1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

یورپ پر اسلام کا غلبہ؟

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از راشد احمد, ‏14 اگست 2009۔

  1. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    حال ہی میں یو ٹیوب پر آنے والے چند عشروں میں براعظم یورپ میں اسلام کے اثر و نفوذ کے حوالے سے ایک ویڈیو بہت مقبول ہوئی۔ اس ویڈیو کو ایک کروڑ سے زائد ناظرین نے دیکھا۔ تاہم سوال یہ ہے کہ جو کچھ اس ویڈیو میں دکھایا گیا ہے آپ اس پر یقین کرتے ہیں یا نہیں۔

    ’مسلم ڈیموگرافکس‘ کے نام سے جاری کی جانے والی اس ساڑھے سات منٹ کی ویڈیو میں چمکدار تصاویر اور ڈرامائی موسیقی کی مدد سے کچھ حیران کن دعوے کیے گئے ہیں جن کے مطابق یورپ میں آنے والے چند عشروں میں اسلام اکثریتی آبادی کا مذہب ہوگا۔ اس ویڈیو کے مطابق گزشتہ بیس برس کے دوران یورپ کی آبادی میں ہونے والے اضافے میں سے نوے فیصد مسلمان تارکینِ وطن کی اس براعظم میں سکونت اختیار کرنے کی وجہ سے ہوا۔

    اس ویڈیو کے مطابق فرانس کی بیس سال یا اس سے کم عمر کی تیس فیصد آبادی مسلمان ہے اور مسلمان خاندانوں میں شرحِ پیدائش میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے فرانس آنے والے انتالیس برس میں اسلامی جمہوریہ بن جائے گا۔ ویڈیو میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ برطانیہ میں اسّی کے عشرے کے آغاز سے اب تک مسلم آبادی میں تیس گنا اضافہ ہوا ہے۔

    پر سوال یہ ہے کہ کیا اس ویڈیو میں دیے جانے والے اعدادوشمار درست ہیں؟

    ویڈیو میں کیا جانے والا یہ دعوٰی کہ یورپ میں سنہ انیس سو نوے کے بعد آبادی میں ہونے والے اضافے میں سے نوّے فیصد مسلم تارکینِ وطن کی آمد کی وجہ سے ہوا، کچھ حد تک درست ہے۔ یورپی یونین کے اعدادوشمار کے مطابق بھی آبادی میں اضافے کی اہم وجہ تارکینِ وطن کی آمد ہے لیکن یورپ میں آنے والے تمام تارکینِ وطن مسلمان نہیں تھے۔

    ویڈیو میں براعظم کی نسبت انفرادی یورپی ممالک کے بارے میں کیے جانے والے دعوے زیادہ چونکا دینے والے ہیں۔ اس کے مطابق فرانس میں جہاں ایک عام فرانسیسی خاندان میں اوسطاً ایک اعشاریہ آٹھ بچے ہیں وہیں فرانسیسی مسلمانوں میں یہ شرح آٹھ اعشاریہ ایک ہے۔

    اب اب دعوؤں کی تصدیق کیسے کی جائے؟ ان معلومات کے لیے کسی ذریعے کا حوالہ نہیں دیا گیا اور فرانسیسی حکومت مذہب کی بنیاد پر اعدادوشمار اکھٹے نہیں کرتی۔ اس لیے یہ جاننا ناممکن ہے کہ فرانس کے مختلف مذہبی گروہوں میں شرحِ پیدائش کیا ہے۔

    تاہم اتنی زیادہ شرح پیدائش تو دنیا کے کسی ملک میں نہیں۔ حتٰی کہ الجیریا اور مراکش، وہ دو ملک جہاں سے سب سے زیادہ مسلم تارکینِ وطن فرانس آتے ہیں، وہاں بھی اقوامِ متحدہ کے سنہ 2008 کے اعدادوشمار کے مطابق شرحِ پیدائش دو اعشاریہ تین آٹھ ہے۔

    ویڈیو کے مطابق نیدرلینڈ میں پیدا ہونے والے بچوں میں سے نصف مسلمان ہیں اور آنے والے پندرہ برس میں ملک کی نصف آبادی مسلمان ہوگی۔ تاہم ولندیزی ادارۂ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق مسلمان نیدرلینڈ کی آبادی کا صرف پانچ فیصد ہیں اور اگر یہ مان لیا جائے کہ ملک میں پیدا ہونے والے نصف بچے مسلمان ہیں، تو اس کے لیے مسلمان عورتوں میں شرحِ پیدائش کو دیگر ولندیزی خواتین سے چودہ گنا زیادہ ہونا ضروری ہے۔

    یورپ کی مسلمان آبادی میں اضافہ تو ہوا ہے لیکن اس تیزی سے نہیں جس کا دعوٰی کیا جا رہا ہے۔

    کیا ویڈیو میں کیے گئے دعوے کے مطابق بیلجیئم کی پچیس فیصد آبادی مسلم ہے؟ اس حوالے سے بیلجیئن ادارۂ شماریات سنہ 2008 کی ایک تحقیق پیش کرتا ہے جس کے مطابق مسلم آبادی کل آبادی کا صرف چھ فیصد ہے۔ ویڈیو میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گزشتہ تیس برس میں برطانیہ میں مسلم آبادی میں تیس گنا اضافہ ہوا ہے۔ اور ان کے اندازوں کے مطابق وہاں مسلمانوں کی آبادی بیاسی ہزار سے پچیس لاکھ تک جا پہنچی ہے۔

    اس حوالے سے سنہ 2001 کی مردم شماری کے نتائج کو دیکھا جائے تو انگلینڈ اور ویلز میں مسلمانوں کی تعداد سولہ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ یقیناً سنہ 2001 کے بعد برطانیہ میں مسلم آبادی میں اضافہ ہوا ہے اور اس تعداد کا پچیس لاکھ تک پہنچ جانا ناممکن نہیں تاہم اس کی تصدیق سنہ 2011 کی مردم شماری سے ہی ہو سکے گی۔ تاہم ساؤتھمپٹن یونیورسٹی کے ایک ماہر ڈاکٹر اینڈریو ہنڈ کا کہنا ہے کہ بیاسی ہزار کا ہندسہ حقیقت سے کہیں کم ہے۔ ان کے مطابق ’ اگر آپ سنہ اکیاسی کی مردم شماری کو دیکھیں تو اس میں مذہبی عقائد کے حوالے سے کوئی سوال شامل نہیں تھا لیکن اگر سنہ اکیاسی میں صرف پاکستان اور بنگلہ دیش میں پیدا ہونے والے برطانوی مسلمانوں کو ہی گنیں تو یہ تعداد تین لاکھ کے قریب بنتی ہے‘۔

    اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آبادی میں اضافے کی جس شرح کا ویڈیو میں ذکر کیا گیا ہے وہ صحیح نہیں۔

    تاہم ویڈیو میں صرف اعدادوشمار کی ہی بات نہیں کی گئی۔ اس میں جرمنی کا ایک سرکاری بیان بھی شامل ہے جس کے مطابق ’جرمن آبادی میں کمی کو روکا نہیں جا سکتا۔ یہ ایک نیچے جانے والا سلسلہ ہے جس کی واپسی کا امکان نہیں اور یہ سنہ 2050 تک ایک اسلامی ریاست ہوگا‘۔

    یہ بیان جرمنی کے وفاقی شماریات دفتر کے اس وقت کے نائب صدر اور یورپی یونین کے چیف شماریاتی افسر والٹر ریڈرمیکر نے جاری کیا تھا۔ ان کے مطابق انہوں نے صرف اتنا کہا تھا کہ جرمنی کی آبادی میں کمی کا رجحان ہے تاہم ان کے مطابق بیان کا آخری حصہ بعد میں شامل کیا گیا ہے اور انہوں نے جرمنی کے مسلم ریاست بننے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔

    والٹر ریڈرمیکر کے مطابق ’ ایسا کوئی ذریعہ نہیں جس کے حوالے سے یہ کہا جا سکے کہ جرمن حکومت نے ایسی کوئی بات کی ہے‘۔ ویڈیو میں یہ دعوٰی بھی کیا گیا ہے کہ جرمن حکومت کا ماننا ہے کہ یورپ میں مسلمانوں کی تعداد دوگنا ہو کر ایک سو چار ملین ہو جائے گی۔

    اس حوالے سے والٹر ریڈر میکر کا کہنا ہے کہ ’یہ سچ نہیں ہے۔ جرمن حکومت نہیں مانتی کہ آنے والے چالیس سے پچاس برس میں مسلم آبادی دوگنی ہو جائےگی۔ اس اندازے کے حق میں کوئی قابلِ اعتماد ثبوت موجود نہیں ہے‘۔

    آبادی میں اضافہ ایک ایسی چیز ہے جس میں کچھ حتمی نہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ سنہ 2050 تک یورپ میں یا کہیں اور کتنے مسلمان رہ رہے ہوں گے۔ حالیہ رجحان کو دیکھا جائے تو یہ بات صحیح ہے کہ سنہ 2050 میں یورپ میں مسلم آبادی کا تناسب آج کے مقابلے میں زیادہ ہو گا لیکن اتنا زیادہ بھی نہیں جتنا کہ اس ویڈیو میں بتایا گیا ہے۔

    لیکن یہاں ایک بڑا اندازہ تارکینِ وطن کی تعداد اور شرحِ آبادی میں اضافے کے حوالے سے لگایا گیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ تارکینِ وطن میں آبادی میں اضافے کی شرح زیادہ ہوتی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ شرح عام آبادی کے برابر آ جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مسلم تارکینِ وطن میں ایسا نہ ہو لیکن یہ بات بھی حتمی نہیں لہذٰا بقول ڈاکٹر ہنڈ مستقبل کی پیشین گوئی بہت مشکل ہے۔

    تیس کی دہائی میں برطانیہ کی آبادی کے بارے میں جو اندازے لگائے گئے تھے ان کے مطابق اس صدی کے اختتام پر برطانوی آبادی کو دو کروڑ کی حد کو چھونا چاہیے تھا جبکہ آبادی پانچ کروڑ تک جا پہنچی۔ ڈاکٹر ہنڈ کے مطابق اگر آپ چالیس سے پچاس برس بعد کی بات کریں اور غیر یقینی کا عنصر مدِ نظر نہ رکھیں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔

    حوالہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔ مجھے اعداد و شمار سے غرض نہیں۔
    لیکن میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق یورپ کے جس ملک میں ، میں رہتا ہوں۔ وہاں ہر ترکی مسلمان فیملی میں بچوں‌کی اوسط تعداد 5 ہے اور پاکستانی مسلمانوں کے بچوں کی اوسط تعداد بھی 3-4 ہے۔
    جبکہ اسکے برعکس بڑے شہروں میں، مقامی گوروں کے گھروں میں اکثر و بیشتر ایک آدھ بچے سے زیادہ دکھائی نہیں دیتے۔

    اس لیے وہ یوٹیوب ویڈیو اتنی ناقابل یقین بھی نہیں ہے۔ بشرطیکہ ہم (مسلمان) اپنی آئندہ نسلوں‌تک دین اسلام کو کما حقہ منتقل کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ وگرنہ تو یورپ کی فحش، مادیت پرست اور لچر کلچر کی یلغار میں بعض مسلمان بچے، صحیح اسلامی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے صرف نام کی حد تک مسلمان رہ جاتے ہیں ۔

    لیکن جس طرح پچھلی چند دھائیوں‌سے مغربی سازشوں سے جس طرح مسلمان ممالک میں‌پے درپے مشکلات مسلط کی گئی ہیں۔ اور وہاں کے مسلمانوں‌کو اپنے ہی دیس کو چھوڑ کر یورپ و امریکہ کی طرف نکلنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ مشیت ایزدی بھی یہی لگتی ہے کہ یہ سازشیں کچھ عرصے بعد خود یورپی ممالک کے گلے کی پھانس بننے والی ہیں انشاءاللہ ۔
     
  3. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    مسلمان کو مسلمان کردیا طوفان مغرب نے
     
  4. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    مغرب میں شادی، خاندان، رسم ورواج، مذہب کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں کسی کے ہاں بچے کی پیدائش کے بعد یا دوران حمل بچے کا وظیفہ مقرر کردیا جاتا ہے جو ایک لحاظ سے افزائش نسل کی حوصلہ افزائی ہے جبکہ ہمارے ہاں خاندانی منصوبہ بندی کی مغرب تشہیر کراتا ہے کہ

    کم بچے خوشحال گھرانہ
    بچے دو ہی اچھے

    اس کے لئے یورپ وامریکہ مسلمان ملکوں کو بھاری فنڈز دیتے ہیں تاکہ مسلمان کم پیدا ہوں اور خود اپنے ملکوں میں اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔یورپ کے لئے تو اقبال نے کہا تھا۔

    تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
    جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
     
  5. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    راشد بھائی بہت ہی خوب
     
  6. انجم رشید
    آف لائن

    انجم رشید ممبر

    شمولیت:
    ‏27 فروری 2009
    پیغامات:
    1,681
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    اسلام علیکم
    اعداد شمار کا تو مجھے علم نہیں لیکن ایک بات ضرور کہوں گا اگر ہم مسلم جو یورپ میں بستے ہیں واقع ہی سچے مسلم ہوتے تو آج کٰی لاکھ یورپین مسلم ہوتے یورپ میں اب یہ حالت ہے کہ 50فیصد گورے کیسی بھی مذہب پر یقین نہیں رکھتے ان بھٹکے ہوے لوگوں کو مسلم کیا جا سکتا ہے لیکن افسوس ہم لوگوں کی کرتوتیں َ
    ایک واقع بیان کرتا ہوں یونان میں کوٰی قانونی مسجد نہیں ہے کی سال سے مسل مسجد کا مطالبہ کر رہے ہیں ایک بار حکومت نے اجازت دے دی تو اس پر کافی لے دے ہوٰی یہاں میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ ایک پادری ٹی وی پر بعحث کر رہا ہے کہ جب اٹلی میں مسجد بنی تو کی ہزار اٹالیاں مسلم ہو گے یہاں بھی اگر مسجد بن گی تو بہت سارے یونانی مسلم ہو جایں گے اس سے اندازہ لگایں اگر ہمارہ قول اور فعل واقع ہی ایک سچے مسلم جیسا ہوتا تو آج کیتنے بے دین مسلم ہوتے
     
  7. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    انجم رشید بھائی ۔ آپ نے بجا فرمایا۔
    ہمارے اکابرین نے جو اسلام کو شرق تا غرب پھیلایا تو اپنے کردار کی بدولت ! نہ کہ تلوار کی بدولت۔
    آج ہم گفتار کے غازی ہیں اور کردار کے منافق (الا ماشاءاللہ) ۔
    اللہ تعالی ہمیں سیدھی راہ پر چلنا نصیب فرمائے۔ آمین
     
  8. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    انجم رشید اور نعیم بھائی ۔۔۔۔سب باتیں بجا اور ان کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں۔۔۔۔۔۔۔لیکن یاد رکھیں‌ہدایت صرف اور صرف اللہ تعالی کی طرف سے ہے وہ جس کو چاہے دے دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جہاں تک ایک مسلمان کے کردار کی بات ہے تو وہ بالکل اہم ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں