1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ہم کسی سے کم نہیں

'فروغِ علم و فن' میں موضوعات آغاز کردہ از صدیقی, ‏7 نومبر 2012۔

  1. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    ہم کسی سے کم نہیں
    تحریم حنا صدیقی


    ہمارے نوجوان ہی ہمارے ملک کے مستقبل کے معمار ہیں لیکن مناسب رہنمائی اور مطلوبہ ملازمتیں نہ ملنے کی وجہ سے بے حساب نوجوان غلط راستوں پر چل نکلتے ہیں جبکہ زیادہ تر مایوسی کا شکار ہیں۔ ہم اپنی یہ ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے ان نوجوانوں کا پاکستان پر اعتماد بحال کریں ۔ہمارے جو نوجوان طلبہ و طالبات نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں یہ صفحات انہی کی حوصلہ ہیں۔

    سب سے پہلے آپ کی ملاقات قیانوس خان اور محسن علی سے کروا رہے ہیں ۔ یہ دونوں نوجوان مبارک بعد کے مستحق ہیں کیونکہ عدم وسائل اور نامساعد حالات کے باوجود انہوں نے یقینا ایک کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ان کے اس کارنامے پر حوصلہ افزائی کے لیے وزیراعلیٰ شہبازشریف نے نہ صرف ۱۰ لاکھ روپے کی انعامی رقم کا اعلان کیا بلکہ محسن علی کو ایک گھر بھی الاٹ کردیاہے۔

    یہ اقدامات قابل تعریف ہیں۔ وزیراعظم راجہ پرویزاشرف نے بھی ۱۰ لاکھ روپے دیے۔ شباب ملی نے ایک لاکھ روپے اور سہارا نے ۵۰ ہزار روپے دیے۔ ہوٹلوں، ریستورانوں اور ڈھابوں پر بیراگری کا کام ہو یا ردی چننے اور رزقِ حلال کمانے کا۔ بے شک کام اور محنت کرنے میں کوئی شرم کی بات نہیں۔یورپ اور امریکا میں بہت سارے نوجوان اپنی تعلیم کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ہوٹلوں، ریستورانوں،اسٹورز اور پٹرول پمپوں پر کام کرتے ہیں۔ لیکن ان کے لیے تعلیم کے مواقع بھی ہوتے ہیں۔

    ردی اکٹھی کرنے والاقیانوس خان​

    کوٹلی آزاد کشمیر میں رہنے والے ،چودہ سالہ قیانوس خان نے آزاد کشمیر انٹرمیڈیٹ بورڈ، میرپور سے(آرٹس گروپ) میں نہ صرف آزاد کشمیر میں دوسری اور ضلع کوٹلی میں پہلی پوزیشن حاـصل کرکے پاکستان اور آزاد کشمیر بھر کے عوام کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ اس نوجوان کے پوزیشن لینے پر لوگوں نے حیرت کا اـظہار کیا اور اس کی وجہ قیانوس خان کے حالات ہیں۔ قیانوس خان کے والد معلم خان اپنے بڑے بھائی نوشاد خان کے ہمراہ تقریباً بیس سال قبل پاکستان کے ـصوبہ خیبر پختون خواہ کے شہر،پشاور کے علاقے، شاہین آباد نمبر ۲ مسلم ٹاؤن سے محنت مزدوری کی غرض سے کوٹلی آگئے اوریہاں پر ردی اور اسکریپ کا کام شروع کردیا۔جوں جوں وقت گزرتا گیا۔

    حالات بھی تبدیل ہوتے رہے، معلم خان کی سکریپ کی دکان (کباڑخانہ) ہے۔ وہ اپنے مالی حالات تو مستحکم نہ کرسکا مگر اس نے اپنے بچوں کو عزت کی روٹی ضرور فراہم کی۔یہاں تک کہ معلم خان کی شادی ہوگئی اور وہ اپنی اہلیہ کو بھی کوٹلی لے آیا۔معلم خان کے ۹ بچے ہیں، جن میں قیانوس خان دوسرے نمبر پر ہے۔قیانوس خان نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے والد کا ہاتھ بٹانا شروع کردیا، وہ کوٹلی شہر کی گلیوں میں گھوم پھر کر ردی اکٹھی کرتا اور اپنے کباڑ خانے کو بھی بھرپور وقت دیتا۔

    قیانوس خان کا کہنا ہے ،جب میں بچپن میں شہر کی گلیوں میں روزی روٹی کی تلاش میں گھوم پھر رہا ہوتا تو صبح سویرے حصولِ علم کی غرض سے اپنے ننھے اور کمزور کندھوں پر بیگ لگائے اسکولوں کی جانب جاتے بچوں کو دیکھتا تو میرا جی چاہتا کہ میں بھی علم حاصل کروں ۔ایک دن میں نے اپنے والدسے اپنے دل کی خواہش بیان کی تو انہوں نے میرا شوق دیکھ کر نامساعد حالات میں بھی تعلیم حاصل کرنے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ گھر کے قریب ہی ایک پرائیویٹ اسکول(آئیڈیل پبلک اسکول) میں داخلہ بھی کرا دیا۔ تعلیم کے شوق کی وجہ سے میں جلد ہی اسکول کے اچھے طلباء میں شامل ہوگیا اور اساتذہ نے خصوصی توجہ دینی شروع کر دی۔

    قیانوس خان نے کہا ، میں سکول داخل ہونے اور علم حاصل کرنے پر خوش تھا مگر یہ بھی احساس تھا کہ میرے والد کے کندھوں پر بہت بوجھ ہے،یہی احساس مجھے اسکول سے چھٹی کے بعد والد کا ہاتھ بٹانے کی طرف راغب کرتا اور میں جتنی محنت تعلیم حاصل کرنے میں صرف کرتا، اس سے کہیں زیادہ محنت کرکے شہر بھر میں گھوم کر ردی اکٹھی کرتا اور اپنی دکان کو بھی وقت اور توجہ دیتا۔ قیانوس خان کا کہنا تھا کہ وقت گزرتا گیا اور میں مڈل کلاس تک پہنچ گیا مگرروز بروز بڑھتی مہنگائی نے میرے سر پر خوف کی تلوار لٹکائے رکھی کہ کب والد صاحب تعلیم کا خرچ برداشت نہ کرسکنے کا کہہ کر اسکول سے پکی چھٹی کا اعلان کردیں گے مگر میرے والد نے میرا بھرپور ساتھ دیا، اس لیے میں نے جو پوزیشن لی ہے اس سے ملنے والی عزت اور وقار کا سب سے زیادہ کریڈٹ والدِ محترم کو دیتا ہوں۔

    ؂قیانوس خان نے کہا کہ میرے والد کے بعد میری کامیابی کا سارا کریڈٹ میرے اساتذہ کو جاتا ہے۔ مڈل تک تعلیم میں نے آئیڈیل پبلک سکول دھڑا منڈی سے حاصل کی، وہاں پر سکول کے پرنسپل، عبدالرحمان چوہدری نے مجھ پر بھر پور توجہ دی اور جب کرایہ کا مکان تبدیل کرنے کے باعث مجھے وہ اسکول چھوڑنا پڑا تو میری خوش قسمتی تھی کہ جموں کشمیر ہائیر سیکنڈری اسکول ڈھنگروٹ کے پرنسپل نے میرے حالات اور تعلیم کا شوق دیکھتے ہوئے مجھے خصوصی توجہ دی۔

    سکول ٹائم کے بعد بھی وقت دینے کے ساتھ ساتھ رات کو ادارہ ہذا کے ہاسٹل میں بلا کر اپنے دو،تین قیمتی گھنٹے میری تعلیم کے لیے وقف کرتے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ عمل ایسا تھا جس نے میرے ٹیلنٹ میں نکھار پیدا کیا۔ مجھے اللہ کے کرم سے جو مقام حاصل ہوا ہے وہ والدین کی دعا، سرپرستی اور اساتذہ کی محنت کے بغیر کبھی حاصل نہ ہو پاتا۔ میں اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہوں کہ مجھے دوسرے بچوں کی نسبت اَن پڑھ ہونے کے باوجود اپنے والدین کی مثبت سوچ اور محنتی اساتذہ کی سرپرستی حاصل رہی اور یہی وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دوسرے بچوں کی نسبت بہتر اعزاز سے نوازا۔

    قیانوس خان کا کہنا تھا کہ تعلیم کے حوالے سے میرے بہت سے خواب ہیں ،جو اس وقت پورے ہوں گے جب میں اپنی تعلیم مکمل کرلوں گا۔ اپنی تعلیم کے سفر کی تکمیل کے لیے پُر امید ہوں مگر اب اپنے والدین پر مزید بوجھ بننا میرے لیے انتہائی مشکل ہوگا۔ قیانوس خان کے والد معلم خان نے اپنے بیٹے کی کامیابی پر اپنے تاثرات یوں بیان کیے۔ ان خوشی کے لمحات کو الفاظ میں بیان کرنا میرے لیے ناممکن ہے، ہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ میرے بیٹے قیانوس نے میری محنت کا پھل مجھے دے دیا ہے۔اللہ پاک کی مہربانی سے میری محنت کا مقصد بھی پورا ہوگیا ہے۔

    میں اور میری اہلیہ سمیت میری فیملی کے تمام افراد ان پڑھ ہیں، قیانوس سے قبل میرے بڑے بھائی ،نوشاد خان کے بیٹے نے میٹرک کیا وہ ہماری فیملی کا پہلا پڑھا لکھا نوجوان تھا اور اب قیانوس نے تو ہماری فیملی کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔انہوں نے بتایا میں چونکہ خود اَن پڑھ تھا، اس لیے پڑھائی کی قدر تھی اور پھر قیانوس کا شوق دیکھ کر میں نے فیصلہ کیا تھا کہ جتنی محنت کرنا پڑے کروں گا مشکل سے مشکل حالات کا مقابلہ کروں گا مگر اپنے بیٹے کو تعلیم ضرور دلاؤں گا اور اس کے خواب میںکسی قسم کی رکاوٹ نہیں آنے دوں گا۔

    محسن علی۔ پنجاب یونیورسٹی میں اول​

    محسن علی پنجاب یونیورسٹی کے بی اے کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والا نوجوان ہے،جو تندور پر روٹیاں لگاتا تھا اور لاہور میں کرائے کے ایک ایسے کمرے میں رہتا تھا جہاں مزدوری کرنے والے ۱۲ سے ۱۸ مزید مزدور رہائش پذیر تھے لیکن تمام تر مشکلات کے باوجود اس نوجوان نے اپنے تعلیم کے شوق کو جاری رکھا اور پنجاب یونیورسٹی میں ٹاپ کیا۔ محسن کی اس کامیابی میں اس کا چھوٹا بھائی بھی قابل تعریف ہے۔جس نے اپنا شوقِ تعلیم پسِ پشت ڈال کر اپنے بڑے بھائی کا ساتھ دیا اور اس تندور پر بعض اوقات خود ڈبل شفٹ لگاتا ،جب اس کے بڑے بھائی کے امتحانات ہوتے یا اس نے زیادہ پڑھائی کرنا ہوتی۔

    کومل علی کی خوش قسمتی​

    ’’اگست ۲۰۰۸ء کی بات ہے جب کومل نے یوتھ ایکسچینج اینڈ اسٹڈی پروگرام کے لیے درخواست دی۔ اس پروگرام کے تحت ۱۷ سال سے کم عمر طلباء طالبات کو اس بات کا موقع فراہم کیا جاتا ہے کہ وہ کسی امریکن ہائی اسکول میں داخلہ لیں اور ایک سال کے لیے کسی امریکن فیملی کے ساتھ رہتے ہوئے تعلیم حاصل کریں ۔اس کے لیے طلبہ کو امریکی حکومت کی جانب سے ایک سال کے لیے مکمل وظیفہ دیا جاتا ہے۔

    اس ضمن میں، جب کومل نے اپنی درخواست مکمل کی اور دستاویزات چیک کرنی شروع کیں،تو کئی افراد نے یہ کہہ کر حوصلہ شکنی کی کوشش کی،’’ تم نے صرف میٹرک کیا ہے، جبکہ وہاں اے لیولز کے طلبہ کو ترجیح دی جاتی ہے ۔‘‘وغیرہ وغیرہ ۔ اس طرح کے تبصروں سے اس کا دل دُکھتا اور کم ہمتی سی محسوس ہوتی، تاہم اس نے حوصلہ نہیں ہارا ۔نہ صرف ٹیسٹ اچھے نمبروں سے پاس کیا بلکہ انٹرویو میں بھی کامیابی حاصل کرلی اور اُن ۶۱ پاکستانی طلبہ میں شامل ہوگئی، جن کو سال ۲۰۰۹ئ-۲۰۰۸ء کے لیے امریکا میں پاکستان کی نمائندگی کا موقع ملا۔

    اس ایک سال کے اختتام تک اپنے ساتھی طالب علموں کے ساتھ دوستی اور محبت کا نہ ختم ہونے والا تعلق قائم ہوچکا تھا۔ امریکا میں رہتے ہوئے متنوع پاکستانی ثقافت، لذیذ کھانوں اور فنونِ لطیفہ کو متعارف کروانے کا موقع بھی ملا۔اس کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کے طلبا کے ساتھ دور دراز علاقوں میں کام کرتے ہوئے مختلف پس ہائے منظر کے افرادسے باہمی رابطوں کا موقع بھی حاصل ہوا۔ایک ہی سال کے دوران اُسے ممتاز بین الاقوامی اداروں اور امریکا کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے تعریفی اسناد اور ایوارڈز سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ امریکا کے صدر، باراک اوباما کی طرف سے صدارتی طلبہ سروس کے تحت ایک سرٹیفکیٹ بھی دیا گیا۔

    سال ۲۰۰۹ء میں وطن واپسی پر، گھر والوں اور دوستوں نے شاندار تعلیمی ریکارڈ اور کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے اے لیولز کے لیے حوصلہ افزائی کی۔ آغا خان یونیورسٹی، ایگزامینیشن بورڈ (اے کے یو۔ ای بی)کے تحت امتحان دینے کے دوران طلبہ میں نصاب کی جو سمجھ بوجھ پیدا ہوتی ہے اور جس بہترین انداز میں امتحانات لیے جاتے ہیں، اس کی بنا پر اے کے یو۔ای بی کے تحت انٹرمیڈیٹ امتحان دینے کا فیصلہ کیا۔ وقت تیزی سے گزرا اور پھر ماؤنٹ ہولی اوک کالج میں درخواست دے دی ،جو امریکا کے قدیم ترین لبرل آرٹس انسٹی ٹیوٹس میں سے ایک ہے۔

    اسکولسٹک اسیسمنٹ ٹیسٹ کی تیاری کرتی رہی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلی ہی کوشش میں اسکولسٹک اسیسمنٹ ٹیسٹ اسکور ۲۱۵۰ رہا، جو سہیلیوں کے مقابلے میں کہیں بہتر تھا۔ سردیوں کی ایک صبح جب اس نے اپنی ای میلز چیک کیں ، تو ایک ای میل کا عنوان دیکھ کر دل زور سے دھڑکا ۔ اس ای میل میں ماؤنٹ ہولی اوک کالج کی انتظامیہ کی جانب سے اس کے داخلے کا فیصلہ اس کا منتظر تھا۔ داخلہ ملنے کی خوشی سے دل بلیوں اچھلنے لگا۔

    تعلیمی اخراجات کا ۹۲ فیصد حصہ وظیفہ کے طور پر دیا جارہا تھا، جو ۴ برس کے لیے مکمل طور پر ۴۶ ہزار امریکن ڈالر کی رقم تھی۔ اُس نے اپنے والدین کو یہ خبر آنسوؤں اور مسکراہٹ کے عجیب وغریب امتزاج کے ساتھ سنائی۔ ان کی خوشی بھی دیدنی تھی۔ جولائی ۲۰۱۱ء میں، ہارورڈ یونیورسٹی کے میلینیم کیمپس کانفرنس میں شرکت کے لیے درخواست دی اور خوش قسمتی سے مکمل اسکالر شپ پر وہاں بھی شرکت کے لیے منتخب ہوگئی اور اب اُسے گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد اپنی زندگی کی دو بڑی کامیابیوں کا انتظار تھا، یونیورسٹی کی تعلیم کی شروعات اور کانفرنس میں شرکت
     
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہم کسی سے کم نہیں

    بہت خوب جی
     
  3. شانی
    آف لائن

    شانی ممبر

    شمولیت:
    ‏18 فروری 2012
    پیغامات:
    3,129
    موصول پسندیدگیاں:
    241
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہم کسی سے کم نہیں

    واہ۔جی۔واہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں