1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

6 ستمبرکاسبق۔قومی اتحاد

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏6 ستمبر 2009۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    6 ستمبر کا سبق … قومی اتحاد اور سلطانی ٔ جمہور

    پاکستانی قوم آج (6 ستمبر) یوم دفاع پاکستان منا رہی ہے‘ 1965ء میں آج کے دن بھارت نے لاہور پر بزدلانہ حملہ کرکے پاکستانی قوم کو للکارا تھا‘ جس کا دندان شکن جواب ملنے پر بھارت نے 23 ستمبر کو سلامتی کونسل کی طرف سے سیزفائر کی قرارداد قبول کرلی۔
    1965ء میں پاکستان پر اگرچہ ایک فوجی آمر فیلڈ مارشل ایوب خان کا قبضہ تھا اور ملک میں پہلا مارشل لاء لگانے والے اس آمر نے 1965ء کے صدارتی انتخاب میں قائداعظم کی ہمشیرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کیخلاف دھاندلی کا مذموم ارتکاب کرکے قوم کی نفرت مول لی تھی مگر قائداعظم نے تحریک پاکستان کے دوران جس مسلم قوم کا تشخص اجاگر کیا تھا‘ وہ بدستور موجود تھا‘ قوم اپنے دفاع‘ سلامتی‘ آزادی اور خودمختاری کے بارے میں حد درجہ حساس تھی اور بھارت کیساتھ دوستی‘ تجارت اور ثقافتی رشتوں کا راگ الاپنے والے سیاست دان‘ سابق فوجی جرنیل‘ دانشور اور قلمکار منظر عام پر نہیں آئے تھے۔ پاک فوج کی قیادت بھی اپنے سیاسی عزائم کے باوجود دفاع وطن کے علاوہ اپنے دیرینہ دشمن کے حوالے سے یکسو تھی اس لئے جب ایوب خان نے کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے قوم کو پکارا اور دشمن کو للکارا تو پوری قوم پاک فوج کی پشت پر کھڑی ہو گئی اور ایک مسلم ریاست کو خطرہ میں دیکھ کر پوری دنیا کے مسلمان بھی تڑپ اٹھے۔ چنانچہ جہاں ملک میں خیبر سے راس کماری تک قوم نے متحد ہو کر یہ جنگ لڑی‘ وہاں ریاض سے جکارتہ تک اور استنبول سے کاسابلانکا تک پورے عالم اسلام نے بھی دامے‘ درمے‘ سخنے پاکستان کی مدد کی حتٰی کہ ایران‘ انڈونیشیا اور دیگر ممالک نے پاکستان کی فوجی امداد بھی کی‘ جو لوگ آج ڈھٹائی سے یہ کہتے ہیں کہ کونسی امہ اور کہاں کا عالم اسلام۔ وہ 1965ء کو بھول جاتے ہیں‘ جب امہ نے بحیثیت مجموعی ایک اسلامی ریاست کی مدد کی اور بھارت کو شکست فاش سے دوچار کرنے میں اپنے برادر اسلامی ملک کو حوصلہ دیا۔ چین جیسے دیگر آزمودہ دوستوں نے جو مثالی کردار ادا کیا‘ وہ اپنی جگہ قابل ذکر ہے۔
    بدقسمتی یہ ہوئی کہ اتنا بڑا معرکہ لڑنے کے بعد ہم امریکی چال میں آکر اپنے دشمن کے فوجی حلیف سوویت یونین کی ثالثی قبول کرنے پر آمادہ ہو گئے اور تاشقند میں بچھائی جانے والی سیاسی بساط پر ایوب خان ساری فوجی کامرانیاں ہار بیٹھا۔ اس کے علاوہ غیرسیاسی حکمران نے مسئلہ کشمیر کو باہمی تنازعہ مان لیا‘ جو مذاکرات سے حل کیا جا سکتا ہے حالانکہ اسے حل کرانا اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی ذمہ داری تھی‘ جو ادا نہ ہونے کی وجہ سے نوبت جنگ تک پہنچی۔ اندرون ملک قوم کے اتحاد کو برقرار رکھنے کیلئے بھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی‘ الٹا اعلان تاشقند کی وجہ سے اختلاف اور انتشار بڑھا اور مشرقی پاکستان کو پہلی بار احساس ہوا کہ بھارت کی جارحیت کی صورت میں پاکستان کے حکمران اور فوجی جرنیل مشرقی حصے کا دفاع کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ بھارت نے 1965ء کی شکست کا بدلہ لینے کیلئے بھرپور منصوبہ بندی کی‘ پاکستان میں سیاسی‘ مذہبی‘ لسانی‘ نسلی اختلافات ابھارنے اور افراتفری پیدا کرنے کیلئے مشرقی اور مغربی پاکستان کو ایک دوسرے کے مدمقابل لاکھڑا کیا جبکہ مشرقی پاکستان میں ایک مخصوص اقلیت کے بھارت نواز عناصر کو احساس محرومی کے نام پر پاکستان کیخلاف منفی پروپیگنڈے کیلئے مامور کیا۔ 1965ء کی انتخابی دھاندلی اور معاہدہ تاشقند کی وجہ سے عوام پہلے ہی مشتعل تھے‘ ایوبی آمریت کے عشرہ ترقی کی لغو تقریبات نے انہیں مزید غصہ دلایا اور ملک طوائف الملوکی کی زد میں آگیا۔ دس سالہ فوجی آمریت کی وجہ سے پاک فوج بھی یکسو نہ رہی اور رہی سہی کسر ملک کے بدکردار فوجی حکمران نے مشرقی پاکستان میں فوجی اپریشن کے ذریعے پوری کر دی۔
    آج قوم یوم دفاع پاکستان اس حالت میں منا رہی ہے کہ قومی اتحاد ایک بار پھر مفقود ہے‘ پاک فوج ایک بار پھر سوات اور وزیرستان میں فوجی آپریشن کر رہی ہے۔ فوجی آپریشن اور نواب اکبر خان بگتی کے بہیمانہ قتل کے بعد بلوچستان میں ملک سے علیحدگی کے نعرے علی الاعلان لگ رہے ہیں۔ ججوں کی بحالی کے مسئلہ پر قومی اتحاد کا عظیم الشان مظاہرہ ہوا اور توقع تھی کہ اس قومی اتحاد کو آئین سے بدنام زمانہ سترھویں ترمیم کے خاتمے اور پرویز مشرف کے آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل کیلئے استعمال کیا جائیگا تاکہ ملک میں جمہوریت پروان چڑھے‘ قومی ادارے مستحکم ہوں اور ہم تعمیر و ترقی کا سفر کامیابی سے طے کر سکیں۔ اس قومی اتحاد کا فائدہ اٹھا کر امریکہ کی بڑھتی ہوئی مداخلت‘ اسلام آباد میں بلیک واٹر تنظیم کے اہلکاروں اور میرینز کی تعیناتی اور ڈرون حملوں کو روکنے کی کوشش کی جائیگی کیونکہ اسکی وجہ سے پاکستان کی آزادی‘ خودمختاری‘ سلامتی اور سٹریٹجک اثاثوں کیلئے خطرات میں سنگین اضافہ ہو گیا ہے اور حد یہ ہے کہ آزمودہ دوست چین نے پاکستان میں امریکی سفارت خانے میں توسیع اور میرینز کی تعیناتی پر اعتراض کیا ہے لیکن ہمارے حکمران بالخصوص صدر‘ وزیراعظم اور وزیر داخلہ صفائیاں پیش کر رہے ہیں مگر یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ مشکوک کردار کے بعض سابق فوجیوں کے بیانات کے ذریعے قومی اتحاد کو ایک بار پھر پارہ پارہ کیا جا رہا ہے‘ ملک کی دو مقبول سیاسی جماعتوں کے مابین محاذ آرائی شروع ہو گئی ہے اور اہم قومی ایشوز پس پردہ چلے گئے ہیں۔ 1971ء میں بھارت نے ایسی ہی صورتحال کا فائدہ اٹھا کر پاکستان کو دولخت کیا تھا۔
    یوم دفاع پاکستان مناتے ہوئے ہماری سیاسی اور فوجی قیادت کا فرض ہے کہ وہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں ایک طرف تو امریکہ پر انحصار کی موجودہ پالیسی پر نظرثانی کرے‘ کیونکہ 1965ء اور 1971ء میں امریکہ نے طوطا چشمی کا مظاہرہ کیا اور اب بھی وہ بھارت کے ساتھ سول نیوکلیئر معاہدے کے علاوہ جدید مہلک ہتھیاروں کی سپلائی کے ذریعے اپنے عزائم واضح کر چکا ہے۔ وہ بھارت کا دوست اور ساتھی ہے اور خطے میں امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل پر مشتمل شیطانی اتحاد ثلاثہ کا اسلام و پاکستان دشمن ایجنڈا ہے‘ جس کی تکمیل وہ ہمارے ہاتھوں کرانا چاہتا ہے۔ پاکستان اسکی مقبوضہ کالونی نہیں مگر وہ موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر ہمیں افغانستان کی سطح پر ٹریٹ کررہا ہے۔ افپاک کی اصطلاح اسی سلسلے کی کڑی ہے جس پر چین نے بھی تنقید کی ہے۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کا یہ بھی سبق ہے کہ فوجی حکمرانی ملک و قوم کیلئے تباہ کن ہے اور اسکی وجہ سے 90 لاکھ فوجیوں کو دشمن کے سامنے سرنگوں ہونا پڑتا ہے۔ سیاست دانوں کی باہمی لڑائیوں اور ملک میں لسانی‘ نسلی‘ فرقہ وارانہ تعصبات کا فائدہ ہمیشہ دشمن نے اٹھایا ہے جبکہ فوجی آپریشن خواہ کتنی ہی نیک نیتی سے کیا جائے‘ کسی مسئلہ کا حل نہیں الٹا نفرت‘ اشتعال اور انتقامی جذبہ ملکی سلامتی کیلئے تباہ کن ثابت ہوتا ہے لہٰذا اب بھی سیاسی اور قومی قیادت کو اپنی سیاسی اور دفاعی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہئے‘ فوجی حکمرانی کا راستہ روکنے کیلئے آئین کی حکمرانی اور قانون کی بالادستی کا اہتمام کیا اور آزاد خارجہ پالیسی کے ذریعے امریکہ و بھارت کے ساتھ برابری کی سطح پر معاملات طے کئے جائیں۔ دہشت گردی کیخلاف امریکی جنگ سے نکلے بغیر نہ تو ہم ملک میں استحکام لا سکتے ہیں اور نہ آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل ممکن ہے۔ آئین کی بالادستی کو یقینی بنانے میں بھی یہ جنگ رکاوٹ ہے کیونکہ امریکہ پاکستان میں آئین کی حکمرانی اور جمہوریت کا استحکام ہرگز نہیں چاہتا۔ پاکستان 1971ء سے اب تک بھارتی جارحیت سے محض اس لئے محفوظ رہا کہ اس نے امریکی دشمنی مول لے کر ایٹمی و میزائل صلاحیت حاصل کرلی اور ایٹمی ڈیٹرنس نے بھارت کو جارحیت سے باز رکھا لہٰذا ایٹمی و میزائل پروگرام کو ترقی دینے کیلئے مزید اور موثر اقدامات کئے جائیں۔ 1965ء کی جنگ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے ہوئی اور پاکستان و بھارت میں اصل تنازعہ مسئلہ کشمیر ہے‘ اس لئے سیاسی اور فوجی قیادت کو یکسو ہو کر مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرانے کیلئے سیاسی‘ سفارتی اور دیگر اقدامات میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے اور بھارتی دبائو کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے تاکہ پاکستان کی شہ رگ پر دشمن کا قبضہ ختم ہو اور ہم بھارتی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکیں۔ یہی 6 ستمبر کا سبق ہے۔

    بشکریہ نوائے وقت ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں