1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

امریکا اور افغانستان

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از بےباک, ‏15 مارچ 2009۔

  1. انجم رشید
    آف لائن

    انجم رشید ممبر

    فواد جی یہ امداد کیا امریکہ پاکستانی عوام کو دیتا ہے یا اپنے ایجنٹوں کو پاکستانی عوام کو تو آج تک کچھ نہ مل سکا کیا امریکہ اپنا دفا ع نہیں کر رہا کیا
     
  2. انجم رشید
    آف لائن

    انجم رشید ممبر

    :a180: بہت خوب راشد احمد بھائی ایسا ہی ہے امیرکہ اپنے ہ ایجنٹوں کو امداد دیتا ہے جو گھوم پھر کر امریکہ چلی جاتی ہے :dilphool:
     
  3. انجم رشید
    آف لائن

    انجم رشید ممبر

    :salam:
    بے باک بھائی بہت ایسی بہت سی باتیں ہیں جو لوگوں کی نظر میں نہیں آتیں ایک تنظیم ہے جس کا نام ہے صہیونیت جو بہت بڑے منصوبے بناتی ہے کم از کم پچاس سال کے لیے اگر کیسی بھی کو مواد کی ضرورت ہے تو میں لنک دے سکتا ہوں وہ یونانی زبان میں ہے ترجمہ کر لیں ۔
    اس تنظیم کا کام ہے کہ دنیا میں ایسے حالات پیدہ کیے جایں جو پچاس سال بعد منظر عام آیں جو کہ یہودیوں کی ہے ۔
    سو وہ یہ حالات پیدہ کر رہے ہیں
    سب سے پہلے ان کا نشانہ بنا جناب محترم مرحوم بھٹو صاحب ( وہ بھی محترم اور محسن پاکستان ہیں (
    ان کے تین نعرے جو ان کو پھانسی کے پھندے تک لے گیے
    پہلا ہم گھاس پھونس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنایں گیے
    سو وہ پھانسی پر چڑ گیے لیکن باز نہ آئے یہاں لاہور ایرپورٹ کا واقع لکھتا ہوں یہاں اس وقت کے امیرکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ بھٹو باز آجاو اٹامنک انرجی سے نہیں تو دنیا تیرا بیانک انجام دیکھے گی ( سو دنیا نے ان کا انجام دیکھ لیا (
    دوسرا مشورہ عربوں کو تیل کاہتھار استمال کرنے کا تھا ۔
    انہوں نے کہا تھا کہ دنیا میں تیل کی سپلائ بند کر دیں پھر دیکھیں دنیا آپ کلے سامنے گٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاے گی
    تیسرا اور اہم نعرہ اسلامی بنک بنایا جائے اس میں تمام عرب دنیا کی دولت اکھٹی کی جائے (کیوں کہ امریکہ اور انگلینڈ اویسی دولت کو غریب ملکوں کو سود سے دیتے ہیں (
    اور یہی رقم غریب اسلامی ممالک کو بنا سود دی جاے
    ان تین نعروں کی بھنڈ چڑ گیا وہ مخلص انسان ۔
    اب چلتے ہیں عراق کی طرف وہاں کا ایک شہنشاہ تھا جو جس کا نام تھا صدام حسین اس نے پہلا کام تو یہ کیا اپنے آقاوں کے لیے اس کے آقا بھی امیرکی تھے ۔
    کہ کویت میں حملہ کر دیا بلا کیسی جواز کے اپنے آقاوں کے احترام میں پھر اس ملک پر کیا ہوا آپ سب جانتے ہیں بلکہ عوام پر کیا ہوا؟
    پھر اس شہنشاہ نے کیا کیا یہ بھی آپ جانتے ہیں میں اس دن مقامی ٹی وی پر تھا جب ان کے وزیر نے آخری بیان دیا تھا کہ امریکی فوجیں خون میں نہا جایں گی لیکن بغداد میں داخل نہیں ہوں گی لیکن بغداد سے ایک گولی بھی نہ چلی
    وہ ہتھیار جن کو بنیاد بنا کر امیرکہ اور انگلیڈ نے حملہ کیا تھا وہ کہیں بھی نہ ملے نہ جانے کس کو پھانسی لگا دیا اور نام صدام حسین کا دے دیا؟
    اب چلتے ہیں افغانستان کی طرف افغان وہ قوم ہے جس کو کوئ غلام نہ بنا سکا انگریز اور روسی بھی نہ بنا سکے یہا ں امریکہ نے القادیدہ کا ڈرامہ رچایا ( القایدہ سی ای اے کی ہی تنظیم ہے (پہلے جڑواں ٹاوروں پر حملہ کروایا طیارے سے اپنے ہی ایجنٹوں‌سےپھر نام لگا دیا القایدہ پر کیا زمینی حالات اور واقات اس کی تصدیق کرتے ہیں بلکل نہیں کیا اس دن پانچ لاکھ اسراییلی اپنی ملازمتوں پر تھے کیا اس دن امریکی سیکورٹیاں اتنی ہی بے کار تھیں کہ سب طیارے اغواہ ہوے کیا کاغز کاٹنے والی چھری سے طیارہ اغواہ ہو سکتا ہے کیا زلزلہ آسکتا تھا کیا طیاروں کے فیول سے دونوں جڑواں ٹاور تباہ ہو سکتے تھے
    نہیں میرے بہنوں اور بھایو یہ غلط ہے ‌یہاں پر مفادات اور ہیں تحقیق کر لیں یہ سب اس صہونی تنظیم کا کام ہے جو پچاس سال تک نظر رکھے ہوے فواد جی مجھے امید ہے آپ کا اسٹیٹ ڈیپارمنٹ کچھ نہ کچھ تو ضرور کہے گا
    :201: :201: :201: :201: :201: :201: :201: مجھے موت سے ڈر نہیں میں تو حق کا انسان ہوں حق بولنے والا شاید کل آپ کا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ مجھے ؟
     
  4. بےمثال
    آف لائن

    بےمثال ممبر

    ماشاءاللہ انجم بھائی بہت خوب۔اتنا جامع جواب تو بہت کم لوگ دینے کے اہل ہوتے ہیں۔سلام ہو آپ کی بصیرت کو۔میرے بھائی میں ایک سو ایک فیصد آپ کی باتوں سے متفق ہوں۔ایسا ہی ہے جیسا آپ نے واضح کیا ہے۔اور یقین ہے کہ آپ کی سبھی بھائی اور دوست تائید بھی کرینگے۔
     
  5. بےمثال
    آف لائن

    بےمثال ممبر

    جناب فواد صاحب
    مشرف کی کتاب سے چند اقتباس آپ کی نظر
    پھر مزید بات کرتے ہیں

    صفحہ نمبر 257: 13 ستمبر کو، پاکستان میں‌امریکہ کی سفیر وینڈی چیمبرلین(Wendy Chamberlain) میرے پاس سات مطالبات پر مبنی ایک فہرست لائیں۔یہی مطالبے امریکی وزارت خارجہ،ہماری وزارت خارجہ کو غیر رسمی طور پر پہلے ہی بھیج چکی تھی۔

    1: القاعدہ کے کارکنوں کو اپنی سرحدیں پار نہ کرنے دی جائیں،پاکستان سے گزرنے والا اسلحہ پکڑا جائے اور بن لادن کی تمام امداد بند کی جائے۔
    2:امریکہ کو حسب ضرورت فوجی اور جاسوسی مقاصد کے لئے ہوائی راستے اور زمین پر اترنے کی غیر مشروط سہولیات دی جائیں۔
    3:امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو حسب ضرورت عسکری جاسوسی اور دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرنے کے لئے سرحدی علاقوں‌تک رسائی ممکن بنائی جائے اور اس مقصد کے لئے پاکستانی بحریہ اور فضائیہ کے اڈوں اور جنگی کاروائیوں کے لئے سرحد کے قریب واقع مقامات کے استعمال کی اجازت دی جائے۔
    4:امریکہ کو فی الفور فوجی نوعیت کی اہم معلومات اور ملک میں لوگوں‌کے داخل اور خارج ہونے اور داخلی تخفظ (Security) کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں،جن سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ہونے والی دہشت گردی کو روکنے اور اس کا جواب دینے میں‌مدد ملے۔
    5: 11 ستمبر کی دہشت گردی اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں‌کے خلاف دہشت گردی کے دوسرے واقعات کی کھلے عام مذمت کی جائے اور اندرون ملک دہشت گردی کی حمایت میں اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں‌کے خلاف بیانات کو روکا جائے۔
    6: طالبان کو ایندھن اور دوسری اشیا کی رسد،اور افغانستان جانے والے رنگروٹوں اور رضاکاروں کو روکا جائے،جو دہشت گردی یا جنگی حملوں‌میں‌حصہ لینے کے قابل ہیں۔
    7[highlight=#FF0000:15ldl2cz]: اگر اسامہ بن لادن اور افغانستان میں القاعدہ تنظیم کے ملوث ہونے کا ٹھوس ثبوت فراہم ہو جاتا ہے اور افغانستان اور طالبان اسے اور اس کی تنظیم کو پناہ دینے کا عمل جاری رکھتے تو پاکستان ،طالبان کی حکومت سے سفارتی تعلقات ختم کرے گا۔طالبان کی امداد بند کرے گا اور اسامہ بن لادن اور القاعدہ تنظیم کو ختم کرنے میں‌مندرجہ بالا طریقوں سے ہماری مدد کرے گا[/highlight:15ldl2cz]

    یہ الفاظ کہ 'اگر اسامہ بن لادن اور افغانستان میں القاعدہ تنظیم کے ملوث ہونے کا ٹھوس ثبوت ' خود اپنی نفی کرتے ہیں‌ کیونکہ امریکہ اگر ابھی تک ثبوت ڈھونڈ رہا تھا تو انہیں یہ یقین کیسے تھا کہ 'اسامہ بن لادن اور افغانستان میں القاعدہ تنظیم' 911 کی دہشت گردی کے مرتکب ہوئے ہیں؟


    فواد جی،
    خقیقت تویہی ہے کہ القاعدہ کو امریکہ ،پاکستان اور سعودی عرب نے اپنے مفادات کے لئے روس کے خلاف جہاد کے لئے بنائی اور جب اپنے مقصد کو پا لیا(یعنی سوویت یونین کے ٹکڑے کر دیئے) تو پھر یہ بھول گیا کہ جسے ہم نے دودھ پلا کر شیر کیا ہے،کیا وہی ہمیں‌تو کھائے گا نہیں
    امریکہ اور یہودی لابی (گو یہ دونوں یہودی لابی ہی ہے)نے یہی سوچا کہ جس ملک میں‌ہم نے ایکشن کرنا ہو،وہاں‌اسامہ کو کسی ویڈیو یا کسی دلیل سے نکالو اور پھر کرنا امریکہ نے ہی ہیں‌جو کرنا ہے
    اس کی مثال آج کا عراق ہے۔
    بش نے کہا تھا کہ 100 فیصد یقین سے یہ بات ہم کرتے ہیں کہ عراق میں مہلک ھتیار موجود ہیں‌جس کی ہمیں‌صدام چیک کرنے کی اجازت نہیں دے رہا۔
    اور حملے کے بعد یہ کہہ دینا کہ 'ہماری سیکرٹ سروسز نے ہمیں‌غلط انفارمیشن دے کر ہم سے یہ کروایا ' کیا ان معصوم جانوں کو آزالہ کر سکیں گے جس کی ٹھیکیداری آج آپ نے شروع کر رکھی ہے؟
     
  6. بےمثال
    آف لائن

    بےمثال ممبر

     
  7. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    گيارہ ستمبر 2001 – 4000 گمشدہ يہوديوں کا معمہ

    گيارہ ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد يہ افواہ گردش کرنے لگی کہ اس دن 4000 يہودی کام پر نہيں آۓ۔ جس سے اس تاثر کو تقويت ملی کہ اس حادثے کے پيچھے اسرائيل کی خفيہ ايجينسيوں اور امريکی حکومت کا ہاتھ تھا۔

    سب سے پہلے اس بات کا ذکر حزب اللہ کے ٹی – وی نيٹ ورک ال منار پر 17 ستمبر 2001 کو کيا گيا۔ ٹی – وی پر ايک خبر چلائ گئ جس ميں يہ دعوی کيا گيا کہ 4000 يہودی معجزانہ طور پر ورلڈ ٹريڈ سينٹر سے غير حاضر رہے۔ يہوديوں کی اس تعداد کا حوالہ ايک اداريے سے ليا گيا تھا جس کا عنوان تھا "11 ستمبر کے واقعے ميں سينکڑوں اسرائيلوں کی گمشدگی"۔ يہ اداريہ جيروسلم پوسٹ کے 12 ستمبر 2001 کے انٹرنيٹ ايڈيشن ميں شائع کيا گيا تھا۔ اس اداريے کے مطابق "جيروسلم کے دفتر خارجہ کو اب تک 4000 اسرائيلوں کے نام موصول ہوۓ ہيں جو حملے کے وقت پينٹاگون اور ورلڈ ٹريڈ سينٹر کے آس پاس موجود تھے"۔ يہ اداريہ آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

    http://www.fpp.co.uk/online/02/10/JerusPost120901.html

    المنار ٹی- وی نے اس خبر کو اس طرح سے شائع کيا کہ اس کا سياق وسباق ہی تبديل ہو گيا۔ اور اس خبر نے ايک افواہ کی شکل اختيار کر لی۔ 11 ستمبر 2001 کو ہلاک ہونے والے افراد ميں سے ورلڈ ٹريڈ سينٹر ميں کام کرنے والے افراد 2071 تھے۔ 11 اکتوبر 2001 کو وال اسٹريٹ جرنل ميں شائع ہونے والے ايک اداريے کے مطابق قريب 1700 افراد نے اپنا مذہب رجسٹر کروايا تھا جس ميں سے 10 فيصد يہودی تھے۔ 5 ستمبر 2002 کو ماہنامہ جيوش کے ايک اداريے کے مطابق "نيويارک ٹائمز نے مرنے والے افراد کے جو نام اور ديگر اعداد وشمار حاصل کيے ہيں اس کے مطابق قريب 400 يہودی اس حادثے ميں ہلاک ہوۓ۔" اس حساب سے 11 ستمبر 2001 کو ہلاک شدگان ميں 15 فيصد يہودی شامل تھے۔ کينٹر فٹزجيرلڈ نامی صرف ايک کمپنی کے 658 ميں سے 390 ملازمين اس حادثے ميں مارے گۓ جس ميں سے 49 يہودی تھے، جس کا تناسب 12 سے 13 فيصد بنتا ہے۔ ان 49 ملازمين کے نام اور انکی آخری رسومات کہاں ادا کی گئيں اسکی تفصيلات اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

    http://myfriendsphotos.tripod.com/cf.html

    دو ہزار دو (2002) ميں نيويارک کی مجموعی آبادی ميں يہودی آبادی کا تناسب 12 فيصد تھا۔ ورلڈ ٹريڈ سينٹر ميں 10 سے 15 فيصد يہوديوں کی ہلاکت عددی اعتبار سے نيورک ميں مقيم يہودی آبادی کے تناسب کے عين مطابق ہے۔

    ورلڈ ٹريڈ سينٹر کے ہلاک شدگان ميں 76 يہودی ايسے تھے جو عمارت کے ان حصوں ميں کام کرتے تھے جہاں پر ہوائ جہاز ٹکرايا تھا۔ اس ميں کينٹر فٹزجيرلڈ کے علاوہ مارش اينڈ مکلينن کے 295 اور اون کارپوريشن کے 176 ملازمين لقمہ اجل بنے۔ ان ہلاک شدگان ميں سے بيشتر کی تصاوير اور ذاتی کوائف آپ اس ويب لنک پو ديکھ سکتے ہيں۔

    http://projects.washingtonpost.com/911victims/

    "گيارہ ستمبر 2001 – 4000 گمشدہ يہوديوں کا معمہ" - ان سينکڑوں بلکہ ہزاروں "سازشی داستانوں" ميں سے ايک ہے جو 11 ستمبر 2001 کے حوالے سے انٹرنيٹ پر موجود ہيں۔ جيسا کہ ميں نے پہلے کہا کہ اگر ہر الزام کا جواب دينے کی کوشش کی جاۓ تو اس کے ليے تو کئ کتابيں لکھی جا سکتی ہيں۔ ليکن حقيقت يہی ہے کہ اس حادثے کے حوالے سے اٹھاۓ جانے والے ہر سوال کا جواب سائنسی تحقيق اور اعداد وشمار کی روشنی ميں ديا جا سکتا ہے۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov
     
  8. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    "ڈائنامايٹ تھيوری" کی نفی کے ليے سب سے بڑا ثبوت خود پروٹيک نے فراہم کيا اور اس کی تصديق کولمبيا يونيورسٹی کے زمينی مشاہدات کے ادارے ايمونٹ ڈورتھی نے کی۔

    گيارہ ستمبر 2001 کو ان دونوں اداروں کے مرکزی دفاتر ميں زمين کا ارتعاش محسوس کرنے اور اس سے متعلقہ اعداد وشمار کو ريکارڈ کرنے کی غرض سے کئ مشينيں کام کر رہی تھيں۔ پورٹيک کے بہت سے ماہرين اس دن نيويارک ميں زير تعمير کچھ عمارتوں کے حوالے سے زمين کے ارتعاش کے ليے اعدادوشمار اکٹھے کر رہے تھے۔ انشورنس کے پيش نظر اس قسم کی کاروائ معمول کا حصہ ہے۔

    مختلف اداروں کے زير اثر ان تمام ماہرين نے زمين کے ارتعاش کے حوالے سے جو اعدادوشمار اکٹھے کيے وہ يکساں تھے۔ ان اعداد وشمار پر مشتمل گراف پيش خدمت ہے

    http://img394.imageshack.us/my.php?imag ... ph2uc9.jpg

    اس گراف ميں آپ صاف ديکھ سکتے ہيں کہ جہازوں کے عمارات سے ٹکرانے اور ان عمارات کے منہدم ہونے کے عمل ميں کہيں بھی ڈائنامايٹ کے استعمال کے شوائد نہيں ملتے۔ ڈائنامايٹ کے استعمال کی صورت ميں اس گراف پر بغير کسی وقفے کے عمودی لکيريں موجود ہوتیں۔ اس کی ايک مثال کرکٹ کے کھيل ميں سنکو ميٹر کے استعمال کے دوران آپ ديکھتے ہيں۔ بيٹ کے گيند سے ٹکرانے کی صورت ميں ايسی ہی عمودی لکيريں ديکھنے کو ملتی ہيں۔ ياد رہے کہ يہ اعداد وشمار مختلف اداروں کے ماہرين نے اپنی مشينوں پر حاصل کيے تھے اور ان سب کے نتائج يکساں تھے۔

    يہ ايک ايسا ناقابل ترديد ثبوت ہے جس کے بعد يہ دعوی کرنا غير منطقی اور حقيقت کے منافی ہے کہ ان عمارات کو منعدم کرنے کے ليے ڈائنامايٹ کا استعمال کيا گيا۔

    کچھ عرصہ قبل، شکاگو کی مشہور زمانہ پرڈو يونيورسٹی ميں ايک ريسرچ ٹيم نے اسی پراجيکٹ پر کام کيا تھا کہ ہوائ جہاز کے ٹکرانے کے نتيجے ميں ورلڈ ٹريڈ سينٹر کی عمارات کيسے منہدم ہوئيں۔ اس ريسرچ ٹيم نے اس سارے منظر کو کمپيوٹر کے ذريعے واضح کيا ہے۔ اس ويڈيو کا ويب لنک پيش ہے۔

    http://www.youtube.com/watch?v=S01RaG9mGLc


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov
     
  9. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    سب سے پہلے تو ميں يہ وضاحت کر دوں کہ اسامہ بن لادن 911 کے واقعات سے پہلے بھی امريکی حکومت کو مطلوب افراد کی لسٹ ميں شامل تھے۔ اگست 1998 ميں کينيا اور تنزانيہ ميں امريکی سفارت خانوں پر حملوں اور اس کے نتيجے ميں 225 افراد کی ہلاکت اور 4000 سے زائد افراد کے زخمی ہونے کے واقعات ميں اسامہ بن لادن امريکی حکومت کو مطلوب تھے۔

    اکتوبر 1999 ميں اقوام متحدہ کی جنب سے منظور کردہ قرداد نمبر 1267 ميں يہ واضح درج ہے کہ طالبان کی جانب سے اسامہ بن لادن کی پشت پناہی کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ طالبان کی حکومت سے اسامہ بن لادن کو حکام کے حوالے کرنے کا مطالبہ بھی اس قرارداد کا حصہ ہے۔

    http://www.un.org/Docs/sc/committees/12 ... ResEng.htm

    يہ درست ہے کہ امريکہ پر يہ الزام لگايا جا سکتا ہے کہ امريکہ نے القائدہ کے خلاف اس وقت زيادہ موثر کاروائ نہيں کی جب القائدہ اپنی تشکيل کے ابتدائ مراحل ميں تھی۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov
     
  10. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    محترم،

    شايد اعداد وشمار کی روشنی ميں مثبت بحث کرنے کے مقابلے ميں جذباتی تنقيد کرنا آسان کام ہے۔

    کجھ باتوں کی وضاحت کرتا چلوں۔

    ميں نے اس حقيقت سے انکار نہيں کيا کہ ميں يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے ليے کام کرتا ہوں بلکہ ميں نے اپنی پوسٹ کے آغاز ميں اپنی وابستگی واضح کی ہے۔

    ميں نے صرف اس راۓ کا اظہار کيا ہے کہ دہشت گردی اور طالبان کے حوالے سے پاکستان کا ايک اہم کردار رہا ہے۔ يہ راۓ ان عوامی جذبات سے ہٹ کر ہے جنھيں پاکستانی ميڈيا پر کچھ عناصر نے بڑھا چڑھا کر پيش کيا جاتا ہے، جس کے مطابق "دہشت گردی پاکستان کا مسلہ نہيں ہے اور ہم محض امريکہ کی جنگ لڑ رہے ہيں"۔ ميری اس راۓ کی بنياد جذباتی نعرے نہيں بلکہ وہ تاريخی حقائق ہيں جو ميں اس فورم پر دستاويزی ثبوت کے ساتھ پيش کر چکا ہوں۔


    آپ کی اطلاع کے ليے عرض ہے کہ يو- ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ ميں کام کرنے کے ليے جو تنخواہ مجھے ملتی ہے وہ اس سے کہيں کم ہے جو مجھے امريکہ ميں کسی نجی کمپنی ميں کام کرنے کے عوض ملتی اور ميرے پاس اس کے مواقع موجود تھے ليکن ميں سمجھتا ہوں کہ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم ميں کام کر کے مجھے اس بات کا موقع مل رہا ہے کہ ميں دوسرے فريق یعنی امريکہ کا نقطہ نظر بھی جان سکوں اور اپنے ہم وطنوں کو اس سے آگاہ کر سکوں۔

    ميں نے يہ کبھی دعوی نہيں کيا کہ امريکی حکومت اور اس کی خارجہ پاليسيوں پر "سب اچھا ہے" کی مہر لگائ جا سکتی ہے۔ ليکن کيا آپ جذبات کو بالاۓ طاق رکھ کر يہی بات تسليم کر سکتے ہيں کہ دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کی سرحدوں کے اندر "سب اچھا نہيں ہے"؟

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov
     
  11. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    يہ بات ياد رکھنی چاہيے کہ افغانستان پر سوويت افواج کے حملے کے بعد صرف امريکہ ہی وہ واحد ملک نہيں تھا جس نے امداد مہيا کی تھی بلکہ اس ميں مسلم ممالک جيسے سعودی عرب اور شام سميت ديگر بہت سے ممالک بھی شامل تھے اور اس وقت کے زمينی حقائق کے پيش نظر افغانستان کی مدد کو دنيا کے کسی ملک نے غلط پاليسی نہيں قرار ديا تھا۔

    دنيا کے مختلف ممالک سے آنے والی فوجی اور مالی امداد براہ راست پاکستان منتقل کی جاتی رہی اور پھر پاکستان کے توسط سے يہ امداد افغانستان پہنچتی۔ کچھ ہفتے پہلے اس وقت کے پاکستانی صدر ضياالحق کے صاحبزادے اعجازالحق نے بھی ايک ٹی وی پروگرام ميں يہ تسليم کيا تھا کہ پاکستان افغانستان ميں بيرونی امداد منتقل کرنے ميں واحد کردار تھا۔

    يہ ايک تلخ مگر تاريخی حقيقت ہے کہ پاکستان ميں اس وقت کے حکمرانوں نے اس صورتحال کو اپنے مفادات کے ليے استعمال کيا اور مستقبل ميں افغانستان ميں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے ليے امداد کا رخ دانستہ طالبان کی طرف رکھا اور افغانستان ميں موجود ديگر گروپوں اور قبيلوں کو نظرانداز کيا۔ يہ وہ حقائق ہيں جو ان دستاويز سے ثابت ہيں جو ميں نے اس فورم پر پوسٹ کیے ہيں۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov
     
  12. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    ڈرون حملے: ’دائرہ کوئٹہ تک وسیع کریں‘

    ڈرون حملوں پر پاکستان کی حکومت تشویش کا اظہار کرتی رہی ہے
    امریکہ کے صدر براک اوباما اور ان کے قومی سلامتی کے مشیران جنوبی افغانستان میں طالبان کی سرگرمیوں کے پیش نظر ڈرون طیاروں کے حملوں کا دائرہ پاکستان کے صوبے بلوچستان تک وسیع کرنے کے بارے میں غور کر رہے ہیں۔

    امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نےاوباما انتظامیہ کے اعلیٰ اہلکاروں کے حوالے سے کہا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے بارے میں دو اعلیٰ سطحی رپورٹس اس ہفتے واہٹ ہاؤس کو بھیجی گئی ہیں۔ اخبار لکھتا ہے کہ ان رپورٹس میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ ڈرون طیاروں کے حملوں کا دائرہ وسیع کیا جائے اور کوئٹہ شہر کے آس پاس طالبان کی اعلیٰ قیادت کی مبینہ محفوظ پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا جائے۔

    اخبار نے بغیر کس ذرائع کا حوالے دِیئے یہ دعوی کیا ہے کہ طالبان راہنما ملا عمر سن دو ہزار ایک میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد سے مکمل آزادی سے کوئٹہ میں بیٹھ کر طالبان سرگرمیوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔

    امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی نگرانی میں کیئے جانے والے ڈرون حملوں کو ابھی تک پاکستان کے نیم خودمختار قبائلی علاقوں تک محدود رکھا گیا ہے اور ابھی تک ایسا کوئی حملے ملک کے وسیع ترین صوبے بلوچستان میں نہیں کیا گیا جس کی سرحد افغانستان کے شورش زدہ جنوبی صوبوں سے ملتی ہے۔

    اخبار کے مطابق امریکی انتظامیہ کو خدشہ ہے کہ ڈرون حملوں کا دائرہ بلوچستان تک وسیع کرنے سے پاکستان میں عوامی سطح پر بے چینی میں اضافہ ہو سکتا ہے اور پاکستان سے تعلقات میں کشدیگی پیدا ہو سکتی ہے۔ پاکستان ڈرون حملوں کو اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتا رہا ہے۔

    امریکی حکام کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں میں میزائیل حملوں کے پیش نظر بہت سے القاعدہ اور طالبان کے سرکردہ راہمنا اور کارکن کوئٹہ کی طرف ہجرت کر گئے ہیں۔

    اخبار لکھتا ہے کہ ایک اور رپورٹ خطے میں امریکی افواج کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریس اور لیفٹیننٹ جنرڈگلس ای لوت نے جو کہ وائٹ ہاؤس میں افغانستان کے امور کے ذمہ دار ہیں بھی کہا ہے کہ اگر پاکستان بڑھتی ہوئی شورش کو دبانے میں کامیاب نہیں ہوتا تو ڈرون حملوں کا دائرہ وسیع کردیا جائے۔

    صدر اوباما کے بہت سے مشیر اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ گزشتہ سال سابق صدر جارج بش کی طرف سے قبائل علاقوں میں طالبان اور القاعدہ کے اہداف کو ڈرون طیاروں سے نشانہ بنانے کے جاری کیئے جانے والے احکامات کو برقرار رکھا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سرحدوں کے اندر سی آئی اے کے اہلکاروں اور امریکی فوج کے خصوصی دستوں کی مدد سے زمینی حملوں کے امکان کو مدنظر رکھیں۔

    اخبار لکھتا ہے کہ قومی سلامتی کونسل کے ترجمان مائیک ہامر نے اس سلسلے میں تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ’صدر اوباما کی خواہش کے مطابق ہم ابھی افغانستان اور پاکستان کے بارے میں پالیسی کا جائزہ لے رہے ہیں اور اس نظر ثانی شدہ پالیسی کو آخری شکل دینے میں لگے ہوئے ہیں۔‘
    بیبی سی 23 مارچ 2009
     
  13. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شکریہ بے باک جی اس شئیرنگ کے لئے
     
  14. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    السلام علیکم۔
    یقین ہوتا جارہا ہے کہ (خدانخواستہ ) پاکستان کے مختلف صوبوں کے عوام میں وفاق (اسلام آباد) کے خلاف نفرت کے بیج بونے کے منصوبے پر عمل درآمد جاری ہے۔ تاکہ نفرتوں کی یہ فصل جب پک کر تیار ہوجائے تو بڑی آسانی سے اسکی کاشت کرکے متعلقہ صوبوں کو پاکستان کے جسم سے کاٹ کر الگ کر دیا جائے۔ اور بقیہ پاکستان چند شہروں تک محدود ہوکر رہ جائے جس کی نہ کوئی قوت ہو ، نہ حیثیت ۔

    کاش ہماری قوم اب بھی بیدار ہوجائے۔ آمین

    بےباک بھائی ۔ اہم خبر ہم تک پہنچانے کے لیے شکریہ ۔
     
  15. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    فواد جی
    آپ نے ماشاء اللہ بہت احسن طریقے سے اپنا موقف بیان کرنے کی کوشش کی۔

    آپ کو یاد ہو گا کہ آپ نے القلم پر میرے ایک کالم“اوبامہ مشہور صدر یا مجبور صدر“ پر بھی کچھ ایسی ہی رائے دی تھی۔ اور میں نے اس وقت بھی اتنا ہی کہا تھا کہ آپ پالیسی کو اوپر سے دیکھتے ہیں اور میں پالیسی کو اندر سے پڑھتا ہوں۔ حقیقت بھی یہی ہے امریکی اسٹیبلشمنٹ جو پالیسی صفحات کے اوپر لکھتی ہے اس سے الٹ صفحات کے ان صاف درزوں میں ہوتی ہے جہاں لکھا نہیں گیا ہوتا۔
    اب میں آتا ہوں 9 11 کے آپ کے دلائل کی جانب لیکن اس کے لیے مجھے حقیقت کو کچھ کھولنا ہو گا۔ اس میں آپ کی سب باتوں کا جواب آئے گا۔ مگر میں صرف اعداد و شمار کی بات نہیں کروں گا۔

    سب سے پہلے تو نائن الیون آپ کے مطابق القاعدہ کا کیا دھرا ہے۔آپ کا موقف اپنی جگہ مگر ٹھہرئیے میں آپ کو کچھ حقائق کی جانب لے جاتا ہوں جو شاید آپ کی نظروں سے نہ گزرے ہوں۔
    1980 کے عشرے میں اسرائیلی “موساد“ کے اس وقت کے چیف نے اپنے صدر کو ایک دستاویز بھیجی جس میں “گریٹر اسرائیل“ کے حوالے سے “موساد“ کی مختلف سرگرمیوں کے بارے میں بتایا گیا۔ اس رپورٹ کے مطابق مسلمان ممالک جو دفاعی سائنس کے حوالے سے ترقی کرنا چاہتے ہیں انہیں مختلف حیلے بہانوں سے اس کام سے روکا جائے گا۔ اور جو ممالک پھر بھی باز نہ آئیں انکے خلاف خفیہ کاروائیاں عمل میں لائی جائیں گی۔ اسی رپورٹ کے بعد عراق کے ایٹمی پلانٹ کو تباہ کیا گیا۔
    اسی رپورٹ کے تحت پاکستان کے ایٹمی پلانٹ کو6 مرتبہ تباہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن بہت سی وجوہات کی بنا پر ایسا نہ ہو سکا۔ اس دستاویز پر عمل درآمد تو ہو رہا تھا لیکن 1990 کی دھائی میں جب انڈیا کے ایٹمی دھماکے کے بعد پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کر دیا۔ تو اسرائیل میں ایک کھلبلی مچ گئی۔ اسرائیلی خفیہ تنظیم “موساد“ کے تمام بڑے دماغوں نے سر جوڑ لیا کہ اب کیا کریں یہ تو ہماری پالیسی کے بر خلاف عمل ہو گیا۔ یہ سب کچھ ہو رہا تھا کہ “موساد“ کے ایک ریجنل انچارج نے ایک تجویز پیش کی جسے صرف اس وقت کے انٹیلیجنس چیف نے دیکھا تھا یا وہ ریجنل انچارج جانتا تھا۔
    چنانچہ اس ریجنل انچارج کو ایک حادثے میں مروا دیا گیا۔ اور “موساد“ کے چیف نے وزیر اعظم کو اس منصوبے کے بارے میں بتایا اور کہا کہ امریکہ کو اس بارے میں متفق کرنا آپ کا کام ہے۔چنانچہ صدر بش سے اس سلسلے میں اجازت لی گئی۔ اور نائن الیون کے وقت تمام اسرائیلی لوگوں کو کام پر جانے سے روک دیا گیا۔ اور پھر یہ جہاز ٹکرا گئے۔ یہ تو تھی نائن الیون کی اصل کہانی، اب میں آتا ہوں اس کے بعد کے واقعات پر۔
    جیسے ہی نائن الیون کا واقعہ ہوا صدر بش نے خبر ملتے ہی فورا “سی آئی اے“ چیف کو بلایا اور حکم دیا کہ افغانستان میں حملے کی تیاری کرو۔اگر آپ “سی آئی اے“ کی اس وقت کی سالانہ رپورٹ والی دستاویز حاصل کر سکیں تو سب کچھ آپ پر منعکشف ہو جائے گا(حالانکہ ابھی تک کوئی یہ نہیں جانتا تھا یہ حملہ کس نے کروایا)۔اور آج تک اس حملے کا کوئی ثبوت القاعدہ کے خلاف نہیں جا سکا۔جن لوگوں کو پکڑا گیا ان کو تشدد سے جو مرضی اگلوایا جا سکتاہے۔ آپ نے کہا پاکستان کے ذریعے طالبان سے کہا گیا کہ وہ اسامہ کو امریکہ کے حوالے کر دیں اور انہوں نے نہیں کیا۔ آپ کو پتہ ہے اصل بات کیا تھی؟ چلیں میں بتاتا ہوں
    میں اس وقت طالبان کی اعلی قیادت سے بذاتِ خود ملا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ اسامہ اس حملے میں ملوث نہیں اور وہ اس کی گارینٹی بھی دینے کو تیار تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ حملے جس نے بھی کیے یہ ان کا انفرادی فعل ہے۔اورکسی کے جرم کے بدلے ہم اپنے مہمان کو کسی کے حوالے نہیں کر سکتے۔ دوسری بات یہ کہ امریکہ نے ہمیں کوئی ایسا ثبوت نہیں دیا کہ ہمیں یقین ہو کہ یہ اسامہ نے کیا ہے تو ہمارا مذہب اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ بنا ثبوت کے ہم اپنے مہمان کو دوسروں کے حوالے کر دیں۔یہ تو تھا طالبان کا موقف ۔ اس وقت اسامہ بن لادن نے بھی ان حملوں کی سختی سے تردید کی تھی اور کہا تھا کہ جو ٹیپ چلائی گئی وہ میری نہیں ہے۔آپ شاید یہ سب اس لیے نہ مانیں کہ یہ ملزموں کا موقف تھا۔آئیے میں کچھ دوسرے ثبوت دیتا ہوں۔
    اس وقت کے روسی صدر پیوٹن نے اپنی خفیہ ایجنسی “کے جی بی“ کے ذرائع سے دعوی کیا تھا کہ نائن الیون کا یہ حملہ امریکہ کا اپنا ڈیزائن کیا ہوا ہے۔ کیا کسی بڑے ملک کا صدر بنا کسی ثبوت کے ایسی بات کر سکتا ہے؟ اور صدر پیوٹن کے اس بیان پر امریکہ کا فوری ردِ عمل یہ تھا کہ اس نے اپنے سرد جنگ کے دشمن کی جانب فورا اپنے سفارتی مشن بھیجنے شروع کر دئیے۔
    اس کے علاوہ امریکہ ہی میں بہت سے سکیورٹی ماہرین نے ان حملوں پر انتہائی حیرت کا اظہار کیا تھا اور اس بارے میں دی گئی رائے میں دبے لفظوں یہ اعتراف کیا گیا تھا کہ امریکہ کی مرضی کے بغیر اتنے بڑے پیمانے پر حملہ ہو ہی نہیں سکتا۔
    دوسری جانب“سی آئی اے“ کی 2001 کی دستاویز میں یہ بات درج ہے کہ “سی آئی اے“ کو نائن الیون کے چند گھنٹوں بعد کہ ابھی پتہ بھی نہیں تھا کہ یہ کون لوگ ہیں۔ یہ حکم دیا گیا کہ افغانستان پر حملے کی تیاری کرو اور“سی آئی اے“ نے فورا حملے کی تیاری کر لی اور افغانستان میں موجود اپنے ایجنٹوں کو فورا الرٹ کر دیا جبکہ“سی آئی اے“ کی اس وقت افغانستان میں پوزیشن یہ تھی کہ اگر وہ چاہتے تو اتنا لمبا چوڑا حملہ کرنے سے پہلے ہی اسامہ بن لادن اور القاعدہ کی اعلی قیادت کو اٹھا سکتے تھے وہ صرف کلئیرنس ملنے کا انتطار کرتی رہی۔ جبکہ بش نے حملے کے فورا بعد جو بیان دیا اس کے مطابق“صلیبی جنگوں کا آغاز ہو چکا ہے“۔ اور امریکی فوج کو حکم دیا کہ افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔
    آپ نے کہا افغانستان میں زیادہ تباہی نہیں ہوئی۔ آپ نے امریکہ میں بیٹھ کرجو دستاویز پڑھیں ان کے مطابق آپ درست کہ رہے ہیں۔جبکہ حقیقت اس کے بلکل بر خلاف ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کئی کئی گاؤں صفحہ ہستی سے مٹا دئیے گئے۔میں 2008 کے شروع میں افغانستان گیا تو میں کئی مکانات سے سفید فاسفورس کی بو اس وقت بھی سونگھ سکتا تھا۔ جو انسانی ہڈیوں تک کو گلا کر پانی کر دیتی ہے۔ مجھے وہاں موجود ایک شخص نے صوبہ خوست میں ایک گاؤں کے بارے میں بتایا کہ اس گاؤں میں تقریبا 400 کے لگ بھگ افراد تھے امریکہ کی ایک دن کی کارپٹ بمباری سے ہم نے یہاں سے صرف 8 افراد کو زندہ بچایا وہ بھی شدید زخمی حالت میں تھے۔کیا یہ طالبان مارے گئے؟
    آپ نے عراق کی بات کی کہ وہاں کے عوام خوش ہیں۔ یہ بھی آپ کے دعوے کو کھوکھلا کرتی ہے۔ آپ خوب جانتے ہیں عراق میں مرنے والے امریکی فوجیوں کی تعداد افغانستان سے زیادہ ہے۔ عراق میں امریکہ نے ایک پرائیویٹ کلر تنظیم بلیک واٹر سے جتنا قتل وغارت کروایا اگر کوئی دیکھ لے تو سوائے لعن طعن کرنے کے کچھ نہ کرے۔ بلیک واٹر کے بارے میں ایک عراقی علی حسن جو بغداد کے نواح کا رہائشی تھا کا بیان کچھ یوں تھا“میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ کالی وردیوں میں ملبوس آئے ان کے لباس پر صیہونی نشان بنا ہوا تھا۔ انہوں نے گاؤں کے تقریبا 25 افراد جن میں خواتین بھی شامل تھیں کو تلاشی کے لیے نکالا اور سٹرک پر کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیا“۔اس کے بعد یہ شخص امریکہ سے اتنا خوش ہوا کہ اس نے 2005 میں مقتدی الصدر کی تنظیم کے ملٹری ونگ میں شمولیت اختیار کر لی اور امریکی فوج سے کئی معرکے لڑے۔ 2006 کے وسط میں امریکی فوج کے ساتھ ایک جھڑپ میں دائیں ٹانگ گنوا بیٹھا۔ مگر امریکہ سے اتنا خوش تھا کہ ٹانگ کھونے کے بعد صحت یاب ہو کر پھر میدان میں اتر آیا اور نومبر 2008 میں امریکی فوج کے ساتھ ایک جھڑپ میں شہید ہو گیا۔یہ تو تھا ایک واقعہ اس طرح کے کتنے ہی واقعات پیش آئے جنہیں میں لکھوں گا نہیں کیونکہ فلحال اتنا ہی کافی ہے۔ جبکہ انسانی حقوق کی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق امریکہ نے عراق میں کلسٹر بموں اور چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں کا بھی بے دریغ استعمال کیا۔ آپ نے کہا عراقی عوام خوش ہیں تو اس ضمن میں منتظر زیدی کا بش کو پڑنے والا جوتا آپ کی اس دلیل پر بھی پڑتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
    عراق پر حملے کی دو بڑی وجوہات تھیں۔پہلی تو یہ کہ اس نام نہاد دہشتگردی کی جنگ میں جتنا تیل خرچ ہو وہ مفت میں مل جائے تاکہ معیشت پر زیادہ بوجھ نہ پڑے۔ اور دوسرا یہ کہ ایران کو بھی پریشر میں رکھا جا سکے کیونکہ امریکہ جانتا ہے کہ ایران پر حملہ کرنے سے وہ آبنائے ہرمز کو بند کر دے گا۔یوں امریکہ اس جنگ میں شدید مشکلات کا شکار ہو جائے گا۔جبکہ عراق میں قبضے کی صورت میں ایران پر دباؤ ڈالا جا سکتا ہے کہ اگر اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی باتیں بند نہ کیں اور ایٹمی طاقت کا حصول نہ روکا تو سمندر اور خشکی سے حملہ کر کے تباہ کر دیا جائے گا۔ لیکن امریکہ دہشت گردی کی اس جنگ میں ایسا پھنسا کہ مزید کسی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا اس لیے امریکہ کو ایران کے معاملے پر دانت چبانے پڑے۔
    رہی بات پاکستان کی اس جنگ میں شمولیت تو اس سلسلے میں پہلے روس سے اس کی سر زمین مانگی گئی تھی اس کے انکار کے بعدپاکستان کو مجبور کیا گیا۔ امریکہ کے کئی کمانڈوز افغانستان میں تیار بیٹھے ہیں کہ کس وقت انہیں حکم ملے اور وہ پاکستان کے ایٹمی ہتھاروں پر قبضہ کر لیں۔ مگر ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس آپریشن کو اگر وہ چند منٹو ں میں انجام دے سکیں تو ٹھیک ورنہ سارا پلان فیل ہو جائے گا۔ اور پاکستانی ایٹمی ہتھیار ایک جگہ نہیں کہ ان پر اتنی جلدی قبضہ کرلیا جائے۔ کئی جگہوں پر بیک وقت آپریشن کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے فیصلہ یہ ہوا کہ پاکستان کو متزلزل کر کے ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ افراتفری میں پاکستان کی فوکس ایٹمی ہتھیاروں سے ہٹ جائے۔ اور یہ سارا ڈرامہ جو پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی خاطر کھیلا گیا اس کا ڈراپ سین کر دیا جائے۔ اس سلسلے میں امریکی“سی‌آئی اے“ “موساد“ “را“برطانیہ کی “ایم ائی فائیو“ اور “ایم ائی سکس“ افغانستان کی کٹھ پلی حکومت کی خفیہ ایجنسی“خاد“دوسری جانب روس کی“کے جی بی“ بھی اپنا بدلا لینے کے لیے سرگرم ہے(نوٹ:۔خفیہ ایجنسیوں کے بارے میں مزید جاننے کے لیے القلم پر میرا آرٹیکل“خفیہ ایجنسیاں اور عالمی سیاستhttp://alqlm.org/forum/showthread.php?t=3414“ پڑھ لیں)۔مگر مسئلہ یہ تھا کہ پاکستان میں اس طرح انتشار ممکن نہیں تھا۔ کیونکہ“آئی ایس آئی“ بڑے بہترین انداز میں ان سب کا توڑ کر رہی تھی۔ چنانچہ پاکستان میں طالبان میں کچھ عناصر کو شامل کیا گیا۔ اور انہیں اسلحہ اور روپیہ پیسا دیا گیا۔جیسے ہی ان کے پاس یہ سب کچھ آیا انہوں نے پاکستان میں دھماکے شرع کر دئیے۔ 2007 تک پاکستان میں خودکش حملے اور دھماکے نہ ہونے کے برابر تھے۔جبکہ اس کے بعد دھماکوں کا سلسلہ شروع کروایا گیا اور پاکستان کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنی افواج قبائلی علاقوں میں بھیجے۔ اس طرح دو فائدے تھے ایک تو آپریشن کے ذریعے طالبان کو زیادہ سے زیادہ حمایت دلوانا تاکہ لوگ ہمدردی میں ان کے ساتھ ہو جائیں۔اور امریکہ طالبان کے خلاف دہشت گردی کی جنگ کو طول دے کر زیادہ سے زیادہ خطے میں موجود رہنے کا جواز پیدا کر سکے۔دوسرا پاک فوج کو کمزور کرنا۔ ایک جانب تو یہ کھیل ہوتا رہا دوسری جانب ڈرون حملوں کے ذریعے ان طالبان لیڈروں کو نشانہ بنایا گیا جو پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ اور طالبان کو پاک فوج سے لڑنے سے روکتے تھے۔ یوں پاکستان میں ایک لا متناہی دھماکوں اور فوج کے ساتھ لڑائی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ لیکن یہاں بھی امریکہ کو کافی حد تک پسپائی ہوئی کیونکہ “آئی ایس آئی“ نے اپنی حکمت عملی کے ذریعے حالات کو انتہائی بگاڑ کی جانب نہیں بڑھنے دیا۔ چنانچہ اب یہ پالیسی بنائی گئی کہ پاکستان کے بندو بستی علاقوں میں ڈرون حملے کر کے انتشار پیدا کیا جائے۔یہاں میں آپ کی موجودہ اوبامہ انتظامیہ کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کی الیکشن مہم کے دوران ایک کہی گئی ایک بات کا ذکر کروں گا۔کہ“امریکی فوجیوں کو پاکستان میں داخل ہونے کا حق حاصل ہے اور جس قدر جلد ممکن ہو سکے امریکہ کو پاکستانی حکومت سے اس سلسلے میں باقاعدہ ایک معاہدہ کر لینا چاہیے“۔ایسا ہی کچھ موقف اوبامہ، سینٹر جان ایڈورڈ اور بل رچرڈسن کا تھا۔
    آپ نے کہا کہ امریکہ پاکستان کی جمہوری حکومت کو غیر مستحکم نہیں کرنا چاہتا۔تو یہ بھی بلکل غلط ہے۔ پاکستان میں 18 فروری کے الیکشن کے نتیجے میں جو لولی لنگڑی جمہوریت آئی۔ امریکہ اب تک اس کوشش میں ہے کہ اس پر ڈو مور کا دباؤ ڈال کر مسلسل غیر مستحکم کرتا رہے تاکہ عوام کا اعتماد بحال نہ ہو سکے اور حکومت کو چلنے کے لیے امریکی سہارے کی ضرورت رہے۔ اور امریکہ اپنے مفادات حاصل کر سکے۔پاکستان کے حوالے سے امریکی اسٹیبلشمنٹ کے کیا منصوبے ہیں۔ آئیں میں آپ کو امریکہ کے ایک ملٹری اسکالر لیفٹنینٹ کرنل رالف پیٹرز کا مزے دار بیان دکھاتا ہوں۔“پاکستان کے ٹکڑے کیے جائیں تاکہ ایک علیحدہ ملک بنایا جا سکے“گریٹر بلوچستان“ یا “ فری بلوچستان“ اور اس میں پھر پاکستانی اور ایرانی بلوچ صوبوں کو ملا کر ایک کر دیا جائے اور سرحد کو افغانستان سے ملا دیا جائے کیونکہ وہ ہم زبان ہیں“۔
    یہ ہے امریکہ کی اصل خارجہ پالیسی اس عمل سے پاکستان آدھا رہ جائے گا اور پاکستان کو بیشتر “کوسٹ لائن“ سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔
    کیا یہ پاکستان کی حکومت اور پاکستان سمیت پورے خطے کو غیر مستحکم کرنے کی ایک منظم سازش نہیں؟
    آپ نے کہا کہ پاکستان کو امداد دی گئی۔ تو محترم امریکہ نے جتنی امداد دی اس سے 3 گنا زیادہ پاکستان اپنے پاس سے خرچہ کر چکا ہے۔ امریکہ نے جتنے ڈالر دئیے ان میں سے آدھے ایف 16 کی اپ گریڈیشن کے لیے واپس لے لیے۔ اور باقی آدھے سے پاک فوج نے نیا اسلحہ خریدا اور کچھ دفاعی ریسرچ پر خرچ کیا۔ جو بچ گیا اس سے “ آئی ایس آئی “ کو اپ گریڈ کیا گیا تاکہ وہ پاکستانی مفادات کا تحفظ بہترین طریقے سے کر سکے۔ اس کے بعد پاکستان کی امداد تو دور کی بات پاکستان کے امریکہ کی جانب واجب الادا خرچے بھی مہیا نہیں کیے گئے اور پاکستان کو اپنی معیشت تباہ کر کے دوسروں سے مانگنے پر مجبور ہونا پڑا۔
    پاک فوج نے جتنی قربانیاں دیں اتنی امریکہ اور نیٹو نے مل کر نہیں دیں۔ پاک فوج نے جتنے خطرناک دہشت گرد مارے یا پکڑے امریکہ اور نیٹو نے مل کر نہیں مارے یا پکڑے۔ پھر بھی تنقید پاک فوج اور “آئی ایس آئی “پر ہوئی۔کیا یہ‌ صلہ ملا پاکستان کو اس امریکہ کی جنگ کا؟
    امریکہ کو مزید حملوں سے بچانے کے لیے میرے ملک کی عوام کے خون سے دفاعی دیوار بنائی گئی۔ورنہ پاکستان کے پاس اس جنگ سے بچنے کے کئی حل موجود تھے۔ ہم ان عناصر سے مختلف معاہدے کر کے اپنے لوگوں کا قیمتی خون بچا سکتے تھے۔ کیا امریکی آسمان سے اترے ہیں اور پاکستانی زمین سے اگے ہیں؟ کیا امریکہ کے عوام پاکستانی عوام سے زیادہ قیمتی ہیں؟ ہرگز نہیں میری نظر میں اگر امریکی 100 بھی ہوں تو ایک پاکستانی کی جان سے زیادہ قیمتی نہیں۔ اس لحاظ سے امریکہ کو پاکستان کا ہمیشہ کے لیے مرہونِ منت ہونا چاہیے مگر اس نے بے وفائی کی حد کر دی۔ کہ الٹا ہمیں ہی ڈو مور کا طعنہ دیتا نظر آتا ہے۔
    امریکہ میں ایک دانشور حلقہ ہے جو اس حقیقت کو جانتا ہے اسی لیے ان کا لہجہ سخت ہوتا ہے۔ جبکہ اسٹیبلشمنٹ ان سب کو دبا کر صرف اپنی پالیسی مسلط کرتی ہے۔اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا پر یہودیوں کا قبضہ ہے اور نائن الیون یہودی ڈرامے کا ایک سین جو اب جلد فلاپ ہونے والا ہے۔
    بش جاتے ہوئے معافی مانگ کر گیا۔ تو کیا اسے معافی مانگنے کا جنون سوار تھا یا واقعی اس نے غلطی کی؟

    امریکہ ایک سپر پاور ہے جو پاک فوج جیسی پروفیشنل فوج کی فون کالز ٹیپ کر سکتا ہے(بات تو ہنسی والی ہے لیکن امریکہ بہادر کہتا ہے تو مان لیتے ہیں۔ انہوں نے تو پاک فوج کو گلی محلوں میں گلی ڈنڈا کھیلنے والی یا کبڈی کی ایک ٹیم سمجھ لیاہے۔ جبکہ پاک فوج ایسا ادارہ ہے جس کا کمیونیکیشن سسٹم کوئی بھی ٹیپ نہیں کر سکتا۔ کیونکہ یہ کمیونیکیشن سسٹم امریکہ سے یا کسی اور سے نہیں خریدا کہ وہ اس سسٹم کے اسرار و رموز سے واقف ہوں۔یہ مکمل ملکی سطح کا سسٹم ہے جسے پاک فوج ہی آپریٹ کر سکتی ہے)۔تو کیا وہ اسامہ یا ملا عمر کو ٹیپ نہیں کر سکتے؟ اسامہ کی اور ایمن الظواہری کی وڈیو تو منظر عام پر آ جاتی ہے۔ لیکن آتی کہاں سے ہے یہ انہیں پتہ نہیں چلتا۔ عجیب بات ہے اگر امریکہ کو اس ڈرامے کا اینڈ کرنا ہوتا تو وہ 2001 میں ہی اسامہ کو بھاگنے نہ دیتا۔

    فواد جی آپ نے بہت لمبی تفصیل لکھی اور میں نے اتنی سی باتوں میں آپ کی سب باتوں کے جواب لکھ دئیے۔ آپ میں اور میری باتوں میں فرق یہ ہے کہ آپ نے کاغذ پڑھے ہیں۔ میں ان سب حقیقتوں کا عینی شاہد ہوں۔ آپ ڈیپارٹمنٹل تھیوری بیان کر رہے ہیں۔ میں اندرونِ خانہ اصل حقیقت کی جانب اشارہ کر رہا ہوں۔
    امید ہے آپ اس سب کو گہری نظر سے دیکھیں گے اور امریکی حلقوں میں یہ باز گشت پہنچائیں گے۔ کہ اب اس نام نہاد جنگ کا خاتمہ کرنے کی جانب قدم بڑھاؤ مزید فوج بھیج کر امریکہ کو خاتمے کی جانب مت لے جاؤ۔
    اصل میں یہ جنگ “گریٹراسرائیل“ یا امریکی زبان میں “نیو ورلڈ آرڈر“ کی جنگ ہے۔ اور یہ بات تسلیم کرنا ہی ہو گی اور امریکہ نے اپنی غلطیوں سے اگر اب بھی نہ سیکھا تو واقعی “نیو ورلڈ آرڈر“ آئے گا مگر امریکہ کے ٹوٹنے اور “گریٹر اسرائیل“ کے خاتمے کی صورت میں۔یاد رہے روس جب افغانستان میں 1979 میں آیا تھا تب “یو ایس ایس آر“ تھا اور جب 1991 میں نکلا تو صرف ایک“رشئین فیڈریشن“ تھا۔
    امریکہ کے موجودہ حالات اور روس کے اس وقت کے حالات کا موازنہ کریں تو زیادہ ڈفرنس نظر نہیں آتا۔ادھر امریکہ مزید فوج بھیجے گا ادھر طالبان اس تاک میں بیٹھے ہیں کہ کب وہ امریکہ کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچائیں۔
     
  16. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    بہت خوب علی عمران بھائی ۔
    آپ نے بہت گہرائی سے حقائق پیش کیے ہیں۔
     
  17. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    علی عمران بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دلائل سے پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور حقیقتوں کی مالا سے آراستہ یہ دستاویزی جواب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ صرف بانگ دہل سچائی کی طرف واضح اشارہ ہے بلکہ اگر آنکھوں‌سے ۔۔۔۔میں‌نہ مانوں۔۔۔کی پٹی کوئی اتار کے پڑھے ۔۔۔۔۔۔۔۔تو سبق آموز بھی ہے۔۔ آپ کے جواب نے دل خوش کردیا اور امید کہ اپنے زور قلم سے سچ کا سر اسی طرح اونچا رکھیں گے۔ :dilphool:
     
  18. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    علی عمران بھائ :dilphool:
     
  19. بےمثال
    آف لائن

    بےمثال ممبر

    ماشاءاللہ علی عمران بھائی،حق ادا کر دیا۔ماشاءاللہ :dilphool:
     
  20. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    بہت خوب علی عمران جی ، کیا سچ فرمایا ہے :a180: :dilphool:
     
  21. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    وزیرستان کے بعد بلوچستان پربھی امریکن حملے کی تجاویز اور پلاننگ

    ٰیہ بھی کتنا عجیب اتفاق ہے کہ امریکا جو بظاہر تو ہمارا(پاکستان ) کابڑاہمدرد اور خیر خواہ بنا پھرتا ہے مگر درحقیقت وہ اندر سے ایسا نہیں ہے کہ جیسا وہ نظر آتا ہے اس کی نظر میں ہماری بقا وسلامتی اور خودمختاری کوئی حیثیت نہیں رکھتی اس کے سامنے صرف اس کی بقا وسا لمیت اور خودمختاری ہی مقدم ہے اس لحاظ سے وہ ہمیںزمین پر رینگنے والے اس ننھے کیڑے سے بھی کہیں کم سمجھتاہے جوزمین پر رات دن اپنی خوارک اور اپنے حصول کے خاطررینگتا رہتا ہے اور پھر یہ کسی پاو ں تلے آکرکچلاجاتا ہے کیوں کہ اس کی قسمت میں ہی یہ ہوتاہے اوراس کی حیثیت ہی انتی ہوتی ہے ۔

    بہر کیف! یہ سوچنے اور غور کرنے کا مقام ہے ہم سب کے لئے کہ ہم یہ غور کریں کے ہمارے ساتھ امریکا کتنا مخلص ہے اور ہم نے اس کے ساتھ کیا کیا؟ اور وہ ہمارے ساتھ کیا کررہاہے ؟بہرحال! یہ کوئی معمولی خبر نہیں ہے کہ اسے پڑھ کرایک طرف کردیاجائے کہ اوہ! یہ بھی کوئی خبر ہے اور اسے ایک کان سے سن کر دوسرے سے یوں نکال دیا جائے کہ جیسے کچھ سناہی نہیں۔

    مگر درحقیقت یہ وہ اہم ترین خبرہے جس پر ابھی سے حکومت پاکستان کی جانب سے سنجیدگی سے کام نہ کیا گیا تو یہ ہی اپنی مفاد میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اچھا بہانا بنا کر افغانستان کے راستے وزیرستان پر ڈرون حملے کرنے والا امریکا اور اس کے حواری (نیٹوافواج) اب بلوچستان پر بھی ڈرون حملے شروع کردیں گے جس کے بعد ملک میں پیدا ہونے والا سیاسی بحران ایک بار پھر سنگین صورت اختیار کرجائے گا اور ہم یوں پے درپے بحرانوں میں پھنستے چلے جائیں گے ۔

    میرا مطلب یہ ہے کہ ایک امریکی کثیرالاشاعت اخبار نیویارک ٹائمز نے گزشتہ دنوں اپنے یہاںایک خبر کچھ اس طرح سے شائع کی ہے کہ ” امریکی صدربارک اوباما اور ان کے قومی سلامتی کے مشیر طالبان کی سرگرمیوں کے باعث ڈرون حملوں کا سلسلہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کے بعد اب بلوچستان تک وسیع کرنے پر غورکررہے ہیں یہاں افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ وہی امریکی صدربارک اوباماہیں جن کی کامیابی پر پاکستان کی ساڑھے سولہ کروڑ عوام نے بھی خوشیاں منائی تھیں اور خدا کا شکراداکیا تھا کہ اب پاکستان سے متعلق امریکی انتظامیہ کی سوچ تبدیل ہوگی اور پاکستان میں دور بش میں شروع کئے گئے اندھے ڈرون حملوں کا سلسلہ بھی بند ہوجائے گا اور ان کے بند ہونے سے پاکستان اور امریکا کے درمیان اسلام اور مسلمان دشمن امریکی پالیسیوں میں بھی نمایاں کمی آئیگی ۔

    مگر یہ کیاہوا ؟ یہ سب تو بلکل الٹا ہوگیا بارک اوباما(میں پہلے نئے امریکی صدر بارک اوباما کو بارک حسین اوباما تحریر کیاکرتا تھا یہ سوچ کر کے شاید ان کے دل میں حسین کی لاج رہتے ہوئے امت مسلمہ بشمول پاکستان سے ہمدردی ہومگر یہ تو )مسلمانوں اور پاکستانیوںسے دشمنی میں جوتے کھانے والے سابق فاسق وفاجرامریکی صدربش سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے ہیں اس کا اندازہ آپ اس بھی لگاسکتے ہیں کہ نیویارک ٹائمز نے اپنی اس خبر میں آگے چل کر اوباما انتظامیہ کے اعلی اہلکاروں کے حوالے سے دعوی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ”افغانستان اور پاکستان کے بارے میں دواعلی سطحی رپورٹس اس ہفتے وائٹ ہاو ¿س کو بھیجی گئی ہیں اور ان رپورٹس میں اس تجویز کو یقینی بنانے پر زور دیاگیا ہے کہ ڈرون طیاروںکے حملوںکا دائرہ وسیع کیاجائے اور ساتھ ہی ان رپورٹس اور تجاویز میں ان علاقوں کی بھی واضح طور پر نشاندہی کی گئی ہے۔

    کہ بلوچستان کے کوئٹہ شہر کے آس پاس کے علاقوںمیں طالبان کی اعلی قیادت کی مبینہ محفوظ پناہ گاہیں ان مقامات کو ڈرون حملوں سے فی الفور نشانہ بنایاجائے اور ساتھ ہی اخبار یہ بھی لکھتا ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسیوں کے بعض اہلکار اس با ت کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ملاعمر اور ان کے ساتھیوں کی سرگرمیاں گوئٹہ کے اردگرد کے علاقوں میں بہت بڑہ گئی ہیں اس پر حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ وائٹ ہاﺅس کے ذرائع نے بھی اپنی خفیہ ایجنسیوں کے تجاویز پر آنکھ بند کرکے یقین کرتے ہوئے یہ کہہ کر کام شروع کرنے کا عندیہ دے دیا ہے کہ مستقبل میں امریکیوں کے لئے بلوچستان بھی خطرناک صورت حال پیداکرسکتا ہے اور اس حوالے سے امریکا کے پاس کئی آپشنز ہیں جن میں بلوچستان میں طالبان کی سرگرمیوں کے حوالے سے جاسوس طیاروں کے حملے بھی شامل ہیں ۔

    ہاںالبتہ!اخبار یہ بھی لکھتا ہے کہ موجودہ امریکی انتظامیہ اور ان کے خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار اس بات پر متفق ہیں کہ بلوچستان پر ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع کرنے سے پہلے پاکستان اور افغانستان سے متعلق امریکی پالیسی پر بھی نظر ثانی کی جائے گی یہاں میں امریکی نظرثانی اور پالیسی کے حوالے سے کہی گئی بات پر قطعا متفق نہیں ہوں کیوں کہ؟ امریکا کی یہ فطرت ہے کہ وہ جو بھی کام کرتا ہے پہلے اس پر نظرثانی کرتا ہے پھر کوئی بات لیک کرتا ہے اس پر آپ یہ یقین کرلیں کہ اب وزیرستان کے بعد امریکا کا اگلا ہدف بلوچستان ہے اور امریکا یہاں بھی اپنے ڈرون حملوں سے وہ ہی تباہی مچا ئے گا جواس نے وزیر ستان میںمچائی ہے جس سے اس نے ہزاروں نہتے اور معصوم انسانوں کوموت کی وادی میں دھکیل دیاہے۔

    اس ساری خبر پر انتہائی مضحکہ خیز بات یہ بھی ہے کہ جو ایک فرانسیسی خبررساں ایجنسی نے اپنے یہاں اس حوالے خبر دی ہے کہ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے امریکی اخبار میں شائع ہونے والی اس خبر کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے رپورٹ دیکھی ہے یہ قیاس آرائی ہے اور قیاس آرائی پر تبصرہ نہیں کیا جاسکتا اور ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہنا ہے کہ ڈرون حملوں پر پاکستان کی پالیسی واضح ہے کہ یہ حملے نقصان دہ ہیں بس انہوں نے اتنا ہی کہ اپنا فرض ادا کردیا ہے اور خاموش ہوگئے جبکہ اس صورت حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکیوں کی اس رپورٹ کا حکومت پاکستان کوسنجیدگی سے سیاسی اور خارجہ پالیسی کے تحت جواب دیتی جبکہ اس امریکی اخبار میں شائع ہونے والی اس خبر پر یوں قیاس آرائی کا خود سے لیبل چسباں کر کے حکومت پاکستان کو ٹالنا نہیں چاہئے تھا اور امریکیوں کے اس عندیئے کا ایسا منہ توڑ جواب دیا جاتا کہ ان پر تھرتھری طاری ہوجاتی مگر ہائے رے!افسوس کہ ہم نے اس امریکی منصوبہ بندی کو اس انداز سے نہیں لیا جس انداز سے ہمیں لینا چاہئے تھا بہرحال! اب یہ بھی دیکھئے کہ امریکا اب کب اپنی اس منصوبہ بندی پر عمل کرتے ہوئے بلوچستان پر ڈرون حملے کرتاہے اور ہم جب حسب معمول کف افسوس کے ہاتھ ملتے اور بے جان احتجاجوں اور مظاہروں کے سواکچھ نہیں کرپائیں گے
     
  22. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    السلام علیکم۔ بےباک بھائی ۔
    آپ نے بھی علی عمران بھائی کی طرح اہم موضوع پر قلم اٹھا کر تفصیلات درج کرنے کا حق ادا کردیا۔
    بلاشبہ ہر محب وطن پاکستانی ان سارے منصوبہ جات اور اقدامات سے تشویش زدہ ہے۔ ماسوائے حکمرانوں اور امریکی استعمار کا دم بھرنے والے غلام زدہ ذہنیت کے حامل لوگوں کے۔

    اللہ تعالی آپکی کوششوں میں برکت دے اور ہم سب کو متحد ہوکر وطنِ عزیز کی ترقی و استحکام میں اپنا مثبت ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
     
  23. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    بے باک بھائی خوب لکھا اور کیوں خوب نہ ہو کہ سچ تو سچ ہے :dilphool:
     
  24. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    [​IMG]

    یہ ایک جنگی بحری بیڑا (جہاز ) کی فوٹو ہے، اس پر لکھی ہوئی تحریر فواد صاحب اور اپنے ساتھیوں کو دکھانے کے لئے ہے کہ کون سی جنگ لڑی جا رہی ہے ،اور کس جذبہ سے لڑی جا رہی ہے ، جہاں پر کئی شادی کے پرگراموں میں دولہا اور دلہن سمیت سب بندے القاعدہ کے دھشت گرد قرار دے کر بمباری سے قتل کر دیے گئے تھے ، یہ امت مسلمہ کی کمزوری ہے ،کاش ہم ایسا ہی جواب امریکا کو دے سکتے ،انشاءاللہ وہ وقت دور نہیں ، جس محبت کا ثبوت امریکا دے رہا ہے ،اتنی ہی محبت کا امریکا بھی مستحق ہے ،
     
  25. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    اپنے بوئے ہوئے کو ہر کوئی کاٹتا ہے چاہے وہ روس ہو یا آمریکہ۔۔۔۔ :soch:
     
  26. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    فواد صاحب اور باقی سب ساتھی یہ لنک دیکھیں ، فواد صاحب نے سرکاری نقطہ نظر بیان فرمایا ہے ، جس طرح جھوٹ اور مکاری سے امریکا کے سابق صدر نے پوری دنیا کو بےوقوف بنایا اسی طرح امریکن اداروں کو بھی اپنی کامیابیوں اور اپنے کارناموں سے مزین رکھا، دوغلی پالیسی کے ہزاروں مثالیں موجود ہیں ،جب ضرورت ہو گی آپ کو ان سب باتوں کا ثبوت دیا جائے گا،
    مختصرا ایک سابق وزیر دفاع کی تقریر سے اقتباس پیش کروں گا : رمسفیلڈ نے عراق کے ساتھ جنگ شروع ھونے سے پہلے سعودی عرب میں امریکن فوجیوں کے اجتماع میں امریکا کے اس جنگ کے جائز ہونے کی وجہ جو بتائی وہ یوں تھی ۔
    اس کا اردو ترجمہ یوں ہے ، """ ہم یہاں کسی ملک ،یا کسی حکومت اور یا کسی بادشاہ کو بچانے کے لیے ہرگز نہیں آئے ، ہم ایک لمبی جنگ لڑنے کے لیے آئے ہیں جو دشوار ہو گی ،اور اس میں آپ کو قربانیاں دینی ہوں گی اور یہ قربانیاں آپ صرف اور صرف امریکہ کے مفادات کے لیے دے رہے ہیں ،اور ایک ہی نقطہ ذہن میں رکھیے کہ ہمارے قومی مفادات اس جنگ سے جڑے ہیں اور آپ ایک بے معنی جنگ لڑنے نہیں آئے، مت سوچیے کہ ہم کسی ملک کی حکومت بچانے آئے ہیں ،"

    اس میں کہیں ذکر نہیں کہ وہ عراق میں "القاعدہ یا ویپن آف ماس ڈسٹرکشن" کے حوالے سے جنگ کرنے آئے ہیں ،
    امریکی فوج کے ہاتھوں عراق میں ہسپتال ، میڈیکل سینٹر اور انفراسٹرکچر کی تباہی

    یورینیم کا بے تحاشا استعمال اور اس کی فائل فوٹو
    یہ رپورٹ ڈاکٹر جواد خادم العلی کی رپورٹ ہے ، کاش آپ غور سے پڑھیں :

    [align=left:392iual4]EFFECTS OF WARS AND THE USE OF DEPLETED URANIUM ON IRAQ

    By Dr. Jawad Al-Ali
    Director of the Oncology Center
    Basrah, Iraq
    Japan Peace Conference
    Naha, Okinawa
    January 29 - February 1, 2004

    During the last 50 years, Iraq passed through many wars. The more destructive one is the 1991 war (gulf war 2). In this war the infrastructure of Iraq has been destroyed completely. The war targeted the military as well as the civilian targets. The factories, government buildings, bridges, and hospitals were destroyed. During this war and for the first time in the history the allied forces used Depleted uranium containing weapons extensively at the west parts of Basrah City (more than 300 tons were delivered at that area). The estimated delivery of depleted uranium all over Iraq was 800 tons. This Depleted uranium led to the increased levels of radiation in the battlefield and the nearby cities and countries. The levels of radiation in the area, measured by the department of environmental engineering (college of engineering, university of Baghdad ) reached hundreds to thousands times the normal background levels in the Iraqi soil which is 70 Bq/kg of soil. This radiation and other factors like chemicals and poor nutrition caused many diseases (cancers, congenital malformation in children, kidney diseases and infections?etc.), then the economic sanction is added to increase the suffering of the Iraqis.

    We were lacking food and medicines. The death rate among children is increased because of poor nutrition and infections (more than 5 millions of children died within the last 12 years). Although the Iraqi government accepted the memorandum of understanding (oil for food and medicines), the committee 661 of the Security Council has crippled this memorandum in many ways. The committee delayed contracts, partially accepting contracts and sometimes delaying payments to the companies with which the contracts are signed.

    The Iraqi people were deprived from the recent advances in different sciences and technology. The newly issued journals and published books were not allowed to enter and to reach the Iraqi universities. We were pushed backward years behind the fast development of technology and we are now suffering the great lag of that period.

    The damaged factories, hospitals and bridges were reconstructed by the Iraqi people but still unable to provide our requirements. The electricity, the water supply, and the industries are not sufficient.

    In addition, our own government (Saddam regime) assaulted our people by low payments at work, which led to the low income of the families and poor financial capabilities specially for those who have simple jobs. This low financial income (2-5 dollars/month) led to the appearance and the increase in the low social classes of population and low educational levels. Children left their schools to work in order to increase their families' income and to maintain their lives. We could say all aspects of life have been affected by that war and it could be described as the most destructive war against Iraq. It was dirty war because of the use of weapons containing depleted uranium against military as well as civilian targets.

    The recent war (gulf war 3) in 2003 was a violation of the international law and against the will of the international community, which opposed this war. The reasons were unbelievable (the Iraqi weapons of mass destruction which till now have no evidence).

    During this war, again the depleted uranium was used extensively around the city of Baghdad, city of Babylon, city of Karbala, city of Najef and in the city of Basrah, which is still suffering the effects of the depleted uranium of the gulf war 2 (1991). According to a report from the Guardian newspaper 1000-2000 tons were delivered on 51 local areas in different Iraqi cities. I witnessed the A-10 planes for three days delivering the depleted uranium rounds against the tanks and armor vehicles near Basrah airport and at the southern parts of Basrah city. The estimated amount of this weapon of mass destruction is exceeding the amount used in gulf war 2 (1991).

    Again the infrastructure of our country is destroyed to greater extent. More buildings were destroyed, libraries and other government buildings were burned, the banks were robbed, and the occupation forces did not take any action to protect these buildings, the schools and hospitals from damage. Unknown people had stolen the Iraqi museum. All the Iraqi army forces were released and no more army to protect the Iraqi cities. In my opinion the aim of this war is the destruction of the Iraqi structure, its history and its role in the civilization of the world. Also to secure the oil of Iraq and Gulf States and to control all the energy sources of the world and not merely the weapons of mass destruction, which are not detected till this moment.

    The rate of crime is increased to a dangerous level. Many people were killed in the streets, at their homes and in their cars. Children and girls were kidnapped from their schools. Doctors were killed at their clinics. In spite of all these crimes the occupation forces did nothing to stop it. Till now we have no elected government, and we have weak police offices and no army to protect the people and their properties. The electricity is not available and no healthy drinking water supply. No security but we hope this situation will improve in the near future.

    The resistance against the occupation forces is increasing and stills active even after the capture of Saddam Hussein. This is mainly at the middle and northern parts of Iraq, while at the south the resistance is slight and nearly negligible. This is because the middle and northern parts are more loyal to Saddam regime than the southern regions. The aggressive behavior of the American soldiers worsens the situation in their occupied areas. The more calm British soldiers made the resistance less in the south. As revenge the Americans destroyed the houses and killed many Iraqi people blindly without differentiation between innocent people, terrorists and resistance militias. Thousands of people were captured and put in prisons. In my opinion the Iraqi people dislike occupation and will continue to fight until they extract their sovereignty and to have their own elected government, which represents all the parties and the different slices of community.

    The health consequences of these wars affected mainly the people in the south of Iraq. The rate of cancers is increased more than ten times (that is 12 years after the gulf war 2) the rate in 1988. The death rate from cancers increased 19 times the rate of death in 1988. The congenital malformations in newly had borne babies increased 7 time the rate in 1990. New and strange phenomenon of cancers appeared like clustering of cancer in families, the double and triple cancers in one person. The death rate among children is increased as a result of malnutrition and infections. Lack of medicines and medical equipment worsens the health situation.

    The causes of all these health problems are multifactorial. The most important factors are the radiation, the chemical, nutritional and infection.

    The victims are mainly the children who were affected by cancers, malnutrition and congenital malformations.

    The following pictures are the evidences of the effects of the wars and the use of depleted uranium in the gulf war 2(1991).

    We have many reasons to blame the radiation as a cause for all the health problems in the south of Iraq:

    * Significant increase in cancer rates after 1991.

    * Significant increase in death rate from cancers after 1991.

    * Increased rate of congenital malformations in children borne after 1991.

    * Cancer clustering in families is noticed only after 1991.

    * Double and triple cancers are seen only after 1991.

    * The only cancer-producing factor that is added to our environment after 1991 is the radiation factor.

    We need to confirm the cause (the radiation) by testing the soil for levels of radiation, confirming the uranium particles in the tissues and urine of patients, chromosomal analysis and cytogenetic studies of the affected people and patients. In that case we could confidently prove the causal relationship between the cancers, congenital malformations, other diseases and radiation due to depleted uranium. We are lacking the equipment for investigations and no body is allowed to find evidences and to prove that there was great crime committed by those who are supposed to protect the world.

    At the end of my talk I hope that every nation will fight for freedom and sovereignty, to strengthen the solidarity with other nations for the sake of peace and freedom. This conference is one of the means by which we build the good and solid relations between the different nations.

    I hope that the Iraqi people and other people elsewhere will live peacefully in a world free of nuclear weapons and weapons of mass destruction. No for occupation by strangers and yes for sovereignty and self-ruling of nations.

    Thank you

    Dr. Jawad Kadhim Al-Ali Basrah, Iraq[/align:392iual4]
    افغانستان کے بارے میں اگلے صفحات میں انشاءاللہ لکھوں گا
    :computer:
     
  27. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    گردو پیش : افغانستان کی آزادی یا بربادی :
    آصف جیلانی کا کالم ،بشکریہ روزنامہ اوصاف 20 نومبر 2008
    پچھلے دنوں لندن میں ایک افغان خاتون سے ملاقات ہوئی جن کا تعلق ترقی پسند افغان خواتین کی تنظیم '' روا'' سے رہا ہے۔ یہ تنظیم افغانستان میں طالبان کے استبدادی دور میں خواتین کے حقوق کے لئے سرگرم عمل رہی ہے۔ ''روا'' کی یہ خاتون اس دور میں ملک کے مختلف علاقوں میں خفیہ دورے کر کے لڑکیوں کی تعلیم کا انتظام کرتی تھیں اور افغان خواتین پر ہونے والے مظالم کو بے نقاب کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس زمانہ میں جب ''روا'' طالبان کے استبداد کے خلاف سر گرم عمل تھی تو صدر کلنٹن کی انتظامیہ نہایت راز دارانہ طور پر طالبان سے مذاکرات میں مصروف تھی تاکہ ترکمانستان سے افعانستان کے راستے گیس کی پائپ لائن بچھانے کے منصوبہ پر عمل ہوسکے۔اس منصوبہ کے لئے امریکی تیل کمپنی یونو کیل کے ساتھ ان مذاکرات میں ایک طرف طالبان کا اعلی وفد شامل تھا اور امریکی تیل کمپنی کی طرف سے حامد کرزئی اور زلمے خلیل زاد شامل تھے۔ لیکن گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد یکایک نقشہ بدل گیا اور طالبان امریکا کے دشمن قرار دئے گئے۔
    ''روا'' کی خاتون کا کہنا تھا کہ اکتوبر ٢٠٠١ میں افعانستان کے خلاف جنگ کا یہ جواز پیش کیا گیا تھا کہ افغانستان میں پناہ گزین اسامہ بن لادن اور ان کی تنظیم القاعدہ کا قلع قمع کرنا لازمی ہے جس نے امریکیوں کے بقول امریکا پر گیارہ ستمبر کے حملے کئے تھے ۔ ''روا'' کی خاتون کا کہنا تھا کہ یہ سراسر جھوٹ تھا۔ دراصل امریکا اور اس کے اتحادیوں کے افغانستان پر حملے کا مقصد القاعدہ اور طالبان کا قلع قمع کرنا نہیں تھا کیونکہ اگر واقعی یہ مقصد ہوتا تو جنگ اتنی طول نہ کھینچتی اور نہ امریکی فوجیں اب تک افغانستان میں برسر پیکار رہتیں ۔ اصل مقصد القاعدہ اور طالبان کی موجودگی کو برقرار رکھتے ہوئے ان تنظیموں کی دھشت گردی کے خطرہ کا ہوا کھڑا رکھنا تھا تاکہ امریکی اس علاقہ میں اپنے سیاسی ' اقتصادی اور فوجی مفادات حاصل کرسکیں۔ امریکا نے افغانستان پر فوجی تسلط جما کر ایک ہی جست میں کئی مقاصد حاصل کر لٔے ہیں۔ ایک طرف امریکا کی فوجی قوت چین کی مغربی سرحد تک پہنچ گٔی ہے۔دوسری طرف شمال میں وسط ایشیا کی جمہوریاوں میں جہاں روس کا اثر تھا امریکا کو اپنا فوجی اور اقتصادی اثر جمانے کا موقع مل گیا ہے۔ تیسری طرف امریکی فوجیں ایران کی مشرقی سرحد تک پہنچ گئی ہیں اور چوتھی جانب امریکا کو پاکستان میں فوجی مداخلت کا موقع مل گیا ہے۔
    اب یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ افغانستان پر حملہ کی منصوبہ بندی گیارہ ستمبر کے حملوں سے دو مہینے پہلے مکمل کر لی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ نائن الیون کے ان حملوں کے محض اٹھائیس دن کے اندر اندر افغانستان کے خلاف جنگ کے لئے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی فوجوں کو منظم کیا گیا اور سات اکتوبر کو شروع ہونے والی جنگ کے ٤٥ دن کے اندر اندر طالبان کی حکومت کو معزول کر کے ٢٠ نومبر کو افغانستان کی آزادی کا اعلان کردیا گیا۔ یہ آزادی بھی عجیب و غریب آزادی ہے سات برس گذرنے کے بعد بھی ابھی تک افغان عوام کو جنگ کی تباہ کاریوں سے نجات حاصل نہیں ہوئی ہے اور نہ انہیں امن او چین کی زندگی نصیب ہوئی ہے۔ترقی اور خوشحالی کی بات تو الگ رہی۔ پچھلے سات برس کی جنگ کے دوران اب تک دس ہزار سے زیادہ افغان جاں بحق ہو چکے ہیں خود امریکا اور اس کی اتحادی فوجوں کے ایک ہزار سے زیادہ فوجی ہلاک ہوئے ہیں جن میں امریکا کے چھ سوتئیس برطانیہ کے ایک سو پچیس اور کینیڈا کے ستانوے فوجی شامل ہیں۔پورا ملک مسمار ہوگیا ہے ۔ کھیتی باڑی تباہ ہوگئی ہے اورصرف پوست کی کاشت تک رہ گئی ہے ۔ تعلیم کا نظام درہم برہم ہے اور اب خواتین کہتی ہیں کہ جنگجو سرداروں کے ظلم ستم کے مقابلہ میں تو طالبان کا دور کہیں بہتر تھا جب کہ خواتین کو حقوق حاصل نہیں تھے کم از کم امن و سکون تھا ۔
    یہ بات بھی اب سامنے آچکی ہے کہ افغانستان پر امریکی حملہ سے قبل جب طالبان سے اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا گیا تو پہلے تو طالبان نے یہ دلیل پیش کی کہ افغان روایات کے تحت کسی مہمان کو کسی اور کے حوالہ نہیں کیا جاسکتا اور چونکہ اسامہ بن لادن افغانستان کے مہمان ہیں اس لٔے انہیں امریکا کے حوالے نہیں کیا جاسکتا لیکن جب طالبان نے یہ دیکھا کہ اس مطالبہ پر ان کے اور امریکا کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے تو طالبان نے اسامہ بن لادن سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی کوشش کی اور پاکستان کی دو مذہبی جماعتوں کے ساتھ مل کر یہ طے ہوا کہ اسامہ کو ان جماعتوں کی تحویل میں دے دیا جأے گا اور انہیںپشاور میں ایک مکان میں نظر بند رکھا جائے گا جہاں مذہبی علماء کی عدالت میں ان کے خلاف الزامات کی سماعت ہوگی اور یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا انہیں امریکا کے حوالہ کیا جائے یا نہیں۔ لیکن پرویز مشرف نے اس تجویز کو یکسر مسترد کر دیا اور اس کی وجہ سے معاملہ ٹھپ پڑ گیا جس کے بعد امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر حملہ کردیا۔
    کوئی مانے نہ مانے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اگر اس جنگ کا مقصد واقعی اسامہ بن لادن کو پکڑنا اور القاعدہ اور طالبان کا قلع قمع کرنا تھا تو اس میں یکسر ناکامی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے دنوں صدر حامد کرزئی نے طالبان سے مذاکرات کی پیشکش کی ہے جسے طالبان نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا ہے کہ جب تک افغانستان کی سر زمین پر غیر ملکی فوجیں موجود ہیںقطعی کوئی مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ لہذا ایک طویل عرصہ تک طالبان سے مذاکرات کا کوئی امکان نہیںکیونکہ ابھی برسہا برس تک افعانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کی کوئی امید نہیں۔ البتہ اس وقت سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ کہیں افغانستان کی جنگ کی آگ کے شعلے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لیں۔
    بارک اوباما کے عہدہ صدارت پر فائز ہونے کے بعد افغانستان کی جنگ میں اور شدت اور پاکستان میں امریکا کی براہ راست فوجی مداخلت کے اندیشے بڑھ گئے ہیں۔انتخابی مہم کے دوران انہوں نے نہایت واضح الفاظ میں کہا تھا کہ وہ چاہیں گے کہ عراق سے امریکی فوجوں کو نکال کر انہیں افغانستان میں فیصلہ کن جنگ کے لئے استعمال کیا جائے۔اس صورت میں پاکستان کے لئے شگون کوئی اچھے نہیں ہیں۔
    اب اس بات میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں رہا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دو مکھی جنگ لڑی جارہی ہے ۔ ایک طرف پاکستان کی فوج سوات مہمند اور باجوڑ ایجنسی میں مقامی طالبان کے خلاف فوجی کاروائی کر رہی ہے وہاں دوسری طرف پاکستان کی فوج پاکستان کے قبائلی علاقوں شمالی اور جنوبی وزیرستان میں سرحد کے پار افغانستان میں تعینات امریکا اور نیٹو کی افواج کے حملوں میں پورا اشتراک کر رہی ہے۔
    پاکستان کے حکمرانوں کی طرف سے محض عوام کو تسلی دلانے کی بات ہے کہ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی سرزمین پر امریکی حملوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور ملک کی آزادی اور خود مختاری کا تحفظ کیا جائے گا۔ لیکن ان بیانات کے باوجود پے در پے پاکستان کی سرزمین پر امریکی مزائل حملے ہو رہے ہیں اور بظاہر یہ ثابت کیا جارہا ہے کہ پاکستانی فوج امریکی مزائل حملوں کے سامنے بے بس ہے حالانکہ اب کسی کو
    اس بات میں کوئی شک و شبہہ نہیں کہ امریکی حملے پاکستانی حکمرانوں کی مرضی اور منظوری سے ہورہے ہیں۔ ویسے بھی دھشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے امریکا سے دس ارب ڈالر وصول کرنے کے بعد پاکستان کے حکمرانوں کی یہ ہمت اور حوصلہ نہیں ہو سکتا کہ وہ ان حملوں کے خلاف امریکا کو چیلنج کرسکیں۔
    ٭٭٭٭٭٭
     
  28. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    طاقت سے دھشت گردی یا ظلم
    ہر صاحب شعور جانتا ہے کہ یورپ اور امریکا نے جس نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا ہے اور اس سلسلے میں بالخصوص عالم اسلام کو نشانہ بنایا جارہا ہے وہ انصاف کے تقاضوں سے کوسوں دور بلکہ ظلم و‌سفاکیت کی ایک گھناؤنی مثال ہے۔

    سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کی تعریف کیا ہے؟ کیا اپنی آزادی ، خود مختاری اور قومی وقار کا تحفظ کرنا دہشت گردی ہے؟ کیا کسی ظالم و‌جابر طاقت کے خلاف آواز حق بلند کرنا دہشت گردی ہے؟ کون نہیں جانتا کہ یورپ اور امریکا نے طاقت کے بل پر لفظ "دہشت گردی" کو جو نۓ معنی پہناۓ ہیں، وہ کسی بھی انصاف پسند کو قبول نہیں ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اسرائیل کی غاصب حکومت عرصہ دراز سے ارض فلسطین پر قبضہ جماۓ بیٹھی ہے اور فلسطینیوں کو اپنے ہی ملک میں سر چھپانے اور باعزت طریقے سے رہنے سے محروم کیا جارہا ہے، آۓ دن مظلوم فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور اقوام متحدہ کے ادارے سمیت پوری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ پوری آزاد دنیا جارح اسرائیل کو لگام ڈالتی اور فلسطینیوں کی تحریک آزادی کی مکمل حمایت کرتی، لیکن اس کے برعکس یورپ اور امریکا اسرائیل کی مکمل پشت پناہی کر‌رہے ہیں بلکہ اسرائیل کا وجود ہی ان کے مرہون منت ہے۔ اگر اہل فلسطین مظالم سے تنگ آکر اپنی آزادی کی خاطر بندوق اٹھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں تو دنیا انہیں دہشت گرد کہنے لگتی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل نے ظلم و‌ستم کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اس کو کوئی بھی دہشت گردی نہیں کہتا۔ ابھی کل کی بات ہے کہ جب حماس کے روحانی پیشوا شیخ احمد یاسین رحمہ اللہ اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں جام شہادت نوش کرگۓ تو امریکا نے یہ کہہ کر مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کی کہ اسرائیل کو اپنے تحفظ کا حق حاصل ہے۔

    گزشتہ ٥٧ (ستاون) سال سے مسئلہ کشمیر ایک رستا ہوا ناسور بنا ہوا ہے، انڈیا کی حکومت اہل کشمیر کو حق خود ارادیت دینے پر کسی طرح راضی نہیں ہورہی ہے، سلامتی کونسل کی قراردادوں کے باوجود وہاں اب تک راۓ شماری نہ ہوسکی۔ مظلوم کشمیری ہندوستان کے پنجۂ استبداد کے نیچے کراہ رہے ہیں، اب اگر کچھ سرپھروں نے انڈیا کو سبق سکھانے کی خاطر بندوق اٹھائی ہے تو وہ دہشت گرد کہلاتے ہیں جبکہ دوسری طرف انڈیا کی جابر حکومت جس نے لاکھوں افواج کشمیر میں اتار کر کشمیری عوام کی زندگی اجیرن بنا دی ہے وہ امن کی "چیمپئن" بنی ہوئی ہے۔

    کیا یہ انصاف کا خون نہیں ہے کہ ایک جارح طاقت اپنے پورے لاؤ لشکر اور ٹیکنالوجی سمیت کسی کے گھر کو غارت کرے تو وہ امن کا ٹھیکیدار کہلاۓ اور اگر گھر کا مکین بے چارگی کے عالم میں اپنے جسم سے بم باندھ کر اپنے گھر کے دفاع پر قربان ہو‌جاۓ تو وہ دہشت گرد قرار دیا جاۓ، یہ کہاں کا انصاف ہے کہ بڑی طاقتیں بلا روک ٹوک تباہ کن ہتھیاروں کے ڈھیر لگائیں اور دوسروں کو اپنے دفاع کی خاطر بھی اسلحہ رکھنے کی اجازت نہ ہو، کیا یہ ایک سنگین مزاق نہیں ہے کہ ایک بڑا ملک اپنے ایٹمی ہتھیاروں سے ہیروشیما اور ناگاساکی کو نمونۂ عبرت بنانے کے بعد بھی انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار بنا پھرتا ہے اور ایک اسلامی ملک کی صرف اس بنا پر اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی ہے کہ اس نے تباہ کن ہتھیار جمع کر رکھے ہیں جن سے دنیا کو خطرہ ہے۔

    واقعہ یہ ہے کہ یورپ اور امریکا طاقت کے نشے میں اس حد تک چلے گۓ ہیں کہ ان کے لۓ عدل و‌انصاف کے الفاظ بے معنی ہو کر رہ گۓ ہیں، ان کے ہاں ان کا ہر قول و‌فعل انصاف کا معیار بن گیا ہے۔ ان کی مرضی ہے کہ جب چاہیں کسی مظلوم ملک پر چڑھ دوڑیں اور نہایت ڈھٹائی سے یہ کہتے پھریں کہ ہم اس کو آزادی دلانا چاہتے ہیں۔ پوری دنیا نے یہ منظر دیکھا کہ عراق کو سالہا سال تک اقتصادی پابندیوں میں جکڑ کر رکھا گیا جس کے نتیجے میں معصوم بچے غزائی قلت کی وجہ سے بلک بلک کر دم توڑتے رہے اور پھر جب جی چاہا تو اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اور ایک آزاد و‌خود مختار ملک صرف اس جھوٹے الزام کی بنا پر تاراج کیا گیا کہ اس نے خطرناک ہتھیار بنا رکھے ہیں۔ حالانکہ اب اس جھوٹ کا پول کھل چکا ہے کہ یہ بات سراسر الزام تراشی تھی جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت اس بنا پر منظر سے ہٹا دی گئی کہ انہوں نے اسامہ کو پناہ دے رکھی ہے۔ جب طالبان نے اسامہ کے خلاف لگاۓ گۓ الزامات کے ثبوت مانگے تو امریکا بوکھلا گیا اور طاقت کے اندھے استعمال پر اتر آیا اور پھر افغانستان میں وحشیت و‌سفاکیت کا جو کھیل کھیلا گیا اور اب تک کھیلا جارہا ہے۔ وہ انسانیت کی پیشانی پر ایک بدنما داغ سے کم نہیں ہے۔

    یورپ اور امریکا کی ان ہی ناانصافیوں کے خلاف قدرتی طور پر جو ردعمل دنیا کے گوشے گوشے سے اٹھ رہا ہے یہ اس کو دہشت گردی کا نام دے کردنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتے ہیں حالانکہ دنیا کا شعور اتنا کمزور نہیں ہوا ہے کہ سامنے کی حقیقتوں کا ادراک بھی نہ کرسکے۔ آج اسی ردعمل کے شعلے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں، یورپ اور امریکا اگر اس آگ کو ٹھنڈا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں کمزور اور پسے ہوۓ اقوام کے دکھ درد کو سمجھنا ہوگا، انہیں اپنی ان پالیسیوں کو تبدیل کرنا ہوگا جنہوں نے اس ردعمل کو وجود بخشا ہے، انہیں یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے، جب تک "عمل" ختم نہیں ہوگا اس کے ردعمل کو نہیں روکا جاسکتا۔ انہیں یہ تاریخی حقیقت نہیں فراموش کرنی چاہۓ کہ جب بھی کوئی فرد یا قوم تمام حدوں کو پھلانگتے ہوۓ فرعون بن جاتی ہے تو اس کے مقابلے کے لۓ پردۀ غیب سے کوئی نہ کوئی موسٰی ضرور پیدا ہوتا ہے۔ مسئلہ کسی ایک اسامہ یا القائدہ کا نہیں، جب تک ناانصافی پر مبنی پالیسیاں تبدیل نہیں کی جاتیں سینکڑوں القائدہ اور ہزاروں اسامہ جنم لیتے رہیں گے اور یورپ و‌امریکا کا سکون غارت ہوتا رہے گا۔


    :dilphool:
     
  29. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    يہ دعوی کہ افغان صدر حامد کرزئ کسی امريکی تيل کی کمپنی سے منسلک رہے ہيں محض ايک بے بنياد تھيوری ہے۔ اس تھيوری کی بنياد ايک پرانی خبر ہے جو کہ غلط ثابت ہو چکی ہے۔

    دسمبر 2 2001 کو ايک فرانسيسی اخبار لی مونڈ نے ايک اداريے ميں يہ دعوی کيا تھا کہ حامد کرزئ ايک امريکی کمپنی يونوکال کے ساتھ ايک کنسلٹنٹ کی حيثيت سے منسلک رہے ہيں۔ ليکن اخبار نے اس دعوے کا کوئ ثبوت پيش نہيں کيا۔ يہی آرٹيکل بعد ميں بہت سے ويب سائٹس پر پوسٹ کيا گيا اور بہت سے ديگر اخبارات نے بھی اس فرانسيسی اخبار ميں شائع ہونے والے اداريے کا حوالہ استعمال کيا۔ ليکن بعد ميں جب اس خبر کی تحقيقق کی گئ تو يہ بے بنياد ثابت ہوئ۔ حامد کرزئ نے نہ ہی يونوکال نامی کمپنی ميں کبھی ملازمت کی اور نہ ہی کبھی کنسلٹنٹ کی حيثيت سے اس کمپنی کے ليے خدمات انجام ديں۔

    جولائ 9 2002 کو يونوکال کمپنی کے ترجمان بيری لين نے اپنے ايک انٹرويو ميں فرانسيسی اخبار کے دعوے کو نہ صرف يکسر مسترد کر ديا بلکہ اخبار کو چيلنج بھی کيا کہ وہ اپنے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے ليے ثبوت پيش کريں۔ ليکن يونوکال کے کھلے چيلنج کے بعد فرانسيسی اخبار سميت کوئ بھی نشرياتی ادارہ اس دعوے کو ثابت نہ کر سکا جس کے بعد يہ اقواہ اپنے آپ دم توڑ گئ۔

    يونوکال کے ترجمان بيری لين کا مکمل انٹرويو آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔


    http://emperors-clothes.com/interviews/lane.htm

    مسٹر بيری لين کے انٹرويو سے يہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ يونوکال 90 کی دہاہی ميں افغانستان ميں تيل کی پائپ لائن کے حوالے سے ايک منصوبے ميں دلچسپی رکھتی تھی ليکن يہ منصوبہ 1998 ميں منسوخ کر ديا گيا تھا۔ يہ واقعہ 11 ستمبر 2001 سے تين سال پہلے کا ہے۔

    آخر ميں صرف اتنا کہوں گا کہ اگر ماضی کے تعلقات کی بنا پر مستقبل کی سازشوں کے آپ کے کليے کو درست مان ليا جاۓ تو پھر يہ بھی ايک حقيقت ہے کہ حامد کرزئ 80 اور 90 کی دہاہی ميں پاکستان ميں قيام پذير رہے اور اس دوران ان کے بہت سے حکومتی اہلکاروں کے ساتھ بڑے قريبی تعلقات رہے ہيں۔ تو کيا حامد کرزئ کو افغانستان ميں پاکستان کا ايجنٹ قرار دينا چاہيے؟ يہ غير منطقی مفروضہ بہرحال تيل کی سازش کے حوالے سے آپ کے مفروضے کے مقابلے ميں حقيقت سے کسی قدر قريب ہے۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
     
  30. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ امريکہ کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی امداد محض کوئ افسانوی داستان نہيں بلکہ ايک حقيقت ہے جس کے نتيجے ميں روزانہ پاکستان کے عوام کی حالت زندگی ميں بہتری لانے کے کئ مواقع پيدا ہوتے ہيں۔

    آپ کے تجزيے سے يہ تاثر ملتا ہے کہ امريکی امداد کی فراہمی کا طريقہ کار محض چند افراد کے ذاتی اکاؤنٹس تک رقم کی منتقلی تک محدود ہے جنھيں بعد ميں کٹھ پتليوں کے طور پر استعمال کر کے امريکہ علاقے ميں اپنا اثر ورسوخ بڑھاتا ہے۔

    يہ مفروضہ حقآئق کے منافی ہے۔

    ايسے بے شمار سرکاری اور غير سرکاری ادارے، تنظيميں اور ان سے منسلک افراد اور ماہرين ہيں جو ايسے درجنوں منصوبوں پر مسلسل کام کر رہے ہيں جو دونوں ممالک کے مابين تعلقات کی مضبوطی کا سبب بن رہے ہيں۔ ميں نے امريکی امداد کی فراہمی کے حوالے سے جو بے شمار اعداد وشمار اس فورم پر پوسٹ کيے ہيں، ان کا مطلب يہ ہرگز نہيں ہے کہ يہ رقم براہراست کچھ افراد کے ذاتی اکاؤنٹس ميں منتقل کی جاتی ہے۔ يہ رقم دراصل جاری منصوبوں پر لگاۓ جانے والے تخمينے کی عکاسی کرتی ہے۔

    ميں اپنے ذاتی تجربے کی روشنی ميں آپ کو بتا رہا ہوں کہ امداد اور ترقياتی کاموں کے ضمن ميں حکومتوں اور بے شمار ذيلی تنظيموں کے درميان کئ سطحوں پر مسلسل ڈائيلاگ اور معاہدوں کا ايک سلسلہ ہوتاہے جو مسلسل جاری رہتا ہے۔ ملک ميں آنے والی سياسی تبديلياں عام طور پر ان رابطوں پر اثر انداز نہيں ہوتيں۔۔

    اپنی بات کی وضاحت کے ليے ميں آپ کو کچھ ويب لنکس دے رہا ہوں جن ميں آپ اس وقت فاٹا ميں جاری سڑکوں کی تعمير کے حوالے سے منصوبوں کی تفصيل ديکھ سکتے ہیں۔

    اسی طرح تعليم، صاف پانی کی فراہمی، ادويات اور بہت سے زرعی منصوبوں پر بھی کام ہو رہا ہے۔

    http://img501.imageshack.us/my.php?imag ... 002ky4.jpg

    http://img501.imageshack.us/my.php?imag ... 003tx6.jpg

    http://img102.imageshack.us/my.php?imag ... 004mk9.jpg

    http://img102.imageshack.us/my.php?imag ... 005gs5.jpg

    http://img380.imageshack.us/my.php?imag ... 006ip8.jpg

    http://img380.imageshack.us/my.php?imag ... 007co4.jpg

    http://img397.imageshack.us/my.php?imag ... 008bp0.jpg

    http://img374.imageshack.us/my.php?imag ... 009nb9.jpg

    http://img374.imageshack.us/my.php?imag ... 010nv8.jpg

    http://img397.imageshack.us/my.php?imag ... e13ex9.jpg

    http://img389.imageshack.us/my.php?imag ... e16ti3.jpg


    آپ ديکھ سکتے ہيں کہ مہمند اور باجوڑ ايجنسيوں کے گرد کن سڑکوں پر کام ہو رہا ہے۔ پشاور تا تورخم جی ٹی روڈ اور کالا ڈھکہ کو بسی کھيل کے ذريعے ايکہ زئ اور حسن زئ سے ملانے کے ليے جی – او – پی روڈ کا منصوبہ اس علاقے کے لوگوں کے معيار زندگی کو بہتر کرنے کے بہت سے مواقع فراہم کرے گا۔

    يہ منصوبے اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ امريکی حکومت فاٹا کے علاقے ميں درپيش مسائل کے حل کے ليے محض فوجی کاروائ پر يقين نہيں رکھتی۔

    عالمی سطح پر دو ممالک کے درميان تعلقات کی نوعيت اس بات کی غماز ہوتی ہے کہ باہمی مفاد کے ايسے پروگرام اور مقاصد پر اتفاق راۓ کیا جاۓ جس سے دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ پہنچے۔ اسی تناظر ميں وہی روابط برقرار رہ سکتے ہيں جس ميں دونوں ممالک کا مفاد شامل ہو۔ دنيا ميں آپ کے جتنے دوست ہوں گے، عوام کے معيار زندگی کو بہتر کرنے کے اتنے ہی زيادہ مواقع آپ کے پاس ہوں گے۔ اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوۓ امداد کے عالمی پروگرامز دو ممالک کے عوام کے مفاد اور بہتر زندگی کے مواقع فراہم کرنے کے ليے ايک دوسرے کی مشاورت سے تشکيل ديے جاتے ہيں۔

    موجودہ دور ميں جبکہ ساری دنيا ايک "گلوبل وليج" کی شکل اختيار کر چکی ہے پاکستان جيسے نوزائيدہ ملک کے ليے امداد کا انکار کسی بھی طرح عوام کی بہتری کا سبب نہيں بن سکتا۔ يہ بھی ياد رہے کہ يہ بھی باہمی امداد کے پروگرامز کا ہی نتيجہ ہے پاکستانی طالب علم اور کاروباری حضرات امريکہ سميت ديگر ممالک کا سفر کرتے ہيں اور وہاں سے تجربہ حاصل کر کے پاکستانی معاشرے کی بہتری کا موجب بنتے ہيں۔

    جيسا کہ ميں نے پہلے بھی کہا تھا کہ کچھ دوست امريکی امداد کے حوالے سے يہ سوال ضرور کرتے ہيں کہ مالی بے ضابطگيوں کے سبب يہ امداد علاقے کے غريب لوگوں تک نہيں پہنچ پاتی۔ يہ بات بالکل درست ہے کہ 100 فيصد کرپشن سے پاک نظام جس ميں ہر چيز قاعدے اور قانون کے مطابق ہو، ممکن نہيں ہے۔ ليکن يہ حقيقت دنيا کے تمام ممالک اور اداروں پر لاگو ہوتی ہے۔ مالی بے ضابطگياں ہر جگہ ہوتی ہيں۔ ليکن ان مسائل کو بنياد بنا کر ان منصوبوں کو يکسر ختم کر دينے کی بجاۓ انکےحل کی کوششيں کرنی چاہيے۔

    اس ضمن ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ امريکی حکومت ميں آڈيٹيرز اور انسپکثرز پر مشتمل احتساب کا ايک موثر نظام موجود ہے جو اس بات کو يقينی بناتا ہے کہ امريکی امداد سے براہ راست عام عوام کو فائدہ پہنچے۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov
     

اس صفحے کو مشتہر کریں