1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ہم کسی سے کم نہیں

'فروغِ علم و فن' میں موضوعات آغاز کردہ از صدیقی, ‏2 جولائی 2012۔

  1. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    ہم کسی سے کم نہیں
    تحریم حنا صدیقی


    ہم جب اپنی تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں تو یہ خوش کن حقیقت سامنے آتی ہے کہ مختلف شعبوں میں پاکستانی باشندوں نے نہ صرف عالم گیر شہرت حاصل کی، بلکہ ملک و قوم کا وقار بھی بلند کیا۔ ماضی میں کھیل کے میدان اور سماجی خدمت کے شعبوں میں یہاں کے عظیم سپوتو ں کی مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔سائنس و ٹیکنالوجی کی بات کی جائے تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور اُن کی ٹیم میں شامل دیگر جوہری سائنس دانوں کی مسلسل محنت اور عوام کی دُعاؤں کی بدولت پاکستان پہلی اسلامی ایٹمی قوت کے طور پر دنیا کے نقشے پر اُبھرا۔ ڈاکٹر عطاالرحمان کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔آپ کو یہ جان کر بھی خوشی ہوگی کہ حال ہی میں یورپین بزنس ایڈمنسٹریشن نے دنیا کا ایک گلوبل سروے کیا ہے، جس کے مطابق ذہانت کے اعتبار سے پاکستانی عوام چوتھے نمبر پر ہیں، اس سروے کے نتائج کا کہنا ہے کہ اگر ذہانت کی بات کی جائے تو پاکستان کے عوام ترقی یافتہ اور صنعتی ممالک کے ہم پلہ ہیں۔ جن ممالک میں یہ سروے کیا گیا وہاں لوگوں کی ذہانت اور دانش وری کے حوالے سے مختلف پہلو بھی دیکھے گئے اور پاکستانی باشندے ذہانت کے حوالے سے روشن دکھائی دیے حالانکہ انہیں وہ وسائل اور مواقع دستیاب نہیں ہیں۔ اگر پاکستانی نوجوان اپنے لیے کچھ کرنے کا ہدف طے کر لیں تو وہ کیا کچھ نہیں کر کے دِکھا سکتے۔آج ہم آپ کی ملاقات پاکستان کے ایسے ہی 2 ہونہار نوجوانوں سے کروا رہے ہیں، جنھیں دُنیا نے تسلیم کیا ہے۔

    موسیٰ فیروز

    موسیٰ فیروز نے ثابت کر دیا ہے کہ ہمارے بچے انتہائی غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک ہیں، یہ خود رو پودے اور ان پودوں کے دماغ دُنیا کے بہترین دماغ ہیں۔
    موسیٰ نے منوا لیا ہے کہ پاکستانی غیر معمولی ٹیلنٹ کے مالک ہیں۔ ضرورت صرف اُنہیں گائیڈ کرنے اور درست راستہ دکھانے کی ہے۔ اگر بچوں کی بنیاد مضبوط کر دی جائے، اُنہیں بہترین ماحول فراہم کیا جائے، والدین اُنہیں بھرپور وقت، اچھی تعلیم، کمپیوٹر، عالمی مقابلوں اور تعلیمی گیمز سے متعارف کروائیں جن سے ان کی استعداد میں اضافہ ہوتا ہو اور اس کے بعد ان کی ہر چھوٹی بڑی کامیابی کو سراہا اور ان کا حوصلہ بڑھایا جائے تو یہ بچے اس ملک کو چار چاند لگا سکتے ہیں۔ یہ وہ کام کر سکتے ہیں جو آج تک کے سیاسی اور غیر سیاسی حکمران مل کر بھی نہیں کرسکے۔ ہمیں ان حکمرانوں، سیاست دانوں سے کل اُمید تھی نہ آج ہے۔

    ہماری اُمید فیروز، شاہ زیب حسین، ارفع کریم اور علی معین نوازش جیسے بچے ہیں۔ یہی ہمارا آج اور یہی ہمارا کل ہیں۔موسیٰ فیروز، ڈاکٹر خالق داد تارڑ چائلڈ سپیشلسٹ کا سب سے بڑا بیٹا ہے۔ اُس کے 3 بھائی اور ایک بہن ہے۔ یہ فیملی 6 برس قبل سعودی عرب سے پاکستان شفٹ ہوئی تھی۔ موسیٰ منڈی بہاؤ الدین میں ایک پرائیویٹ سکول میں آٹھویں جماعت کا طالب علم ہے۔ یہ سکول پھالیہ سے 25 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ڈاکٹر خالق کا کہنا ہے کہ موسیٰ کی کامیابی کے پیچھے اس کی والدہ کا ہاتھ ہے۔ وہ بچوں کی پڑھائی، صحت، کھیل اور ہر معاملے میں بھر پور وقت دیتی ہیں۔موسیٰ فیروزنے ورلڈ میتھ ڈے کے ایک پروگرام میں اس سال حصہ لیا تھا۔ ورلڈ میتھ ڈے کے بارے میں بتاتے چلیں کہ یہ ایک عالمی ایونٹ ہے، جس کا اہتمام یونیسف کرتی ہے اور یہ ورلڈ گیمز ایونٹ کا حصہ ہوتا ہے۔ اس میں ریاضی، سائنس اور انگلش سپیلنگ کے مقابلے ہوتے ہیں۔ یہ ہر سال مارچ میں منعقد ہوتا ہے اور اس ایونٹ کا مرکزی دفتر آسٹریلیا میں واقع ہے۔ اس میں پوری دنیا سے بچے شریک ہوتے ہیں۔ اس کی کوئی فیس نہیں لیکن اس کا بنیادی مقصد دنیا کو آپس میں اکٹھا کرنا ہے۔

    اس کا پہلا ایونٹ ۲۰۰۷ء میں جبکہ پانچواں ایونٹ ۷ مارچ ۲۰۱۲ء کو منعقد ہوا۔ اس میں عمر کے لحاظ سے 4 مختلف کیٹیگریز ہوتی ہیں۔ پہلی، 4 سے 7 برس، دوسری 8 سے 10، تیسری 11 سے 13 اور چوتھی کیٹیگری 14 سے 18 برس کی عمر تک کے بچوں پر مشتمل ہے۔ حصہ لینے کے لیے بچہ اپنا نام سکول کو لکھواتا ہے اور سکول والے اس کا نام پاکستان میں موجود نمائندوں کو بھجوادیتے ہیں ۔پاکستان میں یہ ادارہ میتھلیٹکس کے نام سے موجود ہے۔ اس کی ڈائریکٹر مس عفت اور کوآرڈی نیٹر محمدبلال ہیں۔ یہ ہر سال پاکستان سے ہزاروں درخواستیں وصول کرتے اور آسٹریلین ہیڈ کوارٹر کو بھجوا دیتے ہیں ۔ ہر سٹوڈنٹ کو ایک آئی ڈی اور پاس ورڈ جاری ہوتا ہے اور مقابلے سے 15 روز قبل ویب سائٹ اوپن ہوجاتی ہے۔ ویب سائٹ کا ایڈریس ورلڈ میتھس ڈے ڈاٹ کام ہے۔ یورپ اور امریکا جیسے ممالک کے لیے یہ پورا سال کھلی رہتی لیکن پاکستان، بھارت اور خطے کے دیگر ممالک کے لیے یہ مقابلے سے صرف 15 روز قبل کھلتی ہے۔ یوں ان بچوں کو تیاری کے لیے کم وقت میسر ہوتا ہے۔اس سال اس مقابلے میں دنیا کے 231 ممالک شریک ہوئے۔ کل 52 ہزار 82 سکولوں نے اپلائی کیا اور 40 لاکھ بچے اس ایونٹ کا حصہ بنے ۔ اس میں ہر کیٹیگری کے پہلے 10 کامیاب بچوں کو آسٹریلیا بلا کر گولڈ میڈل دیے جاتے جبکہ پہلے 50 بچوں کو سر ٹیفکیٹ بھجوا دیے جاتے ہیں۔ جو ملک بھی سب سے زیادہ گولڈمیڈل حاصل کرتا ہے اسے یونیسف کی طرف سے میتھ ورلڈ کپ دیا جاتا ہے۔ریاضی کا ٹیسٹ بہت دلچسپ ہوتا ہے۔ اس کا دورانیہ 50 منٹ ہے۔ اس کے سوالات ضرب، تقسیم، تفریق اور جمع کے حوالے سے ہوتے ہیں۔ اس میں کل ۵ لیول ہوتے ہیں۔ پہلے لیول میں نسبتاً آسان سوال ہوتے ہیں اور ہر اگلا لیول مشکل ہوتا چلا جاتا ہے۔

    یوں 50 منٹ میں جو بچہ سب سے زیادہ اور درست جوابات دیتا ہے، اُسی حساب سے اس کا نتیجہ بنتا ہے۔اگر کوئی بچہ 3 غلطیاں کرتا ہے تو کمپیوٹر اسے مقابلے سے آؤٹ کر دیتا ہے۔اس سال ۷ مارچ کو دنیا کے 40 لاکھ کمپیوٹروں کے سامنے 4 سے 18 برس کے بچے اپنی دماغی صلاحیتیں آزما رہے تھے اور جب ریاضی کے دنیا کے اس مشکل ترین مقابلے کا نتیجہ سامنے آیا تو دنیا ششدر رہ گئی۔ 234 ممالک کے 40 لاکھ بچوں میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والا بچہ پاکستان سے تھا۔ یہ تحصیل پھالیہ کا 13 سالہ موسیٰ فیروز تھا جس نے ۱۱ سے 14 برس کی کیٹیگری میں حصہ لیا اور 234 ممالک میں اوّل پوزیشن حاصل کی اور یہ اپنی عمر کی کیٹیگری میں ۲۰۱۲ء کا ریاضی کا ورلڈ چمپئن بن گیا ۔اس نے ایک منٹ میں اوسطاً ۱۱۶ اور ۵۰ منٹ میں ۴ ہزار 405 صحیح جوابات دیے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کمپیوٹر ہر طالب علم کو مختلف سوالات دیتا ہے اور نقل کا کوئی فائدہ اس لیے نہیں ہوتا کیونکہ سوال اتنی تیزی سے سکرین پر گزر جاتے ہیں کہ اگر آپ کیلکولیٹر کی مدد سے حل کریں تو آپ کی سپیڈ کم ہو جاتی ہے اور سپیڈ کم ہونے سے کل حل شدہ سوالات کی تعداد کم ہو جاتی ہے،

    چنانچہ یہ اصل میں دماغ میں نصب کیلکولیٹر کا امتحان ہوتا ہے اورجو جتنا ہوشیار اور ایکٹو ہوتا ہے اتنی اہم پوزیشن حاصل کرتا ہے۔اس سال بھی کامیاب طلبا کو آسٹریلوی حکومت نے تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ بھیجا ۔ یہ تقریب ۲۳ مارچ کو سڈنی میں ہونا تھی۔ یہ دعوت نامہ موسیٰ کے والد ڈاکٹر خالق داد تارڑ کو بھی موصول ہوا۔ یہ دعوت نامہ ڈاکٹر خالق، بیگم خالق، ہیڈ مسٹرس صائمہ بھٹی اور موسیٰ فیروز کے لیے تھا۔جس روز سڈنی میں تقریب ہونا تھی، اُن دنوں مسز خالق دیگر بچوں کے امتحانات میں مصروف تھیں چنانچہ اُن کی شرکت کا پروگرام نہ بن سکا۔آسٹریلین ایمبیسی نے اتوار کے روز خصوصی طور پر ڈاکٹر صاحب، ہیڈمسٹرس صاحبہ اور موسیٰ فیروز کے ویزے لگوائے اور یہ لوگ 20 مارچ کو سڈنی پہنچ گئے۔ ان کے ویزے، ایئر ٹکٹ اور رہائش وغیرہ کے تمام اخراجات آسٹریلوی حکومت اور یونیسف نے برداشت کیے۔ کامیاب بچوں اور والدین کے اعزاز میں شاندار تقریب منعقد ہوئی جس کی صدارت گورنر سڈنی ڈاکٹر میری بشیر نے کی جو سڈنی یونیورسٹی کی وائس چانسلر بھی ہیں۔ اس میں یونیسف کے نمائندے ، سام سنگ کے کنٹری منیجر اور دیگر حکومتی افراد بھی شریک ہوئے۔گورنر نے موسیٰ فیروز کو گولڈمیڈل پہنایا اور عالمی میڈیا کے سامنے موسیٰ اور پاکستان کی تعریف کی۔
    موسیٰ کی کامیابی اس لحاظ سے بھی شاندار ہے کہ اس کو پریکٹس کے لیے صرف 15 دن ملے جبکہ جدید ممالک کے بچوں کو پورا سال ملتا ہے اور اگر یہ ویب سائٹ پاکستان جیسے ممالک کے لیے بھی پورا سال کھلے تو خود اندازہ لگائیں کہ پھر کامیابی کا تناسب کیا ہوگا؟ اس صورت میں پاکستان میتھ ورلڈ کپ بھی جیت سکتا ہے جو اس سال سنگا پور کو ملا۔
    تازہ خبریہ ہے کہ…آسٹریلیا کی حکومت نے ریاضی کے عالمی مقابلے میں پہلی پوزیشن لینے والے اس ہونہار پاکستانی طالب علم کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ریاضٰی کا سفیر مقرر کر دیا ہے۔

    سید شاہ زیب حسین

    آیئے…! اب سید شاہ زیب حسین سے ملیے۔ آپ نے زمین کی مقناطیسی لہروں سے بجلی پیدا کرنے کا سستا ترین طریقہ ایجاد کیا۔ اسے دنیا کے 1500 ذہین طلبہ سے مقابلے کے لیے امریکا مدعو کیا گیا ہے۔
    سید شاہ زیب حسین نے ۲ دسمبر ۱۹۹۴ء کو راولپنڈی میں آنکھ کھولی۔ اُن کے والد سید ضرار حسین پاک فوج میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر فائز ہیں۔ضرار حسین صاحب ملازمت کے سلسلے میں ملک کے مختلف حصوں میں تعینات رہے، جس کے باعث شاہ زیب مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم رہے۔ آپ نے میٹرک کا امتحان گیریژن اکیڈمی، کوئٹہ سے پاس کیا اور فرسٹ ایئر پری انجینئرنگ کی تعلیم آرمی پبلک سکول کوئٹہ سے حاصل کر رہے ہیں۔۲ سال قبل شاہ زیب نے اِنٹل انٹرنیشنل سائنس اینڈ انجینئرنگ فیئر میں شرکت کی، جس کے بعد سے انجینئرنگ کے شعبے میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ آپ نے اس مقابلے میں کیمس گرینڈ ونر کا اعزاز بھی حاصل کیا، جبکہ ہر سال چاروں صوبوں کے رمی کے تعلیمی اداروں میں مقابلے ہوتے ہیں

    جس میں جماعت نہم سے فرسٹ ایئر تک کے طلبہ شرکت کرتے ہیں۔85 پروجیکٹ پیش کیے جاتے ہیں، جن میں سے ۳ پروجیکٹس کا انتخاب ہوتا ہے۔ ان میں ایک انفرادی اور دو بوائز اور گرلز کیٹیگری سے منتخب ہوتے ہیں۔گزشتہ سال ۱۵ طلبہ نے ۸۵ پروجیکٹس پیش کیے، جس میں شاہ زیب کے بجلی سے متعلق پروجیکٹ نے نمایاں پوزیشن حاصل کی۔ شاہ زیب کا کہنا ہے کہ میرے پروجیکٹ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ غیر دھاتی ٹھوس اجسام میں مقناطیسیت پیدا کی جائے۔ حقیقتاً ہم ان اجسام کو میگناٹائز نہیں کرتے، لیکن ہم انہیں ایک میڈیم کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ میں مختلف چھوٹے اجسام میں مقناطیسیت پیدا کرتا ہوں، جسے پھر میٹریل میں استعمال کیا جاتاہے۔پوری دنیا میں مقناطیس کا سب سے زیادہ استعمال بجلی پیدا کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ ان غیر دھاتی اجسام کو ایک طریقۂ کارکے تحت بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔میگناٹائز مقناطیس کی خاصیت (کشش)، کسی غیر دھات یا اجسام میں پیدا کرنے کو کہتے ہیں۔ یہ عمل کیمیائی و غیر کیمیائی دونوں طریقوں سے انجام پاتا ہے۔ اب میں 13 مئی کو ہونے والے عالمی مقابلوں میں شرکت کروں گا اور اِن شاء اﷲ ضرور کامیاب ہوں گا۔ میری خواہش ہے کہ امریکا میں مقابلہ جیت کر دنیا بھر میں ملک کا نام روشن کروں۔

    اپنے پروجیکٹ سے متعلق سید شاہ زیب حسن نے مزید بتایا کہ سورج کی روشنی اور ہواؤں سے بجلی حاصل کی جاسکتی ہے لیکن جب سورج غروب ہو جاتا ہے اور اکثر علاقوں میں اتنی ہوا نہیں چلتی، تو بجلی پیدا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور ان طریقوں پر بہت زیادہ لاگت بھی آتی ہے، جبکہ زمین 24 گھنٹے مدار کے گرد گھومتی رہتی ہے، اس لیے زمین کے اندر ایسی مقناطیسی لہریں موجود ہیں، جن سے بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔انسان کی محنت کبھی بھی رائیگاں نہیں جاتی۔ سید شاہ زیب حسین نے اس حقیقت کو اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہے۔ اپنے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ میں بچپن ہی سے موجد بننا چاہتا تھا اور میری خواہش تھی کہ ملک کے لیے ایسا کچھ کر دکھاؤں کہ دنیا حیرت زدہ رہ جائے۔ میرا پختہ یقین ہے کہ محنت میں عظمت ہے۔ میں یہ کہوں گا کہ میرے نوجوان ساتھیوں کو صرف اچھی نوکری کے لیے پڑھائی نہیں کرنی چاہیے بلکہ وہ اپنی زندگی کا ایک مقصد بنائیں اور اُس کی تکمیل کے لیے اپنی صلاحیتیں وقف کر دیں۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ آج کل کے نوجوانوں میں محنت کا رجحان کم ہوتا جارہا ہے۔انٹرنیٹ اور موبائل فون کے غلط استعمال کی وجہ سے نوجوانوں کی صلاحیتیں زنگ آلود ہو رہی ہیں۔

    بچوں کی ذہنی صلاحیتیں اُجاگر کرنے اور ہر قدم پر حوصلہ افزائی کرنے کے لیے والدین اور اساتذہ بہت اہم رول ادا کرتے ہیں۔شاہ زیب حسین کے والد صاحب نے بتایا ’’ شاہ زیب بچپن میں دوسرے بچوں سے کافی مختلف تھا۔ کھیل کود میں حصہ لیتا نہ ہی شرارتیں کرتا۔ بچپن سے ہی اس کی خواہش تھی کہ میں موجد بنوں گا۔ شروع میں تو میں اس کی خواہش کو سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا، دوسرے ایک فوجی باپ کی خواہش بھی یہی ہوتی ہے کہ اُس کا بیٹا بھی پاک فوج ہی میں شمولیت اختیار کرے لیکن میں نے کبھی اپنی مرضی اس پر مسلط نہیں کی۔ شاہ زیب بچپن میں بھی چھوٹی موٹی اشیاء خود تیار کرلیتا تھا، لیکن رواں برس اس نے جو پروجیکٹ تیار کیا اور امریکا میں مقابلے کے لیے اس کا نام آیا، تو مجھے بہت خوشی ہوئی اور پوری قوم کو دعا کرنی چاہیے کہ شاہ زیب ملک و قوم کا نام روشن کرنے میں کامیا ب ہو جائے۔‘‘اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان کے نونہالوں میں وہ تمام خداداد صلاحیتیں موجود ہیں، جنھیں بروئے کار لا کر وہ دنیا کو کسی بھی شعبے میں حیرت زدہ کر سکتے ہیں، تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کے رجحان کے پیشِ نظر ان کے روشن مستقبل کے لیے راہیں تلاش کی جائیں۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک کے تعلیمی نظام میں نقائص ہیں، جس کی وجہ سے بچوں کے رویے اور رجحانات کو جانچا اور پرکھا نہیں جاسکتا۔ ترقی یافتہ ممالک میں چائلڈ سائیکالوجی کو بڑی اہمیت حاصل ہے، جس کے تحت ابتدا ہی میں بچوں کی نفسیات اور رجحانات کا مطالعہ کرکے ان کے لیے مستقبل کے شعبوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات اس اَمر پر متفق ہیں کہ بچوں کے رجحانات کے برعکس ان کی تربیت اور زبردستی فیصلے تھوپنے کے مثبت اثرات مرتب نہیں ہوسکتے۔ کیریئر کونسلنگ کے سائنٹیفک طریقۂ کار کے تحت ہم اپنے بچوں کو ان کے رجحانات کے مطابق ہر شعبے میں با صلاحیت بنا سکتے ہیں
     

اس صفحے کو مشتہر کریں