1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ہم اور ہمارے حکمراں

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از محمد اجمل خان, ‏7 مارچ 2015۔

  1. محمد اجمل خان
    آف لائن

    محمد اجمل خان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 اکتوبر 2014
    پیغامات:
    209
    موصول پسندیدگیاں:
    181
    ملک کا جھنڈا:
    ہم اور ہمارے حکمراں

    جو صرف اللہ سے ڈرتے ہیں اور احکامِ الٰہی کی پاسداری کرتے اور کرواتے ہیں‘ اُن سے سب ڈرتے ہیں۔
    ہمارے اسلاف میں یہ خوبیاں تھی ‘ وہ صرف اللہ سبحانہ و تعالٰی سے ڈرتے تھے اور احکامِ الٰہی کوخود اپنے اوپر اور اللہ کی زمین میں اللہ کے بندوں پر نافذ کرنے والے تھے اور اسی لئے اُس دور کی عالمی طاقتیں قیصر و کسریٰ بھی اُن کے ڈرسے لرزاں تھے۔لیکن آج نہ عوام الناس ہی اللہ سے ڈرنے والی ہے اور نہ ہی حکمراں۔ اس لئے ہم سب اللہ کے علاوہ باقی سب سے خائف ہیں اور کوئ ہم سے خائف نہیں چاہے ہم اٹمی طاقت ہی کیوں نہ ہوں۔
    آج نہ عام مسلمانوں کو ہی اسلام کی پرواہ ہے اور نہ ہی حکمرانوں کو۔
    کیا کسی بھی مسلم ملک کی عوام کسی ایسے کو اقتدار پہ لانے کی خواہاں ہیں جو فرمانِ الٰہی :

    الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّـهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ ﴿٤١﴾
    " یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں، معرُوف کا حکم دیں گے اور مُنکَر سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔"(سورۃ الحج )
    کے مطابق :
    ۔۔۔ ڈنڈے کے زور پہ اقامتِ لصلوٰۃ کا فریضہ انجام دے۔
    ۔۔۔ حکومت کو زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کے خلاف قتال کرے۔
    ۔۔۔ مسلم معاشرے میں جو شرک و بدعات شرایت کر گئی ہے اسے اسلام کی معروف احکام کے ذریعے رفع کرے۔
    ۔۔۔ منکرات کے مرتکب لوگوں کو شریعت کے مطابق سزا دے۔
    ہم سب کا جواب یہی ہوگا کہ نہیں ‘ کبھی نہیں اور کہیں بھی نہیں۔
    لہذا جب عوام ہی نہیں چاہتی کہ کوئ مرد مومن حکمراں بنے تو اللہ سبحانہ و تعالٰی بھی ایسے ہی حکمراں ان پر مسلط کر دیتے ہیں جو اقامت الصلوۃ کی پرواہ نہیں کرتے‘ زکوٰۃ و بیت المال کا نظام قائم کرنے کے بجائے ملک و قوم کی دولت اپنی عیاشیوں اور نفس پرستیوں میں صرف کرتے ہیں اور اپنی ساری طاقتیں نیکی کے بجائے بدیوں کو پھیلانے میں استعمال کرتے ہیں۔
    ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے حکمراں کرپٹ ہیں‘ بد دیانت ہیں‘ بدکردار ہیں اور اللہ کے نافرمان ہیں۔
    نہ ہی یہ اللہ کو ماننے والے ہیں اور نہ ہی ان کے دلوں میں اللہ کا خوف ہے بلکہ اپنے دنیاوی آقا کے خوف سے یہ ہر وقت لرزاں ہیں۔
    صرف اقتدار میں رہنے کی حوس ہی انہیں مسلم عوام کے سامنے اللہ کا نام لینے پر مجبور کرتی ہے۔
    انہیں اقتدار میں رہنے کا کوئ حق نہیں لیکن جب بھی الیکشن ہوتا ہے یہی عوام ان ہی کو دوبارہ اپنی ووٹوں سے چن لیتی ہے اور وہ پہلے سے بڑھ کر کرپشن کرنے میں دلیر ہو جاتے ہیں۔ کسی بھی مسلم ملک میں کسی شریف النفس انسان کو کوئ ووٹ دینے کو تیار نہیں ( یہ نہ سمجھیں کہ میں مروجہ جمہوریت کو مانتا ہوں)۔
    اور اگر کچھ تبدیلی کے خواہاں انقلاب برپا کرکے کسی اور کو لے آتے ہیں تو وہ پچھلے سے بڑھ کر برا ثابت ہوتا ہے کیونکہ وہ بھی اسی عوام میں سے ہوتا ہے یقین نہیں تو ان مسلم ممالک کے طرف ایک نظر ڈالئے جہاں انقلاب کے ذریعے تبدیلی آئ ہے۔
    تو اصل برائ عوام میں ہی ہے۔
    عوام معصوم نہیں ہیں۔
    عوام کا کردار بھی حکمرانوں سے کچھ مختلف نہیں ۔ یہ بھی کرپٹ ہیں‘ بد دیانت ہیں‘ بدکردار ہیں اور اللہ کے نافرمان ہیں۔
    پس جیسی عوام ویسے حکمراں.
    حکمراں کو بدلنا ہے تو عوام کو بدلنا ہوگا یعنی عوام کی سوچ تبدیل کرنی ہوگی اور عوام کی اکائ ہے ’ فرد ‘۔
    ایک فرد بدلے گا تو ایک گھرانہ تبدیل ہوگا اور اسی طرح پھر معاشرہ اور پورے ملک کے عوام تبدیل ہونگے۔
    پھر حکمراں بھی اللہ کے حکم سے اللہ سے ڈرنے والے اور احکامِ الٰہی کی پاسداری کرنے والے آئیں گے۔
    تو آئے عوام کی اکائ ’ ایک فرد ‘ کے حیثیت سے ہم سب سے پہلے اپنے اندر تبدیلی لائیں۔
    وہ تبدیلی لائیں جس کے لئے اللہ سبحانہ و تعالٰی نے اپنے سب سے پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الیہ و سلم کو مبعوث کیا‘ جس کا ماخذ قرآن و سنت ہے۔
    ہم اپنی سوچ کو قرآن و سنت کے مطابق کرلیں۔
    ہم شریعت کے احکام کو ماننے والے بن جائیں۔
    تاکہ اللہ سبحانہ و تعالٰی اپنے فضل سے اگر کوئ ایسا حکمراں ہم پر مسلط کرے جو فرمانِ الٰہی :

    الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّـهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ ﴿٤١﴾
    " یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے،زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں، معرُوف کا حکم دیں گے اور مُنکَر سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔“(سورۃ الحج )
    کے مطابق :
    ۔۔۔ اگر اقامتِ لصلوٰۃ کا فریضہ انجام دے
    ۔۔۔ زکوٰۃ و بیت المال کا نظام قائم کرے۔
    ۔۔۔ معرُوف کا حکم دے اور ہمارے معاشرے میں جو شرک و بدعات شرایت کر گئی ہے اسے اسلام کی معروف احکام کے ذریعے رفع کرے۔
    ۔۔۔ منکرات کے مرتکب لوگوں کو شریعت کے مطابق سزا دے۔
    تو ہم پر کوئ بار نہ گزرے اور ہم اسے بخوشی قبول کرنے والے بن جائیں۔
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    سنتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معلوم ہوتا ہے کہ اصلاح کا عمل انفرادی و اجتماعی سطح پر ہوتا ہے۔
    مکی دور سے لے کر ہجرتِ مدینہ کے بعد دعوتِ دین اورانفرادی اصلاحِ احوال کا عمل ابھی جاری و ساری تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتماعی معاشرتی اصلاح کا کام شروع فرما دیا۔ یہ انتظار نہیں فرمایا کہ پہلے سارے کے سارے مدینہ طیبہ کی آبادی کو مسلمان کرلیا جائے پھر انکو اعلی درجے کا مومن کامل بنا لیا جائے اس کے بعد اجتماعی سیاسی جدوجہد شروع کریں گے۔
    نہیں
    بلکہ ہجرت مدینہ کے فورا بعد " مواخاتِ مدینہ" کے ذریعے معاشی ناہمواری کو دور کرنے پر توجہ فرمائی۔ یاد رہے کہ ابھی بہت سارے بنیادی فرائض کا احکامات نہیں دیے گئے کہ معاشی خوشحالی کے اقدامات کردیے گئے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اہل مدینہ کے غیرمسلموں سے سیاسی معاہدات شروع فرما دیے۔ مکہ کے کافروں سے کبھی دو بدو جنگ تو کبھی مذاکرات و معاہدات کا عمل شروع کردیا۔ یہ سب سیاسی وانقلابی جدوجہد ہے۔
    الغرض انفرادی اصلاح کے ساتھ ہی ساتھ مناسب موقع پر اجتماعی معاشرتی اصلاح کا کام شروع کردینا سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم قرار پایا ۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    یہ تصورکہ پہلے سارے کے سارے معاشرے کو " مومنِ کامل " بنا لیا جائے تو خود بخود اجتماعی اصلاح ہوجائے گی یہ قانونِ فطرت اور سنتِ پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے۔
    یہی وجہ ہے برصغیر میں کئی خالص " تبلیغی جماعتیں " صدیوں سے اور عشروں سے " انفرادی اصلاح " کا کام جاری رکھے ہیں مگر اجتماعی اصلاح کی منزل نہ صرف دن بدن دور ہوتی جاری ہے بلکہ ملک و قوم تباہی کے دہانے کی طرف بڑھتے جارہے ہیں۔
    اس لیے ضروری ہے کہ پوری قوم نہ سہی لیکن ایک معقول تعداد اہل حق کی میسر ہو جو اجتماعی سیاسی تبدیلی کے لیے حکیمانہ انداز میں جدوجہد کرتے ہوئے قوتِ نافذہ حاصل کرکے
    الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّـهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ ﴿٤١﴾
    " یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے،زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں، معرُوف کا حکم دیں گے اور مُنکَر سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔“(سورۃ الحج )
    کی منزل حاصل کرکے منشائے الہی پورا کرنے کی منزل حاصل کریں۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. محمد اجمل خان
    آف لائن

    محمد اجمل خان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 اکتوبر 2014
    پیغامات:
    209
    موصول پسندیدگیاں:
    181
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام علیکم
    محترم ! مضمون میں صرف انفرادیت کی بات تو نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی یہ تاثر دیا گیا ہے کہ ’’ پہلے سارے کے سارے معاشرے کو " مومنِ کامل " بنا لیا جائے تو خود بخود اجتماعی اصلاح ہوجائے گی‘‘۔
    لکھا ہے ’’تو آئے عوام کی اکائ ’ ایک فرد ‘ کے حیثیت سے ہم سب سے پہلے اپنے اندر تبدیلی لائیں‘‘ ۔ اور پھر ’’ تاکہ اللہ سبحانہ و تعالٰی اپنے فضل سے اگر کوئ ایسا حکمراں ہم پر مسلط کرے جو فرمانِ الٰہی:‘‘ اں پر غور کریں۔
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    ---------
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں