1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ہم پردیسیوں کی زندگی کا ایک مختصر جائزہ

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از عبدالرحمن سید, ‏6 جنوری 2011۔

  1. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    کچھ میں نے بھی سوچا کہ میں بھی اپنی پردیس کی اپنی ہی کچھ مختصر سی آب بیتی سنا ڈالوں، !!!!!

    میں یہاں خوش قسمتی سے سعودی عرب میں 1978 میں پاکستان کی تقریباً ہر علاقے کی سیر کرتا ہوا یہاں پہلی بار آیا تھا، اور اب تک یہاں پر ہی مقیم ہوں، درمیان میں تین چار مرتبہ یہاں سے مستقل جانے کا فیصلہ بھی کیا، لیکن اپنے وطن جا کر پھر واپسی کی ہی ٹھانی، کیونکہ ان ہی مقدس مقامات کا بلاوہ آچکا تھا اس لئے یہاں پر بار بار واپسی شاید یہ میری خوش بختی کہہ لیجئے کہ تقدیر کچھ ایسی مہربان تھی اور والدین اور بزرگوں کی دعاؤں سے پھر میرا یہاں کا مقیم ہونا میرا ہی مقدر بن چکی تھی، اللٌہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان کہ رسول اللٌہ (ص) کے صدقے مجھ گنہگار کو بھی یہاں کی مقدس مقامات کی زیارت اور حج عمرہ کی بار بار سعادت بخشی، اور جس کا میں جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے،!!!!!

    اور آج 60 سال کی عمر کو بھی پار کر چکا ہوں، اب تو نوکری سے رٹائیرمنٹ کا وقت آچکا ہے، جانے دیکھئے کب تک تقدیر میں یہاں کا دانہ پانی لکھا ہے، مگر اللٌہ تعالیٰ سے دعاء بس یہی ہے کہ موت بھی آئے تو دربار نبی (ص) کی چوکھٹ پر آئے،!!!!! آمین،!!!!


    اس وقت 1978 میں جب میں یہاں آیا تھا میری عمر تقریباً 28برس رہی ہوگی، اور شادی بھی نہیں ہوئی تھی، پاکستان میں اپنی کچھ ضرورتیں ایسی بڑھ چکیں تھیں جس کی وجہ یقیناً 1971 کا مہنگائی کا وہ دور تھا، جس میں اس وقت کی آمدنی میں گزارا ہونا بہت مشکل تھا، اور آہستہ آہستہ مہنگائی زور پکڑنے لگی، ملک کے دوٹکڑے تو ہو ہی چکے تھے لیکن ساتھ مشکلات اور غموں کے پہاڑ بھی لوگوں پر ٹوٹنے لگے، ہم لوگوں میں کچھ آس پاس کی دیکھا دیکھی کچھ شعور ایسا بیدار ہوا کہ اپنے معیار زندگی کو مزید بہتر بنانے کیلئے اپنی چادر سے پیر باہر نکالنے شروع کردئے، اپنی اوقات سے زیادہ خواہشات کی تکمیل پر زور دینے لگے،!!!!! کچھ سیاسی آزادی کا بھی شعور ایسا جاگا کہ جو محنت ہم پہلے دل سے کرتے تھے وہ ہم نے چھوڑ دیا، پہلے اپنی کمائی سے زیادہ محنت کرتے تھے، جس میں کافی برکت ہوتی تھی، لیکن بعد میں ہم نے خود ہی کچھ محنت سے جی چرانے لگے، اور زیادہ سے سے زیادہ کمانے کے چکر کے ساتھ ساتھ اپنی سادہ اور کفایت شعار کی زندگی میں ایک بدترین دوڑ کا ہیجان انگیز طوفان کھڑا کردیا، جو اب بڑھ کر زندگی کا ایک عذاب بن چکا ہے، جس کی وجہ سے اس کمائی میں برکت بھی کم سے کم ہوتی چلی گئی،!!!!!

    یہاں پر 1978 سے لے کر 1983 تک میرا شروع کا دور تھا، جو دھران سعودی عرب میں گزرا، میں نے سوچا کہ یہ 5 سال گھر کی بہتری کیلئے بہت ہونگے اس کے بعد پاکستان واپس چلا گیا لیکن 5 سال کا عرصہ گزرتے ہی پھر کچھ حالات ایسے ہوئے کہ جو بھی کمایا اس کا کچھ بھی پتہ ہی نہیں چلا کیونکہ اس وقت کی مہنگائی اور بہن بھائیوں کی پڑھائی اور گھر کی ضروریات کچھ ایسی بڑھ چکیں تھیں کہ ان کے بڑھتے ہوئے اخراجات کو واپس لانا اپنے بس میں نہیں تھا، جس کی وجہ سے پردیس کی پھر یاد آنے لگی، اور قدرت نے پھر ایک موقعہ اور دے دیا، !!!!!

    31 دسمبر 1989 میں دوبارہ جدہ سعودی عرب کے لئے روانگی ہوئی،!!!! لیکن افسوس پہنچنے کے کچھ ہی دنوں بعد والد صاحب اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، جسکا مجھے بہت ہی دکھ ہوا اور زندگی بھر اب تک اسکے لئے افسوس رہا کہ میں انہیں کاندھا بھی نہیں دے سکا، پھر 1994 میں دل چاہا کہ بس بہت ہوگئی اب واپس چلتے ہیں، لیکن واپسی تو ہوئی لیکن اپنے ملک میں صحیح اپنے مطلب کی ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے 6 مہینے سے زیادہ نہ رہ سکا اور پھر واپس یہاں آگیا، اسی طرح بار بار شروع میں تو اپنی فیملی کو کبھی عمرہ پر تو کبھی زیارت کے ویزے پر بلواتا رہا، لیکن اس طرح اپنی فیملی کو بھی مطمئین نہیں کرسکا، بہت زیادہ اصرار پر فیملی کے مستقبل رہائیشی ویزے کا انتظام کیا اور اپنے چار بچوں سمیت 1994 میں بلوا ہی لیا،!!!!

    1998 میں تقدیر نے پھر پلٹا کھایا اور ایک مضبوط فیصلہ کرتے ہوئے واپس سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کہ اب واپس نہیں آئیں گے، بمعہ فیملی کے اپنے پیارے وطن چلے آئے،!!!! پھر وہی رونا شروّع ہوگیا، کچھ نوکری پسند کی نہ ملی، مقدر میں شاید کسی اور ملک کا جانا لکھا تھا، ترکمانستان چلے گئے لیکن وہاں کی آزادی اور کچھ زیادہ ہی یورپی ماحول دیکھا تو وہاں سے اپنے آپ کو بچتے بچاتے واپسی کی راہ لی، فیملی کو پاکستان میں ہی رہنے دیا، اس دوران بچوں کی تعلیم بہت ہی تسلی بخش رہی!!!!

    لیکن تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ حالات بہت تیزی سے خراب سے خراب تر ہوتے جارہے تھے، جبکہ اس وقت بھی اکثریت پاکستان میں بھی لوگ پرسکون اور عیاشی سے زندگی بسر کررہے تھے، لیکن نہ جانے ہم پردیسیوں کو شاید وہاں کے ماحول کی عادت نہ رہی ہو، یا کچھ اخراجات کی زیادتی اور فضول خرچیوں کی بناء پر وہاں مزید رہنا محال ہو گیا تھا اسی لئے واپسی پھر جدہ 1999 کے آخیر میں کچھ کوششوں سے ہو ہی گی، 2001 ایک میں واپسی کی سوچ ہی رہا تھا کہ کمپنی نے مجھے ریاض کچھ مستقبل کے سہانے خواب دکھا کر بھیج دیا، مگر میں نے فیملی کو بمشکل پاکستان میں روکے رکھا، بچے بڑے ہورہے تھے، اور ان کی تعلیم بھی ساتھ ساتھ چل رہی تھی، !!!!!

    لیکن کیا کرتے پھر مجبور ہو کر 2002 میں بچوں کی تعلیم کو ادھورا چھوڑتے ہوئے، اپنی فیملی کو واپس ریاض میں بلوا لیا دوبارا اسکول میں سب کا داخلہ کرایا جس کی وجہ سے بچوں کی پڑھائی کے مزید دو سال ضائع ہوگئے، اور2009 سے کچھ عمر کا تقاضہ اور صحت اچھی نہ رہنے کی وجہ سے میرے کام پر بہت برا اثر پڑا، لیکن یہ انتظامیہ کی مہربانی تھی کہ میری خدمات کو سرہاتے ہوئے مجھے فارغ نہیں کیا، بلکہ مجھے ٹریننگ اور نئے پروجیکٹ کے مشوروں تک محدود کرلیا، جسے میں نے اپنے جانتے میں بہت اچھی طرح نبھانے کی کوشش کی ہے، لیکن اب اس وقت 60 سال سے زیادہ عمر کی وجہ سے اور کچھ شوگر اور ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے اپنے آپ میں قوت برداشت اور مزید حوصلہ کی جو کمی روز بروز پروان چڑھ رہی ہے، اپنی ملازمت سے علیحدگی کیلئے انتظامیہ سے منظوری بھی لے لی ہے، لیکن یہ ضرور گزارش کی ہے کہ مجھے ان مقدس مقامات سے دور نہ کیا جائے، کیونکہ میں اپنی زندگی کے بقایا دن بھی یہیں پر گزارنا چاہتا ہوں،!!!

    ویسے بھی کیا رہ گیا ہے، یہاں اتنا عرصہ گزارنے کے باوجود بھی اپنا ذاتی طور پر ایک کمرے تک کا مکان بھی نہیں بنوا سکے، جو بھی کمایا شروع میں بہن بھائیوں کے مستقبل کے لئے اور بعد میں اپنے بچوں کیلئے اور ان کی شادیوں پر خرچ ہوتا چلا گیا، کیونکہ والدین اور بہن بھائیوں کی خدمت جو بھی کی کم یا زیادہ، یہ میرا فرض بھی تھا، اور اب میرے بچے اس قابل ہیں کہ وہ بھی مجھے مزید محنت کرنے سے روک رہے ہیں، میری صحت کو دیکھتے ہوئے آرام کا مشورہ بھی دے رہے ہیں، کہتے ہیں کہ آپ بس گھر پر بیٹھیں اور جب صحت اجازت دے تو نیٹ پر کام کرتے رہیں، اور میں اور ان کی والدہ ان کے سامنے خوش و خرم رہیں،!!!! میں اب تو یہی سوچتا ہوں ہم نے کچھ بچایا یا نہیں بچایا لیکن سب سے بڑی دولت تو ہماری اولاد ہے، جو ہمیں اتنی عزت اور پیار دیتی ہے،!!!!!


    1979 میں شادی ہوئی تھی،!!!! اور اب تو میرے دو بچوں کی شادیاں ہوچکی ہیں، اللٌہ کے فضل و کرم سے ایک نواسہ اور ایک نواسی کا نانا جان بن چکا ہوں، وقت اتنی تیزی سے گزر گیا کہ کچھ پتہ ہی نہیں چلا جیسے پانی ایک بلبلہ اب بالکل ایسا لگتا ہے کہ کل کی بات ہو،!!!!!

    کیا کھویا کیا پایا یہ تو اللٌہ تعالیٰ کی پاک ذات ہی کو معلوم ہے، دعاء ہے کہ اللٌہ تعالیٰ ہم سب کو رزق حلال کمانے اور عزت و عافیت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین،!!!!!
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہم پردیسیوں کی زندگی کا ایک مختصر جائزہ

    سبحان اللہ ۔۔ سید بھائی۔۔ آپ بہت خوش قسمت ہیں۔ دنیوی زندگی کی ہر نعمت جو ایک مسلمان تمنا کرسکتا ہے وہ اللہ رب العزت نے ، سرکار دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے آپ کو عطا کی ہے۔
    آپ نیک نیت انسان ہیں اسی لیے اللہ پاک ہر مرحلے پر مدد فرماتا ہے۔ انشاءاللہ آئندہ بھی آپ کے لیے بہتری ، خوشحالی اور کامیابی منتظر ہوگی۔
     
  3. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہم پردیسیوں کی زندگی کا ایک مختصر جائزہ

    سید صاحب حالات زندگی کو آپ نے مختصرا بیان کرکے بہت ہی اچھا کیا کہ نہ صرف بیان ہوا بلکہ آپ نے ساتھ ساتھ اپنے احساسات اور حاصلات کا بھی ذکر کیا ہے جس کی وجہ سے کم وقت میں‌بہت کچھ پڑھنے اور سمجھنے کو ملا۔۔۔۔۔اللہ پاک آپ کو صحت و تندرستی دے۔۔آمین۔۔۔ اور آپ اسی طرح ہمارے درمیان موجود ہوں اور ہم آپ کے تجربات سے استفادہ حاصل کرسکیں۔
     
  4. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہم پردیسیوں کی زندگی کا ایک مختصر جائزہ


    بہت بہت شکریہ نعیم بھائی،!!!!یہ آپ سب کی محبت اور پرخلوص ‌دعائیں ہی تو ہیں،!!!!! میں تو اپنے آپ کو دنیا کے خوش قسمت لوگوں میں شمار کرتا ہوں،!!! میرا تو بس اب بالکل ہی دل نہیں کرتا کہ یہاں سے واپس جاؤں، بس یہی آرزو آخری تمنا دل کا ارمان ہے اور دلی خواہش ہے کہ موت بھی آئے تو سرکار دوعالم حضور :saw: (ص) کے دربار میں ان کی چوکھٹ پر آئے،!!!!

    مجھے ہماری انتظامیہ کی جانب سے میری سروس کی ریٹائرمنٹ کیلئے ایک اطلاع نامہ مل بھی چکا ہے، میں نے ان سے درخواست کی ہے، وہ مجھے نوکری سے ضرور فارغ کردیں لیکن یہاں سے مجھے نہ واپس بھیجیں بلکہ میری خدمات کے عوض اپنی ہی کفالت پر مجھے میری زندگی کے آخری دن تک یہاں رہنے کی اجازت دے دیں، اور جس کے لئے میں سارے اپنی فیملی کے اخراجات کا بھی خود ہی ذمہ دار ہوں گا، کیونکہ الحمداللٌہ دونوں بیٹے اللٌہ تے کرم سے یہاں پر ہی برسر روزگار ہیں، اور باقی زیرتعلیم ہیں، اور ہماری بیگم کی بھی یہی خواہش ہے، وہ بھی نہیں چاہتی کہ یہاں کے مقدس مقام سے دور ہوجائیں، آپ سب سے دعاؤں کی درخواست ہے،!!!!

    آپ مجھ سے تو عمر میں کافی چھوٹے ہیں لیکن تجربات اور علم کی روشنی کافی اونچے مقام ہر ہیں اس لئے بھائی کہہ کر مخاطب ہوتا ہوں اور ویسے بھی میں اپنے چھوٹوں کے نام کے ساتھ جی ضرور لگاتا ہوں، اور اپنے بچوں سے بھی ایک دوستوں کی طرح ہی مخاطب ہوتا ہوں، بیٹا یا بیٹی بہت ہی کم میری زبان سے نکلتا ہے،!!!

    آپ سے میں نے یہاں پر بہت کچھ سیکھا اور آپ کی توسط سے کافی رہنمائی بھی ملی،!!!

    خوش رہیں،!!!!
     
  5. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہم پردیسیوں کی زندگی کا ایک مختصر جائزہ

    بہت بہت شکریہ محبوب خان جی،!!!!

    آپ سب کی دعاؤں کی ضرورت ہے، میں تو چاہتا ہوں کہ ہمیشہ آپ سب کے ساتھ گفت و شنید میں زیادہ سے زیادہ وقت کو صرف کروں، اب تو ویسے بھی بہت جلد ریٹائرمنٹ کی طرف جارہاہوں، امید ہے اس کے بعد مجھے کافی وقت مل سکے گا،!!!!!

    خوش رہیں،!!!!
     
  6. بزم خیال
    آف لائن

    بزم خیال ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2009
    پیغامات:
    2,753
    موصول پسندیدگیاں:
    334
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہم پردیسیوں کی زندگی کا ایک مختصر جائزہ

    سید بھائی پردیسیوں کی زندگی کی حقیقت ہے کیا ۔ بہت اچھے انداز میں ایک طویل سفر کو مختصر پیرائے میں بند کر دیا آپ تو جہاں ہیں ماشااللہ قلبی سکون پاتے ہیں ۔ جہاں ہم ہیں وہاں کی صورتحال کچھ ایسی ہے

    رہتا ہوں جہاں میں صبح ہے اس کی نرالی
    ایک ہاتھ میں کافی تو ایک ہاتھ ہے خالی

    ڈرتے ہیں بس موسم سے یہ بے نیاز لباس
    زمین خود کو چھپاتی ڈھانپ لیتی ہے ہریالی

    بوڑھوں سے رہتے بیزار بچوں سے از حد پیار
    حیوان آدمیت کو سہلاتی ان کی بزم شب کالی

    روگ جہاں ہے ان کی سپیدی ورق عریاں
    اپنے چہرے پہ اپنے ہی ہاتھ سے ہے لالی

    گھر ان کا ہو تو مکیں میں کیوں نہ ہوں
    چلمن سے اپنے جھانکے تو پردہ ہی دیوار بنا لی
     

اس صفحے کو مشتہر کریں