1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

امریکہ کو دوغلی پالیسی ترک کرنا ہو گی

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از علی عمران, ‏14 مئی 2009۔

  1. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    آج پاکستان کے تمام تر حالات کا ذمہ دار صرف اور صرف امریکہ ہے۔ پاکستان کے شہری بے گھر ہو رہے ہیں۔ ایک جانب امریکہ کے پروردہ طالبان ان بے کسوں کو مار رہے ہیں تو دوسری جانب امریکہ اپنی خون کی پیاس ان بے گناہ لوگوں پر بجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

    انٹیلیجنس رپورٹس سے یہ بات مکمل طور پر عیاں ہو چکی ہے کہ پاکستانی فوج کے خلاف لڑنے والے ان طالبان کو اسلحہ اور پیسہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے مل رہا ہے۔ اور حکمران اس بات کا ادراک رکھتے ہوئے بھی نجانے کیوں منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
    طالبان کو افغانستان سے پاکستان کی جانب دھکیلا جا رہا ہے اور پھر پاک فوج کو کہا جاتا ہے کہ انہیں دوبارہ افغانستان آنے سے روکے۔ کیا امریکی فوج بے کار ہو گئی یا وہ لڑنے سے کترانے لگے ہیں؟۔
    پاکستان میں موجود نام نہاد طالبان کو اسلحہ اور پیسہ دیا جا رہا ہے اور پاک فوج کو کمزور کرنے کے لئے ان طالبان نما دہشت گردوں کو نئی اور تازہ کمک بھی پہنچائی جا رہی ہے۔ تاکہ پاک فوج ان کے خلاف ناکام ہو جائے اور امریکہ کو اپنی فوج پاکستان میں داخل کرنے کا بہانہ مل جائے۔ کہ پاک فوج ان کے خلاف نہیں لڑ سکتی اس لئے امریکہ کو اجازت دی جائے۔ امریکہ کو یہ دوغلا پن ختم کرنا ہو گا ورنہ اس کا حشر بہت برا ہو گا۔
    میں پاکستان کا ایک ادنی سپاہی ہونے کے ناطے ان تمام باتوں سے با خوبی آگاہ ہوں کہ یہ سپلائی لائن کس کے زیرِ سایہ چل رہی ہے۔
    امریکہ بہت تیزی سے پاکستانیوں میں اپنی ساکھ کو کھو رہا ہے اور اگر ایک بار پاکستانی قوم مل کر امریکہ کے خلاف نکل آئی تو صرف افغانستان ہی نہیں پورے خطے سے امریکہ کو نکلنا پڑے گا۔
    بطور سپاہی میں یہ سب آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ جبکہ وہ پاکستانی جو ان سب کو آنکھوں سے نہیں دیکھ رہے ان کی سو فیصد تعداد امریکی پالیسیوں اور دوہرے معیار پر کھل کر اسے برا بھلا کہ رہے ہیں۔
    اور پاکستان کا پڑھا لکھا طبقہ کسی فورم پر اس کی حمایت کرتا نظر نہیں آتا۔ اور پاک فوج کے جوان بھی اسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
    میرا رویہ اس وقت امریکہ کے لئے قطعآ ہمدردانہ نہیں اور امریکہ کو اس وقت سے بچنا چاہیے جب پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں اس کے خلاف ٹکڑیوں میں بٹ کر لڑنے والے طالبان کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیں اور پھر امریکہ کا جو حشر ہو گا اسے بھاگنے کے لئے جوتے بھی دکھائی نہیں دیں گے۔
    میرے سمیت میرے ساتھ کام کرنے والے تمام لوگوں کے دلوں میں نفرت کے الاؤ جل رہے ہیں مگر سب اس لئے کوئی قدم نہیں اٹھا رہے کہ شاید حکمران کسی وقت آنکھیں کھول لیں اور انہیں یہ سب نظر آ جائے۔
    امریکہ کے ہر اس شخص کے لئے جو پاکستان توڑنے کی بات کرتا ہے میرے پاس صرف ایک ہی حل ہے اور وہ ہے“شوٹ ٹو کل“ کا اور امریکہ سپر طاقت کے زعم میں نہ رہے ایک سپاہی امریکہ کے سپر پاور ہونے کا حلف نہیں اٹھاتا بلکہ ایک اللہ کے سپر پاور ہونے کا حلف اٹھاتا ہے۔ حکمرانوں کے لئے امریکہ سپر پاور ہو سکتا ہے۔ ہمارے پاس جو وردی ہے اس پر“ جہاد فی سبیل اللہ“ لکھا ہوتا ہے۔
    ہو سکتا ہے میرا یہ مضمون کوئی امریکی پالیسی ساز یا تھنک ٹھینک میں سے کسی کی نظروں سے گزرے۔
    یہ جذبات صرف میرے ہی نہیں پاک فوج کے ہزاروں جوانوں کے یہی جذبات ہیں۔ اور ان جذبات کے بعد امریکہ دہشت گردی کی جنگ کبھی جیت سکے گا تو یہ اس کی سب سے بڑی بھول ہو گی۔
    حکمران اپنے لوگوں کی موت پر آنکھیں بند کر سکتے ہیں۔ فوج نہیں فوج اپنے لوگوں کی محافظ ہوتی ہے تو وہ کس طرح ایسا ہوتا دیکھ سکتی ہے کہ امریکہ خود بھی پاکستانیوں کو مارے اور ان نام نہاد طالبان سے بھی پاکستانی قوم کا خون کروائے؟
    امریکہ اس وقت سے ڈرے جب کھل کر فوج کے سپاہی اس کے سامنے آ گئے تو اسے یہ بھی پتہ نہیں چلے گا وہ کدھر بھاگ رہا ہے۔
    افغانستان میں امریکی فوجیوں کی حالت یہ ہے کہ رو رہے ہیں۔ اور کہ رہے ہیں کہ اب موت کے سوا ہم یہاں سے نہیں نکل سکتے۔ ہمیں پھنسا دیا گیا ہے امریکی فوجی ذہنی مریض بن رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں۔
    امریکہ کو اب ہوش کے ناخن لینے چاہیے۔ اور اس خطے پر رحم کرتے ہوئے اس کی جان چھوڑنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ایک بار امریکہ یہاں سے نکل گیا تو حالات خود سیدھے رخ پر چل نکلیں گے۔ افغان طالبان حکومت میں شامل ہو جائیں گے اور پاکستانی طالبان اسلحہ نہ ملنے کی بنا پر خود ہی ہتھیار پھینک دیں گے۔ یوں افغان لوگ بھی سکھ کا سانس لیں گے اور پاکستانی مظلوم عوام بھی جو بے گناہ کچلے جا رہے ہیں۔
     
  2. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    بہت شکریہ

    علی عمران بھائی آپ کی تحریر جذبہ حب الوطنی پر مبنی ہے

    یہ غلط ہے کہ صرف اور صرف امریکہ ذمہ دار ہے۔ ان حالات کے‌ذمہ دار افغانستان اور بھارت بھی ہیں۔ ان سے کیا شکوہ یہ تو ہمارے ازلی دشمن ہیں۔ افغانستان تو ویسے ہی احسان فراموش ملک ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر حکمران۔ میر جعفروں اور میر صادقوں جیسے غداروں کی فوج حکمران طبقہ ہی ہے اس حکمران طبقہ کو صرف ڈالر نظر آتے ہیں اور کچھ نہیں۔ برائی کو شروع میں ہی پکڑ لیا جائے تو نہیں‌پھیلتا لیکن ڈالروں کے لالچ نے انہیں‌یہ تمیز بھی بھلادی کہ کیا ہورہا ہے۔ آج آپ خود دیکھیں کہ زرداری‌صاحب پندرہ دن سے ڈالروں کی بھیک مانگ رہے ہیں اور یہاں سوات، دیر جل رہے ہیں۔ حکومت طالبان کی بعد میں بات کرتی ہے پہلے ڈالروں کی۔

    مشرف دور میں کونسا شیطانی کام نہیں ہوا۔ ڈروں حملے ہوئے، خود کش دھماکے ہوئے، جامعہ حفصہ اور لال مسجد میں جو سفاکانہ سلوک ہوا، ڈالروں‌کے عوض پاکستانی امریکہ کے‌حوالے کئے گئے۔ امریکہ کوہوائی اڈے دئیے گئے اور کیا کیا بتائیں کیا کیا ہوا اور سب سے بڑھ کر موجودہ نکمی، نااہل، شعور سے عاری، لالچی، خود غرض، انسانیت کی تمیز بھول جانیوالی حکومت نے کیا کچھ نہیں کیا۔

    پوری دنیا میں امریکہ کی ساکھ خراب ہے۔ امریکہ کی ساکھ تو پاکستانیوں میں اسی دن خراب ہوگئی تھی جس دن مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا تھا۔پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکہ نکلے گا نہیں اگر نکل بھی گیا توکئی مسائل کھڑے کرجائے گا جسے ہم نے ہی بھگتنا ہے۔

    اگر کھڑا ہونا ہے تو پاکستان کے ان سابقہ اور موجودہ غدار حکمرانوں کے خلاف کھڑے ہوں ان کو عبرت ناک انجام بنادو جیسے فرانس، اٹلی، چین، ایران کے لوگوں نے بنایا۔ مر تو ہم اب بھی رہے ہیں اسطرح مریں گے تو آئندہ نسلیں شان سے جی سکیں گی۔
     
  3. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    میں بھی یہی سمجھتی ہوں کہ صرف امریکہ کو قصور وار ٹھہرانا تو محض جواز پیش کرنا اور اپنی غلطیاں نہ ماننا ھے ، امریکہ وہی دخل اندازی کرتا ھے جہاں‌اس کو موقع فراہم کیا جاتا ھے
     
  4. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    يہ بالکل حقیقت کے منافی ہے۔

    جولائ 4 1999 کو صدر بل کلنٹن نے ايک براہراست حکم نامہ جاری کيا تھا جس کی رو سے طالبان کے حوالے سے کسی بھی قسم کا لين دين اور ان سے متعلقہ تمام اثاثہ جات پر مکمل پابندی لگا دی گئ تھی۔ يہ امريکہ کے صدر کی جانب سے ايک براہ راست حکم تھا جس کی پابندی حکومت کی تمام ايجينسيوں اور افراد پر لازم تھی۔

    صدر کلنٹن کی جانب سے جاری کيا جانے والا يہ حکم نامہ اور اس پر موجود ان کے دستخط آپ اس ويب لنک پر ديکھ سکتے ہيں۔

    http://www.keepandshare.com/doc/view.ph ... 73175&da=y" onclick="window.open(this.href);return false;

    کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ صدر کی جانب سے اس واضح حکم کے باوجود سی –آئ – اے طالبان کی امداد ميں ملوث ہو سکتی ہے؟ حقیقت يہ ہے کہ سی – آئ –اے نے کبھی بھی طالبان کی امداد نہيں کی، جن کا آغاز 1994 سے ہوا تھا۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov" onclick="window.open(this.href);return false;
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔ راشد بھائی کی بات دل کو لگتی ہے۔ یہی حق ہے۔ جب اپنے گھر میں ہی خرابی ہو تو دوسروں کو الزام دینا کھسیانی بلی کھمبا نوچے والی بات ہوسکتی ہے۔

    اور علی عمران بھائی ۔ آپ نے پھر ماشاءاللہ " اگر " اور " قوم " کا استعمال خوب کیا ہے۔ :hasna:
     
  6. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    پہلی بات تو فواد جی وہ بل کلنٹن نے ایسا کیا ہو گا۔دہشتگردی کے خلاف جنگ بل کلنٹن نے شروع نہیں کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    اور نعیم جی میں فورسز کو ریپریزینٹ کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عوام کے لئے اسی لئے سوائے اگر کے میں کچھ نہیں کہ سکتا۔

    میں عوامی لیڈر نہیں اس لئے بس یہی کہ سکتا ہوں۔ اگر ہو جائے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  7. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    یہ سب درست لیکن اگر امریکہ ان لے پالکوں کے پیچھے سے ہاتھ کھینچ لے تو چند دنوں میں افغانستان اور انڈیا کو بھاگنے پر مجبور کر دیں گے۔

    میں بذاتِ خود فیلڈ میں کام کرتا ہوں اور سب جانتا ہوں کہ کیا ہو رہا ہے۔ مالاکنڈ اور فاٹا میں لڑنے والے دہشت گردوں کے پاس وہی اسلحہ ہے جو افغانستان میں نیٹو اور امریکی افواج استعمال کر رہی ہیں۔ اور جدید ترین اسلحہ وہ وہاں سے چھین کر نہیں لائے بلکہ انہیں تحفے میں دیا گیا ہے۔
    دوسری جانب ان طالبان کو باقاعدہ تازہ کمک پہنچائی جا رہی ہے تاکہ تھک جانے والے طالبان کو نئی طاقت مل سکے۔
    یہ لوگ جدید ترین اسلحہ جیسا کہ اینٹی ٹینک مائینز،سٹنگر میزائلز،مارٹر گولے، ٹی 72 اینٹی ٹینک راکٹ،دوسرے چھوٹے راکٹ،ہیوی مشین گنز،لائٹ مشین گنز،لانگ رینج سنائپر رائفلز، اینٹی ائیر کرافٹ گنز،اے کے۔47 رائفل، بارودی سرنگیں بچھانے کے لئے ہیوی ایکسپلوزو،آر۔ڈی۔ایکس، ٹی۔این۔ٹی، ڈائنامائٹ، نائٹرو سٹارچ ایکسپلوزوزاور اسی طرح کا جدید اسلحہ استعمال کر رہے ہیں۔ کیا یہ اسلحہ وہ اپنی فیکٹریوں میں بنا رہے ہیں؟۔یہ سب انتہائی تباہی والے ایکسپلوزوز ہیں۔جو فری نہیں ملتے اور جنہیں بنانے کے لئے انتہائی ٹرینڈ لوگ چاہیے ہوتے ہیں۔
    اس کے علاوہ طالبان فی کس کو ماہانہ 20 سے 25 ہزار تنخواہ دے رہے ہیں۔ کیا انہوں نے نوٹ چھاپنے کی مشینیں لگائی ہوئی ہیں؟
    ان کے پاس کمیونیکیشن کا وہی جدید سامان ہے جو افغانستان میں اتحادی افواج استعمال کر رہی ہیں۔ پہلے ان کے پاس کمیونیکیشن کا ذریعہ ریڈیو تھا لیکن اب تبدیل ہو کر سیٹیلائٹ فونز اور ٹرانسمیٹرز پر مشتمل ہو گیا ہے۔ یہ سب کچھ صرف چند مہینوں میں ہوا۔
    یہ لوگ انسانوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ تاکہ اگر فوج ایگریسو ہو کر حملہ کرے تو عام لوگ بھی مریں اور فوج کو عوام میں غیر مقبول کیا جائے۔ یہ لوگ خود عام لوگوں کو مارتے ہیں اور نام فوج پر لگاتے ہیں۔ پاک فوج اب تک انتہائی احتیاط سے زمینی کاروائی کر رہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو عام لوگوں کو بچایا جا سکے۔ بمباری صرف پہاڑی غاروں پر ہو رہی ہے۔ اگر ایک بھی عام شہری فوج کی گولی سے مرتا ہے تو ایک فوجی کئی سالوں تک اس غم کو بھلا نہیں سکتا۔ کیونکہ وہ تو ان کا محافظ ہے نہ کہ انہیں مارنے والا پھر کیسے فوج عوام کو اندھا دھند قتل کر سکتی ہے؟ یہ سب انہیں دہشت گردوں کی کارستانیاں ہیں جو دہشت کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔
    افغانستان میں کاشت ہونے والی منشیات کو امریکہ اور انڈیا کے ذریعے دنیا میں بیچا جاتا ہے۔اور حاصل ہونے والی رقم سے سی۔آئی۔اے اور“را“ اپنے آپریشنز اور دہشت گردوں کو اسلحہ اور تنخواہ دینے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
    یہ کام اکیلا امریکہ نہیں کرتا انڈیا افغانستان اور دوسرے اتحادی بھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔ اگر امریکہ یہاں سے نکل جائے تو ہم چند ہفتوں میں انڈیا اور افغانستان کے ایجنٹوں کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔
    یا حکومت کھلی چھٹی دے دے کہ سی آئی اے کے خلاف کام کرو۔ پھر سی آئی اے کا جو حال ہو گا ساری دنیا آنکھوں سے دیکھ لے گی۔
    مگر ہمیں تو سی آئی اے سے تعاون پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
    مجھے اپنی جاب کی مجبوری ہے ورنہ ایسی باتیں بتاتا کہ سب سمجھ جاتے کہ پاکستانی سکیورٹی ایجنسیز کتنی مشکلات میں کام کر رہی ہیں۔ مگر ہم لوگ گھر سے یہ کہ کر نہیں نکلتے کہ ہم واپس آئیں گے۔ ہم ہمیشہ یہی کہ کر نکلتے ہیں کہ دعا کریں کہ ملک کی خاطر شہادت کا درجہ نصیب ہو۔ ہر سپاہی کو واپسی کی خواہش نہیں شہادت کی خواہش ہوتی ہے۔ اور جو مرنے کی خواہش کرے وہ خوفزدہ نہیں ہوتا۔ اور سکیورٹی ایجنسیز خوفزدہ نہیں ہم آخری سانسوں تک ملک کے لئے لڑنے کو تیار ہیں۔
     
  8. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
     
  9. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    بھائی عمران
    جب پاک فوج کو پتہ ہے کہ امریکہ ہمارے خلاف فلاں فلاں سازش کررہا ہے تو پھر اس کا توڑ کیوں نہیں کیا جاتا یعنی میرا مطلب ہے کہ انہیں‌گھیرا کیوں نہیں‌ڈالا جاتا اور ان کی ساری سپلائی لائنیں کیوں نہیں‌کاٹ دی جاتیں۔
     
  10. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    طالبان اور امريکہ کے مابين روابط، معاہدوں اور تعلقات کے حوالے سے جو بے شمار کہانياں اور قياس آرائياں کی جاتی ہيں اس ضمن میں کچھ دستاويزی حقائق آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔

    مجموعی طور پر امريکہ اور طالبان کے درميان 33 مواقعوں پر رابطہ ہوا ہے جس ميں سے 30 رابطے صدر کلنٹن کے دور ميں ہوۓ اور 3 رابطے صدر بش کے ۔

    اس کے علاوہ طالبان کے ليڈر ملا عمر کی خواہش پر امريکی اہلکاروں کے ساتھ ان کا ايک براہراست رابطہ ٹيلی فون پر بھی ہوا۔ يہ ٹيلی فونک رابطہ 1998 ميں امريکہ کی جانب سے افغانستان ميں اسامہ بن لادن کے اڈوں پر ميزائل حملوں کے محض دو دنوں کے بعد ہوا تھا۔

    يہ تمام روابط اور وہ تمام ايشوز جن پر بات چيت ہوئ ريکارڈ پر موجود ہيں۔ ميں ان ميں سے کچھ روابط کی تفصيل يہاں پوسٹ کر رہا ہوں جن سے اس تھيوری کی مکمل طور پر نفی ہو جاتی ہے کہ سی – آئ – اے يا امريکی حکومت کے مابين باہمی تعاون کے اصولوں کی بنياد پر کسی قسم کے تعلقات موجود تھے علاوہ ازيں امريکہ کا طالبان پر کوئ کنٹرول نہيں تھا۔

    http://www.keepandshare.com/doc/view.ph ... 74871&da=y" onclick="window.open(this.href);return false;" onclick="window.open(this.href);return false;" onclick="window.open(this.href);return false;

    اگست 23 1998 کو امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی جانب سے ملا عمر کی اس درخواست پر يہ جواب بھيجا گيا تھا جس ميں ملا عمر نے امريکی حکومت سے اسامہ بن لادن کے خلاف ثبوت مانگا تھا۔ اس دستاويز ميں امريکی حکومت نے فوجی کاروائ کی توجيہہ، اسامہ بن لادن کے خلاف امريکی کيس اور ان وجوہات کی تفصيلات پيش کيں جس کی بنياد پر طالبان سے اسامہ بن لادن کو افغانستان سے نکالنے کا مطالبہ کيا گيا تھا۔ اس دستاويز ميں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئ کہ اسامہ بن لادن کے نيٹ ورک نے امريکی جہاز تباہ کرنے کی کوشش کی تھی۔

    http://www.keepandshare.com/doc/view.ph ... 74875&da=y" onclick="window.open(this.href);return false;" onclick="window.open(this.href);return false;" onclick="window.open(this.href);return false;

    http://www.keepandshare.com/doc/view.ph ... 74878&da=y" onclick="window.open(this.href);return false;" onclick="window.open(this.href);return false;" onclick="window.open(this.href);return false;

    http://www.keepandshare.com/doc/view.ph ... 74876&da=y" onclick="window.open(this.href);return false;" onclick="window.open(this.href);return false;" onclick="window.open(this.href);return false;

    http://www.keepandshare.com/doc/view.ph ... 74877&da=y" onclick="window.open(this.href);return false;" onclick="window.open(this.href);return false;" onclick="window.open(this.href);return false;

    ان دستاويزات ميں ان تضادات کا ذکر موجود ہے جو طالبان کے جانب سے امريکی اہلکاروں کے ساتھ بيانات ميں واضح ہو رہے تھے۔ طالبان کا يہ دعوی تھا کہ ان کے 80 فيصد قائدين اور افغانوں کی اکثريت افغانستان ميں اسامہ بن لادن کی موجودگی کے مخالف تھی۔ ليکن اس کے باوجود طالبان کا يہ نقطہ نظر تھا کہ افغانستان اور مسلم ممالک ميں اسامہ بن لادن کی مقبوليت کے سبب اگر انھيں ملک سے نکالا گيا تو طالبان اپنی حکومت برقرار نہيں رکھ سکيں گے۔

    ايک پاکستانی افسر نے پاکستان ميں امريکی سفير وليم ميلام کو بتايا کہ طالبان دہشت گرد اسامہ بن لادن سے جان چھڑانا چاہتے ہيں اور اس ضمن میں 3 آپشنز ان کے سامنے ہيں۔ اس افسر کا اصرار تھا کہ اس ميں آپشن نمبر 2 سب سے بہتر ہے جس کے توسط سے امريکہ اسامہ بن لادن کو طالبان سے ايک بڑی رقم کر عوض "خريد" لے۔ دستاويز کے مطابق طالبان کے مطابق اسامہ بن لادن کو نکالنے کی صورت ميں ان کی حکومت ختم ہو جاۓ گی کيونکہ پختون قبائلی روايت کے مطابق اگر کوئ پناہ مانگے تو اس کو پناہ دينا لازم ہے۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov" onclick="window.open(this.href);return false;" onclick="window.open(this.href);return false;" onclick="window.open(this.href);return false;
     
  11. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    فواد جی یہ سب کچھ میں بھی جانتا ہوں،

    اور آپ کو شاید یاد ہو میں نے یہیں ایک لڑی میں کہا تھا کہ اگر سی۔آئی۔اے چاہتی تو بغیر خون خرابہ کئے اسامہ کو اٹھا سکتی تھی۔

    لیکن نہیں معصوموں کا خون بہانا لاذمی سمجھا گیا۔ اور ایک اور اطلاع کہ صرف سی۔ آئی۔اے ہی نہیں آئی ایس آئی بھی یہ کام بخوبی کر سکتی تھی۔
    جتنا رسوخ سی۔ آئی۔اے کا تھا اس سے دوگنا آئی ایس آئی کا تھا اور اب بھی ہے۔

    اور ایک اور خبر جو اب تک دنیا کی سپر پاور کی ایجنسی بریک نہیں کر سکی وہ یہ ہے کہ اسامہ بن لادن کا 2006۔2007 میں انتقال ہو چکا ہے۔
    یہ مصدقہ اطلاعات ہیں پاکستانی خفیہ ایجنسی کی۔ اور زرداری بھی امامہ کو بتا چکے ہیں۔ مگر انہیں جب تک اسامہ کی شکل نظر نہ آئے انہیں یقین نہیں آئے گا۔
     
  12. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جی راشد بھائی،

    آپ نے درست فرمایا لیکن سپلائی لائن توڑنا فوج کا کام نہیں۔کیونکہ نیٹ ورک ایک ملک میں نہیں ہوتا اسے خفیہ ایجنسیاں توڑتی ہیں جنہیں اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ فی الحال وہ اس جانب مکمل توجہ نہیں دے پا رہی۔
    طالبان کے متعلق خفیہ اطلاعات دینا۔ اور افواج کے لئے معلومات کا مکمل نظام سنبھالنا آسان کام نہیں۔دوسرا افغانستان کے ساتھ سرحد 2400 کلو میٹر لمبی ہے اگر وہاں 2لاکھ فوج بھی لگا دی جائے تب بھی نقل و حرکت نہیں روکی جا سکتی۔
    مگر کام جاری ہے انشاء اللہ سب سپلائی لائنز ٹوٹیں گی اور ایسی ٹوٹیں گی کہ سپلائی کرنے والوں کی کمر بھی ٹوٹ جائے گی۔
     
  13. وقاص قائم
    آف لائن

    وقاص قائم ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2009
    پیغامات:
    116
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم
    بھائی فواد یہ بتائیں کہ کیا تمام باتیں USکی آن ریکارڈ ہوتی ہیں کیا کچھ بھی آف ریکارڈ نہیں تکھا جاتا۔
    دنیا کا ہر ملک چاہے وہ افغانستان جیسا پسماندہ ملک ہو اپنی پالیسی کو منظر عام پر نہیں آنے دیتا اور اگر کوئی حساس معاملہ ہو تو پھر تو ناممکنات میں سے ہے۔ اب آپ یہ کیسے کہ رہے ہیں کہ فلاں فلاں ویب سائٹ پر حقائق موجود ہے وہ بھی یو ایس گورنمنٹ کے۔۔۔۔۔۔۔
    شاید آپ مذاق کررہے ہیں۔
    اور ذرا یہ تو بتائیں کہ یہ ویب سائٹ ہیں کس کی کون چلا رہا ہے انہیں ۔ امریکہ یا آپ جیسے امریکی حمایتی ۔ یہ سچ اور جھوٹ کی تعریف ہوتی کیا ہے ۔ جو زور سے بولا جائے وہ سچ کہلاتا ہے یا جو زور آور کہے وہ سچ ہوتا ہے۔اور کیا کردار ہے امریکہ کا war against terrorismمیں ۔ کس نے امریکہ کو یہ اتھارٹی دی کہ وہ دوسرے ممالک کی حدود کی خلاف ورزی کرے۔
    چلیں آپ کی تمام باتیں اگر مان بھی لیں تو کیا جواب ہے ان باتوں کو جو ایک آن فیلڈ آفیسر (علی عمران) اسی فارم پہ آپ سے پوچھ رہا ہے ۔
    کیسے طالبان کے پاس موجود اسلحہ امریکی ساخت کا ہے اور وہی اسلحہ نیٹو کی فوج بھی استعمال کرتی ہے۔
    فواد بھائی کسی کی طرف داری بری بات نہیں مگر طرف داری اصول کی بنیاد پر ہونی چاہیے اور آپ سے بھی گزارش ہے کہ امریکہ کی اصولی حمایت کریں غیر مشروط نہیں۔
     
  14. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    شايد بہت سے لوگوں کو اس بات کا علم نہيں ہے کہ امريکی اہلکاروں اور سفارت کاروں کی اکثر ملاقاتوں، بيانات اور بعض اوقات غير ملکی سفارت کاروں سےفون کالز کو باقاعدہ ريکارڈ کيا جاتا ہے۔ صرف يہی نہيں بلکہ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کا ايک ادارہ حکومتی بيانات، پريس کانفرنسز اور اہم حکومتی رپورٹوں کا تاريخی ريکارڈ مرتب کرنے پر مخصوص ہے اور باقاعدگی سے يہ معلومات ريليز کرتا ہے۔ اس ضمن ميں ويب لنک پيش ہيں

    http://history.state.gov" onclick="window.open(this.href);return false;

    http://foia.state.gov" onclick="window.open(this.href);return false;

    http://www.pueblo.gsa.gov/cic_text/fed_ ... a/foia.htm" onclick="window.open(this.href);return false;

    يہ ريکارڈ کسی بھی تاريخی واقعے کے حوالے سے جذباتی بحث سے ہٹ کر حقائق کی تحقيق ميں خاصا مددگار ثابت ہوتا ہے۔

    مثال کے طور پر کئ دوستوں نے 1971 کی پاک بھارت جنگ ميں امريکہ کے کردار اور خاص طور پر ايک بحری بيڑے کے حوالے سے کيے جانے والے مبينہ وعدے کے بارے ميں سوالات کيے۔ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے وابستگی کی وجہ سے مجھے بآسانی ان حکومتی دستاويز تک رسائ حاصل ہو گئ جن کا تعلق اس جنگ مين امريکہ کے کردار کے حوالے سے تھا۔ ميں نے يہ دستاويز فورمز پر پيش کر کے امريکی نقطہ نظر کی وضاحت پيش کی اور اس حوالے سے ابہام دور کيا۔

    اسی طرح بہت سے دوست اردو فورمز پر طالبان کے حوالے سے راۓ زنی کر رہے ہیں اور يہ نقطہ نظر کافی مقبول ہے کہ امريکہ نے دانستہ طالبان کے افغانستان ميں برسراقتدار آنے اور اس عفريت کی تشکيل ميں بنيادی کردار ادا کيا ہے۔ ليکن ان جذباتی دعووں کے برعکس ميں نے امريکی حکومتی اداروں سے ايسی درجنوں دستاويز حاصل کر کے ان فورمز پر پوسٹ کی ہيں جس سے يہ ثابت ہے کہ 90 کی دہائ ميں امريکی حکومت کی جانب سے طالبان کے افغانستان ميں بڑھتے ہوۓ اثرورسوخ اور اس ضمن ميں پاکستان کے بھرپور تعاون پر شديد تحفظات کا اظہار کيا گيا تھا۔ يہ ايسے ناقابل ترديد تاريخی دستاويزی ثبوت ہيں جو 11 ستمبر 2001 کے واقعات کے بعد نہيں تخليق کيے گۓ بلکہ تاريخی ريکارڈ کا حصہ ہيں۔ طالبان کے بارے ميں ميرے ريمارکس اور پاکستان کے قبائلی علاقوں کی موجودہ صورت حال کا يہ وہ تاريخی پس منظر ہے جو ميں نے دوستوں کے سامنے ان فورمز پر پيش کيا۔

    کئ مواقع پر لوگوں کی راۓ کی بنياد وہ بيانات ہوتے ہيں جوسياق وسباق سے ہٹ کر امريکی عہديداروں سے منسوب کيے جاتے ہيں ۔ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کے ممبر کی حيثيت سے مجھے براہراست ان عہديداروں تک رسائ حاصل ہوتی ہے جس کی بدولت مجھے ميڈيا پر دانستہ پھيلائ جانے والے افواہوں سے ہٹ کر اصل بيان کو سمجھنے اور آپ تک پہنچانے کا موقع ملتا ہے۔ مثال کے طور پر ميں آپ کی توجہ پاکستان ميں امريکہ کی سفير اين پيٹرسن کی 18 فروری کے انتخابات کے بعد نوازشريف سے ايک ملاقات کی جانب دلواؤں گا جس کو رپورٹ کرتے ہوۓ ايک نجی ٹی وی نے يہ دعوی کيا کہ امريکی سفير نے اپنی ملاقات کے دوران نواز شريف سے ججز کی بحالی کے حوالے سے اپنے موقف ميں تبديلی پر زور ديا۔ ميں نے اس ملاقات کی ريکارڈنگ کا مکمل متن حاصل کيا اور حقائق سے اردو فورمز پر دوستوں کو آگاہ کيا۔

    آخر ميں آپ کی توجہ اس امريکی قانون کی جانب دلواؤں گا جس کی رو سے کوئ بھی امريکی شہری تاريخی حکومتی دستاويز کے حصول کے ليے درخواست دے سکتا ہے۔ آپ اس قانون کے بارے ميں تفصيل سے اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

    http://en.wikipedia.org/wiki/Freedom_of ... ted_States" onclick="window.open(this.href);return false;)


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov" onclick="window.open(this.href);return false;
     
  15. نیلو
    آف لائن

    نیلو ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2009
    پیغامات:
    1,399
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    وقاص قائم صاحب۔
    فواد صاحب دراصل امریکہ کی اس پراپیگنڈہ مہم کا حصہ ہیں جو انہوں نے عالمی سطح پر جاری رکھا ہوا ہے۔ تھوڑی سی بھی عقل رکھنے والا شخص جانتا ہے کہ حقیقت کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے۔ لیکن فواد صاحب اپنی جاب پر ہیں ۔ سو انہیں جاب پوری کرنی چاہیے۔
     
  16. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    آپ نے شايد غور نہيں کيا کہ ميں ہميشہ اپنی پوسٹ سے پہلے يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے اپنی وابستگی واضح کرتا ہوں۔ اگر ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کا مقصد "پراپيگنڈا"، "برين واشنگ" يا "ايک مخصوص ملک کے نقطہ نظر کی تشہير" ہوتا تو اس کا بہترين طريقہ يہ ہوتا کہ ميں اپنی وابستگی آپ پر واضح کيے بغير اپنے خيالات کا اظہار کرتا اور راۓ عامہ پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتا۔ امريکی حکومت سے اپنی وابستگی واضح کرنے کے بعد اپنی راۓ کا اظہار اس بات کا ثبوت ہے کہ ميرا مقصد امريکہ کی پاليسيوں کے ليے حمايت حاصل کرنا نہيں بلکہ اس حوالے سے اٹھاۓ جانے والے سوالات کا جواب اور مختلف ايشوز پرامريکی حکومت کے موقف کی وضاحت اور شکوک وشہبات دور کرنا ہيں۔

    ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کوئ "خفيہ" ٹيم نہيں ہے جو کسی "مخصوص ايجنڈے" پر کام کر رہی ہے۔ اس کا ايک اور ثبوت يہ ہے کہ سی – اين – اين نے حال ہی ميں اس ٹيم کے بارے ميں ايک رپورٹ بھی شائع کی ہے جو آپ اس ويب لنک پر ديکھ سکتے ہيں۔


    http://www.cnn.com/video/#/video/intern ... ideosearch" onclick="window.open(this.href);return false;


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov" onclick="window.open(this.href);return false;
     
  17. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    اصل حقائق بیان نہ کرنا پروپیگنڈا نہیں تو اور کیا ہے۔ ٹھیک ہے کہ آپ یوایس سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ‌ کے ترجمان ہیں لیکن وہ جو سازشیں کرتے ہیں آپ کو بتاکر نہیں کرتے۔ان کو بھی کچھ بتادیا کریں کہ پاکستانیوں کے یہ ردعمل ہیں۔
     
  18. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
     
  19. عباس حسینی
    آف لائن

    عباس حسینی ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2009
    پیغامات:
    392
    موصول پسندیدگیاں:
    23
    ملک کا جھنڈا:
    انٹیلیجنس رپورٹس سے یہ بات مکمل طور پر عیاں ہو چکی ہے کہ پاکستانی فوج کے خلاف لڑنے والے ان طالبان کو اسلحہ اور پیسہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے مل رہا ہے۔


    میرے خیال میں يہ بات حقیقت کے عین مطابق ہے۔

    کیونکہ ورنہ پھر آپ مجھے بتائے کہ یہ طالبان جو اتنا اسلحہ پاک فوج پر استعمال کر رہا ہے کہاں سے آیا ہے۔؟
    کیا طالبان کی کوئ فیکٹری ہے اسلحہ بنانے کی؟
    کیا یہ لوگ کو؁‌؁ئ کاروبار کرتے ہیں یا گورنمنٹ جاب؟ورنہ پھر یہ کھاتے پیتے کہاں سے ہے؟
    ان کے پاس جو پجارو گاڑیاں ہیں یا دوسرے جدید آلات یہ کہاں سے آتے ہیں؟
    ضرور ان کے پیچھے ملک دشمن عناصر کے ہاتھ ہیں۔جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاھتے ھیں۔جن کو ہمیں‌کاٹنا ہوگا۔

    البتہ تمام حکمرانوں‌کو غدار کہنا بھی انصاف نہیں۔
     
  20. اسلامین
    آف لائن

    اسلامین ممبر

    شمولیت:
    ‏4 مارچ 2008
    پیغامات:
    19
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    فواد
    آپ کو یاد ہوگا ۔۔۔۔
    مرحوم سویت یونین کی تباہی کے آخری دنوں میں کچھ لوگ زور وشور سے ان باتوں کو پھیلا رہے تھے کہ روس یہ کردے گا وہ کردے گا ۔ سرخ انقلاب کبھی ناکام نہیں ہوسکتا کیوں کہ یہ عوامی اور مزدوروں کے خون سے پروان چڑھی ۔۔۔۔۔ لیکن اللہ کی مدد اور مومنوں کی شجاعت نے اس سپر پاور کے بخئے ادھیڑ دئیے ۔
    اب بارے ہے جناب والا کی
    تو گرتی دیوار کو تھامنے کیلئے کچھ تو چاہئے نا تاکہ آنے والی ننگی دھڑنگی بھوکی امریکی نسل کے دلوں کی تشفی کا کچھ سامان مہیا کیا جاسکے ۔
    ہمیں امریکی قوم سے نفرت نہیں بلکہ سہ تکونی عمارت میں چھپے شیطان صفت اور 313 پالیسی ساز یہودیوں اور ان کے اندھے مقلدین اور ہمارا خون پینے سے دلی نفرت ہے اور یہ نفرت کبھی بھی سفید پاؤڈر کے چھڑکاو سے کم نہیں ہوسکتی۔۔
    اس کیلئے چاہئے کوئی اپنا "فواد" بمعنی "دل "ہی نکال کے سامنے رکھ دے ۔
    والسلام
    احترام انسانیت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ عبارت تحریر کی گئی ۔
     
  21. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    کافر ہے تو کرتا ہے شمشیر پہ بھروسہ
    مومن ہے تو بے تیغ لڑتا ہے سپاہی

    امریکہ کی ساری طاقت میزائیلوں، ہتھیاروں میں ہے۔ امریکی فوجیوں میں اتنی صلاحیت نہیں کہ کسی دوسرے فوج کے سامنے آکر لڑسکے۔ اس کی مثالیں ہم افغانستان میں دیکھ چکے ہیں۔ امریکہ کی یہ خوش فہمی ہے کہ اس کے پاس جدید آلات اور ایٹمی ہتھیار ہیں۔ ایٹمی ہتھیار تو سابقہ سوویت یونین کے پاس بھی تھے پھر کیونکر شکست ہوئی اور وہ کیوں ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ شاید امریکہ کا یہ خیال ہے کہ شکست کی صورت میں ہیروشیما اور ناگاساکی کی طرح ایٹمی ہتھیار استعمال کرلے گا۔
     
  22. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    آپ میں سے بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ امریکی پالیسی کے تحت 25 سے 30 سال بعد ایسے تمام خفیہ آپریشنز کو سامنے لایا جاتا ہے جو اس وقت کسی ملک کے خلاف کئے گئے ہوتے ہیں۔

    ان میں بعض ایسے ہوتے ہیں جو آگے کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں اس لئے انہیں سرد خانوں میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ جبکہ باقی کو اوپن کر دیا جاتا ہے تاکہ عوام کارکردگی دیکھ سکے۔

    مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی کے بارے میں جو رپورٹ آوٹ کی گئی ہے وہ 30 سال بعد آوٹ کی گئی۔اگر وہ رپورٹ فواد صاحب کہیں سے دکھا سکیں تو ہمارے ان معصوم دوستوں کو بھی دکھائیں کہ کس طرح امریکی سفارت خانے نے انڈیا کے ساتھ سازشوں میں اس کا ساتھ دیا۔ سفارت خانے کے کون کون سے افراد کن کن لوگوں سے ملتے رہے۔ اندرا گاندھی کو امریکہ بلا کر ان سے کیا کہا گیا۔

    میرے خیال میں ایسی کوئی رپورٹ ڈیجیٹل آؤٹ ریچ کو موصول نہیں ہوئی ہو گی۔ اور میں بھی اب یہ نہیں چاہوں گا کہ گڑھے مردے اکھاڑوں مجھے بس یہی کہنا ہے ۔کہ امریکہ نے جتنا دوست کے روپ میں پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے کوئی دشمن بھی ایسا نہیں کرتا۔
     
  23. وقاص قائم
    آف لائن

    وقاص قائم ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2009
    پیغامات:
    116
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
     
  24. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    امریکہ پاکستان کا کھلم کھلا دشمن ہے ہر پاکستانی جانتا ہے لیکن حکمران نہیں جانتے کیوں کہ ڈالرز جاننے نہیں دیتے۔

    اب تو صورت حال اور خراب ہوگئی ہے۔ پاکستان نے افغان ٹرانزٹ معاہدہ کرلیا ہے کہ بھارت کو راستہ دیا جائے گا تاکہ افغانستان کے ساتھ تجارت کرسکے۔ اس طرح بھارت پاکستانی معاملات میں مداخلت کرسکتا ہے اور ایک اور سانحہ مشرقی پاکستان پیدا کرسکتا ہے۔
     
  25. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    راشد بھائی ۔ کبھی کوئی اچھی خبر بھی سنا دیا کریں یار۔ :takar: :135: :takar:
     
  26. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    آرمی چیف نے صاف کہہ دیا ہے کہ ہم مشرقی سرحدوں سے فوج اٹھائیں گے نہ امریکی فوجیوں سے تربیت لیں گے۔ ہم تربیت یافتہ اور بہترین افواج ہیں۔
     
  27. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    اس میں کیا شک ھے ،
     
  28. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    راشد بھائی میرا تعلق فورسز سے ہے۔ اور میں پورے یقین سے کہ سکتا ہوں کہ ہماری تربیت ایسی ہے کہ ہم امریکی افواج کو تربیت دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمیں تربیت نہیں نئی ٹیکنالوجی نئے ہتھیار چاہیے۔ کوئی اس غلط فہمی میں مت رہے کہ پاک فوج امریکہ یا نیٹو سے تربیت لے گی۔ ہم انہیں تربیت دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان سے تربیت لینے کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔ہم کنوینشنل وار لڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں مگر ہمارے پاس کاونٹر ٹیررسٹ کی تربیت نہیں تھی لیکن خدا کے فضل سے پاک فوج نے دن رات ایک کر کے اس میں نہ صرف مہارت حاصل کر لی ہے بلکہ اگر امریکہ یا دوسری دنیا کو ضرورت ہے تو وہ دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لئے ہم سے تربیت لے سکتا ہے۔ویت نام سے بھاگے ہوئے پاک فوج کو کیا تربیت دیں گے۔عراق میں پھنسے ہوئے ہمیں کیا تربیت دیں گے؟افغانستان کے 25 فیصد علاقے سے باہر نہ نکل سکنے والے پاک فوج کو کیا تربیت دیں گے؟جو لوگ موت کے خوف سے زمینی کاروائی نہ کریں اور فضائی کاروائیاں کر کے بے گناہ لوگوں کو ماریں وہ کیا تربیت دیں گے؟اپنے ملک میں گوریلہ وار لڑنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔اور پھر وہ گوریلہ جنگ اگر مشکل ترین مقام پر ہو تو سونے پہ سہاگے والا کام ہے۔ کسی دوسرے ملک میں جنگ لڑنا اتنا مشکل نہیں ہوتا۔

    اور وقاص جی فواد صاحب میرے سوالوں کا کبھی جواب نہیں دے سکتے۔ کیونکہ یہ صرف دستاویزات پر بھروسہ کرتے ہیں۔ میں میدانوں کی بات کرتا ہوں۔ اور یہ بھی جانتا ہوں دستاویزات میں جو کچھ لکھا ہوتا ہے وہ حقیقت نہیں دکھاوا ہوتا ہے۔
    میں ان دستاویزات کے تحت بات کرتا ہوں جن پر اصل پالیسی بنتی ہے۔ جو پینٹاگان کے پاس ہوتے ہیں۔ حکومتی سینیٹرز صرف بحث کر سکتے ہیں پالیسی بنانا یا اسے اپلائی کرنا ان کا کام نہیں ہوتا۔ امریکہ کے بہت سے ادارے ایسے ہیں جو حکومتی عملداری کی بجائے اپنے احکامات پر ہی عمل کرتے ہیں۔ پینٹاگان اپنی دفاعی پالیسی سے حکومت کو صرف آگاہ کرتا ہے۔ کچھ خفیہ ادارے امریکہ کے کسی قانون کے زمرے میں نہیں آتے چاہے وہ جو مرضی کرتے پھریں۔انہیں امریکہ کا کوئی قانون نہیں پوچھ سکتا۔ اور امریکی قانون میں انہیں مکمل خودمختاری دی گئی ہے۔ جیسے سی۔آئی۔اے کو قیدیوں کے سلسلے میں تفتیش کے لئے ہر طرح کے انسانیت سوز طریقے استعمال کرنے کی اجازت ہے۔

    بعض لوگ ڈرون حملوں کے بارے میں پاک فوج کی صلاحیت پر شکوک کا اظہار کرتے ہیں۔یا بعض منسٹر اپنی خفگی مٹانے کے لئے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس صلاحیت نہیں۔ ڈرون حملوں کے بارے میں میں صرف اتنا کہوں گا کہ حکومتی کمزوری کارفرما ہے۔ حکومت آج حکم دے تو نہ صرف ڈرون حملے رکیں گے بلکہ وہ بیسز ہی تباہ کر دئیے جائیں گے جہاں سے یہ اڑائے جاتے ہیں ڈرون طیاروں کا سرحد پار کرنا تو دور کی بات۔ کمزوری فوج کی نہیں کمزوری حکومت کی ہے۔ اور فوج نے اب یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ سول حکومت کے حکم کے مطابق چلے گی تاکہ آئندہ جمہوریت کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔فوج اب عوام میں اپنا اعتماد بحال کرنا چاہتی ہے تاکہ پاکستانی عوام فوج کو پھر وہی احترام دے جو 65 کی جنگ میں دیا تھا۔اور اگر عوام فوج کو ایسا اعتماد دے گی تو فوج خالی ہاتھوں سے دشمن کی آنکھیں نکال لینے کی طاقت رکھتی ہے۔فوج اپنے لوگوں کے لئے لڑتی ہے لیکن اگر اپنے لوگ ہی اس پر تنقید کریں تو مورال اتنا گر جاتا ہے کہ سپاہی ہتھیار رکھتے ہوئے بھی بے دست و پا ہوتا ہے۔ فوج کے لئے طالبان نہ کبھی بڑا مسئلہ رہے ہیں اور نہ رہیں گے۔ ہمارا پہلا اور آخری مسئلہ صرف انڈیا ہے امریکہ جو مرضی کہتا پھرے ہم انڈیا سے کبھی آنکھیں بند نہیں کر سکتے۔
    فوج کو کہاں کس وقت کتنی تعداد میں ڈپلائے کرنا ہے یہ فیصلہ فوج کرتی ہے حکومت صرف درخواست کر سکتی ہے۔ کسی بیرونی ڈکٹیشن پر نہ کبھی فوج حرکت کرتی ہے اور نہ ڈپلائے کی جاتی ہے۔ اس لئے یہ کہنا کہ ہم انڈیا کی جانب سے آنکھیں بند کر کے طالبان کی جانب رخ کر لیں گے تو یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ جیسے ہی حکومتی عملداری قائم ہوئی فوج کو واپس بلا لیا جائے گا۔ پھر سول حکومت جانے اور حکومتی رٹ۔ امن و امان کے لئے وہاں موجود سکیورٹی اداروں کو ٹرینڈ کیا جائے گا۔تاکہ آئندہ ایسی صورتِ حال سے بچا جا سکے۔
    پاک فوج انڈیا پر مکمل نظر رکھے ہوئے ہے۔اوراگر انڈیا نے اس دوران پاکستانی بارڈرز پر کوئی غلط حرکت کرنے کی کوشش کی تو چند گھنٹوں کے نوٹس پر ساری فوج کو مشرقی بارڈرز پر منتقل کیا جا سکتا ہے۔
     
  29. وقاص قائم
    آف لائن

    وقاص قائم ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2009
    پیغامات:
    116
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    عمران بھائی جو باتیں کر رہے ہیں وہ حقیقت ہیں کیو نکہ جس وقت موجودہ حکومت نئی نئی تشکیل بائی تھی اس وقت بھی جنرل کیانی نے یہ بیان دیا تھا کہ ہم ڈرون حملوں کا جواب دینے کیلئے تیار ہیں بس حکومت فیصلہ کرلے۔ ہماری فوج با صلاحیت ہے اس میں کوئی شک نہیں خاص کر وہ دستے جو میدان میں موجود ہوتے ہیں۔
     
  30. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    علی عمران ۔ آپ کی باتیں بہت حوصلہ افزا ہیں۔
    :mashallah:
     

اس صفحے کو مشتہر کریں