1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پسندیدہ غزلیات، نظمیات

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از عبدالجبار, ‏21 نومبر 2006۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    سجیلہ جی ۔ بہت خوب۔ اتنی عمدہ شاعری ارسال کرنے پر ایکبار پھر مبارکباد
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ناصر کاظمی کی ایک خوبصورت غزل عرض ہے

    آرائشِ خیال بھی ہو، دل کشا بھی ہو
    وہ درد اب کہاں جسے جی چاہتا بھی ہو

    یہ کی اکہ روز ایک سا غم، ایک سی امید
    اس رنجِ بےخمار کی اب انتہا بھی ہو

    یہ کیا کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر
    جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو

    ٹوٹے کبھی تو حسن شب و روز کا طلسم
    اتنے ہجوم میں کوئی چہرہ نیا بھی ہو

    دیوانگئ شوق کو یہ دھن ہے ان دنوں
    گھر بھی ہو اور بے درودیوار سا بھی ہو

    ہر شے پکارتی ہے پسِ پردہء سکوت
    لیکن کسے سناؤں کوئی ہمنوا بھی ہو

    فرصت میں سن شگفتگیء غنچہ کی صدا
    یہ وہ سخن نہیں جو کسی نے کہا بھی ہو

    پھرتے ہیں کیسے کیسے خیالات ذہن میں
    لکھوں‌اگر زبان قلم آشنا بھی ہو

    بزمِ سخن بھی ہو، سخن گرم کے لیے
    طاؤس بولتا ہو تو جنگل ہرا بھی ہو

    (ناصر کاظمی)​
     
  3. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    ماشاء اللہ بہت خوبصورت غزل ہے
     
  4. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    بہت خوب۔ نعیم بھائی!
    ---------------------------------------------

    احمد فراز کی ایک مشہور غزل پیش کرتا ہوں


    کٹھن ہے راہگزر تھوڑی دور ساتھ چلو
    بہت کڑا ہے سفر تھوڑی دور ساتھ چلو

    تمام عُمر کہاں کوئی ساتھ دیتا ہے
    یہ جانتا ہوں مگر تھوڑی دور ساتھ چلو

    نشے میں چُور ہوں میں بھی تمہیں بھی ہوش نہیں
    بڑا مزہ ہو اگر تھوڑی دور ساتھ چلو

    ابھی تو جاگ رہے ہیں چراغ راہوں میں
    ابھی ہے دور سحر تھوڑی دور ساتھ چلو

    یہ ایک شب کی مُلاقات بھی غنیمت ہے
    کِسے ہے کل کی خبر تھوڑی دور ساتھ چلو

    طوافِ منزلِ جاناں ہمیں بھی کرنا ہے
    فراز تم بھی اگر تھوڑی دور ساتھ چلو


    (احمد فراز)​
     
  5. سجیلا
    آف لائن

    سجیلا ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جنوری 2007
    پیغامات:
    110
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ::

    تجھ کو میں نے کھو دیا اِک نظر پانے کے بعد
    دل تڑپتا ہی رہا تیرے چلے جانے کے بعد
    حسرتیں جو دل میں تھیں وہ دل ہی میں رہ گیئں
    کیا ملا جو تم ملے حسرت نکل جانے کے بعد
    تجھ کو ڈھونڈا ہر جگہ تیرا پتہ نہ مل سکا
    اپنے ہی اندر ملا پر ٹھوکریں کھانے کے بعد
    ساقی میخانہ نے تجھکو ہے نوازا جام سے
    کیوں پیاسا رہ گیا پھر جام ہاتھ آنیکے بعد
    اپنے تھے سب قدرداں جب تم سے نہ تھے آشنا
    سب نے آنکھیں پھیر لیں ترِے قریب آنے کے بعد
    اس جہاں کی محفلوں نے کیا دیا تجھ کو سجل
    پر حقیقت بھی کھلی ہر شے چھن جانے کے بعد!
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب عبدالجبار بھائی اور سجیلہ جی ۔ کیا عمدہ کلام ہیں آپ کے۔

    سجیلہ جی کا یہ شعر بہت خوبصورت لگا

    اپنا اپنا احساس و انداز ہے ورنہ کوئی یہ بھی کہتا نظر آتا ہے۔

    جب تک بِکےنہ تھےکوئی پوچھتا نہ تھا
    تو نے خرید کر ہمیں انمول کر دیا​
     
  7. لاحاصل
    آف لائن

    لاحاصل ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2006
    پیغامات:
    2,943
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    سب نے اچھی غزلیں پوسٹ کی
    لیکن سجیلہ کی پوسٹ کی ہوئی نظمیں مجھے بے حد پسند آئیں
    بہت خوب سجیلہ آپ کا انتخاب بہت اچھا ہے
     
  8. سجیلا
    آف لائن

    سجیلا ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جنوری 2007
    پیغامات:
    110
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ::

    ھم اس طرح جو اپنی تشہیر کر رہے ھیں
    کن خواہشوں میں خود کو ذنجیر کر رہے ھیں
    کچھ رنگ ہے نہ خون ہے لیکن ہمیں جنون ہے
    بے رنگ ساعتوں کو تصویر کر رہے ھیں
    زر ہے نہ زور ہےکچھ جھگڑا ہی اور ہے
    اجڑے ہی نگر کو تسخیر کر رہے ہیں
    کیا نسل اور نسب ہے،کیا نام اور لقب ہے
    ھم کون ہیں جو سب کو تحقیر کر رہے ہیں
    سب کچھ لکھا ہوا ہے،سب کچھ پڑھا ہوا ہے
    کیا جانیے کیا ،تحریر کر رہے ہیں!
     
  9. سجیلا
    آف لائن

    سجیلا ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جنوری 2007
    پیغامات:
    110
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ::

     
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    سجیلہ جی ۔ کیا بات ہے آپ کے ذوقِ ادب کی۔ کیا خوب کلام ہے۔

    اور یہ بھی غزل بڑی کمال ہے

     
  11. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    عدم ہی ایک غزل آپ کی حاضرِ خدمت ہے


    غم کا غبار آنکھ میں ایسے سما گیا
    ہر منظرِ حسیں پہ دھندلکا سا چھا گیا

    دل میں مکیں تھا کوئی تو جلتے رہے چراغ
    جاتے ہوئے وہ شوخ انہیں بھی بجھا گیا

    دل تھا، مسرتیں تھیں، جوانی تھی، شوق تھا
    لیکن غمِ زمانہ ہر اک شئے کو کھا گیا

    برباد دل میں جوشِ تمنا کا دم نہ پوچھ
    صحرا میں جیسے کوئی بگولے اڑا گیا

    کچھ سوچ کر ہمارے گریباں کی وضع پر
    عہدِ بہار جاتے ہوئے مسکرا گیا

    دل کا ہجومِ غم سے عدم اب یہ حال ہے
    دریا پہ جیسے شام کو سکتہ سا چھا گیا

    (عدم)​
     
  12. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    سجیلا صاحب ۔ آپ کا اتنخاب بہت عمدہ ہے۔ ماشاءاللہ

    ساری غزلیں لائقِ تعریف ہیں
     
  13. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    بہت خوب نعیم بھائی!

    اور سجیلہ جی آپ کا انتخاب بھی بہت عمدہ ہے۔ ویسے آپ ہمیشہ بہت اچھی شاعری ارسال کرتی ہیں، جس سے آپ کے ذوق کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ماشاءاللہ اچھا ذوق پایا ہے۔
     
  14. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    ----- انا -----

    کئی برسوں سے ایسا ہے
    کہ اِک ویران رستہ ہے
    جو برسوں سے ہمارے بیچ حائل ہے
    انا کے خون میں لِپٹی
    وہ اک جانب کھڑی ہے اور
    انا کے خول میں لپٹا
    اسی ویران رستے کے کنارے دوسری جانب
    نجانے کتنے برسوں سے
    اکیلا میں کھڑا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  15. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    واہ بھئی واہ۔ کچھ ہم بھی عرض‌کرتے ہیں

    ۔۔تیری یاد ۔۔

    آج پھر ہوا تیری زلفوں کی خوشبو چرا لائی
    پھر تیرے لمس کی حرارت میرے چہرے پر
    پھر وہی خنکی تیرے گیسو کی
    میری انگلیوں کے پوروں پر
    تیری تصویر حقیقت سی بن رہی ہے
    تیری یاد کچھ خواب بُن رہی ہے
    میرے جینے کی خواہش پھر جاگ اٹھی
    جانے کیوں افسردگی پھر دور بھاگ اٹھی
    تیری مہک نے پھر ہشاش کر دیا مجھ کو
    تجھے پانے کی تمنا نے ہے انگڑائی لی
    جیسے چٹکے کوئی اداس تنہا سی کلی
    جس کی ٹہنی پہ کوئی دوسرا پھول نہ ہو
    جس کے زیرِ قدم فقط کانٹے ہی کانٹے ہوں
    اسی تنہائی کی کسک اور کرب میں
    پھر بھی خوشبو بکھیرتا رہتا ہے
    پھر بھی حسن کی کرنیں بکھیرتا رہتا ہے
    ایسے ہی میرے دل میں تیری یاد
    خوشبو بن کے بکھر رہی ہے
    بادل بن کے برس رہی ہے
    رنگت بن کے سنور رہی ہے
    جیون بن کے بسر رہی ہے
     
  16. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    بہت خوب۔ نعیم بھائی!
    ---------------------------------------

    میری ایک پسندیدہ غزل حاضر ہے۔ غور کیجیئے گا۔ ارے! آپ سے کہہ رہا ہوں۔



    یہ دِکھاوے کا پیار کتنے دن؟
    دوست یہ کاروبار کتنے دن؟

    یہ جو اِنکار کرتے رہتے ہو
    اِس طرح میرے یار کتنے دن؟

    میں‌نے مانا کہ خوبصورت ہو
    جانِ جاں یہ بہار کتنے دن؟

    سوچتا ہوں ترے حوالے سے
    اب یہ صبر و قرار کتنے دن؟

    میں مکمل اُداس تھا لیکن
    تم رہے سوگوار کتنے دن؟

    کتنے دن روئیں‌گی مری آنکھیں
    رنج و غم کا شمار کتنے دن؟

    موم ہونا پڑے گا پتھر کو
    یہ انا کا حصار کتنے دن؟

    تجھ کو تو بھولنے کی عادت ہے
    پھر تِرا اعتبار کتنے دن؟

    خود ہی رُخصت کِیا اُسے عامر
    پھر کِیا انتظار کتنے دن؟​
     
  17. سجیلا
    آف لائن

    سجیلا ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جنوری 2007
    پیغامات:
    110
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ::

    ہر چند زندگی کا سفر مشکلوں میں ہے
    انسان کا عکس پھر بھی کئی آئینوں میں ہے

    آہو کی طرح جست لگا ہر کرن کے ساتھ
    جگنو کے گرد تیز ھوا جنگلوں میں ہے

    وہ جنگِ زرگری ہے کہ محشر بپا ہوا
    ہر شخص ایک عمر سے اگلی صفحوں میں ہے

    تجھ کو سکوں نہں ہے تو مٹی میں ڈوب جا
    آباد اک جہاں زمیں کی تہوں میں ہے

    کیسا تضاد ہے کہ فضا ہے دھواں دھواں
    اور آگ ہے کہ زیرِ زمیں خندقوں میں ہے

    انسان بے حِسی سے ہے پتھر بنا ہوا
    منہ میں زبان بھی ہےَ َ،لہو بھی رگوں میں ہے

    تہذیب کو تلاش نہ کر شہر شہر میں
    تہذیب کھنڈروں میں ہے ،کچھ پتھروں میں ہے!
     
  18. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    بہت خوب۔ سجیلا جی! بہت ہی اچھا انتخاب ہے۔
     
  19. سجیلا
    آف لائن

    سجیلا ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جنوری 2007
    پیغامات:
    110
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ::

    عجیب طرح سے سوچا ہے ذندگی کے لیئے
    کہ ذخم ذخم میں کھیلتا ہوں ہر خوشی کے لئیے

    وہ مجھ کو چھوڑ گیا تو یقین آیا مجھے
    کوئی بھی شخص ضروری نہں کسی کے لیئے

    سوال یہ ہے کہ اس نے کبھی نہں پوچھا
    کہ آپ سوچتے کیسے ہیں شاعری کے لیے؟

    اسے خبر ہے کہ اس کا کوئی نہیں ہے اپنا
    ایک آشنائی بھی کافی ہے اجنبی کے لیے

    خطا کسی کی ہو لیکن سزا کسی کو ملے
    یہ بات جبر نے چھوڑی ہے ہر صدی کے لیے

    یہ سادگی تھی میری یا کہ چاہت تھی
    کہ ھم نے خود کو پیش کیا دل لگی کے لئے!
     
  20. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    بہت خوب۔
     
  21. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    محبت کی قسم ایسا نہیں تھا
    وہ اپنا تھا مگر لگتا نہیں تھا

    مرے زخموں سے خوں رستا نہیں تھا
    میں بسمل تھا مگر لگتا نہیں تھا

    وفا مُشکل نہیں مُشکل کُشا ہے
    بس اُس کے پاس یہ نعرہ نہیں تھا

    نجانے کیوں نہ آیا مُجھ سے ملنے
    زمانے سے تو وہ ڈرتا نہیں تھا

    ترے جلوے تھے آنکھوں میں سمائے
    اگرچہ ساتھ آئینہ نہیں تھا

    تبسم کی بُری عادت تھی اُس کو
    وہ مجھ کو دیکھ کر ہستا نہیں تھا

    وہ ہر اِک بات پر گردن ہِلانا
    وہ کہتا کیا پتا چلتا نہیں تھا

    دیا ہے ساتھ اُس نے ہر قدم پر
    غلط ہے میں کبھی تنہا نہیں تھا

    ہر اِک جلوہ نظر آتا تھا اُس میں
    خُدا جانے وہ کیا تھا کیا نہیں تھا

    محبت کے لئے ہے ظرف لازم
    یہ کمتر لوگوں کا شیوہ نہیں تھا

    وہ کرتے پِھرتے ہیں اووروں کا چرچا
    مِرے محبوب کو دیکھا نہیں تھا

    مجھے تکتا تھا یوں ہر دم کہ جیسے
    تھا آئینہ مِرا چہرہ نہیں تھا

    بہت تاثیر تھی باتوں میں اُس کی
    کہ وہ محتاج منتر کا نہیں تھا

    کِیا تھا وقت رخصت اِک اشارہ
    میں سمجھا تھا کہ وہ سمجھا نہیں تھا

    مرے دل میں ہے قنبر اُس کی اُلفت
    جو میرا تھا مرے جیسا نہیں تھا


    (ڈاکٹر قنبر دہلوی)​
     
  22. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
  23. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    عبدالجبار بھائی۔ سجیلہ جی اور مسزمرزا باجی ۔ آپ سب کے خوبصورت کلام پڑھ کر مزہ آگیا۔

    میں بھی اپنی تازہ غزل پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں


    کوئی محفل نہ کوئی جلوہء چلمن دیکھا
    میری آنکھوں نے یہاں کوئی نہ گلشن دیکھا‌

    سونگھ لی بوئے گلِ ماضی تو ہم نےلیکن
    تشنہ دھرتی نے نہیں ‌نقشہء ساون دیکھا

    سارے صیاد ، نگہ بانی کو اپنی آئے
    ہم نے بہروپِ سجن میں بھی ہے دشمن دیکھا

    میرے قاتل نے پسِ دفن دعا دی مجھ کو
    ایسا ہمدرد زمانے میں نہ محسن دیکھا

    جاؤ بازارِ محبت کو مگر دھیان رہے
    جو بھی دھنوان بنا ہم نے تو نردھن دیکھا

    عمر یوں‌ آبلہ پائی میں‌ ہے گذری اپنی
    جیسے ہی آنکھ کھلی سامنے درپن دیکھا

    کیسے سمجھاؤں گا اٹکھیلیاں بچوں کو رضا
    میں نے بچپن کے دنوں میں بھی نہ بچپن دیکھا‌

    (نعیم رضا 2007-04-27)​
     
  24. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    بہت خوب۔ نعیم بھائی! آپ کی ذاتی شاعری کی لڑی میں بھی یہ غزل نظر سے گُذری۔ اچھی تخلیق ہے۔
     
  25. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    بہت خوب۔ لگتا ہے نعیم صاحب معاشرتی تناظر میں خاصے حساس واقع ہوئے ہیں۔

    لیکن خوب اشعار ہیں۔
     
  26. سجیلا
    آف لائن

    سجیلا ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جنوری 2007
    پیغامات:
    110
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ::

    اس جہاں میں خوشی سے زیادہ ہے غم
    قہقوں سے پوچھ لو
    آنسوؤں سے پوچھ لو

    سیدھے راستے ذیادہ ہیں کہ پیچ وخم
    حادثوں سے پوچھ لو
    منزلوں سے پوچھ لو

    زندگی پہ یوں تو ہر کوئی نثار ہے
    آدمی کو آدمی سے کتنا پیار ہے
    کون کس کے واسطے ہے محترم
    دوستوں سے پوچھ لو
    دشمنوں سے پوچھ لو

    ان ہی خوبیوں میں ہیں خرابیاں بڑی
    وقت سے کریں خطاب روک کر گھڑی
    بے حسی بھی کھا رہی ہے ہوش کی قسم
    نیتوں سے پوچھ لو
    مقصدوں سے پوچھ لو

    کس کے دل کی آگ نے ضمیر کو چھوا
    کون اپنے سامنے جواب دہ ہوا
    جرم بے شمار ہیں ،عدالتیں ہیں کم
    مجرموں سے پوچھ
    منصفوں سے پوچھ لو!
     
  27. سجیلا
    آف لائن

    سجیلا ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جنوری 2007
    پیغامات:
    110
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ::

    وہ پانی کی لہروں پہ کیا لکھ رہا تھا
    خدا جانے حرفِ دعا لکھ رہا تھا

    محبت میں نفرت ملی تھی اسے بھی
    جو ہر شخص کو بے وفا لکھ رہا تھا

    لکھا جس نے ناول وفا کا ادھورا
    وہی پیار کی انتہا لکھ رہا تھا

    بھلا کرتے کرتے گزاری زندگی
    مگر پھر بھی خود کو برا لکھ رہا تھا

    زرا اس کی آنکھوں سے آنسو نہ نکلے
    جس وقت وہ لفظِِ سزا لکھ رہا تھا

    نمازِ محبت میں وہ اپنے
    ہوئے تھے جو سجدے قضا لکھ رہا تھا!
     
  28. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب

    سجیلا جی ، نعیم بھائی، عبدالجبار بھائی اور مسزمرزا جی

    آداب عرض ھے
    کیا خوبصورت آپلوگوں کی کلیکشن ھے ، جواب نہیں بہت زبردست شعر ھیں
    آپ سب تو اس محفل کی جان ھیں،
     
  29. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    آنکھوں کو التباس بہت دیکھنے میں تھے
    کل شب عجیب عکس میرے آئینے میں تھے

    ہربات جانتے ہوئے دل مانتا نہ تھا
    ہم جانے اعتبار کے کس مرحلے میں تھے

    وصل و فراق دونوں ہیں اک جیسے ناگزیر
    کچھ لُطف اسکے قرب میں، کچھ فاصلے میں تھے

    چھو لیں اسے کہ دور سے بس دیکھتے رہیں
    تارے بھی رات میری طرح مخمصے میں تھے

    جگنو، ستارے، آنکھ، صبا ، تتلیاں، چراغ
    سب اپنے اپنے غم کے کسی سلسلے میں تھے

    امجد کتابِ جان کو وہ پڑھتا بھی کس طرح
    لکھنے تھے جتنے لفظ ابھی حافظے میں تھے

    (امجد اسلام امجد)​
     
  30. سجیلا
    آف لائن

    سجیلا ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جنوری 2007
    پیغامات:
    110
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ::

    تیرے میرے درمیاں کوئی رشہ تو ہوتا
    دوریوں کا سہی ، سلسلہ تو ہوتا

    وہ اڑانوں کا تسلسل، پھر یہ پستی مسلسل
    ہم جس سے جا ملتے قافلہ تو ہوتا

    تم بھی کرتے معلوم ، ھم کیوں ہیں مغموم
    صرف ایک بار یہ حادثہ تو ہوتا

    تیری عدالت میں، تیری رفاقت میں
    میرے حق میں نہ سہی فیصلہ تو ہوتا

    اقف کے تمنائی کو، اذل کے ہرجائی کو
    ابد تک بچھڑنے کا سلیقہ تو ہوتا!
     

اس صفحے کو مشتہر کریں