1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

'اِعلانات، تبصرے، تجاویز، شکایات' میں موضوعات آغاز کردہ از واصف حسین, ‏13 اپریل 2011۔

  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    بلکل سمجھ گیا !‌
    مگر باقی تصویریں کہاں ہیں ؟
     
  2. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    واصف بھائی اور صدیقی بھائی جب کچھ شئیر کریں گے تو فرمائش بھی پوری سمجھیں۔۔۔۔۔۔۔ہم تو بس تصویر کھنچواتے رہے اور روداد لکھ ڈال دی۔:computer:
     
  3. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    محبوب بھائی بہت خوب ۔۔۔ آپ نے تو اپنی روداد لکھ ماری اب میں بھی لب کشائی کی اجازت لیتا ہوں۔ ادھر لکھنے کے علاوہ مکمل رودار "آپ کے مضامین" والی لڑی میں بھی لکھ رہا ہوں‌کہ یہ طوالت کے باعث مکمل مضمون بن گیا ہے۔

    کلر کہار کی سیر - حصہ اول​

    کلر کہار میں ہماری اردو کی میٹنگ کے پروگرام کا حتمی فیصلہ ہوا تو دل میں خوشی اور انبساط کا سمندر موجیں مارنے لگا۔ ہارون بھائی اپنے احباب کے ساتھ ایک دن پہلے ہی روانہ ہوئے جبکہ راولپنڈی میں مقیم دوستوں نے صبح سات بجے روانہ ہونا تھا۔سرِ شام ہی تیاری شروع کی۔کپڑے استری کیے، کیمرہ تیار کیا۔ کیمرے کی سیل چارج کیے۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ صبح میں نہیں بلکہ رات ہی کو کوچ کا ارادہ ہو۔جب تمام تیاری مکمل کر لی تو انتظارِ سحر کو سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ دل میں سوچا کہ نیند کی وادی میں جاتے ہیں تاکہ وقت جلد گزرے اور وقت رحیلِ کارواں کی آمد کی بیتابی کو قرار آئے۔ اسی خیال کے مدِنظر بستر پر دراز ہوا مگر نیند کی دیوی نے رخصت لے لی۔ لاچار بستر پر کروٹیں بدلتا رہا۔ سوچا چلو کمپیوٹر لگا کر اردو لکھتے ہیں مگر پھر خود ہی اس کی تردید کی کہ اگر کمپیوٹر لگا لیا تو یوں جانیے کی نیند کو بھی نہ آنے کا بہانہ مل جائے گا۔متبادل کے طور پر گھر میں موجود اردو کی ثقیل ترین کتاب، فسانہ عجا ئب نکالی اور ورق گردانی کرنے لگا کہ اس قدر ثقیل الفاظ، توجہ کو مطالعہ سے، نیند کی طرف راغب کر دیں کہ مگر نتیجہ ندارد۔ یہ کو ئی امتحان کی تیاری تھوڑی تھی کہ کتاب کھولتے ہی نیند کی وادی کی سیر شروع ہو جاتی۔لاچار رجب علی بیگ کی دیومالائی داستان پڑھنے لگا جس کے ہر دوسرے ورق پر فرہنگ کھولنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ مگر کارِ دماغ ملاحضہ ہو کہ کسی بھی لفظ کے لیے لغت کی ضرورت نہ پڑی اور تمام الفاظ مانوس ہی محسوس ہوتے رہے۔اس دوران دو مرتبہ بجلی والوں نے بھی اندھیرا کر کے مجھے سلانے کی کوشش کی مگر شمع روشن کر کے میں نے مطالعہ جاری رکھا۔نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ آخری دفعہ جب گھڑی پر نظر گئی تو ڈھائی بج رہے تھے۔بقول خسرو "نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں" کی تصویر بنا سونے کی ناکام کوشش کرتا رہا۔ پھر نجانے کس وقت نیند کی پری کو رحم آ ہی گیا۔ جب ا ٓنکھ کھلی تو صبح کے چھ بج رہے تھے۔
    ایک جست کے ساتھ بستر کو خیرآباد کہا اور غسل خانے کا رخ کیا۔شیو برش اور غسل سے فارغ ہو کر کپڑے تبدیل کیے تو ابھی ساڑھے چھ ہوئے تھے۔موبائیل پر آصف بھائی کی کال ا ٓ رہی تھی۔ کال سنی تو معلوم ہوا کہ اس کا مقصد مجھے جگانا تھا۔ اب انہیں کیا معلوم کہ جاگنا تو رہ گیا ایک طرف میں تو روانگی کے لیے تیار تھا۔ناشتے کے نام پر ایک گلاس دودھ پیا۔ ساتھ لے جانے والی اشیاء کا متعدد بار معائنہ کیا اور پورے سات بجے آصف بھائی کو کال کیا۔بولے میں تیار ہوں اور بس نکلا ہی چاہتا ہوں۔میں نے کہا آپ پہنچیں میں گھر سے نکل کر بڑی سڑک پر آتا ہوں تاکہ گاڑی کا گلیوں میں آنے جانے کا وقت بچے۔ دروازے بند کیے اور تالا ڈال کر بڑی سڑک پر آ گیا۔جب انسان انتظار کر رہا ہوتا ہے تو وقت بھی اس پر ہنستا ہے۔ اور ٹھہر ٹھہر کر اس کی بے چینی سے لطف اندوز ہوتا ہے۔فٹ پاتھ پر چہل قدمی جاری تھے۔ ہر ویگن اور ٹیکسی میرے قریب آ کر رکتی اور معلوم کرنے کی کوشش کرتی کہ میں کہاں جانا چاہتا ہوں اور ہر کسی کو میں بے اعتناعی سے دیکھ کر نفی میں سر ہلاتا۔ چہل قدمی بدستور جاری رہی۔ آخر خدا خدا کر کے 7:45 پر آصف بھائی کی گاڑی نظر آئی۔ محبوب بھائی ان کے ساتھ تھے۔ سلام و معانقہ ہوا اور میں نے فوراً ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔ راستہ میں صدیقی بھائی جو کہ طے شدہ جگہ پر تیار موجود تھے کو ساتھ لیا اور موٹروے کی طرف گاڑی دوڑانا شروع کی۔آصف بھائی کی گاڑی میں نصب یو ایس بھی موڈیلٹر میں موسیقی کا ایک انبار تھا۔ موسیقی چلائی تو حمیرہ ارشد کی آواز میں کلام اقبال "لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب" کانوں میں رس گھولنے لگا اور ہم اقبال اور اس کے انداز سخن پر تبادلہ خیال کرنے لگے۔
    موٹر وے پر چڑھنے کے بعد میں نے گاڑی کو اشہب صر صر خرام کی طرح دوڑانا شروع کیا۔جب سپیڈ میٹر کی کی سوئی 140 سے آگے بڑھی تو آصف بھائی نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ جس طرح دروغ بر گردنِ راوی ہوتا ہے چالان و جرمانہ بر گردنِ ڈارئیور ہو گا۔جملے نے ادبی ذو ق کی تسکین کے ساتھ جیب کا خیال بھی دل میں تازہ کیا اور غیر شعوری طو ر پر پاؤں پائیدان برائے تغیر رفتار یعنی ایکسیلٹر سے اٹھ گیا اور گاڑی واپس مقررہ حدِ رفتار یعنی 120 پر آگئی اور اسی وقت موٹر وے پولیس کی ایک گاڑی کھڑی نظر آئی جس میں سے سپیڈ کیمرہ نکال کر چیکنگ شروع کرنے کا انتظام ہو رہا تھا۔ مگر یہ سلسلہ زیادہ دیر برقرار نہ رہا اور چند ثانیوں کے بعد گاڑی کی سوئی دوبارہ 140 پر تھی۔ ایک اترائی پر اس کو 160 کے ہندسے کی بھی زیارت کروائی۔ راستے میں ایک اور سپیڈ کیمرہ نظر آیا۔ اب کی بار گاڑی 140 پر تھی مگر خوبیِ قسمت یہ ہوئی کہ نامعلوم وجوہ کی بنا پر اس کو آپریٹ کرنے والا کسی اور کام میں مشغول تھا۔نظارے دیکھتے گپیں مارتے ہم کلر کہار انٹرچینج پر پہنچے اور موٹر وے کو خیرآباد کہا۔
    موٹروے سے اتر کر ہم دائیں مڑے تو کلرکہار جھیل کے خوبصورت منظر نے ہمارا استقبال کیا۔ پہاڑیوں کے بیچوں بیچ پانی کی شفاف جھیل پر سورج کی کرنیں ایک چمک دکھا رہی تھیں۔ہم نے گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی کی اور قدرت کی اس صناعی کی داد دینے لگے۔گاڑی سے اتر کر اس دلفریب منظر سے دل و دماغ معطر کیا۔ ساتھ ہی کیمرے برآمد ہوئے اور اس عکس کی یادوں کو محفوظ کرنے لگے۔ کچھ دیر شوقِ نظارہ کی تسکین کی کچھ فوٹو کھینچے اور آگے بڑھنے کا قصد کیا۔اس یک رویہ چھوٹی سڑک پر محو سفر ہوئے۔ جھیل سے پہلے سڑک کے دونوں اطراف لوکاٹ کے باغ نظر آئے۔ سبز درختوں کا ایک سلسلہ تھا۔ باغ ختم ہوئے تو ہم جھیل کے ساتھ بنے پارک اور سڑک کے دونوں طرف جمی دوکانوں سے ہوتے پارکنگ میں داخل ہوئے۔پوری پارکنگ خالی تھی اور سوائے ایک مقام کے کہ جہاں بوگن ویلیا کی بیل کسی حد تک سایہ کر رہی تھی دھوپ کی زد میں تھا۔ اسی سائے میں ہم نے گاڑی پارک کی۔پاکنگ ٹکٹ لیا اور پارکنگ فیس واپسی پر ادا کرنے کی بابت کچھ بحث کی اور گاڑی لاک کر کے پارک میں داخل ہوئے۔چونکہ ہم کافی سویرے پہنچ گئے تھے پارک میں ہمارے سوا وہی لوگ موجود تھے جن کا یہاں روزگار ہے۔
    ہاورن بھائی جو کہ ملک وال میں بلال بھائی کے ساتھ تھے کا فون آیا۔کہنے لگے کہاں پہنچے ہیں۔ہم نے کہا کہ حسبِ وعدہ ہم تو 10 بجے مقامِ متعینہ یعنی کلر کہار جھیل پر پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے آدھ پون گھنٹے میں پہنچنے کا عندیہ دیا۔اب ہمارے پاس سوائے انتظار کے کوئی چارہ نہ تھا سو ہم جھیل کی سیر کرنے لگے۔جھیل کے کنارے پر ایک سیمنٹ کا تھڑا جھیل کے اندر تک بنایا گیا ہے جہاں سے کشتی پر سیر کے شائقین کشتوں پر سوار ہوتے ہیں۔ہم اس پر چلے گئے۔ جھیل کی خوبصورتی اور کمال الہیٰ کو آنکھوں میں جذب کرنے کے ساتھ ساتھ تصویر کشی بھی کرتے رہے۔تھڑے کے دونوں طرف خود رو کانے اگے تھے اور ان کے اندر پرندوں کی چہچہاہٹ کانوں میں رس گھول رہی تھی۔ ہم کشتی پر سوار ہونے کےلیے بنائے گئے کھلے چبوترے پر کھڑے تھے کہ ایک آبی پرندہ جسے جل ککڑی کہتے ہیں چبوترے پر آ گیا۔ آصف بھائی نے موقع غنیمت جانا اور اس کی تصویر بنانے کی کوشش کرنے لگے۔پرندے اور آصف بھائی میں تگ و دو شروع ہوئی۔ پرندہ اس کوشش میں تھا کہ اس کی ذاتی زندگی میں دخل نہ دیا جائے اور تصویر نہ بنائی جائے جبکہ آصف بھائی قدرت کے اس شاہکار کی یادگار تصویر لینے کے متمنی تھے۔ جب کیمرے میں منظر قابل تصویر کشی ہوتا پرندہ اس کو بھانپ کر فوراً کسی کشتی کی اوٹ میں ہو جاتا۔تھوڑی دیر یہ کش مکش جاری رہی اور باآلاخر پرندے نے ٹیکنالوجی سے مات کھائی اور آصف بھائی نے کیمرے کا زوم استعمال کر کے تصویر بنا لی۔ پرندے نے احتجاجاً واک آؤٹ کیا اور پانی میں کود کر چبوترے سے دور کانوں کے جھاڑ میں روپوش ہو گیا۔
    جب تمام لوگ فوٹو گرافی اور منظر کی دلکشی سے خوب سیر ہو گئے تو چائے کے شغل کا اردہ باندھا۔ہم نے باہر کا رخ کیا اور پارکنگ سے بھی اور پرے جہاں دکانوں کا سلسلہ ختم ہوتا تھا کی طرف چلے۔ چائے تو وقت گزاری کا بہانہ تھا۔ اردو پر بحث کرتے ہماری اردو کے صارفین کو یاد کرتے ہم چائے کی دکان کے سامنے پہنچے۔ دوکان کیا تھی ایک میز نما کاونٹر پر چائے بنانے کا سامان اور چند پلاسٹک کی کرسیاں۔متفقہ فیصلہ ہوا کہ چائے ڈبے کے دودھ کی نہیں بلکہ تازہ دودھ کی پی جائے۔یہ ایک اچھا شغل ہاتھ آیا ۔ جس بھی چائے والے کے پاس جاتے پہلا سوال دودھ کے متعلق ہوتا اور چائے فروش معذرت خواہانہ انداز میں کہتا کہ جناب دودھ تو ڈبے کا ہی ہے۔چند دکانوں سے معذرت وصول کرنے کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ دکانوں کے اختتام پرجو چائے والا ہے وہ اپنی بھینسوں کا تازہ دودھ استعمال کرتا ہے۔گپیں مارتے شعر سنتے سناتے ہم اس کے پاس پہنچے تو اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ واقعی اس آخری چائے فروش کے پاس تازہ دودھ کی چائے دستیاب ہے۔جب چائے آئی تو میں نے یہ قطعہ پڑھا۔
    خالی چائے ہو ساتھ کیک نہ ہو
    میزباں اس قدر بھی نیک نہ ہو
    ایسی دعوت سے رب بچائے جہاں
    دال وافر ہو مرغ ایک نہ ہو
    مگر چائے فروش کے پاس صرف چائے ہی تھی سو میں سامنے دکان سے بسکٹ پکڑ لایا اور ہم نے چائے اور بسکٹ نوشِ جاں کیے۔
    انتظار کی کوفت اور دھوپ کی تمازت کا مقابلہ کرنے کا واحد حل ہمارے پاس بات چیت تھا اور وہ ہم نے جاری رکھی۔کوئی گھنٹہ بھر گزرا ہو گا کہ خیال آیا کہ ہارون بھائی بمع اپنے گروپ کے نہیں پہنچے۔ کال کیا تو بلال بھائی نے کال وصول کی اور پندہ منٹ میں پہنچ جانے کی خبر سنائی۔مذید آدھ گھنٹہ بعد ہارون بھائی نے کال کیا کہ ہم پہنچ گئے ہیں آپ کہاں ہیں۔ ہم چاروں سڑک پر آئے تو فقط ایک ٹرک آتا نظر آیا بہ صد حیرت پوچھا کہ کیا آپ ٹرک پر آ رہے ہیں تو بولے آپ لوگ غلط سمت میں دیکھ رہے ہیں پیچھے مڑ کر دیکھیں۔ مخالف سمت دیکھا تو ہارون بھائی اپنے گروپ سمیت گاڑی سے برآمد ہو رہے تھے۔دعا سلام اور معانقے ہوئے ایک دوسرے کی مزاج پرسی ہوئی اور دوبارہ جھیل کا رخ کیا۔ اس وقت تک دھوپ میں خاصی تمازت آ چکی تھی۔ پارک میں رونق شروع ہو گئی تھی اور لوگ چھٹی کا دن منانے کے لیے سیر کی غرض سے آ چکے تھے۔ بعض من چلے کشتی رانی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ بچے پارک میں دوڑتے پھر رہے تھے اور انہیں دوھوپ کی تمازت کا چنداں احساس نہیں تھا۔تھوڑی دیر سیر کی چند تصاویر لیں اس دوران باتوں اور نوک جھونک کا سلسلہ جاری رہا۔فیصلہ یہ ہوا کہ پہلے موروں والی سرکار کے مزار پر چلیں گے اور پھر کٹاس کا قصد کیا جائے گا۔

    جاری ہے
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    بہت خوب واصف بھائی مزید کا انتظار رہے گا۔۔۔۔۔۔۔۔گو کہ ساتھ تھا۔۔۔۔مگر جو لفاظی آپ کررہے ہیں۔۔۔۔۔لگتا ہے کہ پھر ہو کے آیا ہوں۔۔۔۔سو لطف دوبالا ہوتا جارہا ہے۔
     
  5. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    محبوب بھائی اور واصف بھائی !‌ آپ دونوں دوستوں نے سیر کی کہانی کچھ یوں بیان کی ہے کہ دل مچل سا اٹھا ہے ۔
     
  6. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    بھٹی صاحب اس سے اندازہ کریں کہ واپس آکے اتنا کچھ بیان کیا جارہا ہے۔۔۔۔جب محفل رنگ میں تھا تب کیا صورت حال تھی۔۔۔۔۔لگتا تھا کہ الفاظوں کی بہار ہے۔۔۔۔۔۔۔ایک جلترنگ سے مچی ہوئی ہے۔۔۔۔۔اور سب بڑھ چڑھ کے اپنا حصہ ڈالے جارہے ہیں۔۔۔۔۔۔بہت ہی خوب گزری۔ :237:
     
  7. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    مگر تصویریں ہنوز ندارد ہیں ۔
    تمام تصویریں بمع تفصیل اور نام ہونی چاہیے ، تانکہ تمام صارفین آپ سب سے فردا فردا روشناس بھی ہو جائیں ۔
    ورنہ مین تو چاچا جی ، صدیقی صاحب اور بلال بھائی کو ہی پہچان پایا ہوں ۔
     
  8. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    [​IMG]
    دائیں سے بائیں: پہلے نیچے والے: شکور صاحب، اختر بھائی، آصف بھائی، ملک بلال
    اوپر کے قطار کے میں: واصف حسین، ھارون بھائی، محبوب خان، ڈاکٹر آصف
     
    Last edited by a moderator: ‏30 ستمبر 2014
  9. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    [​IMG]
    دائیں سے بائیں: پہلے نیچے والے: شکور صاحب، اختر بھائی، آصف بھائی، صدیقی بھائی
    اوپر کے قطار کے میں: واصف حسین، ھارون بھائی، محبوب خان، ڈاکٹر آصف
     
    Last edited by a moderator: ‏30 ستمبر 2014
  10. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    بھٹی صاحب اب ان تصاویر کی مدد سے مجھے امید ہے کہ آپ تمام موجود شرکا کو پہچان پائیں گے۔
     
  11. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    اچھا بھئی اب میں بھی کل کچھ لکھنے کی کوشش کروں گا
     
  12. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    حصہ دوم

    پارکنگ میں آئے تو بوگن ویلیا کی بیل بھی سایہ فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی تھی اور گاڑی دھوپ میں تپ رہی تھی۔ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تو بمشکل اپنی چیخ کو روکا۔ نعرہ لگایا کہ ہر کوئی اپنی زمہ داری پر بیٹھے۔ آصف بھائی نے گائیڈ کے فرائض سنبھالے اور دونوں گاڑیاں موروں والی سرکار کے مزار کی طرف روانہ ہوئیں۔ان کو موروں والی سرکار کہنے کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مزار پر صبح وشام جنگلی مور حاضری دیتے ہیں اور دربار کے احاطے میں بلا روک ٹوک آزاد گھومتے ہیں۔ روایت یہ ہے کہ اگر کوئی ان موروں کو پکڑنے کی کوشش کرے تو اندھا ہو جاتا ہے تا وقتہ کہ مور کو واپس احاطے میں نہ چھوڑ دے۔ واللہ اعلم۔ ایک پہاڑی کی بلندی پر واقع اس مزار کے ساتھ پارکنگ کا معقول بندوبست تھا جہاں ہم نے دونوں گاڑیاں پارک کیں۔مزار پر حاظری دی اور فاتحہ پڑھی۔ مزار کے اندر ایک گروپ نعت خوانی میں مصروف تھا۔ دیگر احوال یوں ہے کہ صاحب مزار تو ایک نیک بزرگ اور لوگوں کے لیے مشعل راہ تھے مگر ہر دربار کی طرح اس پر بھی اقبال کی یہ نظم صادق آتی ہے۔یاد رہے کہ نظم میں پیر کا لفظ صاحب مزار کے لیے نہیں بلکہ ان مجاوروں کے لیے ہے جو اس مزار کو دکان بنا کر بیٹھے ہیں۔
    ہم کو تو میسر نہیں مٹّی کا دیا بھی
    گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
    شہری ہو، دہاتی ہو، مسلمان ہے سادہ
    مانند بتاں پجتے ہیں کعبے کے برہمن
    نذرانہ نہیں، سود ہے پیران حرم کا
    ہر خرقۂ سالوس کے اندر ہے مہاجن
    میراث میں آئی ہے انھیں مسند ارشاد
    زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن

    دربار سے کلرکہار جھیل کا منظر قابل دید ہے۔حاضری اور فاتحہ کے بعد ہم مزار سے باہر آئے۔ یہاں کافی ساری دکانیں بنی ہیں جہاں آنے والے زائرین کے لیے چین کی بنا سامان دستیاب ہے جو تحفہ مزار کے طور پر لوگ خریدتے ہیں ۔مور کے پروں کی بابت ایک دکاندار سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہ لاہور سے منگوائے جاتے ہیں اور موروں والی سرکار کی سوغات کے طور پر بیچے جاتے ہیں۔ اس کے سامنے ایک اور پہاڑی ہے جوکہ بلندی میں تقریباً اس کے برابر ہی ہے مگر سڑک کی عدم موجودگی کی وجہ سے گاڑی وہاں نہیں جا سکتی۔ اس پہاڑی پر روڈیاں والی سرکار کا مزار ہے۔ زائرین کی سہولت کے لیے دونوں پہاڑیوں کے درمیان لفٹ لگائی گئی ہے جو دوسری پہاڑی پر لیجانے اور واپس لانے کے 60 روپے فی کس وصول کرتی ہے۔لفٹ کیا تھی بس یوں سمجھیں کہ سوزوکی پک اپ کی باڈی آہنی تاروں کے ساتھ لٹکائی ہوئی ہے۔ چند دوستوں نے لفٹ کی سیر اور روڈیاں والی سرکار کے مزار پر حاضری کی خواہش کی تو یہ طے پایا کہ جو لوگ دوسری پہاڑی پر جانا چاہتے ہیں جائیں باقی ساتھی اسی طرف رہ کر انتظار کریں گے۔ سب کو پار نہ لیجانے کا فیصلہ اس لیے بھی کیا گیا کہ اگرلفٹ ہارون بھائی کا وزن برداشت نہ کر سکی تو غریب لوگوں کا روزگار متاثر ہونے کا اندیشہ تھا۔
    ہم نے دوکانوں کا مشاہدہ کیا ، ایک دکان سے کولڈ ڈرنک لے کر پیے اور ہارون بھائی نے ایک یادگار واقعہ سنایا۔ہوا یوں کہ ایک صاحب اپنی گاڑی میں جا رہے تھے کہ ایک ملنگ عین سڑک کے درمیان ان کی گاڑی کے سامنے آ گیا۔سبز چولا، سرخ انکھیں اور گلے میں ایک تختی جس پر درج تھا کہ یہ شخص بول اور سن نہیں سکتا اس کی مدد کریں۔ چونکہ ملنگ سڑک کے عین بیچ میں تھا ان کو گاڑی روکنا پڑی۔ ملنگ نے ان نے گاڑی کے بونٹ کو چوما اور شیشے کے پاس آ کر دستک دی۔صاحب نے 5 دس روپے دینے کے لیے شیشہ نیچے کیا تو ملنگ نے پستول نکالا اور بٹوہ نکالنے کا اشارہ کیا۔اشارے سے ہی بٹوہ کھولنے کا کہا اور ہاتھ بڑھا کر بٹوے سے تمام پیسے نکالے اور پستول سے ہی اشارہ کیا ٹھیک ہے اب جاؤ۔کافی دیر ملنگ کے واقعہ پر بات چیت ہوئی۔پھر ہم لفٹ کے کنڑول روم کے نزدیک بچھی ایک چارپائی پر قابض ہوئے اور لفٹ کے حرکتی نظام پر اپنی اپنی مہارت کا اظہار کرنے لگے۔ کسی اختلاف کی صورت میں لفٹ اپریٹر سے رجوع کیا جاتا اور اس کی بات حتمی قرار دی جاتی۔ہر واپس آنے والی لفٹ کو بغور دیکھا جاتا کہ ہمارے ساتھی واپس تو نہیں پہنچ چکے۔آخر کار روڈیاں والی سرکار کے زائرین واپس آئے اور ہم پارکنگ میں آ کر اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھے۔ہماری گاڑیاں مخالف سمتوں میں ایک دوسرے کی طرف پشت کیے کھڑی تھیں۔ میری گاڑی کے ساتھ ایک نئی کرولا کھڑی تھی۔ہارون بھائی کے گروپ کی گاڑی نے ریورس کیا اور ساتھ ہی ہمارے قریب کھڑی گاڑی نے ایک جھٹکا کھایا دیکھا تو دونوں گاڑیاں پشت سے پشت ملا رہی تھیں۔ ہارون بھائی کے گروپ کی گاڑی آگے بڑھی اور پھر ریورس اور کرولا ایک مرتبہ پھر دھچکے سے لرزی۔مگر اب کے ہارون بھائی کی گاڑی رخ موڑ لینے میں کامیاب ہوئی۔اس وقوعہ کی وجوہات تو نامعلوم رہیں مگر امکان غالب یہی ہے کہ اس کی تہہ میں بھی ہارون بھائی کی جسامت ہی کار فرما تھی۔ بھلا ہوا کہ دونوں گاڑیوں پر کسی بھی قسم کی خراش نہ آئی اور نہ ہی دوسری گاڑی کا مالک موجود تھا اس لیے بغیر کسی ناخوشگوار واقعہ کے ہم نے وہاں سے کوچ کیا۔
    گیس یا پیٹرول کی تلاش میں گاڑیاں کلر کہار شہر کی طرف موڑی گئیں۔ معلوم یہ ہوا کہ کلر کہار میں گیس نہیں ہے اس لیے پٹرول ہی ڈلوانا پڑے گا۔پیٹرول ڈلوا کر ہم ابھی چلے نہ تھے کہ کسی نے یہ شعر پڑھا۔
    دیکھ تو دِل کہ جاں سے اُٹھتا ہے
    یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
    دیکھا تو سامنے پہاڑی پر جہاں سے ہم آ رہے تھے آگ لگی ہے اور دھویں کا ایک بادل نظر آ رہا ہے۔امکانِ اغلب ہے کہ کسی نے جلتا سگریٹ پھینکا ہو اور خشک جھاڑیوں نے آگ پکڑ لی ہو یا پھر دیدہ و دانستہ کسی مقصد کی بار آوری مقصود ہو۔ کیمرہ برداران نے چھلانگیں لگائیں اور اس آتش زنی کی کوریج کرنے لگے۔اس کے بعد راج کٹاس کی راہ لی گئی۔بات چیت اور موسیقی کے ہمراہ نیم شکستہ سڑک پر آگے بڑھتے گئے۔ ابھی آدھا رستہ بھی نہ ہوا تھا کہ ہماری گاڑی نے احتجاج کرنا شروع کیا کہ جتنی میں ایڑ لگاتا اسپ دوڑنے کے بجائے رکنے کی طرف مائل ہوتا۔ہمت نہ ہاری اور جوں توں کر کے راج کٹاس کے مندروں پر پہنچے۔جہاں ہم نے گاڑیاں کھڑی کیں وہیں ایک چھوٹا سا ہوٹل تھا۔ نیم شکستہ کرسیاں اور ادھڑی ہوئی میزیں دھوپ میں بکھری تھیں۔ سایہ دیوار میں چند میزوں پر ایک گروپ کھانا تناول کر رہا تھا۔ایک پٹھان بیرا ہمیں آتا دیکھ کر ہماری سمت بڑھا۔ کچھ بیرے کی مدد اور کچھ اپنی مدد آپ کے تحت ہم نے دو میزیں اور کرسیاں سایہ دیوار میں کیں اور ان پر براجمان ہو گے۔ فوراً ہی پانی کے جگ اور گلاس آ موجود ہوئے۔ہم نے پانی پیا اور چائے کا آڈر دے دیا۔چائے خوش زائقہ اور گرم تھی۔ گپوں کاسلسلہ جاری رہا اور چائے کا لطف لیا گیا۔
    چائے کے بعد ہم سیر کی نیت سے اٹھے۔ سب سے پہلے ہم نے غاروں کا معائنہ کیا۔ پہاڑ کے اندر بنے چھوٹے چھوٹے غار جن میں سے چند ایک کے لکڑی کے دروازے عظمت رفتہ کی یاد دلانے کے ساتھ دنیا کی بے ثباتی کی منہ بولتی تصویر بنے کھڑے تھے۔ان غاروں میں اپنے وقت کے گیانی تپسیا کر کےگیان حاصل کیا کرتے تھے مگر اب یہ مدت سے اجاڑ پڑے تھے۔کسی نے فقرہ کسا " ہم اتنی دور سے ہم کیا یہ ویران غار دیکھنے آئے ہیں؟" اب میں کیا بتاتا کہ اس ویرانی اور خاموشی میں جو عبرت اور داستانیں سوئی ہیں وہ لاہور کے ہنگاموں میں نظر نہیں آتیں۔
    ایک اور مشاہدہ ہوا جس پر ہم کافی دیر ہنستے رہے۔ وہ یہ کہ جب ہم ان غاروں سے نکل کر مندروں کی طرف جا رہے تھے تو دیکھا کہ سلامت بچ جانے والے دروزاوں پر "۱۲۳ ش" جیسے الفاظ لکھے تھے۔آپ کو یقیناً معلوم ہو گا کہ یہ نمبر مردم و خانہ شماری کا محکمہ لگاتا ہے۔ اور ہمارا یہ محکمہ اتنا فعال ہے کہ عرصہ دراز سے متروک دروازے بھی ان کے مشاہدے سے نہ بچ سکے۔
    ان غاروں سے مخالف مندروں کا احاطہ ہے جس کے گرد آہنی جنگلہ اور گیٹ لگے ہیں۔ہم گیٹ سے داخل ہوئے تو محکمہ آثار قدیمہ کے دو اہل کار ایک درخت کی چھاؤں میں بنچ پر بیٹھے تھے۔ انہوں نے باآواز بلند "اسلام علیکم" کہا۔مقصد ہمیں خوش آمدید کہنے کے علاوہ یہ تھا کہ معلوم کریں کہ یہ کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں تاکہ اس حساب سے ان کو ڈیل کیا جائے۔ہم نے با جماعت "وعلیکم اسلام" کہہ کر اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔ اہلکار نے کہا کہ کوئی ایک شناختی کارڈ دکھائیں۔ میں نے فوراً اپنا کارڈ اس کے حوالے کیا۔ اس نے ایک رجسٹر میں کچھ اندراج کیا اور ہمیں اندر جانے کی اجازت دے دی۔ ساتھ ہی یہ بھی آفر دی کہ اگر ہم شیو کا بت دیکھنا چاہتے ہیں تو ایک اہلکار کو ہمراہ کیا جا سکتا ہے جو ہمارے لیے بند دروازے کھولے گا۔ہم نے معذرت کر لی کہ ہم بت نہیں عمارات دیکھنے کے متمنی ہیں۔اس نے مختصر الفاظ میں مندر کو شیو دیوتا سے منسوب ہونے کی وجہ تسمیہ بتائی جس کے مطابق یہاں موجود پانی کا تالاب شیو کی آنکھ کا وہ پانی ہے جو اس نے اپنی بیوی کی موت پر بہائے تھے۔مجھے ایک روتے ہوئے بے بس دیوتا پر رحم آیا۔
    یہاں پر کافی لوگ آئے ہوئے تھے مگر سب سے دلچسپ دو غیر ملکی خواتین بلکہ لڑکیاں تھیں جو ایک گائیڈ اور محکمہ آثار قدیمہ کے اہلکار کی معیت میں حیرت کا مجسمہ بنی مندروں کی سیر کر رہی تھیں۔یقیناً ان کا تعلق کسی ایسے ملک سے تھا جہاں انگریزی نہیں بولی جاتی کیونکہ ان کی انگریزی بھی اتنی ہی کمزور تھی جتنی کہ ان کے گائیڈ کی تھی۔وہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں گائیڈ سے سوال کرتیں، گائیڈ محکمہ کے اہلکار سے اردو میں پوچھتا اور اس جواب کو پھر انگریزی میں ان کے گوش گزار کرتا۔ اس سارے عمل میں بات کچھ سے کچھ ہو جاتی۔
    بہرکیف سیر جاری رہی اور تصویروں کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔مندروں کا احاطہ کافی بڑا اور نشیب و فراز پر مشتمل ہے ۔پورے احاطے میں گھومنے کے لیے پتھر کی سیڑھیاں ہیں جن پر سنگِ مرمر لگا ہے۔مختلف عمارات اور اشکال دیکھتے ہم آگے بڑھتے رہے۔اچانک ہارون بھائی نے پیٹ میں کسی قسم کی دوڑ جو شاید کہ چوہوں کی تھی منعقد ہونے کا اعلان کیا۔ حال تو سب کا یہی تھا سو واپسی کا فیصلہ ہوا اور گاڑیوں میں سوار ہوئے۔ کھانے کا مناسب مقام ہارون بھائی پہلے ہی تاک چکے تھے سو ان کے پیچھے پیچھے ہم ایک ریستوران کے سامنے جا رکے۔
    صاف ستھرا مقام، باوردی بیرے، پرسکون ماحول۔جاتے ہی بیرے کو بتایا کہ ہم نو لوگ ہیں۔انہوں نے پھرتی کے ساتھ دو میزوں کو یکجا کر کے ٹیبل تیار کیا اور دو عدد مینو کارڈ لے کر حاضر ہوئے۔متفقہ طور پر مینو کارڈ ہارون بھائی کے حوالے کیا گیا۔تمام زمہ داری اپنے سر نہ لینے کے خیال سے انہوں نے مشورہ پوچھا۔میں نے کہا کہ ہم تو ماسا ہاری ہیں، دال سبزی کے سوا جو جی میں آئے منگوا لیں۔ایک مسکرہٹِ اطمینان کے ساتھ انہوں نے دو عدد مرغوں کو کڑاہی برد کرنے کا حکم صادر کیا۔ ساتھ میں دیگر لوازمات اور ایک عدد دال تبدیلی ذائقہ کی نیت سے منگوائی۔ کھانا آیا، سارے دن کی چہل قدمی سے بھوک بھی چمکی ہوئی تھی اور کھانا بھی لذیذ تھا سو خوب سیر ہو کر کھایا۔

    جاری ہے
     
  13. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    واصف حسین جی بُہت خُوب
    مہربانی فرمائیں شعر درست فرما دیں
    دیکھ تو دِل کہ جاں سے اُٹھتا ہے
    یہ دھُواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے
     
  14. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)




    بہت بہت شکریہ محبوب بھائی !
    چاچا جی ( ہارون رشید ) ملک بلال اور صدیقی صاحب کو تو میں پہلے ہی پہچان گیا تھا ، باقی سب دوستوں‌ کا تعارف کروانے کا بہت بہت شکریہ ۔
     
  15. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    بہت شکریہ ۔۔۔درست کر دیا ہے۔۔۔
     
  16. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    ایک افسوس ناک خبر ہے کہ کل کلر کہار میں ایک اسکول بس حادچے کا شکار ہو گئی ہے جس کے سبب 37 بچوں‌اور اساتزہ کی موت ہو گئی ، اسکول انتظامیہ میں غفلت اور لالچ کی انتہا کر دی کے ایک بس میں 110 لوگوں‌کو سوار کر وا دیا ۔ اور لوڈنگ اور اور اسپیڈ کے سبب بس بے قابو ہو گئی اور یہ حادثہ پیش آیا ۔ انا اللہ و ان علیہ راجعون ۔
     
  17. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    حصہ سوئم

    کھانا کھا کر واپسی کا سفر شروع ہوا۔ کھانے کے دوران ہی راستے میں کسی جگہ رک کر چائے پینے کی قرارداد پاس ہوئی۔ہماری گاڑی نے مسئلہ کرنا جاری رکھا گویا واپس نہ جانا چاہتی ہو مگر زورا زوری میں اسے چلاتا رہا۔چند دکانیں نظر آئیں اور ہارون بھائی سڑک پر کھڑے ہمیں رکنے کا اشارہ کر رہے تھے۔ گاڑی سائیڈ پر لگائی اور ایک چائے خانے میں داخل ہوئے۔گجراتی پیالوں میں چائے پیش ہوئی اور ہم نے رغبت سے چسکیاں لینی شروع کیں۔ خوش گپیاں جاری رہیں۔چائے کے بعد رخصت ہونے کا مرحلہ آیا۔کسی کا بھی جی رخصت ہونے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ایک دوسرے کی رفاقت میں خوب وقت گزرا تھا مگر جدا ہونا بھی عین حقیقت تھی۔ معانقے ہوئے ، دوبارہ ملنے کی امید اور عہد و پیماں ہوئے۔ایک دوسرے کو محفوظ سفر کی دعائیں دیں اور یوں اسلام آباد اور لاہور کی مخالف ستموں میں دو گروپوں نے سفر شروع کیا۔
    جلد ہی ہم موٹروے پر آ گئے۔گاڑی کی خرابی ہر گزارتے میں میل کے ساتھ فزوں ہو رہی تھی اور رفتار کم۔وہی گاڑی جو آتے ہوئے 160 کے ہندسے کو چھونے میں دیر نہ لگاتی تھی اب یوں چلنے لگی کہ بڑے ٹرک بھی اس کو اوورٹیک کرنے لگے۔پہلے مرحلے میں گاڑی چڑھائی پر 80 اور اترائی پر 100 کلومیٹر کی رفتار سے آگے نہ گئی۔ پھر 60 اور 40 پر آئی اور آخر کار 40 اور 20 کلومیٹر سے آگے جانا اس کے لیے ناممکن ہو گیا۔ایک تو گاڑی کی سست روی اور اس پر پکے کلاسیکی راگوں میں اقبال بانو اور فریدہ خانم کی آواز میں غزلیں۔سب لوگ یوں خاموش کہ گویا موجود ہی نہیں۔جب میری آنکھیں بند ہونے لگیں تو باآواز بلند پوچھا " میرے علاوہ کون کون سو رہا ہے"۔جملے کی سنگینی کو سب نے محسوس کیا اور مجھے باتوں میں لگانے لگے مبادا کہ جو میں نے مذاق میں کہا ہے سچ ہی نہ ثابت ہو جائے۔اسی رفتار سے ہم نے چکری کراس کیا۔
    چکری کراس کرنے کے بعد ہم نے موٹروے پولیس سے مدد لینے کی ٹھانی اور 130 پر موبائل سے کال کی۔ رابطہ ہونے پر ہمیں بتایا گیا کہ یہ تو پشاور سیکشن یعنی m1 ہے اور ہدایات دی گئیں کہ یہی نمبر 051 لگا کر ڈائل کریں۔ سب نے فرداً فرداً کوشش کی مگر نمبر نہ ملنا تھا اور نہ ملا۔تھوڑا آگے چلنے کے بعد ہمارا دھیان موٹر وے پر لگے ایمرجنسی مواصلاتی نظام کی طرف گیا۔گاڑی کھڑی کی اور اس ڈبے پر لگا سرخ بٹن دبایا۔کچھ مشینی آوازوں کے بعد ریکارڈ شیدہ پیغام سنا کہ جلد ہی آپ سے رابطہ کیا جائے گا۔مگر جواب ندارد۔ متعدد بار بٹن دبا کر یہی پیغام سنا۔ڈبے کے اندر ایک موبائل نمبر لکھا تھا اور ہدایات تھیں کہ اگر یہاں سے رابطہ نہ ہو تو اس نمبر پر بات کر لیں۔ڈائل کیا بات ہوئی مگر وہ صاحب ہماری بات سننے کے بجائے ڈبے کا نمبر پوچھ کر اس کی پڑتال کرنے لگے اور ہم سے رابطہ یہ کہہ کر منقطع کر دیا کہ ڈبے سے آپ کے ساتھ بات ہوتی ہے مگر ڈبے نے ریکارڈ شدہ پیغام کے سوا کچھ بھی سنانے سے گریز کیا۔سوچا گاڑی آہستہ ہی سہی چل تو رہی ہے اور اسلام آباد بھی بس 10-15 کلومیٹر ہی رہ گیا ہے جوں توں کر کے سفر جاری رکھتے ہیں یا پھر اگلے ڈبے پر پہنچ کر قسمت آزمائی کرتے ہیں۔گاڑی میں بیٹھے مگر گاڑی نے چلنے سے یکسر انکار کردیا۔گاڑی میں سورا تینوں ساتھیوں نے انجن کی مدد کرنے کا قصد کیا اور گاڑی کو دھکیلنے لگے۔میں نے ایک مرتبہ پھر 130 ڈائل کیا اور رابطہ ہو گیا۔نام ٹیلیفون نمبر اور مقام کی بازپرس کے بعد ہمیں تسلی دی گئی کہ وہیں ٹھہریں کہ ہماری مدد کے لیے موٹروے پولیس کی گاڑی روانہ ہو گئی ہے۔
    اس تسلی کے باوجود تینوں ساتھی گاڑی کو دھکیلنے میں مشغول رہے۔پانچ منٹ بھی نہ گزرے ہوں گے کہ عقب میں نیلی اور لال روشنی کے جھماکے نظر آئے اور موٹر وے پولیس کی پیٹرولنگ کار ہمارے پیچھے آ کر رکی۔ انسپکٹر سلیم نے اترتے ہی آواز لگائی کہ ا ٓپ جو مرضی ہے کر لیں اس گاڑی کو اسلام آباد تک دھکیل کےنہیں لے جا سکتے۔ایک ذرا سی خفت کے ساتھ دھکا لگانا ترک کیا۔گاڑی کی خرابی کی بابت دریافت کیا گیا تو میں نے کہا کہ کلچ پلیٹ جواب دے گئی ہے۔بولے یہ تو بڑا کام ہے اور ہماری ایمرجنسی ورکشاپ کے بس سے باہر ہے۔ہم آپ کے لیے ریکوری منگواتے ہیں۔ہم بولے بہت بہتر جناب۔متعدد جگہ وائرلیس پر رابطے اور ایک موبائل کال کے بعد معلوم ہوا کہ ریکوری اس وقت اسلام آباد کے قریب ہے اور کیمپ کی طرف جا رہی ہے تاکہ ڈیزل بھروا سکے۔انسپکٹر سلیم نے ہماری حالت کو محسوس کرتے ہوئے ہدایات دیں کہ کیمپ بعد میں جائے پہلے فوراً ہماری گاڑی ریکور کی جائے۔یہ تمام ہدایات دے کر انسپکٹر سلیم نے ہمیں یکہ و تنہا چھوڑا اور اگلے مشن پر روانہ ہو گیا۔
    ہم نے گاڑی کے دونوں اشارے روشن کیے، موسیقی کی آواز بڑھائی اور پرسکون بیٹھ کر ریکوری کی راہ تکنے لگے۔محبوب بھائی وقفے وقفے سے باہر چہل قدمی کرتے اور دوسری طرف کی سڑک پر آنے والی گاڑیوں میں ریکوری کو شناخت کرنے کی کوشش کرتے۔اسی دوران میں نے گھر فون کیا۔ والد صاحب کو تمام صورتِ احوال سے آگاہ کیا اور عرض کی کہ موٹروے پولیس کی ریکوری تو ہمیں ٹول پلازہ تک ہی لائے گی اس لیے آپ عنایت یہ کریں کہ دوسری گاڑی لیکر ہمیں وہاں سے آگے لے چلیں۔
    توقع سے کہیں پہلے ریکوری آ موجود ہوئی۔ہماری گاڑی کو اس سے منسک کیا گیا۔ ریکوری کے ڈرائیور بہرام خان نے مجھے ہدایات دیں کہ بریک کا بالکل استعمال نہیں کرنا ، صرف اسٹیرنگ سے گاڑی کی سمت درست رکھیں۔ اور یوں ہم ریکوری کے پیچھے کھنچتے اسلام آباد ٹول پلازہ پہنچے۔والد صاحب دوسری گاڑی لیے وہاں موجود تھے۔ گاڑی کو باندھا اور گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں صدیقی بھائی کو اتارا اور گاڑی کو آصف بھائی کے مکینک کی ورکشاپ کے ساتھ واقعہ پیٹرول پمپ پر کھڑا کیا۔دوسری گاڑی میں آصف بھائی اور محبوب بھائی کو ان کے گھر کے قریب اتار کر جب واپس گھر پہنچا تو ساڑہے گیارہ بج رہے تھے۔
    یوں یہ خوبصورت سفر جس میں زندگی کے کئی رنگ دیکھے یادوں کی سوغات کے طور پر ہمیشہ کے لیے دل میں محفوظ ہو گیا۔

    ختم شد
     
  18. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    بہت ہی خوب۔۔۔۔۔۔۔ہماری روداد تو بس روداد سے زیادہ ہنسانے کی ناکام کوشش ہے ۔۔۔آپ نے تو ماشاء اللہ بہت ہی گہرائی میں مشاہدات کو قلم بند کیا۔۔۔۔۔۔پڑھ کے لطف دوبالا ہوگیا۔
     
  19. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    اسلام علیکم
    کے بعد عرض ہے کہ میں خیریت سے گھر پہنچ گیا ہوں یہ تو آپ جانتے ہی‌ ہیں اور آپ سب کی خیریت نیک مطلوب ہے ۔

    لیں جی وقت اور تاریخ ملاقات آپ سب احباب کی طرح میں بھی جانتا تھا ، دل میں اشتیاق اور دماغ میں پچھلی ملاقات کی یادیں تازہ ہورہی تھیں وقت کے ساتھ ساتھ بے چینی بھی بڑہتی جارہی تھی کہ وقت ملاقات جلد آجائے ۔
    ہوا یوں کہ 23 ستمبر کو ہم سب اوکاڑہ کے مسافروں نے آپس میں فون پر طئہ کیا کہ صبح سات بجے یہاں سے روانگی ہوگی ، رات کروٹیں بدلتے سوتے جاگتے گذرتی رہی بالا آخر مؤذن نے اللہ اکبر کی صدا بلند کی تو جسم نے مزید چارپائی کا سہارا قبول کرنے سے انکار کردیا ۔ اٹھ کر غسل اور برش وغیرہ کرکے اللہ توبہ کی ، چائے پی اس کے بعد دوستوں کو فون کرنا شروع کئے سب سے پہلے اختر بھائی میرے پاس پہنچے بعد میں شکوربھائی کا فون آیا کہ یار میرا موٹر سائیکل پنکچر ہوگیا ہے اور آصف فون نہیں اٹینڈ کررہا ، بالا آخر کافی کوششوں کے بعد آصف بھائی نے فون اٹینڈ کیا اور کہا کہ میں شکور کو کے کر آتا ہوں ، جیسے وہ میرے پاس پہنچے صرف ایک گھنٹہ کی تاخیر سے ناشتہ کیا گاڑی پکڑی اور اللہ کا نام لے کر آغاز سفر کیا ۔ موسیقی سننے کا موڈ ہوا تو دیکھا گاڑی میں صرف ایسی سی ڈیز تھیں جو بس موسیقی کے نام پر سرکس اور ورزش کی تعلیم دیتی ہیں ، آخر کار ڈیڑھ گھنٹے بعد لاہور میں انٹر ہوئے وہاں سے سی این جی سٹیشن سے سی این جی اور چائے کا حصول کیا وہاں سے آب کاری روڈ سے شکور اور آصف بھائی نے لیب کا کچھ سامان خریدنا تھا وہ اپنے کام کی طرف روانہ ہوئے میں نے اور اختر بھائی نے انارکلی میں ونڈو شاپنگ شروع کردی چلتے چلتے لوہاری پہنچے وہاں میں نے اپنے ایک کلاس اور روم میٹ جاوید کو فون کرکے بلایا وہ جسلد ہی اللہ دین کے چراغ کی طرح‌حاضر ہوگیا اس نے جلدی سے کوک پکڑی ہمارے ہاتھ میں تھما کر اسلام علیکم کہا اور بھوت کی طرح چمٹ گیا ، کوک کے بعد وہ انارکلی کے کونے سے وہاں کی مشہور ترین دکان سے کھر لایا وہ ابھی کھاہی رہے تھے کہ چائے پہنچ گئی اور مجھے چائے دیکھ کر سکون آیا :159:

    ابھی جاوید کا چائے کے بعد کھانے کا اسرار جاری تھا اور اسکا فرمان تھا کہ کھانا یہاں اچھا بھی نہیں اور بھٹی ہوٹل سے یہاں آبھی نہیں سکتا وہاں جانا ہوگا مگر اسی دوران شکور بھائی کا فون آگیا کہ گاڑی میں پہنچو ہم سامان لے کر آرہے ہیں ، اس طرح جاوید کے ارمانوں پر ہنستے ہوئے گاڑی کی طرف روانہ ہوئے ۔
    وہاں سے حفیظ سینٹر پہنچے وہاں سے ایل سی ڈی خریدنی تھی اکٹر بھائی سیڑہیاں چڑہنے سے گریزاں تھے وہ وہیں رک گئے ہم حفیظ سینٹر کی آخری منزل تک پہنچ گئے کوئی چیز پسند نہیں آرہی تھی مگر آخری کوشش کرتے ہوئے ایک دوکان میں داخل ہوئے تو اختر بھائی کے دھمکی آمیز فون آنے لگے وہاں ہمیں ایل سی ڈی بھی پسند آگئی لینی ایک تھی مگر پسند اتنی آئیں کہ تین کا سودا ہوگیا پیکنگ اور پے منٹ کے بعد جب نیچے پہنچے تو اختر بھائی نے کچھ کھری کھری سنائیں اور ہم ڈھیٹ بنے ہنستے رہے ۔
    چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر ، باھگتے بھاگتے کی گردان کرتے ہوئے موٹر وے پر پہنچے کالا شاہ کاکو پر جی ٹی روڈ کی طرف آئے وہاں ایک سی این جی سٹیشن پر پارک اور گھاس دیکھ کر جی للچایا سی این جی لی اور پارک میں موجود کرسیوں پر ڈھئے پئے آصف جاکر نمکو چپس اور کچھ بسکٹ لے آیا چائے کا ارڈر جاری کردیا یہ سب سامان چائے کی آمد سے پہلے مک گیا پھر فروٹ کیک منگوائے گئے اور چائے کا دور چلا ، اسی دوران چچا محمد اکرم بابر یعنی الکرم صاحب کے فون آنے لگے کہ کب پہنچیں گے بلال بھائی مسلسل انہیں چکر دے رہے تھے اور وہ ہمیں فون کرکے حقیقت جان لیتے تھے
    آخر کار بلال بھائی کے در دولت پر پہنچے وہاں سے کچھ ریفریش مینٹ کی اور ملکوال کی جانب رخت سفر باندھا گجرات پہنچ کر بلال بھائی نے بتایا کہ رستے مین ایم اے رضا صاحب سے ملاقات ہوسکتی ہے وہ پھالیہ کے رہنے والے ہیں ان سے فون پر بات کی انہوں نے کہا کہ وہ روڈ پر آرہے ہیں وہاں ایک نہر کے کنارے وہ کرسیاں لگائے ہمارے منتظر تھے مصافحے اور معانقے کے بعد آغاز تعارف ہوا ماشاء اللہ انہوں نے بہت ہی دلچسپ انداز میں 40 منٹ کے قریب اپنا تفصیلی تعارف کروایا اور یہ بھی بتایا کہ ان کی کتاب فداک روحی عنقریب پبلش ہوکر مارکیٹ میں آرہی ہے جس میں انہوں نے ہماری پیاری اردو کا یو آر ایل بھی دیا ہے ، اسی دوران انہوں نے ہمارے بارے میں بھی جاننے کی کوشش کی مگر ہم ٹھہرے ازلی نکمے ہم نام اور کام بتاکر پانچ منٹ میں سب ہی فارغ ہوئے ان کا کچھ اور جاننے کے بارے میں اسرار جاری تھا کی الکرم صاحب کا فون پھر آگیا اورہم نے اجازت چاہی
    باقی ملکوالانہ روئے داد اگلی قسط میں بیان کی جائے گی جس میں ہوگا کھانے پینے اور سونے کا ذکر انتظار کیجئے
     
  20. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    چاچا جی تھوڑا حوصلہ رکھیں ، آپ تو یوں سر پٹ بھگا رہے ہیں کہ مجھ جیسے گھبرو کا سانس بھی پھول گیا ۔
    ویسے آپ نے اتنا مزہ یہ ساری سیر کر کے خود نہ لیا ہو گا جتنا ہم سب کو آ رہا ہے ۔
     
  21. آصف حسین
    آف لائن

    آصف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    1,739
    موصول پسندیدگیاں:
    786
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    انٹرنیٹ کی عدم فراہمی کے باعث روداد لکھنے سے قاصر ہوں البتہ تصاویر آج رات محبوب بھائی کو مل جائیں گی تا کہ آپ احباب کا گلہ دور ہو جائے
     
  22. محمد یاسرعلی
    آف لائن

    محمد یاسرعلی ممبر

    شمولیت:
    ‏26 ستمبر 2011
    پیغامات:
    140
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    ماشاء اللہ
    پہلی بار کسی فورم پہ اپنا پن اور بھائی چارہ محسوس ہوا ہے اب افسوس ہو رہا ہے پہلے کیوں نہیں ہم کو اس فورم کے بارے میں پتا چلا
     
  23. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    دربار حضرت آہو باہو (موراں والی سرکار

    [​IMG]
     
  24. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]
     
  25. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    آصف بھائی اور محبوب بھائی کنڈکٹری کا شوق پورا کرتے ہوئے
    [​IMG]
     
  26. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)



    اِس پوسٹ میں تو آپ کے جھوٹ پکڑے گئے
    اب بچو جی آگے کُچھ لِکھتے ہوئے جھوٹ بولا نا
    چُنجھاں آلے وٹّے ماراں گا
     
  27. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    یعنی آپ کو جھوٹ میں بھی چچا نہ کہا جائے :84:
     
  28. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    ماشاءاللہ ۔ بہت خوبصورت تصویر ہے۔
    لگتا ہے دائیں طرف والوں نے مل کر کسی پتھر کو رگڑا ہے جس سے انتہائی بائیں طرف والے "حضرت" نمودار ہوگئے ہیں۔
    :201: :hasna: :201: :hasna: :201: :hasna: :201:
     
  29. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    ایک بار پھر آپ سب کو اس حسین سفر اور یادگار ملاقات کی مبارک باد
    اللہ تعالی اس بےلوث برادرانہ محبت کو قائم و دائم رکھے اور ہمیں جلد از جلد ایک مزید بھابھی سے نوازے ۔ آمین
     
  30. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہماری اردو - انٹرنیٹ سے آگے(سلسلے ملاقاتوں کے)

    نعیم جی یہاں ایک پُوربی مصرعہ صادر ہوتا ہے
    [blink]دو پاٹن [/blink]کے بیچ میں سالم بچا نہ کوئے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں