1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

یہ سوچ کے پھر سے راهِ اُلفت پہ چَل رہے ہیں

'آپ کی شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از مرید باقر انصاری, ‏8 جولائی 2015۔

  1. مرید باقر انصاری
    آف لائن

    مرید باقر انصاری ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2015
    پیغامات:
    155
    موصول پسندیدگیاں:
    141
    ملک کا جھنڈا:
    یہ سوچ کے پھر سے راهِ اُلفت پہ چَل رہے ہیں
    اَزل سے پروانے بھی تو شمع پہ جَل رہے ہیں
    .
    .
    یہ بیت جاۓ نہ شوخ وچَنچَنل حسین موسم
    سو جلد سے جلد اُس کو مِلنے نِکَل رہے ہیں
    .
    .
    جو سانپ ڈَستے رہے تھے ہمکو ابھی بھی یارو
    سبھی ہماری ہی آستینوں میں پَل رہے ہیں
    .
    .
    اصل میں یہ لوگ ہی تھے اِصلاحی میرےکل تک
    جو آج ناکامی میری پہ ہنس اُچھل رہے ہیں
    .
    .
    یہ درد و غم بھی عطا ہیں پہلی محبتوں کی
    جو زندگی میں ہمیشہ میری مخل رہے ہیں
    .
    .
    ہیں طعنے ناکام عاشقوں کی نذر اَزل سے
    عقل نہیں تھی جو آج تک ہاتھ مَل رہے ہیں
    .
    .
    یہ سوچ باقرؔ مُجھے تو کھاۓ ہی جا رہی ہے
    کہ لوگ دِن رات کیسے چہرے بَدَل رہے ہیں
    .
    .
    مُرید باقرؔ انصاری

    .
    .
    .
     

اس صفحے کو مشتہر کریں