1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

قرآن ہر روز

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از واصف حسین, ‏3 مارچ 2011۔

  1. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
  2. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
  3. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
  4. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: قرآن ہر روز

    جزاک اللہ۔۔۔۔۔
     
  5. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
  6. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
  7. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
  8. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
  9. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
  10. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
  11. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
  12. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: قرآن ہر روز

    جزاک اللہ۔۔۔۔۔۔:dilphool:
     
  13. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
  14. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
  15. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
  16. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
  17. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: قرآن ہر روز

    محترم واصف بھائی
    السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ۔:91:
    ماشاءاللہ آپ نے اچھا سلسلہ شروع کیا ہے ۔ بےشک قرآن کریم پوری انسانیت کیلئے کتاب ہدایت ہے۔ اس کو پڑھنے ، سمجھنے اور عمل کرنے میں ہی ہماری نجات کی ضمانت ہے۔ قرآنی تعلیمات کی ترویج و اشاعت کیلئے آپکا یہ جذبہ قابل تعریف ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کاوش پر آپکو اجر عطا فرمائے۔
    واصف بھائی ، مجھے آپکی نیت پر ہرگز شک نہیں، آپ نے یہ سب یقیناً نیک نیتی سے ہی کیا ہوگا، مگر اس نیک کام کیلئے آپ نے جس ویب سائٹ کا انتخاب کیا ہے ، مجھے بہت ہی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ انکا ترجمہ و تشریح خود قرآن کریم اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعارض اور مخالف ہے۔ اس کی صرف ایک مثال یہاں آپکے سامنے رکھتا ہوں ، امید ہے کہ دردمندی اور خلوص دل سے اسکو ملاحظہ فرمائیں گے:
    یہاں سورۃ شوریٰ کی جو آیت زیر مطالعہ ہے اسکا عربی متن درج ذیل ہے:
    وَما كانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلّا وَحيًا أَو مِن وَرائِ حِجابٍ أَو يُرسِلَ رَسولًا فَيوحِىَ بِإِذنِهِ ما يَشاءُ إِنَّهُ عَلِىٌّ حَكيمٌ
    ﴿الشورى: ٥١﴾
    یہاں پر جو موضوع زیر بحث ہے اسمیں کسی بھی بشر کیلئے اللہ سے کلام کرنے کی نفی کی گئی ہے : وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ ۔ ۔ ۔ کسی بشر کی یہ مجال نہیں کہ اللہ تعالیٰ اُس سے کلام کرے ، پھر ساتھ ہی تین استثناء بیان کیے گئے ہیں:
    إِلَّا وَحْيًا ۔ مگر یہ کہ وحی کے ذریعے (کسی کو شانِ نبوت سے سرفراز فرما دے)
    أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ۔ یا پردے کے پیچھے سے (بات کرے مثلاً جیسے موسٰی علیہ السلام سے طورِ سینا پر بات کی)
    أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا ۔ یا کسی (فرشتے) کو فرستادہ بنا کر بھیجے۔
    اوپر بیان کی گئی تشریح کی روشنی میں اوپر والی آیت جو کہ زیر مطالعہ ہے ، کا درست تفسیری ترجمہ اس طرح سے بنتا ہے:

    اور کسی بشر کی (یہ) مجال نہیں کہ اللہ اس سے (براہِ راست) کلام کرے مگر یہ کہ وحی کے ذریعے (کسی کو شانِ نبوت سے سرفراز فرما دے) یا پردے کے پیچھے سے (بات کرے جیسے موسٰی علیہ السلام سے طورِ سینا پر کی) یا کسی فرشتے کو فرستادہ بنا کر بھیجے اور وہ اُس کے اِذن سے جو اللہ چاہے وحی کرے ، بیشک وہ بلند مرتبہ بڑی حکمت والا ہے

    اب ذرا آپ دیکھیں کہ اس آیت میں کہیں پر بھی علم غیب کا ذکر تک نہیں آیا مگر آپکے فاضل مفسر نے اس آیت کی خود ساختہ ، من گھڑت اور غلط تشریح کرتے ہوئے یہ لکھ دیا کہ

    ذرا ایمان سے اور دیانتداری سے مجھے بتائیے کہ یہ تشریح کہاں سے آگئی کہ "غیب کا علم کسی فرد کو اللہ نے نہیں دیا"؟ یہ تو ایسے ہی ہے کہ دعویٰ تو قرآنی تعلیمات کی روشنی پھیلانے کا کیا جارہا ہے مگر ہو کیا رہا ہے؟ قرآن فہمی کے نام پر قرآن و سنت کے مخالف ، شخصی تشریحات کی گمراہی کو عام کیا جارہا ہے۔
    میرے بھائی ذرا قرآن کریم کی اس آیت کو ملاحظہ کریں:
    آیت نمبر 1:
    وما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب ولکن اللہ یجتبی من رسلہٖ من یشآء ۔
    (پارہ 4 ، رکوع 9 ، سور ۃ آل عمران ، آیت179)
    اس آیت کی تفسیر خازن میں اس طور پر کئی گئی ہے:

    ولکن اللہ یصطفی و یختار من رسلہٖ فیطلعہ علی من یشاء من غیبہ
    آیت اور اس کی تفسیر کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
    ’’اللہ تعالیٰ تمہیں غیب پر مطلع نہیں کرتا لیکن اپنے برگزیدہ رسولوں میں سے جس کو چاہے (اس کو اپنے غیب پر خبر دینے کیلئے) چن لیتا ہے ۔
    اب اس آیت کریمہ اور اس کی تفسیر سے واضح ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ رسولوں کو غیب کی خبریں عطا کرتا ہے ۔

    حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ تمام انبیاء و رسولوں (علیہم السلام) سے برگزیدہ ہیں ۔ لہذا آپ کیلئے بھی اللہ تعالیٰ کی عطا سے علم غیب ثابت ہو گیا ۔ جو آدمی اللہ تعالی کی عطا سے آپ :saw: کے علم غیب کا منکر ہے تو وہ آپ کو برگزیدہ رسول نہیں سمجھتا ۔
    اسی تفسیر خازن میں اس آیت کے شان نزول میں یہ حدیث نقل کی گئی ہے :

    قال السدی قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرضت علی امتی افی صورھا فی الطین کما عرضت علی آدم و اعلمت من یومن بی و من یکفر بی مبلغ ذلک المناقین فقالوا استہزائً زعم محمدانہ یعلم من یومن بہ و من یکفربہ ممن لم یخلق بعد و نحن معہ وما یعرفنا مبلغ ذلک رسول اللہ صلی اللہ علیہوسلم و قام علی المنبر محمد اللہ تعالیٰ داشنی علیہ ثم قال ما بال اقوام طنعوا فی علمی لا تسالونی عن شی فیما بینکم و بین الساعۃ الا بناتکم بہ فقام عبد اللہ بن خذافہ السنہمی فقال من ابی یا رسول اللہ فقال حذافۃ فقام عمر فقال یا رسول اللہ رضینا باللہ ربا وابالاسلام دینا و بالقرآن اماماً ربک نبیا فاعف عنا فاللہ عنک فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم فھل انتم منتھون فھل انتم منتھون ۔ (خازن ص ۳۸۲، جلد اوّل)

    اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ میرے سامنے میری اُمت کو پیش کیا گیا جیسے حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے پیش کیا گیا تھا ۔ جب میرے سامنے اُمت کو پیش کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کا علم بھی عطا کر دیا جو ایمان لائیں گے اور ان کا علم بھی دے دیا جو ایمان نہیں لائیں گے ۔ جب یہ بات منافقین تک پہنچی تو انہوں نے اس کا مذاق اڑ ایا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ گمان کرتے ہیں کہ جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے ۔ ان میں سے بھی وہ مومن اور غیر مومن کو جانتے ہیں حالانکہ ہم تو ان کے پاس رہتے ہیں ہمیں وہ نہیں جانتے ۔ جب منافقین کی یہ بات حضور علیہ الصلوٰہ والسلام تک پہنچی تو آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا اقوام کو کیا حق پہنچتا ہے کہ میرے علم پر طعن کریں ۔ آپ نے فرمایا قیامت تک کے سوالات مجھ سے پوچھ لو میں ہر شیٔ کے بارے میں تمہیں خبر دوں گا ۔ حضرت عبد اللہ بن حذافہ سہمی نے اپنے والد کی خبر پوچھی ۔ حضور علیہ السلام نے ان کو ان کے والد کی خبر دے دی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کھڑ ے ہوئے عرض کرنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم اللہ تعالیٰ کو رب اور سلام کو دین مانتے ہیں اور قرآن کو امام مانتے ہیں اور آپ کو نبی مانتے ہیں ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنا بیان جاری رکھا اور فرمایا کیا تم میرے علم پر طعن کرنے سے باز نہیں آؤ گے ۔

    اس حدیث شریف سے مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں :

    نمبر1: حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھ پر میری اُمت پیش کی گئی اور مجھے ان کا علم بھی عطا کیا گیا جو مجھ پر ایمان نہیں لائیں گے اور ان کا علم بھی عطا کیا گیا جو مجھ پر ایمان لائیں ‘ یومن اور یکفر دونوں مضارع کے صیغے اس بات پر دلالت کر رہے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قیامت تک پیدا ہونے والے ہر فرد کا علم ہے اور ان میں سے مومن وغیر مومن کا بھی پتہ ہے ۔ اس سے مراد قیامت تک آنے والے افراد کا علم ہے اسی پر تو منافقین نے اعتراض کیا : زعم محمدانہ یعلم من یومن بہ و یکفر ممن لم یخلق بعد و نحن معہ و ما یغفرفنا۔کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوی تو یہ ہے کہ جو ابھی پیدا نہیں ہوئے ‘ اُن میں سے بھی مومن اور غیر مومن کو جانتے ہیں حالانکہ ہم ان کے ساتھ رہتے ہیں اور ہمیں تو نہیں پہچانتے لہذا ۔آپ کا قیامت تک کے لوگوں کے احوال کو جاننے والا دعویٰ غلط ہے ۔ (معاذ اللہ) یہ بھی پتہ چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک کے لوگوں کے دل کی دنیا کا بھی علم تھا ۔ کیونکہ ایمان و کفر کا تعلق دل سے ہے ۔

    نمبر2: حضور علیہ الصلوٰہ والسلام کے (اللہ تعالی کی عطا سے) علم غیب کا انکار سب سے پہلے منافقین نے کیا ہے کسی مسلمان نے نہیں کیا ۔ لہذا آج جو لوگ حضور علیہ الصلوٰہ والسلام کے علم غیب کا انکار کرتے ہیں وہ منافقین کے نقش قدم پر گامزن ہیں او ر ان کی سنت کو تازہ کرتے ہیں ۔

    نمبر3: جب حضور علیہ الصلوٰہ والسلام کے پاس منافقین کے انکار اور اعتراض کی خبر پہنچی تو آپ نے اپنے علم غیب جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عطا تھی اس کو ثابت کرنے اور منافقین کا ردّ کرنے کا اتنا اہتمام فرمایا کہ منبر بچھانے کا حکم کیا اور باقاعدہ جلسہ منعقد کر کے ان کے اعتراض کا جواب دیا ۔

    نمبر4:حضور علیہ الصلوٰہ والسلام نے منکرین علم غیب کے ردّ میں جو الفاظ ارشاد فرمائے وہ بڑ ے نصیحت آموز ہیں اور لرزا دینے والے ہیں ۔ آپ نے فرمایا’ان لوگوں کو میرے علم پر طعن کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے ‘‘۔

    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے علم غیب کے انکار کو طعن کے لفظ سے تعبیر کیا ۔ وہ کتنا ہی بدبخت انسان ہے جو آپ کے علم غیب کا انکار کر کے آپ پر طعنہ کرتا ہے اور آپ کو تکلیف پہنچاتا ہے ۔

    نمبر5: حضور علیہ الصلوٰہ والسلام نے منکرین علم غیب کو چیلنج کیا کہ قیامت تک ہونے والی کسی شیٔ کے بارے میں مجھ سے سوال کرو میں ہر شیٔ کے بارے میں تم کو خبر دو ں گا ۔ آپ نے کلّی علم کے بارے فرمایا کیونکہ حدیث شریف میں ہے عن شیٔ نکرہ میز نفی میں ہے جو کہ سید عموم ہے اس سے کسی کی تخصیص نہیں کی جا سکتی ۔ بلکہ ہر شیٔ کا حضور علیہ الصلوٰہ والسلام کو علم ہے ۔

    نمبر6: ایک صحابی حضرت عبد اللہ بن حذافہ سہمی نے غیب کی خبر پوچھی ۔ یعنی حضور علیہ الصلوٰہ والسلام سے سوال کیا کہ میرا (باپ) والد کون ہے ۔ صحابی نے اس والد (باپ) کے بارے سوال نہیں کیا جس کا ان کی ماں سے نکاح تھا ۔ یہ سوال کرنا تو معقول بات نہیں لگتی کیونکہ اس باپ کو تو وہ دوسرے لوگوں کی بجائے خود زیادہ جانتے تھے ۔ انہوں نے حضور علیہ الصلوٰہ والسلام سے جو والد کا سوال کیا تو پوچھنا یہ چاہتے تھے کہ میں نطفہ کس کا ہوں ؟ کیونکہ لوگوں نے ان کو وَلَدُ الزِنا ہونے سے مہتمم کر رکھا تھاتو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بتایا کہ تو حذافہ کے نطفہ سے پیدا ہوا ہے اور حلالی ہے ۔ تمہارا نسب درست ہے لہذا حضور علیہ الصلوٰہ والسلام نے غیب پوچھنے پر خبر دے دی۔

    نمبر7: جب حضور علیہ الصلوٰہ والسلام منکرین علم غیب کا غصہ کی حالت میں ردّ فرما رہے تھے تو صحابہ کرام علیہم الرضوان میں بڑ ا اضطراب پھیل گیا ۔ جب بھی صحابی آپ کی ایسی حالت کو دیکھتے تو مضطرب ہو جاتے وہ یہ سوچتے کہ پہلے سب کچھ حضور علیہ الصلوٰہ والسلام کیلئے ہم نے ترک کیا ہے اور اگر آپ ہم سے ناراض ہو گئے تو ہم سے زیادہ خسارے میں کون ہو گا ؟ اس لئے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اُٹھے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ کو نبی تسلیم کرتے ہیں ۔ ہم نے آپ کے علم غیب پر اعتراض نہیں کیا ہم تو آپ کو نبی یعنی غیب کی خبریں دینے والامانتے ہیں ۔

    نمبر8: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری طرح منکرین کا ردّ فرمایا اور غیب کی خبریں پوچھنے کی دعوت دی پھر آپ نے فرمایا ’’فھل انتم منتھون‘‘ کیا تم اب بھی میرے علم پر طعن کرنے سے باز نہیں آؤ گے ۔ آپ نے بڑ ی تاکید کے ساتھ علم غیب پر طعن کرنے والوں کو روکا ۔ مسلمانوں نے تو پہلے بھی انکار نہیں کیا تھا اور بعد میں اُمت مسلمہ کا اس بات پر اجماع رہا کہ حضور علیہ الصلوٰہ والسلام بعطائے الٰہی علم غیب جانتے ہیں ۔ یہاں تک کہ گیارھویں صدی میں آ کر بعض نام نہاد لوگوں نے یہ گمان کیا اُمت مسلمہ کو حضور علیہ الصلوٰہ والسلام کی وہ تقریر بھول چکی ہو گی اس لئے انہوں نے پھر آپ کے علم غیب پر طعن کرنا شروع کیا۔

    آیت نمبر2:
    اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
    ذلک من انباء الغیب نوحیہ الیک ۔
    (پارہ 3، رکوع 13)
    اس آیت کی تفسیر ‘تفسیر خازن میں بایں طور ہے ۔
    یقول اللہ عزوجل بحمد صلی اللہ علیہ وسلم ذلک الذی ذکرت لک من حدیث زکریا و یحییٰ و مریم و عیسیٰ علیہم السلام من اخبار الغیب ۔ (خازن ص 292 جز اوّل)
    اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو فرمایا کہ میں نے جو آپ کو حضرت زکریا ‘ حضرت یحییٰ ‘ حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کی باتیں بتائی ہیں یہ غیب کی خبروں سے ہیں ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو غیب کی خبروں کی تعلیم دی اور ہمارا عقیدہ بھی یہی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰہ والسلام اللہ تعالیٰ کے بتانے سے غیب جانتے ہیں ۔
    آیت نمبر 3:
    دوسرے مقام پر ہے :
    تلک من انباء الغیب نوحیھا الیک ۔
    (پارہ 12، رکوع 4، سورہ ھود ، آیت 49)
    اس آیت کی تفسیر‘ تفسیر خازن میں یوں ہے ۔
    ہذا خطاب للنبی صلی اللہ علیہ وسلم یعنی ان ھذہ القصۃ التی اخبرناک یا محمد من قصۃ نوح و خبر قولہ من انباء الغیب یعنی من اخبار الغیب۔ (تفسیر خازن جز ثالث ، ص 193)
    خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام اور آپ کی قوم کا قصہ حضور علیہ الصلوٰہ والسلام کو بتلایا اور فرمایا اے محبوب یہ غیب کی چیزیں ہیں ۔
    آیت نمبر4:
    اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
    عالم الغیب فلا یظھر علی غیبہٖ احداً الا من ارتضیٰ من رسول
    (پارہ 29، ع 12، سورۃ جن ، آیت 26، 27)
    اس آیت کی تفسیر ‘تفسیر خازن میں یوں ہے ۔ ملاحظہ ہو:
    ھو عالم ماغاب عن العبار فلا یطع علی الغیب الذی یعلمہ والفردبہ احدا من الناس ثم استثنی فقال تعالیٰ الا من ارتضیٰ من الرسول۔یعنی الا من یعطفیہ لرسالۃ و نبوتہ فینظرہ علی من یشاء من الغیب حتی یستدل علی نبویۃ بما یخبر بہ من المغیبات فیکون ذالک معزجۃ لہ۔
    (خازن ص 136، جز سابع)
    آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غیب کا علم رکھنے والا ہے ۔ پس نہیں مطلع کرتا اپنے غیب پر کسی ایک کو مگر رسولوں میں سے جسے چاہے اس پر غیب کا اظہار کر دیتا ہے ۔
    تفسیر میں یوں وضاحت کی گئی کہ اللہ تعالیٰ رسولوں میں سے جس کو چن لیتا ہے اس کو جتنا چاہتا ہے غیب عطا فرما دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ یہ غیب اپنے مصطفے ٰ نبی کو اس لئے دیتا ہے تا کہ وہ نبی اپنی نبوت کے دعوی کی دلیل کیلئے ایک علم غیب کو پیش کرے ۔ لہذا یہ غیب کا علم مصطفے ٰ نبی کا معجزہ ہو گا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ تمام نبیوں میں سے زیادہ برگزیدہ ہیں ۔ لہذا آپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے علم غیب عطا کیا ہے اور علم غیب آپ کا معجزہ ہے جو آپ کے عطائی علم غیب کا انکار کرتا ہے ۔ وہ آپ کے مرتضیٰ اور مصطفے ٰ یعنی برگزیدہ ہونے کا انکار کرتا ہے ۔
    آیت نمبر5:
    اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
    وما ھو علی الغیب بضنین (پارہ 20، رکوع 6 ، سورہ التکویر ، آیت 34)
    تفسیر خازن سے اس کی تفسیر ملاحظہ ہو:
    (وما ھو) یعنی محمدا صلی اللہ علیہ وسلم (علی الغیب) اسی الوحی و خبر اسماء وما طلع علیہ مما کان غائبا عن علمہ من القصص والانبا (بضنین) ای بیخیل یقول انہ یاتیہ علم الغیب ولا یبخل بہ علیکم و یخبرکم بہ ولا یکتمہ کما یکتم الکاہن ما عندہ حتی یا خذ علیہ حلوانا۔ (خازن ص 180، جز سابع)
    [/FONT][/COLOR]اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت محمد مصطفے ٰ صلی اللہ علیہ وسلم غیب بتاتے ہیں ۔ بخل نہیں کرتے ۔ تفسیر خازن میں آیت میں مذکور لفظ غیب کی وضاحت کی گئی کہ وہ غیب کیا ہے ۔ وہ وحی ہے اور آسمان کی خبریں اور وہ تمام خبریں اور قصص ہیں جن کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نہیں جانتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتائے یہ تمام غیب بتانے میں آپ بخیل نہیں ہے ۔ تفسیر میں مزید وضاح کی گئی ہے حضور علیہ الصلوٰہ والسلام کے پاس علم غیب ہے اور اس کے اظہار میں بخل نہیں کرتے اور نہ ہی اس کو چھپاتے ہیں جیسا کہ کاہن جو کچھ اس کے پاس ہوتا ہے اس کو چھپاتا ہے اس پر اُجرت وصول کرتا ہے ۔
    اب اس مسئلہ پر چند احادیث ملاحظہ ہو:

    نمبر۱:عن عبدالرحمن ابن عائش قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رایت ر بی عزوجل فی احسن صورۃ فقال فیہم یختصم الملاء الاعلیٰ قلت انت اعلم قال فوضع کفہ بین کتفی فوجدت بردھا بین ثدیی فعلمت ما فی السموات والارض و تلاو کذلک نری ابراہیم ملکوت السموات والارض فیکون من الموقنین ۔ (مشکوٰۃ شریف ص 70، کتاب الصلوٰۃ باب المساجد و مواضع الصلوٰۃ دوسری فصل)
    حضرت عبد الرحمن بن عائش سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا میں نے اپنے رب عزوجل کو احسن صورۃ میں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پوچھا ملاء اعلیٰ کے فرشتے کس بارے جھگڑ رہے ہیں ۔ میں نے عرض کیا کہ تو خوب جانتا ہے ۔ آپ نے فرمایا ’’پس اللہ تعالیٰ نے اپنا دست قدرت میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا میں نے دست قدرت کی ٹھنڈک کو اپنے دونوں پستانوں کے درمیان محسوس کیا ‘ پس میں نے ہر اس شی کو جان لیا جو کہ آسمانوں اور زمین میں ہے اور حضور علیہ السلام نے یہ آیت پڑ ھی ، جس کا ترجمہ یہ ہے )
    ’’اسی طرح دکھاتے ہیں ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کے ملکوت تا کہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائے ‘‘۔
    شیخ محقق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فعلمت ما فی السموات والارض کے تحت لکھتے ہیں :
    پس دانستم ہر چہ در آسمان ہا و ہرچہ در زمین بود عبارت است از حصول تمامہ علوم جزوی و کلی و احاطہ آں (اشعۃ للمعات شرح مشکوٰۃ ص 233، جز اوّل)

    یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آسمانوں اور زمینوں کی ہر شیٔ کا علم مجھے آ گیا یعنی جزوی علوم اور کلّی علوم آپ کو حاصل ہو گئے ۔
    پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بطور دلیل یہ آیت پڑ ھی کذلک نری ابراہیم ملکوت السموات والارض لیکون من الموقنین ۔ کہ جیسے آپ کو ہم نے ہر شیٔ دکھا دی اور علم دے دیا ایسے ہی ہم ابراہیم علیہ السلام کو زمین و آسمان کے ملکوت دکھاتے ہیں ۔ آیت کریمہ میں چونکہ ماضی کے قصہ کی حکایت کی جا رہی ہے ۔ اس لئے کذلک ارینا ہونا چاہیئے تھا لیکن نُری استمرار پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اب بھی عادت جاری ہے کہ اپنے محبوبوں کو آسمانوں اور زمین کے ملکوت دکھاتا ہے ۔
    شیخ محقق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مشاہدہ میں فرق بیان کیا ہے ۔
    اہل تحقیق گفتہ اند کہ تفاوت است درمیاں ایں دو روایت زیراکہ خلیل علیہ السلام ملک آسمان رادید و حبیب ہر چہ در آسمان و زمین بود حالی از ذوات و صفات و ظواہر و بواطن ہمسہ رادید و خلیل حاصل شد مرا اورا یقین بوجوب ذاتی و وحدت حق بعد از دیدن ملکوت آسمان و زمین چنانکہ حال اہل استدلال و ارباب سلوک و محبان و طالبان میبا شد و حبیب حاصل شد مرا اور ا یقین و وصول الی اللہ اوّل پس از آں دانست عالم را و حقائق آنرا چنانکہ شان مجذوبان و محبوبان و مطلوبان ست۔
    پہلا فرق یہ ہے کہ حضرت (خلیل ) ابراہیم علیہ السلام نے زمین و آسمانوں کے ملک کو دیکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف زمین اور آسمانوں کو ہی نہیں دیکھا بلکہ زمین اور آسمانوں کو اور ذوات اور صفات تھیں ‘ظاہر تھیں یا باطن تھی سب کو دیکھا ۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو وجوب ذاتی اور وحدت حق کا یقین زمین و آسمان کے ملکوت دیکھنے کے بعد حاصل ہوا جو کہ اہل استدلال ارباب سلوک اور محبان اور طالبان کا حال ہے ۔
    اور (حبیب) حضرت محمد مصطفے ٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین اور وصول الی اللہ عالم اور اس کے حقائق کے مشاہدہ سے پہلے حاصل تھا جو کہ مجذوبان اور مطلوبان کی شان ہے ۔
    حدیث ۶: فاذا انا بربی تبارک و تعالیٰ فی احسن صورۃ فقال یا محمد قلت لیبک رب قال قیم یختصم والملاء الا علیٰ قلت لا ادری قالہا ثلثا قال فرأیتہ وضع کفہ بین کتفی حتی وجدت بردانا ملہ بین ثدیی فتجلی لی کل شیٔ و عرفت فقال یا محمد قلت لبیک رب قال فیہم یختصم الملا الاعلیٰ قلت فی الکفارات ۔
    (مشکوٰۃ شریف ص 73، کتاب الصلوٰۃ باب المساجد و مواضع الصلوٰۃ تیسری فصل)
    پس اچانک میں اپنے رب کو احسن صورۃ میں دیکھتا ہوں ۔ پس فرمایا اللہ تعالیٰ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )میں نے عرض کیا ’’لبیک ‘‘ اے میرے رب ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’ملّا اعلیٰ کس بارے میں بحث کر رہے ہیں ‘‘، میں نے کہا میں نہیں جانتا ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کلمات تین مرتبہ د ہرائے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا دست قدرت میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا یہاں تک کہ میں نے اس دست قدرت کے پوروں کی ٹھنڈک کو اپنے پستانوں کے درمیان پایا۔ پس میرے لئے ہر شیٔ ظاہر اور روشن ہو گئی اور میں نے ہر شیٔ کو پہچان لیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں نے عرض کیا لبیک ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ملّا اعلیٰ کس میں بحث کر رہے ہیں ۔ میں نے کہا کفارات میں ۔ فتجلی لی کل شیٔ و عرفت کی شرح میں شیخ محقق علیہ الرحمۃ نے فرمایا:
    پس ظاہر شدد روش شد ط رمرا ہر چیز از علوم و شناختم ہمہ۔
    پھر میرے لئے علوم سے ہر چیز روشن اور ظاہر ہو گئی اور میں نے ہر شیٔ کو پہچان لیا۔
    پہلی حدیث میں تھا فعلمت اس میں ہے عرفت۔ علم عام ہے کلی کا ہو یا جزی کا اور عرفان خاص ہے کہ یہ جزئیات کی ہوتی ہے ۔ لہذا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے زمین آسمان اور ان میں موجود جزی جزی کو دیکھا اور علم حاصل کیا۔ اسی حدیث شریف کے آخر میں ہے فقال صلی اللہ علیہ وسلم انھا حق حق فادرسو ھا ثم تعلموھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ روایت حق ہے اس کو پڑ ھاؤ اور خود اسے یاد رکھو ۔ اس میں آپ کا علم غیب واضح ہے آپ کو پتہ تھا کہ بعد میں ایسی قوم آئے گی جو میرے علم غیب پر اعتراض کرے گی ۔ اس لئے لہذا یہ حدیث جس میں میرے علم غیب کا ثبوت ہے ۔ یہ لوگوں کو پڑ ھاؤ اور اس کی تبلیغ کرو ۔ کچھ لوگ اس حدیث کی صحت کے بارے میں شک کرتے ہیں ۔ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا ہذا حدیث صحیح۔ یہ صحیح حدیث ہے ۔ (مشکوٰۃ ص 72)

    پیارے واصف بھائی! امید ہے کہ اوپر کی ساری گفتگو سے اس مسئلہ پر آپکو شرح صدر ہو گیا ہوگا۔ لہَذا میری آپ سے گذارش ہے کہ براہ مہربانی ، آئیندہ کسی معتبر ویب سائیٹ سے قرآن کریم کو یہاں پوسٹ کریں ، تاکہ کہیں ہم غلط فہمی میں مارے نہ جائیں۔ کیونکہ اسی قرآن کریم کے بارے میں اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا:
    يُضِلُّ بِهِ كَثيرًا وَيَهدى بِهِ كَثيرًا وَما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الفٰسِقينَ ﴿البقرة: 26﴾
    ترجمہ: اسی کے ذریعے وہ کثیر لوگوں کو گمراہ ٹھہراتا ہے اور کثیر لوگوں کو ہدایت دیتا ہے اور سوائے فاسق لوگوں کے وہ اسکے ذریعے کسی اور کو گمراہ نہیں ٹھہراتا۔
    اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اُن لوگوں میں کردے جو قرآنِ کریم کے ذریعے ہدایت پاتے ہیں، جو حق بات کو سنتے ہیں اور بلا ترددقبول کرلیتےہیں۔ آمین۔
    اللہ حافظ۔ والسلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ
    :dilphool::dilphool::dilphool:
     
  18. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: قرآن ہر روز

    محترمی محمد اکرم صاحب
    ماشاءاللہ آپ نے بہت تحقیقی اور علمی تحریر لکھی۔ واصف بھائی کی نیک نیتی پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا۔
    بہر حال اس بارے میں مزید بات واصف بھائی ہی کریں گے۔
    اللہ تعالی آپ دونوں بھائیوں کے علم و عمل میں اور اضافہ فرمائے تاکہ ہمیں اسی طرح کی اچھی اچھی شیئرنگز پڑھنے کو ملتی رہیں۔
    جزاک اللہ
     
  19. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: قرآن ہر روز

    محمد اکرم بھائی تفصیلی اور مدلل تبصرہ کرنے کا شکریہ۔ آپ کا یہ پیغام میں من و عن جناب عمر الغزالی صاحب کو بھیج رہا ہوں۔
    جہاں تک میری بات ہے تو میں کوئی عالم یا مفسر نہیں ہوں۔ قران ہرروز کے نام کی کتاب جو عمرالغزالی صاحب نے مرتب کی ہے کا ایک ورق تاریخ کے حساب سے یہاں شئیر کرتا ہوں۔ چونکہ عمر صاحب سے میرا رابطہ رہتا ہے تو جو بھی تبصرہ یا غلطی کی نشاندھی ہوتی ہے عمر صاحب کو ارسال کر دیتا ہوں تاکہ اس کی درستگی کی جا سکے۔
     
  20. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
  21. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: قرآن ہر روز

    السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔
    شکریہ واصف بھائی، عمر الغزالی صاحب کے جواب کا انتظار رہے گا۔
    والسلام۔
     
  22. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
  23. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
  24. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
  25. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
  26. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
  27. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
  28. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
  29. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
  30. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:

اس صفحے کو مشتہر کریں