1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

۔3اصول ۔۔۔۔۔۔ عابد ضمیر ہاشمی

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏22 مارچ 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    ۔3اصول ۔۔۔۔۔۔ عابد ضمیر ہاشمی

    صحافت اتنی ہی قدیم ہے جتنی کرہ ٔا رض پر انسانی زندگی کی داستان۔صحافت کی داغ بیل اسی دن ڈالی جا چکی تھی جب انسان نے اپنے خیالات کو اشاروں‘ رنگوں‘روشنیوں اور تصویروں کی شکل میں دوسروں تک پہنچانے کی کوششوں کا آغاز کردیا تھا۔ زبانوں اور رسم الخط کی ایجاد کے بعد کاغذ کی تیاری اور چھاپہ خانوں کا قیام عمل میں آیا اور صحافت و ابلاغ کا سفر اور تیز سے تیز تر ہوتا چلاگیا۔
    افلاطون ایک دن اپنے استاد سقراط کے پاس دوڑا دوڑا آیا اور کہنے لگا‘اُستاد بازار میں ایک شخص آپ کے بارے میں غلط بیانی سے کام لے رہا ہے۔سقراط افلاطون سے پوچھتا ہے کہ اس نے کیا کہا ہے؟ افلاطون کے جواب دینے سے پہلے ہی سقراط اسے روک دیتا ہے اور پوچھتا ہے ''کیاتمہیں یقین ہے کہ جو بات تم مجھے بتانے جارہے ہو وہ بات سو فیصد سچ ہے؟ افلاطون نفی میں سرہلاتا ہے۔ سقراط کہتا ہے ''پھر جو بات سچ نہیں ہے اسے بتانے کا کیا فائدہ؟ اور پوچھتا ہے ''جو بات تم مجھے بتانے جارہے ہو کیا یہ اچھی بات ہے؟‘‘ افلاطون کہتا ہے ''نہیں استاد محترم یہ توبری بات ہے۔‘‘سقراط کہتا ہے ''کیا تمہیں اپنے استاد کو بری بات بتانی چاہئے؟‘‘افلاطون انکار میں سر ہلاتا ہے۔ سقراط افلاطون سے پھر سوال کرتا ہے ''جو بات تم مجھے بتانے جارہے ہو کیا یہ میرے لئے فائدہ مند ہے؟‘‘ افلاطون پھر انکار میں سر ہلاتا ہے۔سقراط مسکرا کر کہتا ہے ''جو بات میرے لئے فائدہ مند نہیں تو پھر اسے بتانے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘سقراط افلاطون کو نصیحت کرتا ہے کہ کوئی بھی بات عام کرنے یا بتانے سے پہلے اسے 3 اصولوں پر جانچ لینا چاہئے (1)کیا بات سو فیصد درست ہے؟(2)کیا بتائی جانے والی بات اچھی ہے؟(3) کیا بتائی جانے والی بات سننے والوں کے لئے مفید ہے؟
    سقراط نے ہزاروں سال قبل صحافت کے 3 نہایت معتبر اصول وضع کیے جن پر آج اور ہرزمانے کے صحافی کو کاربند ہوناضروری ہے۔ خبروں کی اشاعت سے قبل خبر کی صداقت کا پتا لگایا جائے۔خبر کی اچھائی برائی اور حسن و قبیح پر نظر دوڑائی جائے۔خبر کی افادیت اور سود و زیاں پر بھی غورو خوض کرے۔
    معلومات کی پیش کشی کے دوران حقیقت بیانی‘سچ جھوٹ، صحیح غلط‘خبر کے تمام ممکنہ زاویوں اور امکانات پر روشنی ڈالنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔معلومات کے حصول اور عوام تک اسے پہنچانے کے دوران کس طبقے کے مفادا ت کا خیال رکھنا ‘ کسی کیلئے نرم گوشہ رکھنا اور کسی کو نظرانداز کرنا کے پیچھے خبر بنانے‘نشر کرنے اور ادارے کو چلانے والے افراد کے ذہن کارفرما ہوتے ہیں۔ باشعور سماج کی تعمیر صحافت کی اہم ذمہ داری ہے۔ صحافت معاشرے کو ظلم و استبداد کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر روشنی سے متعارف کرنے کا نام ہے۔ صحافت قوموں کی فکر سازی اور نظریاتی تبدیلی میں ایک کارگر وسیلے کا کام کرتی ہے۔ قوموں کے عروج و زوال میں صحافت کا اہم رول ہوتا ہے۔عوامی ذہن سازی اور فکر سازی میں صحافت کے کردار کوکبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔کسی بھی معاملے کے بارے میں تحقیق اور پھر اُسے صوتی،بصری یا تحریری شکل میں بڑے پیمانے پر قارئین ‘ناظرین یا سامعین تک پہنچانے کے عمل کا نام ہے۔ سب سے اہم نکتہ جو صحافت سے منسلک ہے وہ عوام کو با خبر رکھنے کا ہے۔صحافت کا قلم سے لیکر کمپیوٹر تک کا سفر مصائب،صبر و تحمل، ایثار و قربانی اور تبدیلیوں سے بھرا ہوا ہے۔ بے شمار مسائل مصائب اور متعدد سامراجی ہتھکنڈوں کے باوجود صحافت دُنیا کو امن و سکون کا مسکن بنانے میں مصروف عمل ہے۔ہمیں سقراط کے3 اصول اپنا نے ہوں گے ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں