1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پسندیدہ غزلیات، نظمیات

Discussion in 'اردو شاعری' started by عبدالجبار, Nov 21, 2006.

  1. تانیہ
    Offline

    تانیہ ناظم Staff Member

    Joined:
    Mar 30, 2011
    Messages:
    6,325
    Likes Received:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    واہ۔۔۔بہت عمدہ ۔۔۔۔
     
  2. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    Joined:
    Aug 30, 2006
    Messages:
    58,107
    Likes Received:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    نہ وہ سِن ہے فرصتِ عشق کا ، نہ وہ دِن ہیں کشفِ جمال کے
    مگر اب بھی دِل کو جواں رکھیں ، وہی شعبدے خدوخال کے

    یہ جو گَرد بادِ حیات ہے ، کوئی اِس کی زَد سے بچا نہیں
    مگر آج تک تیری یاد کو میں رکھوں سنبھال سنبھال کے

    میں امین و قدر شناس تھا ، مجھے سانس سانس کا پاس تھا
    یہ جبیں پہ ہیں جو لکھے ہوئے ، یہ حساب ہیں مہ و سال کے

    وہ کبھی شفق کا فَسوں کہیں ، کبھی گُل کہیں کبھی خوں کہیں
    کہ ہیں میری صبحِ عروج میں ابھی رنگ شمعِ زوال کے

    شبِ تار سے نہ ڈرا مجھے ، اے خُدا جمال دِکھا مجھے
    کہ تیرے ثبوت ہیں بیشتر ، تیری شانِ جاہ و جلال کے

    کوئی کوہکن ہو کہ قیس ہو ، کوئی مِیر ہو کہ ندیم ہو
    سبھی نام ایک ہی شخص کے ، سبھی پھول ایک ہی ڈال کے


    احمد ندیم قاسمی
     
  3. حسن رضا
    Offline

    حسن رضا ممبر

    Joined:
    Jan 21, 2009
    Messages:
    28,857
    Likes Received:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    نعیم بھائی بہت عمدہ زبردست :222:
     
  4. حسن رضا
    Offline

    حسن رضا ممبر

    Joined:
    Jan 21, 2009
    Messages:
    28,857
    Likes Received:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    نعیم بھائی بہت زبردست شیئرنگ :222: :mashallah:
     
  5. حسن رضا
    Offline

    حسن رضا ممبر

    Joined:
    Jan 21, 2009
    Messages:
    28,857
    Likes Received:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    محبوب بھائی عمدہ شاعری ارسال کی :222:
     
  6. نعیم
    Offline

    نعیم مشیر

    Joined:
    Aug 30, 2006
    Messages:
    58,107
    Likes Received:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    کسی کو ہم سے ھیں چند شکوے کسی کو بے حد شکائتیں ھیں
    ہمارے حصے میں صرف اپنی صفائیاں ھیں وضاحتیں ھیں

    قدم قدم پر بدل رھے ھیں مسافروں کی طلب کے رستے
    ہواؤں جیسی محبتیں ھیں صداؤں جیسی رفاقتیں ھیں

    کسی کا مقروض میں نہیں پر مرے گریباں پہ ہاتھ سب کے
    کوئی مری چاہتون کا دشمن کسی کو درکار چاہتیں ھیں

    تری جدائی کے کتنے سورج افق پہ ڈوبے مگر ابھی تک
    خلش ھے سینے میں پہلے دن سی لہو میں ویسی ہی وحشتیں ھیں

    مری محبت کے رازداں نے یہ کہہ کے لوٹا دیا مرا خط
    کہ بھیگی بھیگی سی آنسوؤں میں تمام گنجلک عبارتیں ھیں

    میں دوسروں کی خوشی کی خاطر غبار بن کے بکھر گیا ہوں
    مگر کسی نے یہ حق نہ مانا کہ میری بھی کچھ ضرورتیں ھیں


    اعتبار ساجد
     
  7. حسن رضا
    Offline

    حسن رضا ممبر

    Joined:
    Jan 21, 2009
    Messages:
    28,857
    Likes Received:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    میں دوسروں کی خوشی کی خاطر غبار بن کے بکھر گیا ہوں
    مگر کسی نے یہ حق نہ مانا کہ میری بھی کچھ ضرورتیں ھیں

    واہ نعیم بھائی بہت ہی زبردست شیئرنگ کی :p_rose123:
     
  8. واصف حسین
    Offline

    واصف حسین ناظم Staff Member

    Joined:
    Jul 3, 2006
    Messages:
    10,073
    Likes Received:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    چمن روئے ہنسے شبنم بیاباں پر نکھار آئے
    اکِ ایسا بھی نیا موسم میرے پروردگار آئے
    وہ سر کھولے ہماری لاش پر دیوانہ وار آئے
    اسی کو موت کہتے ہیں تو یارب بار بار آئے
    سرِ گورِ غریباں آؤ لیکن یہ گزارش ہے
    وہاں منہ پھیر کے رونا جہاں میرا مزار آئے
    بہا اے چشمِ تر ایسا بھی اِک آنسوُ ندامت کا
    جسے دامن پہ لینے رحمتِ پروردگار آئے

    قفس کے ہو لئے ہم تو مگر اے اہلِ گلشن تم
    ہمیں بھی یاد کرلینا چمن میں جب بہار آئے
    نہ جانے کیا سمجھ کر چپ ہوں اے صیّاد میں ورنہ
    وہ قیدی ہوں اگر چاہوں قفس میں بھی بہار آئے
    قمرؔ دل کیا ہے میں تو ان کی خاطر جان بھی دیدوں
    میری قسمت اگر ان کو نہ پھر بھی اعتبار آئے

    قمر جلالوی​
     
  9. آصف احمد بھٹی
    Offline

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص Staff Member

    Joined:
    Mar 27, 2011
    Messages:
    40,593
    Likes Received:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    ماشاء اللہ ! تمام دوستوں کی پسند عمدہ اور ذوق اعلی ہے ۔
     
  10. محبوب خان
    Offline

    محبوب خان ناظم Staff Member

    Joined:
    Jul 28, 2008
    Messages:
    7,126
    Likes Received:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    مشرق ہار گیا

    کپلنگ نے کہا تھا
    مشرق مشرق ہے
    اور مغرب مغرب ہے
    اور دونوں کا ملنا ناممکن ہے
    لیکن مغرب مشرق کےگھر آنگن میں آپہنچا ہے
    میرے بچوں کے کپڑے لندن سے آتے ہیں
    میرا نوکر بی بی سی سے خبریں سنتا ہے
    میں بیدل اور حافظ کے بجائے
    شکسپیر اور رلکے کی باتیں کرتا ہوں
    اخباروں میں مغرب کے چکلوں کی
    خبریں اور تصویریں چھپتی ہیں
    مُجھ کو چُگی داڑھی والے اکبر کی کھسیانی ہنسی پر رحم آتا ہے
    اقبال کی باتیں (گستاخی ہوتی ہے )
    مجذوب کی بڑ ہیں
    وارث شاہ اور بُلھے شاہ اور با با فرید؟
    چلئے جانے دیجئے ان باتوں میں کیا رکھا ہے
    مشرق ہار گیا ہے
    یہ بکسر اور پلاسی کی ہار نہیں
    ٹیپو اور جھانسی کی رانی کی ہار نہیں
    سن ستاون کی جنگ آزادی کی ہار نہیں
    ایسی ہار تو جیتی جاسکتی ہے (شاید ہم نے جیت بھی لی ہے)
    لیکن مشرق اپنی روح کے اندر ہارگیا ہے
    قبلا خاں تم ہارگئے ہو
    اور تمہارے ٹکڑوں پر پلنے والا لالچی مارکوپولو جیت گیا ہے
    اکبر اعظم تم کو مغرب کی جس عیارہ نے تحفے بھیجے تھے
    اور بڑا بھائی لکھا تھا اُس کے کتے بھی اُن لوگوں سے افضل ہیں
    جو تمہیں مہابلی اور ظل اللہ کہا کرتے تھے
    مشرق کیا تھا؟
    جسم سے اوپر اُٹھنے کی اک خواہش تھی
    شہوت اور جبلت کی تاریکی میں
    ایک دیا جلانے کی کوشیش تھی
    میں سوچ رہا ہوں سورج مشرق سے نکلا تھا
    (مشرق سے جانے کتنے سورج نکلے تھے)
    لیکن مغرب ہر سورج کو نگل گیا ہے
    میں ہار گیا ہوں
    میں نے اپنے گھر کی دیواروں پر لکھا ہے
    میں ہار گیا ہوں
    میں نے اپنے آئینے پر کالک مل دی ہے
    اور تصویروں پر تھوکا ہے
    ہارنے والے چہرے ایسے ہوتے ہیں
    میری روح کے اندر اک ایسا گہرا زخم لگا ہے
    جس کے بھرنے کے لئے صدیاں بھی ناکافی ہیں
    میں اپنے بچے اور کتے دونوں کو
    ٹیپو کہتا ہوں
    مجھ سےمیرا سب کچھ لے لو
    اور مجھے ایک نفرت دے دو
    مجھ سے میرا سب کچھ لے لو
    اور مجھے ایک غصہ دے دو
    ایسی نفرت ایسا غصہ
    جس کی آگ میں سب جل جائیں
    میں بھی!

    سلیم احمد
     
  11. کاکا سپاہی
    Offline

    کاکا سپاہی ممبر

    Joined:
    May 24, 2007
    Messages:
    3,796
    Likes Received:
    596
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    کسی کا مقروض میں نہیں پر مرے گریباں پہ ہاتھ سب کے
    کوئی مری چاہتون کا دشمن کسی کو درکار چاہتیں ھیں

    تری جدائی کے کتنے سورج افق پہ ڈوبے مگر ابھی تک
    خلش ھے سینے میں پہلے دن سی لہو میں ویسی ہی وحشتیں ھیں



    نعیم بھائی
    ہمیشہ کی طرح لاجواب شئیرنگ ہے
    پر یہ دو شعر بہت اچھے ہیں
     
  12. محبوب خان
    Offline

    محبوب خان ناظم Staff Member

    Joined:
    Jul 28, 2008
    Messages:
    7,126
    Likes Received:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    ریشم بُننا کھیل نہیں

    ہم دھرتی کے پہلے کیڑے ہم دھرتی کا پہلا ماس
    دل کے لہو سے سانس ملا کر سُچا نور بناتے ہیں
    اپنا آپ ہی کھاتے ہیں اور ریشم بُنتے جاتے ہیں
    خواب نگر کی خاموشی اور تنہائی میں پلتے ہیں
    صاف مصّفا اُجلا ریشم تاریکی میں بُنتے ہیں
    کس نے سمجھا کیسے بُنے ہیں چاندی کی کرنوں کے تار
    کُنجِ جگر سے کھینچ کے لاتے ہیں ہم نور کے ذرّوں کو
    شرماتے ہیں دیکھ کے جن کو نیل گگن کے تارے بھی
    ہم کو خبر ہے ان کاموں میں جاں کا زیاں ہوجاتا ہے
    لیکن فطرت کی مجبوری ہم ریشم کے کیڑوں کی
    سُچا ریشم بُنتے ہیں اور تار لپٹتے جاتے ہیں
    آخر گُھٹ کر مرجاتے ہیں ریشم کی دیواروں میں
    کوئی ریشم بُن کر دیکھے ریشم بُننا کھیل نہیں

    علی اکبر ناطق
    از : بے یقین بستیوں میں
     
  13. واصف حسین
    Offline

    واصف حسین ناظم Staff Member

    Joined:
    Jul 3, 2006
    Messages:
    10,073
    Likes Received:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    پتھر تھا مگر برف کے گالوں کی طرح تھا
    اک شخص اندھیروں میں اجالوں کی طرح تھا
    خوابوں کی طرح تھا نہ خیالوں کی طرح تھا
    وہ علم ریاضی کے سوالوں کی طرح تھا
    الجھا ہوا ایسا کہ کبھی حل نہ ہو سکا
    سلجھا ہوا ایسا کہ مثالوں کی طرح تھا
    وہ مل تو گیا تھا مگر اپنا ہی مقدر
    شطرنج کی الجھی ہوئی چالوں کی طرح تھا
    وہ روح میں خوشبو کی طرح ہو گیا تحلیل
    جو دور بہت چاند کے ہالوں کی طرح تھا
     
  14. محبوب خان
    Offline

    محبوب خان ناظم Staff Member

    Joined:
    Jul 28, 2008
    Messages:
    7,126
    Likes Received:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    بہت خوب :222:
     
  15. محبوب خان
    Offline

    محبوب خان ناظم Staff Member

    Joined:
    Jul 28, 2008
    Messages:
    7,126
    Likes Received:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    جو طورِ سینا سے لوٹ آئے

    ہمیں‌نہ مارو کہ ہم تو وہ ہیں جو طُور سینا سے لوٹ آئے
    فقط جبینوں پہ داغِ سجدہ کی مُہر لے کر
    بغیر آیت کے بِن صحیفوں کے لوٹ آئے
    ہمیں نہ مارو
    کہ ہم ازل سے وہ بے وطن ہیں کہ جن کی پُشتیں اُٹھا اُٹھا کر سفر کے
    سامان تھک چُکی ہیں
    فگار قدموں‌سے دشت گردی لپٹ گئی ہے
    وہ دشت گردی کہ جس کا کوئی صلہ نہیں‌اور ابتدا ہے نہ انتہا ہے
    عظیم صحرا میں‌چلتے چلتے قدیم حجت بھٹک چُکی ہے
    جہاں بگولوں کے دائروں نے ہماری گردش کو تیز رکھا
    اُنہی نشانوں کے گِرد جن پر قضا کے سائے پڑے ہوئے ہیں
    وہیں پر رُک کر پڑھا تھا ہم نے وہ اسمِ اعظم جو رفتہ رفتہ بُھلا دیا ہے
    کبھی جو سینوں‌پر دم کیے تھے اب اُس کا کوئی اثر نہیں‌ہے
    حُنوط کر کے سلا دیا ہے جسے، اُٹھے گی وہ روح کیسے
    زُبان تالو سے لگ گئی ہے کہ خُشک لفظوں نے چھین لی اب وہ تازگی
    جو ہُنر بھی تھی اور جو شرر بھی
    کِسے بتائیں کہ یہ ہمارے زبان و دل کا ہی معجزہ ہے
    ہمیں نہ مارو کہ اب فقط ایک شور باقی ہے جو سماعت کو کھا گیا ہے

    علی اکبر ناطق
     
  16. سیفی خان
    Offline

    سیفی خان ممبر

    Joined:
    Apr 26, 2011
    Messages:
    200
    Likes Received:
    16
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    انجان موسم

    کل تیری چاہت کی بارش
    مجھ پہ برسا کرتی تھی
    تو اُس بارش سے
    میں بھیگا بھیگا رہتا تھا

    آج تیری چاہت کی بارش
    مجھ پہ تو برسا نہیں کرتی
    لیکن پھر بھی
    میں کیوں بھیگ سا جاتا ہوں
     
  17. سیفی خان
    Offline

    سیفی خان ممبر

    Joined:
    Apr 26, 2011
    Messages:
    200
    Likes Received:
    16
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    میرا بوجھ خود اٹھانا میرے دائرے میں رھنا

    میرا بوجھ خود اٹھانا میرے دائرے میں رھنا
    مجھے اپنے دل میں رکھنا میرے حافظے میں رھنا

    میرا حکم خود سنانا میری مھر خود لگانا
    میرے مشورے میں ھونا،میرے فیصلے میں رھنا

    کبھی منزلوں کی صورت میری دسترس سے باھر
    کبھی سنگِ میل بن کر میرے راستے میں رھنا

    میرے ھاتھ کی لکیریں تیرا نام بن کر چمکیں
    میری خواھشوں کی خوشبو میرے زائچے میں رھنا
     
  18. سیفی خان
    Offline

    سیفی خان ممبر

    Joined:
    Apr 26, 2011
    Messages:
    200
    Likes Received:
    16
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    کوئی سبیل نہں ہے قضاء کے ٹلنے کی

    کوئی سبیل نہں ہے قضاء کے ٹلنے کی
    سلگ رہا ہوں دعا مانگتا ہوں جلنے کی
    وہ ایک عمر میرے ساتھ ساتھ چلتے ریے
    مجھے خبر نہ ہوئی راستوں کے چلنے کی
    ان آنسوؤں کو اگر خاک ہی میں ملنا تھا
    تو کیا پڑی تھی میری آنکھ سے نکلنے کی
    بس ایک دل ہی نہ مانا وگرنہ سارا بدن
    گواہی دیتا رہا ذندگی کے ڈھلنے کی
    وہ خود بھی فیصلے کرتا تھا جلد باذی میں
    مجھے بھی بعد میں عادت تھی ہاتھ ملنے کی
    مبادہ تجھ کو کسی طرح کا تاسف ہو
    جو گر پڑے اسے مہلت تو دے سنبھلنے کی
    میں اس سے ترکِ تعلق کی ٹھان لیتا مگر
    اسے تو ضد تھی میری آستین میں پلنے کی!
     
  19. سیفی خان
    Offline

    سیفی خان ممبر

    Joined:
    Apr 26, 2011
    Messages:
    200
    Likes Received:
    16
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    غزل از انشا اللہ خان انشا

    کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
    بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں

    نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی
    تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں، ہم بیزار بیٹھے ہیں

    تصور عرش پر ہے اور سر ہے پائے ساقی ہر
    غرض کچھ اور دُھن میں اس گھڑی میخوار بیٹھے ہیں

    بسانِ نقش پائے رہرواں کوئے تمنّا میں
    نہیں اٹھنے کی طاقت، کیا کریں، لا چار بیٹھے ہیں

    یہ اپنی چال ہے افتادگی سے اب کہ پہروں تک
    نظر آیا جہاں پر سایہء دیوار بیٹھے ہیں

    کہاں صبر و تحمل، آہ ننگ و نام کیا شے ہے
    یہاں رو پیٹ کر ان سب کو ہم یکبار بیٹھے ہیں

    نجیبوں کا عجب کچھ حال ہے اس دور میں یارو
    جہاں پوچھو یہی کہتے ہیں ہم بیکار بیٹھے ہیں

    بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشا
    غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں​
     
  20. سیفی خان
    Offline

    سیفی خان ممبر

    Joined:
    Apr 26, 2011
    Messages:
    200
    Likes Received:
    16
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    ایک ہی شخص


    ساری دُنیا میں مرے جی کو لگا ایک ہی شخص
    ایک ہی شخص تھا بخدا ایک ہی شخص

    درجہء کفر سہی مدحِ جمالِ جاناں
    دل سے پوچھو تو خُدا سے بھی بنا ایک ہی شخص

    ایسا لگتا ہے سبھی عشق کسی ایک سے تھے
    ایسا لگتا ہے مجھے ملتا رہا ایک ہی شخص

    وہ جو میں اس کی محبّت بھی کسی اور سے کی
    ان دنوں شہر کا ہر شخص لگا ایک ہی شخص

    میں تو اے عشق تری کوزہ گری جانتا ہوں
    تو نے ہم دو کو ملایا تو بنا ایک ہی شخص

    مجھ سے ناراض نہ ہونا میرے اچھے لوگو !
    کیا کروں میری محبّت نے چُنا ایک ہی شخص

    تو جو کہتا ہے ترے جیسے کئی اور بھی ہیں
    تجھ دعوٰی ہے تو پھر خود سا دکھا ایک ہی شخص

    تو جسے چاہتا ہے میں بھی اُسے چاہتا ہوں
    اچھا لگتا ہے مجھے تیرے سوا ایک ہی شخص

    دوست ! سب سےکہاں کھینچتا ہے غزل کا چلہ
    حجرہِ میر میں ہونا ہے سدا ایک ہی شخص


    عباس تابش ​
     
  21. سیفی خان
    Offline

    سیفی خان ممبر

    Joined:
    Apr 26, 2011
    Messages:
    200
    Likes Received:
    16
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    جب تک غمِ جہاں کے حوالے ہوئے نہیں

    جب تک غمِ جہاں کے حوالے ہوئے نہیں
    ہم زندگی کے جاننے والے ہوئے نہیں
    کہتا ہے آفتاب ذرا دیکھنا کہ ہم
    ڈوبے تھے گہری رات میں، کالے ہوئے نہیں
    چلتے ہو سینہ تان کے دھرتی پہ کس لیے
    تم آسماں تو سر پہ سنبھالے ہوئے نہیں
    انمول وہ گہر ہیں جہاں کی نگاہ میں
    دریا کی جو تہوں سے نکالے ہوئے نہیں
    طے کی ہے ہم نے صورتِ مہتاب راہِ شب
    طولِ سفر سے پاؤں میں چھالے ہوئے نہیں
    ڈس لیں تو ان کے زہر کا آسان ہے اُتار
    یہ سانپ آستین کے پالے ہوۓ نہیں
    تیشے کا کام ریشۂ گُل سے لیا شکیب
    ہم سے پہاڑ کاٹنے والے ہوئے نہیں
     
  22. سیفی خان
    Offline

    سیفی خان ممبر

    Joined:
    Apr 26, 2011
    Messages:
    200
    Likes Received:
    16
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    سائیاں ذات ادھوری ہے


    سائیاں ذات ادھوری ہے، سائیاں بات ادھوری ہے
    سائیاں رات ادھوری ہے، سائیاں مات ادھوری ہے
    دشمن چوکنا ہے لیکن، سائیاں گھات ادھوری ہے

    سائیاں رنج ملال بہت، دیوانے بے حال بہت
    قدم قدم پر جال بہت، پیار محبت کال بہت
    اور اس عالم میں سائیاں، گذر گئے ہیں سال بہت

    سائیاں ہر سو درد بہت، موسم موسم سرد بہت
    رستہ رستہ گرد بہت، چہرہ چہرہ زرد بہت
    اور ستم ڈھانے کی خاطر، تیرا اک اک فرد بہت

    سائیاں تیرے شہر بہت، گلی گلی میں زہر بہت
    خوف زدہ ہے دہر بہت، اس پہ تیرا قہر بہت
    کالی راتیں اتنی کیوں، ہم کو اک ہی پہر بہت

    سائیاں دل مجبور بہت، روح بھی چور و چور بہت
    پیشانی بے نور بہت، اور لمحے مغرور بہت
    ایسے مشکل عالم میں، تو بھی ہم سے دور بہت

    سائیاں راہیں تنگ بہت، دل کم ہیں اور سنگ بہت
    پھر بھی تیرے رنگ بہت، خلقت ساری دنگ بہت
    سائیاں تم کو آتے ہے، بہلانے کے ڈھنگ بہت

    سائیاں میرے تارے گم، رات کے چند سہارے گم
    سارے جان سے پیارے گم، آنکھیں گم نظارے گم
    ریت میں آنسو ڈوب گئے، راکھ میں ہوئے شرارے گم

    سائیاں رشتے ٹوٹ گئے، سائیاں اپنے چھوٹ گئے
    سچ گئے اور جھوٹ گئے، تیز مقدر پھوٹ گئے
    جانے کیسے ڈاکو تھے، جو لوٹے ہوئوں کو لوٹ گئے

    سائیاں تنہا شاموں میں، چن گئے ہیں بامو میں
    چاہت کے الزاموں میں، شامل ہوئے ہے غلاموں میں
    اپنی ذات نہ ذاتوں میں، اپنا نام نہ ناموں میں

    سائیاں ویرانی کے صدقے، اپنی یزدانی کے صدقے
    جبر انسانی کے صدقے، لمبی زندانی کے صدقے
    سائیاں میرے اچھے سائیاں، اپنی رحمانی کے صدقے

    سائیاں میرے درد گھٹا، سائیاں میرے زخم بجھا
    سائیاں میرے عیب مٹا، سائیاں کوئی نوید سنا
    اتنے کالے موسم میں، سائیاں اپنا آپ دکھا

    سائیاں میرے اچھے سائیاں، سائیاں میرے ڈولے سائیاں
    سائیاں میرے پیارے سائیاں، سائیاں میرے بیبے سائیاں
     
  23. سیفی خان
    Offline

    سیفی خان ممبر

    Joined:
    Apr 26, 2011
    Messages:
    200
    Likes Received:
    16
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات


    یہ اداس آنکھیں میری

    کرب تنہائی میں جلتی ہوئی اس ذات کے دروازے پر
    راستہ دیکھتی رہتی ہیں کسی بادل کا
    ایسا بادل
    جو مرے جسم کے صحرا کو بھی ساحل کردے
    ہاتھ ہاتھوں پہ رکھے
    روح کو جل تھل کردے
    اداس آنکھیں میری
    ظلم کی دھند میں لپٹی ہوئی اس رات کے دروازے پر
    راستہ دیکھتی رہتی ہیں کسی سورج کا
    ایسا سورج
    جو محبت کے ہر اک نقش کو روشن کردے
    خوف کی لہر سے جمتے ہوئے لوگوں میں حرارت بھر دے
    بھاگتے دوڑتے اس وقت کے ہنگامے میں
    وہ جو اک لمحہ امر ہے
    وہ ٹھہرتا ہی نہیں
    بے یقینی کا یہ ماحول بکھرتا ہی نہیں
    میرا سورج

    میرے آنگن میں اترتا ہی نہیں
     
  24. محبوب خان
    Offline

    محبوب خان ناظم Staff Member

    Joined:
    Jul 28, 2008
    Messages:
    7,126
    Likes Received:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    سیفی بھائی بہت بہت شکریہ :p_rose123:
     
  25. سین
    Offline

    سین ممبر

    Joined:
    Jul 22, 2011
    Messages:
    5,529
    Likes Received:
    5,790
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    وہ جو عشق پیشہ تھے
    دل فروش تھے
    مر گئے!
    وہ ہوا کے ساتھ چلے تھے
    اور ہوا کے ساتھ بکھر گئے
    وہ عجیب لوگ تھے
    برگِ سبز کو برگِ زرد کا روپ دھارتے دیکھ کر
    رخِ زرد اشکوں سے ڈھانپ کر
    بھرے گلشنوں سے
    مثالِ سایۂ ابر
    پل میں گزر گئے
    وہ قلندرانہ وقار تن پہ لپیٹ کر
    گھنے جنگلوں میں گھری ہوئی کھلی وادیوں کی بسیط دھند میں
    رفتہ رفتہ اتر گئے!
     
  26. واصف حسین
    Offline

    واصف حسین ناظم Staff Member

    Joined:
    Jul 3, 2006
    Messages:
    10,073
    Likes Received:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    اے عشق ہمیں برباد نہ کر​


    اے عشق نہ چھیڑ آ آ کے ہمیں، ہم بھولے ہوؤں کو یاد نہ کر
    پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم ، تو اور ہمیں ناشاد نہ کر
    قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ ، یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر
    یوں ظلم نہ کر، بیداد نہ کر
    اے عشق ہمیں برباد نہ کر

    جس دن سے ملے ہیں دونوں کا، سب چین گیا، آرام گیا
    چہروں سے بہار صبح گئی، آنکھوں سے فروغ شام گیا
    ہاتھوں سے خوشی کا جام چھٹا، ہونٹوں سے ہنسی کا نام گیا
    غمگیں نہ بنا، ناشاد نہ کر
    اے عشق ہمیں برباد نہ کر

    راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتے ہیں، رو رو کے دعائیں کر تے ہیں
    آنکھوں میں تصور، دل میں خلش، سر دھنتے ہیں آہیں بھرتےہیں
    اے عشق! یہ کیسا روگ لگا، جیتے ہیں نہ ظالم مرتے ہیں؟
    یہ ظلم تو اے جلاد نہ کر
    اے عشق ہمیں برباد نہ کر

    یہ روگ لگا ہے جب سے ہمیں، رنجیدہ ہوں میں بیمار ہے وہ
    ہر وقت تپش، ہر وقت خلش بے خواب ہوں میں،بیدار ہے وہ
    جینے سے ادھر بیزار ہوں میں، مرنے پہ ادھر تیار ہے وہ
    اور ضبط کہے فریاد نہ کر
    اے عشق ہمیں برباد نہ کر

    جس دن سے بندھا ہے دھیان ترا، گھبرائےہوئے سے رہتے ہیں
    ہر وقت تصور کر کر کے شرمائے ہوئے سے رہتے ہیں
    کملائے ہوئے پھولوں کی طرح کملائے ہوئے سے رہتے ہیں
    پامال نہ کر، برباد نہ کر
    اے عشق ہمیں برباد نہ کر

    بیددر! ذرا انصاف تو کر! اس عمر میں اور مغموم ہے وہ
    پھولوں کی طرح نازک ہے ابھی ، تاروں کی طرح معصوم ہے وہ
    یہ حسن ، ستم! یہ رنج، غضب! مجبور ہوں میں! مظلوم ہے وہ
    مظلوم پہ یوں بیداد نہ کر
    اے عشق ہمیں برباد نہ کر

    اے عشق خدارا دیکھ کہیں ، وہ شوخ حزیں بدنام نہ ہو
    وہ ماہ لقا بدنام نہ ہو، وہ زہرہ جبیں بدنام نہ ہو
    ناموس کا اس کے پاس رہے، وہ پردہ نشیں بدنام نہ ہو
    اس پردہ نشیں کو یاد نہ کر
    اے عشق ہمیں برباد نہ کر

    امید کی جھوٹی جنت کے، رہ رہ کے نہ دکھلا خواب ہمیں
    آئندہ کی فرضی عشرت کے، وعدوں سے نہ کر بیتاب ہمیں
    کہتا ہے زمانہ جس کو خوشی ، آتی ہے نظر کمیاب ہمیں
    چھوڑ ایسی خوشی کویادنہ کر
    اے عشق ہمیں برباد نہ کر

    کیا سمجھےتھےاور تو کیا نکلا، یہ سوچ کے ہی حیران ہیں ہم
    ہے پہلے پہل کا تجربہ اور کم عمر ہیں ہم، انجان ہیں ہم
    اے عشق ! خدارا رحم و کرم! معصوم ہیں ہم، نادان ہیں ہم
    نادان ہیں ہم، ناشاد نہ کر
    اے عشق ہمیں برباد نہ کر

    وہ راز ہے یہ غم آہ جسے، پا جائے کوئی تو خیر نہیں
    آنکھوں سےجب آنسو بہتے ہیں، آجائے کوئی تو خیر نہیں
    ظالم ہے یہ دنیا، دل کو یہاں، بھا جائے کوئی تو خیر نہیں
    ہے ظلم مگر فریاد نہ کر
    اے عشق ہمیں بر باد نہ کر

    دو دن ہی میں عہد طفلی کے، معصوم زمانے بھول گئے
    آنکھوں سےوہ خوشیاں مٹ سی گئیں، لب کووہ ترانےبھول گئے
    ان پاک بہشتی خوابوں کے، دلچسپ فسانے بھول گئے
    ان خوابوں سے یوں آزادنہ کر
    اے عشق ہمیں برباد نہ کر

    اس جان حیا کا بس نہیں کچھ، بے بس ہے پرائے بس میں ہے
    بے درد دلوں کو کیا ہے خبر، جو پیار یہاں آپس میں ہے
    ہے بے بسی زہر اور پیار ہے رس، یہ زہر چھپا اس رس میں ہے
    کہتی ہے حیا فریاد نہ کر
    اے عشق ہمیں برباد نہ کر

    آنکھوں کو یہ کیا آزار ہوا ، ہر جذب نہاں پر رو دینا
    آہنگ طرب پر جھک جانا، آواز فغاں پر رو دینا
    بربط کی صدا پر رو دینا، مطرب کے بیاں پر رو دینا
    احساس کو غم بنیاد نہ کر
    اے عشق ہمیں برباد نہ کر

    ہر دم ابدی راحت کا سماں دکھلا کے ہمیں دلگیر نہ کر
    للہ حباب آب رواں پر نقش بقا تحریر نہ کر
    مایوسی کے رمتے بادل پر امید کے گھر تعمیر نہ کر
    تعمیر نہ کر، آباد نہ کر
    اے عشق ہمیں بر باد نہ کر

    جی چاہتا ہے اک دوسرے کو یوں آٹھ پہر ہم یاد کریں
    آنکھوں میں بسائیں خوابوں کو، اور دل میں خیال آباد کریں
    خلوت میں بھی ہوجلوت کاسماں، وحدت کودوئی سےشادکریں
    یہ آرزوئیں ایجاد نہ کر
    اے عشق ہمیں برباد نہ کر

    دنیا کا تماشا دیکھ لیا، غمگین سی ہے ، بے تاب سی ہے
    امید یہا ں اک وہم سی ہے‘ تسکین یہاں اک خواب سی ہے
    دنیا میں خوشی کا نام نہیں‘ دنیا میں خوشی نایاب سی ہے
    دنیا میں خوشی کو یاد نہ کر
    اے عشق ہمیں برباد نہ کر

    اختر شیرانی
     
  27. واصف حسین
    Offline

    واصف حسین ناظم Staff Member

    Joined:
    Jul 3, 2006
    Messages:
    10,073
    Likes Received:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    صبح آزادی – اگست 47ء

    یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر
    وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
    یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
    چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
    فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
    کہیں تو ہوگا شبِ سست موج کا ساحل
    کہیں تو جاکے رکے گا سفینہء غمِ دل

    جواں لہو کی پراسرار شاہراہوں سے
    چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے
    دیارِ حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے
    پکارتی رہیں، باہیں، بدن بلاتے ہیں
    بہت عزیز تھی لیکن رخِ سحر کی لگن
    بہت قریں تھا حسینانِ نور کا دامن
    سبک سبک تھی تمنا، دبی دبی تھی تھکن

    سنا ہے ہو بھی چکا ہے فراقِ ظلمت و نور
    سنا ہے ہو بھی چکا ہے وصالِ منزل و گام
    بدل چکا ہے بہت اہلِ درد کا دستور
    نشاطِ وصل حلال و عذابِ ہجر حرام
    جگر کی آگ، نظر کی امنگ، دل کی جلن
    کسی پہ چارہء ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں
    کہاں سے آئی نگارِ صبا، کدھر کو گئی
    ابھی چراغِ سرِ رہ کو کچھ خبر ہی نہیں
    ابھی گرانیء شب میں کمی نہیں آئی
    نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
    چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

    فیض احمد فیض
     
  28. محبوب خان
    Offline

    محبوب خان ناظم Staff Member

    Joined:
    Jul 28, 2008
    Messages:
    7,126
    Likes Received:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    بہت بہت شکریہ واصف بھائی۔۔۔۔۔اعلی انتخاب اور وہ بھی فیض ۔۔۔کیا ہی بات ہے۔۔۔داد قبول ہو:222:
     
  29. ارشین بخاری
    Offline

    ارشین بخاری ممبر

    Joined:
    Jan 13, 2011
    Messages:
    6,125
    Likes Received:
    901
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    کس شہر نہ شُہرہ ہُوا نادانیِ دل کا
    کس پر نہ کھُلا راز پریشانیِ دل کا
    آؤ کریں محفل پہ زرِ زخم نمایاں
    چرچا ہے بہت بے سر و سامانیِ دل کا
    دیکھ آئیں چلو کوئے نگاراں کا خرابہ
    شاید کوئی محرم ملے ویرانیِ دل کا
    پوچھو تو ادھر تیر فگن کون ہے یارو
    سونپا تھا جسے کام نگہبانیِ دل کا
    دیکھو تو کدھر آج رُخِ بادِ صبا ہے
    کس رہ سے پیام آیا ہے زندانیِ دل کا
    اُترے تھے کبھی فیض وہ آئینۂ دل میں
    عالم ہے وہی آج بھی حیرانیِ دل کا
     
  30. مبارز
    Offline

    مبارز ممبر

    Joined:
    Aug 3, 2008
    Messages:
    8,835
    Likes Received:
    26
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    غزل
    (اختر شیرانی)

    بھلا کیوں کر نہ ہو ں راتوں کو نیندیں بیقرار اُس کی
    کبھی لہرا چکی ہو جس پہ زلفِ مشکبار اس کی

    اُمید وصل پر ، دل کو فریب صبر کیا دیجے؟
    ادا وحشی صفت اس کی ،نظر بیگانہ وار ، اس کی!

    جفائے ناز کی میں نے شکایت ہائے کیوں کی تھی
    مجھے جینے نہیں دیتی نگاہِ شرمسار اس کی!

    محبت تھی، مگر یہ بیقراری تو نہ تھی پہلے!
    الہٰی! آج کیوں یاد آتی ہے بے اختیار اُس کی

    کوئی کیوں کر بھلادے، ہائے ایسے کی محبت کو
    وفائیں، دلنواز اُس کی ! جفائیں خوشگوار اُس کی

    ہمیں عرضِ تمنا کی جسارت ہو تو کیوں کر ہو؟
    ادائیں فتنہ ریز اس کی! نگاہیں، حشر بار اُس کی

    برا ہو، اس تغافل کا کہ تنگ آکر یہ کہتا ہوں
    مجھے کیوں ہو گئی الفت ، مرے پروردگار اس کی؟

    مئے الفت کے مستانوں کو میخانے سے کیا مطلب؟
    ادا ، روحِ نشاط اُس کی! نطر، جانِ بہار اُس کی!

    یہاں کیا دیکھتے ہو ، ناصحو! گھر میں دھرا کیا ہے
    مرے دل کے کسی پردے میں ڈہونڈھو یادگار اس کی

    تغافل کا گلہ، کس کو نہیں، کس کس کو سمجھاؤں
    نگاہیں منتظر اُس کی! اُمیدیں، بیقرار اُس کی!

    مجھے تو عشق پیچاں! ایسے بل کھانے نہ آتے تھے
    بتا کیا تجھ پہ لہرائی ہے زلفِ مشکبار اُس کی؟

    انہیں کوچوں میں کل اختر کو رسوا ہوتے دیکھا تھا
    وہ آنکھیں اشکبار اُس کی، وہ باتیں دلنگار اُس کی!
     

Share This Page