1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

غزلیں

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از اوجھڑ پینڈے, ‏16 فروری 2012۔

  1. اوجھڑ پینڈے
    آف لائن

    اوجھڑ پینڈے ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جنوری 2012
    پیغامات:
    30
    موصول پسندیدگیاں:
    10
    ملک کا جھنڈا:
    بہادرشاہ ظفر،مرزا غالب،احمدفراز،اور باقی تمام مُصنفین کی
    غزلیں جو لوگوں کی توجہ کا مرکز رہیں
     
  2. اوجھڑ پینڈے
    آف لائن

    اوجھڑ پینڈے ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جنوری 2012
    پیغامات:
    30
    موصول پسندیدگیاں:
    10
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    کہاں آکے رُکے تھے راستے ، کہاں موڑ تھا اُسے بھول جا
    وہ جو مِل گیا اُسے یاد رکھ ، جو نہں مِلا اُسے بھول جا

    وہ تیرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
    دلِ بے خبر میری بات سُن اُسے بھول جا اُسے بھول جا

    کیوں عطاء ہوئی غمِ زندگی غمِ یار تیرے واسطے
    وہ جو درج تھا تیرے بخت میں ، سَو وہ ہو گیا اُسے بھول جا

    نہ وہ آنکھ ہی تیری آنکھ تھی نہ وہ خواب ہی تیرا خواب تھا
    دلِ منتظر تو یہ کس لئے تیرا جاگنا اُسے بھول جا

    یہ جو رات دن کا کھیل ہے اُسے دیکھ اُس پہ یقیں نہ کر
    نہیں عکس کو بھی مستقل سَرِ آئینہ اُسے بھول جا

    جو بساطِ جاں ہی اُلٹ گیا ، وہ جو راستے سے پلٹ گیا
    اُسے روکنے کا حُصول کیا اُسے مت بھُلا اُسے بھول جا

    تجھے چاند بن کے ملا تھا جو تیرے ساحلوں پہ ملا تھا جو
    وہ تھا اک دریا وصال کا سو اُتر گیا اُسے بھول جا
     
  3. اوجھڑ پینڈے
    آف لائن

    اوجھڑ پینڈے ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جنوری 2012
    پیغامات:
    30
    موصول پسندیدگیاں:
    10
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    کہنے کو اک صحن میں دیوار ہی بنی
    گھر کی فضا مکان کا نقشہ بدل گیا

    شاید وفا کے کھیل سے اُکتا گیا تھا وہ
    منزل کے پاس آکے جو راستہ بدل گیا

    قائم کسی بھی حال پہ دُنیا نہیں رہی
    تعبیر کھو گئ کبھی سپنا بدل گیا

    نظر کا رنگ اصل میں سایہ تھا حُسن کا
    جس نے اُسے جدھر سے بھی دیکھا بدل گیا

    اندر کے موسموں کی خبر اُس کی ہوگئ
    اُس نوء بہارِ ناز کا چہرہ بدل گیا

    آنکھوں میں جتنے اشک تھے جُگنو سے بن گئے
    وہ مُسکرایا اور میری زندگی بدل گئ

    اپنی گلی میں اپنا ہی گھر ڈھونڈھتے ہیں لوگ
    غالب یہ سارے شہر کا نقشہ بدل گیا
     
  4. اوجھڑ پینڈے
    آف لائن

    اوجھڑ پینڈے ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جنوری 2012
    پیغامات:
    30
    موصول پسندیدگیاں:
    10
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    کہنے کو اک صحن میں دیوار ہی بنی
    گھر کی فضا مکان کا نقشہ بدل گیا

    شاید وفا کے کھیل سے اُکتا گیا تھا وہ
    منزل کے پاس آکے جو راستہ بدل گیا

    قائم کسی بھی حال پہ دُنیا نہیں رہی
    تعبیر کھو گئ کبھی سپنا بدل گیا

    نظر کا رنگ اصل میں سایہ تھا حُسن کا
    جس نے اُسے جدھر سے بھی دیکھا بدل گیا

    اندر کے موسموں کی خبر اُس کی ہوگئ
    اُس نوء بہارِ ناز کا چہرہ بدل گیا

    آنکھوں میں جتنے اشک تھے جُگنو سے بن گئے
    وہ مُسکرایا اور میری زندگی بدل گئ

    اپنی گلی میں اپنا ہی گھر ڈھونڈھتے ہیں لوگ
    غالب یہ سارے شہر کا نقشہ بدل گیا
     
    فهیم علی نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. اوجھڑ پینڈے
    آف لائن

    اوجھڑ پینڈے ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جنوری 2012
    پیغامات:
    30
    موصول پسندیدگیاں:
    10
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    میرے ہمسفر تیری بے رُخی دلِ مُبتلاء کی شکست ہے
    اِسے کس طرح میں کہوں فتح یہ میری اناء کی شکست ہے
    تو چلا گیا مُجھے چھوڑ کر میں نے پھر بھی تجھ کو سدائیں دیں
    میرے ہمسفر تو رُکا نہیں یہ میری سدا کی شکست ہے
    تجھے لا کے دل میں بیٹھا دیا تُجھے راز ہر اک بتا دیا
    تونے پھر بھی کوئی وفا نہ کی یہ میری وفا کی شکست ہے
    میں چراغِ کونہ مزاج تھا تجھے بجلیوں کی طلب رہی
    مجھے آندھیوں نے بُجھا دیا یہ میری ضیاء کی شکست ہے
    مجھے کوئی تجھ سے گلا نہیں تو ملا تھا کب کا بچھڑ گیا
    میرے جرم کی ہے یہی سزا یہ میری سزا کی شکست ہے
    میری خاموشی کے بیان کو تو سمجھ کے بھی نہ سمجھ سکا
    میرے آنسوؤں کا پیام ہی دل بےنواء کی شکست ہے
    غمِ داستانِ حیات کے سبھی تزکرے ہوئے رائیگاں
    میرے چارہ گر تیرا یہ ہُنر میری ہر دعا کی شکست ہے
    مجھے خاماشیءِ حیات میں یوں کبھی نہ کوئی گرا سکا
    تیری خاموشی کی پُکار ہی میری ابتداء کی شکست ہے
     
    فهیم علی نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    واہ ۔۔۔بہت خوب جناب
     
  7. شانی
    آف لائن

    شانی ممبر

    شمولیت:
    ‏18 فروری 2012
    پیغامات:
    3,129
    موصول پسندیدگیاں:
    241
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    سب کے لہےو
    یادوں میں رکھو تم ہم کو ہم تو ہیں پردیس میں
    خیالوں میں رکھو تم ہم کو ہم تو ہیں پردیس میں
    نہ کرو گلہ کوہی نہ کوہی ہم سے شکایت
    بس اتنی ہی تم ہم پہ کر دو عنایت
    دعاہوں میں رکھو تم ہم کو ہم تو ہیں پردیس میں
    کتنی سخت ہے زندگی ہماری تمھارے سوا
    یہ مت سمجھنا تم ہم ہو گہے بے وفا
    وفاہوں میں رکھو تم ہم کو ہم تو ہیں پردیس میں
    کتنے موسم آ کے گہے کتنی رتیں بدل گہیں
    انتظار میں رکھو تم ہم کو ہم تو ہیں پردیس میں
     
  8. شعیب۔امین
    آف لائن

    شعیب۔امین ممبر

    شمولیت:
    ‏4 اکتوبر 2011
    پیغامات:
    148
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    واہ جناب کیا کہنے

    خوب انتخاب

    خوش رہیں
     
  9. شانی
    آف لائن

    شانی ممبر

    شمولیت:
    ‏18 فروری 2012
    پیغامات:
    3,129
    موصول پسندیدگیاں:
    241
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    شکریہ جناب ۔ ۔
     
  10. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    زخم کی بات نہ کر زخم تو بھر جاتا ہے
    تیر لہجے کا کلیجے میں اتر جاتا ہے

    موج کی موت ہے ساحل کا نظر آجانا
    شوق کترا کے کنارے سے گزر جاتا ہے

    شعبدہ کیسا دکھایا ہے مسیحائی نے
    سانس چلتی ہے ، بھلے آدمی مر جاتا ہے

    مندروں میں بھی تو دعائیں سنی جاتی ہیں
    اشک بہہ جائیں جدھر ، مولا ادھر جاتا ہے

    حسن افزا ہوئی اشکوں کی سنہری برکھا
    پھول برسات میں جس طرح نکھر جاتا ہے

    غالباً تخت پہ جنات کا سایہ ہوگا
    کچھ تو ہے ہر کوئی آتے ہی مکر جاتا ہے

    گر نہ لکھوں میں قصیدہ تو ہے تلوار اقرب
    سر بچا لوں تو مرا ذوق ہنر جاتا ہے

    قیس اگر آج ہیں زندہ تو جنوں زندہ باد
    سوچنے والا تو اس دور میں مر جاتا ہے

    شہزاد قیس
     
    فهیم علی اور ضیا خان .نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    روکتا ہے غمِ اظہار سے پِندار مُجھے
    مرے اشکوں سے چھُپا لے مرے رُخسار مُجھے

    دیکھ اے دشتِ جُنوں بھید نہ کھُلنے پائے
    ڈھونڈنے آئے ہیں گھر کے در و دیوار مُجھے

    جِنسِ ویرانیِ صحرا میری دوکان میں ہے
    کیا خریدے گا ترے شہر کا بازار مُجھے

    جَرسِ گُل نے کئی بار بلایا لیکن
    لے گئی راہ سے زنجیر کی جَھنکار مُجھے

    نَاوکِ ظُلم اُٹھا دَشنۂ اَندوہ سَنبھَال
    لُطف کے خَنجرِ بے نام سے مت مار مُجھے

    ساری دُنیا میں گَھنی رات کا سنّاٹا تھا
    صحنِ زِنداں میں ملے صُبح کے آثار مُجھے
     
    فهیم علی نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    خوبرویوں سے یاریاں نہ گئیں
    دل کی بے اختیاریاں نہ گئیں

    عقل صبر آزما سے کچھ نہ ہوا
    شوق کی بے قراریاں نہ گئیں

    دل کی صحرا نوردیاں نہ چھٹیں
    شب کی اختر شماریاں نہ گئیں

    ہوش یاں سدِّ راہِ علم رہا
    عقل کی ہرزہ کاریاں نہ گئیں

    تھے جو ہم رنگِ ناز ان کے ستم
    دل کی امّیدواریاں نہ گئیں

    حسن جب تک رہا نظّارہ فروش
    صبر کی شرمساریاں نہ گئیں

    طرزِ مومن میں مرحبا حسرت
    تیری رنگیں نگاریاں نہ گئیں

    (حسرت موہانی)
     
  13. شانی
    آف لائن

    شانی ممبر

    شمولیت:
    ‏18 فروری 2012
    پیغامات:
    3,129
    موصول پسندیدگیاں:
    241
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
    سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے ربط ہے اسکو خراب حالوں سے
    سو اپنےآپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے درد کی گاہک ہیں چشم ناز اسکی
    سو ہم بھی اسکی گلی سے گزر کےدیکھتے ہیں

    سنا ہے اسکو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
    سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
    یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
    ستارے بام ِ فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں


    سنا ہے حشر ہیں اسکی غزال سی آنکھیں
    سنا ہےاسکو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
    سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کےدیکھتے ہیں

    سنا ہے اسکی سیاہ چشمگی قیامت ہے
    سو اسکو سرمہ فروش آنکھ بھر کےدیکھتے ہیں

    سنا ہے اسکے لبوں سے گلاب جھڑتے ہیں
    سو ہم بہار پر الزام دھر کے دیکھتے ہیں
     
  14. شانی
    آف لائن

    شانی ممبر

    شمولیت:
    ‏18 فروری 2012
    پیغامات:
    3,129
    موصول پسندیدگیاں:
    241
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    تسکین نہ ھو جس سے وہ راز بدل ڈالو
    جو راز نہ رکھ پائے ہمراز بدل ڈالو

    تم نے بھی سنی ھو گی بڑی عام کہاوت ہے
    انجام کا جو ھو خطرہ آغاز بدل ڈالو

    پر سوز دلوں کو جو مسکان نہ دے پائے
    سر ہی نہ ملے جس میں وہ ساز بدل ڈالو

    دشمن کے ارادوں کو ہے ظاہر اگر کرنا
    تم کھیل وہی کھیلو انداز بدل ڈالو

    اے دوست کرو ہمت کچھ دور سویرا ہے
    اگر چاہتے ھو منزل تو پرواز بدل ڈالو
     
  15. شانی
    آف لائن

    شانی ممبر

    شمولیت:
    ‏18 فروری 2012
    پیغامات:
    3,129
    موصول پسندیدگیاں:
    241
    ملک کا جھنڈا:
  16. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    اقبال

    وہ دیدہ ور کہ جس نے تجلی نکھاردی
    ذروں کو آفتابِ درخشاں بنا گیا

    وہ چارہ ساز جس نے کئے تجرباتِ نو
    ہر درد کو ضمانتِ درماں بنا گیا

    وہ باغباں جو اپنی نسیمِ حیات تھا
    شامِ چمن کو صبح بہاراں بنا گیا

    وہ دلربا کہ جس نے بدل دی سرشتِ دل
    تکلیف کو نشاط کا ساماں بنا گیا

    وہ فلسفی جو اپنی خودی کی تلاش میں
    اربابِ دل کو محرمِ یزداں بنا گیا

    وہ مردِ حق پرست مٹاکر جو تفرقے
    اسلامیوں کو صرف مسلماں بناگیا

    اب کارواں کی بانگِ درا پر نظر نہیں
    سب کچھ ہے اسکی قوم مسلماں مگر نہیں

    قابل اجمیری​
     
    فهیم علی نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    ہم تو اسیرِ خواب تھے تعبیر جو بھی تھی
    دیوار پر لکھی ہوئی تحریر جو بھی تھی

    ہر فرد لاجواب تھا، ہر نقش بے مثال
    مِل جُل کے اپنی قوم کی تصویر جو بھی تھی

    جو سامنے ہے، سب ہے یہ،اپنے کیے کا پھل
    تقدیر کی تو چھوڑئیے تقدیر جو بھی تھی

    آیا اور اک نگاہ میں برباد کر گیا
    ہم اہلِ انتظار کی جاگیر جو بھی تھی

    قدریں جو اپنا مان تھیں، نیلام ہو گئیں
    ملبے کے مول بک گئی تعمیر جو بھی تھی

    طالب ہیں تیرے رحم کےعدل کے نہیں
    جیسا بھی اپنا جُرم تھا، تقصیر جو بھی تھی

    ہاتھوں پہ کوئی زخم نہ پیروں پہ کچھ نشاں
    سوچوں میں تھی پڑی ہُوئی، زنجیر جو بھی تھی

    یہ اور بات چشم نہ ہو معنی آشنا
    عبرت کا ایک درس تھی تحریر جو بھی تھی

    امجد ہماری بات وہ سُنتا تو ایک بار
    آنکھوں سے اُس کو چومتے تعزیر جو بھی تھی

    امجد اسلام امجد
     
  18. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    دامِ خوشبو میں گرفتار صبا ہے کب سے
    لفظ اظہار کی اُلجھن میں پڑا ہے کب سے

    اے کڑی چُپ کے در و بام سجانے والے
    منتظر کوئی سرِ کوہِ ندا ہے کب سے

    چاند بھی میری طرح حُسن شناسا نکلا
    اُس کی دیوار پہ حیران کھڑا ہے کب سے

    بات کرتا ہوں تو لفظوں سے مہک آتی ہے
    کوئی انفاس کے پردے میں چھپا ہے کب سے

    شعبدہ بازی ٔآئینہ ٔاحساس نہ پوچھ
    حیرتِ چشم وہی شوخ قبا ہے کب سے

    دیکھئے خون کی برسات کہاں ہوتی ہے
    شہر پر چھائی ہوئی سُرخ گھٹا ہے کب سے

    کور چشموں کے لئے آئینہ خانہ معلوم!
    ورنہ ہر ذرہ ترا عکس نما ہے کب سے

    کھوج میں کس کی بھرا شہر لگا ہے امجد
    ڈھونڈتی کس کو سرِ دشت ہوا ہے کب سے

    امجد اسلام امجد
     
  19. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارا ہے
    تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارا ہے

    کسی چراغ میں ہم ہیں کسی کنول میں تم
    کہیں جمال ہمارا کہیں تمہارا ہے

    وہ کیا وصال کا لمحہ تھا جس کے نشے میں
    تمام عمر کی فرقت ہمیں گوارا ہے

    ہر اک صدا جو ہمیں بازگشت لگتی ہے
    نجانے ہم ہیں دوبارا کہ یہ دوبارا ہے

    وہ منکشف مری آنکھوں میں ہو کہ جلوے میں
    ہر ایک حُسن کسی حُسن کا اشارا ہے

    عجب اصول ہیں اس کاروبارِ دُنیا کے
    کسی کا قرض کسی اور نے اُتارا ہے

    کہیں پہ ہے کوئی خُوشبو کہ جس کے ہونے کا
    تمام عالم ِموجود استعارا ہے

    نجانے کب تھا! کہاں تھا مگر یہ لگتا ہے
    یہ وقت پہلے بھی ہم نے کبھی گزارا ہے

    یہ دو کنارے تو دریا کے ہو گئے ، ہم تم!
    مگر وہ کون ہے جو تیسرا کنارا ہے

    امجد اسلام امجد
     
  20. شانی
    آف لائن

    شانی ممبر

    شمولیت:
    ‏18 فروری 2012
    پیغامات:
    3,129
    موصول پسندیدگیاں:
    241
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    بہت اچھے ۔
     
  21. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جاناں
    سر بہ زانو ہے کوئی سر بگریباں جاناں

    ہم بھی کیا سادہ تھے ہم نے بھی سمجھ رکھا تھا
    غم دوراں سے جدا ہے غم جاناں جاناں

    ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے
    ہر کوئی اپنے ہی سائے سے ہراساں جاناں

    جس کو دیکھو وہی زنجیر بہ پا لگتا ہے
    شہر کا شہر ہوا داخل زنداں جاناں

    اب ترا ذکر بھی شاید ہی غزل میں آئے
    اور سے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں

    ہم کہ روٹھی ہوئی رت کو بھی منا لیتے تھے
    ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں

    ہوش آیا تو سبھی خواب تھے ریزہ ریزہ
    جیسے اڑتے ہوئے اوراق پریشاں جاناں

    احمد فراز
     
  22. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    اُس کے حصارِ خواب کو مت کربِ ذات کر
    اُس خوشبوئے خیال کو تُو کائنات کر

    دل کب تلک جدائی کی شامیں منائے گا؟
    میری طرف کبھی تو نسیمِ حیات کر!

    میں اک طویل راستے پر ہوں کھڑی ہوئی
    یا حبسِ تیرگی لے یا ہاتھوں میں ہات کر

    پہلے تو کھول بند قبا زندگی کے تُو
    پھر اوس میں بھگو کے اُسے پات پات کر

    دھیمے سُروں میں چھیڑ کے پھر سازِ زندگی
    تُو میرے لہجے میں بھی کبھی مجھ سے بات کر

    وہ ہجرتیں ہوں، ہجر ہو یا قصّۂ وصال
    آ پھر سے میرے نام سبھی واقعات کر

    پیروں سے اُس کے نام کے رستے لپٹ گئے
    اب تو یقیں کے شہر میں ناہید رات کر

    ناہید ورک
     
  23. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    بہار آمیز یہ موجِ صبا کچھ اور کہتی ہے
    مگر ہر سُو اداسی کی فضا کچھ اور کہتی ہے

    خزاں کے موسموں کا زرد پتّہ ہو گیا ہے دل
    تو کیوں مجھ سے ہواؤں کی نوا کچھ اور کہتی ہے؟

    دھنک کے رنگ بکھرے ہیں مرے چاروں طرف تو کیوں؟
    مرے سوکھے گلابوں کی صدا کچھ اور کہتی ہے

    مرے سر پر چمکتا آسماں ہے تیری قُربت کا
    ستاروں سے مگر خالی ردا کچھ اور کہتی ہے

    یقیں سے بے یقینی کا سفر بھی طے کیا میں نے
    مگر پھر بھی ترے دل کی رضا کچھ اور کہتی ہے

    مرا بے ساختہ پن سب ادھورا رہ گیا ناہید
    مری خاموشیوں کی اب صدا کچھ اور کہتی ہے

    ناہید ورک
     
  24. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    بہت خوب ۔ بہت اعلی
     
  25. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    زاوئیے کیا کیا بکھر کر چشم تر میں رہ گئے
    دیکھنے والے مگن ، کار ہنر میں رہ گئے

    گر چکا پردہ ، سبھی کردار رخصت ہو چکے
    پھر بھی کچھ منظر کف تمثیل گر میں رہ گئے

    خستگان منزل حرف و معانی , کیا کہیں
    کچھ سفر میں اور کچھ سطر سفر میں رہ گئے

    گندھ گئے مٹی میں لیکن چاک تک پہنچے نہیں
    نقش در کف تھے ، سو دست کارگر میں رہ گئے

    خاک یوں بکھری مرے شوق سفر آغاز کی
    فاصلے سارے سمٹ کر، بال و پر میں رہ گئے

    حامد یزدانی
     
  26. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    کھو گیا تھا راہبر میرے بغیر
    کس کو تھی اتنی خبر میرے بغیر

    کشتہ ظلمت تھا میں ہی دہر میں
    کیوں ہوئی یارب سحر میرے بغیر

    میرے ہوتے تھے یہی برگ و شجر
    ہیں وہی شمس و قمر میرے بغیر

    اب کہاں وہ لطف طولانی شب
    داستاں ہے مختصر میرے بغیر

    تیرا نالہ، بلبل شوریدہ سر
    کس طرح کرتا اثر میرے بغیر

    جو رہا کرتا تھا میرے ساتھ ساتھ
    پھر رہا ہے دربدر میرے بغیر

    ویراں ویراں گلیاں، اجڑے اجڑے گھر
    سونے سونے ہیں نگر میرے بغیر

    ساز ہیں ٹوٹے ہوئے، نغمے اداس
    چپ ہیں اب دیوار و در میرے بغیر

    رہروان وقت سے پوچھ اے روی
    جا رہی ہیں اب کدھر میرے بغیر
     
  27. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    واہ۔ کیا کہنے۔
     
  28. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    در قفس سے پرے جب صبا گزرتی ہے
    کسے خبر کہ اسیروں پہ کیا گزرتی ہے

    تعلق کبھی اس قدر نہ ٹوٹے تھے
    کہ تیری یاد بھی دل سے خفا گزرتی ہے

    وہ اب ملے بھی تو ملتا ہے اس طرح جیسے
    بجھے چراغوں کو چھو کر ہوا گزرتی ہے

    فقیر کب کے گئے جنگلوں کی سمت مگر
    گلی سے آج بھی ان کی صدا گزرتی ہے

    یہ اہلِ ہجر کی بستی ہے ، احتیاط سے چل
    مصیبتوں کی یہاں انتہا گزرتی ہے

    بھنور سے بچ تو گئیں کشتیاں مگر اب کے
    دلوں کی خیر کہ موجِ بلا گزرتی ہے

    نہ پوچھ اپنی انا کی بغاوتیں محسن
    درِ قبول سے بچ کر دعا گزرتی ہے



    محسن نقوی ​
     
  29. اوجھڑ پینڈے
    آف لائن

    اوجھڑ پینڈے ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جنوری 2012
    پیغامات:
    30
    موصول پسندیدگیاں:
    10
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    پتھر سُلگ رہے تھے کوئی نقشِ پا نہ تھا
    ہم اُس طرف چلے تھے جدھر راستہ نہ تھا

    پڑچھائیوں کے شہر کی تنہائیاں نہ پُوچھ
    اپنا شریکِ غم کوئی اپنے سِوا نہ تھا

    یوں دیکھتی ہے گُم شدہ لمحوں کے موڑ سے
    اُس زندگی سے جیسے کوئی واسطہ نہ تھا

    چہروں پہ جم گئی تھیں خیالوں کی اُلجھنیں
    لفظوں کی جُستجو میں کوئی بولتا نہ تھا

    خُرشید کیا اُبھرتے دل کی تہوں سے ہم
    اِس انجمن میں کوئی سحر آشناء نہ تھا
     
  30. شانی
    آف لائن

    شانی ممبر

    شمولیت:
    ‏18 فروری 2012
    پیغامات:
    3,129
    موصول پسندیدگیاں:
    241
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غزلیں

    نہ ولولے وہ رہے اور نہ وہ زمانہ رہا
    سماں حیات کا لیکن صدا سہانا رہا

    غزل حرام ہوئی اور حسن پر لگے پہرے
    میرا مزاج مگر پھر بھی شاعرانہ رہا

    خدا بھی مان لیا،بندگی بھی کی اسکی
    تعلق اس سے مگر اپنا غائبانہ رہا

    لکھا ہوا تھا میرا ماضی جس کے تنکوں پر
    میری اڑان میں حائل وہ آشیانہ رہا

    پروں کے ڈھیڑ لگے ہیں وہاں وہاں اب بھی
    جہاں جہاں کسی پنچھی کا آشیانہ رہا

    کہیں کہیں کوئی راحت ،کہیں کہیں کوئی زخم
    میرے نصیب کا منظر وئی پرانا رہا

    قتیل ترک مراسم وہ کر گیا پھر بھی
    سلوک اسکا میرے ساتھ دوستانہ رہا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں