1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

غزلیں

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از اوجھڑ پینڈے, ‏16 فروری 2012۔

  1. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    جب تک غمِ جہاں کے حوالے ہوئے نہیں
    ہم زندگی کے جاننے والے ہوئے نہیں

    کہتا ہے آفتاب ذرا دیکھنا کہ ہم
    ڈوبے تھے گہری رات میں، کالے ہوئے نہیں

    چلتے ہو سینہ تان کے دھرتی پہ کس لیے
    تم آسماں تو سر پہ سنبھالے ہوئے نہیں

    انمول وہ گہر ہیں جہاں کی نگاہ میں
    دریا کی جو تہوں سے نکالے ہوئے نہیں

    طے کی ہے ہم نے صورتِ مہتاب راہِ شب
    طولِ سفر سے پاؤں میں چھالے ہوئے نہیں

    ڈس لیں تو ان کے زہر کا آسان ہے اُتار
    یہ سانپ آستین کے پالے ہوۓ نہیں

    تیشے کا کام ریشۂ گُل سے لیا شکیب
    ہم سے پہاڑ کاٹنے والے ہوئے نہیں

    شکیب جلالی
     
  2. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    غمِ دوراں نے بھی سیکھے غمِ جاناں کے چلن
    وہی سوچی ہوئی چالیں وہی بے ساختہ پن

    وہی اقرار میں انکار کے لاکھوں پہلو
    وہی ہونٹوں پہ تبسم وہی ابرو پہ شکن

    کس کو دیکھا ہے کہ پندارِ نظر کے باوصف
    ایک لمحے کے لئے رک گئی دل کی دھڑکن

    کونسی فصل میں اس بار ملے ہیں تجھ سے
    ہم کو پرواہِ گریباں ہے نہ فکرِ دامن

    اب تو چبھتی ہے ہوا برف کے میدانوں کی
    ان دنوں جسم کے احساس سے جلتا تھا بدن

    ایسی سونی تو کبھی شامِ غریباں بھی نہ تھی
    دل بجھے جاتے ہیں اے تیرگئ صبحِ وطن

    (مصطفیٰ زیدی)
     
  3. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    ہر طرف انبساط ہے اے دل
    اور ترے گھر میں رات ہے اے دل

    عشق ان ظالموں کی دنیا میں
    کتنی مظلوم ذات ہے اے دل

    میری حالت کا پوچھنا ہی کیا
    سب ترا التفات ہے اے دل

    اس طرح آنسوؤں کو ضائع نہ کر
    آنسوؤں میں حیات ہے اے دل

    اور بیدار چل کہ یہ دنیا
    شاطروں کی بساط ہے اے دل

    صرف اُس نے نہیں دیا مجھے سوز
    اس میں تیرا بھی ہاتھ ہے اے دل

    مُندمل ہو نہ جائے زخمِ دروں
    یہ مری کائنات ہے اے دل

    حُسن کا ایک وار سہہ نہ سکا
    ڈوب مرنے کی بات ہے اے دل

    مصطفیٰ زیدی
     
  4. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    بزم میں باعثِ تاخیر ہوا کرتے تھے
    ہم کبھی تیرے عناں گیر ہوا کرتے تھے

    کوئی تو بھید ہے اس طور کی خاموشی میں
    ورنہ ہم حاصلِ تقریر ہوا کرتے تھے

    ہجر کا لطف بھی باقی نہیں، اے موسِمِ عقل!
    اُن دنوں نالۂ شب گیر ہوا کرتے تھے

    اُن دنوں دشت نوردی میں مزا آتا تھا
    پاؤں میں حلقۂ زنجیر ہوا کرتے تھے

    خواب میں تجھ سے ملاقات رہا کرتی تھی
    خواب شرمندۂ تعبیر ہوا کرتے تھے

    تیرے الطاف و عنایت کی نہ تھی حد ورنہ
    ہم تو تقصیر ہی تقصیر ہوا کرتے تھے

    شاعر: مصطفیٰ زیدی
     
  5. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    وحشت میں نکل آیا ہوں ادراک سے آگے
    اب ڈھونڈ مُجھے مجمعِ عُشاق سے آگے

    اک سُرخ سمندر میں ترا ذکر بہت ہے
    اے شخص گُزر ! دیدۂ نمناک سے آگے


    اُس پار سے آتا کوئی دیکھوں تو یہ پُوچھوں
    افلاک سے پیچھے ہوں کہ افلاک سے آگے


    دم توڑ نہ دے اب کہیں خواہش کی ہوا بھی
    یہ خاک تو اُڑتی نہیں خاشاک سے آگے


    جو نقش اُبھارے تھے مٹانے بھی ہیں اُسنے
    در پیش پھر اک چاک ہےاس چاک سے آگے


    ہم زاد کی صُورت ہے مرے یار کی صُورت
    مَیں کیسے نکل سکتا ہوں چالاک سے آگے

    شاعر: رفیع رضا
     
  6. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    کیسے چھپاؤں رازِ غم، دیدۂ تر کو کیا کروں
    دل کی تپش کو کیا کروں، سوزِ جگر کو کیا کروں

    غیر ہے گرچہ ہمنشیں، بزم میں ہے تو وہ حسیں
    پھر مجھے لے چلا وہیں، ذوقِ نظر کو کیا کروں

    شورشِ‌ عاشقی کہاں، اور مری سادگی کہاں
    حُسن کو تیرے کیا کہوں، اپنی نظر کو کیا کروں

    غم کا نہ دل میں‌ ہو گزر، وصل کی شب ہو یوں بسر
    سب یہ قبول ہے مگر، خوفِ سحر کو کیا کروں

    حال میرا تھا جب بتر، تب نہ ہوئی تمہیں خبر
    بعد مرے ہوا اثر، اب میں‌ اثر کو کیا کروں

    دل کی ہوس مٹا تو دی، ان کی جھلک دکھا تو دی
    پر یہ کہو کہ شوق کی "بارِ دگر" کو کیا کروں

    حسرتِ نغز گو ترا، کوئی نہ قدرداں ملا
    اب یہ بتا کہ میں ترے، عرضِ ہنر کو کیا کروں

    (مولانا حسرت موہانی)
     
  7. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    دل ہے کہ جلتے سینے میں اک درد کا پھوڑا الہڑ سا
    نہ گپت رہے نا پھوٹ بہے کوئی مرہم کوئی نشتر ہو

    ہم سانجھ سمے کی چھایا ہیں تم چڑھتی رات کے چندر ماہ
    ہم جاتے ہیں تم آتے ہو پھر میل کی صورت کیونکر ہو

    اب حسن کا رتبہُ عالی ہے اب حسن سے صحرا خالی ہو
    چل بستی میں بنجارہ بن چل نگری میں سوداگر ہو

    جس چیز سے تجھکو نسبت ہے جس چیز کی تجھکو چاہت ہے
    وہ سونا ہے وہ ہیرا ہے وہ ماٹی ہو یا کنکر ہو

    اب انشاء جی کو بلانا کیا اب پیار کے دیپ جلانا کیا
    جب دھوپ اور چھایا ایک سے ہوں جب دن رات برابر ہو

    وہ راتیں چاند کے ساتھ گئیں وہ باتیں چاند کے ساتھ گئیں
    اس سکھ کے سپنے کیا دیکھیں جب دُکھ کا سورج سر پر ہو
     
  8. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    وہیں ہے دل کے قرائن تمام کہتے ہیں
    وہ اِک خلش کہ جسے ترا نام کہتے ہیں

    تم آ رہے ہو کہ بجتی ہیں میری زنجیریں
    نہ جانے کیا مرے دیوار و بام کہتے ہیں

    یہی کنارِ فلک کا سیہ تریں گوشہ
    یہی ہے مطلعِ ماہِ تمام کہتے ہیں

    پیو کہ مفت لگا دی ہے خونِ دل کی کشید
    گراں ہے اب کے مئے لالہ فام کہتے ہیں

    فقیہہِ شہر سے مے کا جواز کیا پوچھیں
    کہ چاندنی کو بھی حضرت حرام کہتے ہیں

    نوائے مرغ کو کہتے ہیں اب زیانِ چمن
    کھلے نہ پھول ، اسے انتظام کہتے ہیں

    کہو تو ہم بھی چلیں فیض، اب نہیں سِردار
    وہ فرقِ مرتبۂ خاصہ و عام ، کہتے ہیں

    فیض احمد فیض
     
  9. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    غزل

    نہ ہوا نصیب قرارِ جاں، ہوسِ قرار بھی اب نہیں
    ترا انتظار بہت کیا، ترا انتظار بھی اب نہیں

    تجھے کیا خبر مہ و سال نے ہمیں کیسے زخم دیئے یہاں
    تری یادگار تھی اک خلش، تری یادگار بھی اب نہیں

    نہ گلے رہے نہ گماں رہے، نہ گزارشیں ہیں نہ گفتگو
    وہ نشاطِ وعدہء وصل کیا، ہمیں اعتبار بھی اب نہیں

    کسے نذر دیں دل و جاں بہم کہ نہیں وہ کاکُلِ خم بہ خم
    کِسے ہر نفس کا حساب دیں کہ شمیمِ یار بھی اب نہیں

    وہ ہجومِ دل زدگاں کہ تھا، تجھے مژدہ ہو کہ بکھر گیا
    ترے آستانے کی خیر ہو، سرِ رہ غبار بھی اب نہیں

    وہ جو اپنی جاں سے گزر گئے، انہیں کیا خبر ہے کہ شہر میں
    کسی جاں نثار کا ذکر کیا، کوئی سوگوار بھی اب نہیں

    نہیں اب تو اہلِ جنوں میں بھی، وہ جو شوق شہر میں عام تھا
    وہ جو رنگ تھا کبھی کو بہ کو، سرِ کوئے یار بھی اب نہیں

    جون ایلیا
     
  10. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    ایسا ہے کہ سب خواب مسلسل نہیں ہوتے
    جو آج تو ہوتے ہیں مگر کل نہیں ہوتے

    اندر کی فضاؤں کے کرشمے بھی عجب ہیں
    مینہ ٹوٹ کے برسے بھی تو بادل نہیں ہوتے

    کچھ مشکلیں ایسی ہیں کہ آساں نہیں ہوتیں
    کچھ ایسے معمے ہیں کبھی حل نہیں ہوتے

    شائستگیِ غم کے سبب آنکھوں کے صحرا
    نمناک تو ہو جاتے ہیں جل تھل نہیں ہوتے

    کیسے ہی تلاطم ہوں مگر قلزمِ جاں میں
    کچھ یاد جزیرے ہیں کہ اوجھل نہیں ہوتے

    عشاق کے مانند کئی اہل ہوس بھی
    پاگل تو نظر آتے ہیں پاگل نہیں ہوتے

    سب خواہشیں پوری ہوں فراز ایسا نہیں ہے
    جیسے کئی اشعار مکمل نہیں ہوتے

    احمد فراز
     
  11. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    شبنم!تجھے اجازتِ اظہارِغم تو ہے
    تو خوش نصیب ہے کہ تری آنکھ نم تو ہے

    صحرا میں کیوں نہ اڑتےبگولےکا ساتھ دوں
    دشتِ وفا میں کوئی مرا ہمقدم تو ہے

    تمہیدِبےحسی ہے کہ تکمیلِ بےکسی
    کل تک جو دل میں درد تھا وہ آج کم تو ہے

    منزل نہ مل سکی،نہ ملے،کوئی غم نہیں
    ہرراہِ شوق میں مرا نقشِ قدم تو ہے

    میں دل فگار،آبلہ پا ،خستہ تن سہی
    لیکن مرا مذاقِ طلب تازہ دم تو ہے

    یہ بھی اسی کی طرح کہیں بےوفا نہ ہو
    موجِ نفس میں حسن کا اندازِرم تو ہے

    جوروجفائےدوست بھلانے کے باوجود
    کیا کیجیےکہ یاد وہ قول و قسم تو ہے

    کیا جانےاور کتنے نشیب و فرازہوں
    اہلِ وفا کی منزلِ اوّل عدم تو ہے

    ڈر ہے نگاہِ لطف یہ پردہ اٹھا نہ دے
    قائم ہمارے ضبط کا اب تک بھرم تو ہے

    کم تو نہیں ہے عشق کا پندارِعاشقی
    باہوش اس گلی سے گزر جائیں ہم تو ہے

    راہِ وفا پہ اہلِ وفا کیوں نہ مر مٹیں
    اس میں بھی زلفِ یار کا کچھ پیچ و خم تو ہے

    اے دل ترا مذاقِ طلب خام ہے ابھی
    تجھ کو بھی امتیازِجفا و کرم تو ہے

    کیفی کو خود بھی دعویٰ فضل و ہنر نہیں
    البتہّ یہ ضرور ہے وہ مغتنم تو ہے

    محمدزکی کیفی
     
  12. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    غزل

    بڑاادب مرے کھَولے ہوئے لہُو نے کِیا
    کہ امتیازِشرف خود رگِ گلو نے کِیا

    سِیاہ رات کو گیسوئے مُشک بُو نے کِیا
    بیاضِ صبْح کو روشن رُخِ نکو نے کیا

    یہی اُمیدیں تھیں وجہِ تعلقاتِ دِراز
    کمال مُطمئن اب ترکِ آرزُو نے کِیا

    وہ اورپھیرلیں رُخ اپنا مجھ سے محفِل میں
    جو کچھ کِیا، وہ دلِ بیقرار تُو نے کِیا

    بَلا کا دَور تھا، وہ دَورِآخرِیں ساقی
    کہ عقل وہوش کو زائل اُسی سبو نے کِیا

    مسافرت میں لٹے رہروانِ کوچۂ دوست
    عجب سلوک قضائے بہانہ جُو نے کِیا

    الجھ کے رہ گئیں ہر ہر قدم تمنّائیں
    غضب دِرازیِ دامانِ آرزو نے کِیا

    ہمیشہ بادِ مخالف نے کی دراندازی
    اگر نمو مرے گلہائے آرزو نے کِیا

    تلاشِ یار میں امداد، بَل نِکل آئے
    نہاں نظر سے اُسے شوقِ جستجو نےکِیا

    امدادعظیم آبادی
     
  13. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    شہرِ گل کے خس و خاشاک سے خو ف آتا ہے
    جس کا وارث ہوں اُسی خاک سے خوف آتا ہے

    شکل بننے نہیں پا تی کہ بگڑ جا تی ہے
    نئی مٹی کو ابھی چا ک سے خوف آتا ہے

    وقت نے ایسے گھمائے افق آفاق کہ بس
    محورِ گردشِ سفّا ک سے خوف آتا ہے

    یہی لہجہ تھا کہ معیار سخن ٹھہرا تھا
    اب اسی لہجۂ بے باک سے خوف آتا ہے

    آگ جب آگ سے ملتی ہے تو لو دیتی ہے
    خاک کو خاک کی پو شاک سے خوف آتا ہے

    قامتِ جاں کو خوش آیا تھا کبھی خلعتِ عشق
    اب اسی جامۂ صد چاک سے خوف آتا ہے

    کبھی افلاک سے نا لوں کے جواب آتے تھے
    ان دنوں عالمِ افلاک سے خوف آتا ہے

    رحمتِ سیدِؐ لولاک پہ کامل ایمان
    امتِ سیدِؐ لولاک سے خوف آتا ہے

    افتخار عارف
     
  14. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    عمدہ انتخاب ہے۔
    :29-1:
     
  15. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    غزل

    روش میں گردشِ سیّارگاں سے اچھی ہے
    زمین کہیں کی بھی ہو آسماں سے اچھی ہے

    جو حرفِ حق کی حمایت میں ہو، وہ گمنامی
    ہزار وضْع کے نام ونشاں سے اچھی ہے

    عجب نہیں، کہ زباں اُس کی کھینچ لی جائے
    جو کہہ رہا ہے! خموشی زباں سے اچھی ہے

    بس ایک خوف! کہیں دل یہ بات مان نہ لے
    یہ خاکِ غیر ہمیں آشیاں سے اچھی ہے

    ہم ایسے گُل زدگاں کو، بہارِ یک ساعت
    نِگارخانۂِ عہدِ خِزاں سے اچھی ہے

    افتخار عارف
     
  16. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    تُو کہ شمعِ شامِ فراق ہے، دل نا مراد! سنبھل کے رو
    یہ کسی کی بزم نشاط ہے، یہاں قطرہ قطرہ پگھل کے رو

    کوئی آشنا ہو کہ غیر ہو، نہ کسی سے حال بیان کر
    یہ کٹھور لوگوں کا شہر ہے، کہیں دُور پار نکل کے رو

    کسے کیا پڑی سرِ انجمن کہ سُنے وہ تیری کہانیاں
    جہاں تجھ سے کوئی بچھڑ گیا، اُسی رہگزار پہ چل کے رو

    یہاں اور بھی ہیں گرفتہ دل، کبھی اپنے جیسوں سے جا کے مِل
    ترے دکھ سے بڑھ کے ہیں جن کے دکھ، کبھی ان کی آگ میں جل کے رو

    ترے دوستوں کو خبر ہے سب، تری بے کَلی کا جو ہے سبب
    تُو بھلے سے اس کا نہ ذکر کر، تُو ہزار نام بدل کے رو

    غمِ عشق لاکھ کڑا سہی، پہ فرازؔ کچھ تو خیال کر
    مری جاں! یہ محفلِ شعر ہے، سو نہ ساتھ ساتھ غزل کے رو
     
  17. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    غزل

    یہ نگاہِ شرم جُھکی جُھکی، یہ جبینِ ناز دُھواں دُھواں
    مِرے بس کی اب نہیں داستاں، مِرا کانپتا ہے رُواں رُواں

    یہ تخیّلات کی زندگی، یہ تصوّرات کی بندگی
    فقط اِک فریبِ خیال پر، مِری زندگی ہے رواں دواں

    مِرے دل پہ نقش ہیں آج تک، وہ با احتیاط نوازشیں
    وہ غرور و ضبط عیاں عیاں، وہ خلوصِ ربط نہاں نہاں

    نہ سفر بشرطِ مآل ہے، نہ طلب بقیدِ سوال ہے
    فقط ایک سیریِ ذوق کو، میں بھٹک رہا ہوں کہاں کہاں

    مِری خلوتوں کی یہ جنّتیں کئی بار سج کے اُجڑ گئیں
    مجھے بارہا یہ گمان ہوا، کہ تم آرہے ہو کشاں کشاں

    اقبال عظیم
     
  18. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اپریل 2012
    پیغامات:
    33,894
    موصول پسندیدگیاں:
    64
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    واہ کیا بات ہے میڈیم جی اتنی اچھی شاعری کیا کہنا ہے آپ کا
     
  19. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اپریل 2012
    پیغامات:
    33,894
    موصول پسندیدگیاں:
    64
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    ستم ہے کرنا، جفا ہے کرنا، نگاہِ اُلفت کبھی نہ کرنا
    تمہیں قسم ہے ہمارے سر کی، ہمارے حق میں کمی نہ کرنا

    ہماری میّت پہ تم جو آنا تو چار آنسو گرا کے جانا
    ذرا ہے پاسِ آبرو بھی ----کہیں ہماری ہنسی نہ کرنا


    واہ میڈیم جی
     
  20. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اپریل 2012
    پیغامات:
    33,894
    موصول پسندیدگیاں:
    64
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    کوہِ غم ٹوٹ پڑے دید و دل پر کتنے

    قافلے درد کے آئے ہیں برابر کتنے

    خشک کانٹوں سے ٹپکتا رہا کلیوں کا لہو

    قتل گاہوں سے ملے پھول سے پیکر کتنے

    ہم ہیں منصور لبِ دار نے چوما ہم کو

    ہم ہیں سقراط ملے زہر کے ساغر کتنے

    ہم نے دیکھے ہیں بُرے وقت کے منظر کتنے

    پھول بن جاتے ہیں حالات کے پتھر کتنے

    حادثہ شرط محبت ہے تو تسلیم مگر

    حادثے ہوں گے مرے قد کے برابر کتنے
    صرف الفاظ کے پیکر نہیں اشعارِ نشاط

    فکر ومعنی کے سموئے ہیں سمندر کتنے
    ملا کرو کبھی ہم سے تو زندگی کی طرح

    یہ کیا کہ دیکھ کے اٹھ جاؤ اجنبی کی طرح

    سمٹ سکو تو سمٹ جاؤ ماہتاب صفت

    بکھرسکو تو بکھر جاؤ چاندنی کی طرح

    تمہاری ریشمی زلفیں رخِ حیات کی ضو

    مسخر کے دوش پہ مانوس تیرگی کی طرح

    رہِ حیات کے غم میں نشاط کا پہلو

    کسی کے حسن لب ورخ کی دل کشی کی طرح
    دستِ قدرت نے سموئے ہیں اُجالے مجھ میں

    جب ضرورت ہو چراغوں کی، جلا لو مجھ کو



    زیست کی راحت ڈھونڈنے والو

    زیست مکمل دھوپ نہ سایہ



    جس کو ہم رندِ بلا نوش کہا کرتے تھے

    اس کو نزدیک سے دیکھا تو فرشتہ نکلا



    ترے غم کی وسعتوں میں غم کائنات پنہا

    ترا غم رہے سلامت تو ہزار غم گوارا
     
  21. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اپریل 2012
    پیغامات:
    33,894
    موصول پسندیدگیاں:
    64
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں



    کم ہی ملتے ہیں بھلے شعر کے نباض نشاط

    یوں تو کہنے کو بہت لوگ سخنور ٹھہرے
    غم بھی تری عطا ہے خوشی بھی تری عطا

    کافی ہے بارگاہِ محبت سے انتساب
    حیات کی تلخیوں نے آخر نشاط طرزِ حیات بدلا

    وہ آج ہے باوقار انسان کبھی تھا نازک مزاج پہلے



    محبتوں کے دیے جلاکر دلوں کی دہلیز پر سجادو

    کہ نفرتوں کی فضا سے یہ بھی ہے صورتِ انتقام ساقی



    اپنے کمالِ ضبط کا دعویٰ نہیں مگر

    اکثر حوادثات پہ میں مسکرادیا
    ذرا شیشہ گرو ہشیار رہنا

    کہ ایک خوابیدہ پتھر جاگتا ہے
    غزل گوئی نشاطِ جاں ہے لیکن

    ادب کا احترامِ فن کہاں ہے؟
     
  22. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اپریل 2012
    پیغامات:
    33,894
    موصول پسندیدگیاں:
    64
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    لو جی یہ شعر میری طرف سے آپ لوگوں کے نام ​


    کہاں کہاں سے مٹائے گا، خوش گماں میرے
    تیرے بدن سے تیری روح تک، نشاں میرے

    کہیں بھی جا کے بسا لے تُو بھول کی بستی
    محیط ہیں تیرے، یادوں کے آسماں میرے

    اگرچہ فاصلہ دو چند کر لیا تو نے
    رواں دواں ہیں تیری سمت کارواں میرے

    میں جاؤں بھی تو کہاں، چھوڑ کر تیری گلیاں
    تُو کر گیا سبھی رستے دھواں دھواں میرے

    عبور ہوتے نہیں، روز طے تو کرتا ہوں
    یہ ہجر فاصلے، یہ بحرِ بے کراں میرے

    ہوا کے بیڑے کسی اور سمت بہتے ہیں
    کھلے ہیں اور کسی سمت بادباں میرے

    میں اپنے جذبوں کی شدت سے خوف کھاتا ہوں
    کہ دشمنوں سے ہیں بڑھ کر، یہ مہرباں میرے

    میں خواب زار کی کرتا تو ہوں چمن بندی
    اجاڑ دے نہ کوئی آ کے گلستاں میرے

    شگوفے آ گئے پلکوں پہ درد کے آخر
    چھپا سکے نہ میرے راز، راز داں میرے
     
  23. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اپریل 2012
    پیغامات:
    33,894
    موصول پسندیدگیاں:
    64
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    طاقتیں تمہاری ہیں' اور خدا ہمارا ہے
    عکس پر نہ اتراؤ ' آئینہ ہمارا ہے

    آپ کی غلامی کا ' بوجھ ہم نہ ڈھوئیں گیں
    آبرو سے مرنے کا ' فیصلہ ہمارا ہے

    عمر بھر تو کوئی بھی' جنگ لڑ نہیں سکتا
    تم بھی ٹوٹ جاؤ گے' تجربہ ہمارا ہے

    اپنی رہنمائی پر ' اب غرور مت کرنا
    آپ سے بہت آگے' نقش پا ہمارا ہے

    غیرت جہاد اپنی' زخم کھا کے جاگے گی
    پہلا وار تم کر لو' دوسرا ہمارا ہے


    طاقتیں تمہاری ہیں' اور خدا ہمارا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ​
     
  24. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    کتنے بے درد ہیں صَرصَر کو صبا کہتے ہیں
    کیسے ظالم ہیں کہ ظلمت کو ضیا کہتے ہیں

    جبر کو میرے گناہوں کی سزا کہتے ہیں
    میری مجبوری کو تسلیم و رضا کہتے ہیں

    غم نہیں گر لبِ اظہار پر پابندی ہے
    خامشی کو بھی تو اِک طرزِ نوا کہتے ہیں

    کُشتگانِ ستم و جور کو بھی دیکھ تو لیں
    اہلِ دانش جو جفاؤں کو وفا کہتے ہیں

    کل بھی حق بات جو کہنی تھی سرِ دار کہی
    آج بھی پیشِ بتاں نامِ خدا کہتے ہیں

    یوں تو محفل سے تری اُٹھ گئے سب دل والے
    ایک دیوانہ تھا وہ بھی نہ رہا کہتے ہیں

    یہ مسیحائی بھی کیا خوب مسیحائی ہے
    چارہ گر موت کو تکمیلِ شِفا کہتے ہیں

    بزمِ زنداں میں ہوا شورِ سلاسل برپا
    دہر والے اسے پائل کی صدا کہتے ہیں

    آندھیاں میرے نشیمن کو اڑانے اٹھیں
    میرے گھر آئے گا طوفانِ بلا کہتے ہیں

    اُن کے ہاتھوں پہ اگر خون کے چھینٹے دیکھیں
    مصلحت کیش اسے رنگِ حنا کہتے ہیں

    میری فریاد کو اِس عہد ہوس میں ناصر
    ایک مجذوب کی بے وقت صدا کہتے ہیں

    نواب زادہ نصراللہ خاں ناصر
     
  25. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    کوئی جائے طور پہ کس لئے کہاں اب وہ خوش نظری رہی
    نہ وہ ذوق دیدہ وری رہا ، نہ وہ شان جلوہ گری رہی

    جو خلش ہو دل کو سکوں ملے ، جو تپش ہو سوز دروں ملے
    وہ حیات اصل میں کچھ نہیں ، جو حیات غم سے بری رہی

    وہ خزاں کی گرم روی بڑھی تو چمن کا روپ جھلس گیا
    کوئی غنچہ سر نہ اٹھا سکا ، کوئی شاخ گل نہ ہری رہی

    مجھے بس ترا ہی خیال تھا ترا روپ میرا جمال تھا
    نہ کبھی نگاہ تھی حور پر ، نہ کبھی نظر میں پری رہی

    ترے آستاں سے جدا ہوا تو سکونِ دل نہ مجھے ملا
    مری زندگی کے نصیب میں جو رہی تو دربدری رہی

    ترا حسن آنکھ کا نور ہے ، ترا لطف وجہ سرور ہے
    جو ترے کرم کی نظر نہ ہو تو متاع دل نظری رہی

    جو ترے خیال میں گم ہوا تو تمام وسوسے مٹ گئے
    نہ جنوں کی جامہ دری رہی ، نہ خرد کی درد سری رہی

    مجھے بندگی کا مزا ملا ، مجھے آگہی کا صلہ ملا
    ترے آستانہ ناز پر ، جو دھری جبیں تو دھری رہی

    یہ مہ و نجوم کی روشنی ترے حسن کا پرتو بدل نہیں
    ترا ہجر ، شب کا سہاگ تھا ، مرے غم کی مانگ بھری رہی

    رہ عشق میں جو ہوا گزر ، دل و جاں کی کچھ نہ رہی خبر
    نہ کوئی رفیق نہ ہم سفر ، مرے ساتھ بے خبری رہی

    ترے حاسدوں کو ملال ہے ، یہ نصیر فن کا کمال ہے
    ترا قول تھا جو سند رہا ، تری بات تھی جو کھری رہی

    از سید نصیر الدین نصیر
     
  26. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    یہ فلک یہ ماہ و انجم، یہ زمین یہ زمانہ
    ترے حُسن کی حکایت، مرے عشق کا فسانہ

    یہ ہے عشق کی کرامت، یہ کمالِ شاعرانہ
    ابھی مُنہ سے بات نکلی، ابھی ہو گئی فسانہ

    یہ علیل سی فضائیں، یہ مریض سا زمانہ
    تری پاک تر جوانی، ترا حُسنِ معجزانہ

    یہ مرا پیام کہنا تُو صبا مؤدّبانہ
    کہ گزر گیا ہے پیارے، تجھے دیکھے اِک زمانہ

    مجھے چاکِ جیب و دامن سے نہیں مناسبت کچھ
    یہ جُنوں ہی کو مبارک، رہ و رسمِ عامیانہ

    تجھے حادثاتِ پیہم سے بھی کیا ملے گا ناداں؟
    ترا دل اگر ہو زندہ، تو نفَس بھی تازیانہ

    تری اِک نمود سے ہے، ترے اِک حجاب تک ہے
    مری فکرِ عرش پیما، مرا نازِ شاعرانہ

    وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
    جو دلوں کو فتح کر لے، وہی فاتحِ زمانہ

    یہ ترا جمالِ کامل، یہ شباب کا زمانہ
    دلِ دشمناں سلامت، دلِ دوستاں نشانہ

    کبھی حُسن کی طبیعت نہ بدل سکا زمانہ
    وہی نازِ بے نیازی، وہی شانِ خسروانہ

    مجھے عشق کی صداقت پہ بھی شک سا ہو چلا ہے
    مرے دل سے کہہ گئی کیا، وہ نگاہِ ناقدانہ

    تجھے اے جگر ہوا کیا کہ بہت دنوں سے پیارے
    نہ بیانِ عشق و مستی، نہ حدیثِ دلبرانہ

    جگر مُرادآبادی
     
  27. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے
    اس کے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہے


    سانس لیتے ہوئے انساں بھی ہے لاشوں کی طرح
    اب دھڑکتے ہوئے دل کی بھی لحد ہوتی ہے

    اپنی آواز کے پتھر بھی نہ اس تک پہنچے
    اس کی آنکھوں کے اشارے میں بھی زد ہوتی ہے

    جس کی گردن میں ہے پھندا وہی انسان بڑا
    سولیوں سے یہاں پیمائش قد ہوتی ہے

    شعبدہ گر بھی پہنتے ہے خطیبوں کا لباس
    بولتا جہل ہے بدنام خرد ہوتی ہے

    کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعزاز سخن
    ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے

    مظفرؔوارثی
     
  28. شاہدندیم
    آف لائن

    شاہدندیم ممبر

    شمولیت:
    ‏1 فروری 2013
    پیغامات:
    4,145
    موصول پسندیدگیاں:
    338
    ملک کا جھنڈا:
    جمالِ یار کا دفتر رقم نہیں ہوتا
    کسی جتن سے بھی یہ کام کم نہیں ہوتا
    تمام اُجڑے خرابے حسیں نہیں ہوتے
    ہر اک پرانا مکاں قصر ِ جم نہیں ہوتا
    تمام عمر رہِ رفتگاں کو تکتی رہے
    کسی نگاہ میں اتنا تو دم نہیں ہوتا
    یہی سزا ہے مری اب جو میں اکیلا ہوں
    کہ میرا سر ترے آگے بھی خم نہیں ہوتا
    وہ بے حسی ہے مسلسل شکستِ دل سے منیر
    کوئی بچھڑ کے چلا جائے ، غم نہیں ہوتا
    ۔۔۔ منیر نیازی ۔۔۔
     
  29. عشوہ
    آف لائن

    عشوہ ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2014
    پیغامات:
    278
    موصول پسندیدگیاں:
    189
    ملک کا جھنڈا:

    اے گردبادِ وقت! بکھرتا نہیں ہُوں میں
    نقشِ وفا ہُوں نقشِ کفِ پا نہیں ہُوں میں

    دیکھا ضرور سب نے رُکا کوئی بھی نہیں
    کہتا رہا ہر اِک سے، تماشا نہیں ہُوں میں

    ساحل ہے تُو تَو، تجھ کو سمندر کا کیا پَتا
    مجھ میں اُتَر کے دیکھ، ڈبوتا نہیں ہُوں میں

    بیٹھا جو لےکے خود کو تَو معلوم یہ ہُوا
    تنہا دِکھائی دیتا ہُوں، تنہا نہیں ہُوں میں

    ہَمدَردِیوں کے خوف سے ضاؔمن یہ حال ہے
    اب دل پہ ہاتھ رکھ کے نکلتا نہیں ہُوں میں

    ضاؔمن جعفری
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  30. عشوہ
    آف لائن

    عشوہ ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2014
    پیغامات:
    278
    موصول پسندیدگیاں:
    189
    ملک کا جھنڈا:
    نہ جنوں میں تشنگی ہے، نہ وصال ِ عاشقانہ
    مری زندگی کا شاید، یہیں تھم گیا زمانہ

    نہ صدا ہے محرموں کی، نہ نظر وہ ساحرانہ
    نہ وفا ہے دوستوں کی، نہ عطائے دلبرانہ

    مرے ہجر کے فسانے ہیں مکاں سے لا مکاں تک
    نہ چمن نہ گل نہ بلبل، نہ بہار و آب و دانہ

    مرے غم کدے کی شامیں ہیں تیرے بنا غریباں
    ہے مزاج ِ شب بھی کافر، تیرا غم بھی قاتلانہ

    میں جو تھک گیا سفر میں، میرے آبلوں نے چھیڑا
    وہی راگ ِ دشت و صحرا، بہ نوائے تازیانہ

    یہ منافقت کی بستی ھے کہ دور مصلحت کا
    جو نقاب ِ زرق اوڑھے، ھے جہان ِ کافرانہ

    پس ِ مرگ خامشی یہ ھے حلیف ِ دست ِ ظلمت
    تری چپ ھے تیری قاتل کہ مزاج ِ بذدلانہ

    مرے طرز ِ حق نوائی پہ ہے اعتراض ان کو
    جو صدائے عاشقاں کو، کہیں فقر ِمشرکانہ

    یہ کمال ِ د ل فریبی ہے ترے سخن میں درویش
    جو فقیر بن کے چھیڑا ہے رباب ِ خسروانہ

    (فاوق درویش)
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں