’’ڈر لگتا ہے‘‘ آغاز کے انجام سے ڈر لگتا ہے بے وجہ کے آلام سے ڈر لگتا ہے ہم کسی پر بھی بھروسہ کیسے کریں! اِس دور کے انسان سے ڈر لگتا ہے بیکار ہی کر گئی ہم کو بیماری اب ہمیں تو آرام سے ڈر لگتا ہے تُم جتاتے ہی رہے ہو کر کے احساں سو! تِرے احسان سے ڈر لگتا ہے وہ ہمیں لُوٹے وصل کا لالچ دے کر اب وصل کے پیغام سے ڈر لگتا ہے جو زہر سے بھری ہو ہر دَم سُلطاں ہاں! ہمیں اُس مُسکان سے ڈر لگتا ہے۔ (سُلطاں)
جواب: ’’ڈر لگتا ہے‘‘ ہم کسی پر بھی بھروسہ کیسے کریں! اِس دور کے انسان سے ڈر لگتا ہے تُم جتاتے ہی رہے ہو کر کے احساں سو! تِرے احسان سے ڈر لگتا ہے واہ ۔ بہت خوب سلطان جی زبردست
جواب: ’’ڈر لگتا ہے‘‘ ہم کسی پر بھی بھروسہ کیسے کریں! اِس دور کے انسان سے ڈر لگتا ہے جو زہر سے بھری ہو ہر دَم سُلطاں ہاں! ہمیں اُس مُسکان سے ڈر لگتا ہے۔ سلطان بھائی بہت ہی خوب زبردست کلام ہے :222: کچھ مزید شیئرنگ کریں :hands:
جواب: ’’ڈر لگتا ہے‘‘ ریپلائی کیلئے جزاک اللہ آصف احمد بھٹی جی۔ ڈر اچھی چیز ہے بشرطیکہ ضرورت سے زیادہ حاوی نہ ہو بندے پر۔
جواب: ’’ڈر لگتا ہے‘‘ جو زہر سے بھری ہو ہر دَم سُلطاں ہاں! ہمیں اُس مُسکان سے ڈر لگتا ہے۔ واہ ۔۔کیا کہنے
جواب: ’’ڈر لگتا ہے‘‘ حریم خان جی، بزم خیال جی، اور قاسم کیانی جی! آپ سب دوستوں کی ریپلائیز اور کمینٹس کیلئے جزاک اللہ۔ خوش رہیں آباد رہیں۔