1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

گور پیا کوئی ہور ۔ ڈاکٹر صفدر محمود کا ایمانی مضمون

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از وسیم, ‏13 اپریل 2010۔

  1. وسیم
    آف لائن

    وسیم ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جنوری 2007
    پیغامات:
    953
    موصول پسندیدگیاں:
    43
    گور پیا کوئی ہور
    صبح بخیر…ڈاکٹر صفدر محمود ​


    یہ بات تاریک دلوں اور دنیا کی محبت میں غرق روحوں کو سمجھ نہیں آئے گی صرف وہی لوگ سمجھ سکیں گے جن کے باطن میں عشق کی ”جاگ“ لگی ہوئی ہے۔ یہاں عشق سے مراد عشق الٰہی اور عشق رسول ہے جبکہ ہمارے ماشاء اللہ عالم و فاضل حضرات سینکڑوں کتابوں کا بوجھ اٹھائے لبرل ازم … مادر، پدر، مذہب آزاد… دنیا کی محبت میں اس قدر آگے جا چکے ہیں کہ وہ ببانگ دہل ٹی وی چینلوں پر اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ ہمیں مذہب، قرآن اور حدیث سے بالاتر ہو کر سوچنا چاہئے۔ بھلا کوئی مسلمان اس پستی تک جا سکتا ہے۔ جسے یہ حضرات ”بالاتر“ کہتے ہیں میں اسے پست ترین سمجھتا ہوں۔ بھلا تاریک روحیں، روحانی دنیا کی بات سمجھ سکتی ہیں۔ روحانی دنیا کی ایک کرن کے راز کو سمجھنے کے لئے بھی زندہ اور روشن روح کا ہونا ضروری ہے۔
    بات دور نکل گئی میں عرض کر رہا تھا کہ برکتوں، رحمتوں اور تجلیوں کے شہر مدینہ منورہ میں چلتے پھرتے آپ کو ہر لمحہ یہی احساس گھیرے رکھتا ہے کہ یہی وہ گلیاں ہیں جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک قدم پڑے ہوں گے۔ انہی گلیوں میں صحابہ کرام اور عاشقان رسول چلتے پھرتے ہوں گے کہیں میرا گستاخ قدم اس جگہ پر نہ پڑ جائے جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قدم مبارک پڑا تھا۔ مدینہ منورہ کے قیام کے دوران انسان پر عجیب سی نیم جذب اور مستی کی کیفیت طاری رہتی ہے اور یہی میرے نزدیک فضائے حجاز اور حرم نبوی کی قربت کا عطیہ ہے کیونکہ مدینہ منورہ سے نکلنے کے بعد انسان اس سوز و ساز مستی سے محروم ہو جاتا ہے اور پھر یہی محرومی اسے بار بار یثرب بلاتی اور بے چینی سے بلاوے کا انتظار کرواتی ہے۔
    اس بار مدینہ منورہ کے قیام کے دوران مجھے دو عاشقان رسول بہت یاد آئے اور ان سے ملنے کے لئے طبیعت بے قرار رہی اگرچہ ان کا وصال ہوئے اور جنت البقیع میں ڈیرہ لگائے کئی برس گزر گئے۔ پروفیسر ظفر علی احسن سے میری دوستی دہائیوں پر محیط تھی اگرچہ وہ مجھ سے عمر میں بارہ تیرہ برس بڑے تھے۔ میں آخری بار 1993ء کے رمضان میں ان کا مہمان ہوا جب وہ جدہ میں پاکستان ایمبسی سکول کے پرنسپل تھے۔ ہم نے ستائیسویں رمضان کو عمرہ کیا، روزہ مکہ معظمہ حرم شریف میں افطار کیا، پھر مدینہ منورہ گئے اور پھر عید کی نماز مکہ معظمہ میں ادا کی۔ میرے دوست ظفر صاحب عاشق رسول تھے اور میں ان پر بعض روحانی کیفیات کے مناظر دیکھ چکا تھا جن سے مجھے یقین ہو گیا تھا کہ ظفر کے باطن کی آنکھ کھلی ہوئی ہے اور وہ عشق رسول میں ڈوبا ہوا ہے۔ ہم خانہ کعبہ سے نماز عید پڑھ کر نکلے تو لاہور سے گئے ہوئے ایک بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوئے جنہیں ہم بابا جی کے نام سے پکارتے تھے۔ ظفر صاحب نے جاتے ہی بابا جی سے کہا کہ حضور مٹھائی کھلایئے کل تو ماشاء اللہ بڑی رحمتیں ہوئیں اور درجات بلند ہوئے۔ نیم مجذوب بابا جی ان کی بات سن کر مسکرائے، انہوں نے بالکل اس سے انکار نہیں کیا بلکہ وہ اقرار کے معنوں میں کہنے لگے ہاں ضرور ضرور مٹھائی کھلاتا ہوں۔ ہم بابا جی سے چائے پی کر نکلے تو میں نے ظفر سے پوچھا کہ یہ کیا راز و نیاز ہو رہے تھے۔ اس نے جواباً کہا کل بابا جی کی ترقی ہوئی ہے ۔ پھر اس موضوع پر مزید بات نہیں ہو سکتی تھی۔
    ظفر ریٹائر ہو کر لاہور آ گیا۔ ایک روز مجھ سے ملنے آیا تو مدینہ منورہ سے یوں اداس لگ رہا تھا جیسے ماہی بے آب… ہم انہی بابا جی سے ملنے چلے گئے جن سے عید کے روز مکہ معظمہ میں ملاقات ہوئی تھی۔ وہ ہمیشہ کی طرح نہایت محبت سے ملے اور تواضع کی۔ چائے پی رہے تھے تو بابا جی ایک دم بولے۔ مجھے مخاطب کر کے کہنے لگے ”بابا۔ ظفر کی ڈیوٹی مدینہ منورہ میں لگ گئی ہے۔ بس اب یہ لاہور سے گیا۔“ میں نے ظفر صاحب کو مبارک دی۔ ان کی خوشی دیدنی تھی۔ بابا جی سے مل کر نکلے تو ظفر صاحب کہنے لگے ڈاکٹر صاحب بظاہر تو اس کا کوئی امکان نہیں لیکن بابا جی نے کہا ہے تو ضرور ایسا ہی ہو گا۔“ اس واقعے کو کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ ایک روز ظفر صاحب کا فون آیا۔ لے بھائی وہ بات سچ ہو گئی۔ آج نماز فجر کے بعد جائے نماز پر بیٹھا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ ایک صاحب نے مدینہ منورہ سے فون کیا کہ ہم یہاں پاکستانی سکول کھول رہے ہیں کیا آپ اس کے پرنسپل بننا پسند کریں گے۔ میں نے فوراً کہا کہ ہاں مجھے یہ آفر شرائط کے بغیر منظور ہے۔ پھر ظفر صاحب مدینہ منورہ تشریف لے گئے جہاں ان کی شامیں مسجد نبوی میں گزرتی تھیں۔ انہوں نے مجھے چند ایک خواب اور روحانی وارداتیں سنائیں جن کا میں ذکر نہیں کرنا چاہتا۔ بہرحال کوئی تین برس قبل ظفر صاحب کا مدینہ منورہ میں انتقال ہوا اور آج کل وہ جنت البقیع میں مقیم ہیں۔ ظفر سے میرا قلبی رشتہ تھا اس لئے وہ مجھے مدینہ منورہ میں بہت یاد آئے تو میں نے ایک صاحب سے درخواست کی کہ کسی طرح ان کے بیٹے کو ڈھونڈیں اور ملاقات کروائیں۔ میرے منہ سے ظفر صاحب کا ذکر سن کر وہ صاحب جو بذات خود عاشق رسول ہیں اور 35 برس سے مدینہ منورہ میں قیام پذیر ہیں کہنے لگے کہ میں انہیں وفات سے دس روز پہلے ملا تھا۔ رخصت ہونے لگا تو کہا کہ یہ میری تمہاری آخری ملاقات ہے۔ میں نے حیرت کا اظہار کیا تو جواب ملا دنیا میں آنا جانا لگا ہی رہتا ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا… پھر میں اس کے مسجد نبوی میں جنازے میں ہی شریک ہو سکا۔ انہوں نے ظفر صاحب کے بیٹے کو ڈھونڈ نکالا۔ ہم جب جنت البقیع میں ان کی قبر پر فاتحہ کرنے لگے تو وہیں اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاحبزادوں، ازواج مطہرات حضرت عائشہ صدیقہ اور بڑی بڑی ہستیوں کی قبروں کی زیارت کروائی۔ اس کے پاس سعودی حکومت کا جاری کردہ جنت البقیع کا نقشہ تھا ہم حضرت عثمان کی قبر پر فاتحہ خوانی کر رہے تھے تو اس نے ایک حیرت انگیز بات سنائی۔ آپ کو علم ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دفن ہیں جبکہ حضرت عثمان روضہ مبارک سے چند سو قدموں کے فاصلے پر جنت البقیع میں آرام کر رہے ہیں۔ اس شخص نے بتایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں مسجد نبوی چھوٹی سی ہوتی تھی۔ ایک روز مسجد میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس اقدس میں صحابہ کرام تشریف فرما تھے تو باتوں باتوں میں حضرت عثمان نے موت کے بعد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں دفن ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے۔ جب حضرت عثمان نے دوسری تیسری بار اس خواہش کا اظہار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد سے باہر قدم رکھ کر حضرت عثمان سے تیر چلانے کو کہا۔ حضرت عثمان نے تیر کمان سے تیر چلایا تو وہ اسی مقام پر آ کر زمین سے لپٹ گیا جہاں آج کل حضرت عثمان کی قبر ہے۔
    مدینہ منورہ کے قیام کے دوران مجھے ایک اور عاشق رسول صوفی محمد اسلم صاحب بہت یاد آئے جن سے میں لاہور والے بابا جی کے ساتھ کئی بار مل چکا تھا۔ صوفی اسلم صاحب جنت البقیع کے قریب ایک سرائے قسم کی رہائش میں طویل عرصے تک مقیم رہے وہ صبح سے لے کر شام تک اپنے ہاتھوں سے کھانا پکاتے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مہمانوں یعنی زائرین مدینہ منورہ کو کھلاتے تھے۔ لاہور والے بابا جی ہمیشہ انہی کے پاس قیام فرماتے تھے۔ میں جب بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے یہی دیکھا کہ ایک ہاتھ ہنڈیا یا دیگچے میں مصروف ہے تو دوسرے ہاتھ میں تسبیح چل رہی ہے۔ کچھ کھائے بغیر رخصت نہیں ملتی تھی۔ ان کا وصال ہوئے کئی برس گزرے۔ وہ بھی جنت البقیع میں دفن ہیں۔ وہ اسی خوف سے مدینہ منورہ سے باہر نہیں جاتے تھے کہ کہیں موت نہ آ جائے۔ تین چار سال قبل لاہور والے بابا جی مدینہ منورہ جانے لگے تو بار بار کہتے تھے صوفی صاحب پردہ کر گئے، صوفی صاحب چلے گئے۔ جب وہ عمرے کے بعد واپس تشریف لائے تو میں نے پوچھا ”بابا جی۔ صوفی صاحب سے ملاقات ہوئی تھی؟“ جواب ملا۔ ”جی بھر کے ملاقات ہوئی۔“
    سچی بات تو یہ ہے کہ عاشقان کبھی نہیں مرتے، جن کے باطن منور ہوں اور روح روشن ہو وہ مرتے نہیں بلکہ صرف پردہ کرتے ہیں اور وہ پردہ بھی صرف ہم جیسوں سے کرتے ہیں، اہل دنیا سے کرتے ہیں، اہل باطن سے ہرگز نہیں کیونکہ جب باطن منور ہو تو پردے اٹھ جاتے ہیں یہ دنیا سارا کھیل ہی پردوں کا ہے اس لئے ان باتوں کو وہ لوگ نہیں سمجھ سکتے جن کے دلوں اور روحوں پر پردہ پڑا ہے اور نہ ہی وہ بلھے شاہ کے اس شعر کا مفہوم سمجھ سکتے ہیں۔

    بلھے شاہ اساں مرناں نائیں
    گور پیا کوئی ھور

    بلھے شاہ عظیم ولی اللہ تھے۔ بیشک بلھے شاہ نے سچ کہا اور حقیقت سے پردہ اٹھایا لیکن ہم اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔

    جنگ ادارتی صفحہ ۔
     
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: گور پیا کوئی ہور ۔ ڈاکٹر صفدر محمود کا ایمانی مضمون

    وسیم بھائی آپ کا بہت بہت شکریہ
     
  3. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    جواب: گور پیا کوئی ہور ۔ ڈاکٹر صفدر محمود کا ایمانی مضمون

    ماشاءاللہ ۔ صبح صبح ایمان افروز مضمون پڑھنے کو میسر آیا ۔ جزاک اللہ
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: گور پیا کوئی ہور ۔ ڈاکٹر صفدر محمود کا ایمانی مضمون

    السلام علیکم۔ وسیم بھائی ۔ بہت شکریہ اس مضمون کے لیے ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں