1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ہم کس طرف جارہے ہین؟

Discussion in 'آپ کے مضامین' started by اقبال جہانگیر, Feb 28, 2011.

  1. اقبال جہانگیر
    Offline

    اقبال جہانگیر ممبر

    Joined:
    Jan 19, 2011
    Messages:
    1,160
    Likes Received:
    224
    پاکستان اس وقت بدامنی اور دہشت گردی کی ایک لہر کی لپیٹ میں ہے جس پر پاکستان سے محبت رکھنے والا ہر دل پاکستان اور مسلمانوں کی سلامتی سے متعلق غمزدہ ،پریشان اور متفکر ہے ۔ پاکستان میں دہشت گردی و انتہا پسندی ایک ناسور بن چکی ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے اب خود پاکستان بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا ناسور پنپ رہا ہے اور اب وہ اسے سمجھنے بھی لگا ہے اور اس کا علاج بھی تلاش کر رہا ہے۔ملک میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات اور خودکش حملوں نے ایک مرتبہ پھر ملک کی سلامتی اور بقاءکو سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ شاید حالات کی سنگینی کا احساس ارباب اقتدارکو بھی ہوا ہو۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے صف اول کا کردار ادا کرکے اپنی فوج اور عوام کے خون کی قربانیاں پیش کی ہیں۔ اس جنگ کی وجہ سے پاکستان سیاسی, معاشرتی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہوا ہے اور اس جنگ میں پاکستان نے اکتیس ہزار قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔
    پاکستان نے اس جنگ کی بہت بھاری معاشی‘ معاشرتی اور اخلاقی قیمت چکائی ہے اور خدا جانے کب تک چکاتے رہیں گے۔ معیشت جو پہلے ہچکیاں لے رہی تھی دہشت گردی کے عذاب نے اس کو موت کے منہ میں دھکیل دیا ہے کاروبار تباہ ہو گئے ہیں نئی صنعت لگ نہیں رہی پرانی فیکٹریاں دھڑا دھڑ بند ہو رہی ہیں اور ہزاروں کے حساب سے لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں۔ ملک ترقی معکوس کی طرف گامزن ہے۔ ان نو سالوں کی دہشت گردی، خودکش دھماکوں اور دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ بہت تباہیاں ل و بربادیاں ے کر آئی ہے کتنے لوگوں کی خوشیاں اور ارمان خاک میں مل گئے، کتنے لوگ اس دہشت گردی کی آگ کے بھینٹ چڑھ گئے، اب تک ہونے والے خودکش دھماکوں کے متاثرین پر کیا گزر رہی ہے؟ ہرصبح طلوع ہونے والا سورج ان کےلئے امید کی کرن لاتا ہے یا نہیں؟
    دہشت گردی برے انداز فکرکو اپنانے سے شروع ہو ‏ءی ہے ـ اچھا انداز فکر ہی اس کو ختم کر سکتا ہےـدہشت گردی کے خلاف اتحادی کا کردار کرنے کے سبب پاکستان کوگزشتہ 9برس میں ۴۵ارب ڈالر کا معاشی نقصان اُٹھانا پڑا۔ اس سال 29خودکش دھماکے پختونخواہ اور قبائلی علاقوں ، 7 پنجاب، 2سندھ اور 2ہی بلوچستان میں ہوئے۔ 2009ء کی نسبت رواں برس خودکش دھماکوں میں خاصی کمی رہی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی ہونے کی وجہ سے گزشتہ برسوں میں پاکستان کو ۴۵ارب ڈالر کا نقصان اُٹھانا پڑا۔
    علماءنے پاکستان بھر مین حالیہ خودکش حملوں کےواقعات اور دہشت گردی کو ناجائز اور حرام قرار دیتے ہوئے اس کو اسلام اور پاکستان کے خلاف سازش قرار دیا۔ بلا شبہ دہشت گردی اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج ہے اور ملک کو اس ناسور سے پاک کرنے کے لئے پوری قوم کو متحدہ ہونا ہو گا۔ قتل و غارتگری میں ملوث لوگ انسانیت‘ اسلام اور پاکستان کے دشمن ہیں اور وہ کسی طور پر بھی انسان کہلانے کے مستحق نہیں ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم مل بیٹھ کر ملک کی بقاءاور سالمیت کے لئے ایسے فیصلے کریں ،جس سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو اور مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ ملے۔ علماء اور دانشوروں کا کردار اس ضمن میں نہایت اہمیت کا حامل ہو گا۔
    دہشت گردی کی تمام صورتیں اور اقسام انسانیت کے لئے خطرہ ہیں۔ اسلام کسی حالت میں بھی دہشتگردی اور عام شہریوں کے قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کی اکثریت اسلام کےانہی سنہری اصولوں پر کاربند ہے۔ دہشت گردی و خود کش حملے اسلام کے بنیادی اصولوں سےانحراف اور رو گردانی ہے۔
    بے گناہ لوگوں کو قتل کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ معصوم انسانی جانوں سے کھیلنے والے درندے ہیں ‘ ان کا نہ تو اسلام اور نہ ہی پاکستان سے کوئی تعلق ہے۔ ایسے درندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جانا چاہیے۔دہشت گردی کی وجہ سے انسانوں کی جان، مال اور آبرو کو خطرے میں نہیں ڈالاجاسکتا ہے ۔ولا تقتلوا النفس التی حرم اللہ الا بالحق “ ۔( اور جس نفس کو خداوند عالم نے حرام قرار دیا ہے اس کو بغیر حق قتل نہ کرو)(سورہ اعراف ، آیت ۱۵۱)کی بنیاد پر تمام انسانوں کی جانیں محتر م ہیں چاہے وہ شیعہ ہوں یا اہل سنت،مسلمان ہوں یا غیر مسلمان۔
    قرآن کریم میں مفسد فی الارض اور محارب جو کہ دوسروں کی جان اور مال کو خطرہ میں ڈالتے ہیں ،کے لئے بہت سخت احکام بیان ہوئے ہیں ، اسی بات سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام ہمیشہ دہشت گردی سے پرہیز کرتا ہے اور اسلام کے عظیم قوانین پر عمل کرنے سے معاشرہ کو دہشت گردی سے چھٹکارا ملتا ہے۔مَنْ قَتَلَ نَفْساً بِغَیْرِ نَفْسٍ اٴَوْفَسادٍفِی الْاٴَرْضِفَکَاٴَنَّماقَتَلَالنَّاسَجَمیعاًوَمَنْاٴَحْیاہافَکَاٴَنَّمااٴَحْیَاالنَّاسَجَمیعا(سورہ مائدہ ، آیت ۳۲) ۔ جو شخص کسی نفس کو .... کسی نفس کے بدلے یا روئے زمین میں فساد کی سزا کے علاوہ قتل کرڈالے گا اس نے گویا سارے انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے ایک نفس کو زندگی دے دی اس نے گویا سارے انسانوں کو زندگی دے دی۔ اس آیت سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ جواسلام اور قرآن کے نام پر دہشت گردانہ حملے کرتے ہیں وہ جائز نہیں ہیں۔
    دہشت گردی ایک بہت بڑا ناسور ہے جس کے مقابلہ کے لئے امت مسلمہ کو متحد اور منظم ہو کر مشترکہ طور پر اس کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا ہو گا۔نوجوانوں کو دہشت گردوں کے اثرات سے محفوظ کرانا اور انہیں انتہا پسندانہ نظریات کا مبلغ بنانے کی بجائے مفید و کار آمد شہری بنانا ہو گا۔ پاکستان مین موجودہ دہشت گردی کے واقعات نے لوگوں کو بے سکون کردیا ہے ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے وطن عزیز کی سا لمیت کیلئے آپسی بھائی چارے اور مذہبی رواداری کو فروغ دیا جائے اور لوگوں کا حکومت پراعتماد بحال کیا جائے۔
    ملک میں معاشی ترقی اور صنعتیں تب ہی لگیں گی اور غیر ملکی سرمایہ کاری تب ہو گی جب ملک میں امن و امان ہو گا ۔اس وقت ملک کو دہشت گردی کا سامنا ہے اور دہشت گردی کی وجہ سے ملک کی معاشی حالت دگرگوں ہو چکی ہے۔پاکستان بدحالی کے دھانے پر کھڑا ہے۔ معیشت بند گلی مین داخل ہو گئی ہے اور کوئی ملک پاکستان کو بیل آوٹ پلان دینے کے لئے تیار نہیں۔ حکومت اپنے انتظامی اخراجات پورے نہیں کر پا رہی۔ سنگین حالات سے نکالنے کے لئے قومی یکجہتی سے مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہو گی۔ لہذا عوام دل و جان سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اور ملکی معاشی بہتری کے لءےحکومت سے تعاون کریں۔دہشت گردی جیسے فتنے سے نمٹنا تو ہر مسلمان اور پاکستانی کی اولین ذمہ داری ہے۔
    پاکستانی پولیس کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک خیراتی ادارہ الحرمین فاؤنڈیشن نے تحریک طالبان کو 15 ملین امریکی ڈالر پاکستان میں دہشت گردی کے لیے دیے جس سے پنجاب کے کئی شہروں کو نشانہ بنایا جانا تھا۔ رپورٹ کے مطابق تحریک طالبان کے حکیم اللہ محسود اور اس کے ساتھی جیش محمد اور لشکر جھنگوی کے ساتھ مل کر پنجاب میں اہم علاقوں پر حملہ کرنا اور دہشت گردی کا ارتکاب کرنا تھا ۔[روزنامہ دی نیوز۔ 14 ستمبر 2009]اوائل ۲۰۰۹ء میں طالبان نے پنجاب میں مختلف متشدد مذہبی گروہوں پر مشتمل مسلم یونائیٹڈ آرمی بنائی جس میں پاکستان بھر کی عسکریت پسند تنظیمیں شامل تھیں جیسے لشکر جھنگوی‘ تحریک نفاذ شریعت محمدی ،مولوی فضل اللہ گروپ ،۔حزب مجاہدین‘ جیش محمد‘ خدام اسلام‘ رحمت ویلفیئر ٹرسٹ ‘ تحریک طالبان پنجاب‘ حرکت الجہاد اسلامی‘الیاس کشمیری گروپ۔ انہوں نے نفاذ شریعت سے متعلق چارٹر آف ڈیمانڈ تیار کیا ہےمحکمہ داخلہ پنجاب کو وزارت داخلہ کی بھجوائی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھاکہ قاری نعیم آف بہاولپور‘ قاری عمران ملتان‘ عصمت اللہ خانیوال اور رانا افضل خانیوال کے علاوہ درہ آدم خیل میں کمانڈ ہیڈ آفس سے ان کے رابطے ہیں۔[روزنامہ نوائے وقت 12 مئی 2009ء]
    یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی میں ملوث کسی تنظیم یا فرد کا دفاع کرنا دہشت گردی کو فروغ دینے جیسا کا م ہے۔ اس لیے جو لوگ بھی صحیح معنوں مین انسانیت دشمن کارروائیوں کے مجرم ہیں انھیں عبرت ناک سزائیں دینا ضروری ہے لیکن اس معاملہ میں محض فرقہ واریت کی عینک لگا کر چند لوگوں کو ذمے دار قرار دینے کی رٹ لگا نااپنی ذمہ داریوں سے فرار ہونا اور اپنی تن آسانی کا جواز فراہم کرنا ہے۔ اعداد و شمار اس بات کے گواہ ہیں کہ پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار خود مسلمان ہیں۔ افغانستان سے لے کر عراق اور خودکشمیر کے اعداد و شمار جمع کریں تو اس میں مرنے والوں کی تعداد 90فیصد مسلمانوں پر ہی مشتمل ہے۔
    دہشت گردی کا ناسور اب اس حد تک پھیل چکا ہے کہ اسے ختم کر نے کے لیے ملک کے تمام فرقوں، نظریا ت اور طبقوںکے لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا بے حد ضروری ہے۔دہشت پسندی کی ہر کارروائی کے بعد بعض مذہبی اور سیاسی لیڈران اپنی دوکانداری چمکانے کے لئے ایسے بیانات دیتے ہیں جس سے فرقہ وارانہ ماحول خراب ہوتا ہے اور عام لوگوں کے دل و دماغ میں خوف و ہراس سرایت کرنے لگتا ہے۔ ایسے لوگ دہشت گردون کے دوست ہین اور قابل غور بات یہ ہے کہ بعض سیاسی و مذہبی لیڈروں کی غیر ذمہ ورانہ بیان بازی سے دہشت گرد و انتہا پسند طاقتوں کو حوصلہ بھی ملتا ہے۔ دہشت گردوں کے معاملہ مین کسی قسم کی کمزوری دکھانا دہشت گردوں کے حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔
    پاکستان کی دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کیخلاف جنگ اسی وقت ختم ہو گی جب جنگجو وں کا مکمل طورپر خاتمہ کر دیا جائے گا۔یہ لوگ معاشرے اور ملک کیلئے خطرہ ہین جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کی اصل روح اور تشخص کو مسخ کر رہے ہیں ،ایسے ملک اور اسلام دشمن عناصر کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں۔
    دہشت گردی پر قومی پالیسی کی تشکیل وقت کا ایک اہم تقاضہ ہے نہ صرف ہم یہ طے کر لیں کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی نہیں ہونی چاہئے بلکہ ہمیں دنیا کے سامنے یہ بھی اعلان کرنا ہو گا کہ ہم افغانستان اور دوسرے ممالک میں بھی کسی قسم کی دہشت گرد ی کے حامی نہیں ہیں ۔ ہماری دوغلی پالیسی نہیں چل سکتی۔ہمیں شرح صدر کے ساتھ کوئی بھی فیصلہ کر لینا چاہیئے۔دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے مجوزہ قومی کانفرنس کے انعقاد کے بارے تمام سیاسی جماعتوں او ر تمام مکاتب فکر کو اعتماد میں لیا جائے تاکہ قومی کانفرنس کو بامقصد او ر نتیجہ خیز بنایا جا سکے اتفاق رائے کے بغیر قومی کانفرنس کا انعقاد بے معنی ہو گا ۔ کوئی بھی ایک جماعت دہشت گردی ختم نہیں کر سکتی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہو کر ان کا مقابلہ کرنا ہو گا
    ہمین آج کی دنیا مین سری لنکا کی مثال اپنے سامنے رکھنی ہے۔ سری لنکا برسوں تک دہشت گردی کا شکار رہا لیکن اس نے دہشت گردوں کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے، با لآخر سری لنکا میں تامل دہشت گردوں کو شکست ہو گئی ۔پاکستان کو بھی دہشت گردی کے خلاف ایک طویل عرصے کی جنگ کے لئے ذہنی طور پر تیار رہنا ہو گا۔بالآخر اپنی جنگ ہمین خود ہی لڑنی پڑتی ہے اور کوئی ملک دوسرے کی لڑائی نہین لڑتا۔ہم رومانوی لوگ غیر حقیقی توقعات وابستہ کرنے میں کمال رکھتے ہیں۔
    حقیقتایہ جنگ کوئی ایک شخص ، کوئی ایک ادارہ، کوئی ایک جماعت نہیں جیت سکتی، اس کے لئے ہمیں قومی اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ہماری بعض مذہبی و سیاسی جماعتیں سستی نعرے بازی کرتی ہیں ۔ اگر یہ جماعتیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حامی نہیں تھیں تو طالبان کی حمایت کیوں کرتی رہین ۔
    دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسلام ظلم و دہشت سے نجات کا نام ہے۔دہشت گردی اگر سوات اور فاٹا میں قابل مذمت ہے تو کراچی اور حیدر آباد اور دنیا بھر میں بھی قابل مذمت ہے۔
    چونکہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور یہ سماجی عمل ہے اور کئی وجوہات کی بناء پر اسکا معاشرے کے ساتھ تعلق موجود ہوتا ہے۔ دہشت گردی معاشرے کی کئی خرابیوں کا رد عمل ہوتی ے۔ کوئی معاشرہ کسی وقت بھی دہشت گردی کی نظر ہوسکتا ہے اور اس کا دنیا بھر میں کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ تاہم اس عمل کو کسی بھی صورت میں کسی مذہب کے ساتھ منسلک نہیں کرنا چاہیے۔
    دہشت گردی کو مات دینے کے لیے پاکستانی قوم کی محرومیوں کو دور کرنا اور ان کے جائز اقتصادی مسائل اور دہشت گردی کی بنیادی محرکات کو دور کرنا اور ان کا حل کیا جانا بےحد ضروری ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اور امن کے حق میں ڈراموں‘ فلموں‘ پمفلٹ‘ پوسٹر‘ مباحثوں کو ترتیب دیا جانا چاہیے۔ پمفلٹ و پوسٹرز شائع کئے جانا چاہیے‘ پاکستانی میڈیا کو بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ پوری طرح شریک کیا جانا چاہیے۔
    ہمارےقبائلی علاقوں میں صدیوں سے قبائلی جرگہ‘ قبائلی لشکر‘ اور اجتماعی ذمہ داری ، پشتونون کے سماج اور ثقافت کا اٹوٹ انگ اور بنیادی ستون ہیں‘ دہشت گردوں نے ان ستونوں کو بڑے منظم انداز مین جان بوجھ کر گرایا تاکہ وہ احتساب سے بچ سکیں،جس کی وجہ سے قبائلی علاقوں کی معاشرت کے تار و پود بکھر کر رہ گئے ہین۔ اگر ہم آج پشتونوں کو ان کا لوٹا ہواسماج ،رسم و رواج اور ثقافت واپس لوٹا دیں تو ہم دہشت گردی کے خلاف آدہی جنگ فورا جیت سکتے ہین۔
    دہشت گردی کے خلاف موثر جواب دہشت گردوں سے لڑ ا ئی کے علاوہ اس سوچ اور خیالات کو،جو ان کو ایسا کرنے پر ا کساتی ہے ختم کرنا ہو گاـ اسلامی انتہا پسند تحریک کو اسی طرح شکت دینا ہو گی جسں طرح فا‎شزم اور کیمونزم کو شکست دی گی تھی ، ہر سطح پر اور ہر موقعے پر اور ہر پبلک اور ذاتی قسم کے ادارے کو بھر پور طور پر استعمال کرنا ہوگاـ اعتدال پسند مسلمانوں کی حمایت اور مدد کر نا اور اعتد ال پسند اسلام کی کامیابی موجودہ دہشت گردی کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کا واحد اور اصل حل ہےـ
    حقیقت یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی مضبوطی کا دارومدار القائدہ پر ہے جو ٹی ٹی پی کو سرمایہ اور تربیت فراہم کرتی ہے۔یہی بات القاعدہ اور افغان طالبان پر بھی عائدہوتی ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ تینوں کے خلاف ایک ہی طرح کی پالیسی بنائی جائے ۔اگر القاعدہ کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے تو ہم ٹی ٹی پی یا افغان طالبان کے ساتھ سمجھوتہ یا دوستانہ رویے کی امید نہیں کرسکتے۔اگر ہم افغانستان میں افغان طالبان کی فتح کے لئے دعائیں کررہے ہیں تو پاکستان میں ٹی ٹی پی کے خلاف جنگ نہیں چھیڑ سکتے ۔ایک گروپ کےخلاف لڑائی اور دوسرے کے ساتھ دوستانہ رویہ کی پالیسی اپنا نے سے ہم یقینی طور پربرباد ہوجائیں گے۔ ہمیں اچھے اور برے طالبان کا فرق ختم کرنا ہو گا۔ یہ تمام دہشت گرد ہین۔ہمیں اس مسئلے کی وسعت کو سمجھتے ہوئے اپنی خانگی اور غیر ملکی پالیسی پر پھر سے غور کرنا ہوگا اور اس کے مطابق اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔اگر ہم ایسا نہیں کرپاتے ہیں تو پھر ہمیں اس کے سنگین تنائج بھگتنےکے لئے بھی تیار رہنا چایئے۔
    دہشت گردی ایک امریکی نہین بلکہ پاکستانی ایشو ہے۔ ہمارےعوام کی سلامتی اور ترقی کے لئے یہ امر انتہائی اہم اور ضروری ہے اوریہ ہماری موجودہ اور آیندہ نسلوں کے وسیع تر مفاد میں ہے کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کو ہر ممکن طریقے سے اور ہر قیمت پر روکا اور ناکام بنایا جائے۔ دانشور،علماءکرام ، نوجوان اور پڑہے لکھے لوگ آگے آئیں اور اپنی مدد آپ کے تحت دہشت گردی کا خاتمہ کریں اور ملک پاکستان کو امن کا گہوارہ بنادیں۔
     
  2. ملک بلال
    Offline

    ملک بلال منتظم اعلیٰ Staff Member

    Joined:
    May 12, 2010
    Messages:
    22,418
    Likes Received:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہم کس طرف جارہے ہین؟

    اقبال جہانگیر بھائی بہت اچھا کالم شیئر کیا آپ نے ۔ کاش یہ باتیں سب لوگ سوچیں اور سمجھیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین!
     

Share This Page