاتحہ پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے۔۔۔۔۔وہیں پر ہی قدرت اللہ شہاب۔۔۔۔پروین شاکر۔۔۔۔ممتاز مفتی۔۔۔۔۔فراز احمد فراز۔۔۔۔۔مولانا کوثر نیازی۔۔۔۔۔۔اور دیگر کی آخری آرام گاہ ہے۔۔۔۔۔۔سو فاتحہ پڑھنے کا اتفاق ہوتا رہتا ہے۔۔۔۔۔ویسے جوش صاحب کی آب بیتی بھی یادوں کی برات بھی خوب ہے۔۔۔۔بلکہ کچھ زیادہ ہی دلیرانہ ہے۔
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں

    اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
    اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

    اب تو اُس کی آنکھوں کے میکدے میّسر ہیں
    پھر سکون ڈھونڈو گے ساغروں میں جاموں میں

    دوستی کا دعویٰ کیا عاشقی سے کیا مطلب
    میں ترے فقیروں میں، میں ترے غلاموں میں

    جس طرح شعیب اس کا نام چُن لیا تم نے
    اس نے بھی ہے چُن رکھا ایک نام ناموں میں


    شعیب بن عزیز
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. کاکا سپاہی
    آف لائن

    کاکا سپاہی ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2007
    پیغامات:
    3,796
    موصول پسندیدگیاں:
    596
    ملک کا جھنڈا:

    خود اپنے لئے بیٹھہ کے سوچیں گے کسی دن
    وہ یوں ہے تجھے بھول کے دیکھیں گے کسی دن

    بھٹکے ہوے پھرتے ہیں کئی لفظ جو دل میں
    دنیا نے دیا وقت تو لکھیں گے کسی دن

    ہِل جایئں گے اک بار تو عرشوں کے در و بام
    یہ خاک نشین لوگ جو بولیں گے کسی دن

    اے جان تیری یاد کے بے نام پرندے
    شاخوں پی میری درد کے بیٹھیں گے کسی دن

    جاتی ہے کسی جھیل کی گہرائی کہاں تک
    آنکھوں میں تیری ڈوب کے دیکھیں گی کسی دن

    سویں گے تیری آنکھہ کی خلوت میں کسی شام
    سے میں تیری زلف کے بٹھیں گے کسی دن

    خوشبو سے بھری شام میں جگنو کے قلم سے
    اک نظم تیرے واسطے لکھیں گے کسی دن
    L
     
    غوری اور محبوب خان .نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    بہت اچھے بھائی منور چشتی ۔۔۔۔بہت ہی اچھے رہے آپ۔

    اور کیا خوب ہے کہ:

    جاتی ہے کسی جھیل کی گہرائی کہاں تک
    آنکھوں میں تیری ڈوب کے دیکھیں گی کسی دن
     
  12. کاکا سپاہی
    آف لائن

    کاکا سپاہی ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2007
    پیغامات:
    3,796
    موصول پسندیدگیاں:
    596
    ملک کا جھنڈا:
    کل جو دریا نے چپ کا لبادہ پہن لیا
    پیاسوں نے اپنے جسم پر صحرا پہن لیا

    فاقوں سے تنگ آئے تو پوشاک پہن لی
    عریاں ہوئے تو شب کا اندھیرا پہن لیا

    گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے
    سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا

    بھانچال میں کفن کی ضرورت نہیں پڑی
    ہر لاش نے مکان کا ملبہ پہن لیا

    بیدل لباس دید بڑا دیدہ زیب تھا
    اور ہم نے اس لباس کو الٹا پہن لیا
     
  13. حنظلہ رضا
    آف لائن

    حنظلہ رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مئی 2014
    پیغامات:
    14
    موصول پسندیدگیاں:
    13
    ملک کا جھنڈا:
    میری پسندیدہ ترین غزلوں میں سے ایک نہایت منفرد اور عمدہ غزل ، آپکی آراء و داد کا انتظار رہیگا !!

    راضی ہوں ،تجھ کو حال سنائے بغیر بھی !
    تو جانتا ہے میرے بتائے بغیر بھی !

    پھولوں کو چومتا ہوں کہ رہتا ہے کوئی تو !
    مٹی کو اشتعال دلائے بغیر بھی !!

    پھر میں اسے خدا نہ کہوں ،اور کیا کہوں ؟؟؟
    جو سامنے ہو ،سامنے آئے بغیر بھی !!

    ہوتا نہ میں ،تو کون بھلا جانتا کہ ہاں !!
    اٹھتا ہے بار - ہجر ،اٹھائے بغیر بھی ..!!

    زندہ ہی جانتا ہے مجھے وہ ،تو کیا غلط ؟؟؟
    مرتا ہے کوئی جان سے جائے بغیر بھی ؟؟

    تو کر نہیں سکا ،یہ الگ بات ،ورنہ دوست !
    بنتا ہے نقش ،نقش بنائے بغیر بھی !!

    غالب سے اختلاف نہیں ہے، مگر یہ آگ
    مجھ کو تو لگ گئی ہے ،لگائے بغیر بھی

    صاحب ! نیاز مند - محبّت ہوں ،اس لئے !!
    آتا ہوں تیرے پاس ،بلائے بغیر بھی !!

    بالکل ہی بے وفا نہیں ،یعنی کبھی کبھی ..!
    ملتا تو ہے مجھے وہ ،ستائے بغیر بھی !!

    ہر دو طرح سے ٹھیک ہے دل کا معاملہ !!
    دیکھے بغیر بھی ہے ،دکھائے بغیر بھی ..!!

    کم سن ہوں ،کم سخن تو نہیں ہوں میں صاحبو !!
    رکھتا ہوں فہم ،تم کو جتائے بغیر بھی
     
  14. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    (علامہ ڈاکٹر محمد اقبال)

    پھر بادِ بہار آئی ، اقبال غزل خواں ہو
    غنچہ ہے اگر گل ہو ، گل ہے تو گلستاں ہو
    تو خاک کی مٹھی ہے ، اجزا کی حرارت سے
    برہم ہو، پریشاں ہو ، وسعت میں بیاباں ہو
    تو جنسِ محبت ہے ، قیمت ہے گراں تیری
    کم مایہ ہیں سوداگر ، اس دیس میں ارزاں ہو
    کیوں ساز کے پردے میں مستور ہو لے تیری
    تو نغمۂِ رنگیں ہے ، ہر گوش پہ عریاں ہو
    اے رہروء فرزانہ! رستے میں اگر تیرے
    گلشن ہے تو شبنم ہو، صحرا ہے تو طوفاں ہو
    ساماں کی محبت میں مضمر ہے تن آسانی
    مقصد ہے اگر منزل ، غارت گرِ ساماں ہو
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. فهیم علی
    آف لائن

    فهیم علی ممبر

    شمولیت:
    ‏17 اکتوبر 2014
    پیغامات:
    19
    موصول پسندیدگیاں:
    13
    ملک کا جھنڈا:
    ﺗﯿﻦ ﺷﺎﻋﺮ ، ﺍﯾﮏ
    ﻣﺘﻦ

    عشق کی داستان ہے پیارے
    اپنی اپنی زبان ہے پیارے
    کل تک اے درد یہ تپاک نہ تھا
    آج کیوں مہربان ہے پیارے
    اس کو کیا کیجے جو لب نہ کھلیں
    یوں تو منہ میں زبان ہے پیارے
    یہ تغافل بھی ہے نگہ آمیز
    اس میں بھی ایک شان ہے پیارے
    جس نے اے دل دیا ہے اپنا غم
    اس تو بدگمان ہے پیارے
    میرے اشکوں میں اہتمام نہ دیکھ
    عاشقی کی زبان ہے پیارے
    ہم زمانے سے انتقام تو لیں
    اک حسین درمیان ہے پیارے
    عشق کی ایک ایک نادانی
    علم و حکمت کی جان ہے پیارے
    تو نہیں میں ہوں ۔۔ میں نہیں تو ہے
    اب کچھ ایسا گمان ہے پیارے
    کہنے سننے میں جو نہیں آتی
    وہ بھی اک داستان ہے پیارے
    رکھ قدم پھونک پھونک کر ناداں
    ذرے ذرے میں جان ہے پیارے
    تیری برہم خرامیوں کی قسم
    دل بہت سخت جان ہے پیارے
    ہاں ترے عہد میں جگر کے سوا
    ہر کوئی شادمان ہے پیارے
    دو غزلہ
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    سب پہ تو مہربان ہے پیارے
    کچھ ہمارا بھی دھیان ہے پیارے
    آ کہ تجھ بن بہت دنوں سے یہ دل
    ایک سونا مکان ہے پیارے
    تو جہاں ناز سے قدم رکھ دے
    وہ زمین آسمان ہے پیارے
    مختصر ہے یہ شوق کی روداد
    ہر نفس امتحان ہے پیارے
    اپنے جی میں زرا تو کر انصاف
    کب سے نامہربان ہے پیارے
    صبر ٹوٹے ہوئے دلوں کا نہ لے
    تو یوں ہی دھان پان ہے پیارے
    ہم سے جو ہو سکا سو کر گزرے
    اب ترا امتحان ہے پیارے
    مجھ میں تجھ میں کوئی فرق نہیں
    عشق کیوں درمیان ہے پیارے
    کیا کہے حالِ دل غریب جگر
    ٹوٹی پھوٹی زبان ہے پیارے
    جگر مراد آبادی
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    دل ابھی تک جوان ہے پیارے
    کس مصیبت میں جان ہے پیارے
    تو مرے حال کا خیال نہ کر
    اس میں بھی ایک شان ہے پیارے
    وقت کم ہے نہ چھیڑ ہجر کی بات
    یہ بڑی داستان ہے پیارے
    تلخ کردی ہے زندگی جس نے
    کتنی میٹھی زبان ہے پیارے
    نام ہے اس کا ناصحِ مشفق
    یہ مرا مہربان ہے پیارے
    جانے کیا کہہ دیا تھا روزِ ازل
    آج تک امتحان ہے پیارے
    کب کیا میں نے عشق کا دعویٰ
    تیرا اپنا گمان ہے پیارے
    ساری دنیا کو غلط فہمی ہے
    مجھ پہ تو مہربان ہے پیارے
    میں تجھے بے وفا نہیں‌ کہتا
    دشمنوں کا بیان ہے پیارے
    تیرے کوچے میں‌ ہے سکوں ورنہ
    ہر زمین آسمان ہے پیارے
    خیر فریاد بے اثر ہی سہی
    زندگی کا نشان ہے پیارے
    حفیظ جالندھری
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    قصد اگر امتحان ہے پیارے
    اب تلک نیم جان ہے پیارے
    سجدہ کرنے میں سر کٹیں ہیں جہاں
    سو ترا آستان ہے پیارے
    گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر
    یہ ہماری زبان ہے پیارے
    کام میں قتل کے مرے تن دے
    اب تلک مجھ میں جان ہے پیارے
    شکلیں کیا کیا کیاں ہیں جن نے خاک
    یہ وہی آسمان ہے پیارے
    جا چکا دل تو یہ یقینی ہے
    کیا اب اس کا بیان ہے پیارے
    میر عمدا بھی کوئی مرتا ہے
    جان ہے تو جہان ہے پیارے
    میر تقی میر تین شاعر ، ایک متن.jpg
     
    Last edited: ‏11 نومبر 2014
  16. فهیم علی
    آف لائن

    فهیم علی ممبر

    شمولیت:
    ‏17 اکتوبر 2014
    پیغامات:
    19
    موصول پسندیدگیاں:
    13
    ملک کا جھنڈا:
    سر اس شاعری کی پہلی لائن میں تھوری گڑبڑی لگ رہی ہے۔۔۔ میں کوئی شاعر واعر تو نہیں۔۔۔ آپ غور کر کہ فرما دیں کہ ٹھیک ہے کہ غلط۔۔۔
    میں آئینہ (ہوں) وہ میرا خیال رکھتی تھی
    ہونا شاید کچھ اس طرح چاہیے
    میں آئینہ (تھا ) وہ میرا خیال رکھتی تھی
     
    نعیم اور آصف احمد بھٹی .نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    @فھیم علی بھائی آپکا نکتہ خوب ہے۔
     
  18. فهیم علی
    آف لائن

    فهیم علی ممبر

    شمولیت:
    ‏17 اکتوبر 2014
    پیغامات:
    19
    موصول پسندیدگیاں:
    13
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ بھائی
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں