1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

صحیح بخاری

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از سیف, ‏9 اگست 2008۔

  1. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    (۱)
    خلیفہ راشد سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور عمل کانتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔پس جس کی ہجرت (ترک وطن) دولت دنےا حاصل کرنے کیلئے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض سے ہو ‘ پس اس کی ہجرت انہی چیزوں کے لیے (شمار) ہوگی جن کو حاصل کرنے کے لیے اس نے ہجرت کی ہے ۔
     
  2. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    (2)
    ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے (روایت ہے ) کہ حارث بن ہشام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا یا رسول اللہ ! آپ پر وحی کس طرح آتی ہے؟ تو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” کبھی تو میرے پاس گھنٹی کی آواز کی طرح آواز آتی ہے اور (نزول وحی کی تما م حالتوںمیں) یہ (حالت) مجھ پر زیادہ دشوار ہے ۔پھر (یہ حالت ) مجھ سے دور (موقوف) ہو جاتی ہے اس حال میں کہ (فرشتے نے)جو کچھ کہا اس کو اخذ کر چکا ہوتا ہوں اور کبھی فرشتہ میرے سامنے آدمی کی صور ت میں آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے تو جو کچھ وہ کہتا ہے اس کو میں حفظ کر لیتا ہوں۔“ام المومینن عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ بے شک میں نے سخت سردی والے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتے ہوئے دیکھی اور سلسلہ منقطع ہونے پر (یہ دیکھا کہ اس وقت ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی (مقدس) پیشانی سے پسینہ بہنے لگتا تھا۔
     
  3. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    (3)
    ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا سب سے پہلی وحی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر شروع ہوئی وہ اچھے خواب تھے ۔پس جو خواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے تھے وہ(صاف صاف) صبح کی روشنی کے مثل ظاہر ہو جاتا تھا۔(پھر اللہ کی طرف سے ) خلوت کی محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی گئی ۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں خلوت فرمایا کرتے تھے اور وہاں آپ کئی رات (لگاتار) عبادت کیا کرتے تھے۔بغیر اس کے کہ اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر آتے اور اسی قدر زادراہ بھی لے جاتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی آگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں تھے یعنی فرشتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ) کہا کہ پڑھو ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میںپڑھا ہوا نہیں ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پھر فرشتے نے مجھے پکڑلیا اور مجھے(زور سے ) بھینچا یہاں تک کہ مجھے تکلیف ہوئی۔پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھیے !تو میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔پھر فرشتے نے مجھے پکڑ لیا اور (زور سے ) بھینچا یہاں تک کہ مجھے تکلیف ہوئی پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھیے ۔تو میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔آپصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ فرشتے نے مجھے پھر پکڑ لیا اور سہ بار مجھے (زور سے )بھینچا پھر مجھ کہا کہ اقرا باسم ربک الخ (العلق : 1۔3)”اپنے پرودگار کے نام (کی بر کت ) سے پڑھو جس نے (ہر چیز کو) پیدا کیا انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیاپڑھو اور (یقین کر لو کہ ) تمہار ا پرودگار بڑا بزرگ ہے“ ۔پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل اس واقعہ کے سبب سے (مارے خوف کے )کانپنے لگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور (وہاں موجود لوگوں سے) کہا کہ مجھے کمبل اڑھا دو،مجھے کمبل اڑھادو ۔چنانچہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کمبل اڑھا دیایہاں تک کہ (جب ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل سے خوف جاتا رہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدیجہ رضی اللہ عنھا سے سب حال(جو غار میں گزرا تھا ) بیان کرکے کہا کہ بلاشبہ مجھے اپنی جان کا خوف ہے ۔ خدیجہ رضی اللہ عنھا بولیں کہ ہر گز نہیں۔اللہ کی قسم ! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔یقینا آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ناتواں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ،جو چیزلوگوں کے پاس نہیں وہ انہیں دیتے ہیں مہمان کی خاطر تواضع کرتے ہیںاور( اللہ کی راہ میں) مدد کرتے ہیں ۔پھر خدیجہ رضی اللہ عنھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کولے کر چلیں اور ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزی جوکہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کے چچا کے بیٹے تھے ،کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لائیں اور ورقہ وہ شخص تھا جو زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہو گیا تھا اور عبرانی کتا ب لکھا کرتا تھا۔یعنی جس قدر اللہ کو منظور ہوتا تھا انجیل کو عبرانی میں لکھا کرتا تھا اور بڑا بوڑھا آدمی تھا کہ بینائی جا چکی تھی ۔ تو اس سے ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ اے میرے چچا کے بیٹے ! اپنے بھتیجے (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے (ان کا حال) سنو !ورقہ بولے ،اے میرے بھتیجے !تم کیا دیکھتے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا ان سے بیان کردیا تو ورقہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یہ وہ فرشتہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر نازل کیا تھا ۔اے کاش! میں اس وقت ( جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہوں گے ) جوان ہوتا۔اے کاش میں(اس وقت تک) زندہ رہتا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی قوم (مکہ سے) نکالے گی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( یہ سن کر بہت تعجب سے ) فرمایا :کیا یہ لوگ مجھے نکالیں گے ؟ ورقہ نے کہا ہاں جس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی بات بیان کی اس سے (ہمیشہ) دشمنی کی گئی اور اگر مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( کی نبوت ) کا دور مل گیا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ہی بھر پور طریقے سے مد د کروں گا۔ مگر چند ہی روز گزرے تھے کہ ورقہ کی وفات ہوگئی اور وحی( کی آمد عارضی طور پر پر چند روز کے لیے ) رک گئی۔
     
  4. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    (4)
    سید نا جابر بن عبداللہ :rda: سے روایت ہے اور وہ وحی کے بند ہو جانے کا حال بیان کرتے ہیں اور (یہ بھی) کہتے ہیں کہ(رسول اللہ :saw: نے فرمایا کہ ایک دن) اس حال میں کہ میں چلا جا رہا تھا تو یکا یک میں نے آسمان سے ایک آواز سنی ،میں نے اپنی نظر اٹھائی تو( کیا دیکھتا ہوںکہ) وہی فرشتہ جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا ،ایک کرسی پر زمین و آسمان میں معلق بیٹھا ہوا ہے ۔میں اس( کے دیکھنے ) سے ڈر گیا۔پھر لوٹ آیا تو میں نے (گھر میں آکر) کہا مجھے کمبل اڑھا دو،مجھے کمبل اڑھا دو۔پھر (اسی موقع پر ) اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں”اے کپڑا اوڑھنے والے اٹھ کھڑا ہو اور (لوگوں کو عذاب الہٰی سے ) ڈرا اور اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کر اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھا کر اور ناپا کی (یعنی بتوں کی پرستش) کو چھوڑدے ۔ (المدثر:1۔5)
     
  5. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    (5)
    سید نا ابن عباس سے اللہ تعالیٰ کے کلام” لا تحریک۔۔۔۔“ الخ (سورہ القیامہ :61 کی تفسیر ) میں منقول ہے کہ رسول اللہ :saw: کو (قرآن کے ) نزول کے وقت سخت دقت کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور ازاں جملہ یہ تھا کہ آپ :saw: اپنے دونوں ہونٹ (جلد جلد) ہلاتے تھے (تاکہ وحی یاد ہوجائے ) ابن عباس :rda: نے (سعید راوی سے ) کہا کہ میں اپنے ہونٹوں کو تمہارے (سمجھانے کے لیے ) اسی طرح حرکت دیتاہوں جس طرح رسول اللہ :saw: اپنے ہونٹوں کو حرکت دیتے تھے (الغرض رسول اللہ :saw: کی یہ حالت دیکھ کر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیات ناز ل فرمائیں:”اے محمد ( :saw: ) (قرآن کو جلد یاد کرنے کے لیے ) اس کے ساتھ تم اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کروتا کہ جلد (اخذ ) کرلو‘یقینا اس کا جمع کردینا اور پڑھا دینا ہمارے ذمہ ہے “(سورہ القیامہ:71۔61)سیدنا ابن عباس :rda: کہتے ہیں کہ (یعنی ) قرآن کا تمہارے سینہ میں جمع(محفوظ ) کر دینا اور اس کو تمہیں پڑھا دینا۔پھر جس وقت ہم اس کو پڑھ چکیں تو پھر تم اس کے پڑھنے کی پیروی کرو۔(سورہ القیامہ :81) ابن عباس :rda: کہتے ہیں کہ یعنی اس کو توجہ سے سنو اور چپ رہو۔پھر یقینا اس (کے مطلب) کا سمجھا دینا ہمارے ذمہ ہے (سورہ القیامہ :91) (یعنی )پھر بے شک ہمارے ذمہ ہے یہ کہ انھیں یاد ہوجائے پھر اس کے بعد جب آپ :saw: کے پاس جبرئیل :as: (کلام الہٰی لے کر)آتے تھے تو آپ :saw: توجہ سے سنتے تھے ۔جب جبرئیل :as: چلے چاتے تو اس کو نبی :saw: اسی طرح پڑھتے جس طرح جبرئیل :as: نے اس کو (آپ :saw: کے سامنے )پڑھا تھا۔
     
  6. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    (6)
    سید نا ابن عباس :rda: کہتے ہیں کہ رسول اللہ :saw: تما م لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور تمام اوقات سے زےادہ آپ :saw: رمضان مےں سخی ہو جاتے تھے(خصوصاً)جب آپ :saw: سے جبرئیل علےہ السلام (آکر) ملتے تھے اور جبرئیل علیہ السلام آپ :saw: سے رمضان کی ہر رات میں ملتے تھے اور آپ :saw: سے قرآن کا دور کیا کرتے تھے ۔تو یقینا (اس وقت ) رسول اللہ :saw: (خلق اللہ کی نفع رسانی میں) تندو تیز ہوا سے بھی زیادہ (سخاوت میں ) تیز ہوتے تھے ۔
     
  7. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    (۷)
    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ابو سفیان بن حرب ؓ سے بیان کیا کہ ہر قل (شاہ روم) نے ان کے پاس ایک آدمی بھیجا (اوروہ) قریش کے چند سواروں میں(اس وقت بیٹھے ہوئے تھے ) اور وہ لوگ شام میں تاجر (بن گئے ) تھے (اور یہ واقعہ ) اس زمانہ میں(ہوا ہے ) جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سفیان اور (نیز دیگر ) کفار قریش سے ایک محدود عہد کیا تھا۔چنانچہ سب قریش ہر قل کے پاس آئے اور یہ لوگ (اس وقت) ایلیاءمیں تھے ۔تو ہر قل نے ان کو اپنے دربار میں طلب کیااور اس کے گرد سردار ان روم (بیٹھے ہوئے)تھے ۔پھر ان (سب قریشیوں) کو اس نے (اپنے قریب ) بلایا اور اپنے ترجمان کو طلب کیا اور (قریشیوں سے مخاطب ہوکر)کہا کہ تم میں سب سے زیادہ اس شخص کا قریب النسب کون ہے جو اپنے کو نبی کہتا ہے ؟ ابو سفیان ؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں ان سب سے زیادہ (ان کا) قریب النسب ہوں (یہ سنکر) ہر قل نے کہا کہ ابو سفیان کو میرے قریب کر دو اور اس کے ساتھیوں کو (بھی) قریب رکھو اور ان کو ابو سفیان کے پس پشت (کھڑا) کرو۔ پھر اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہو کہ میں ابو سفیان سے اس مرد کا حال پوچھتا ہوں (جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے) پس اگر یہ مجھ سے جھوٹ بیان کرے تو تم (فوراً) اس کی تکذیب کر دینا ۔(ابو سفیان ) کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! اگر (مجھے ) اس بات کی شرم نہ ہوتی کہ لوگ میرے اوپر جھوٹ بولنے کا الزام لگائیں گے یقینا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت غلط باتیں بیان کردیتا ۔غرض سب سے پہلے جو ہر قل نے مجھ سے پوچھا تھا ،یہ تھا کہ ان کانسب تم لوگوں میں کیسا ہے ؟ میں نے کہا کہ وہ ہم میں عالی نسب ہیں ۔ (پھر) ہر قل نے کہا کہ کیا تم میں سے کسی نے ان سے پہلے بھی اس بات (یعنی نبوت) کا دعویٰ کیا ہے ؟ میں نے کہا نہیں(پھر ) ہر قل نے کہا کہ کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ گزرا ہے ؟میں نے کہا نہیں ۔(پھر) ہر قل نے کہا کہ بااثر لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے یا کمزور لوگو ں نے ؟ میں نے کہا (امیروں نے نہیں بلکہ) کمزور لوگوں نے ۔(پھر) ہر قل بولا کہ آیا ان کے پیرو (روز بروز) بڑھتے جاتے ہیں یا گھٹتے جاتے ہیں؟ میں نے کہا( کم نہیں ہوتے بلکہ) زیادہ ہوتے جاتے ہیں۔(پھر) ہرقل نے پوچھا کہ آیا ان (لوگوں ) میں سے (کوئی ) ان کے دین میں داخل ہو نے کے بعد ان کے دین سے بد ظن ہوکر منحرف بھی ہو جاتا ہے ؟ میں نے کہا کہ نہیں۔(پھر) ہرقل نے پوچھا کہ کیا وہ (کبھی ) وعدہ خلافی کرتے ہیں؟ میں نے کہا کہ نہیں۔اور اب ہم ا ن کی طرف سے مہلت میں ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ اس (مہلت کے زمانہ) میں کیا کریں گے (وعدہ خلافی یا وعدہ وفائی ) ابو سفیا ن کہتے ہیں کہ سوائے اس کلمہ کے اور مجھے موقع نہیں ملا کہ میں بات ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات میں) داخل کردیتا ۔ (پھر) ہرقل نے پوچھا کہ کیا تم نے (کبھی ) اس سے جنگ کی ہے ؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ تو(ہرقل) بو لا تمہاری جنگ اس سے کیسی رہتی ہے ؟میں نے کہا کہ لڑائی ہمارے اور ا ن کے درمیان ڈول ( کے مثل) رہتی ہے کہ (کبھی) وہ ہم سے لے لیتے ہیں اور (کبھی) ہم ان سے لے لیتے ہیں (یعنی کبھی ہم فتح پاتے ہیں اور کبھی وہ) (پھر) ہر قل نے پوچھا کہ وہ تم کو کیا حکم دیتے ہیں؟ میں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرواور (شرکیہ باتیں و عبادتیں)جو تمہارے باپ دادا کیا کرتے تھے ،سب چھوڑ دو اور ہمیں نماز( پڑھنے ) اور سچ بولنے اور پرہیز گاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔

    اس کے بعد ہرقل نے ترجمان سے کہا کہ ابو سفیان سے کہو کہ میں نے تم سے اس کا نسب پوچھا تو تم نے بیان کیا کہ وہ تمہارے درمیان میں(اعلیٰ) نسب والے ہیں چنانچہ تمام پیغمبر اپنی قوم کے نسب میں اسی طرح ( عالی نسب) مبعوث ہوا کرتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا یہ بات (یعنی اپنی نبوت کی خبر) تم میں سے کسی اور نے بھی ان سے پہلے کہی تھی؟تو تم نے بیان کیا کہ نہیں۔میں نے (اپنے دل میں) یہ کہا تھا کہ اگر یہ بات ان سے پہلے کوئی کہہ چکا ہوا تومیں کہہ دوں گا کہ وہ ایک ایسے شخص ہیں جو اس قولکی تقلید کرتے ہیں جو ان سے پہلے کہا جاچکا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ تھا؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں۔پس میں نے ( اپنے دل میں) کہا تھا کہ ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ ہوا ہوگاتو میں کہہ دوں گا کہ وہ ایک شخص ہیں جو اپنے باپ دادا کا ملک (اقتدار حاصل کرنا) چاہتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا اس سے پہلے کہ انھوں نے جو یہ بات(نبوت کا دعویٰ )کہی ہے ،کہیں تم ان پر جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے ؟تو تم نے کہا کہ نہیں ۔پس (اب) میںیقینا جانتا ہوں کہ (کوئی شخص ) ایسا نہیں ہو سکتا کہ لوگوں سے تو جھوٹ بولنا (غلط بیانی ) چھوڑ دے اور اللہ پر جھوٹ بولے اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا بڑے(با اثر) لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے یا کمزور لوگوں نے ؟ تم نے کہا کہ کمزور لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے اور ( دراصل) تما م پیغمبر کے پیرو یہی لوگ(ہوتے رہے ) ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے پیرو زیادہ ہوتے جاتے ہیں یا کم ؟ تو تم نے بیان کیا کہ زیادہ ہوتے جاتے ہیں اور( درحقیقت ) ایمان کا یہی حال ( ہوتا ) ہے تا وقتیکہ کمال کو پہنچ جائے اور میں نے تم سے پوچھا کہ کیا کوئی شخص ا ن کے دین میں داخل ہونے کے بعد ان کے دین سے ناخوش ہو کہ (دین سے ) پھربھی جاتا ہے ؟تو تم نے بیان کیا کہ نہیں ! اور ایمان (کا حال) ایسا ہی ہے جب اس کی بشاشت دلوں میں رچ بس جائے (تو پھر نہیں نکلتی) اور میںنے تم سے پوچھا کہ آیا وہ وعدہ خلافی کرتے ہیں؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں!اور (بات یہ ہے کہ) اسی طرح تما م پیغمبر وعدہ خلافی نہیں کرتے اور میںنے تم سے پوچھا کہ وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتے ہیں؟ تو تم نے بیان کیا کہ وہ تمہیں یہ حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو نیز تمہیں بتوں کی پرستش سے منع کرتے ہیں اور تمہیں نماز(پڑھنے ) سچ بولنے اور پرہیز گاری (اختیار کرنے) کا حکم دیتے ہیں پس اگر جو تم کہتے ہو سچ ہے تو عنقریب وہ میرے ان دونوں قدموں کی جگہ کے مالک ہو جائیں گے اور بے شک میں(کتب سابقہ کی پیش گوئی سے ) جانتا تھا کہ وہ ظاہر ہونے والے ہیں مگر میں یہ نہ سمجھتا تھا کہ وہ تم میں سے ہوں گے ۔پس اگر میں جانتا کہ ان تک پہنچ سکوں گا تو میں ان سے ملنے کا بڑا اہتمام وسعی کرتا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو یقینا میں ان کے قدموں کو دھوتا ۔ پھر ہر قل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا( مقدس) خط ،جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سید نا دحیہ کلبی کے ہمراہ میر بصریٰ کے پاس بھیجا تھااور امیر بصریٰ نے اس کو ہر قل کے پاس بھیج دیا تھا،منگوایا (اور اس کو پڑھوایا) تو اس میں (یہ مضمون ) تھا

    ”اللہ نہایت مہربان رحم والے کے نام سے “
    (یہ خط ہے) اللہ کے بندے اور اس کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بادشاہ روم کی طرف۔اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے۔بعد اس کے (واضح ہو کہ) میں تم کو اسلام کی طرف بلاتا ہوں۔اسلام لاو گے تو ( قہر الہٰی سے ) بچ جاو گے اور اللہ تمہیں تمہارا ثواب دوگنا دے گا اور اگر تم (میری دعوت سے) سے منہ پھیرو گے تو بلاشبہ تم پر (تمہاری ) تمام رعیت کے (ایمان نہ لانے ) کا گناہ ہوگا اور ”اے اہل کتاب ایک ایسی بات کی طرف آو جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے یعنی یہ کہ ہم اور تم اللہ کے سوا کسی کی بند گی نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو سوائے اللہ کے پروردگار بنائے (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ) پھر اگر اہل کتاب اس سے اعراض کریں تو تم کہہ دینا کہ اس بات کے گواہ رہو کہ ہم تو اللہ کی اطاعت کرنے والے ہیں“۔(آل عمران:64)

    ابو سفیان کہتے ہیں کہ ہر قل نے جو کچھ کہنا تھا ،کہہ چکا اور ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا) خط پڑھنے سے فارغ ہوا تو اس کے ہاں بہت ہی شور ہونے لگا۔آوازیں بلند ہوئیں اور ہم لوگ ( وہاں سے ) نکال دیے گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا،جب کہ ہم سب باہر کردیے گئے ،کہ (دیکھو تو ) ابو کبثہ کے بیٹے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کا معاملہ ورتبہ ایسا بڑھ گیا کہ اس سے بنو اصفر (روم ) کا بادشاہ بھی خوف کھاتا ہے ۔پس ہمیشہ میں اس کایقین رکھتا رہا کہ وہ عنقریب غالب ہو جائیں گے یہاں تک کہ اللہ نے مجھ کو مشرف بہ اسلام کردیا ۔

    فرمایا اور ابن ناطور جو ایلیا ءکا حاکم ،ہر قل کا مصاحب اور شا م کے عیسائیوں کا پیرپادری ہے ،وہ بیان کرتا ہے کہ ہرقل جب ایلیا ءمیں آیا تو ایک دن صبح کو بہت پریشان خاطر اٹھا تو اس کے بعض خواص نے کہا کہ ہمیں (اس وقت) آپ کی حالت کچھ اچھی دکھائی نہیں دیتی ۔ابن ناطور کہتا ہے کہ ہرقل کا ہن تھا ،علم نجوم میں مہارت رکھتا تھا،تو اس نے اپنے خواص سے ،جب کہ انھوں نے پوچھا یہ کہا کہ میں نے رات کو جب ستاروں میں نظر کی تو دیکھا کہ ختنہ کرنے والا بادشاہ غالب ہوگیا تو(دیکھو کہ)اس دور کے لوگوں میں ختنہ کون کرتا ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ سوائے یہود کے کوئی ختنہ نہیں کرتا،سو یہود کی طرف سے آپ اندیشہ نہ کریں اوراپنے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں(حاکموں کو) لکھ بھیجئے کہ جتنے یہود وہاں ہیں سب قتل کردیے جائیں۔پس وہ لوگ اپنی اسی منصوبہ بندی میں تھے کہ ہر قل کے پاس آدمی لایا گیا جسے غسان کے بادشاہ نے بھیجا تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر بیان کرتا تھا سو جب ہرقل نے اس سے یہ خبر معلوم کی تو( اپنے لوگوں سے ) کہا کہ جاو اور دیکھو کہ وہ ختنہ کیے ہوئے ہے یا نہیں؟ لوگوں نے اس کو دیکھا تو بیان کیا کہ وہ ختنہ کیے ہوئے ہے ۔اور ہرقل نے اس سے اہل عرب کا حال پوچھا تو اسنے کہاکہ وہ ختنہ کرتے ہیں ۔تب ہرقل نے کہا کہ یہی (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) اس دور کے لوگوں کا بادشاہ ہے جو ظاہر ہو گیا ۔ پھر ہرقل نے اپنے دوست کو رومیہ ( یہ حال) لکھ بھیجا وہ علم (نجوم) میں اسی کا ہم پلہ تھا اور (یہ لکھ کر ) ہر قل حمص کی طرف چلا گیا۔پھر حمص سے باہر بھی نہیں جانے پایا تھا کہ اس کے دوست کاخط (اس کے جواب میں) آگیا ۔وہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بارے میں ہرقل کی رائے کی موافقت کرتا تھا اور یہ (اس نے لکھا تھا) کہ وہ نبی ہیں ۔ اس کے بعد ہرقل نے سردار ان روم کو اپنے محل میںجو حمص میں تھا طلب کیا اور حکم دیا کہ محل کے دروازے بند کر دیے جائیں ،تو وہ بند کردیے گئے ، پھر ہرقل (اپنے بالا خانے ) نمودار ہو ا اور کہا کہ اے روم والو! کیا ہدایت اور کامیابی میں (کچھ حصہ) تمہارا بھی ہے؟اور (تمہیں ) یہ منظور ہے) کہ تمہاری سلطنت قائم رہے (اگر ایسا چاہتے ہو) تو اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرلو ۔تو (اس کے سنتے ہی) وہ لوگ وحشی گدھو ں کی طرح دروازوں کی طرف بھاگے ،کواڑوں کو بند پایا ۔بالاخر جب ہرقل نے (اس درجے) ان کی نفرت دیکھی اور ( ان کے ) ایمان لانے سے مایوس ہوگیا تو بولا کہ ان لوگوں کو میرے پاس واپس لاو اور ( جب وہ آئے تو ان سے ) کہا کہ میں نے یہ بات ابھی جو کہی تو اس سے تمہارے دین کی مضبوطی کا امتحان لینا (مقصود) تھا اور وہ مجھے معلوم ہو گئی ۔پس لوگوں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے خوش ہوگئے اور ہرقل کی آخری حالت یہی رہی۔
     
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم
    جزاک اللہ سیف صاحب۔
    بہت نیک کام کا اجرا کیا ہے :mashallah:
     
  9. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    بہت شکریہ نعیم بھائی!
     
  10. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    (8)
    سیدنا عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسلام (کا محل) پانچ ( ستونوں ) پر بنا یا گیا ہے
    (1) اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کو ئی معبود نہیں ہے اور اس بات کی گواہی (بھی دینا) کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں
    (2) نماز پڑھنا
    (3) زکوٰہ دینا
    (4) حج کرنا
    (5) رمضان کے روزے رکھنا۔“
     
  11. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    (9)
    سیدنا ابو ہریرہ(رضی اللہ عنہ) سے روایہ کرتے ہیں کہ آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا :
    ایمان ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں رکھتا ہے اور حیا (بھی) ایمان کی (شاخوں میں سے) ایک شاخ ہے ۔
     
  12. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    (10)
    سیدنا عبد اللہ بن عمرو (رضی اللہ عنہ) نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    (پکا) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے (دوسرے ) مسلمان ایذا نہ پائیں (اور اصل ) مہاجر وہ ہے جو ان چیزوں کو چھوڑ دے جن کی اللہ تعالیٰ نے ممانعت فرمائی۔
     
  13. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    (11)
    سیدنا ابوموسیٰ (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! کونسا اسلام افضل ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    (اس شخص کا اسلام) جس کی زبان اور ہاتھ سے (دوسرے) مسلمان ایذا نہ پائیں۔
     
  14. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    (12)
    سیدنا عبد اللہ بن عمرو (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) سے پوچھا کہ کونسا اسلام بہتر ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    کھانا کھلاو اور جس کو جانتے ہو اور جس کو نہیں جانتے ہو (سب کو) سلام کرو۔
     
  15. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    (13)
    سیدنا انس (رضی اللہ عنہ) نبی سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا :
    تم میں سے کوئی ایماندار نہ ہوگا یہاں تک کہ اپنے بھائی (مسلمان ) کے لیے وہی کچھ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے۔
     
  16. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    (14)
    سیدنا ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا :
    اس (پاک ذات ) کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ اور اس کی اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہو جاوں ۔
     
  17. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    (15)
    سیدنا انس (رضی اللہ عنہ) سے اسی طرح کی روایت مروی ہے اور اس میں اتنا اضافہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”اور تما م لوگوں سے زیادہ (محبوب نہ ہو جاوں)۔“
     
  18. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    (16)
    سیدنا انس(رضی اللہ عنہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے (روایت کرتے ہیں) کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    یہ تین باتیں جس کسی میں ہوں گی وہ ایمان کی شیرینی (کامزہ) پائے گا۔

    (1) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کے نزدیک تمام ماسوا سے زیادہ محبوب ہوں۔
    (2) جس کسی سے محبت کرے تو اللہ ہی کے لیے اس سے محبت کرے ۔
    (3) کفر میں واپس جانے کو ایسا بر ا سمجھے جیسے آگ میں ڈالے جانے کو (ہر کوئی ) برا سمجھتا ہے۔
     
  19. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    (17)
    سیدنا انس (رضی اللہ عنہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    انصار سے محبت کرنا ایماندار ہونے کی نشانی ہے اور انصار سے دشمنی رکھنا منافق ہونے کی علامت ہے ۔
     
  20. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    (18)
    سید نا عبادہ بن صامت (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی کہ تم لوگ مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور چوری نہ کرنا اور زنا نہ کرنا اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا اور نہ ایسا بہتان (کسی پر) باندھنا جس کو تم ( دیدہ و دانستہ ) اپنے ہاتھوں اور اپنے پیروں کے سامنے بناو اور کسی اچھی بات میں (اللہ و رسول کی) نافرمانی نہ کرنا۔ پس جو کوئی تم میں سے (اس عہد کو) پورا کرے گا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ ہے اور جو کوئی ان (بری) باتوں میں سے کسی میں مبتلا ہو جائے گا اور دنیا میں اس کی سزا اسے مل جائے گی تو یہ سزا اس کا کفارہ ہو جائے گی اور جو ان (بری) باتوں میں سے کسی میں مبتلا ہو جائے اور اللہ اس کو (دنیا میں) پوشیدہ رکھے گا تو وہ اللہ کے حوالے ہے اگر چاہے تو اس سے درگزر کرے اور اگر چاہے تو اسے عذاب کرے ۔
    (سیدنا عبادہ بن صامت (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ ہم سب لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان (باتوں) پر بیعت کرلی۔
     
  21. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    (19)
    سید نا ابو سعید خدری (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا :
    قریب ہے (کچھ بعید نہیں) کہ مسلمان کا اچھا مال بکریاں ہوں جن کو لے کر وہ پہاڑ کی چوٹیوں پر اور چٹیل میدانوں میں چلا جائے تاکہ وہ اپنے دین کو فتنوں سے بچا لے۔
     
  22. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    (20)
    ام المومنین عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب لوگوں کو (نیک اعمال کرنے کا) حکم دیتے تو ایسے اعمال کا حکم دیتے جن کو وہ (ہمیشہ) کر سکیں (عبادت شاقہ کی ترغیب کبھی ان کو نہ دیتے تھے تو ایک مرتبہ) صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! ہم آپ کی مثل نہیں، بیشک اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردیے ہیں (لہٰذا ہمیں آپ سے زیادہ عبادت کرنی چاہیے) اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غضبناک ہوئے حتیٰ کہ چہرہ (مبارک ) میں غضب (کا اثر) ظاہر ہونے لگا۔ پھر فرمایا :
    ” تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا جاننے والا اور اس سے ڈرنے والا میں ہوں۔“
     
  23. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    (21)
    سیدنا ابو سعید خدری (رضی اللہ عنہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے(روایت کرتے ہیں) کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    (جب) جنت والے جنت میں اور دوزخ والے دوزخ میں داخل ہو چکے ہوں گے تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ (فرشتوں سے ) فرمائے گا کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر (بھی) ایمان ہو، اس کو (دوزخ سے) نکالو۔ پس وہ دوزخ سے نکالے جائیں گے اور وہ (جل کر ) سیاہ ہو چکے ہوں گے۔ پھر وہ نہر حیا (برساہ) یا (نہر ) حیاہ میں ڈالے جائیں گے۔ یہ شک کے الفاظ امام مالک کے ہیں۔(جو حدیث کے ایک راوی ہیں) ”تب وہ تر وتازہ ہو جائیں گے جس طر ح دانہ (ترو تازگی کے ساتھ) پانی کی روانی کی جانب اگتا ہے (اے شخص!) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ وہ زرد باہم لپٹا ہوا نکلتا ہے۔“
     
  24. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    (22)
    سیدنا ابو سعید خدری (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    اس حالت میں کہ میں سو رہا تھا اور میں نے (یہ خواب) دیکھا کہ لوگ میرے سامنے پیش کیے جاتے ہیں اور ان (کے بدن) پر کُرتے ہیں۔ بعضے کُر تے تو (صرف ) چھاتیوں (ہی) تک ہیں اور بعضے ان سے نیچے ہیں اور عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) (بھی) میرے سامنے پیش کیے گئے اور ان (کے بدن) پر (جو) قمیض ہے (وہ اتنی نیچی ہے ) کہ وہ اس کو کھینچتے (ہوئے چلتے )ہیں۔
    صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) نے عرض کی کہ یارسو ل اللہ ! آپ نے اس کی کیا تعبیر لی ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (قمیض کی تعبیر میں نے) دین (لی) ہے۔
     
  25. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    (23)
    سیدنا ابن عمر (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک مرتبہ) کسی انصاری مرد کے پاس سے گزرے اور(ان کو دیکھا کہ) وہ اپنے بھائی کو حیا کے بارے میں نصیحت کررہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    (حیا کے بارے میں) اس کو(نصیحت کرنا) چھوڑ دو، اس لیے کہ حیا ایمان میں سے ہے۔
     
  26. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    (24)
    سید نا ابن عمر (رضی اللہ عنہ) سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    ” مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس بات کی (بھی گواہی دیں) کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰہ دیں۔ پس جب یہ (باتیں) کرنے لگیں تو مجھ سے اپنے خون اور اپنے مال بچالیں گے سوائے حق اسلام کے اور ان لوگوں کا حساب اللہ کے حوالے ہے ۔
     
  27. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    (25)
    سیدنا ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کونسا عمل افضل ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا۔ پھر پوچھا گیا کہ پھر کونسا عمل افضل ہے؟ فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ پھر پوچھا گیا کہ اس کے بعد کونسا عمل افضل ہے؟ تو فرمایا: حج مبرور۔
     
  28. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    (26)
    سیدنا سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو (مال) دیا اور سعد (رضی اللہ عنہ) (بھی وہاں) بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کو چھوڑ دیا (یعنی نہیں دیا) جو مجھے سب سے اچھا معلوم ہوتا تھا تو میں نے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں شخص سے اعراض کیا؟ اللہ کی قسم! میں تو اسے مومن سمجھتا ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (مومن سمجھتے ہو) یا مسلم ؟ تو میں نے تھوڑی دیر سکوت کیا پھر مجھے جو کچھ اس شخص کی بابت معلوم تھا اس نے مجبور کر دیا اور میں نے پھر اپنی وہی بات کہی یعنی یہ کہا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں شخص سے اعراض کیا؟ اللہ کی قسم ! میں تو اسے مومن جانتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مومن جانتے ہو) یا مسلم؟ پھر میں کچھ دیر چپ رہا ۔اس کے بعد جو کچھ میں اس شخص کی بابت جانتا تھا اس نے مجھے مجبور کردیا اور میں نے پھر اپنی وہی بات دہرائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پھر وہی جواب دیا۔ بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    اے سعد !میں ایک شخص کو اس اندیشے کے تحت کہ کہیں (ایسانہ ہو کہ اگر اس کو نہ دیا جائے تو وہ کافر ہوجائے اور) اللہ اس کو آگ میں سرنگوں نہ ڈال دے، دے دیتا ہوں۔ حالانکہ دوسرا شخص اس سے زیادہ مجھے محبوب ہوتا ہے۔ (اس کو نہیں دیتا کیونکہ اس کی نسبت ایسا خیال نہیں ہوتا)۔
     
  29. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    (27)
    سیدنا ابن عباس(رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    ”(ایک مرتبہ) مجھے دوزخ دکھلائی گئی تو اس میں میں نے زیادہ تر عورتوں کو پایا۔ وجہ یہ ہے کہ وہ کفر کرتی ہیں۔ عرض کیا گیا کہ کیا اللہ تعالیٰ کا کفر کرتی ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” شوہر کا کفر و ناشکری کرتی ہیں اور احسان نہیں مانتیں۔(وہ یوں کہ) اگر تو کسی عورت کے ساتھ عرصہء دراز تک احسان کرتا رہے اور اس کے بعد کوئی (ناگوار ) بات تجھ سے وہ دیکھ لے تو (فوراً) کہہ دے گی کہ میں نے تو کبھی تجھ سے آرام (سکھ چین ) نہیں پایا۔
     
  30. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    (28)
    سیدنا ابو ذر (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو (جو میرا غلام تھا ) گالی دی یعنی اس کو اس کی ماں سے غیرت وعار دلائی تھی (یہ خبر) نبی صلی اللہ علیہ وسلم ( کو پہنچی تو آپ) نے مجھ سے فرمایا :
    ” اے ابو ذر ! کیا تم نے اسے اس کی ماں سے غیرت و عار دلائی ہے؟ بے شک تم ایسے آدمی ہو کہ (ابھی تک) تم میں جاہلیہ (کااثر باقی) ہے۔ تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں۔ ان کو اللہ نے تمہارے قبضے میں دیدیا۔ پس جس شخص کا بھائی اس کے قبضہ میں ہوا اسے چاہئے کہ جو خود کھائے اسے بھی کھلائے اور جو خود پہنے اس کو بھی پہنائے اور (دیکھو) اپنے غلاموں سے اس کام کو (کرنے کا) نہ کہو جو ان پر شاق ہو اور جو ایسے کام کی ان کو تکلیف دو تو خود بھی ان کی مدد کرو۔“
     

اس صفحے کو مشتہر کریں