1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

’’پدما وتی‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر : صہیب مرغوب

Discussion in 'متفرقات' started by intelligent086, Sep 3, 2020.

  1. intelligent086
    Offline

    intelligent086 ممبر

    Joined:
    Apr 28, 2013
    Messages:
    7,273
    Likes Received:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    ’’پدما وتی‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر : صہیب مرغوب


    محمد جائسی کی ایک نظم نے راجپوتوں کی سیاست بدل دی

    چھ سو اسی ایکڑ پر محیط قلعہ چھتوڑسیاحوں کی توجہ کا اہم مرکز ہے، علاقے کی تمام سڑکیں اسی قلعہ کی جانب جاتی ہیں ، یہ قلعہ میواڑوں کی حکومت کا صدر مقام رہا ۔یہ راجپوتوں کی عزت و وقار کی علامت ہے۔لیکن ساری توقیر اس قلعے کے ان پڑھ گائیڈوں نے برباد کر دی۔ چند دہائیوں میں انہوں نے ہر آنے جانے والوں کا دل بہلانے کی خاطر قصے کہانیاں اورغیر حقیقی داستانیں بیان کیں۔انہوں نے کئی عشروں سے اسی قلعے میں رانی پدماوتی کا رشتہ علائو الدین خلجی سے جوڑرکھا ہے۔سیاح یہ قصے سنتے ہیں اور گھر چلے جاتے ہیں۔تمام گائیڈز رانی پدماوتی اور خلجی کی ملاقاتوں کے ان دیکھے قصے آنکھوں دیکھی سچی کہانی کی طرح بیان کرتے ہیں۔
    ملاقات کیسے ہوئی؟ گائیڈ سب کچھ بتاتا ہے کہ کس طرح علائو الدین خلجی نے پانی اور شیشے میں رانی جی کا عکس دیکھا۔دوسرا گائیڈ کہتا ہے ۔۔۔ نہیں، پانی میں نہیں، سایہ تو شیشے میں دیکھا۔وہ کمرے کے نزدیک کھڑی تھی ، تب خلجی نے دیکھا۔ایک گائیڈ کہنے لگا ۔۔۔'' رانی جی کا چہرہ اتنا شفا ف تھا کہ پانی پیتے وقت گلے سے نیچے اترتا ہوا دکھائی دیتاتھا ۔ بس خلجی دل ہار گیا‘‘۔
    ایسا ہی ایک گائیڈ چیتن پرکاش آٹھویں جماعت میں فیل ہوگیاتھا۔ یہ ناکام طالب راجپوتانہ ثقافت کا گائیڈ بن بیٹھا۔ خود ساختہ گائیڈ، وہ دو سو روپے کے عوض اپنی من گھڑت کہانی سینکڑوں سیاحوں کوروزانہ سناکر تاریخ کو مسخ کر رہا ہے۔
    ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے،
    یہ تو سب جانتے ہیں کہ برصغیر کی قدیم تاریخ پر انگریزوں سے زیادہ کسی کی دسترس نہیں۔ 1869 ء میں سر ویلیم ویلسن نے ''دی امپیریل گزٹس آف انڈیا‘‘ مرتب کرنا شروع کئے۔ 1909ء میں دوبارہ شائع ہونے والے گزٹ کے صفحہ نمبر 403 اور 431 پر ''پدما وتی ‘‘کے نام سے لکھی گئی ایک نظم پر انگریزوں کاتجزیہ بھی درج ہے۔ انگریز محقق لکھتا ہے ،
    ''راجھستانی ادب بنیادی طور پر شاعرانہ سرگزشت پر مشتمل ہے۔ مشرقی ہند کے ادب پر تمام عظیم ادبی روایات کی چھاپ ہے ،کچھ ادب تو ''راما فرقے ‘‘کے گرد گھومتا ہے۔ رامافرقے کے اثر سے آزاد ادب بھی اسی عہد میں تخلیق ہوا۔ 1540ء میں ملک محمد جائسی نے روایت سے ہٹ کر ایک بالکل نئی نظم '' پدما وتی‘‘ تخلیق کی تھی۔ ''شیر شاہ‘‘ کے نام منسوب یہ نظم معیار اور کہانی نہایت منفرد ہے۔ تخلیق اور معیار، ہر دو اعتبار سے اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
    گزٹ کے مطابق یہ نظم 1303ء میں علائو الدین خلجی کے قلعہ چھتوڑ کے محاصرے کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھی گئی تھی۔نظم کے پہلے حصے میں قلعہ چھتوڑ کے حاکم رتن سنگھ کا ذکر ہے۔ اسے ایک طوطے کی زبانی پتہ چلتا ہے کہ سری لنکامیں پری جیسی شہزادی ''پدماوتی ‘‘کا پتہ چلتا ہے۔ رتن سنگھ اسے حاصل کر نے کی ٹھان لیتا ہے،وہ اسے حاصل کرنے سری لنکا روانہ ہوجاتاہے۔ بالآخر وہ اسے اپنے ساتھ لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
    زندگی ہنسی خوشی گزر رہی تھی کہ اچانک علائو الدین خلجی کو اس سیلونی لڑکی کے حسن کی خبر ملتی ہے، وہ ایک جھلک دیکھنے کے لئے رتن سنگھ سے بات کرتا ہے لیکن انکار کرنے پر خلجی حملہ کر کے رتن سنگھ کو قیدی بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
    نظم کا دوسرا حصہ قلعہ چھتوڑ کی ریاست کمبھلنیر () کے حاکم کے گرد گھومتا ہے۔رتن سنگھ خلجی کی قید میں تھاجس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کمبھلنیر کا حاکم پدمارانی (پدماوتی)کو تضحیک آمیز پیشکش کر بیٹھا ،جسے سن کر رانی کا دل ٹوٹ گیا،تن بدن میں آگ لگ گئی ۔ادھر 2 دوست رتن سنگھ کو علائو الدین خلجی کی قید سے چھڑالیتے ہیں ،رتن سنگھ کے قلعے میں پہنچنے کی دیر تھی کہ پدما وتی اسے ریاست کمبھلنیر کے حاکم کی توہین آمیز پیشکش سے آگاہ کرتی ہے۔ یہ سنتے ہی رتن سنگھ کے سینے میں انتقام کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔وہ اسی لمحے ریاست کمبھلنیر پر دھاوا بول دیتا ہے، اور حاکم کو قتل کر کے ہی واپس آتاہے۔ اس جنگ میں رتن سنگھ خود بھی بری طرح گھائل ہو جاتا ہے، زخم اس قدر گہرے تھے کہ وہ قلعہ چھتوڑ میں محض مرنے کیلئے داخل ہوا۔قلعہ میں پہنچتے ہی فرش پر ڈھیر ہو کر جان دے دیتا ہے۔
    نظم کے مطابق رتن کی دونوں بیویاں (پدما وتی اور نغمہ وتی)ہندو روایات کے عین مطابق اپنے شوہر کی موت کے بعد ستی ہوگئیں۔ادھر وہ ''ستی‘‘ کی آگ میں جل رہی تھیں اور ادھر علائو الدین خلجی اپنی فوج کے ساتھ قلعہ چھتوڑ پر حملہ آور ہوتا ہے،ایک طرف خلجی کی فوجیں تھیں اور دوسری طرف ''رسم ستی ‘‘میں جلتی دو بیویاں ،جن کی راکھ سے دھواں اٹھ رہا تھا ۔ علائو الدین خلجی محافظین کو ہلاک کر تا ہوا قلعے میں داخل ہونے کے بعد اپنا پرچم لہرادیتا ہے۔
    انگریزوں کے گزیٹئیر کے مطابق، ''نظم کے آخری حصے میں ملک جائسی نے اپنی نظم کے کر داروں کی وضاحت کی ہے۔ ملک جائسی لکھتا ہے کہ '' یہ تخیلاتی اور تصوراتی نظم ہے ۔اس میں ذرا برابر حقیقت نہیں‘‘۔ شاعر اپنے استعاروں اور تشبیہات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتاہے کہ، ''قلعہ چھتوڑ سے مراد انسانی جسم ہے، جبکہ رتن سنگھ روح کا استعارہ ہے۔ طوطا سے مراد روحانی پیشوا ہے اورپدما وتی عقل و دانش کی علامت ہے۔خلجی فریب کا استعارہ ہے،وہ ایک سراب ہے جس کی سوچ میں انسان زندہ رہتا ہے،اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔
    انگریزوںنے اس نظم کو پر مغز، لافانی اور اعلیٰ تخیلات پر مبنی قرار دیا۔ اس نظم نے راجپوتوں کی سیاست بدل ڈالی۔یہ ہے وہ کہانی، جسے لے کر بھارت کے ایک حصے میں جنگ کا سا سما ںبھی رہا۔یہ نظم کسی راجپوت نے پڑھی نہ سنی، بس ہر کوئی اپنے ناقص علم کے مطابق بولے جا رہا ہے ۔


     

Share This Page