1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

معرفت مصطفی(ص) سے عذابِ قبر سے نجات

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏22 نومبر 2007۔

  1. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    اللالکائي في اعتقاد اھل السنہ
    یہاں سے ڈاؤن لوڈ کیجئے۔
    صرف 264KB کی فائل ہے۔ :hasna:

    صفحہ نمبر 209 ، روایت نمبر : 635 ، دیکھئے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    مکمل عربی روایت یوں ہے :
    سرخ الفاظ کا مفہوم :
    اک آدمی آیا جو بني غنيم سے تھا ، اس کوصبيغ بن عسل کہتے تھے، وہ مدینے آیا اور کے پاس کتابیں تھیں ، وہ قرآن کے متاشبہ کے بارے میں سوال کرتا تھا ۔۔۔۔

    اور یہ تو سب کو پتا ہے کہ قرآن کی متشابہ آیات کے بارے میں سوال کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

    ذرا نعیم صاحب فرمائیں کہ ۔۔۔۔
    پورے واقعے کے ایک ٹکڑے کا من مانا مفہوم پیش کر کے وہ کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں ؟؟؟
     
  2. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بےشک ! امام نووی نے ایسا کہیں بھی نہیں فرمایا کہ : عذابِ قبر سے نجات کا فیصلہ لوگوں کے ظاہری اعمال کی بناء پر کیا جائے گا۔
    لیکن ۔۔۔ میں نے جو سوال کیا تھا ، اسے آپ بھول رہے ہیں ، وہ میں دوبارہ یہاں یاد دلا دیتا ہوں :
    یہ بات تو کسی نے نہیں بتائی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی "معرفت" کیسے حاصل ہوگی ؟
    اور میری طرف سے اس نکتے کے اٹھانے پر محترمہ نور صاحبہ نے فرمایا تھا:
    چونکہ لڑی کے عنوان میں ، عذابِ قبر سے نجات کی وجہ "معرفتِ مصطفی (ص)" بتائی گئی ہے۔ لہذا میں نے اسی "معرفتِ مصطفی (ص)" کی وضاحت طلب کی تھی۔

    نور صاحبہ نے باطنی اور ظاہری کیفیات (محبت اور عمل) کے حوالے سے تشریح کی تھی جس کی تعریف کرتے ہوئے میں نے "باطنی کیفیات" سے متعلق قولِ عمر رضی اللہ عنہ کو پیش کیا۔ یہ غیر متعلقہ حدیث کس طرح ہو گئی بھلا؟؟

    یہاں سوال یہ ہے کہ : میں نے ایسا کہا ہی کہاں ہے؟ ظاہری اعمال سے متعلق حدیث میں حضرت عمر (رض) کا حکم تو صاف درج ہے کہ :
    اب ہم تمہارا مواخذہ صرف تمہارے ان عملوں پر کریں گے جو ہمارے سامنے آئیں گے ۔
    ظاہر ہے یہاں دنیاوی امور سے متعلق بات ہو رہی ہے۔ قبر اور حشر کا یہاں کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔
    کیا میں بھی یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ "مینار پاکستان" صاحب نے یہ نتیجہ کہاں سے اخذ کر لیا کہ درج بالا حدیث کی پیشکشی کا مطلب قبر و حشر کے حساب سے بھی ہے؟؟

    بےشک اللہ تعالیٰ نیتوں کو "بھی" دیکھے گا۔ لیکن ۔۔۔
    میرا سوال یہ ہے کہ : کیا اللہ تعالیٰ "صرف نیتوں" کو دیکھے گا؟ اعمال کو نہیں دیکھے گا کہ وہ کس حد تک قرآن و سنت کی اتباع میں ہیں؟
    نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں :
    اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں اور تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا ، بلکہ وہ تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے ۔
    صحیح مسلم ، كتاب البر والصلة والآداب ، باب : تحريم ظلم المسلم وخذله واحتقاره ودمه وعرضه وماله ، حدیث : 6708

    اور غالباً صحیح مسلم کی اسی حدیث کے مفہوم کو نور صاحبہ نے اپنے الفاظ میں یوں بیان کیا تھا:
    اور اسی مفہوم کی تعریف کرتے ہوئے میں نے لکھا تھا کہ ۔۔۔ باطنی کیفیت کو اللہ پر چھوڑ دیں کہ دلوں کا حال وہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن لوگوں کے اعمال کو تو ہم بھی دیکھ سکتے ہیں اور فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کون کس حد تک "معرفتِ مصطفی (ص)" کے حصول کی کوشش کر رہا ہے؟
    اور اسی "معرفتِ مصطفی (ص)" کے حصول کی کوشش میں کسی کا عمل اگر قرآن و سنت کی حقیقی تعلیمات کے مغائر جا رہا ہو تو ہم اور آپ اس کی اصلاح کی کوشش کر کے اس کو حقیقی "معرفتِ مصطفی (ص)" یعنی "اتباعِ قرآن و سنت" کی جانب راغب تو کر سکتے ہیں !!
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت مفید احادیث شئر کی گئی ہیں ، جزاک اللہ۔
    مگر یہ بات تو کسی نے نہیں بتائی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی "معرفت" کیسے حاصل ہوگی ؟
    کیا زبانی کلامی محبتِ مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) جتلانے یا نعرہ لگانے سے ؟؟
    یا
    رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ثابت شدہ تمام سنتوں پر عمل کرنے سے ؟؟[/quote:3k8z3lby]

    احادیث کا متن ہی جواب ہے۔ پھر سے مطالعہ فرما لیا جائے

    عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي اللہ عنہ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم : اِنَّ الْعَبْدَ اِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِہِ، وَتَوَلَّي عَنْہُ اَصْحَابُہُ وَ اِنَّہُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِھِمْ اَتَاہُ مَلَکَانِ فيُقْعِدَانِہِ، فَيَقُوْلاَنِ : مَا کُنْتَ تَقَوْلُ فِي ھَذَا الرَّجُلِ؟ لِمُحَمَّدٍ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم، فَاَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَقُوْلُ : اَشْھَدُ اَنَّہُ عَبْدُ اﷲِ وَرَسُوْلُہُ. فيُقَالُ لَہُ : انْظُرْ اِلَي مَقْعَدِکَ مِنَ النَّارِ، قَدْ اَبْدَلَکَ اﷲُ بِہِ مَقْعَدًا مِنَ الْجَنَّۃِ، فَيَرَاھُمَا جَمِيْعًا. قَالَ : وَاَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْکَافِرُ فَيُقَالُ لَہُ : مَاکُنْتَ تَقُوْلُ فِي ھَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُوْلُ : لَا اَدْرِي! کُنْتُ اَقُوْلُ مَا يَقُوْلُ النَّاسُ! فَيُقَالُ : لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ، ويُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيْدٍ ضَرْبَہ، فَيَصِيْحُ صَيْحَہً يَسْمَعُھَا مَنْ يَلِيْہِ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْہِ وَھَذَا اللَّفْظُ لِلْبُخَارِيِّ.

    (البخاري في الصحيح، کتاب : الجنائز، باب : ما جاء في عذاب القبر، 1 / 462، الرقم : 1308، وفي کتاب : الجنائز، باب : الميت يسمع خفق النعال، 1 / 448، الرقم : 1673، ومسلم في الصحيح، کتاب : الجنۃ وصفہ نعيمھا وأهلها، باب : التي يصرف بھا في الدنيا اھل الجنۃ واھل النار، 4 / 2200، الرقم : 2870، وابوداود في السنن، کتاب : السنۃ، باب : في المسئلۃ في القبر وعذاب القبر، 4 / 238، الرقم : 4752، والنسائي في السنن کتاب : الجنائز، باب : المسئلۃ في القبر 4 / 97، الرقم : 2051، واحمد بن حنبل في المسند، 3 / 126، الرقم : 12293.)

    ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بندے کو (مرنے کے بعد) جب اس کی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی (تدفین کے بعد واپس) لوٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے تو اس وقت اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر کہتے ہیں تو اس شخص یعنی (سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے متعلق (دنیا میں) کیا کہا کرتا تھا؟
    اگر وہ مومن ہو تو کہتا ہے : میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے (کامل) بندے اور اس کے (سچے) رسول ہیں۔ اس سے کہا جائے گا : (اگر تو انہیں پہچان نہ پاتا تو تیرا جو ٹھکانہ ہوتا) جہنم میں اپنے اس ٹھکانے کی طرف دیکھ کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے اس (معرفتِ مقامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) بدلہ میں جنت میں ٹھکانہ دے دیا ہے۔ پس وہ دونوں کو دیکھے گا اور اگر منافق یا کافر ہو تو اس سے پوچھا جائے گا تو اس شخص (یعنی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے متعلق (دنیا میں) کیا کہا کرتا تھا؟ وہ کہتا ہے کہ مجھے تو معلوم نہیں، میں وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے۔ اس سے کہا جائے گا تو نے نہ جانا اور نہ پڑھا. اسے لوہے کے گُرز سے مارا جائے گا تو وہ (شدت تکلیف) سے چیختا چلاتا ہے جسے سوائے جنات اور انسانوں کے سب قریب والے سنتے ہیں۔‘‘

    -----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

    عَنْ اَبِي ھُرَيْرَۃَ رضي اللہ عنہ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم : اِذَا قُبِرَ الْمَيِتُ اَوْ قَالَ اَحَدُکُمْ، اَتَاہُ مَلَکَانِ اَسْوَدَانِ اَزْرَقَانِ، يُقَالُ لِاحَدِھِمَا : الْمُنْکَرُ، وَالآخَرُ : النَّکِيْرُ، فَيَقُوْلَانِ : مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِي ھَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُوْلُ : مَاکَانَ يَقُوْلُ : ھُوَ عَبْدُ اﷲِ وَرَسُوْلُہُ، اَشْھَدُ اَنْ لَا اِلَہَ اِلَّا اﷲُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ، فَيَقُوْلَانِ : قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْلُ ھَذَا، ثُمَّ يُفْسَحُ لَہُ فِي قَبْرِہِ سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فِي سَبْعِيْنَ، ثُمَّ يُنَوَّرُ لَہُ فِيْہِ، ثُمَّ يُقَالُ لَہُ : نَمْ، فَيَقُوْلُ : اَرْجِعُ اِلَي اَھْلِي فَاُخْبِرُھُمْ؟ فَيَقُوْلَانِ : نَمْ کَنَوْمَۃِ الْعَرُوْسِ الَّذِي لَا يُوْقِظُہُ اِلَّا اَحَبُّ اَھْلِہِ اِلَيْہِ، حَتَّي يَبْعَثَہُ اﷲُ مِنْ مَضْجِعِہِ ذَلِکَ وَاِنْ کَانَ مُنَافِقًا قَالَ : سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُوْلُوْنَ فَقُلْتُ مِثْلَہُ لَا اَدْرِي فَيَقُوْلَانِ : قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْلُ ذَلِکَ، فَيُقَالُ لِلْاَرْضِ الْتَئِمِي عَلَيْہِ فَتَلْتَئِمُ عَلَيْہِ فَتَخْتَلِفُ فِيْھَا اَضْلَاعُہُ فَلَا يَزَالُ فِيْھَا مُعَذَّبًا حَتَّي يَبْعَثَہُ اﷲُ مِنْ مَضْجَعِہِ ذَلِکَ. رَوَاہُ التِّرْمِذِيُّ وَحَسَّنَۃُ وَابْنُ حِبَّانَ.

    (الترمذي في السنن، کتاب : الجنائز، باب : ما جاء في عذاب القبر، 3 / 383، الرقم : 1071، وابن حبان في الصحيح، 7 / 386، الرقم : 3117 )

    ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب میت کو یا تم میں سے کسی ایک کو (مرنے کے بعد) قبر میں داخل کیا جاتا ہے تو اس کے پاس سیاہ رنگ کے نیلگوں آنکھوں والے دو فرشتے آتے ہیں۔ ایک کا نام منکر اور دوسرے کا نام نکیر ہے۔ وہ دونوں اس میت سے پوچھتے ہیں تو اس عظیم ہستی (رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں (دنیا میں) کیا کہتا تھا؟
    وہ شخص وہی بات کہتا ہے جو دنیا میں کہا کرتا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بیشک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے (خاص) بندے اور (سچے) رسول ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر اس کی قبر کو لمبائی و چوڑائی میں ستر ستر ہاتھ کشادہ کر دیا جاتا ہے اور نور سے بھر دیا جاتا ہے پھر اسے کہا جاتا ہے : (سکون و اطمینان سے) سو جا، وہ کہتا ہے میں واپس جا کر گھر والوں کو بتا آؤں۔ وہ کہتے ہیں نہیں (نئی نویلی) دلہن کی طرح سو جاؤ۔ جسے گھر والوں میں سے جو اسے محبوب ترین ہوتا ہے وہی اٹھاتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ (روزِ محشر) اُسے اس کی خواب گاہ سے (اسی حال میں) اٹھائے گا اور اگر وہ شخص منافق ہو تو (ان سوالات کے جواب میں) کہے گا : میں نے ایسا ہی کہا جیسا میں لوگوں کو کہتے ہوئے سنا، میں نہیں جانتا (وہ صحیح تھا یا غلط)۔ پس وہ دونوں فرشتے کہیں گے کہ ہم جانتے تھے کہ تم ایسا ہی کہو گے۔ پس زمین سے کہا جائے گا کہ اس پر مِل جا بس وہ اس پر اکٹھی ہو جائے گی (یعنی اسے دبائے گی) یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں داخل ہو جائیں گی وہ مسلسل عذاب میں مبتلا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے اسی حالتِ (عذاب) میں اس جگہ سے اٹھائے گا۔‘‘

    میرا خیال ہے بات سیدھی سی ہے۔ کہ دنیا میں مرنے سے پہلے کیا “کہا“ کرتا تھا ؟ خالی محمد الرسول اللہ ، یا محمد عبدہ ورسولہ تو منافقین بھی کہتے تھے۔ اور اعمال کا ڈھیر بھی لگاتے تھے۔ لیکن یہاں تو بات سچی محبت و اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہورہی ہے۔ یعنی دل میں محبت و تعظیم رسول، لب پر ذکرِ و عظمتِ رسول اور اعمال میں اتباعِ رسول میں زندگی گذرے۔ تو پھر ہی معرفتِ مصطفی نصیب ہوگی۔

    یاد رہے کہ ایمان بااللہ، اور دین اسلام کی بابت دوسری روایات میں سوالات پہلے سے موجود ہیں۔ لیکن امام بخاری و مسلم نے ان دونوں روایات میں صرف اور صرف “معرفتِ مصطفیٰ :saw: “ کے سوال کی اہمیت کے پیش نظر روایت کیا ہے۔ تاکہ امت پر اپنے نبی :saw: سے تعلق و نسبت کی اہمیت واضح ہوجائے۔

    ان احادیث سےایک اور ایمان افروز نکتہ جو سامنے آتا ہے وہ یہ کہ بے شک اللہ تعالی قادر مطلق ہے۔ جب چاہے جسے چاہے سزاوجزا دے سکتا ہے۔ لیکن ان احادیث میں فقط پہچانِ مصطفیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کو گویا عذابِ قبر سے نجات کا معیار قرار دے کر دین و ایمان میں اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و اہمیت کو واضح فرما دیا ہے۔ کیونکہ دیگر روایات کہ جہاں پہلے اللہ تعالی کی بابت سوال کیا جاتا ہے۔ وہاں اللہ تعالی کو نہ پہچان پانے پر بندے کو عذاب قبر میں گرفتار نہیں کیا جاتا۔ پھر دین اسلام کی پہچان بھی اگر اسے نہ ہو۔ تو بھی نکیرین یا منادی اسکی قبر کو آگ سے بھر دینے کی ندا نہیں دیتے۔ بلکہ جب منافق یا کافر جب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پہچان سکتا تو فوراً فیصلہ آتا ہے۔

    قَالَ : وَاَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْکَافِرُ فَيُقَالُ لَہُ : مَاکُنْتَ تَقُوْلُ فِي ھَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُوْلُ : لَا اَدْرِي! کُنْتُ اَقُوْلُ مَا يَقُوْلُ النَّاسُ! فَيُقَالُ : لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ، ويُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيْدٍ ضَرْبَہ، فَيَصِيْحُ صَيْحَہً يَسْمَعُھَا مَنْ يَلِيْہِ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ

    اگر منافق یا کافر ہو تو اس سے پوچھا جائے گا تو اس شخص (یعنی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے متعلق (دنیا میں) کیا کہا کرتا تھا؟ وہ کہتا ہے کہ مجھے تو معلوم نہیں، میں وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے۔ اس سے کہا جائے گا تو نے نہ جانا اور نہ پڑھا. اسے لوہے کے گُرز سے مارا جائے گا تو وہ (شدت تکلیف) سے چیختا چلاتا ہے جسے سوائے جنات اور انسانوں کے سب قریب والے سنتے ہیں۔


    کتنے خوش بخت ہیں وہ امتی جو اپنے دلوں کو محبوب خدا علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت سے لبریز رکھتے ہیں۔ شب و روز محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتوں کے ترانے گاتے رہتے ہیں۔ انکی زبانیں ہمہ وقت درودوسلام پر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لبریز رہتی ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ اتباعِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں۔

    یہ بات بھی حقیقت ہے کہ محبتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم فقط نعروں اور نعتوں اور اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلو تہی کا نام نہیں۔یہ منافقت ہے۔ اسی طرح دل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و تکریم سے خالی ہو اورتو حدیث صحیح کی رو سے بندہ ایمان سے ہی خالی ہوجاتا ہے۔ کیونکہ جب تک حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات انسان کو اپنے آپ، والدین، والناس اجمعین سے بڑھ کر محبوب نہ ہوجائے بندہ “مومن کامل“ ہی نہیں ہوسکتا اور جب تک مومن ہی نہ ہو تو اسکے کون سے اعمال اور کہاں کا اجر ؟
     
  4. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    درج بالا فقرے کے مفہوم پر ہی تو ہمیں اعتراض ہے جس کو آپ سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔
    اگر یہی مفہوم ہم سے ادا کرنے کو کہا جائے تو ہم اس طرح کا فقرہ لکھیں گے :
    یہ بات حقیقت ہے کہ محبتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم، اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلو تہی کا نام نہیں !!
    جب ہم "اتباعِ رسول (ص)" کہہ دیتے ہیں تو اس میں اطاعتِ رسول (ص) کی وہ تمام باتیں آ جاتی ہیں جو صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔

    لیکن احادیث میں من مانا مفہوم شامل کرانے والے ۔۔۔۔ وہی کرتے ہیں جو غیروں کا دین میں تحریف کا وطیرہ رہا ہے صدیوں سے !
    نعیم صاحب ! خدارا ذرا ہم کو بتائیے کہ فقط "اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم" کہنے کے بجائے آپ کو یہ ضرورت ہی کیوں پیش آئی کہ آپ "نعروں اور نعتوں" کے الفاظ بھی شامل کریں؟؟
    جو لوگ دین کی آڑ میں "نعروں اور نعتوں" کی ترغیب دلا رہے ہیں ، اس کی کوئی دلیل ہے قرآن یا حدیث سے؟؟
     
  5. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    مجھے تو یہی لگتا ہے کہ درج بالا حدیث کا اردو ترجمہ ڈاکٹر صاحب کا اپنا ہوگا۔ پھر بھی آپ تصدیق کر دیں تو مہربانی۔
    اب ذرا درج بالا اقتباس میں سرخ الفاظ کا جو مفہوم ڈاکٹر صاحب نے اپنی طرف سے لگایا ہے ، ذرا ہم کو بھی بتائیے کہ ایسا مفہوم مزید کس شارح بخاری نے ادا کیا ہے؟
    حدیث کے تمام متن میں ایسا کون سا قاعدہ ہے کہ جس کے سبب لفظ "اس" کی تشریح ڈاکٹر صاحب محترم کو "(معرفتِ مقامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے)" کے الفاظ سے کرنا پڑی؟؟
    مزید یہ کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    انْظُرْ اِلَي مَقْعَدِکَ مِنَ النَّارِ
    اس کا ترجمہ ایک اور مترجم مولانا داؤد راز نے یوں کیا ہے:
    تو یہ دیکھ اپنا جھنم کا ٹھکانہ
    اب اس ترجمے سے پہلے ڈاکٹر صاحب قوسین میں یہ بھی لکھتے ہیں
    "(اگر تو انہیں پہچان نہ پاتا تو تیرا جو ٹھکانہ ہوتا)"
    یہ تشریح عربی متن کے کن جملوں کو پیشِ نظر رکھ کر کی گئی ہے؟

    امید کہ ہمارے علم میں ضرور اضافہ کیا جائے گا ، شکریہ۔

    آخر میں نعیم صاحب سے دوبارہ گذارش ہے کہ میرا یہ جو سوال تھا :
    اس کے جواب میں آپ نے یہ لکھتے ہوئے :
    تین مستند احادیث پیش فرما دیں۔
    کیا ان احادیث سے میرے سوال کا جواب ملتا ہے؟
    ان احادیث سے تو صرف قبر کے سوال جواب اور ان کے انجام سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔
    جبکہ ان احادیث کے سہارے سارا زور تو "معرفتِ مقامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم" پر دیا گیا ہے۔

    اور ہم تو اسی بات کی تفصیل دریافت کر رہے ہیں کہ : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی "معرفت" کیسے حاصل ہوگی ؟؟
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    کتنے خوش بخت ہیں وہ امتی جو اپنے دلوں کو محبوب خدا علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت سے لبریز رکھتے ہیں اور محبت اس قدر شدید ہوجاتی ہے کہ اپنی جان، اپنے والدین اور ساری دنیا سے بڑھ کر دل میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا سمندر موجزن ہوجاتا ہے۔ اسی شدید محبت سے سرشار ایمان کامل کا درجہ حاصل کر کے ہر ہر عمل میں اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں۔ اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں اور عقیدے میں قرآن کا حکم “من یطع الرسول فقد اطاع اللہ“ رہتا ہے۔ “صلو علیہ وسلمو تسلیما“ کے حکم کی پیروی مین شب و روز محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ انکی زبانیں ہمہ وقت درودوسلام بر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لبریز رہتی ہیں اورقلب و نظر میں ادب و احترامِ مصطفیٰ بسائے رکھتے ہیں۔

    اے اللہ تبارک وتعالی ! ہمیں زبانی کلامی بحث مباحثوں میں الجھنے کی بجائے اپنی بندگی ، اپنے حبیب مکرم :saw: کی محبت و اطاعت میں وہ درجہ عطا فرما کہ ہم مومن کامل بن کر تیری رضا کے حقدار بن جائیں تاکہ قبر اور حشر کے مراحل میں سرخروئی حاصل ہوسکے۔ آمین ثم آمین
     
  7. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    نعیم صاحب ۔اللہ تعالی آپ کے ایمانی جذبات سلامت رکھے اور ہم سب کو محبت و اتباعِ رسول :saw: کی دولت عطا فرمائے۔ آمین

    فضول بحث مباحثہ ، فرقہ وارانہ اختلافات کو اجاگر کرنا نہ تو ایک مثبت طرزِ فکر ہے اور نہ ہی آج تک امت مسلمہ کو اس سے کوئی فائدہ ہوا ہے۔ بلکہ ایسے امور سے امت کے اندر انتشار و نااتفاقی کے سوا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ اور اسی وجہ سے امت کا اتحاد پارہ پارہ ہوتا ہے۔

    اسلام دینِ اعتدال و توازن ہے۔ اور ہمیں کشادہ دلی سے اعتدال و توازن کا راہ دکھاتا ہے۔ نورالعین بہن کے خیالات اسی معتدل سوچ کی عکاسی کرتے تھے۔ جبکہ اس کے جواب میں محترم نے موضوع سے ہٹ کر کسی سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے بطور امیر المومنین گستاخانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور منافقین کے بارے میں دیے گئے فرمان کا حوالہ دے کر دین و ایمان میں محبت کی قلبی کیفیات کی اہمیت کی ہی نفی کر ڈالی اور صرف اور صرف ظاہری اعمال پر زور دے کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے لے کر آج تک مسلمانوں کے دلوں میں موجزن اللہ تعالی اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اہلبیت اطہار و صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اور اولیائے کرام کی محبت و عقیدت کے عقیدے کو ہی غیر اہم ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اور بارے میں گفتگو کو ہی “بےکار“ قرار دے دیا۔

    حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اعمال کی نفی نہ تو دینِ اسلام کرتا ہے، نہ کوئی محبتِ رسول :saw: کا داعی، نہ اہلبیت اطہار و صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کا محب اور نہ ہی اولیائے کرام کا معتقد اور نہ ہی نورالعین بہن نے کی تھی۔

    لیکن حدیث پاک کا ترجمہ چونکہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا کیا ہوا تھا۔ اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے ترجمہ کو باطل ثابت کرنے کے لیےمحترم دوست نے اپنا فرضِ منصبی جانتے ہوئے محبت رسول :saw: کی اہمیت سے ہی اعراض برتا اسکی بات کرنے کو ہی “بیکار“ بنا ڈالا۔

    فرما کر دراصل صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے لے کر آج تک امت مسلمہ کے دل میں موجزن محبتِ رسول :saw: کے اس عظیم جذبے کی اہمیت کو کم کرنا چاہا کہ جس کے بھروسے پر خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو آخرت میں اپنی سرخروئی کا یقین و ایمان تھا۔

    آئیے دیکھتے ہیں سب سے پہلے قرآن وحدیث میں “محبت“ کی اہمیت کیا ہے ؟

    وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللّہِ اَندَاداً يُحِبُّونَھُمْ كَحُبِّ اللّہِ وَالَّذِينَ آمَنُواْ اَشَدُّ حُبًّا لِّلّہِ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُواْ اِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ اَنَّ الْقُوَّۃَ لِلّہِ جَمِيعاً وَاَنَّ اللّہَ شَدِيدُ الْعَذَابِO
    (الْبَقَرَۃ ، 2 : 165)

    اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اﷲ کے غیروں کو اﷲ کا شریک ٹھہراتے ہیں اور ان سےایسی محبت کرتے ہیں جیسی اللہ سے محبت ہونی چاہیئے اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اﷲ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں، اور اگر یہ ظالم لوگ اس وقت کو دیکھ لیں جب (اُخروی) عذاب ان کی آنکھوں کے سامنے ہوگا (توجان لیں) کہ ساری قوتوں کا مالک اﷲ ہے اور بیشک اﷲ سخت عذاب دینے والا ہےo

    نوٹ: یہاں ایمان والوں کی علامت اور نشانی ہی “اللہ تعالی سے بہت ہی زیادہ محبت“ بنایا گیا ہے۔

    پھر فرمایا

    لَّيْسَ الْبِرَّ اَن تُوَلُّواْ وُجُوھَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَـكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّہِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلآئِكَۃِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّہِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّآئِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَاَقَامَ الصَّلاۃَ وَآتَى الزَّكَاۃَ وَالْمُوفُونَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عَاھَدُواْ وَالصَّابِرِينَ فِي الْباْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَاْسِ اُولَـئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَاُولَـئِكَ ھُمُ الْمُتَّقُونَO (الْبَقَرَة ، 2 : 177)

    نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیںo

    نوٹ: اس ترجمہ میں اللہ تعالی نے سارے اعمال کی بنیاد “اللہ کی محبت “ کو بنایا ہے۔ یعنی نیکوکار، سچے، متقی لوگ وہ ہیں جو سارے اعمال کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب “اللہ کی محبت“ میں کرتے ہیں۔

    قُلْ اِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّہُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللّہُ غَفُورٌ رَّحِيمٌO (آل عِمْرَان ، 3 : 31)

    (اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لئے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہےo

    نوٹ: یہاں بھی اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیاد “محبتِ الہی“ کو بنایا گیا ہے۔


    يَا اَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِہِ فَسَوْفَ يَاْتِي اللّہُ بِقَوْمٍ يُحِبُّھُمْ وَيُحِبُّونَہُ اَذِلَّۃٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ اَعِزَّۃٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاھِدُونَ فِي سَبِيلِ اللّہِ وَلاَ يَخَافُونَ لَوْمَۃَ لاَئِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللّہِ يُؤْتِيہِ مَن يَشَاءُ وَاللّہُ وَاسِعٌ عَلِيمٌO (الْمَآئِدَۃ ، 5 : 54)

    اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اﷲ (ایسوں کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے وہ مومنوں پر نرم (اور) کافروں پر سخت ہوں گے اﷲ کی راہ میں (خوب) جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ یہ (انقلابی کردار) اللہ کافضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اﷲ وسعت والا (ہے) خوب جاننے والا ہےo

    نوٹ: دین سے پھر جانے والوں کی جگہ اللہ تعالی اپنے دین کی اقامت و احیاء کے لیے ایسے لوگوں کو لائے گا جو اللہ تعالی کے محبوب ہوں گے اور وہ اللہ تعالی سے محبت رکھتے ہوں گے۔ مومنوں پر نرم اور کافروں پر سخت ہوں گے۔

    آج ہمیں اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا ہوگا کہ ہمارا رویّہ کلمہ گو مسلمانوں کے ساتھ کیا ہے کہ انہیں تو ہم ہرصورت باطل، کافر، ان پڑھ، گمراہ ثابت کرنے کے لیے شب وروز ایک کر دیں۔ اور کافرانہ باطل استعماری طاقتوں کے خلاف ہمیں کبھی ایک سطر لکھنے اور ایک جملہ کہنے کی بھی توفیق نہ ہو تو ہم اللہ تعالی کی بیان کردہ علامتِ ایمان کی رو سے مومن کہلانے کے کہاں تک حقدار ہیں ؟


    قُلْ اِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَاَبْنَآؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَاَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوھَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَھَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَھَا اَحَبَّ اِلَيْكُم مِّنَ اللّہِ وَرَسُولِہِ وَجِھَادٍ فِي سَبِيلِہِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّى يَاْتِيَ اللّہُ بِاَمْرِہِ وَاللّہُ لاَ يَھْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَO (التَّوْبَۃ ، 9 : 24)

    (اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتاo

    نوٹ: اللہ، اسکے رسول کی محبت اور جہاد کی محبت نہ رکھنے یا دنیوی مال و متاع و اھل وعیال کے مقابلے میں کم محبت رکھنے پر عذابِ الہی کی اور گمراہی کی وعید۔


    وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّہِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَاَسِيرًاO (الْاِنْسَان / الدَّھْر ، 76 : 8)

    اور (اپنا) کھانا اﷲ کی محبت میں (اِیثاراً) محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیںo

    نوٹ: اعمال کی بنیاد محبتِ الہی پر رکھنے والوں کی شان میں قرآنی آیات اتاری جارہی ہیں۔

    ذَلِكَ الَّذِي يُبَشِّرُ اللَّہُ عِبَادَہُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ قُل لَّا اَسْاَلُكُمْ عَلَيْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدّۃ َ فِي الْقُرْبَى وَمَن يَقْتَرِفْ حَسَنَۃً نَّزِدْ لَہُ فِيھَا حُسْنًا اِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ شَكُورٌO (الشُّوْرٰی ، 42 : 23)

    یہ وہ (انعام) ہے جس کی خوشخبری اللہ ایسے بندوں کو سناتا ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے، فرما دیجئے: میں اِس (دعوت و تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (اپنے) قرابت داروں سے محبت (چاہتا ہوں) اور جو شخص نیکی کمائے گا ہم اس کے لئے اس میں اُخروی ثواب اور بڑھا دیں گے۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا قدر دان ہےo

    قرابتداروں کی وضاحت بھی خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبانِ حق ترجمان سے فرما دی :

    عن ابن عباس رضي اﷲ عنھما قال : لما نزلت (قُلْ لَا اَسْالُکُمْ عَلَيْہِ اجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِیْ الْقُرْبٰی) قالوا : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! ومن قرابتک ھؤلاء الذين و جبت علينا مودتھم؟ قال : علي و فاطمہ و ابناھما.

    ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ جب آیت مبارکہ ’’فرما دیں میں تم سے اس (تبلیغ حق اور خیرخواہی) کا کچھ صلہ نہیں چاہتا بجز اہل قرابت سے محبت کے‘‘ نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک وسلم! آپ کے وہ کون سے قرابت دار ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی، فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے (حسن و حسین)۔(رضوان اللہ علیھم اجمعین) “

    (طبراني، المعجم الکبير، 3 : 47، رقم : 2641، طبراني، المعجم الکبير، 11 : 444، رقم : 12259، الہيثمي، مجمع الزوائد، 7 : 103)

    نوٹ: قرآن مجید اللہ تعالی، اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، جہاد فی سبیل اللہ ، صدقہ وخیرات و اعمالِ صالحہ کے ساتھ ساتھ واضح طور پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلبیتِ پاک سے محبت و مودت کا درس بھی دے رہا ہے۔ حیرت ہے کہ یہ سب کچھ جان کر اگر اپنے علم کے زور پر کچھ حضرات “محبت“ کی بات کو ہی “بیکار“ قرار دے دیتے ہیں ؟

    قرآنی آیات کریمہ سے ایمان میں محبت کی اہمیت کی وضاحت ہوجانے کے بعد آئیے دیکھتے ہیں کہ حضور نبی اکرم :saw: کے فرمودات اور خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کے ایمان میں “محبت “ کی اہمیت کیا ہے۔


    عَنْ اَنَسٍ رضي اللہ عنہ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم : لَا يُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتَّي اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَيْہِ مِنْ وَالِدِہِ وَوَلَدِہِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ مُتَّفَقٌ عَلَيْہِ.

    (البخاري في الصحيح، کتاب الايمان، باب : حُبُّ الرَّسُوْلِ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم مِنَ الاِيْمَانِِ، 1 / 14، الرقم : 15، ومسلم في الصحيح، کتاب : الايمان، باب : وجوب محبّۃ رسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اکثر من الاھل والولد والوالد والناس اجمعين، 1 / 67، الرقم : 44.)

    وفي روايۃ البخاري : عَنْ اَبِي ھُرَيْرَۃَ رضي اللہ عنہ قَالَ : فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِہِ، وَذَکَرَ نَحْوَہُ.

    (البخاري في الصحيح، کتاب : الاِيْمَانِ، باب : حُبُّ الرَّسُوْلِ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم مِنَ الاِيْمَانِ، 1 / 14، الرقم : 14.)

    ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اُس کے والد (یعنی والدین)، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہو جاؤں۔‘‘

    ’’اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! (اِس کے بعد سابقہ الفاظِ حدیث ہیں)۔‘‘

    نوٹ: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ساری کائنات سے بڑھ کر اپنی ذات سے محبت کو ایمان کی اصل قرار دیں اور اس سے کم محبت رکھنے والے کو “لایومن احدکم حتی“ کے الفاظ کے ذریعے ایمان کے درجے میں ہی شامل نہ فرمائیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ جیسے امام المحدثین تو “محبتِ رسول کے واجب ہونے پر“ پورے پورے باب قائم کردیں۔ اور آج کے مخصوص فکر کے حامل چند مولانا بڑے آرام سے

    کہہ کر کس ایمان اور کونسے اعمال کی بنیاد پر آخرت میں کامیابی کے دعوےدار ہیں ؟

    جن عظیم صحابی رسول عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فرمان کا حوالہ محترم نے یہاں دیا ہے

    پہلی بات تو یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ امیرالمومنین تھے تب وہ مواخذہ فرماتے تھے اور وہ بھی اس دور میں گستاخانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو اصلاً منافق اور گستاخ تھے، بظاہر کلمہ گو اور نیک اعمال بھی کرتے تھے اور انکا مواخذہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ فرماتے تھے۔

    کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آج کے دور میں ایسے حوالے دینے والے مولانا صاحب یا دوستوں سے پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کو “مواخذہ “ کرنے کا یہ اختیاراور ٹھیکہ کہاں سے عنایت ہوگیا ؟ اور وہ بھی عذابِ قبر سے متعلقہ ایک حدیث کے تناظر میں ؟

    اب آئیے انہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بھی پوچھتے ہیں کہ انہوں نے خود اپنے ایمان کی عظمت و کاملیت کیسے حاصل کی ۔ امام المحدثین کی صحیح بخاری شریف اٹھائیے۔

    عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ ھِشَامٍ رضي اللہ عنہ قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم، وَھُوَ آخِذٌ بِيَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ لَہُ عُمَرُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، لَاَنْتَ اَحَبُّ اِلَيَّ مِنْ کُلِّ شَيءٍ اِلاَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم : لَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِہِ، حَتَّي اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَيْکَ مِنْ نَفْسِکَ فَقَالَ لَہُ عُمَرُ : فَاِنَّہُ الآنَ، وَاﷲِ، لَاَنْتَ اَحَبُّ اِلَيَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم : الآنَ يَا عُمَرُ.

    ( رَوَاہُ الْبُخَارِيُّ. في الصحيح، کتاب : الايْمَانِ وَالنُّذُوْرِ، باب : کَيْفَ کَانَتْ يَمِيْنُ النَّبِيِ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم، 6 / 2445، الرقم : 6257.)

    ’’حضرت عبد اللہ بن ھِشام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ مجھے اپنی جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! جب تک میں تمہیں اپنی جان سے بھی محبوب تر نہ ہو جاؤں (تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے)۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : اللہ رب العزت کی قسم! اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں، چنانچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عمر! اب (تمہارا ایمان کامل ہوا) ہے۔‘‘


    عَنْ اَنَسٍ اَنَّ رَجُلاً سَاَلَ النَّبِيَّ :saw: السَّاعَۃِ فَقَالَ : مَتَی السَّاعَۃُ؟ قَالَ : وَ مَاذَا اعْدَدْتَ لَھَا؟ قَالَ : لَا شَيْئَ اِلَّا انِّي احِبُّ اﷲَ وَ رَسُوْلَہُ صلی :saw: فَقَالَ : انْتَ مَعَ مَنْ احْبَبْتَ. قَالَ انَسٌ : فَمَا فَرِحْنَا بِشَيْئٍ فَرِحْنَا بِقَوْلِ النَّبِيِّ :saw: : انْتَ مَعَ مَنْ احْبَبْتَ قَالَ انَسٌ : فَانَا اُحِبُّ النَّبِيَّ :saw: وَ ابَا بَکْرٍ وَ عُمَرَ وَ ارْجُو انْ اکُونَ مَعَھُمْ بِحُبِّيْ اِيَّاھُمْ، وَ اِنْ لَمْ اعْمَلْ بِمِثْلِ اعْمَالِھِمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْہِ.

    ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی صحابی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! تم نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟ وہ صحابی عرض گزار ہوا! میرے پاس تو کوئی عمل نہیں سوائے اس کے کہ میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں۔ فرمایا : تمہیں آخرت میں اسی کی معیت اور سنگت نصیب ہو گی جس سے تم محبت کرتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں کسی خبر نے اتنا خوش نہیں کیا جتنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان نے کیا کہ ’’تم اسی کے ساتھ ہوگے جس سے محبت کرتے ہو‘‘۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا : میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں اور ابو بکر و عمر سے بھی لہٰذا امیدوار ہوں کہ ان کی محبت کے باعث ان حضرات کے ساتھ ہوں گا اگرچہ میرے اعمال ان جیسے نہیں۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘‘

    واضح ہو کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اعمال بھی کرتے تھے بلکہ ہم میں سے کون ہے جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم سے بڑھ کر اعمال کا دعویٰ کرسکے ؟

    لیکن حضرت انس :rda: فَمَا فَرِحْنَا بِشَيْئٍ فَرِحْنَا بِقَوْلِ النَّبِيِّ :saw: “ہمیں کسی خبر نے اتنا خوش نہیں کیا جتنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان نے کیا “ فرما کر وہاں موجود سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی اس خوشخبری پر اجتماعی فرحت و مسرت کے بارے میں مطلع فرمایا ہے۔ اور پھر “میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں اور ابو بکر و عمر سے بھی لہٰذا امیدوار ہوں کہ ان کی محبت کے باعث ان حضرات کے ساتھ ہوں گا اگرچہ میرے اعمال ان جیسے نہیں۔“ فرما کر اپنے عقیدے اور ایمان میں “محبتِ رسول :saw: کی “فقط ظاہری اعمال“ پر اہمیت و فوقیت کو بھی واضح فرما دیا“

    حضورنبی اکرم :saw: سے محبت تو کمال درجے کے ایمان کی علامت ہے۔ حضور نبی اکرم :saw: کے اھلیبت اطہار، صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم سے محبت بھی علاماتِ ایمان میں شمار ہوتی ہے۔ اور انکے بغض و عداوت علاماتِ نفاق ہیں۔

    عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم قَالَ : آيَۃُ الاِيْمَانِ حُبُّ الْاَنْصَارِ، وَآيَۃُ النِّفَاقِ بُغْضُ الْاَنْصَارِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْہِ.

    ( البخاري في الصحيح، کتاب : الايمان، 1 / 14، الرقم : 17، وفي کتاب : فضائل الصحابہ، 3 / 1379، الرقم : 3573، ومسلم في الصحيح، کتاب : الايمان، باب : الدليل علي ان حب الانصار وعلي رضي اللہ عنہ من الايمان وعلاماتہ، وبغضھم من علامات النفاق، 1 / 85، الرقم : 74، والنسائي في السنن، کتاب : الايمان وشرائعہ، 8 / 116، الرقم : 5019، وفي السنن الکبري، 6 / 534، الرقم : 8331)

    ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انصار سے محبت ایمان کی نشانی ہے، اور انصار سے بغض منافقت کی علامت ہے۔‘‘

    عَنْ اُمِّ سَلَمَہَ رضي اﷲ عنھا تَقُوْلُ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم يَقُولُ : لَا يُحِبُّ عَلِيًا مُنَافِقٌ وَلَا يَبَْغَضُہ مؤْمِنٌ. رَوَاہ التِّرْمِِذِيُّ وَابُوْيَعْلَي.

    (الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم، باب : (21)، 5 / 635، الرقم : 3717، وابويعلي في المسند، 12 / 362، الرقم : 6931، والطبراني في المعجم الکبير، 23 / 375، الرقم : 886، وابوالمحاسن في معتصر المختصر، 2 / 247.)

    ’’حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے : کوئی منافق علی (رضی اللہ عنہ) سے محبت نہیں کرتا اور کوئی مومن علی (رضی اللہ عنہ) سے بغض نہیں رکھتا۔‘‘

    عن عبد اﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنھما قال : قال النبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم : من احبني فليحب ھذين.

    ’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے مجھ سے محبت کی، اس پر لازم ہے کہ وہ ان دونوں (حسنین کریمین رضوان اللہ علیھما) سے بھی محبت کرے۔‘‘

    ( النسائي، السنن الکبري، 5 : 50، رقم : 8170، النسائي، فضائل الصحابه، 1 : 20، رقم : 67، ابن خزيمہ، الصحيح، 2 : 48، رقم : 887، بزار، المسند، 5 : 226، رقم : 1834، ابويعلیٰ، المسند، 9 : 250، رقم : 5368، الہيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 179، عسقلاني، الاصابہ في تمييز الصحابہ، 2 : 17)

    عن ابن عباس رضي اﷲ عنھما قال : لما نزلت (قُلْ لَا اَسْالُکُمْ عَلَيْہِ اجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِیْ الْقُرْبٰی) قالوا : يا رسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم! ومن قرابتک ھؤلاء الذين و جبت علينا مودتھم؟ قال : علي و فاطمہ و ابناھما.

    ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ جب آیت مبارکہ ’’فرما دیں میں تم سے اس (تبلیغ حق اور خیرخواہی) کا کچھ صلہ نہیں چاہتا بجز اہل قرابت سے محبت کے‘‘ نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک وسلم! آپ کے وہ کون سے قرابت دار ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی، فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے (حسن و حسین)۔‘‘

    (طبراني، المعجم الکبير، 3 : 47، رقم : 2641، طبراني، المعجم الکبير، 11 : 444، رقم : 12259، الہيثمي، مجمع الزوائد، 7 : 103)

    عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي اللہ عنہ قَالَ : قُلْتُ : يَارَسُولَ اﷲِ، اِنَّ قُرَيْشًا اِذَا لَقِيَ بَعْضُھُمْ بَعْضًا لَقُوھُمْ بِبَشْرٍ حَسَنٍ، وَاِذَا لَقُوْنَا لَقُوْنَا بِوُجُوہٍ لاَ نَعْرِفُھَا. قَالَ : فَغَضِبَ النَّبِيُّ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم غَضَبًا شَدِيْداً، وَقَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِہِ لاَ يَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الاِيْمَانُ حَتَّي يُحِبَّکُمْ لِلّہِ وَلِرَسُوْلِہِ وَ لِقَرَابَتِي. رَوَاہُ اَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالْبَزَّارُ.

    و في روايۃ : قَالَ : وَاﷲِ، لَا يَدْخُلُ قَلْبَ امْرِيءٍ اِيْمَانٌ حَتَّي يُحِبَّکُمْ لِلّہِ وَلِقَرَابَتِي.

    ’’حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ میں نے بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا : یا رسول اللہ! قریش جب آپس میں ملتے ہیں تو حسین مسکراتے چہروں سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو ایسے چہروں سے ملتے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے (یعنی جذبات سے عاری چہروں کے ساتھ) حضرت عباس فرماتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر شدید جلال میں آگئے اور فرمایا : اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کسی بھی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میری قرابت کی خاطر تم سے محبت نہ کرے۔‘‘ اسے امام احمد، نسائی، حاکم اور بزار نے روایت کیا ہے۔

    ایک روایت میں ہے کہ فرمایا : خدا کی قسم کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہ ہوگا جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ اور میری قرابت کی وجہ سے تم سے محبت نہ کرے۔‘‘

    (احمد بن حنبل في المسند، 1 / 207، الرقم : 1772، 1777، 17656، 17657، 17658، والحاکم في المستدرک، 3 / 376، الرقم : 5433، 2960، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 51 الرقم : 8176، والبزار في المسند، 6 / 131، الرقم : 2175، والبيهقي في شعب الايمان، 2 / 188، الرقم : 1501، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 361، الرقم : 7037.)


    عن علي بن ابي طالب رضي اللہ عنہ : ان رسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اخذ بيد حسن و حسين، فقال : من احبني و احب ھذين و اباھما و امھما کان معي في درجتي يوم القيامۃ.

    ’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن اور حسین علیہما السلام کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : جس نے مجھ سے اور ان دونوں سے محبت کی اور ان کے والد سے اور ان کی والدہ سے محبت کی وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے ہی ٹھکانہ پر ہو گا۔‘‘

    ( ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 641، ابواب المناقب، رقم : 3733، احمد بن حنبل، المسند، 1 : 77، رقم : 576، احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 693، رقم : 1185، طبراني، المعجم الکبير، 3 : 50، رقم : 2654، خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 13 : 287، رقم : 7255، عسقلاني، تھذيب التھذيب، 2 : 258، رقم : 528)

    عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ رضي اﷲ عنھما : اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم قَالَ : الْزِمُوْا مَوَدَّتَنَا اَھْلَ الْبَيْتِ، فَاِنَہُ مَنْ لَقِيَ اﷲَ عزوجل وَھُوَ يَوَدُّنَا، دَخَلَ الْجَنَّۃَ بِشَفَاعَتِنَا. وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِہِ، لَا يَنْفَعُ عَبْدًا عَمَلُہُ الَّا بِمَعْرِفَہِ حَقِّنَا. رَوَاہُ الطَّبَرَانِيُّ.

    ’’حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہم اہل بیت کی محبت کو لازم پکڑو پس وہ شخص جو اس حال میں اﷲ سے (موت کے بعد) ملا کہ وہ ہم سے محبت کرتا ہو تو وہ ہماری شفاعت کے وسیلہ سے جنت میں داخل ہو گا اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں مجھ محمد کی جان ہے کسی بھی شخص کو اس کا عمل ہمارے حق کی معرفت حاصل کئے بغیر فائدہ نہیں دے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

    (الطبراني في المعجم الاوسط، 2 / 360، الرقم : 2230، و الہيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 172.)

    نوٹ: محبتِ رسول کی اہمیت سے انکار اور اسکے ذکر کو “بیکار“ کہنے والوں کے لیے لمحہء فکریہ ہے کہ فرمانِ رسول صلی علیہ وسلم کے مطابق محبتِ رسول و اھلیبت رسول کے بغیر اعمال کی حقیقت کیا ہے ؟

    اللہ تعالی، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، اھلیب اطہار رضوان اللہ علیھم کی محبت کی اہمیت واضح ہوجانے کے بعد اسکے مخالف جذبات یعنی “بغض و عداوت“ رکھنے والوں کواچھے اعمال کے باوجود اللہ تعالی اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جن نتائج کا اعلان کیا گیا ہے وہ بھی دیکھ لیجئے۔

    عن زيد بن ارقم رضي اﷲ عنہ، ان رسول اﷲ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم قال لعلي و فاطمہ و الحسن و الحسين رضي اﷲ عنھم : انا حرب لمن حاربتم، و سلم لمن سالمتم.

    ’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین سلام اﷲ علیہم سے فرمایا : جس سے تم لڑو گے میری بھی اس سے لڑائی ہو گی، اور جس سے تم صلح کرو گے میری بھی اس سے صلح ہو گی۔‘‘

    (ترمذی، الجامع الصحيح، 5 : 699، ابواب المناقب، رقم : 3870، ابن ماجہ، السنن، 1 : 52، رقم : 145، ابن حبان، الصحيح، 15 : 434، رقم : 6977، ابن ابي شيبہ، المصنف، 6 : 378، رقم : 32181، حاکم، المستدرک، 3 : 161، رقم : 4714، طبراني، المعجم الکبير، 3 : 40، رقم : 20 - 2619 ، طبراني، المعجم الاوسط، 5 : 182، رقم : 5015)

    آخر میں ایک بار پھر یہی گذارش ہے کہ آئیے ہم فراخ دلی سے دینِ اسلام کی جزئیات کو پکڑنے کی بجائے “ادخلو فی السلم کافۃ“ کے حکم کے مطابق پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجائیں۔ محبتِ الہی، محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، محبتِ اھلیبتِ اطہار اور حُب و تعظیمِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو دل میں بسا کر، اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی زندگی کو ڈھال لیں تاکہ ایمان کی کامل لذت و حلاوت سے آشنائی ممکن ہوسکے۔

    احادیثِ صحیحہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایمان ، عمل پر مقدم ہے۔ بےایمان کا کوئی عمل اللہ تعالی کے اجر نہیں پائے گا۔ اور ایمان کے لیے اللہ تعالی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اشد ضروری بلکہ امام مسلم کے مطابق واجب ہے۔جب تک ایمان ہی دل میں داخل نہ ہو ۔عمل کا اوراسکے اجر کا کیا جواز ؟ اگر فقط کلمہ پڑھ لینا ہی “ایمان“ ہوتا تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے عظیم صحابی کو حضورنبی اکرم :saw: ایمان کی تکمیل کے لیے اپنی جان سے بڑھ کر دل میں “محبتِ رسول :saw: “ بسانے کا حکم نہ دیتے۔

    لیکن محبت فقط دعووں کا نام بھی نہیں۔ محبت ہوجانے کے بعد انسان محبوب کی ہر ہر ادا کو اپنا لیتا ہے۔ اور یوں سچی محبت کرنے والے کی ساری زندگی “اتباعِ رسول :saw: “ میں فنا ہوجاتی ہے۔ یہی ایمان، یہی اعمال اللہ تعالی کے ہاں قابلِ قبول ہیں۔

    اہلبیتِ اطہار کی محبت ، اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اہلبیت اطہار رضوان اللہ علیھم سے بغض و عداوت اللہ تعالی اور اسکے رسول :saw: سے عداوت ہے۔ قاتلانِ حسین :rda: کے شان میں قصیدے لکھنے والوں کو اپنے گریبان میں جھانک کر سوچنا چاہیئے کہ کل قیامت کے دن جنت کے سردار اگر “سیدنا امام حسن و حسین رضوان اللہ علیھما“ ہیں تو قاتلانِ حسین :rda: کا شمار کہاں ہوگا؟ اور قاتلانِ حسین :rda: کے دفاع و حمایت میں قصیدہ سرائی کرنے والوں کا شمار کس قطار میں ہوگا ؟

    آخر میں نعیم صاحب کی اجازت سے انہی کی سطور پر اپنے مضمون کا اختتام کروں گا۔

    کتنے خوش بخت ہیں وہ امتی جو اپنے دلوں کو محبوب خدا علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت سے لبریز رکھتے ہیں اور محبت اس قدر شدید ہوجاتی ہے کہ اپنی جان، اپنے والدین اور ساری دنیا سے بڑھ کر دل میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا سمندر موجزن ہوجاتا ہے۔ اسی شدید محبت سے سرشار ایمان کامل کا درجہ حاصل کر کے ہر ہر عمل میں اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں۔ اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں اور عقیدے میں قرآن کا حکم “من یطع الرسول فقد اطاع اللہ“ رہتا ہے۔ “صلو علیہ وسلمو تسلیما“ کے حکم کی پیروی مین شب و روز محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ انکی زبانیں ہمہ وقت درودوسلام بر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لبریز رہتی ہیں اورقلب و نظر میں ادب و احترامِ مصطفیٰ بسائے رکھتے ہیں۔

    اے اللہ تبارک وتعالی ! ہمیں زبانی کلامی بحث مباحثوں میں الجھنے کی بجائے اپنی بندگی ، اپنے حبیب مکرم کی محبت و اطاعت میں وہ درجہ عطا فرما کہ ہم مومن کامل بن کر تیری رضا کے حقدار بن جائیں تاکہ قبر اور حشر کے مراحل میں سرخروئی حاصل ہوسکے۔ آمین ثم آمین
     
  8. محمدعبیداللہ
    آف لائن

    محمدعبیداللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏23 فروری 2007
    پیغامات:
    1,054
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    آمین ثم آمین

    جزاک اللہ برادربھائی امید ہے کہ اب منکرین اسلام کو ان کے تمام سوالوں کے جواب مل گے ہوں گے ویسے بھی ان کی عادت صرف ڈنڈی مارنے کی حد تک ہے اصل موقف سے ہٹ کر ہی بات کرنا ہوتی ہے بارگاہ رب العزت میں میری دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کے علم میں عمر میں برکتیں عطا فرمائے اور منکرین اور ہدایت عطا فرمائے آمین ثم آمین
     
  9. کاشفی
    آف لائن

    کاشفی شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏5 جون 2007
    پیغامات:
    4,774
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    جزاک اللہ برادر بھائی۔۔۔۔ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے۔۔آمین۔۔ اور آپ اور آپ آل و عیال کو دین و دنیا دونوں میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل ہر ہر قدم پر کامیابی اور کامرانی عطا کرے آمین۔۔۔۔ اور میرے دل میں بھی آپ کی طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اصحابہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی محبت کوٹ کوٹ کر بھر دے اور ان کے نقش قدم پر چلائے جیسے آپ چل رہے ہیں۔۔۔۔آمین ثم آمین۔۔۔ اللہ تعالی سب کو مزید ہدایت عطا کرے آمین ثم آمین۔۔
     
  10. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    محبی برادر!
    کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ آپ شخصی تعصب کے چشمے سے تحریر کو پڑھنے اور کانٹ چھانٹ کر اس سے "من مانا" نتیجہ اخذ کرنے کے بجائے غیرجانبداری سے "گفتگو" کا باطمینان جائزہ لیتے۔
    آپ فرماتے ہیں :
    کیا یہ ایک مسلمان کا کسی دوسرے مسلمان پر بہتان نہیں ہے؟
    اس دھاگے میں کیا آپ میری تحریر سے کوئی ایک ایسی سطر بتا سکتے ہیں جس کو پڑھ کر وہ نتیجہ نکالا جا سکے جو کہ آپ نے نکالا ہے؟؟
    ہاں اگر الفاظ کو کاٹ چھانٹ کر سامنے والے کی توہین کرنا کسی کی عادتوں میں شامل ہوتا ہے تو اس پر خاموش رہنا مناسب ہے کہ اس کا حساب کتاب بروزِ حشر بہتر لیا جا سکتا ہے۔

    بہرحال میرا اصل جملہ یوں تھا :
    کیا اس جملے سے دل میں موجود محبت کے انکار کا پہلو نکلتا ہے؟
    جو بات فسانے میں تھی ہی نہیں اس کو پکڑ کر "ناول" لکھ دیا جائے تو بتائیے ایسی تحریر کے متعلق کیا کہا جائے؟؟

    صاف ہی تو میں نے لکھا تھا کہ : جو محبت دل میں ہے ، اس کے متعلق "بحث" بیکار ہے۔ (چونکہ کس کے دل میں کتنی محبت ہے وہ علمِ غیب کا معاملہ ہے جس کے متعلق "بحث" نہیں کی جا سکتی)۔
    کیا میں نے ایسا کہا تھا کہ : دل میں جو محبت ہے ، وہ قطعاً بیکار ہے؟؟

    بہرحال ۔۔۔ صرف اتنا یاد رکھئے کہ جس "محبت" کی تائید میں آپ نے اتنی طویل ترین تحریر رقم فرمائی اس سے کسی بھی مسلمان (بشمول راقم) کو انکار نہیں ہے۔
    بات تو وہ ہے کہ : آپ محبتِ نبی کریم(صلی اللہ علیہ وسلم) یا معرفتِ مصطفیٰ(صلی اللہ علیہ وسلم) کا جذبہ دل میں پیدا کیسے کریں گے؟؟
    یہی وہ سوال ہے جس کا جواب آپ احباب اب تک دے نہیں پائے۔
    حالانکہ سیدھی سی بات ہے کہ جب تک قرآن و سنت کی حقیقی تعلیمات کی اتباع نہیں ہوگی تب تک ہم یونہی امتی شخصیات کے غلو میں اسی طرح گرفتار ہو کر "نعروں اور نعتوں" جیسے الفاظ کو بھی اتباعِ رسول میں شریک سمجھتے رہیں گے۔
    اور اللہ ہی ہم تمام کو ہدایت دینے والا ہے۔
     
  11. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو ان جھوٹوں پر جو “جان بوجھ“ کر “ضعیف احادیث“ کو “صحیح احادیث“ باور کرانے میں اپنی عمر ضائع کر رہے ہیں۔

    زید بن ارقم کی درج بالا روایت کے ایک راوی پر خود امام ترمذی نے ضعف کا حکم لگایا ہے۔
    علامہ ناصرالدین البانی نے اس کو "ضعیف ترمذی" میں درج کیا ہے۔
     
  12. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم برادر بھائی ۔ جزاک اللہ ۔ آپ نے بالکل درست فرمایا۔ اور میں آپکے ان جملوں میں تھوڑی سے اِضافے کی جسارت کرتے ہوئے لکھوں گا۔

    اہلبیتِ اطہار کی محبت ، اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اہلبیت اطہار رضوان اللہ علیھم سے بغض و عداوت اللہ تعالی اور اسکے رسول سے عداوت ہے۔ قاتلانِ حسین کے شان میں قصیدے لکھنے والوں کو اپنے گریبان میں جھانک کر سوچنا چاہیئے کہ کل قیامت کے دن جنت کے سردار اگر “سیدنا امام حسن و حسین رضوان اللہ علیھما“ ہیں تو قاتلانِ حسین اور دشمنانِ حسین رضی اللہ عنہ کا شمار کہاں ہوگا؟
    اھلبیت اطہار کی شان میں وارد احادیث کو ضعیف قرار دینے والے معترض صاحب کے موقف کو بالفرض محال مان بھی لیا جائے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے ایک راوی کو کہ جسکا نام بھی خود معترض صاحب یہاں نہیں دے سکے کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن قابلِ غور مقام یہ ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی کا (بقول آپکے) ایک راوی کوضعیف ہونے کے باوجود روایت کردینا کہ اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ حدیث کے متن پر کو مانتے ہیں اور اس متن میں بیان کی گئی شانِ اہلبیت کے قائل ہیں جبھی تو انہوں نے خود اس حدیث کو آگے روایت کردیا ہے تاکہ اہلبیت اطہار کی شان میں یہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم امت تک پہنچ جائے۔ اور کم از کم مجھ جیسے عام مسلمان کے لیے (کہ جو قرآنی حکم “الا المودۃ القربیٰ“ پڑھ چکا ہے) اتنے عظیم محدث کا ایک حدیث کو روایت کردینا ہی کافی دلیل ہے کہ یہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم برحق ہے اور بغضِ اہلبیتِ اطہار درحقیقت بغضِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ اور ویسے بھی اس مفہوم کی دیگر کئی احادیث دیگر کتب میں موجود ہیں ۔ خود برادر بھائی نے بھی اپنے مضمون میں کئی احادیث پیش کردی ہیں۔

    البتہ اگر کسی کا دل ہی بغضِ حسین رضی اللہ عنہ سے بھرا ہوا ہو۔ اور اسے ساری زندگی ایک مضمون بھی امام عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شان میں لکھنا نصیب نہ ہوا ہو۔ البتہ دشمنانِ حسین رضی اللہ عنہ کے دفاع و حمایت میں قصیدہ سرائیکرنے میں عمر گذر گئی ہو تو ظاہر ہے ایسی احادیث پر انکا سیخ پا ہونا اور لعنت ملامت پر اتر آنا بالکل سمجھ میں آتا ہے۔


    بہرحال برادر بھائی ۔
    اللہ تعالی آپ کی تحقیق اور محنت و کاوش کو قبول فرماتے ہوئے اپنی جناب سے محبتِ رسول :saw: ، حبِّ اہلبیت و صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی خیرات عطا فرمائے۔ اور امتِ مصطفیٰ :saw: کو اپنے رحمت اللعلمین نبی :saw: کے مقام و مرتبہ کو پہچانے اور انکی محبت و تعظیم میں فنائیت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین :saw:
     
  13. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جسکا نام بھی خود معترض صاحب یہاں نہیں دے سکے
    بھائی جان ! کبھی خود بھی کچھ تحقیق کر لیا کریں۔ کبھی خود سے اصل حدیث دیکھ لیا کریں۔ آخر اتنی بھی اندھی عقیدت کیا کہ کسی نے کہہ دیا اور آپ نے نے آنکھ بند کر کے مان لیا؟ اسلامیات کے ڈاکٹر یا پروفیسر بن جانے کے بعد کیا آج کے کسی امتی میں اتنی استطاعت بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ جو کہہ دے بس وہی حق ہو جاتا یا حق بن جاتا ہے؟؟
    ترمذی کی اصل حدیث آپ یہاں ذرا دیکھیں۔

    اس حدیث کی شرح بھی اسی کے نیچے درج ہے۔ تھذیب التھذیب میں حافظ ابن حجر العسقلانی نے اس پر بحث بھی کی ہے اور اسے ضعیف بتایا ہے۔ اور یہ بھی کہا جا چکا ہے کہ علامہ البانی نے اس کو "ضعیف سنن ترمذی" میں درج کیا ہے۔
    حدیث کی صحت پر محدثین کا فیصلہ مانا جاتا ہے کسی عالم یا ڈاکٹر پروفیسر کا نہیں۔
    علاوہ ازیں ، اہل بیت یا صحابہ کرام کی شان میں بیشمار صحیح احادیث موجود ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے موضوع یا ضعیف روایات کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی۔
    ضعیف روایت اگر فضائل یا مناقب میں بیان کرنا بھی ہو تو اصول یہ ہے کہ روایت کا ضعف ہونا بھی بیان کر دیا جاتا ہے۔ کسی بھی عالم دین سے یہ اصول پوچھ کر دیکھ لیں۔
     
  14. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    السلام علیکم ورحمۃ اللہ !

    ایمان و عمل کے مابین توازن میں “اہمیت و فوقیت“ کے متعلق پہلے دیے گئے مضمون میں ذاتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قلبی محبت و نسبت کی ایمان کے لیے ناگزیریت اور ظاہری اعمال پر فوقیت کو بیان کیا گیا ہے۔ اسی بابت مزید احادیث کے حوالے سے محبتِ رسول علیہ الصلوۃ والتسلیم اور بظاہر کم اعمال جبکہ دوسری طرف ظاہری اعمال کے ڈھیر لیکن دل محبت و تعظیم رسول علیہ الصلوۃ والسلام سے خالی ہونے کا تقابلی جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔

    صحیح بخاری ، جلد 5 صفحہ 2281 کی حدیث نمبر 5811، اور صحیح بخاری جلد6، صفحہ 2540 کی احادیث نمبر 6532 اور 6534 بھی قابلِ توجہ ہیں کہ جب ذولخویصرہ تمیمی نے بارگاہِ رسالت :saw: کا حیا نہ کرتے ہوئے، بےادبی سے حضور :saw: کو معاذ اللہ ۔۔۔ “اللہ سے ڈر کر عدل کرنے “ کی نصیحت کی اور حضور :saw: کی طرف پشت کرکے چلا گیا۔ حدیث پاک میں اسکا حلیہ بھی بیان کیا گیا کہ تہمد پنڈلیوں سے بھی اونچا تھا۔ داڑھی گھنی اور آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھی۔ (اکثر دوستوں کے مشاہدے میں اس حلیہ سے ہی ایک خاص طبقے کی نشاندہی ہوجاتی ہے :) ۔)

    وہ بدبخت جسکا دل محبت وادبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خالی تھا اسکی اس گستاخی پر حضرت عمر :rda: اور حضرت خالد بن ولید :rda: جیسے صحابہ کرام نے اس کو قتل کرنے کی اجازت چاہی (اگر حضرت عمرفاروق اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنھما کی جگہ آج کے ظاہری اعمال والے مولوی ہوتے تو کہتے کہ بات تو اس بدبخت نے قرآن و حدیث کے منافی نہیں کی کہ “اللہ سے ڈرو اور عدل کرو“ اور اسکے دفاع و مدح سرائی میں نعرے لگانے شروع کردیتے۔ لیکن قربان جائیں وہ حضرت عمر فاروق و حضرت خالد بن ولید تھے کہ جن کے رگ و پے میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم رچ بس گیا تھا اور ان کے دلوں میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے محبت و عقیدت دنیا کی ہر چیز سے زیادہ تھی جسے آج کے مولوی بےکار چیز سمجھتے ہیں )
    بہرحال حضور :saw: نے خاص حکمت کے تحت دونوں صحابیوں کو روک دیا ۔ البتہ اس موقع پر جو ارشاد فرمایا وہ لائقِ توجہ ہے۔ فرمایا

    “کہ اسکے ٹولے کے کچھ لوگ ہوں‌گے جو تلاوتِ قرآن اتنی کثرت سے کریں گے کہ تم انکے سامنے اپنی تلاوت قرآن کو کم جانو گے۔ وہ نمازیں اتنی زیادہ پڑھیں گے کہ تم اپنی نمازیں انکے سامنے کم جانو گے یعنی ایسے ٹولے کے لوگوں کی بظاہر عبادتیں و اعمال صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم سے بھی زیادہ ہوں گے (کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے براہ راست صحابہ کرام کو فرمایا تھا کہ “تم اپنی نمازیں، اپنی عبادتیں اپنی تلاوتیں انکی عبادتوں اور تلاوتوں کے سامنے کم سمجھو گے“) لیکن وہ ایمان سے ایسے خارج ہوچکے ہوں گے جیسے تیر شکار سے گذر کر آگے نکل جاتا ہے۔ یعنی انکا ایمان ضائع ہوچکا ہوگا “

    ثابت یہ ہوا کہ اگر دل محبت و ادبِ رسول :saw: سے خالی ہو تو بظاہر اعمال کے ڈھیر بھی انسان کو اجر وثواب تو درکنار “ایمان“ کے دروازے میں ہی داخل نہیں ہونے دیتے۔ اور ایمان نہ ہوا تو بندہ بے ایمان رہا۔ اور بےایمان شخص کے اعمال کس کام کے ؟

    اب بخاری شریف ہی کی ایک اور حدیث پاک دیکھئیے ۔صحیح بخاری ، جلد 6، صفحی 2489، حدیث نمبر 6389۔

    ایک صحابی ہیں ۔ جو حضور :saw: سے محبت یوں کرتے ہیں کہ حضور :saw: جب بھی پریشان ہوتے تو وہ صحابی حضور :saw: کو خوش کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی مزاحیہ بات کردیتے اور حضور :saw: کے چہرہ انور پر مسکراہٹ پھیل جاتی ۔ ظاہر ہے ہنسانے کا یہ عمل حضور :saw: کی ذات سے محبت کا ائینہ دار ہے کیونکہ انسان جس سے محبت کرتا ہے فطرتی بات ہے کہ اسے خوش دیکھنا اور خوش رکھنا چاہتا ہے۔ (ان صحابی کی یہ صفت ایک دوسری روایت میں بیان ہوئی ہے)

    یہی صحابی فطرتی، بشری کمزوری کے باعث شراب حرام ہوچکنے کے بعد بھی شراب پی لیتے تھے۔ حضور :saw: نے اس پر حد جاری کی اور سزا دی۔ دوبارہ شراب پی پھر حد جاری کی گئی اسطرح بار بار سزا ملنے پر بھی شخصی و بشری کمزوری کے باعث شراب پی لیتے۔ اس پر کسی صحابی نے کہا “اس شخص پر اللہ کی لعنت کہ بار بار پکڑ کر حضور :saw: کی بارگاہ میں پیش کیا جاتا ہے“ یعنی بار بار شراب پیتا ہے گناہ کبیرہ کرتا ہے اور پھر حضور :saw: کی بارگاہ میں سزا کے لیے پیش کیا جاتا ہے“ یہ سن کر حضور نبی اکرم :saw: نے جو کچھ اس موقع پر فرمایا۔ وہ بھی قابل توجہ ہے فرمایا۔

    “اس پر لعنت نہ کرو کیونکہ یہ اللہ اور اسکے رسول :saw: سے محبت کرتا ہے“

    یعنی وہ شخص بظاہر عمل میں بہت کمزور تھا۔ بلکہ گناہگار تھا۔ لیکن اپنے دل میں محبتِ رسول :saw: رکھنے کے باعث نہ صرف لعنت سے بچا لیا گیا بلکہ زبانِ رسالت :saw: نے اسکی اللہ و رسول :saw: کے لیے محبت کی گواہی بھی دے دی۔ یہ کتنا بڑا اعزاز ہے کہ حضور :saw: سے محبت کے دعویدار تو لاکھوں کروڑوں ہیں لیکن زبانِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے “محبت “ پر گواہی تو کسی کسی کو ہی نصیب ہوئی ہوگی۔ اور وہ بظاہر کمزور اعمال والے صحابی کو بھی حضور :saw: نے اسکی محبت کی گواہی دے کر اسے لعنت سے بچا لیا۔

    دونوں احادیث کے موازنے سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ محبت و ادبِ رسول :saw: اصلِ ایمان ہے۔ مومن ہونے کی شرط ہی محبتِ رسول :saw: ہے۔ جیسا کہ متفق علیہ حدیث سے ثابت ہے

    (البخاري في الصحيح، 1 / 14، الرقم : 15، ومسلم في الصحيح، 1 / 67، الرقم : 44.)

    ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اُس کے والد (یعنی والدین)، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہو جاؤں۔‘‘

    جہاں تک نعت و مدحتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق ہے تو یہ عمل بھی قلبی محبت و تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ جس کو جس سے جتنی محبت ہوتی ہے فطرتی بات ہے کہ وہ اسکا اتنا ہی ذکر کرتا ہے۔ اور جتنا اپنے محبوب کا ذکر کیا جائے محب کے دل کو سکون و اطمینان ملتا ہے اسی لیے اللہ تعالی بھی قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں کہ “الا بذکر اللہ تطمئن القلوب“ ترجمہ آگاہ ہوجاؤ کہ دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر سے ہے۔ “ جس کو کسی سے محبت ہی نہ ہوگی وہ کسی دوسرے کا ذکر کیوں کرے گا؟ اس لیے نعت و مدحتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے انکار کرنے والے بھی اپنی جگہ سچے ہیں کہ ان کے دل میں محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رمق ہی نہیں ہے تو وہ ذکرِ و نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کیوں آئیں گے۔ یہ سعادت تو اللہ تعالی نے امہات المومنین سے لے کر ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین، اولیائے عظام اور سچے غلامانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائی ہے۔ ذولخویصرہ تمیمی اور اسکے ٹولے جیسے گستاخوں کے حصے میں محبتِ و مدحتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نعمت کبھی نہیں آ سکتی۔

    پھر دوسری حدیث پاک کی طرف آتے ہیں کہ دوسری طرف ایک ایسا شخص جو بظاہر کلمہ گو ہے، اعمال کا ڈھیر اسکے پاس ہے، مگر اسکا دل محبت و ادبِ رسول :saw: اور حیائے رسول :saw: سے خالی ہے۔ اور اسکے ٹولے کے لوگ بظاہر اعمال کے ڈھیر اتنے زیادہ لگائیں گے (اور اسکے ٹولے کے لوگ اسی گستاخ کے مخصوص حلیے میں آج ظاہری اعمال کے ڈھیر لگا بھی رہے ہیں اور فقط ظاہری اعمال پر ہی اصرار بھی کررہے ہیں اور ہر بات کو گھما پھرا کر محبت و تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹا کر فقط ظاہری اعمال کی طرف لے جاتے ہیں )

    اس ٹولے کے اعمال بظاہر اتنے زیادہ بھی ہوجائیں کہ خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم بھی اپنے اعمال کو کم سمجھیں ۔ لیکن بنا محبت و ادبِ رسول :saw: ایسے اعمال کے ڈھیر انہی کچھ فائدہ نہ پہنچا سکیں گے اور زبانِ مصطفوی :saw: سے وہ ایمان سے ہی خارج قرار دے دیے جا چکے ہیں۔

    اسکے علاوہ بھی کئی فرموداتِ رسول :saw: ہیں کہ جنکی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اہلبیت اطہار اور بالخصوص حسنین کریمین رضوان اللہ علیھما کی محبت بھی رسول اللہ :saw: سے محبت ہے اور رسول اللہ :saw: سے محبت اپنے خالق و مالک حق تعالی سے محبت ہے۔ اور حسنین کریمین رضوان اللہ علیھما سے بغض و عداوت درحقیقت رسول اکرم :saw: سے بغض و عداوت ہے اور آقا کریم :saw: سےبغض و عداوت سیدھی اللہ رب العزت سے بغض و عداوت قرار پاتی ہے۔ اور دشمنِ حسین رضی اللہ عنہ ، دشمنِ رسول :saw: ٹھہرا، اور دشمنِ رسول :saw: سیدھا دشمنِ الہی ٹھہرا۔۔۔ کیونکہ قرآن مجید میں بھی اللہ تعالی نے محض حضور نبی اکرم :saw: کے ایذا و اذیت دینے کو خود اللہ تعالی کو اذیت دینا قرار دیا ہے۔ تو ایسے بدبخت دشمنانِ اہلبیت و دشمنانِ رسول و دشمنانِ الہی کے دفاع میں قلم اٹھانے والے ، زبانیں کھولنے والے اور صفحات کالے کرنے والے خود ایمان کے کس درجے میں ہوں گے؟

    اللہ تعالی ہمیں محبت و ادبِ رسول :saw: سے مزیّن ایمان عطا فرمائے اور اس نور سے ہمارے اعمال کو جِلا بخشے تاکہ ہم دنیا و آخرت میں رحمتِ الہی و شفاعتِ رسول :saw: کے حقدار بن سکیں۔ آمین
     
  15. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    محترم برادر صاحب

    حضور اکرم :saw: کے اھل بیت میں کون کون شامل ہیں۔

    اسلام میں تصویر اور موسیقی کا کیا مقام ہے؟

    حضرت عثمان :rda: کی کتنی اولادیں تھیں؟

    دشمن حسنین رضوان اللہ علیہ سے مراد کون ہیں؟

    اسلام میں نظریہ امامت کا کیا مقام ہے اور امام کا درجہ کیا ہے؟

    امید ہے کہ حضرت قائد انقلاب شیخ الحدیث پروفیسر علامہ ڈاکٹر طاھر القادری صاحب کی تحاریر اور ارشادات کے مطابق جواب سے مسفید فرمائیں گے؟
     
  16. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    بہت مفید احادیث شئر کی گئی ہیں ، جزاک اللہ۔
    مگر یہ بات تو کسی نے نہیں بتائی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی "معرفت" کیسے حاصل ہوگی ؟
    کیا زبانی کلامی محبتِ مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) جتلانے یا نعرہ لگانے سے ؟؟
    یا
    رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ثابت شدہ تمام سنتوں پر عمل کرنے سے ؟؟[/quote:2esqfehg]
    جس مسلمان کے پاس بھی نفاق سے پاک ایمان کی دولت ہے اسے معرفت مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم بلا شبہ حاصل ہوگئ اس کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے باذوق صاحب اور ہاں یہ یاد رکھیئے کے اگر صرف اطاعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نجات ہوتی تو اطاعت تو منافقین بھی کرتے تھے مگر ان کے دل محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خالی تھے اس لیے جہنمی ٹھرے لیکن اگر دل میں محبت رسول کا جذبہ موجزن ہو تو پھر اعمال میں کمی بیشی سے بھی کام چل ہی جائے گا لیکن میری اس بات کا ہرگز مقصد نہیں کہ اعمال ضروری نہیں اعمال بھی ایمان کے ساتھ ساتھ لازم ملزوم ہیں مگر حقیقت ایمان میں شامل نہیں ۔
    بخاری شریف کی ایک حدیث کا مفہوم پیش خدمت ہے اللہ کمی بیشی معاف فرمائے کہ ایک صحابی رسول کو جب بار بار شراب پینے پر حد لگائی گئی تو چند صحابہ کرام نے اسے برا بھلا کہا لیکن قربان جائیں آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت پر کہ جو گناھ گاروں کو اپنے دامن میں سمیٹنے پر حریص ہے اس رحمت عالم کی بارگاہ سے یہ نوید ملتی ہے کہ اسے برا مت کہو کیونکہ یہ اللہ اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہے ۔ ہم میں سے تو محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوے کرنے والے بہت ہیں مگر قربان جائیں ان کے مقدر پر کے جنھیں خود بارگاہ رسالت سے اپنی محبت کی سند ملتی ہے ۔ اس کے علاوہ بخاری و مسلم کی ایک حدیث کا مفہوم آپکی خدمت میں پیش کرکے ایک سوال کروں گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کے اے عمر تجھے سب سے زیادہ کس چیز سے محبت ہے انھوں عرض کی یا رسول اللہ اپنی جان سے تو آپ نے فرمایا خدا کی قسم تم اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک ہر شئے سے بڑھ کر مجھ سے محبت نہ کرو تو انھون نے عرض کی یارسول اللہ مجھے ہر شئے سے بڑھ کر آپ سے محبت ہے اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اے عمر اب تمہارا ایمان مکمل ہوا۔
    یہ تو تھا حدیث کا مفہوم اللہ کمی بیشی معاف فرمائے میرا سوال آپ سے یہ تھا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر سے یہ سوال کیا تو کیا اس وقت حضرت عمر کو نبی کریم سے محبت نہیں تھی؟ اور پھر دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عمر سے اس سوال کے پوچھنے کی نوبت پیش آئی کیا معاذاللہ حضرت عمر کی اطاعت و فرمانبرداری میں کوئی کمی تھی کیا وہ رسول اللہ کے ساتھ جنگوں میں نہیں لڑے کیا وہ پانچوں وقت رسول اللہ کے پیچھے نماز ادا نہیں فرماتے تھے کیا انھوں نے کسی مسئلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع میں کسی حیل و حجت سے کام لیا تھا نہیں اور ہرگز نہیں جب ایسا کچھ بھی نہیں تھا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کی تمام تر اطاعت و اتباع کے باوجود ان سے اپنی محبت کی بابت سوال کیوں کیا؟
    آخر میں اس عرض کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ میرے بھائی دل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت کو شامل کرلو اسی کو دین کا مرکز و محور جانو تو پھر اگر اعمال میں کوئی کمی بیشی بھی ہوئی تو ان شاء اللہ کل قیامت کے دن کام چل جائے گا مگر اگر دل محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خالی رہا تو اعمال کے دفتر کے دفتر کل بے کار ہوجائیں گے اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو اعمال کی تکڑی میں مت تولو میرے بھائی دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو دین کی فقہ عطا فرمائے۔ آمین
     
  17. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    ماشاءاللہ ۔ عابی بھائی۔ اللہ تعالی آپ کے جذبات سلامت رکھے اور ہم سب کو یہ دولتِ محبتِ رسول :saw: عطا فرما کر اطاعت و اتباعِ رسول :saw: کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

    لیکن اللہ تعالی ۔ اپنے حبیب :saw: کی محبت جیسی پاک نعمت خوش نصیبوں کو ہی دیتا ہے۔ کئیوں کے مقدر میں تو صرف بحث مباحثے ہی لکھے ہوتے ہیں۔
     
  18. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    برادر نے جواب نہیں دیا شاید مصروف ہوں گے۔
     
  19. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم سیف بھائی۔ کافی دنوں بعد آپکی زیارت ہوئی۔ خیریت سے ہیں ؟
    آپ برادر صاحب کی فکر چھوڑیں کیونکہ اصولی طور پر اگر وہ سوالات آپکی دلچسپی کے ہیں تو آپکو چاہیئے کہ پہلے آپ اپنا موقف واضح فرمائیں۔ اپنے دلائل اور اپنی رائے دیں اور اگر کسی کو اس پر اعتراض ہوا تو وہ آپ سے بات کر لے گا۔

    فی الحال آپکی اپنی دلچسپی سے اور آپکے اپنے شروع کردہ موضوع کی لڑی “وسیلہ کے جواز و عدم جواز“ میں کافی سوالات کے جواباتآپکی نظر عنائیت کے منتظر ہیں۔
    http://www.oururdu.com/forum/viewtopic. ... 3709#53709

    والسلام علیکم
     
  20. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    اگر یہ جواب برادر صاحب خود دیتے تو زیادہ بھتر ہوتا۔ نعیم بھائی آپ کو زحمت کی کیا ضرورت پڑ گئی۔
     
  21. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
  22. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    آپ سے پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ جواب کمپور کر رھا ہوں لیکن معلوم نہیں آپ کو کیا جلدی ہے۔ ایک دو دن مزید انتظار کر لیں۔
     
  23. مریم سیف
    آف لائن

    مریم سیف ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏15 جنوری 2008
    پیغامات:
    5,303
    موصول پسندیدگیاں:
    623
    ملک کا جھنڈا:
    اچھا جی۔۔ :soch:
     
  24. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    خدا خیر کرے ۔ اتنا جارحانہ رویہ ؟؟ :143:
     
  25. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    السلام علیکم ورحمۃ اللہ سیف بھائی ۔
    جی میں واقعی کچھ مصروف رہا۔ معذرت کہ آپکو زیادہ انتظار کرنا پڑا۔
    اور نعیم صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے میری عدم موجودگی میں میرے موقف کو واضح کر دیا۔
    محترم سیف صاحب۔
    سب دوستوں کو چاہیئے کہ فروغِ علم کے مقصد کے پیش نظر اور نیکی کے کام میں سبقت لے جانے کی نیت سے جس کے پاس جو علمی مواد ہو اسے باقی مسلمانوں کی فلاح و بہتری کے لیے شئیر کرے۔
    والسلام
     
  26. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    تجویز

    نعیم بھائی اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آپ نےبھت ہی اچھی مضمون کا آغاز کیا تھا جس کے کئی سارے جوابات ہوگئے
    میں ایک انتھائی اہم گزارش کرنا چاہوں گا تمام ارکان سے کہ ؛؛؛اسلامی تعلیمات؛؛؛کی لڑی میں گپ شپ کے ماحول سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے خالصتا ً اسی موضوع سے متعلق جوابات ارسال کیا کریں
     
  27. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ‌مریم سیف اور عقرب
    آپ کو میرا جارحانہ رویہ نظر آگیا لیکن نعیم صاحب نے جو مجھے جھٹلاتے ہوئے اپنے جواب کی فکر کرنے اور دوسروں کی فکر چھوڑنے جیسی بات دوسرے موضوع میں پیسٹ کی ہے اس کی نامعقولیت نظر نہیں آئی۔آپ جیسے لوگوں کی جانب داری پر حیرت ہوتی ہے۔
    مجیب منصور کے جواب پر بھی غور کر لیں۔ انہوں نے بڑا اچھا مشورہ دیا ہے کہ گپ شپ سے بچیں اور موضوع تک ہی گفتگو کو محدود رکھیں۔
     
  28. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    نعیم صاحب آپ کے سوالات کے جوابات مل گئے ہوں گے لیکن مجھے میرے سوالوں‌کے جواب نہیں ملے۔ برادر صاحب یا آپ میں سے کوئی بھی جواب دے دیں۔
    برادر آپ نے سب دوستوں کو کہا ہے کہ فروغِ علم کے مقصد کے پیش نظر اور نیکی کے کام میں سبقت لے جانے کی نیت سے جس کے پاس جو علمی مواد ہو اسے باقی مسلمانوں کی فلاح و بہتری کے لیے شئیر کرے۔ مشورے کا بے حدشکریہ
    “اھل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد کون ہیں اور ان میں کون شامل ہیں“ ذرا بیان فرما دیں کیونکہ ان اھل بیت سے محبت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ھے اور آپ اس محبت کے دعوے دار بھی ھوں گے لہذا آپ اس کا بہتر جواب دے سکتے ہیں۔
     
  29. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    السلام علیکم سیف صاحب۔
    کیا آپ اپنے الفاظ سے یہ گواہی دے رہے ہیں کہ آپ بذات خود اہلبیت پاک کی محبت کے دعوےدارنہیں ہیں ؟
     
  30. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    پھر نئی بحث کا عنوان نہ چھیڑیں اور جو بات نہیں کی گئی اس پر اپنے دماغ کو صرف نہ کریں۔

    میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے اور ان کے اھل بیت سے محبت ایمان کا حصہ سمجھتا ہوں لیکن آپ یہ ضرور بتائیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اھل بیت میں آپ کن کن کو شامل سمجھتے ہیں۔

    اپنے ذہن کو صاف رکھیں اور بدگمانی و بد ظنی سے بچیں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں