1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

یہ نہ تھی۔ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا کرنل محمد خان

'ادبی طنز و مزاح' میں موضوعات آغاز کردہ از سید شہزاد ناصر, ‏17 جنوری 2016۔

  1. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    رضیہ ہماری توقع سے بھی زیادہ حسین نکلی اور حسین ہی نہیں، بلکہ فتنہ گروقدوگیسو تھی!

    پہلی نگاہ پر ہی محسوس ہوا کہINITIATIVEہمارے ہاتھ سے نکل کر فریق مخالف کے پاس چلاگیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ پہلا سوال بھی ادھر ہی سے آیا:

    تو آپ ہیں ہمارے نئے نویلے ٹیوٹر؟

    اب اس شوخ سوال کا صحیح جواب تو یہ تھا کہ تو آپ ہیں ہماری نویلی شاگرد؟

    لیکن سچی بات ہے کہ حسن کی سرکار میں ہماری شوخی ایک لمحے کے لئے ماند پڑگئی اور ہمارے منہ سے ایک بے جان سا جواب نکلا:

    جی ہاں، نیا تو ہوں، ٹیوٹر نہیں ہوں۔ مولوی صاحب کی جگہ آیا ہوں۔

    اس سے آپ کی ٹیوٹری میں کیا فرق پڑتا ہے؟

    یہی کہ عارضی ہوں۔

    تو عارضی ٹیوٹرصاحب۔ ہمیں ذرا اس مصیبت سے نجات دلائیں۔

    رضیہ کا اشارہ دیوان غالب کی طرف تھا۔ میں نے کسی قدر متعجب ہو کر پوچھا:

    آپ دیوان غالب کو مصیبت کہتی ہیں؟

    جی ہاں، اور خود غالب کو بھی۔

    میں پوچھ سکتا ہوں کہ غالب پریہ عتاب کیوں؟

    آپ ذرا آسان اردو بولئے۔ عتاب کسے کہتے ہیں؟

    عتاب غصے کو کہتے ہیں۔

    غصہ؟ ہاں غصہ اس لیے کہ غالب صاحب کا لکھا تو شاید وہ خود بھی نہیں سمجھ سکتے۔ پھر خدا جانے، پورا دیوان کیوں لکھ مارا۔

    اس لیے کہ لوگ پڑھ کر لذت اور سرور حاصل کریں۔

    نہیں جناب۔ اس لیے کہ ہر سال سینکڑوں لڑکیاں اردو میں فیل ہوں۔

    محترمہ، میری دلچسپی فقط ایک لڑکی میں ہے، فرمائیں آپ کا سبق کس غزل پر ہے؟

    جواب میں رضیہ نے ایک غزل کے پہلے مصرع پر انگلی رکھ دی لیکن منہ سے کچھ نہ بولی۔ میں نے دیکھا تو غالب کی مشہور غزل تھی:

    یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

    میں نے کہا :

    یہ تو بڑی لاجواب غزل ہے۔ ذرا پڑھئے تو۔

    میرا خیال ہے کہ آپ ہی پڑھیں۔ میرے پڑھنے سے اس کی لاجوابی پر کوئی ناگوار اثر نہ پڑے۔

    مجھے افسوس ہوا کہ ولایت کی پڑھی ہوئی رضیہ باتونی بھی ہیں اور ذہین بھی، لیکن اردو پڑھنے میں غالبا اناڑی ہی ہیں۔ میں نے کہا :

    میرے پڑھنے سے آپ کا بھلا نہ ہو گا۔ آپ ہی پڑھیں کہ تلفظ بھی ٹھیک ہو جائے گا۔

    رضیہ نے پڑھنا شروع کیا اور سچ مچ جیسے پہلی جماعت کا بچہ پڑھتا ہے

    یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصل….

    میں نے ٹوک کر کہا

    یہ وصل نہیں، وصال ہے۔ وصل تو سیٹی کو کہتے ہیں۔

    رضیہ نے ہمیں سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ہم ذرا مسکرائے اور ہمارا اعتماد بحال ہونے لگا۔ رضیہ بولی۔

    اچھا، وصال سہی۔ وصال کے معنی کیا ہوتے ہیں؟

    وصال کے معنی ہوتے ہیں ملاقات، محبوب سے ملاقات۔ آپ پھر مصروع پڑھیں۔

    رضیہ نے دوبارہ مصرعہ پرھا۔ پہلے سے ذرا بہتر تھا لیکن وصال اور یار کو اضافت کے بغیر الگ پڑھا۔ اس پر ہم نے ٹوکا۔

    یہ وصال یار نہیں، وصالِ یار ہے۔ درمیان میں اضافت ہے۔

    اضافت کیا ہوتی ہے؟ کہاں ہوتی ہے؟

    یہ جو چھوٹی سی زیر نظر آ رہی ہے نا آپ کو، اسی کو اضافت کہتے ہیں۔

    تو سیدھا سادا وصالے یار کیوں نہیں لکھ دیتے؟

    اس لیے کہ وہ علماکے نزدیک غلط ہے…. یہ ہم نے کسی قدر رعب سے کہا:

    علما کا وصال سے کیا تعلق ہے؟

    اچھا جانے دیں علماکو۔ مطلب کیا ہوا؟

    شاعر کہتا ہے کہ یہ میری قسمت ہی میں نہ تھا کہ یار سے وصال ہوتا۔

    قسمت کو تو غالب صاحب درمیان میں یونہی گھسیٹ لائے ہیں۔ مطلب یہ کہ بیچارے کو وصال نصیب نہ ہوا۔

    جی ہاں! کچھ ایسی ہی بات تھی۔

    کیا وجہ؟

    میں کیا کہہ سکتا ہوں؟

    کیوں نہیں کہہ سکتے؟ آپ ٹیوٹر جو ہیں۔

    شاعر خود خاموش ہے

    تو شاعر نے وجہ نہیں بتائی، مگر خوشخبری سنا دی کہ وصال فیل ہو گئے؟

    جی ہاں، فی الحال تو یہی ہے۔ آگے پڑھیں۔

    رضیہ نے اگلا مصرعہ پڑھا۔ ذرا اٹک اٹک کر مگر ٹھیک پڑھا:

    اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

    میں نے رضیہ کی دلجوئی کے لیے ذرا سر پرستانہ انداز میں کہا:

    شاباش، آپ نے بہت اچھا پڑھا ہے۔

    اس شاباش کو تو میں ذرا بعد میں فریم کراں گی۔ اس وقت شعر کے پورے معنی بتا دیں۔

    ہم نے رضیہ کا طنز برداشت کرتے ہوئے کہا :

    مطلب صاف ہے۔ غالب کہتا ہے۔ قسمت میں محبوبہ سے وصال لکھا ہی نہ تھا۔ چنانچہ اب موت قریب ہے، مگر جیتا بھی رہتا تو وصال کے انتظار میں عمر کٹ جاتی۔

    توبہ اللہ، اتنا Lack of confidenceیہ غالب اتنے ہی گئے گزرے تھے؟

    گئے گزرے؟ نہیں تو۔ غالب ایک عظیم شاعر تھے۔

    شاعر تو جیسے تھے، سو تھے، لیکن محبت کے معاملے میں گھسیارے ہی نکلے۔

    لاحول ولا قو۔ آپ غالب کو گھسیارہ کہتی ہیں؟ وہ نجم الدولہ تھے۔

    شاہ دولہ ہوں گے۔ بے چارے عمر بھر وصال کو ترستے رہے۔

    محترمہ شاعری میں تو فرضی باتیں ہوتی ہیں۔ عالب نے شعر لکھا ہے عدالت میں حلفیہ بیان نہیں دیا۔

    وکیل صفائی صاحب۔ آپ ملزم سے بھی زیادہ چست نظر آتے ہیں۔ یہ فرمائیں، آپ کے نجم الدولہ صاحب کی شادی بھی ہوئی یا نہ ؟

    یقینا ہوئی۔

    کسی بوڑھی کزن سے ہوئی ہو گی۔

    نواب زادی تھی اور بوڑھی بھی نہ تھی، مگر خود لونڈے ہی تھے۔

    میں نہ کہتی تھی کہ کچھ Mal-adjustmentضرور تھی۔

    لیکن محترمہ آپ کا پرچہ غالب کی شادی پر نہیں، غالب کی شاعری پر ہو گا۔

    شاعر کو شاعری سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔

    لیکن اگر آپ نے امتحان سے پہلے دیوان ختم کرنا ہے تو جدا کرنا پڑے گا۔

    مجھے امتحان کی فکر نہیں۔ پہلے غالب کا فیصلہ ہونا چاہیے۔

    بہت اچھا، تو فرمائیں، غالب نے کیا قصور کیا ہے؟

    غالب نے محبت میں مار کھا کر بے معنی شعر لکھے ہیں اور لوگوںکو الو بنایا ہے۔

    محترمہ، الو بڑا غیر پارلیمانی پرندہ ہے اور غالب کے چاہنے والوں میں تو اچھے اچھے لوگ ہیں۔ مثلا….

    آپ اچھے لوگوںکی فکر نہ کریں۔ ویسے میں نے آپ کو ان پرندوںمیں شامل نہیں کیا۔ )چھوٹے سر وار چھوٹے قد کی فاتر العقل مخلوق جسے ایک بزرگ کی نسبت سے شاہ دولہ یا شاہ دولہ کے چوہے کہتے ہیں(

    مجھ پر یہ نظر عنایت کیوں؟ میں بھی تو غالب پرست ہوں۔

    آپ کی جگہ اصلی ٹیوٹر نے لے رکھی ہے۔

    تو آپ مولوی عبدالرحمن کو الو سمجھتی ہیں

    غالبا ان کا اپنا یہی خیال ہے

    محترمہ ٹیوٹر اور الو؟

    جی ہاں، وہ تہہ دل سے چغد ہیں

    اور ہم؟

    آپ کی بات اور ہے۔

    ہماری کیا بات ہے۔

    بس آپ چغد نہیں۔

    بڑی رعایت کی آپ نے ہم پر۔

    وہ آپ شاہین بننا چاہتے ہیں کیا؟

    ہم ہیں ہی شاہین!

    تو پھر بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں۔

    اور اگر یہاں آنا چاہیں تو؟

    تو براہ مہربانی یہ خوبصورت اچکن بدل کر آئیں۔

    ساتھ ہی رضیہ نے ہماری ٹوپی سے لے کر اچکن کے نچلے سرے تک دیکھا اور بے اختیار ہنس دی۔ اتنے میں ساتھ کے کمرے سے بیرسٹر صاحب کی آواز آئی:

    بیٹا رضیہ، آپ کی پڑھائی کا وقت ختم ہوا۔ اب آ چلیں باہر۔

    رضیہ نے کتاب بند کر دی اور بولی :

    تو عارضی ٹیوٹر صاحب، خدا حافظ۔

    گویا آپ کا مطلب ہے کل نہ آں ؟

    اتنے عارضی بھی نہ بنیں۔ کل آئیے۔ پرسوں آئیے اور آتے رہئے۔

    پرسوں تو مولوی صاحب آ جائیں گے۔

    اللہ تعالی ان کی والدہ کو دو دن ٹھہر کر شفا دے دے گا۔

    اتنے میں بیرسٹر صاحب کی آواز کی بجائے ان کا چہرہ نمودرا ہوا اور میں نے آہتہ سے خدا حافظ کہہ کر رخصت لی۔

    ہم دوسرے روز کپڑے بدل کر پڑھانے گئے۔ سبق تو دوسرے شعر سے بہت آگے نہ بڑھا لیکن باہمی مفاہمت میں خاصی پیش رفت ہوئی۔ تیسرے روز مولوی صاحب آ گئے اور ہمیں دوستوں نے آ گھیرا کہ دو روزہ ٹیوشن کی روداد سنا ۔ ہم نے روداد سنائی تو دوست ہماری خوبی قسمت پر خوشی سے جھوم اٹھے۔ ہم کہانی سنا چکے تو ہماری کلاس کے ذہین مسخرے، لطیف نے باقی لڑکوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :

    دوستوں خاموش اور ذرا توجہ سے سنئے:

    ساری کلاس خاموش ہو گئی۔ لطیف نے بولنا جاری رکھا :

    میرا ستاروں کا علم کہتا ہے کہ اگلے سال ہمارے اس خوش نصیب ہم جماعت کی شادی ہو جائے گی۔ ذرا بتا تو سہی، اس کی دلہن کا کیا نام ہو گا؟

    ساری جماعت نے یک زبان ہو کر کہا :

    رضیہ!

    اس پر بے پناہ تالیاں بجیں۔ لڑکوں نے مجھے کندھوں پر اٹھایا اور اودھم مچایا۔

    قارئین، کیا آپ کو بھی میرے ہم جماعتوں سے اتفاق ہے؟ سنئے اگلے سال رضیہ سچ مچ، دلہن تو بنی، لیکن ہماری نہیں، مولوی عبدالرحمن کی! حادثہ یہ ہوا کہ ٹیوشن کے بعد مولوی عبدالرحمن اور ہم سی ایس پی کے مقابلے کے امتحان میں شریک ہوئے اور مولوی صاحب ہمیں یہاں بھی دو سو نمبر میں پیچھے چھوڑ گئے۔ اس کامیابی کے بعد ان کے لیے رضیہ سے شادی میں ایک ہی رکاوٹ تھی اور مولانا نے یہ رکاوٹ برضا و رغبت نائی کے ہاتھوں دور کرا دی۔ برضا و رغبت اس لیے کہ بقول مولوی صاحب، ایک دن انھوں نے کانی آنکھ سے رضیہ کو دیکھ لیا تھا اورپھر دل میں عہد کر لیا تھا کہ داڑھی کیا چیز ہے یہ لوح و قلم تیرے ہیں۔ ادھر بیرسٹر صاحب تو مولوی عبدالرحمن کے نام کے ساتھ ایس پی دیکھ کر داڑھی کی قربانی پر مصر نہ تھے۔ رہے ہم تو جونہی مولوی صاحب اپنی دلہن کو لے کر ہنی مون پر روانہ ہوئے، ہم دیوان غالب کھول کر ایک لاجواب غزل الاپنے لگے یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
     
    فیاض أحمد، نعیم اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    خوب است
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں