1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

’امریکہ کی خفیہ جنگ‘

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از سموکر, ‏9 جون 2006۔

  1. سموکر
    آف لائن

    سموکر ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    859
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    امریکہ میں ’سٹریٹ فار‘ (Strat For) کے نام سے ایک انٹیلی جنس کمپنی چلانے والے جارج فرائڈمین نے امریکہ کی خفیہ جنگ کے عنوان سے اپنی اس کتاب میں امریکہ کی اسلام پسندوں سے جنگ کا احوال لکھا ہے۔
    مصنف پس پردہ واقعات کی جو کہانیاں بیان کرتے ہیں وہ انٹیلی جنس سے حاصل کی گئی معلومات پر مبنی ہیں اور دلچسپ ہیں۔

    مصنف کا موقف ہے کہ امریکہ کی اسلام پسندوں کے خلاف جاری جنگ دنیا کی چوتھی عالمی جنگ ہے جبکہ کمیونسٹ بلاک کے خلاف اس کی سرد جنگ تیسری عالمی جنگ تھی۔

    ان کا کہنا ہے کہ اس چوتھی عالمی جنگ کی جڑیں سرد جنگ تک جاتی ہیں جب دنیا بھر میں پھیلے سعودی عرب کے مالی نیٹ ورک نے امریکہ کے اشارے پر افغان جہاد کے لیے رقوم مہیا کی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسی نیٹ ورک سے القاعدہ وجود میں آئی۔

    فرائڈمین کے مطابق گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد القاعدہ سے جنگ شروع کرنے پر امریکہ کو اصل تشویش پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں اور آئی ایس آئی کے اسلام پسند عناصر سے تھی۔ ان کا توڑ کرنے کے لیئے اس نے جنرل پرویز مشرف سے اتحاد کیا۔


    امریکہ اور اسلام پسندوں کی جنگ میں ابھی کسی ایک فریق کی حتمی جیت نہیں ہوئی اور پتہ نہیں اس جنگ کا کیا نتیجہ نکلے گا


    فرائڈ

    وہ بتاتے ہیں کہ توڑا بوڑا پر امریکہ کے حملہ کے بعد تمام ثبوت اس بات کی نشان دہی کرتے تھے کہ اسامہ بن لادن پاکستان کے قبائلی علاقے کی طرف چلے گئے تھے۔ امریکہ کا خیال تھا کہ آئی ایس آئی کو طالبان اور القاعدہ سے ہمدردی ہے اور اس نے توڑا بوڑا سے بھاگے ہوئے لوگوں کو قبائلی علاقوں میں محفوظ جگہوں پر رہنے میں مدد دی ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے لیئے اہم بات یہ تھی کہ پاکستان کا اپنی سرحدوں خصوصا قبائلی علاقوں پر مکمل کنٹرول ہو۔ اس کے لیئے ضروری تھا کہ جنرل پرویز مشرف کا آئی ایس آئی اور فوج پر مکمل کنٹرول ہو اور مصنف کے بقول یہ دونوں باتیں آسان نہیں تھیں۔

    اس کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ نے گیارہ ستمبر کے بعد کس طرح بھارتی خطرے اور جنگ کی دھمکی کو پاکستان سے اپنی باتیں منوانے کے لیے استعمال کیا۔

    مصنف کا کہنا ہے کہ امریکہ کو اس دوران میں جس بات سے فائدہ ہوا وہ تیرہ دسمبر دو ہزار ایک کو دو جہادی تنظیموں کا بھارت کی پارلیمنٹ پر حملہ تھا۔ بھارت نے اس حملہ کے بعد پاکستان کے خلاف جنگ (جو جوہری بھی ہوسکتی تھی) شروع کرنے کی دھمکی دے دی اور پاکستان سخت مشکل میں پھنس گیا۔


    ’پاکستان کو استعمال کیا گیا‘
    اس کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ نے گیارہ ستمبر کے بعد کس طرح بھارتی خطرے اور جنگ کی دھمکی کو پاکستان سے اپنی باتیں منوانے کے لیے استعمال کیا۔

    اس تفصیل کو پڑھنے والے کے ذہن میں یہ خیال بھی آتا ہے کہ جن لوگوں نے بھارتی پارلیمینٹ پر حملہ کیا تھا انہوں نے خود سے یہ کام کیا تھا یا وہ امریکہ کے اشارہ پر کام کررہے تھے یا بالواسطہ طور پر اس کے ہاتھوں استعمال ہورہے تھے۔

    فرائڈمین کا کہنا ہے کہ بھارتی پارلیمینٹ پر حملے کے بعد جنرل مشرف تین خطروں میں گھر گئے۔ بھارتی، امریکی اور پاکستان کے اسلام پسند۔ ان کے بقول مشرف نے خود کو امریکہ سے متحد کیا اور اور بدلہ میں امریکہ سے کہا کہ وہ بھارتی جنگ کے خطرہ سے ان کی جان چھڑوائے۔

    تاہم مصنف کے مطابق امریکہ نے بات کو لمبا کھینچا اور پاکستان اور بھارت کے درمیان بحران کو بڑھنے دیا۔ امریکہ نے مشرف کے خوف کو کم کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ پاکستان کے احساس تنہائی اور مایوسی میں اضافہ کیا۔ اس دوران امریکہ کے وزیر خارجہ کولن پاول نے دونوں ملکوں کا دورہ کیا۔

    تاہم ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کو یہ بھی معلوم تھا کہ القاعدہ سے جنگ میں پاکستان کا کردار مرکزی ہے۔ امریکہ سمجھتا تھا کہ مشرف کی بھی امریکہ کا ساتھ دینے کی حدود ہیں اور اگر امریکہ نے مشرف پر زیادہ دباؤ ڈالا اور انہیں اقتدار سے ہٹانےکی کوشش کی تو پاکستان انتشار میں مبتلا ہوکر ایسی جگہ بن سکتا ہے جو القاعدہ کی بقاء اور پھلنے پھولنے کے لیے بہترین ثابت ہوگی۔

    فرائڈمین کہتے ہیں کہ اس دوران امریکہ کو بڑی تشویش پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں سے تھی۔ امریکہ کا خیال تھا کہ پاکستان کےایٹمی پروگرام کا کنٹرول آئی ایس آئی کے ہاتھ میں ہے اور خدشہ تھا کہ اس ایجنسی کے کچھ عناصر بھارت سے جنگ کی صورت میں اس پر میزائیلوں سے حملہ کرسکتے ہیں یا القاعدہ کو ایٹی ہتھیار فراہم کرسکتے ہیں جبکہ مشرف کو اس بات کا پتہ بھی نہیں ہوگا۔

    ان کا کہنا ہے کہ جنوری دو ہزار دو تک بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بہت بڑھ چکی تھی۔ امریکہ نے مشرف سے کہا کہ وہ بھارت کا دباؤ ختم کروا سکتا ہے بشرطیکہ مشرف آئی ایس آئی کے اسلام پسند دھڑے کے خلاف کارروائی کریں اور اس کے زیر سایہ لوگوں اور بھارتی پارلیمینٹ پر حملہ کے ملزموں کو گرفتار کریں۔

    مصنف کے مطابق امریکہ کی حکمت عملی یہ تھی کہ مشرف اسلام پسندوں کے خلاف کارروائی کرکے اس خط کو عبور کریں تاکہ ان کا انحصار ہمیشہ کے لیئے امریکہ پر ہوجائے۔ ان کا دعوٰی ہے کہ مشرف نے یہ لائن پار کی اور اپنے ملک میں القاعدہ سے متعلق لوگوں کو گرفتار کرنا شروع کردیا۔

    ان کا کہنا ہے کہ مشرف نے بھارت کو دور رکھنے کے لیئے امریکہ پر انحصار کیا اور امریکہ نے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو سخت کنٹرول میں رکھنے کے لیئے مشرف پر انحصار کیا۔

    فرائڈمین کہتے ہیں کہ القاعدہ سے جنگ شروع ہونے کے بعد امریکہ نے ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں ایک نیا پالیسی اصول یا ’ڈاکٹرائن‘ بنایا۔ اس اصول کے تحت امریکہ نیوکلیائی ہتھیاروں والی جگہوں کا تعین کرکے اس بات کو یقینی بنائے گا کہ وہ غیر محفوظ نہیں ہیں اور اگر سیاسی دباؤ کام نہ کرے تو ان ایٹمی تنصیبات پر کنٹرول کےلیئے امریکہ فوجی کارروائی کرے گا۔

    اس ڈاکٹرائن کے تحت امریکہ نے دسمبر دو ہزار ایک میں پاکستان پر واضح کردیا کہ وہ ایسی نیوکلیائی تنصیب کو برداشت نہیں کرے گا جس کا کسی حکومت کے پاس واضح کنٹرول نہ ہو۔ اس طرح مصنف کا کہنا ہے کہ پاکستان کو دو اطراف سے نیوکلیائی حملے کے خطرے کا سامنا تھا۔ ایک بھارت اور دوسرا امریکہ۔

    فرائڈمین کا دعوٰی ہے کہ اس صورتحال میں مشرف امریکہ کے دباؤ میں آگئے۔ وہ کہتے ہیں کہ مارچ دو ہزار دو میں امریکی فوج (سوکوم، سی آئی اے اور ایس اے ڈی) اور امریکی سائنسی ادارہ نیسٹ (این ای ایس ٹی) کے عملے کو پاکستان کی نیوکلیائی تنصیبات پر تعینات کردیا گیا۔

    مصنف دعوٰی کرتے ہیں کہ امریکی عملے نے پاکستان کے نیوکلیائی ہتھیاروں کے ذخیرہ کا معائنہ کیا۔ مشرف نے امریکہ کے ساتھ مل کر اس راز کا دفاع کیا۔ اس دوران مشرف نے احتیاط کے ساتھ آئی ایس آئی کی تطہیر بھی جاری رکھی۔

    فرائڈمین کہتے ہیں کہ مئی دو ہزار دو تک امریکہ نے القاعدہ کے مسئلے کی ازسر نو تعریف کرتے ہوئے اسے دراصل سعودی مسئلہ قرار دیا۔ امریکہ کے خیال میں سعودی عرب کو کنٹرول کرنے کا راستہ عراق سے گزر کر جاتا ہے۔ اس لیے امریکہ نے عراق پر حملہ کیا جسے مصنف جنگ کی بجائے مہم کا نام دیتے ہیں۔

    وہ عراق جنگ کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سے امریکہ کو مسلمان ملکوں خصوصا سعودی عرب اور پاکستان کا رویہ تبدیل کرانے میں مدد ملی ہے کیونکہ یہ ممالک اب القاعدہ کے خلاف کارروائیاں کررہے ہیں۔ ان کے خیال میں اس جنگ کی بدولت امریکی فوجیں مشرق وسطٰی کے دل میں جا بیٹھیں جہاں سے وہ اپنی مرضی کے وقت پر اپنی پسند کے ہدف کو نشانہ بناسکتی ہیں۔

    تاہم فرائڈمین کا خیال ہے کہ امریکہ اور اسلام پسندوں کی جنگ میں ابھی کسی ایک فریق کی حتمی جیت نہیں ہوئی اور پتہ نہیں اس جنگ کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ ان کا کہنا ہےکہ القاعدہ نے ابھی ہتھیار نہیں ڈالے اور جنگ جاری ہے۔

    ماخوذ از بی بی سی
     
  2. گھنٹہ گھر
    آف لائن

    گھنٹہ گھر ممبر

    شمولیت:
    ‏15 مئی 2006
    پیغامات:
    636
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    انتخاب اچھا ہے
     
  3. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    حوالے کا انداز

    بہتر ہو گا اگر آپ بھی بی بی سی کا حوالہ دینے کے لئے سموکر کا یہ والا انداز اختیار کریں۔ یہ زیادہ بھلا لگتا ہے۔
     
  4. شہزادی
    آف لائن

    شہزادی ممبر

    شمولیت:
    ‏26 مئی 2006
    پیغامات:
    155
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    مگر یہ انداز کیسے اختیار کیا جائے؟
     
  5. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    حوالہ دینے کا انداز

    یہ انداز ایسے اختیار کیا جا سکتا ہے:


    ماخوذ از ہماری اردو - پیاری اردو


    اور میرا مشورہ ہے کہ تمام وہ صارفین جو کسی دوسری ویب سائٹ سے اقتباس یہاں لگاتے ہیں، اول تو وہ حوالہ ضرور دیا کریں اس سے تحریر میں ثقاہت جنم لیتی ہے۔ دوسرے حوالہ دینے کے لئے یہی معیار اختیار کیا کریں۔

    اوپر لکھے کوڈ کو ایک نئے پیغام کے طور پر لکھیں اور اس کا پیش منظر دیکھیں، سب سمجھ میں آ جائے گا۔ پھر اس میں ربط اور الفاظ کی تبدیلیاں کر کے دیکھیں۔ امید ہے کہ سب صارفین کو یہ طریقہ پسند آئے گا اور وہ آئندہ اسی طریقے پر عمل کریں گے۔
     
  6. پٹھان
    آف لائن

    پٹھان ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    514
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    انشا اللہ فتح حق کی ہوگی
     

اس صفحے کو مشتہر کریں