1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کیا نماز میں دنیاوی خیالات کا آنا اسکی عدم قبولیت کی علامت ہے؟

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از حنا شیخ 2, ‏25 ستمبر 2018۔

  1. حنا شیخ 2
    آف لائن

    حنا شیخ 2 ممبر

    شمولیت:
    ‏6 اکتوبر 2017
    پیغامات:
    1,643
    موصول پسندیدگیاں:
    725
    ملک کا جھنڈا:
    ، بندہ مومن جب نماز ادا کرتا ہے تو وہ محض قیام و تلاوت اور رکوع و سجود نہیں کر رہا ہوتا بلکہ اپنے رب تعالیٰٰ سے ہمکلام ہوتا ہے، یہی انسانی ہستی کی معراج ہے۔
    اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ حالتِ نماز میں خشوع و خضوع نہیں رہتا، انسان کا دھیان ادھر ادھر بھٹکنے لگتا ہے، دنیاوی خیالات دل و دماغ کو گھیر لیتے، انسان بظاہر ارکانِ نماز ادا کر رہا ہوتا ہے مگر اس کی توجہ کہیں اور ہوتی ہے۔ نماز میں وساوس یا دنیاوی خیالات کا آنا بہت عام ہے۔ اسی لیے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت سب سے پہلے جس شے سے محروم ہو گی وہ خشوع ہے۔ خشوع سے مراد وہ کیفیت ہے جس میں انسان کا دل شوقِ الٰہی سے بھرپور ہو، لبوں سے ادا ہونے والے الفاظ کا اظہار اعضائے جسمانی سے بھی ہو رہا ہو، جسم کعبہ کی طرف اور دل ربِ کعبہ کی طرف متوجہ ہو۔اگرچہ نماز میں دنیاوی خیالات یا وساوس آنے سے نماز کی صحت و قبولیت پر کوئی اثر نہیں ہوتا، یہ نماز کی عدم قبولیت یا رب تعالٰی کی ناراضگی کا باعث بھی نہیں ہیں۔ تاہم ان دنیاوی خیالات کو طول نہیں دینا چاہیے بلکہ فوراً جھٹک دینا چاہیے اور جہاں تک ممکن ہو کوشش کریں کہ نماز میں خشوع و خضوع برقرار رہے۔
    دنیاوی خیالات آنے کی صورت میں نماز کی تلاوت قدرے بلند آواز میں کریں اس سے آپ کی توجہ خیالات سے ہٹ کر نماز کے الفاظ پر ہو جائے گی۔ مزید یہ کہ کچھ سورتوں یا آیات کا ترجمہ یاد کرلیں اور نماز میں ان کی تلاوت کریں۔ تلاوت کرتے ہوئے ان آیات کا ترجمہ بھی ذہن میں دوہراتے رہیں اس سے دھیان ادھر ادھر نہیں بھٹکے گا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں