1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پاکستان میں تبدیلیء نظام نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏8 مئی 2009۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    السلام علیکم ۔
    راشد بھائی کی ایک خوبصورت دردمندانہ تحریر پڑھ کر دل کے زخم ہرے ہوئے تو کچھ دکھ بھرے الفاظ‌ صفحہء قرطاس پر بکھر گئے ۔ اسکو ایک نئی لڑی میں بنا کر پیش کردیتا ہوں ۔۔۔

    شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات

    راشد بھائی نے انقلابِ فرانس کی بنیاد کی طرف اشارہ کیا تھا کہ محض ایک غریب کو مارنے پر قوم کے اندر غم و غصہ کی آگ بھڑکی اور وہی ظالمانہ نظام کو بدل دینے کی بنیاد بن گئی ۔ واقعی ایسا ہی ہوا تھا ۔

    تاریخ سے واقف احباب کے علم میں ہوگا کہ چین کا انقلاب بھی کچھ ایسی ہی بنیاد سے اٹھا تھا جہاں پر عوام کو طویل عرصے سے بنیادی حقوق سے محروم رکھ کر عملاً ذلت کی غلامی کی طرف دھکیل دیا گیا تھا۔ بادشاہ و امراء عیاشیاں کرتے تھے اور عوام روٹی کے لقمے کو ترستے تھے۔

    ایک روز بادشاہ یا گورنر کے خانسامے بازار میں گوشت خریدنے آئے تو انکے ساتھ ایک کتا بھی تھا۔ بادشاہ کے نوکروں نے گوشت اور دیگر اشیائے خوردونوش خریدیں اور کھانے کا ایک ٹکڑا کتے کے آگے ڈال دیا ۔ قریب ہی ایک بوڑھی خاتون کئی دن سے بھوکی تھی ۔ اس نے جب کتے کو اعلی خوراک کھاتے دیکھا تو صبر نہ کر سکی اور کتے سے خوراک کا ٹکڑا چھین لیا ۔ اس پر بادشاہ کے نوکروں میں سے کسی نے بندوق کا بٹ اس بوڑھی عورت کا مارا جس سے وہ مر گئی ۔
    بس اسی واقعے سے عوام کے اندر اس شاہی نظام کے خلاف نفرت کا ایسا لاوا اٹھا جو بعد ازاں عظیم انقلاب پر منتج ہوا۔

    لیکن ہمارے ہاں ، اس قوم کے مقدر سے کھیلنے والوں نے بڑی سازش کر رکھی ہے۔ یہاں عوامی لاوے کو پک کر اس درجہ فارن ہائیٹ پر نہیں پہنچنے دیا جاتا کہ جہاں یہ لاوا اس ظالمانہ نظام کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جانا والا بن جائے۔ بلکہ یہاں پر کبھی جمہوریت اور کبھی آمریت کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے۔ عوام کچھ عرصہ پِس جانے کے بعد جب اس نظام سے بیزار ہونے لگتی ہے تو فوراً عالمی اور ملکی میڈیا کے ذریعے اس وقت کے حکمران کو ہٹا کر اسکی جگہ کوئی چہرہ، کوئی اور نعرہ، کوئی اور منشور عوام کے سامنے رکھ کر عوام کے اسکے پیچھے لگا دیا جاتا ہے۔

    کبھی روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر عوام کے اپنے پیچھے لگایا گیا۔ پھر قوم مایوس ہوگئی کہ غیر دینی لوگوں سے کچھ نہ ملا تو اچانک ایک آمر امیر المومنین بن کر سامنے آگئے ۔ 11 سال تک عوام کو شریعت کی خوشخبریاں سناتے رہے۔ شرعی عدالت بھی بنا ڈالی لیکن شرعی عدالت کو حکم دے دیا کہ آپ اگلے 11 سال تک ملک کے سودی نظام کو نہیں چھیڑ سکتے۔ یہ شریعت کے ساتھ کھلا مذاق تھا ۔ جب اس فوجی امیر المومنین سے کچھ نہ ملا اور عوام مایوسی کا شکار ہوئے تو اچانک سی-130 کا حادثہ ہوا اور قوم کو جمہوریت کی خوشخبری سنا ڈالی گئی ۔ پھر دو بہن بھائی باری باری جمہوریت اور اسلام کے نام پر قوم کو لوٹتے چلے گئے۔ عوام فٹ بال کی طرح کبھی ایک کی تو کبھی دوسرے کی جھولی میں گرتی رہی۔ پھر جب عوام اس کھیل کو بھی کچھ کچھ سمجھنا شروع ہوگئے تو ان دونوں بہن بھائیوں کو ملک بدر کرکے " کارگل کے مجاہد "‌سامنے لائے گئے جنہوں نے 8 سال اس قوم کو روشن خیالی کے نام پر بدترین دفاعی و معاشی غلامی میں‌جکڑ کر رکھ دیا۔ عوام کا حافظہ کمزور ہونے کے بعد پھر مخصوص حالات پیدا کرکے میثاقِ جمہوریت کے ذریعے قوم دوبارہ بہن بھائیوں کے چکر میں پھنسا دی گئی ۔ اور آج کل زرداری صاحب جیسے " مخلص اور محب وطن " دشمن سے واسطہ پڑا ہوا ہے ۔ دیکھیے اس کے بعد عوام کا نجات دہندہ کون بنتا ہے ۔۔۔

    کہنے کا مطلب یہ کہ جب بھی عوام کے اندر اس جابرانہ ظالمانہ نظام سے نفرت کے جذبات پنپنے لگتے ہیں تو اچانک قوم کے سامنے کوئی چہرہ، کوئی نعرہ یا کوئی منشور لا کر رکھ دیا جاتا ہے اور عوام کو میڈیا اور دیگر ذرائع سے یہ باور کروایا جاتا ہے کہ اب تیرے دکھوں‌کا مداوا اسی نئے نجات دہندہ کے پاس ہے ۔۔۔ سادہ لوح عوام کے جذبات ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں اور وہ نئے نجات دہندہ سے امیدیں وابستہ کرکے اسی کے پیچھے چل پڑتی ہے۔

    قربان جائیں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی بصیرت اور دور اندیشی کے ۔ جنہوں نے آج سے پون صدی قبل اس ظالمانہ کھیل کی طرف اشارہ فرما دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ مندرجہ ذیل اشعار پڑھیے ۔۔ غور کیجئے۔۔ پھر سے پڑھیے۔۔ غور کیجئے

    خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
    پھر سلا دیتی ہے اسکو ، حکمراں کی ساحری

    گرميء گفتارِ اعضائے مجالس الاماں
    ! يہ بھي اک سرمايہ داروں کي ہے جنگِ زرگري

    اس سرابِ رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو
    آہ ! اے ناداں قفس کو آشياں سمجھا ہے تو


    اللہ تعالی ہمیں بطور قوم ، اپنے برےبھلے کی تمیز اور حق کا ساتھ دینے کی توفیق عطا کرے۔ آمین

    والسلام
     
  2. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شکریہ نعیم بھائی

    بہت اچھی تحریر ہے۔

    نعیم بھائی صورت حال ایسی ہی ہے۔ یہ ڈرامہ پچھلے 62 سال سے چل رہا ہے لیکن یہ ڈرامہ اب اختتام کی طرف گامزن ہورہا ہے۔ ہماری نئی نسل پچھلی نسل کی نسبت پڑھی لکھی اور باشعور ہے۔ تعلیم جہاں انسان کو شعور دے رہی ہے، وہاں اب میڈیا، اخبارات، انٹرنیٹ نے لوگوں میں مزید شعور بیدار کیا ہے۔ پچھلے کئی الیکشنوں سے ووٹنگ ٹرن آؤٹ 45 فیصد سے بھی کم ہے۔ اگر یہ ٹرن آؤٹ 33 فی صد سے بھی کم ہوجائے تو الیکشن کالعدم قرار دیدیا جاسکتا ہے۔

    ہمارے ہاں سب سے افسوس ناک الیکشن کا نظام ہے جس کے بارے میں نعیم بھائی ایک علیحدہ تھریڈ میں بتاچکے ہیں۔
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    بہت شکریہ راشد بھائی ۔
    خدا کرے کہ ہمارا قومی شعور جلد بیدار ہوجائے۔ آمین
     
  4. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    راشد جی آپ کا انداز بھی بہت ملتا جلتا ھے :mashallah: اچھا لکھتے ھیں‌آپ
     
  5. نیلو
    آف لائن

    نیلو ممبر

    سلام عرض‌ہے ۔
    بالکل حقیقت یہی ہے ۔
    کاش ہم بانی پاکستان اور مصورِ پاکستان کی ہدایات پر ہی عمل کر لیتے۔
     
  6. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
    ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی
     
  7. وقاص قائم
    آف لائن

    وقاص قائم ممبر

    ماشاءاللہ موضوع کا انتخاب تو خوب کیا ہے۔
    پچھلے 62سالوں سے عوام دھوکا کہا رہے ہیں اور اللہ کے رسول :saw: فرماتے ہیں" مومن کبھی بھی کسی ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں ڈسا جاسکتا" مگر عوام الناس کا معاملہ کیا ہے 62 سال سے ایک ہی دشمن سے دھوکا کہا رہے ہیں۔ مگر اب مسئلہ اور بھی ذیادہ سنگین ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ، میں اور ہم سب یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ان انتخابات کے نتیجے میں صرف شکلیں بدلتی ہیں، حالات نہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے پچھلے اگلے تمام حکمران قوم کے غدار کی حیثیت سے ذیادہ کچھ اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔ اور ہم سب اس سارے سسٹم سے بیزار ہیں اور ہم اس کے خلاف باتیں بھی کرتے ہیں مگر عملی طور پر کچھ نہیں کرتے ۔ ہم سب اپنی کرسیوں پر ٹیک لگا کر اخبار پڑھتے ہیں‌اور بولتے ہیں کہ ان حکمرانوں کو تو گولی مار دینی چاہیے مگر سوال یہ ہے کہ مارے کون ۔ اگر بات کی ہے انقلاب کی تو سوال یہ ہے کہ یہ انقلاب آئے گا کیسے اور کیا آپ اس کے لئے تیار ہیں۔ اس کی نوعیت کیا ہوگی اس کی شروعات کیسے کی جائے؟؟؟؟
    سیدھی سی ایک مثال ہے کہ اگر بریانی کھانی ہے تو بریانی پہلے پکانی پڑے گی اور اس کے پکانے میں محنت بھی لگے گی اور پیسہ بھی۔
    اب آپ یہ بتائیں کہ کیا یہ عوام خود اپنے ساتھ مخلص ہے کیا یہ انقلاب چاہتی ہے؟؟
     
  8. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    ان کا متبادل نظر آئے تو گولی بھی مار دیں قائم جی ،
     
  9. وقاص قائم
    آف لائن

    وقاص قائم ممبر

    ماشاءاللہ موضوع کا انتخاب تو خوب کیا ہے۔
    پچھلے 62سالوں سے عوام دھوکا کہا رہے ہیں اور اللہ کے رسول :saw: فرماتے ہیں" مومن کبھی بھی کسی ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں ڈسا جاسکتا" مگر عوام الناس کا معاملہ کیا ہے 62 سال سے ایک ہی دشمن سے دھوکا کہا رہے ہیں۔ مگر اب مسئلہ اور بھی ذیادہ سنگین ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ، میں اور ہم سب یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ان انتخابات کے نتیجے میں صرف شکلیں بدلتی ہیں، حالات نہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے پچھلے اگلے تمام حکمران قوم کے غدار کی حیثیت سے ذیادہ کچھ اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔ اور ہم سب اس سارے سسٹم سے بیزار ہیں اور ہم اس کے خلاف باتیں بھی کرتے ہیں مگر عملی طور پر کچھ نہیں کرتے ۔ ہم سب اپنی کرسیوں پر ٹیک لگا کر اخبار پڑھتے ہیں‌اور بولتے ہیں کہ ان حکمرانوں کو تو گولی مار دینی چاہیے مگر سوال یہ ہے کہ مارے کون ۔ اگر بات کی ہے انقلاب کی تو سوال یہ ہے کہ یہ انقلاب آئے گا کیسے اور کیا آپ اس کے لئے تیار ہیں۔ اس کی نوعیت کیا ہوگی اس کی شروعات کیسے کی جائے؟؟؟؟
    سیدھی سی ایک مثال ہے کہ اگر بریانی کھانی ہے تو بریانی پہلے پکانی پڑے گی اور اس کے پکانے میں محنت بھی لگے گی اور پیسہ بھی۔
    اب آپ یہ بتائیں کہ کیا یہ عوام خود اپنے ساتھ مخلص ہے کیا یہ انقلاب چاہتی ہے؟؟
     
  10. عبدمنیب
    آف لائن

    عبدمنیب ممبر

    اب آپ یہ بتائیں کہ کیا یہ عوام خود اپنے ساتھ مخلص ہے کیا یہ انقلاب چاہتی ہے؟؟




    جواب ہے

    نہیں
     
  11. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    بھائی ماریں کیسے ان کی تو ماشاء اللہ سیکیورٹی اتنی ہوتی ہے کہ آپ قریب بھی پھٹک نہیں سکتے۔آگے پیچھے، دائیں بائیں گاڑیاں اور کمانڈوز، جس راستے سے گزرتے ہیں وہاں سیکیورٹی، بلٹ پروف گاڑیاں، کبھی آپ نے سوچا کہ یہ لوگ اتنی سیکیورٹی کیوں‌ہوتی ہے؟

    کیونکہ یہ اندر ہی اندر ڈرتے ہیں کہ کہیں انہیں عوام مار ہی نہ ڈالے۔ اگر آج یہ سیکیورٹی نہ ہو تو یہ پتہ نہیں کب کے جہنم واصل ہوچکے ہوتے۔

    دنیا میں کوئی بھی قوم پہلے بے حس ہوتی ہے پھر اس میں‌غصہ، نفرت آتی ہے اور پھر مارکٹائی۔ ہم میں بھی غصہ اور شدت آگیا ہے۔‌ذرا آپ اپنے آس پاس دیکھیں کہیں وکیل، کہیں مزدور، کہیں کسان، کہیں اساتذہ، کہیں کلرک اور کہیں‌غربت سے پسی عوام احتجاج کررہی ہے تو کہیں لوڈ شیڈنگ سے متاثرہ مزدور۔ لیکن ایسی خبریں ہمیشہ یا تو اخبار کےبیک پیج پر ہوتی ہیں یا اندرونی صفحات پر اور وہ بھی چھوٹے سائز میں۔بجلی بند ہوجائے تو لوگ قریبی گرڈ اسٹیشن فون کرکے گالیاں دیتے ہیں، گٹر میں کوئی گر جائے تو سڑکیں بلاک۔

    یہ سب اتنی جلدی نہیں ہوگا لیکن جب ہوگا تو بہت برا ہوگا۔
     
  12. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    کیا سچ مچ ہمیں کسی انقلاب کی ضرروت ھے ا سکے بنا کیا نظام میں تبدیلی کی کوئی صورت نہیں :soch: :soch: :soch: :soch:
     
  13. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    جی ہاں اس کے بغیر تو ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔
     
  14. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    نظام میں تبدیلی کب تک آ‌سکے گی
     
  15. وقاص قائم
    آف لائن

    وقاص قائم ممبر

    بھائی راشد میں نے تو محاورتا کہا تھا کیوں گولی مارنے کو تیار ہوگئے اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم صرف لفاظی کرتے ہیں۔
    دوسری بات ہماری قوم کو احساس ہے وہ یہ جانتی ہے کہ کیا غلط ہےاور وہ یہ بھی بخوبی جانتی ہے کہ انقلاب کے علاوہ کوئی دوسرا حل نہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہ عملا قدم بڑھانے کے لئے تیار نہیں۔انقلاب کی طرف پہلا قدم ہمیں بڑھانا ہی ہو گا مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ اس بات کا تعین کیا جائے کہ اس انقلاب کی نوعیت اور ہیئت کیا ہو گی۔وہ انقلاب کون سا ہوگا۔ جمہوری انقلاب، اشتراکی یا اسلامی انقلاب۔ اور اس کی تکمیل کے کیا کیا مراحل ہوں گے۔ وہ کیا نظریہ ہو گا جس کی بنیاد پر ہم سب جمع ہوں گے؟؟؟
    اصل کام یہ ہے کہ ہمیں سب سے پہلے اپنی قوم کی ذہن سازی کرنی ہے مگر اس سے پہلے اپنے آپ کو فکری مستحکم کرنا پڑے گا۔
     
  16. وقاص قائم
    آف لائن

    وقاص قائم ممبر

    دنیا میں کوئی بھی انقلاب ایسا نہیں ہے جو کہ کسی فردَ واحد کی کوششوں کے نتیجے میں یا اس کی اپنی زندگی میں آگیا ہو۔ اس کے لئے نسلیں چاہیں ۔ اور ہم پاکستان کی تیسری یا چوتھی نسل ہیں
     
  17. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    مگر اس کے لئے کوشش تو کی جا سکتی ھے اور اجتماعی کوششیں ہی کامیاب ہوتی ھیں
     
  18. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    دنیا میں کوئی بھی انقلاب ایسا نہیں ہے جو کہ کسی فردَ واحد کی کوششوں کے نتیجے میں یا اس کی اپنی زندگی میں آگیا ہو۔ اس کے لئے نسلیں چاہیں ۔ اور ہم پاکستان کی تیسری یا چوتھی نسل ہیں[/quote:1fzkx2tu]

    وقاص بھائی
    اس وقت سب سے زیادہ شعوروالی ہماری نسل ہے۔ ہمارے بعد میں‌آنیوالی نسل مزید باشعور ہوگی۔
     
  19. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    دنیا میں کوئی بھی انقلاب ایسا نہیں ہے جو کہ کسی فردَ واحد کی کوششوں کے نتیجے میں یا اس کی اپنی زندگی میں آگیا ہو۔ اس کے لئے نسلیں چاہیں ۔ اور ہم پاکستان کی تیسری یا چوتھی نسل ہیں[/quote:1914gw2c]

    وقاص بھائی
    اس وقت سب سے زیادہ شعوروالی ہماری نسل ہے۔ ہمارے بعد میں‌آنیوالی نسل مزید باشعور ہوگی ۔[/quote:1914gw2c]
    ماشاءاللہ ۔۔۔۔
    گویا آپ فرما رہے ہیں کہ پاکستان بنانے والی نسل، قائد اعظم اور علامہ اقبال رحمھما اللہ کا دست و بازو بننے والی نسل سے بھی آپ کی یہ نسل زیادہ باشعور ہوگئی ہے ؟؟ جس نے زرداری جیسے شخص کو صدر پاکستان اور نواز شریف و دیگر دو دو تین تین بار آزمائے ہوئے سیاستدانوں کو پھر سے ایوانوں میں پہنچا دیا ہے اور بٹھا دیا ہے ؟

    انا للہ وانا الیہ راجعون
     
  20. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    خوشی صاحبہ کے سوال کے جواب میں ایک عرض کرنا چاہتا ہوں کہ انقلاب کے لفظی معنی ہی تبدیلی کے ہیں۔ مکمل طور پر رخ تبدیل کرلینا۔ یا اپنے پیروں پر پوری طرح مڑ جانا ہوتے ہیں۔

    اب یہ تبدیلی کیسے آتی ہے۔۔ ووٹ کے ذریعے، عوامی احتجاج کے ذریعے، گولی کے ذریعے، خون خرابے کے ذریعے یا جنگ و جدل کے ذریعے۔۔۔۔ یہ سب تبدیلی لانے کے راستے ہیں۔ جو کہ انقلاب لانے والی قیادت کی ذہنیت، وسائل، معروضی حالات اور وقت کی ضرورت کے تحت اختیار کیے جاتے ہیں۔

    انقلابِ ایران کے بعد سے اکثر لوگوں کے ذہن انقلاب سے مراد خون خرابا اور ہزاروں لاکھوں لوگوں کا قتل لیا جاتا ہے۔ حالانکہ وہ صرف ایک سوچ تھی ۔

    ورنہ
    ۔۔۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت میں بغیر جنگ کے فتح مکہ ہوجانا بھی ایک انقلاب تھا۔
    ۔۔۔قائد اعظم :ra: کی قیادت میں پاکستان بن جانا بھی ایک انقلاب تھا۔
    ۔۔۔ ماضی قریب میں ووٹ کی طاقت کے ذریعے ابامہ جیسے سیاہ فام کا امریکہ کی تاریخ میں صدر بن جانا بھی ایک انقلاب ہے۔

    اسی طرح اگر قوم کا شعور بیدار ہوجائے اور وہ متحد ہوکر اپنا نصیب بدلنے کا عزم کرلے اور خوش قسمتی سے اچھی قیادت بھی دستیاب ہوجائے ۔۔۔ تو پھر بغیر خون خرابے کے بھی نظام کی تبدیلی ممکن ہے۔

    لیکن وقاص قائم بھائی کی بات بالکل درست ہے کہ ہمیں اس تبدیلی کا آغاز انفرادی سطح سے ۔۔ اپنی ذات سے کرنا ہوگا۔ ۔ خود کو انقلاب کے لیے تیار اور آمادہ کرنا ہوگا۔۔۔ نیک، صالح ، اہل، مخلص اور محب وطن قیادت کی پہچان ہمیں کرنا ہوگی۔۔ اس باطل نظام سے نفرت کی آگ ہمارے دلوں میں جلنی چاہیے اور ایک جدید فلاحی اسلامی ریاست کے قیام کی خواہش ہمارے دلوں میں پیدا ہونی چاہیے۔۔۔ پھر اس خواہش پر عمل درآمد کا جذبہ اور مضبوط قوتِ عمل ہمارے پاس ہونا چاہیے۔۔۔ پھر اللہ تعالی مدد فرمائے گا اور عظمت و وقار کے سارے رستے خود بخود آسان ہوتے چلے جائیں گے۔
     
  21. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    نعیم بھائی میری بات کا غلط مطلب نہ لیں۔ میں اقبال اور قائداعظم کی نسل کی تو بات نہیں‌کررہا۔ہم تو ان کے پیروں کی خاک بھی نہیں ہیں۔ یہ تو انہی کا احسان ہے کہ ہم اس ملک میں بیٹھے ہوئے ہیں۔آپ تو اتنی دور پہنچ گئے ہیں جہاں میرے وہم وگمان میں بھی نہیں۔

    میں تو اس نسل کی بات کررہاہوں ‌جو بے نظیر اور نواز شریف کو غلط حکمران ہونے کے باوجود منتخب کراتے رہے۔ اس کے بعد کی نسل کی میں بات کررہا ہوں جو موجودہ چل رہی ہے۔

    میں کبھی ایک طرف کی بات نہیں کرتا ورنہ مایوسی اور منفی سوچ کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔بے نظیر اور نواز کو زیادہ ووٹ کن لوگوں نے دئیے؟ شہر کے لوگوں نے؟
    پاکستان کی 70 فی صد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے اور یہ آبادی پسماندہ اور ان پڑھ ہے۔ اس کے علاوہ برادری ازم اور جاگیرداری نظام نے ان کے ذہن کو جکڑ دیا ہے۔ یہی 70 فی صد آبادی ووٹوں سے ان ٹولوں کو منتخب کرتی ہے۔ باقی رہی ووٹنگ ٹرن آوٹ کی بات تو اس طرف کوئی توجہ ہی نہیں دیتا یہ ٹرن آؤٹ اب کم ہونا شروع ہوگیا ہے یعنی 45 فی صد کے لگ بھگ جس کا مطلب ہے کہ 55 فی صد کا خیال ہے کہ ووٹ کا غلط استعمال ہوتا ہے اس لئے ووٹ دینا بے سود ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر جعلی ووٹس نہ پڑیں تو یہ ٹرن آؤٹ اور کم ہوجائے گا۔

    اگر ووٹنگ ٹرن آؤٹ 33 فی صد سے کم ہوجائے تو وہ الیکشن شمار نہیں ہوگا جس دن پاکستان میں یہ صورت حال ہوگئی اس دن پاکستان کا سیاسی نظام خود ان سیاستدانوں کے سامنے سوالیہ نشان بن جائے گا۔

    2008 میں لوگوں نے ق لیگ بری طرح ہاری اس کی وجہ ان کی عوام دشمن پالیسیاں تھیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ پی پی آئندہ جیت جائے گی تو اس کا جواب یہ ہے کہ ق لیگ سے بھی عبرتناک انجام ہوگا۔ بعض کا خیال ہے کہ پھر ن لیگ آجائے گی۔ اگر آبھی جائے گی تو پچھلی دونوں جماعتیں ان کے لئے عبرت ہوں گی۔ اگر اس عبرت سے وہ بھی نہ سبق سیکھیں گے تو وہ بھی اسی کوڑے کی ٹوکری میں جائیں گے جس میں یہ دونوں گئی ہیں۔

    اگر مارشل لاء ہمارے ملک کا رخ نہ کرتے تو ان کا پتا کب کا صاف ہوچکا ہوتا لیکن ان کا تحفظ مارشل لاء نے کیا ہے۔ لیکن باربار عوام کو بے وقوف بنانا پہلے کی نسبت آسان نہیں‌رہا۔ اب انٹرنیٹ، میڈیا، موبائل نے ہمیں بہت باشعور بنادیا ہے۔ ہماری نسل میں ایک نظام کی تبدیلی کی ایک چنگاری نے جنم لے لیا ہے جو کسی بھی وقت آگ بن سکتی ہے۔

    مزید لکھنا چاہتا ہوں کمی وقت کے باعث مزید نہیں لکھ سکتا۔
     
  22. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    انقلاب کسی بڑی تبدیلی کو کہتے ھیں چھوٹی موٹی تبدیلی جو حالات کو قدرے بہتر بنا دے اسے‌آپ انقلاب نہیں کہہ سکتے ، بہر حال لفظوں کے معنی آپ کو :mashallah: آتے ھیں
     
  23. وقاص قائم
    آف لائن

    وقاص قائم ممبر

    انقلاب کی تعریف محترم نعیم صاحب نے ایک حد تک بیان فرمادی مگر ابھی بھی نامکمل ہے۔ انقلاب کہتے ہیں انسانی زندگی کے اجتماعی گوشوں یعنی سیاست، معاشرت اور معیشت میں سے کسی ایک میں یا پھر تینوں میں یکسر تبدیلی پید اہو جانا یا اپنے پیرو ں پر یکسر پلٹ جانا۔ اگر تبدیلی چاہے وہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ کسی انفرادی گوشے میں ہے تو اس کو انقلاب نہیں کہیں گے۔
    دوئم یہ کہ ہمیں اپنے آپ کو تو لازما تیار کرنا ہی ہوگا مگر بات صرف اپنی ذات سے نہیں بنے گی بلکہ ہمیں اپنی ذات سے شروعات کر کے پوری قوم کو جگانا ہوگا یا پھر ایک بڑی تعداد کو اس طرف موڑ نا ہوگا۔
    سوئم قائد اعظم کی نسل نے اسلامی انقلاب کا بیج بویا تھا یعنی ایک ایسا خطہ مہیا کیا تھا جس میں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں اب اس بیج کو تناور درخت بننا چاہیے۔ اور اگر یہ درخت نا بنا تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اسکی دیکھ بھال صحیح نہیں کر رہے۔ اگر ہمیں‌اپنی نسل کو کامیاب بنانا ہے تو اس انقلاب کو درخت بنانا ہی پڑے گا۔ سو کام کرو میرے ساتھیوں
     
  24. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    السلام علیکم۔ راشد بھائی وضاحت کا شکریہ ۔
    لیکن اس وضاحت میں بھی کم از کم مجھے آپ موجودہ نسل کے " باشعور ترین" ہونے پر قائل نہیں کر سکے۔ :hasna:

    پہلی بات تو یہ کہ علمِ عمرانیات کی رو سے ایک نسل کو اگلی نسل تک منتقل ہونے کے لیے 30-40 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے جبکہ نواز شریف و بےنظیر کی سیاسی ہاتھا پائی اور باری باری اقتدار میں آنا ابھی 15-18 سال پرانی بات ہے۔

    بالفرض بقول آپکے پچھلی نسل نے نواز شریف و بےنظیر جیسے غلط حکمرانوں کو منتخب کیا ۔ مجھے آپ یا کوئی صاحبِ شعور ایمانداری سے بتا دے کہ زرداری ان دونوں‌سے بہتر ہے یا بدتر ہے ؟
    موجودہ "باشعور" نسل نے تو زرداری جیسے شخص کو سربراہ بنا دیا ۔ اور یہ بات ریکارڈ پر ہے سابقہ انتخابات پچھلے آدھے درجن انتخابات کے مقابلے میں شفاف ہوئے تھے۔

    ابھی کچھ دن پہلے غلام مصطفیٰ کھر صاحب یہی فرما رہے تھے۔ دیگر سیاستدان بھی جب قوم کو بےوقوف بنانے کا وقت آتا ہے تو وہ یہی کہتے ہیں کہ قوم اب پہلے سے بہت زیادہ باشعور ہوچکی ہے۔ وہ ملک دشمنوں کو سپورٹ نہیں کرے گی۔ انکے کہنے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ میرا مخالف "ملک دشمن" ہے لہذا اگر قوم نے اسکو سپورٹ نہ کیا اور مجھے اکثریت دلوا دی تو قوم "باشعور" ہے۔

    میرا اور آپکا دردِ دل ایک ہی ہے۔ لیکن میں کہتا ہوں خدا کے لیے ، غلام مصطفیٰ کھر اور ڈاکٹر شیر افگن جیسے بیانات دے کر 25 فیصد خواندگی اور 75 فیصد ناخواندگی کی حامل قوم کو " شعور " کی بلندیوں پر مت بٹھایا جائے۔ بلکہ تسلیم کیا جائے کہ ہمیں فروغِ تعلیم اور بیدارئ شعور کی منزل کو پانے کے لیے ابھی بہت طویل جدوجہد کرنا ہوگی۔
     
  25. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شکریہ وقاص قائم بھائی ۔
    میں متفق ہوں کہ فقط ذاتی اصلاح ہی انقلاب کی منزل نہیں ہوتی ۔ لیکن میں نے عرض کیا تھا کہ پہلا درجہ ذاتی و انفرادی اصلاح سے شروع ہوتا ہے۔ جب تک ہمارے اندر انفرادی سطح پر انقلاب کی طلب، تلاش، لگن اور خواہش ہی پیدا نہ ہوگی ۔ ہم کسی دوسرے کو یہ لگن، یہ طلب، یہ خواہش کیسے منتقل کرسکتے ہیں ؟
     
  26. وقاص قائم
    آف لائن

    وقاص قائم ممبر

    یار اتنا اچھا موضوع ہے پر رک گیا خوشی سے بولو سوالات کرے
     
  27. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    انقلاب کی تعریف تو سب نے کردی ماشاء اللہ سب نے بہت اچھی تعریف کی ہے

    لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انقلاب کیسے شروع ہوتے ہیں۔

    جب کسی معاشرے میں بے چینی، ناانصافی، لاقانونیت، مہنگائی، بیروزگاری، عدم استحکام، فحاشی، غیروں کی تابعداری شروع ہوتی ہے تو انقلاب کی ایک کرن دکھائی دیتی ہے۔

    انقلاب کبھی جلدی نہیں‌آتے۔ پہلے یہ بے حسی کے مارے لوگوں میں بے چینی پیدا کرتا ہے۔ پھر غصہ، شدت، نفرت پیدا کرتا ہے۔ پھر یہی غصہ اور شدت لوگوں کو تیار کرتا ہے کہ مرجاؤ یاماردو۔ یہاں میری مراد یہ نہیں کہ قومیں دہشت گردی کرنے لگتی ہیں اور مرنے مارنے پر تل جاتی ہیں۔ انہیں ایک مقصد مل جاتا ہے کہ اب جان جائے تو جائے نظام سے ٹکر لے لو۔انہیں اس چیز سے غرض نہیں ہوتی کہ ان کی ہار ہوگی یا جیت۔

    پھر قوم نہ تو پولیس کی لاٹھیوں سے ڈرتی ہے نہ آنسو گیس سے اور نہ ہی فوج یا پولیس کی گولیوں سے۔ ہرشخص چاہے وہ کسی بھی فرقہ کا ہو کسی بھی جماعت کا ہو اسے ایک مقصد مل جاتا ہے اور وہ اسی مقصد کو ساتھ لیکر چلتے ہیں۔

    مجھے فرانس، چین، اٹلی، امریکہ اور دیگر ملکوں کے انقلاب کے بارے میں جاننے کا اتفاق ہوا۔ تو پتہ چلا کہ یہ قومیں بے حس تھیں۔ پھر یہ ناانصافی، لاقانونیت، بھوک کے ہاتھوں مجبورکر ان میں بے چینی پھیل گئی۔ آہستہ آہستہ یہ بے چینی ایک غصے اور شدت میں تبدیل ہوگئی اور یہی غصہ اور شدت انقلاب کا موجب بن گیا۔

    پاکستان کے حالات کا اگر غیرجانبداری سے جائزہ لیا جائے تو مشرف دور میں کئی ایسے کام ہوئے جو بے چینی کا موجب بنے۔ جیسے لال مسجد، دہشت گردی کے خلاف جنگ، مہنگائی، بے روزگاری، پاکستانی عوام کو امریکہ کے حوالے کرنا، عدلیہ پر شب خون، لاقانونیت، ناانصافی، غلط پالیسیاں جس کے نتیجے میں‌عوام بے یقینی، بے چینی کا شکار ہوگئے پھر آہستہ آہستہ غصہ اور شدت آناشروع ہوئی جو وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ ہوگئی۔

    پھر الیکشن آئے، غصہ، شدت کچھ کم ہوئی اگرچہ پیپلزپارٹی، ن لیگ نے سیٹیں لیں، ق لیگ آؤٹ ہوگئی لیکن ٹرن آؤٹ 45 فی صد سے کم رہا یعنی 55 فیصد نے ووٹ نہیں‌ڈالا، اگر 45 فیصد ٹرن آؤٹ کا بھی جائزہ لیا جائے تو وہق لیگ، ایم کیوایم اور بعض دوسری جماعتوں کے جعلی ووٹوں کی وجہ سے 45 فی صد ہوا۔ ورنہ تو یہ 35-40 کے لگ بھگ تھا۔ اگر کسی ملک کا ٹرن آؤٹ 33 فیصد سے کم ہو تو وہ الیکشن پوری دنیا میں قانونی طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ آئندہ الیکشن میں‌یہ ٹرن آؤٹ‌یا تو بالکل کم ہوجائے گا یا پھر انقلاب کے لئے نئی سیج تیار ہوگی۔

    اگر آپ اخبارات پڑھیں تو آپ کو کئی احتجاج نظر آئیں‌گے۔

    - لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج
    - کسی علاقے میں‌پولیس تشدد سے ہلاکت کے خلاف احتجاج
    - کسی سیاسی جماعت کا احتجاج
    - اساتذہ کا احتجاج
    - کلرکوں کا احتجاج
    - سرکاری عملہ کے خلاف احتجاج
    - طلباء کا احتجاج
    - مزدوروں کا احتجاج

    اگرچہ یہ چھوٹے چھوٹے احتجاج ہیں لیکن جیسے جیسے لوگوں میں شدت بڑھتی گئی تو یہ سب مل کر کسی بڑے احتجاج کاپیش خیمہ بن سکتی ہے۔ موجودہ حکومت کی ناقص اور بے وقوفی پر مبنی پالیسیاں بھی لوگوں میں شدت پیدا کررہی ہیں۔
     
  28. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    نعیم صاحب، راشد صاحب اور وقاص قائم صاحب کافلسفہء انقلاب پر اچھا مطالعہ ہے۔ ماشاءاللہ ۔
     
  29. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    اچھا لکھا ھے راشد جی
     
  30. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    راشد بھائی ۔ میں آپ سے متفق ہوں۔
    اگر غور فرمائیں تو اس لڑی کی پہلی پوسٹ‌میں میں نے بھی اپنے ناقص الفاظ میں یہی کچھ کہنے کی کوشش کی تھی ۔ کہ جب عوامی جذبات شدت اختیار کرکے اس کلائمکس پر پہنچنے لگتے ہیں کہ جہاں سے غصہ، نفرت اور انتقام کا سیلاب امڈ پڑے ، وہاں عوامی نفسیات سے کھیلنے والے عیار طبقات فوراً کسی تبدیلی کا ڈرامہ رچا کر عوامی جذبات کو کسی اور سمت میں موڑ دیتےہیں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں