1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

یوم دفاع۔۔ کوئی تو بولے۔۔ عرفان صدیقی

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از وسیم, ‏7 ستمبر 2009۔

  1. وسیم
    آف لائن

    وسیم ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جنوری 2007
    پیغامات:
    953
    موصول پسندیدگیاں:
    43
    6 ستمبر یوم دفاع ۔۔۔۔ کوئی تو بولے
    نقش خیال…عرفان صدیقی


    آج ہم ”دفاع پاکستان“ کا دن منا رہے ہیں چوبیس سال قبل بھارت نے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر لاہور پر قبضہ کرنے اور جم خانہ کلب میں جشن فتح منانے کا اعلان کرتے ہوئے زمین، سمندر اور فضاؤں سے یلغار کر دی تھی۔ پاکستان کی مسلح افواج نے کمال جوانمردی اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ اپنے سے کئی گنا بڑے، کئی گنا طاقتور دشمن کا مقابلہ کیا۔ پوری قوم عزم بے کراں سے سرشار ہو کر اپنے جانبازوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی۔ مسلح افواج اور اہل پاکستان نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر یہ معرکہ لڑا اور سرخرو رہے۔ ان شہداء کی پاکباز روحوں کو سلام جن کا لہو پاکستان کے عارض و رخسار کا غازہ بنا، ان غازیوں کو سلام جنہوں نے شجاعت کی درخشاں داستانیں رقم کیں، اس قوم کو سلام جس نے کڑی آزمائش کی گھڑی میں غیرت و حمیت کا پرچم سربلند رکھا اور ان مسلح افواج کو سلام جن کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور ایمان و یقین نے پاکستان کی آن بان کا علم جھکنے نہ دیا۔
    6ستمبر 1965ء کی یادوں سے جوش جنوں کی چنگاریاں چننے اور دفاع وطن کے مقدس عزم کو تازہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی ضرور دیکھنا چاہئے کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اگر خدا نخواستہ ہمارا روایتی دشمن پھر ایسی مہم جوئی پر اتر آتا ہے تو کیا ہم پوری طرح تیار ہیں؟ یقیناً فوج کے عزم اور عوام کے جذبہٴ احساس میں آج بھی کوئی کمی نہیں آئی اور وہ طوفانوں کا رخ موڑ سکتے ہیں لیکن زمینی حقائق پر نگاہ ڈالی جائے تو دل ڈوبنے لگتا ہے وجہ صرف یہ نہیں کہ ایک پرائی جنگ نے ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے فوج کئی داخلی محاذوں پر الجھ گئی ہے اور قومی ہم آہنگی میں بھی دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ اسباب لاتعداد ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ امریکہ بری طرح ہمارے داخلی معاملات میں دخیل ہو چکا ہے اور کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے جیسے ہماری ریاستی اتھارٹی اس کی سامراجی چیرہ دستیوں کے سامنے بے بس ہو چکی ہے۔
    یہ ”بلیک واٹر“ کیا بلا ہے؟ اس کے گُرگے پاکستان میں کیا کرنے آئے ہیں؟ انہیں کس نے یہاں آنے کی دعوت دی ہے؟ ان کا خرچہ کون اٹھا رہا ہے؟ ان کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟ ان سوالوں کی گونج آہستہ آہستہ تیز ہو رہی ہے اور دور و نزدیک کوئی جواب دینے والا نہیں۔ گزشتہ روز عوامی جمہوریہ چین کے سفیر اوژاؤ ہوئی نے اسلام آباد کے کچھ صحافیوں کو سفارت خانے بلوایا۔ باضابطہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے عزت مآب سفیر نے امریکی سفارت خانے کی توسیع اور میرینز کی آمد پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ”امریکہ کو پاکستان کی سلامتی کے تقاضوں اور قوانین کو مدنظر رکھنا چاہئے“۔ یہ ایک غیرمعمولی پیشرفت ہے جسے سرسری طور پر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ وزیراعظم کا یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ ”ہم چین کی تشویش دور کریں گے“۔ چین روایتی طور پر بیحد ٹھنڈی اور دھیمی سفارت کاری پر یقین رکھتا ہے۔ کسی معاملے پر بڑھک مارنا یا یوں کھلے عام اپنی تشویش کا اظہار کرنا اس کا عمومی شیوہ نہیں۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب اس کا پیمانہ لبالب بھر جانے کے بعد چھلکنے لگے۔ چین اور پاکستان کے انتہائی گرم جوش باہمی تعلقات کو پیش نظر رکھا جائے تو عوامی جمہوریہ چین کے سفیر کو ایسے غیرمعمولی اقدام سے پہلے خاصی مشق سے گزرنا پڑا ہوگا۔ یقیناً انہوں نے اپنے دفتر خارجہ اور بیجنگ کے اعلیٰ حکام سے اجازت لی ہوگی۔ اس ”تشویش“ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دراصل چین ہمارے اس طرز عمل سے سخت ناراض اور دلبرداشتہ ہے جو ہم نے امریکن عزائم کے سامنے سپرانداز ہو کر اختیار کر رکھا ہے۔ چین کو بجاطور پر تشویش ہے کہ گزشتہ آٹھ نو برس کے دوران پاکستان ایک بڑے امریکی اڈے کی شکل اختیار کر گیا ہے اور اس کاایک دیرینہ دوست، دوستی کے تقاضوں سے انحراف کرتا ہوا امریکہ کی آغوش میں جا بیٹھا ہے۔
    امریکی سفارت خانے کی غیرمعمولی توسیع کا حقیقی محرک ابھی پردہ راز میں ہے مزید 144 کنال زمین پر نئی تعمیرات کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ تقریباً اسّی ارب روپے کی لاگت سے کون سا قلعہ تعمیر ہو رہا ہے؟ اور یہ میرینز کیا کرنے آ رہے ہیں؟ امریکی سفیر نے خود اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے اسلام آباد میں دو سو گھر کرائے پر لے رکھے ہیں۔ ان گھروں میں کون رہ رہا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ رسوائے زمانہ ”بلیک واٹر“ تنظیم کے سات سو گُرگے پشاور اور اسلام آباد میں ڈیرے ڈال چکے ہیں۔ مقامی لوگوں کے ساتھ ان کا رویہ مفتوحہ علاقے کے غلاموں جیسا ہے۔ اسلام آباد میں کم از کم پانچ انتہائی شرمناک واقعات ہو چکے ہیں لیکن حکومت مہر بہ لب ہے۔ 25/اگست کو پشاور موڑ پر، ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز کے قریب ایک ناکے پر دو گاڑیوں کو روکا گیا۔ ان میں چار امریکی سوار تھے۔ چاروں کے پاس انتہائی جدید خودکار ہتھیار تھے۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ کون ہیں۔ جواب ملا۔ ”ہم کالا پانی (Black Water) سے تعلق رکھتے ہیں“۔ چاروں کو مارگلہ پولیس اسٹیشن پہنچا دیا گیا۔ ذرا دیر بعد امریکی سفارت خانے کا ایک اہلکار وہاں پہنچ گیا۔ ایک پولیس آفیسر ایس پی آفتاب ناصر اور ایک ریٹائر آرمی آفیسر کیپٹن اعجاز بھی اس کے ہمراہ تھے۔ تھانے کے انچارج نے مزاحمت کی لیکن دو پاکستانیوں نے اسے دھمکیاں دیں اور چاروں امریکیوں کو چھڑا لے گئے۔ اس سے پہلے تین امریکیوں نے اسلام آباد کے معروف علاقے، آبپارہ مارکیٹ میں محسن بخاری نامی شخص کو صرف اس جرم پر بری طرح زدوکوب کیا کہ اس نے اپنی گاڑی امریکیوں کی گاڑی کے قریب کھڑی کی تھی۔ اس سے قبل ڈپلومیٹک انکلیو میں ایک امریکی گارڈ نے ایک پاکستانی پولیس آفیسر کو گالیاں دیں اور برا بھلا کہا۔ پشاور میں بھی آئے دن ایسے واقعات پیش آ رہے ہیں جہاں بلیک واٹر کے کارندے دندناتے پھر رہے ہیں۔ امریکی سفارت خانے کے ترجمان سے ایک صحافی نے پوچھا ”کیا امریکی یوں جدید خودکار ہتھیاروں کے ساتھ شہری علاقوں میں پھر سکتے ہیں“۔ جواب ملا ”جی ہاں! اگر اجازت ہو تو“۔ غیرملکی اخبارات میں جدید ترین آلات اور ہتھیاروں سے آراستہ ان بکتر بند گاڑیوں کی تصویریں چھپ چکی ہیں جو پورٹ قاسم پر اتاری گئی ہیں۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ”بلیک واٹر“ جس کا نیا نام زی (Ze) ہے کم از کم چھ دوسرے شہروں میں ڈیرے ڈالنے والے ہیں۔ جنرل مرزا اسلم بیگ کا کہنا ہے کہ ”اب ٹرپل ون بریگیڈ والا کام بلیک واٹر والے کیا کریں گے“۔ شنید ہے کہ ایک ہزار کا نیا جتھہ کسی وقت وارد ہو سکتا ہے۔
    المیہ یہ ہے کہ چار سو خاموشی چھائی ہے صدر چپ، وزیراعظم خاموش، دفتر خارجہ گم سم، آئی ایس پی آر مہر بہ لب، کوئی نہیں بتا رہا کہ عراق میں لوگوں کے خون سے ہولی کھیلنے، عصمتیں لوٹنے اور فلوجہ کو غارت کرنے والے یہ خونخوار کس کی اجازت سے یہاں آئے ہیں؟ عراق آ مد سے پہلے وزیراعظم نورالمالکی نے تحریری طور پر ان کا مطالبہ کیا تھا کیا انہیں امریکہ ازخود ہم سے پوچھے بغیر لے آیا ہے؟ کیا یہ بھی ڈرون حملوں جیسی کوئی خفیہ ڈیل ہے؟ کیا حکومت پاکستان نے باضابطہ ان کا مطالبہ کیا ہے؟ کچھ تو بولیں، کچھ تو بتائیں۔ کیا ”یوم دفاع پاکستان“ جوش و خروش سے منانے والوں کو اندازہ ہے کہ ان تیاریوں کا تعلق کنڈولیزا رائس کے اس معروف بیان سے بھی ہو سکتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ”ہم نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں ایک ایمرجنسی پلان بنا رکھا ہے جس کا فی الحال اعلان کرنا مناسب نہیں“۔
    اگر سر عام ہتھیار لے کر پھرنے اور پاکستانیوں کو مارنے پیٹنے والے کسی امریکی پر مقدمہ قائم کرنا بھی "doable" نہیں تو کیسا ”یوم دفاع“ کون سے نغمے اور کیسے ترانے؟ کوئی تو بولے کہ یہ سب کیا ہے؟
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اللہ پاک ہمارے ملک کے چپے چپے کی حفاظت فرمائے۔ اور ہمیں بےغیرت و غلام ذہنیت کے حامل "راہنماؤں" سے نجات حاصل کرنے کی توفیق دے۔ آمین
     
  3. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    بہت شکریہ وسیم جی اس شئیرنگ کا، بہت خوبصورت تحریر ھے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں