1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کون ہو گا اگلا وزیراعظم۔۔۔؟ ۔۔۔۔۔ محمد عرفان

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏29 دسمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:

    کون ہو گا اگلا وزیراعظم۔۔۔؟ ۔۔۔۔۔ محمد عرفان

    شہر کے دور ہی ایک پسماندہ گائوں واقع تھا جس میں پانچ قبیلوں کے سردار اور اُن کے حمایتی صرف اس بات پر آپس میں لڑتے رہتے تھے کہ پورے گائوں پر اس کے قیبلے کی حکومت ہو، اس وجہ سے گائوں کے تمام لوگ پریشان اور ترقی سے کوسوں دور تھے۔ آخر کار پولیس نے تنگ آ کر پانچوں سرداروں کو تھانے میں بند کر دیا، اس موقع پر پانچوں قبیلوں کے لوگوں نے اتحاد و اتفاق کر کے احتجاجی روپ میں تھانے جانے کا فیصلہ کیا کہ اگر ہم اتحاد و اتفاق کر لیں تو پولیس والے ہمارے سرداروں کو چھوڑ دیں گے۔

    بالآخر تمام قبیلے والے جلوس کی شکل میں نعرے بازی کرتے ہوئے تھانے پہنچ گئے، تھانے کے انچارچ صاحب کو اطلاع دی گئی کہ تمام قبیلے کے لوگوں نے اتحاد و اتفاق کر لیا ہے اور اپنے سرداروں کی رہائی کے لیے تھانے کے دروازے پہ جلوس کی شکل میں موجود ہیں۔ تھانے کے انچارج کو تھوڑی دیر کے لیے خوشی ہوئی مگر تھانے کے انچارج صاحب ایک پڑھے لکھے اور ذہین استاد کے لائق شاگرد تھے۔ انچارج صاحب نے تھانے سے باہر آ کر مجمعے سے کہا! مجھے خوشی ہے کہ آپ لوگوں میں اتحاد و اتفاق پیدا ہو گیا ہے تو اب یہ بھی فیصلہ کر لیں کہ گائوں پر کس قیبلے کے سردار کی سرداری چلے گی، تھانے کے انچارج کی بات سن کر مجمعے میں نا اتفاقی کی بو آنے لگے اور قبائل کے لوگوں میں بحث و مباحثہ ہونے لگا۔ تھانے کے انچارج نے وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے تمام قبیلوں سے مخاطب ہو کر کہا، جب آپ سب سرداروں کو چھڑوانے کے لیے اتفاق کر سکتے ہیں تو اس بات پر بھی اتفاق کر لیں کہ کس کو سرداری کی پگڑی ملنی چاہیے تاکہ گائوں ترقی و خوشحالی کی طرف گامزن ہو۔

    یہ ساری تمہید باندھنے کا مقصد کچھ مہینوں سے چلنے والے پی ڈی ایم کے اتحاد و اتفاق سے ہے، جہاں ملک کی 11 سیاسی پارٹیوں کے لوگ جمع ہو کر حکومتِ وقت کے خلاف تحریک میں مگن ہیں ۔11 میں سے تین نے تو کسی جلسے میں شراکت نہیں کی مگر تین سیاسی پارٹیاں کافی متحرک ہیں۔ چلیں اس بات کو چھوڑیں میرا مضمون یہ نہیں، پی ڈی ایم کی طرف سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی خبریں تو سب کے کانوں تک پہنچ چکی ہیں مگر اب اسلام آباد کے لوگ لانگ مارچ کے عادی ہو گئے ہیں جیسے کچھ لوگ زیادہ چائے پینے کے عادی ہوتے ہیں۔ بہرحال پی ڈی ایم کے جلسے جلوسوں میں آنے والے لوگ جو کہ مختلف قبیلوں یعنی مختلف پارٹیوں سے ہیں اور ابھی تک ایک ہی موقف پر قائم ہیں کہ انہوں نے وزیرآعظم صاحب سے استعفٰی لینا ہے، اب اللہُ جانے استعفٰی عمران خان صاحب بذات خود دیتے ہیں یا پھر پچھلی حکومتوں کی طرح زبردستی ان سے استعفیٰ لیا جاتا ہے۔

    ۔2014 میں عمران خان صاحب نے بھی نواز شریف صاحب کی حکومت کے خلاف اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ شروع کیا اور بے شمار دھرنے اور جلوس نکالے تھے۔ مگر اِس دفعہ حالات پہلے کی نسبت کافی تبدیل شدہ ہیں، اس مرتبہ مملکتِ پاکستان کی 11 سیاسی پارٹیاں مل کر حکومتِ وقت کے وزیراعظم کے خلاف سراپاء احتجاج ہیں اور تمام پارٹیوں کے حمایتی اتحاد کئے ہوئے اس فیصلے پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ ان کے سرداروں یعنی کے پارٹیوں کے رہنمائوں کو وزیراعظم صاحب کا استعفٰی چاہیئے تا کہ وہ اپنی پارٹی کے رہنماؤں کو وزیراعظم بنا کر اس وطن کا مستقبل محفوظ کر سکیں۔ مگر دماغ کے ایک کونے میں ایک سوچ سوالوں کی شکل میں کھڑی ہو کر دستک دے رہی ہے اور دستک اتنی زوروں کی ہے کہ بعض دفعہ سوتے ہوئے بھی آنکھ کھل جاتی ہے کہ اگر وزیراعظم صاحب استعفٰی دے دیتے ہیں تو پھر اگلا وزیراعظم کون ہو گا؟ کس پارٹی سے ہو گا۔۔؟ اگر کسی ایک پارٹی سے ہوا تو باقی پارٹیاں بعد میں احتجاج تو نہیں کریں گی؟

    یہ سوالات ہیں جو دماغ میں مسلسل گھوم رہے ہیں۔ کیا پی ڈی ایم سے اس مظلوم قوم کو ایسا وزیراعظم نصیب ہو سکے گا جو غربت، بے روزگاری، مہنگائی جیسے مسائل سے فوری نجات دے سکے۔ تعلیم، روٹی، گھر جیسی نعمتیں مہیا کر سکے۔ کیونکہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے سیاسی پارٹیوں کی سیاست کو تو تقویت ملی مگر مملکت پاکستان کی مجبور و بے کس عوام کے مسائل کا ذکر تک نہیں، صرف عمران خان کی مخالفت ہے یا اپنے کیسز کی فکر، عوام کے مسائل کو صرف سیاست کیلئے استعمال کیا گیا ہے، بفرض محال اگر یہ حکومت چلی بھی گئی تو کیا نیا وزیراعظم عوام کی خدمت کرے گا یا 11 جماعتوں کی سیاست کی فکر کرے گا، اس سوال کا جواب عوام پر چھوڑتے ہیں۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں