1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کلاسیکی شاعر مومن خان مومن .... ڈاکٹر سید عبداللہ

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏10 فروری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    کلاسیکی شاعر مومن خان مومن .... ڈاکٹر سید عبداللہ

    محمد مومن خان مومن 1800 ء میں پیدا ہوئے،تاہم ان کی ولادت کی تاریخوں پر کلب علی خان نے کافی بحث کی ہے اور اختلاف کیا ہے۔ سن وفات 1852ء ہے۔والد کا نام حکیم غلام نبی خان ولد نامدار خان تھا۔نامدار خان اور کامدار خان دو بھائی شاہ عالم ثانی کے زمانے میں کشمیر سے آ کر دہلی میں سکونت پذیر ہوئے۔دہلی کو چھوڑ کرسہارنپور، بدایوں، رام پور،جہانگیر آبادبھی گئے لیکن دہلی کو مستقلاََ نہ چھوڑ سکے۔دہلی میں شاہی طبیبوں میں شامل ہوئے۔

    روایت ہے کہ ابتدائی تعلیم شاہ عبدالعزیز کے مدرسے میں پائی۔ یہ مدرسہ مومن خان مومن کے مکان کے بہت قریب تھا۔ یوں ان کے والد کو شاہ عبدالعزیز سے گہری عقیدت تھی۔ اس بناء پر بھی ان کے مدرسے میں تعلیم پانے کی روایت عام ہوئی۔ جب بڑے ہوئے تو عربی کتب شاہ عبدالقادر سے پڑھیں۔ فارسی بھی خوب جانتے تھے، اور حافظ قرآن بھی تھے۔ طب خاندانی پیشہ تھا،اس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی، مطب میں نسخہ نویسی کی، بعد میں نواب فیض محمد خان کے والی جھجرکے دربار میں تین ماہ تک شاہی طبیب رہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مومن خان مومن نے طب سے زیادہ شاعری کو اپنا پیشہ بنایا۔ اس کے علاوہ علم نجوم و رمل میں مہارت حاصل کی۔ چنانچہ اس کے اشارے ان کے اشعار میں بھی موجود ہیں۔شطرنج میں شہر کے اچھے ماہرین میں شمار ہوتے تھے، موسیقی میں بھی کمال حاصل کیا، تعویذ نویسی اور عملیات کا کام بھی کیا کرتے تھے۔

    شاعری کا مشغلہ اوائل عمر میں ہی شروع ہو گیا تھا، فائق کی تحقیق ہے کہ انہوں نے 12 برس کی عمر میں (1227ء میں) اپنی پہلی مثنوی ’’ مثنوی شکایت ستم ‘‘لکھی۔مومن کی تصانیف یہ ہیں۔ اردودیوان مومن(مرتبہ شیفتہ) کا پہلاایڈیشن 1846ء میں مولوی کریم الدین پانی پتی نے دہلی سے شائع کیا تھا جبکہ منشی نول کشور (جو مومن کے بھانجے اور داماد بھی تھے) نے ’’کلیات مومن‘‘ پہلی بارمکمل صورت میں شائع کیا۔’’ دیوان مومن‘‘ (اردو ) اور’’قصائد مومن‘‘ کو پرفیسر ضیاء الدین بدایونی نے چھاپنے کی کوشش کی یہ نسخے بھی بڑی حد تک اغلاط سے پاک ہیں۔ اردو کلیات میں 9قصیدے ہیں ، حمد، نعت ، منقبت خلفائے راشدینؓ، منقبت حضرت امام حسینؓ بہت شوق سے لکھے۔ توجیح بند، ترکیب بند اور مثنویات بھی شامل ہیں۔مثنویات میں2 منظوم خط ، شکایت ستم، آہ و زاری مظلم ، مثنوی جہادیہ، قوم غمیں، قصہ غم اور تف آتشیں بھی شامل ہیں ۔قصیدے بھی لکھے، لیکن مزاج قصیدہ نگاری کے لئے بطور خاص موزوں نہ تھا، مثنویات میں قصہ پن پیدا نہ کر سکے،سیدھی سادھی سپاٹ روداد ہے، کہیں کہیں جزئیات نگاری اچھی کی ہے۔ رعبائیات لکھی ہیں لیکن کوئی خاص لائق ذکر نہیں ۔ ان کی فارسی شاعری معمولی ہے لیکن استعداد سے پتہ چلتا ہے کہ ذہانت اس میں بھی ہے۔’’دیوانِ مومن‘‘ فارسی حکیم احسن خان نے مرتب کیا ۔ ’’انشائے مومن خان‘‘ (فارسی) حکیم احسن اللہ خان کا مرتب کردہ ہے۔

    مومن کے وضع و لباس کا ذکرکئی معاصر تذکروں میں آیا ہے، رنگین طبع، رنگین مزاج، خوش وضع، خوش لباس، کشیدہ قامت، صاف رنگ، لمبے لمبے گھنگریالے بال، جن میں ہر وقت انگلیوں سے کنگھی کیا کرتے تھے۔ ململ انگرکھا ،ڈھیلے ڈھالے پائنچے ۔

    شاعری کی ابتداء بچپن سے ہی ہو جانا ذہانت اور شدت جذبات کا ثبوت ہے، انہوں نے اپنی محبت کے جو قصے مثنویوں میں خود بیا ن کئے ہیں ان سے طبیعت کی آزادی کا حال معلوم ہوتا ہے لیکن ذہنی طور پر مذہبی عقائد سے خاص دلچسپی رہی۔ حضرت سید احمد بریلوی ؒکے پیرو کار تھے آخری عمر میں سب کچھ چھوڑ کر دین کے لئے وقف ہو گئے تھے۔نماز روزہ کے پابند تھے۔

    حیدر علی آتش نے کہا تھا،

    غزل کہتے نہیں ،ہم ایک گھر آباد کرتے ہیں

    آتش نے غزل کا گھر آباد کیا اور مومن نے کہا کہ

    مومن نے اس زمین کو مسجد بنا دیا

    یہ بات کسی کی سمجھ میں آئی اور کسی کی سمجھ میں نہ آئی۔مومن کی شاعری کا مطلب یہ ہے کہ ان کی شاعری کے سامنے سبھی شعراء کے سر اس طرح جھک جاتے ہیں جیسے مسجد میں جھکتے ہیں۔یعنی وہ شاعروں کے حکمران بن بیٹھے۔ مگر اس دعوے کی حقیقت تشریح کی محتاج ہے۔مومن کی شاعری میں مسجد کا استعارہ ان کے خلوص کا مظہر ہے لیکن ہم اسے سچائی کا آئینہ دار بھی کہہ سکتے ہیں۔مومن آخر وہی تو ہیں جن کے قلم نے ’’پردہ نشینوں ‘‘ کا استعارہ روشناس کرایااور سمجھایا کہ محبت چلمن کے پیچھے ہی اچھی لگتی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مومن نے کچھ نئی باتیں اور نئے خیالات ہمیں دیئے۔ جب کسی شاعر کے بارے میں اس قسم کا انکشاف ہو جاتا ہے تو وہ توجہ کا حق دار ہو جاتا ہے مطالعہ مومن کی یہ صورت نکل آئی ہے اور میں اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مطالعے کو 3 حصوں میں تقسیم کرتا ہوں....شخصیت کا انعکاس شاعری میں،طرز بیان اوررتبہ۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ مومن کی شخصیت مختلف اور متضاد عناصر سے مرکب تھی۔ ایک طرف فنون لطیفہ کا ذوق، طب میں دسترس، رمل اور جفر کا شوق اور دوسری طرف جذبۂ جہاد اور مذہبی جوش۔غور فرمایئے،

    مرا حیرت زدہ دل آئینہ خانہ ہے سنت ﷺکا

    یا

    مومن تمہیں کچھ بھی ہے جو پاس ایماں
    ہے معرکۂ جہاد چل دیجئے واں

    جو لوگ زندگی کو حساب کا سوال سمجھتے ہیں، وہ اکثر پریشان رہتے ہیں!یہ شخص بیک وقت اتنا رند اور اتنانیک بھی لیکن یہ ان کی بھول ہے۔ نیکی اور آزادی انسان میں اس طرح سے گھلی ملی نظر آتی ہے جیسے کسی کپڑے میں سرخ اور سفید دھاگے ساتھ ساتھ چلتے ہیں،ان کو الگ کرنے سے دھاگے تو الگ ہو سکتے ہیں لیکن انسان کی شخصیت کی قبا تار تار ہو جائے گی۔شیفتہ کی ایک تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ مومن کی شاعری کا ایک حصہ کسی تحریک کا ممنون احسان ہے۔یہ خاص واقعات کیا تھے؟ کچھ کہا نہیں جا سکتالیکن وہ اپنی غزل میں دوسرے شعراء کی طرح بہت اونچے نہیں اڑے۔صوفیانہ عشق کے بندھنوں سے ان کی غزل خالی ہے۔ان کا یہ عشق عام انسانی عشق ہے۔وہ کہتے ہیں،

    مجھے پہنچا دو میرے صاحب تک
    کہ غلام گریز پا ہوں میں
    تم بھی رہنے لگے خفا صاحب
    کہیں سایہ مرا پڑا

    یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ وہ صاحب کا ذکر کس کے لئے کر رہے ہیں۔ان کی شاعری میں پردہ نشینوں کا ذکر باربا ر آیا ہے،

    بس کہ پردہ نشیں پہ مرتے ہیں
    موت سے آئے ہے حجاب میں

    مومن کی شاعری کا ذکر کرتے ہوئے آزاد اور دوسرے مقتدر اہل قلم نے جرأت کی شاعری کا ذکر بھی کیا ہے،مگر دونوں میں کوئی مماثلت نہیں۔دونوں کی زندگیاں الگ ہیں۔مومن کو جرأت کا ہم رنگ کہہ دینا محض عجلت فکر ہے۔ ذرا یہ شعر پڑھیے،

    وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا،تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
    وہی یعنی وعدہ نباہ کاتمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

    مومن کی شعری کا پر لطف حصہ وہی ہے جس میں انہوں نے اظہار عشق کیلئے بھی رمزی پیرایہ اختیار کیا ہے ۔ مومن کی شاعری میں زلف و رُخ ، قد و گیسو، اور سرمہ و حنا کا ذکر بہت ہے، ان کی خوش دلی اور شادابی کی لہر قدرتی طور پر ابھری ہے۔مگر گاہے گاہے قفس و آشیاں کے غم کی بھی ہلکی سی خلش محسوس ہوتی ہے۔ بے نصیبی کا گلہ اور شکایت ستم ہماری شاعری کا ایک عام موضوع ہے۔لیکن مومن کے ہاں یہ مضمون محض رسمی معلوم نہیں ہوتا اس میں اصلیت بھی دکھائی دیتی ہے۔ غم کی تعمیری اہمیت اور ناگزیر حیثیت کسی مخلص شاعر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔غم و شادی زندگی میں باہم دست بدست چلتے ہیں۔ غم نہ ہو توسینے ویران محلوں کی مانند بے رونق اور بے رنگ ہو جائیں،زندگی کے باغ کی آبیاری کے لئے غم کی آبیاری لازمی ہے۔ مومن کے کلام میں شکایت رنگیں کی جو صورت ہے اس میں شدید افسردگی اور اضمحلال نہیں۔ہماری شاعری کو تصوف نے جو فکری رنگ عطا کیا ہے مومن کی شاعری میں وہ رنگ نہیں ہے۔ان کا کلام اختراعی ذہانت کے نمونے پیش کرتا ہے مگر تجزیہ حقائق کی شکایتیں کم ہیں البتہ مذہبی احسا س نمایاں ہے۔ان کے ہاں غم کی کیفیت ایک لطیف احتجا ج اور ایک شکایت رنگیں کا درجہ رکھتی ہے ۔

    ان نصیبوں پر کیا اختر شناس
    آسماں بھی ہے ،ستم ایجاد کیا
    کچھ قفس میں ان دنوں لگتا ہے جی
    آسماں اپنا ہوا ،برباد کیا

    ان کے ہاں انکار کے اندر سے اقرار کا رنگ اور اقرار کے اندر سے انکار کی صورت بھی ملتی ہے۔وہ نفی سے اثبات اور اثبات سے نفی کی صورت پیدا کرتے ہیں۔ ان اشعار سے بھی مون کی شاعرانہ حیثیت الگ ہوتی ہے اس کے لئے صرف ایک غزل کے چند اشعاربطور مثال کافی ہیں،

    آنکھوں سے حیا ٹپکے ہے انداز تو دیکھو
    ہے بوالہوسوںپر بھی ستم ناز تو دیکھو

    چشمک مری وحشت پہ ہے کیاحضرت ناصح
    طرز نگہ چشم فسوں سازتو دیکھو

    مجلس میں مرے ذکر کے آتے ہی اٹھے وہ
    بدنامی عشاق کا اعزاز تو دیکھو

    محفل میں تم اغیار کو دریدہ نظر سے
    منظور ہے پنہاں نہ رہے راز تو دیکھو

    اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک
    شعلہ ساچمک جائے ہے آواز تو دیکھو

    دیں پاکی دامن کی گواہی مرے آنسو
    اس یوسف بے درد کا اعجاز تو دیکھو

    ان کی شاعری میں دعوت، چیلنج، احتجاج، ہمت افزائی، للکار، طنز، رس، زہر، نوک، خار اور نوک سوزن....سبھی کچھ تو ہے۔ان کا کلام انمٹ ہے۔یہ ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے لکھا گیا ہے۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو،

    اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
    رنج راحت فزا نہیں ہوتا

    بے وفا کہنے کی شکایت ہے
    تو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا

    تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
    ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا

    امتحاں کیجئے مرا جب تک
    شوق زور آزما نہیں ہوتا

    نارسائی سے دم رکے تو رکے
    میں کسی سے خفا نہیں ہوتا

    تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
    جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

    حال دل یار کو لکھوں کیونکر
    ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا

    چارہ دل سوائے صبر نہیں
    سو تمہارے سوا نہیں ہوتا



     

اس صفحے کو مشتہر کریں