1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

غزلیں

Discussion in 'اردو شاعری' started by اوجھڑ پینڈے, Feb 16, 2012.

  1. غوری
    Offline

    غوری ممبر

    نہ جنوں میں تشنگی ہے، نہ وصال ِ عاشقانہ
    مری زندگی کا شاید، یہیں تھم گیا زمانہ


    مرے ہجر کے فسانے ہیں مکاں سے لا مکاں تک
    نہ چمن نہ گل نہ بلبل، نہ بہار و آب و دانہ
     
  2. غوری
    Offline

    غوری ممبر

    غزل
    (حکیم آزاد انصاری)

    دلبرِ صد عشوہ زا مطلوب ہے
    خوبصورت تر بلا مطلوب ہے

    اہلِ دل ہوں، دلربا مطلوب ہے​
    بندہ بننا ہے خدا مطلوب ہے​

    بے وفا! کیا کہئیے، کیا مطلوب ہے​
    طاقتِ ترکِ وفا مطلوب ہے​

    اذن ہو تو عرضِ حالِ دل کروں​
    طبع ِ نازک کی رضا مطلوب ہے​

    اے وفا کے خبط! لےکچھ اور سُن​
    اب اُنہیں شکرِ جفا مطلوب ہے​

    او ستمگر!‌کچھ خطا ہو یا نہ ہو​
    اب بہر حالت سزا مطلوب ہے​

    پھر گرفتارِ غمِ حاجات ہوں​
    پھر کوئی حاجت رو ا مطلوب ہے​

    مضطر آیا ہوں، سکوں درکار ہے​
    درد لایا ہوں دوا مطلوب ہے​

    کچھ بھی ہو، اب میں ہوں اور تیری تلاش​
    کچھ بھی ہو، تیرا پتا مطلوب ہے​

    واہ اُس طالب کی قسمت، جو مدام​
    شاغِل تسبیح "یا مطلوب" ہے​

    اے ترے قربان!‌اب اتنی سُدھ کہاں ​
    تو مِرا طالب ہے یا مطلوب ہے​

    شورِ فریادِ گدا ناحق نہیں​
    التفاتِ بادشاہ مطلوب ہے​

    شیخ! آپ اور حُبِّ زر سے یہ جہاد​
    ہو نہ ہو، کچھ فائدہ مطلوب ہے​

    رند ہیں اور بادہ و شاہد کا قحط​
    حضرتِ زاہد!‌دعا مطلوب ہے​

    پائے لنگِ فقر لے کر کیا کروں​
    بازوئے کشور کشا مطلوب ہے​
     
    پاکستانی55 and عشوہ like this.
  3. عشوہ
    Offline

    عشوہ ممبر

    خوشبو کی دوبارہ کہیں تنظیم نہ کرنا
    لوگو! مجھے بنیاد سے تقسیم نہ کرنا

    بچوں کی ہنسی ہوں، میں بزرگوں کی دُعا ہوں
    میں شعر نہیں ہوں مِری تفہیم نہ کرنا

    جو منبر و محراب سے نفرت کا سبق دے
    لازم ہے کہ اس شخص کی تعظیم نہ کرنا

    یہ خواب ہمارے لیے دیکھا تھا بڑوں نے
    ممکن ہو تو اس خواب میں ترمیم نہ کرنا

    میں مدرسۂ عشق سے آیا ہوں یہاں تک
    بہتر ہے مجھے قتل کی تعلیم نہ کرنا

    کیا اس سے بڑا عیب بھی ممکن ہے جہاں میں
    رہنا مرے گھر میں مجھے تسلیم نہ کرنا

    وصی شاہ
     
    پاکستانی55 and غوری like this.
  4. غوری
    Offline

    غوری ممبر

    جو منبر و محراب سے نفرت کا سبق دے
    لازم ہے کہ اس شخص کی تعظیم نہ کرنا



    بہت خوب!
     
    پاکستانی55 likes this.
  5. غوری
    Offline

    غوری ممبر

    یارِ پری چہرہ

    وہ یارِ پری چہرہ کہ کل شب کو سِدھارا
    طوفاں تھا، تلاطم تھا، چھلاوا تھا، شرارا

    گل بیز و گہر ریز و گہر بار و گہر تاب
    کلیوں نے جسے رنگ دیا، گل نے سنوارا

    نوخواستہ و نورس و نوطلعت و نوخیز
    وہ نقش جسے خود یدِ قدرت نے ابھارا

    خوں ریز و کم آمیز و دل آویز و جنوں خیز
    ہنستا ہوا مہتاب، دمکتا ہوا تارا

    خوش چشم و خوش اطوار و خوش آواز و خوش اندام
    اک خال پہ قربان سمرقند و بخارا

    گل پیرہن و گل بدن و گل رخ و گل رنگ
    ایماں شکن، آئینہ جبیں، انجمن آرا

    صبحِ گلِ نوخواستہ و شامِ شگوفہ
    مر رہنے کا سامان، تو جینے کا سہارا

    آئینۂ رخسار پر اک خالِ سیہ تاب
    پیشانئ گل رنگ پر آنچل کا کنارا

    آنکھوں کے چمکنے میں تقاضائے تلطف
    پلکوں کے جھپکنے میں تمنائے مدارا

    وہ لب کہ مہِ نو کی دھڑکنے لگے چھاتی
    وہ آنکھ کہ موتی کو نہ ہو صبر کا یارا

    کلیوں کی نمایش میں اگر ہو متبسم
    ہو اُس کے ہی ہونٹوں کی طرف کثرتِ آرا

    نظریں جو اٹھا دے تو لرزنے لگے خورشید
    ابرو کو جو بل دے تو ہو مہتاب دوپارا

    اللہ ری ملبوس کی تابش شبِ مہ میں
    سلما جو دمکتا تھا، جھمکتا تھا ستارا

    تھا میری نگاہِ طرب آموز کا پابند
    رنگِ لب و رخسار کا چڑھتا ہوا پارا

    صندل کی دمک تھی عرق آلودہ جبیں پر
    یا نہرِ گلستاں میں تڑپتا ہوا تارا

    نغموں کے تلاطم سے تھا جنبش میں لبِ لعل
    لہروں کے تھپیڑوں میں تھا دریا کا کنارا

    ہر سانس میں اپنے ہی پہ پیچیدہ جوانی
    ہر گام پہ بکھری ہوئی زلفوں کا نظارا

    اس طرح تبسم میں تحکم کی گھلاوٹ
    جس طرح مئے تند کی تلخی ہو گوارا

    کاکل کے خم و پیچ سے افشاں کا جھلکنا
    ظلمات سے تھا چشمۂ حیواں کا اشارا

    سرشار جوانی تھی کہ امڈے ہوئے بادل
    شاداب تبسم تھا کہ جنت کا نظارا

    زلفیں تھیں کہ ساون کی مچلتی ہوئی راتیں
    شوخی تھی کہ سیلاب کا مڑتا ہوا دھارا

    رُخ بات کا اقرار سے انکار کی جانب
    جس طرح ہرن دشت میں بھرتا ہو ترارا

    اللہ کرے وہ صنمِ دشمنِ ایماں
    مچلے کسی شب جوش کے پہلو میں دوبارا


    جوش ملیح آبادی
     
  6. کاکا سپاہی
    Offline

    کاکا سپاہی ممبر

    نجد وحشت میں وہ دمساز غزالی آنکھیں
    روشنی دیتی ہوئی ، رات سے کالی آنکھیں
    واقف غم ، متبسم ، متکلم ، خاموش
    تم نے دیکھی ہیں کہیں ایسی نرالی آنکھیں ؟
    ...
    دیکھ اب چشم تصور سے انہیں دیکھ ، اے دل
    جو حقیقی تھیں ، ہوئیں اب وہ خیالی آنکھیں
    ٹوٹتے جاتے ہیں پھر ضبط کے بندھن سارے
    پھر الٹنے کو ہیں اشکوں کی پیالی آنکھیں
    پھر کہے دیتی ہیں احوال غم و درد حیات
    گرچے ہم نے تھیں بہت دیر سنبھالی آنکھیں
    شام فرقت کے سنبھالے ہوئے پلکوں پہ دیے
    سال بھر اب تو مناتی ہیں دیوالی آنکھیں
    صبح امید کی صورت وہ فروزاں سے چراغ
    لیے ڈھونڈ کے پھر ایسی جمالی آنکھیں . . .​
     
    پاکستانی55 likes this.
  7. محمد عمیر خان
    Online

    محمد عمیر خان مہمان

    سنا ہے اس کے شبستان سے متصل ہے بہشت
    مکیں ادهر کے بهی نظارے ادهر کے دیکهتے ہیں
     
  8. عدیل بلال
    Offline

    عدیل بلال ممبر

    عدم گونڈوی

    زلف، انگڑائی، تبسم، چاند، آئینہ، گلاب
    بھکمری کے مورچے پر ڈھل گیا ان کا شباب

    پیٹ کے بھوگول میں الجھا ہوا ہے آدمی
    اس عہد میں کس کو فرصت ہے پڑھے دل کی کتاب

    اس صدی کی تشنگی کا زخم ہونٹوں پر لئے
    بے یقینی کے سفر میں زندگی ہے اک عذاب

    ڈال پر مذہب کی پیہم کھل رہے دنگوں کے پھول
    سبھیتا رجنیش کے حمام میں ہے بے نقاب

    چار دن فٹ پاتھ کے سائے میں رہ کر دیکھیئے
    ڈوبنا آسان ہے آنکھوں کے ساگر میں جناب
     
  9. intelligent086
    Offline

    intelligent086 ممبر

    بہت عمدہ انتخاب
     
  10. وحید درانی
    Offline

    وحید درانی ممبر

     
  11. وحید درانی
    Offline

    وحید درانی ممبر

    دیوار یاد آ گئی در یاد آ گیا


    دو گام ہی چلے تھے کہ گھر یاد آ گیا

    کچھ کہنا چاہتے تھے کہ خاموش ہو گئے


    دستار یاد آ گئی سر یاد آ گیا
     
  12. وحید درانی
    Offline

    وحید درانی ممبر

    دیوار یاد آ گئی در یاد آ گیا


    دو گام ہی چلے تھے کہ گھر یاد آ گیا

    کچھ کہنا چاہتے تھے کہ خاموش ہو گئے


    دستار یاد آ گئی سر یاد آ گیا
     

    Attached Files:

    Last edited by a moderator: Oct 16, 2016
    پاکستانی55 likes this.
  13. شانی
    Offline

    شانی ممبر

    آنکھ برسی ہے تیرے نام پہ ساون کی طرح
    جسم سلگا ہے تیری یاد میں ایندھن کی طرح

    لوریاں دی ہیں کسی قرب کی خواہش نے مجھے
    کچھ جوانی کے بھی دن گزرے ہیں بچپن کی طرح

    اس بلندی سے مجھے تو نے نوازا کیوں تھا
    گر کے میں ٹوٹ گیا کانچ کے برتن کی طرح

    مجھ سے ملتے ہوئے یہ بات تو سوچی ہوتی
    میں تیرے دل میں سما جاہوں گا ڈھرکن کی طرح

    منتظر ہے کسی مخصوص سی آہٹ کے لیے
    زندگی بیٹھی ہے دہلیز پہ برہہن کی طرح
     

Share This Page