1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کیا اسی لئے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے؟

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از پیاجی, ‏19 دسمبر 2006۔

  1. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    کیا اسی لئے تقدیر نے چنوائے تھے ت

    کیا اسی لئے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے؟


    اقبال نے اک وطن کا خواب دیکھا۔ ۔ ۔ ایسا وطن کہ جس میں۔ ۔ ۔ ظلمتوں کے ڈیرے نہ ہوں۔ ۔ ۔ پیار کی فضاؤں میں۔ ۔ ۔ نفرتوں کے بسیرے نہ ہوں۔ ۔ ۔ جس وطن کی بیٹیاں۔ ۔ ۔ ان حسیں فضاؤں میں۔ ۔ ۔ شان وآن سے جئیں۔ ۔ ۔ اپنے مان سے جئیں۔ ۔ ۔ جس وطن کا ہر جوان۔ ۔ ۔ زندگی کی نعمت کو۔ ۔ ۔ وطن کی عطا سمجھے۔ ۔ ۔ اس وطن کی عزت میں۔ ۔ ۔ اپنی بھی بقاء سمجھے۔ ۔ ۔ اس وطن کے دہقاں کو۔ ۔ ۔ حق ملے محنت کا۔ ۔ ۔ اس وطن کی یہ مٹی۔ ۔ ۔ نہ بہار کو ترسے۔ ۔ ۔ برصغیر کے مسلمانوں کے لئے علیحدہ مملکت کا خواب علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا جنہوں نے شاعر مشرق، حکیم الامت اور دانائے راز جیسے القابات کے ذریعے بقائے دوام حاصل کیا۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی نظم اور نثر کا مرکزی نقطہ امت مسلمہ کو بنایا۔ انہوں نے اپنی ذات سے فرد کی سوچ کو قوم کی سوچ کے سانچے میں ڈھالا۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے امت مسلمہ کے مردہ ضمیر کو حیات نو بخشی اور خواب غفلت میں پڑی ہوئی قوم کو بیدار کیا۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی قوم کو آزادی کا حسیں خواب دیا۔ یہ ایک سوچ تھی جسے حقیقت کا روپ دینے کے لئے قربانیوں کی ضرورت تھی۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بیج بویا تھا جس کی آبیاری خون سے کر کے اسے شجر سایہ دار بنایا جانا تھا۔ اقبال نے ایک قافلے کے لئے راستے کا تعین کیا تھا مگر منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے ایک قافلہ سالار کی ضرورت تھی اور قافلہ سالار بھی وہ جو’’ نگاہ بلند، سخن دلنواز اور جاں پرسوز‘‘ کا مصداق ہو۔ مایوسی اور ناکامی کا لفظ اس کی لغت میں ہی شامل نہ ہو، جو عزم مصمم کے ذریعے ناممکن کو ممکن بنانے کا فن جانتا ہو، جس کی شخصیت اصول پرستی سے عبارت ہو اور اسے دنیا کی کوئی طاقت اپنے اصولوں سے انحراف پر مجبور نہ کر سکے۔ اس عظیم قافلہ سالار نے25 دسمبر 1876ء کو جنم لیا۔ رب کائنات نے امت مسلم کو وہ مسیحا عطا کیا جو اس قوم کی دعاؤں کا حاصل، تمناؤں کا مرکز اور عزت وآبرو کا محافظ تھا وہ عظیم رہنما میسر آیا جو خداداد صلاحیتوں کا حامل تھا یہی وہ قائد تھا جس سے مسلمانان برصغیر کی قسمت کا فیصلہ اور اقبال کے خواب کی تعبیر وابستہ تھی۔ اس قافلہ سالار نے غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی قوم کو آزادی کی نعمت سے ہم کنار کرنے کا فریضہ اپنے ذمہ لیا۔ قوم نے دیدہ و دل فرش راہ کرتے ہوئے قائد اعظم کا تاج اس عظیم ہیرو کے سر پر سجا دیا۔ برصغیر کے فرزندان اسلام نے اس بطل جلیل کے پیغام ’’اتحاد، تنظیم اور یقین محکم‘‘ کو حرز جاں بنا لیا۔ امت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عظیم کارواں ایک بے لوث قیاد ت کے سنگ بے مثال جذبے اور بلند عزائم کے ساتھ اپنی منزل مقصود کی جانب گامزن ہو گیا۔ بالآخر فضل خداوندی، فیضان مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باہمی اتحاد و یکجہتی اور قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ولولہ انگیز قیادت میں مسلمانان برصغیر نے شاعر مشرق کے خواب کو زندہ و جاوید حقیقت کا رنگ دے دیا۔ پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر مسلمانوں کی سب سے بڑی آزاد اور خود مختار مملکت معرض وجود میں آگئی مگر اس کے حصول تک کا سفر کوئی پھولوں کی سیج نہ تھا۔ مسلمانان برصغیر نے ناقابل برداشت مسائل برداشت کر کے اورعزت و آبرو قربان کر کے اپنی منزل کو پا لیا۔ بے گناہ مردوں، عفت و عصمت کی پیکر عورتوں، ناتواں بوڑھوں اور معصوم بچوں نے آگ اور خون کے سیلاب میں بہہ کر منزل کی راہ میں حائل تمام کانٹوں کو چن لیا مگر پھر چشم فلک نے وہ لمحات بھی دیکھے جب اس کشتی کا نا خدا اس وقت چل بساجبکہ کشتی ابھی بھنور میں ہی تھی۔ اس وقت جبکہ دشمن اس نوزائیدہ مملک کے خلاف طرح طرح کی سازشوں میں مصروف تھے پھر غیر تو غیر ’’اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں‘‘ کے مصداق اپنے بھی سازشوں کا حصہ بن گئے، آخر کار یہ سازشیں کامیاب ہونے لگیں اور پھر تاریخ نے وہ سیاہ لمحات بھی دیکھے کہ اس قوم کا اتحاد قصہ پارینہ بن گیا۔ جب لٹیروں نے اس وطن کے محافظوں کا روپ دھار لیا۔ جب قائد کے فرمان ’’اتحاد، تنظیم اور یقین محکم‘‘ کو پس پشت ڈال دیا گیا ’’پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ‘‘ کی حیثیت محض ایک نعرے کی رہ گئی بھائی بھائی کا گلہ کاٹنے لگا، مساجد مقتل کا منظر پیش کرنے لگیں، باہمی پیارو محبت کی فضاء نفرتوں میں بدل گئی، علاقائی اور لسانی تعصبات کو ہوا دی جانی لگی، تعلیم تجارت بن گئی، انصاف سرعام بکنے لگا، فحاشی و عریانی رواج بن گئی، ہماری نوجوان نسل مغربی تہذیب وثقافت کی دلدادہ ہو گئی، اس وطن کے حکمران قوم کے دشمن بن گئے اور اپنے آپ کو انسانیت سے ماوریٰ مخلوق سمجھنے لگے۔ ہمارے حکمران بعض اوقات اپنی سیاست چمکانے کے لئے اور اپنے آپ کو غریبوں کا ہمدرد ثابت کرنے کے لئے غریبوں سے ہاتھ تو ملاتے ہیں مگر ہاتھوں کو جراثیم سے پاک کرنے کے لئے امپورٹڈ صابن سے دھوتے ہیں اب یہ پاکستان امیروں کا پاکستان بن چکا ہے یہاں حکمرانوں کے گھوڑے سیبوں پر پلتے ہیں مگر غریبوں کے بچے بھوک سے بلک بلک کر مرتے ہیں۔ امراء کے کتوں کا علاج تو یورپ میں ہوتا ہے مگر غریبوں کے بچے علاج کے لئے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے ہیں۔ ایک طرف حکمران عیاشی کی زندگی بسر کر رہے ہیں تو دوسری طرف غریب فاقوں سے مر رہے ہیں۔ امراء کے بچے تو بیرونی ممالک میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں مگر غریبوں کے بچے فٹ پاتھوں پر اخبار بیچتے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف امراء زندگی کی آلائشوں میں مست ہیں تو دوسری طرف غریب ماں باپ اپنی ساری زندگی بیٹی کا آنچل بننے میں گزار دیتے ہیں۔ امراء بڑے بڑے محلات میں رہ رہے ہیں تو دوسری طرف غریب کو سر ڈھانپنے کے لئے آسمان کے علاوہ کوئی چھت میسر نہیں۔ غربت و افلاس نے غریبوں کے بچوں سے شرارتیں بھی چھین لی ہیں۔

    افلاس نے بچوں کو بھی تہذیب سکھا دی
    سہمے ہوئے رہتے ہیں شرارت نہیں کرتے​

    یہاں جو بھی حکمران برسر اقتدار آیا اس نے ذاتی مفادات کو عوام کی ضروریات پر ترجیح دی۔ ہر حکمران میں قول و فعل کے تضاد کی بھر مار نظر آئی۔ 1971 میں قائد اعظم کا پاکستان ذاتی خواہشات اورحصول اقتدار کی کوششوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ محب وطن ہونے کے دعویداروں نے ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لئے وطن عزیز کا ایک بازو کٹوا لیا مگر آنے والے حکمرانوں نے اس واقعہ سے کوئی عبرت حاصل نہ کی ان حالات میں روح قائد پکار پکار کر سوال کر رہی ہے کہ

    کیا اسی لئے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے
    کہ بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے​

    اگر آج ہم اس وطن عزیز کو حقیقی معنوں میں قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں بے حسی کو چھوڑنا ہو گا، خواب غفلت سے بیدار ہونا ہو گا، ہمارے حکمرانوں کو اپنی ترجیحات بدلنا ہو ں گی، ملکی استحکام کو ذاتی خواہشات پر ترجیح دینا ہو گی، نوجوانوں کو بامقصد تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہو گا، غربت اور جہالت کا خاتمہ کرنا ہو گا، کرپشن، رشوت اور سفارش کے ناسور سے نجات حاصل کرنا ہو گی، ہمارے سیاستدانوں کو حصول اقتدار کی بجائے ملکی مفاد کو اپنا مطمع نظر بنانا ہو گا، ہمارے ججز کو عدل فاروقی پر عمل پیرا ہونا ہو گا، اساتدہ کو اس قوم کے نو نہالوں کی صیحح انداز سے تربیت کرنا ہو گی اور فوج کو دفاع وطن کو دیگر تمام امور پر مقدم رکھنا ہوگا۔ اپوزیشن کو تنقید برائے تنقید کی پالیسی کو ترک کرنا ہو گا۔ آج ہمیں روح قائد کی پکار کو سننا ہو گا اور اس پکار پر لبیک کہتے ہوئے تعمیر وطن کے لئے کمربستہ ہونا ہو گا۔ آج ہمیں روح قائد سے یہ عزم کرنا ہو گا کہ

    اے قائداعظم (رح) تجھ سے ہے یہ ہمارا وعدہ
    کفر کی جیت کا ساماں نہیں ہونے دیں گے

    اسے خون جگر سے کر کے چھوڑیں گے سیراب
    تیرا گلشن کبھی ویراں نہیں ہونے دیں گے​

    تحریر: زاہد نواز ملک (منہاجین)​
     
  2. حماد
    آف لائن

    حماد منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    402
    موصول پسندیدگیاں:
    95
    ملک کا جھنڈا:
    پیا جی!
    قیام پاکستان کے مقاصد کے حوالے سے فکر انگیز تحریر مہیا کرنے پر بہت بہت شکریہ
     
  3. نورمحمد
    آف لائن

    نورمحمد ممبر

    شمولیت:
    ‏22 مارچ 2011
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا اسی لئے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے؟

    بہت خوب:dilphool:
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: کیا اسی لئے تقدیر نے چنوائے تھے ت

    موجودہ سیاسی قیادت کے ہوتے ہوئے

    نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
    یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
     

اس صفحے کو مشتہر کریں