1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کیا سموگ کا کوئی حل نہیں ؟ ... انجنیئررحمیٰ فیصل

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏30 نومبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    کیا سموگ کا کوئی حل نہیں ؟ ... انجنیئررحمیٰ فیصل

    دل، ٹی بی،ہیپاٹائٹس ، سرطان، دمہ اور ، فلو سے لاکھوں افراد سالانہ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔ مگر انسانوں کا ایک اور قاتل ہماری نظروں میں نہیں تھا۔ ہم اس سے غافل تھے جو ہر سال لاکھوں بچوں اور بڑوں کو ہلاک کر رہا ہے۔ اس جانب اشارہ کرتے ہوئے برطانوی جریدہ ’’لانسٹ‘‘کے مطابق ’’ دنیا بھر میں65 لاکھ افراد فضائی آلودگی کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے‘‘۔عالمی ادارہ صحت نے ایشیا ئی اور سب صحرائی ممالک میں ’’سموگ ‘‘ کو صحت کیلئے خطرناک قرار دیتے ہوئے اس کا تدارک کرنے کے لئے10فیصد سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے ممالک کو 2040ء سے جرمانہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    دنیا بھر میں65 لاکھ افراد فضائی آلودگی سے ہلاک ہو جاتے ہیں

    ہم بھارت سے آنے والی آلودگی کا سامنا بھی کررہے ہیں ۔ سرحد پار سے آنے والی آلودگی کی روک تھام کا مسئلہ ہمیں یو این او میں بھی اٹھانا چاہیے ،دہلی اور بھارتی پنجاب میں کاشت کاری سے ہمارے ہاںصحت عامہ اور موسمیاتی تبدیلی کے سنگین مسائل رونما ہورہے ہیں۔ایک موسمیاتی ماہر نے بتایا کہ ’’ بھارت میں لاکھوں ایکڑ رقبے پر ہندوئوںنے ایسے وقت میں آگ لگائی جب ہوا کا رخ پاکستان کی جانب تھا۔ماہرین اسے ’’کراس بارڈرپولوشن‘‘قرار دیتے ہیں۔ اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ’’ورلڈ اکنامک فور م‘‘ کا کہنا ہے کہ یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ دہلی کی فضا ترقی کی وجہ سے خراب ہو رہی ہے،کیونکہ ترقی اور انسانی صحت اور ماحول کا کوئی مقابلہ نہیں‘‘ ۔ یہ دن وہ ہندو منا رہے ہیں جنہوں نے 80لاکھ کشمیریوں کو سوا سال سے گھروں میں قیدی بنا رکھا ہے، انہیں عید منانے سے بھی روک دیاگیا ہے۔لیکن لکشمی دیوی کاتہوار وہ مناتے ہیں ،ہر سال دیوالی فضائی آلودگی کا سبب بنتی جا رہی ہے،دہلی میں آلودگی عالمی معیار سے 300فیصد اوپر جا چکی ہے، یعنی لکشمی دیوی کی دیوالی نے دہلی کو گیس چیمبر بنا دیا ہے، ایسا گیس چیمبر جس میں ہٹلر نے لاکھوں افراد کو موت کے منہ میں دھکیل دیاتھا۔
    ’’ورلڈ اکنامک فورم نے لکھا تھا، ’’ اگر دیوالی کے موقع پر آپ کودہلی میں ہونے کا اتفاق ہوا ہے تو آپ کے سامنے آتش بازی سے چمکتا دمکتا آسمان ہو گا۔یہ ہندو لکشمی دیوی کی جانب سے کچھ دینے کا دن ہے ۔ دولت کی دیوی کے لئے ہونے والی آتش بازی سے ہر سال پانچ سال سے کم عمر کے ایک لاکھ بچے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ دیوالی کامطلب یہ ہوا کہ بغیر کسی کنٹرول کے ہونے والی آتش بازی نے نے بڑی مقدار میں زہریلے کیمیائی مادے خارج کئے ، اسی عرصے میں کٹائی ختم ہونے کے بعد کاشتکاروں نے فاضل اشیاء کو آگ لگائی، یہ مادہ بھی ہوا میں جمع گیا ۔اگر یہی حال رہا تو صرف دہلی میں موسومیاتی تبدیلی کی وجہ سے مزید تین ہزار افراد سالانہ ہلاک ہوں گے ۔امید تھی کہ گزشتہ مون سون میں یہ گندگی صاف ہو جاے گی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔لکشمی دیوی کی دیوالی کی وجہ سے دہلی کا درجہ حرارت مستقبل میں1.5درجے اوپر چلا جائے گا‘‘۔
    آلودگی اور سموگ کا سبب بننے والی رسومات کی وجہ سے دنیا کے 20گندے ترین شہروں میں سے 17شہر بھارت میں واقع ہیں۔لہٰذا اسے سب سے گندی ترین جمہوریت کہنے میں کوئی حرج نہیں ۔گندگی میں بھارتی شہر ’’گڑ گائوں‘‘ پہلے اور غازی آباد دوسرے نمبر پر تھا، لاہور اور فیصل آبادکے نمبر بعد میں آتے ہیں۔دیگر گندے شہروں فرید آباد، بھوونڈی،نوئوڈا، پٹنہ،جنڈ ، لکھنئو،دہلی ، جودھ پور،مظفر پور ، ورارنسی،مراد آباد، آگرہ ، ہوتان، (چین) ڈھاکہ (بنگلہ دیش ) اورکاشغر (چین) شامل ہیں۔بھارتی میڈیا لاہور کو پہلے نمبرپر رکھنے کا پروپیگنڈا بھی کرتا رہا ہے، کوئی ایسی رپورٹ میری نظر سے نہیں گزری جس میں لاہور پہلے نمبر پر ہو۔ 17 بھارتی شہروں میں سانس لینا دشوار ہو گیا ہے، بھارت یہ مصیبت ہمارے ہاں ’’سمگل‘‘ کر رہا ہے، اسے ’’کراس بارڈ رپولوشن ‘‘کہا جاتا ہے ۔
    اس ضمن میں پاکستان نے 15نومبر 2017ء کوانڈین پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار امریندر سنگھ کے نام ایک خط میں لکھا تھا کہ ’’ہمیں ہر سال اکتوبر اور نومبر میں سموگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیوں نہ ہم مل جل کر یہ مسائل حل کر لیں‘‘۔پاکستان نے امریندر سنگھ کو مذاکرات کی دعوت دی مگر جواب میں ہندو انتہا پسندوں نے مورچے سنبھال لئے ۔ سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے ٹوئٹ کے جواب میں ہندوانتہا پسندوں نے انتہا پسندی کی انتہا کر دی۔ انہوں نے کہا کہ ’’ پہلے دہشت گردوں سے نمٹنا چاہیے ‘‘۔ان کی اس حرکت سے سارا ماحول بدل گیا۔
    یہ کہنا درست نہیں کہ سموگ کا کوئی حل نہیں چین سمیت کئی ممالک نے اس کے تدارک کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کر دیا ہے۔ ہمارے ہاں بوسیدہ مشینری یا نظام اضافی آلودگی اور سموگ کا باعث بن رہی ہے ، بھٹے ان میں سر فہرست ہیں،نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے سموگ پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس کے بڑھتے ہوئے نقصانات کے پیش نظر عارضی اقدامات کرنے کی بجائے ٹھوس ، دور رس اور جامع فیصلے کرنے کا وقت آ گیا ہے۔



     

اس صفحے کو مشتہر کریں