1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کیا آپ کو حکومت میں رہنا چاہئے

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از راشد احمد, ‏23 ستمبر 2009۔

  1. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    آخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ ایک دفعہ پھر پاکستان میں دو عیدیں منائی جا رہی ہیں۔ حکومت اور علماء کرام ہمیں ایک عید نہیں دے سکے۔ پشاور میں اتوار کو عید منائی گئی اور پاکستان کے باقی تین صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں پیر کو عید منائی جا رہی ہے۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمن نے پشاور والوں کی عید کو غیرشرعی قرار دیدیا ہے جبکہ پشاور کی مسجد قاسم علی والوں کو مفتی منیب الرحمن کے فتوے میں کفر کی جھلکیاں نظر آ رہی ہیں۔ کیا ہم اسے چند مولویوں کی ذاتی چپقلش یا فرقہ وارانہ لڑائی قرار دے کر نظر انداز کر دیں؟ جی نہیں! ایک ملک میں دو دو عیدیں آسانی سے نظر انداز نہیں کی جا سکتیں۔ حقیقت میں یہ چند مولویوں کی لڑائی نہیں بلکہ حکومت کی ناکامی ہے۔
    افسوس تو اس بات کا ہے کہ رمضان المبارک کے آغاز میں ہی یہ خدشات پیدا ہوگئے تھے کہ کچھ مولوی حضرات دو عیدوں کے ذریعہ قوم کی خوشیاں تباہ کر دیں گے۔ پشاور اور گرد و نواح کے کچھ علاقوں میں رمضان المبارک ایک دن پہلے ہی شروع ہوگیا تھا لیکن اس کے باوجود مرکزی و صوبائی حکومت نے دو عیدوں کے تنازعے کو روکنے کی کوئی کوشش نہ کی۔ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور مولانا حامد سعید کاظمی ایک قاتلانہ حملے میں زخمی ہو کر اسپتال پہنچ گئے لیکن ان کی وزیر مملکت شگفتہ جمانی کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس سلسلے میں کچھ کرتیں لیکن سب نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام دونوں مرکزی حکومت میں حصہ دار ہیں لیکن ان دونوں جماعتوں کی عید مختلف ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے اتوار کو عید منانے کا فیصلہ تسلیم کر لیا جبکہ جے یو آئی والوں نے یہ فیصلہ مسترد کر دیا۔ یعنی اسفندیار ولی، امیر حیدر ہوتی اور بشیر بلور اتوار کو نماز عید ادا کر چکے جبکہ مولانا فضل الرحمن اور مولانا گل نصیب خان پیر کو نماز عید ادا کریں گے۔ دوسرے الفاظ میں صرف پاکستان کو نہیں بلکہ ایک ہی صوبے میں پختونوں کو بھی تقسیم کر دیا گیا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں اے این پی کے وزراء نے اتوار کو عید منائی اور جے یو آئی کے وزراء پیر کو عید منائیں گے۔ جس ملک کی حکومت مرکز سے لے کر صوبے تک عیدالفطر پر تقسیم ہو جائے اس حکومت کو خود سوچنا چاہئے کہ وہ حکومت میں رہنے کے قابل ہے یا نہیں؟
    رمضان المبارک میں صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے افطار عشائیوں کی بھرمار کئے رکھی۔ اگر وہ صرف ایک دن چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور مرکزی و صوبائی رویت ہلال کمیٹیوں کے عہدیداروں کو افطار عشایئے پر مدعو کر لیتے اور ان سے گزارش کرتے کہ ملک میں ایک عید منانی چاہئے تو قوم کو ایک عید کا تحفہ آسانی سے مل سکتا تھا۔ بہرحال صدر اور وزیراعظم نے اس سلسلے میں غفلت کا مظاہرہ کر کے ہمارا کم اور اپنا نقصان زیادہ کیا ہے۔ اب کئی دن تک دو عیدوں کی وجہ سے حکومت کو کوسا جائیگا اور حسب معمول زیادہ تنقید آصف علی زرداری پر کی جائے گی کیونکہ وہ اپنی عید پاکستان میں نہیں بلکہ امریکا میں منا رہے ہیں۔ امریکا سے ان کی وطن واپسی سے پہلے ہی ان کے متعلق کئی کہانیاں وطن پہنچ چکی ہوں گی۔
    پچھلے دنوں ایک ملاقات میں ایسی ہی کہانیوں کے بارے میں ان سے تفصیلی بات چیت ہوئی۔ میں نے انہیں کہا کہ میریٹ ہوٹل اسلام آباد کے مالک صدرالدین ہاشوانی کے حوالے سے یہ کہانی گردش کر رہی ہے کہ آپ اس کا ہوٹل زبردستی خریدنا چاہتے ہیں۔ یہ سن کر زرداری صاحب نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس ہاشوانی کا فون نمبر موجود ہے؟ میں نے انہیں نمبر فراہم کر دیا۔ زرداری صاحب نے یہ نمبر اپنے ملٹری سیکرٹری کو دیا اور کہا کہ ہاشوانی سے بات کراؤ۔ نمبر مل گیا تو پہلے زرداری صاحب نے خود ہاشوانی کے ساتھ سندھی زبان میں گفتگو کی اور پھر فون مجھے پکڑا کر اسپیکر آن کر دیا۔ اب وہاں موجود سب افراد ہاشوانی صاحب کی گفتگو سن سکتے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ آپ آصف علی زرداری کے خوف سے پاکستان چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں؟ ہاشوانی نے پریشان لہجے میں کہا کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے کئی لوگوں کو کہا ہے کہ زرداری مجھ سے میرا فائیو سٹار ہوٹل چھیننا چاہتا ہے اور اسی لئے میں بھاگ کر دبئی آ گیا ہوں۔ ہاشوانی نے اپنے اس مبینہ بیان کی تردید کر دی۔ میں نے جرح جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایسی کیا مجبوری تھی کہ آپ نے اپنی بیٹی کی شادی بھی دبئی میں کی اور پاکستان نہیں آئے؟ اس سے پہلے کہ ہاشوانی جواب دیتے وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے ملٹری سیکرٹری کو اشارہ کیا کہ فون بند کر دیا جائے لہٰذا فون بند کر دیا گیا۔ میں نے زرداری صاحب سے کہا کہ ہاشوانی نے آپ کے سامنے تو تردید کر دی ہے لیکن ایک اور بزنس مین علی محمود اسی قسم کے الزام کے تحت آپ کے خلاف عدالت میں جا رہا ہے۔
    صدر پاکستان نے اس شخص کو فراڈ قرار دے کر بات گول کر دی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ شخص واقعی فراڈ ہو لیکن جس ملک میں دو عیدیں منائی جائیں اس ملک کے عوام اپنی حکومت کو زیادہ بڑا فراڈ سمجھتے ہیں۔ جس ملک کی حکومت میں شامل ایک خاتون وزیر ٹیلی ویژن پر کسی کو طوائف کہہ دے تو اس حکومت کو مذاق نہیں تو کیا سمجھا جائے؟ خاتون وزیر نے جن موصوفہ کو ٹیلی ویژن پر طوائف کہا ان کا تعلق مسلم لیگ (ق) سے ہے۔ کچھ عرصہ قبل وزیراعظم سے کہا گیا کہ مسلم لیگ (ق) کی اس خاتون ایم این اے کو وفاقی وزیر تجارت بنا دیا جائے۔ وزیراعظم نے چپکے سے یہ بات مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین کو بتا دی اور انہوں نے موصوفہ کو پارٹی سے نکال دیا۔ خاتون وزیر کو چاہئے کہ وہ پتہ لگائیں کہ جسے وہ طوائف قرار دیتی ہیں اسے وزیر تجارت بنانے کی سفارش کس نے کی تھی؟ ایسا لگتا ہے کہ اس معاملے پر بھی حکومت تقسیم ہو چکی ہے۔ جس ملک کی حکومت ہر اہم معاملے پر قوم کو تقسیم کر دے اور چھوٹے چھوٹے معاملات پر خود بھی تقسیم ہو جائے اس حکومت کو سوچنا چاہئے کہ اسے حکومت میں رہنے کا حق ہے یا نہیں؟

    حوالہ روزنامہ جنگ
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

    ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجامِ گلستاں‌کیا ہوگا ؟

    راشد بھائی مراسلے کا بہت شکریہ ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں