1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

11مئی الیکشن۔وہ ظالمانہ نظام، وہی لٹیرے چہرے۔ڈاکٹر طاہرالقادری کا کھینچا ہوا نقشہ سچا ثابت ہوا۔

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏12 مئی 2013۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    11مئی الیکشن۔وہ ظالمانہ نظام، وہی لٹیرے چہرے۔ڈاکٹر طاہرالقادری کا کھینچا ہوا نقشہ سچا ثابت ہوا۔
    11مئی 2013 پاکستان کی تاریخ کا ایک اور سیاہ دن۔

    پاکستانی قوم کو تین تین ، چار چار اور پانچ پانچ بارآزمودہ کرپٹ سیاستدانوں کو پھر سے حکمران منتخب کرنے۔۔۔ اور پھر سے ظالموں، بدعنوانوں اور بدقماشوں کو اپنی تقدیر کا مالک بنانے پر مبارکباد !!!

    ڈاکٹر طاہرالقادری 23دسمبر2012 سے انہی نتائج سے آگاہ کرتے آرہے تھے اور یہی انکا مطالبہ تھا کہ آئینی اصلاحات کے ذریعے پہلے ان کرپٹ، بدعنوان ، قرضہ خوروں اور ٹیکس چوروں کو نااہل قرار دے دیا جائے تاکہ اعلی تعلیم یافتہ، ایماندار اور محب وطن قیادت آگے سکے۔۔ لیکن لگتا ہے پاکستانی قوم کی ظلم و ستم سہ سہ کر بھی تشفی نہیں ہوئی۔ اس لیے اگلے پانچ سالوں کے لیے پھر سے انہی بدعنوانوں کی غلامی قبول کر چکے ہیں۔
    11مئی 2013 پاکستان کی تاریخ کا ایک اور سیاہ دن۔

    ڈاکٹر طاہرالقادری نے عین یہی نقشہ بہت پہلے کھینچ کر دکھا دیا تھا ۔

     
    محبوب خان، ملک بلال، سین اور 3 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    نعیم بھائی ہم نے کوئی متبادل راستہ اختیار نہیں کیا جس کے ذریعے حکومت کو تشکیل دیا جاسکے۔
    اور موجودہ نظام کو بھی اس کی اصل سپرٹ میں نہیں نافذ کیا گیا۔ (مطلب امیدوار کی شخصیت کو باکردار ہونا)۔
    اور اس کے علاوہ ہمارے ہاں کبھی مارشل لاہ، کبھی بلدیاتی نظام اور کبھی پارلیمانی نظام مگر کوئی بھی ایک نظام مستحکم نہیں ہونے دیا۔ اور خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکا۔۔۔۔۔۔
     
    محبوب خان اور ملک بلال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    عوام کے منتخب نمائندوں کو جمہوری طریقے سے منتخب ہونے پر مبارک باد
    تبدیلی لازمی بلکہ بے حد ضروری ہے مگر موجودہ آئین کے تحت جو طریقہ کار موجود ہے وہی بہتر اور مناسب ہے ، اور آئین کی تبدیلی کا طریقہ کار بھی آئین میں موجود ہے ۔
     
    محبوب خان اور ملک بلال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    میرے خیال میں الیکشن کا دورانیہ ایک دن نہایت پرخطر ہے خصوصا ہمارے جیسے قانون شکن معاشرے میں۔ اسے مختلف دنوں اور مختلف علاقوں میں منعقد ہونا چاہیے تاکہ بااختیار اہلکار اپنی ڈیوٹی احسن طریقے سے نباہ سکیں اور امن و امان کی صورت حال پر بھی کنٹرول رہے۔۔۔
    ہمیں بلدیاتی نظام سوٹ کرتا ہے جو مقامی حکومت کی بنیاد پر مقامی لوگوں کے مسائل حل کرے۔
    اور پارلیمانی نظام میں فیڈریشن کو متحد رکھنا، داخلی اور بیرونی معاملات کیلئے پالیسی وضح کرنا قانون سازی کرنا شامل ہوں۔
     
    محبوب خان، ملک بلال اور نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    گویا ہم اس پر متفق ہوچکے ہیں کہ ان مٹھی بھر جاگیرداروں، سرمایہ داروں ، کرپٹ قرضہ خوروں اور ٹیکس چوروں کو ہی حقِ حکمرانی ہے
    اور ہم 18-19 کروڑ عوام کو اور ہماری آئندہ نسلوں کو انہی کی غلامی کا دم بھرنا ہے۔
    یہ خود کروڑوں اربوں روپے غبن کرکے اس میں ایک جنگلہ بس بنا کر واویلا کردیں تو ہم اسی پر مطمئن۔
    ہم ڈگری یافتہ ہو جائیں یا ہمارے بچے ڈگری یافتہ ہوجائیں تو ہم پھر سے نوکریاں لینے کے لیے انہی کے در پر بھکاری؟
    یہ وڈیرے بدقماش گاؤں ، دیہاتوں میں جب چاہیں ہماری ماوں بہنوں کی عزتوں سے کھیلتے رہیں اور ہم دم سادھے ان کے "طاقتور" ہونے کا رونا روتے رہیں؟
    کیا ہم واقعی اتنے بےوقوف ہیں کہ یہ سرمایہ دار، یہ زرداری، یہ تماشہ گر جب چاہیں ، چند تماشے کرکے ہمیں سبز باغ دکھا کر ہم سے ایک پرچی وصول کرکے جمہوریت کا ذپ ہمارے منہ پر لگا کر ہمارا منہ بند کردیا جائے۔ اور ہم 5 سال پھر سے انکی عیاشیوں اور اپنی محرومیوں کا تماشا دیکھ دیکھ کر جمہوریت کا جشن مناتے رہیں؟

    ہم یہ تسلیم کرنے پر کیوں تیار نہیں کہ الیکشن آئین کے مطابق نہیں ہوئے؟
    عدلیہ نے جعل سازوں، ٹیکس چوروں، قرضہ خوروں کو تحفظ دے کرایوان اقتدار میں پہنچایا۔
    سٹیٹ بنک نے قرضہ خوروں کی بروقت لسٹیں جاری نہ کرکے عوام کو بےوقوف بنایا۔
    الیکشن کمیشن نے آئیں کا مذاق اڑایا ۔۔ اور یہ سب جج تھے۔۔ یہ سب قانون دان تھے۔
    الیکشن کے دن ہر ممکن دھاندلی کی گئی ۔ جس کی تفصیلات منظر عام پر آبھی چکی اور کچھ آبھی رہی ہیں۔
    میڈیا کو خرید کر اس الیکشن کے جائز ہونے اور اس دھاندلی، دھونس اور کرپٹ افراد کے چناو ہی کو "جمہوریت" ثابت کیا گیا۔
    اے پاکستانیو ! یہ سب جمہوریت نہیں۔ یہ جمہوری تماشا ہے۔

    خدا کے لیے کم از کم حضرت اقبال رح کے پیغام کو تو سمجھیں۔
    ہے وہی سازِ کہن، مغرب کا جمہوری نظام
    جس کے پردوں میں نہیں غیرازنوائے قیصری
    دیو استبداد "جمہوری قبا " میں پائے کوب
    تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے کوئی نیلم پری
    گرمئی گفتارِ اعضائے مجالس ، الاماں !
    یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگِ زرگری
     
  6. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    مگر دوسرا راستہ ایسا ہے جس میں مصلحتوں سے بالاتر ہوکر کسی ایک کو سر پر کفن باندھ کر نکنا ہوگا اور پھر پروانوں کو ازخود ہی اپنا چلن یاد آجائے گا۔۔۔۔

    مگر مہذب معاشروں میں اس راستے میں بہت بڑی بڑی رکاوٹیں حائل ہوسکتی ہیں۔

    کیوں نا کچھ دیر صبر کیا جائے اور دیکھیں سیاست کی بساط کیا رخ اختیار کرتی ہے۔

    قوم جاگ چکی ہے۔ کچھ نا کچھ تبدیلی ضرور آئے گی۔۔۔۔۔

    ہمارا ملک اس وقت عالمی سیاست اور معاشی چالبازیوں کے شکنجے میں ہے۔۔۔۔۔۔

    بہت صبر اور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔۔۔۔

    ہمیں کسی بھی تباہی اور بربادی کے بارے میں قطعا نہیں سوچنا چاہیے۔۔۔۔

    انشاءاللہ بہت بہتری ہوگی انشاءاللہ۔

    وہ وقت دور نہیں جب ہم اپنے ملک کے وقار کی بحالی دیکھیں گے۔۔۔۔
     
    محبوب خان اور ملک بلال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    موجودہ حالات میں عیاں ہوگیا کہ تمام پارٹیاں ایک ہی تھالی کے چٹے وٹے ہیں۔
    کل ہی مولانافضل الرحمان عمران خان صاحب کے ہیوی مینڈیٹ کو نیچا دکھانے کے لئے نواز شریف صاحب کو کیاکیا مشورے دیتے رہے۔
    یہ مولانا بی بی کی حکومت کے دوران سرکاری خرچے پر اپنے ہارٹ کا علاج غیر ملک سے کروا کرلوٹے۔۔۔۔۔۔(صداقت اور امانت کہاں ہے)۔
    نواز شریف صاحب کی حمایت میں اتنے ووٹوں کا کاسٹ ہونا ہمارے انتخابی نظام کے بودے پن کا نتیجہ ہے۔
    عمران خان صاحب کے سونامی کو ختم تو نا کرسکے دشمن مگر ان کو جائز ووٹ نا ملنے دیئے۔۔۔۔کراچی میں واضح طور پر لوگ عمران خان کو ووٹ ڈالنے کے لئے لائنوں میں کھڑے رہے مگر ووٹنگ شروع ہی نہ ہوئی۔
    کیا اسے شفاف انتخابات کا نام دیا جاسکتا ہے؟ مگر یہ واضح ہوگیا کہ ہمارے ہاں برائی اتنے عروج پر ہے کہ انصاف، عدل، حق، سچ، شفافیت، عملی طور پر ناپید ہوچکے ہیں۔
    حالات کس ڈگر رخ اختیار کرتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ مگر ہماری آزمائش کا دور ابھی تک جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    میری ذاتی رائے یہ ہے کہ نواز شریف صاحب کے لئے ہم سے بھی بڑی آزمائش کا آغازہوچکا ہے اور ان کے لئے اپنے وعدوں پر قائم رہنا بہت ضروری ہے اور بنیادی مسائل کے سدباب کے لئے عملی اقدامات اٹھانا از بس ضروری ہے کہ لوگ ان کی آمد کی توقع نہیں کررہے تھے اور اگر انھوں نے اپنے وعدوں پر عمل نہ کیا تو ان کے لئے 5 برس مکمل کرنا ناممکن ہوجائے گا۔

    عمران خان صاحب فائٹر ہیں وہ اپوزیشن کا کردار ادا کریں تاکہ عوام کو ریلیف ہو۔۔۔۔۔۔۔

    اللہ کرم اللہ کرم۔۔۔۔۔۔
     
    محبوب خان اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:


    نعیم بھائی ! میں آپ کی اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ موجودہ نظام میں بہت زیادہ خرابیاں پیدا کر دی گئی ہیں ، اور تبدیلی ضروری ہے ،اور اس کے لیے موجودہ آئین میں بہت زیادہ تبدیلیاں کرنی ہو نگی بلکہ میں تو سمجھتا ہون کہ ہمین ایک بلکل نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے ، مگر چونکہ فل حال ہمارے پاس ایک آئین موجود ہے اور جب تک اُسے اُسے آئینی طریقے سے تبدیل یا اُس میں ترمیم نہ کی جائے ہمیں اسی آئین کو ماننا ہے ، یہ ہماری قومی ذمہ داری ہے ، اور موجودہ آئین کسی سرمایا دار ، کسی جاگیردار یا کسی بھی شخص کو عوامی عہدے پر منتخب ہونے سے نہیں روکتا ، موجودہ آئین عوامی حق رائے دہی کے زریعے اسمبلیوں میں پہنچنے والوں کو حق حکومت دیتا ہے ۔ یہ تو اب ہم عوام کا کام ہے نا کہ وہ بہتر لوگوں کو منتخب کریں ۔ یا پھر اُن رہنماؤں کا کہ جو تبدیلی لانے کی بات کرتے ہین کہ وہ عوام میں شعور پیدا کریں ، وہ آئینی طریقے سے بہتر لوگوں کو اسمبیلوں میں بھیجیں اور پھر جو بھی تبدیلی کرنی ہے وہ کریں ۔
    میں کسی کے عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کروں یا نہ کروں مگر یہ تو سچ ہے کہ عوام نے ہی یہ کرپٹ یا برے لوگ ایوانوں تک پہنچائے ہیں ، اور پھر یہ بھی یاد رہے تبدیلی کبھی ایک دم نہیں آتی یہ ایک تسلسل ہے اور یہ بتدریج آتی ہے ۔ مجھے اُمید ہے کہ ہم تبدیلی کی راہ پر چل پڑے ہیں ، جلد یا بدیر ہم لوگ اُس نہج پر پہنچ ہی جائینگے کہ جب سیاسی رہنما بہتر لوگوں کو عوام میں لائینگے اور پھر عوام بہتر لوگوں کو منتخب کر کے ایوانوں میں بھیجے گی ۔ پاکستان تبدیل ہو کر رہے گا ۔
     
    محبوب خان اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    ایک بات اور ، اور وہ یہ کہ میں بھی موجودہ جمہوری نظام کو درست نہیں سمجھتا ، مگر میں پر امن اور تسلسل کی تبدیلی کا حامی ہوں ، پرتشدد اور ایک دم کی تبدیلی کبھی دیر پا نہیں ہوتی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ زمانے مین بھی شورائی نظام بہترین نظام حکومت ہے ، مگر اُس کے لیے بھی تبدیلی کا وہی طریقہ کار کہ جو میں اوپر بیان کر چکا ہوں ، یعنی آئین میں رہتے ہوئے آئینی اداروں کے زریعے ہی نظام تبدیل کیا جائے ۔
    نوٹ : - تحریک طالبان پاکستان ( ظالمان ) بھی جمہوریت کو نہین مانتے مگر وہ پاکستان کے آئین کو بھی نہین مانتے اور پر تشدد طریقے سے تبدیلی چاہتے ہیں ۔
     
    نعیم اور نذر حافی .نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    آصف بھائی ۔ آپکے خیالات درست ہیں۔ تبدیلی ہی بہرحال ہمارے مسائل کا حل ہے۔ مگر وہ تبدیلی چہروں کی نہیں ۔ نظام کی تبدیلی ہے۔
    میرے خیال میں جب نظام کی بات کی جاتی ہے تو اس میں "آئین پاکستان" شامل نہیں ہوتا۔ بلکہ آئین پر عمل درآمد Implementationکی راہ میں رکاوٹ وہ نظام ہے جس میں حالیہ تجربے کے تحت واضح ہوچکا ہے کہ عدلیہ، الیکشن کمیشن، سٹیٹ بنک آف پاکستان، نیب ، بیوروکریسی اور بکاؤ میڈیا جیسے ادارے دراصل مل کر ایسا نظام تشکیل دے چکے ہیں جس میں کرپٹ افراد ہی بذریعہ طاقت، بدمعاشی، فراڈ اور پراپیگنڈہ ایوان اقتدار تک پہنچتے ہیں۔
    بلاشبہ جاگیردار یا سرمایہ دار ہونا کوئی جرم نہیں ۔ اور جاگیردار یا سرمایہ دار کا اسمبلی میں پہنچنا بھی جرم نہیں۔
    لیکن کرپٹ سرمایہ دار ۔ جو قومی خزانے اور قومی بنکوں کے 4-4 ارب روپے ہڑپ کرکے سرمایہ دار بنا ہو اور اربوں کی جائیدادیں رکھنے کے باوجود ٹیکس چوری کرتا ہو۔ ایسا جاگیردار جو اپنے مزارعوں کے لیے خدا بنا بیٹھا ہو ۔ زرعی انکم پر ٹیکس چوری کرتا ہو ۔ ایسا صنعت کار جو کروڑوں روپے قرضے لے کر صنعتیں بنائے اور چند ماہ بعد بنا صنعت لگائے کرپشن کے ذریعے قرضے معاف کروا لے یا ادا ہی نہ کرے۔
    ایسے کسی شخص کو آئین پاکستان کا آرٹیکل 62، 63 اور 218 اسمبلی کا اہل قرار نہیں دیتے۔
    یہی تو ظلم ہوا ہے پاکستانی قوم کے ساتھ ۔ ڈاکٹرطاہرالقادری تنہا اپنے چند لاکھ کارکنوں کے ساتھ اسلام آباد کے منفی ٹمپریچر میں صدائے احتجاج بلند کرتا رہا کہ خدارا میرا ساتھ دو ۔ ہم امن و امان کا مسئلہ پیدا کیے بغیر ، ایک گملہ یا ایک پتہ توڑے بغیر ، صرف آئندہ الیکشن کو آئین پاکستان کی شقوں کے مطابق کروانا چاہتے ہیں۔ مگر تبدیلی والے بھی سہمے سہمے گھروں میں دبکے رہے۔ اسلام کے نعرے لگانے والے بھی اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے رائے ونڈ محل کا طواف کرتے نظر آئے۔ اور ٹی وی اینکروں کے سامنے عوام کے دکھوں کا رونا رونے والے بھی گھروں میں بیٹھے تماشا دیکھتے رہے۔
    اگر اس وقت حکومت وقت، اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ پر واقعی بھرپور عوامی دباؤ ڈال دیا جاتا تو یہی 11 مئی والے الیکشن آئین کے مطابق ہوتے۔ یہ میں نہیں۔ اے آر وائی چینل کے ڈاکٹر دانش، مبشر لقمان، کاشف عباسی ، ہارون اختر خان، شاہین صہبائی سمیت کئی دیگر صحافی و دانشور کہہ چکے ہیں۔ کہ اگر ڈاکٹر طاہرالقادری کا ساتھ دیا جاتا :::
    تو کیا یہ قرضہ خور۔ یہ ٹیکس چور ۔ خود بخود اسمبلی کی سیٹ سے ناہل نہ ہوچکے ہوتے ؟؟؟
    کیا جعلی ڈگریوں والے پھر سے قوم کو بےوقوف بنانے کے لیے الیکشن میں کھڑے ہوپاتے؟؟؟
    کیا (ڈیلی ٹائمزکی رپورٹ کے مطابق) 55 دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث افراد الیکشن میں کھڑے ہوپاتے ؟؟؟
    اگر یہ سب الیکشن سے باہر ہوجاتے
    تو میدان تو اہل، تعلیم یافتہ اور محب وطن افراد ہی کے لیے صاف ہوتا ؟
    ڈاکٹر طاہرالقادری خود اور اپنے پورے خاندان کو تو الیکشن سے باہر رکھنے کا اعلان کرچکا تھا ۔
    لیکن اگر پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف جیسی صاف ستھری جماعتوں کے امیدوار اسمبلی میں پہنچ جاتے تو کیسی خوشگوار تبدیلی آچکی ہوتی؟
    ذرا سوچیے ۔۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے الیکشن سے با ہر رہنے سے عمران خان کے وزارتِ عظمیٰ تک پہنچنے میں کیا رکاوٹ رہ جاتی ؟؟؟
    بلاشبہ مسلم لیگ کے پاس عوامی مینڈیٹ ہے۔ لیکن کتنا ؟ الیکشن سے ایک دن پہلے تک 70-80 سیٹوں کا۔ اور 12 مئی کو 140 سیٹیں ؟
    فرشتے ووٹ ڈال گئے ؟؟؟ جی ہاں ۔ نواز شریف جب بھی جیتا ہے۔ فرشتے ووٹ ڈال جاتے ہیں۔
    ابرار الحق قرآن پر قسمیں کھائے جارہا ہے۔ جہانگیر ترین کے ہاتھ میں جیت کا فیصلہ دے کر اگلے دن اس کی ہار کا اعلان ہوگیا۔
    نیٹ پر اب تو درجنوں کلپس گردش میں ہیں جن میں پولیس والے، الیکشن کمیشن کا عملہ اور کہیں پرمسلح غنڈے بیلٹ پیپر پر ٹھپے لگا لگا کر بکس بھر رہے ہیں ۔۔۔ کیا اس کو قومی مینڈیٹ کہا جائے ؟
    پنجاب میں دوسری مقبول ترین جماعت تحریک انصاف کو کک آؤٹ کرکے اس ایک صوبائی حدود میں مقید کرکے اسے صوبائی جماعت کا درجہ دے دیا گیا۔ مسلم لیگ کو پنجاب کی جماعت بنا دیا گیا۔
    متحدہ قومی موومنٹ جیسی قوم پرست جماعتیں بالآخر چیخ کر کراچی کی علیحدگی کے تقاضے کررہی ہیں۔
    بلوچستان میں محرومی کا احساس مزید کردیا گیا ہے۔
    لیکن میڈیا سوائے مٹھائیاں اور جشن کے مناظر دکھانے کے اور کچھ نہیں دکھا رہا۔ کیونکہ اسکے منہ میں ہڈی ہی یہی دی گئی ہے۔

    پاکستان کا قومی خزانے میں غالبا دو ماہ کے بعد ایک پیسہ بھی نہیں رہے گا۔ قرضوں پہ قرضے اور انکے سود ادا کرنے کے لیے بھی قرضے۔
    کرپٹ حکومتوں کے کرپٹ اور جھوٹے افراد ، جھوٹے اعداد و شمار کے چکر میں قوم کو پھر سے بےوقوف بناتے رہیں گے۔

    یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ موجودہ نظام چند ہزار کرپٹ افراد کا بنایا ہوا ہے۔ اس نظام کے ذریعے وہی چہرے یا انکے خاندان کے چہرے ہی اقتدار تک پہنچنتے ہیں۔ پارٹیاں کوئی بھی ہوجائیں۔ جھنڈے کوئی بھی ہوں۔ لیڈر کوئی بھی ہو۔ پاکستانی پارلیمنٹ کی سیٹیوں پر انہی خاندانوں کی تشریفیں سجتی ہیں۔ اور شریف، اہل، متوسط طبقے کے افراد اس نظام کے ذریعے سوائے ذلت و خجالت کے اور کچھ حاصل نہیں کرپاتے۔ ہم 65 سال سے بالعموم اور گذشتہ 30-35 سال سے بالخصوص انہی کرپٹ اشرافیہ کے ہاتھوں غلامی کی زندگی بسر کیے جارہے ہیں۔ اور اگر ہم نے اس کرپٹ نظام سے بغاوت نہ کی اور آئندہ نسلیں بھی تبدیلی کی امید میں سسک سسک کر دم توڑتی رہیں گی۔

    بلاشبہ میں اس سے بھی متفق ہوں کہ تبدیلی ایک دن میں نہیں آتی ۔ ایک بتدریج عمل ہے۔ لیکن اگر ہمیں لاہور سے کراچی جانا ہے تو کراچی والی ٹرین میں بیٹھ کر ہی امید رکھی جا سکتی ہے کہ ہم بتدریج منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
    ٹرین اگر پشاور والی پکڑی ہو اور امید کراچی کی لگائے بیٹھے رہیں تو یہ "امید" نہیں۔۔ یہ خود فریبی ہے۔
    خود فریبی سے نکل کر ۔۔
    کرپٹ مافیا و اشرافیہ کے بنائے ہوئے اس نظام کو مسترد کرنا ہوگا۔ یہاں سے تبدیلی کا عمل شروع ہوگا۔
     
  11. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    میری درخواست ہے کہ شخصیت کو ایک طرف رکھ کر ٹھنڈے دل سے اس تجزیے کو دیکھیں اور سنیں۔

     
    پاکستانی55 اور ملک بلال .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں