1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کردار کے مُسلمان

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏13 اکتوبر 2017۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”ﯾطﻟﻊ ﻋﻟﯾﮐم اﻵن رﺟل من اھل الجنة”

    ابھی تمہارے پاس ایک جنتی شخص نمودار ہوگا ،

    چنانچہ ایک انصاری صحابی اس حالت میں تشریف لاتے ہیں کہ وضو کا پانی ان کی داڑھی سے ٹپک رہا تھا اور انہوں نے اپنے جوتے بائیں ہاتھ میں اٹھارکھے تھے ، دوسرے دن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بات کہی اور پھر وہی صحابی نمودارہوئےجو گزشتہ دن نمودار ہوئے تھے اور آج بھی پہلے کی طرح جوتے ھاتھ میں اٹھائے ہوئے تھے ، تیسرے دن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی بات دہرائی اور اس دن بھی وہی صحابی اسی حالت میں نمودار ہوئے (یعنی ان کی داڑھی سے ٹپک رہا تھا اور انہوں نے اپنے جوتے بائیں ہاتھ میں اٹھارکھے تھے)

    جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر چل دیے تو سیدناعبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ان انصاری صحابی کے پیچھے لگ گئے اور عرض کیا کہ والد سے میرا کچھ اختلاف ہوگیا ہے اور تین دن تک ان سے جدا رہنے کی میں نے قسم کھالی ہے لہذا اگر آپ مناسب سمجھیں تو اس مدت تک اپنے یہاں رہنے کی مجھے اجازت مرحمت فرمائیں ،

    انصاری صحابی نے جواب دیا : ٹھیک ہے ،
    سیدنا عبد اللہ کا بیان ہے کہ میں نے تین رات ان کے یہاں گزاری لیکن دیکھا کہ وہ رات میں کوئی عبادت نہیں کرتے البتہ رات میں جب بھی اُن کی نیند ٹوٹتی یا کروٹ بدلتے تو اللہ کا ذکر کرتے اور اس کی بڑائی بیان کرتے ، تاآنکہ فجر کے لئے بیدار ہوتے ، میں نے ایک بات یہ بھی دیکھی کہ وہ زبان سے بھلی بات ہی نکالتے تھے، جب تین دن پورے ہوگئے اور میرے دل میں اُن کا کوئی عمل بھی بڑا معلوم نہ ہوا

    تو میں نے کہا : اے اللہ کے بندے ! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ تین دن لگاتار آپ کے بارے میں فرمارہے تھے :”ابھی تمہارے پاس ایک جنتی شخص نمودار ہو گا”اور تینوں دن آپ ہی تشریف لائے ، تو میں نے ارادہ کیا کہ آپ کے پاس رہ کر کر آپ کا عمل دیکھوں تا کہ میں بھی ویسا عمل کرسکوں ، لیکن میں دیکھ رہا ہوں آپ نے کوئی زیادہ عمل نہیں کرتے ، پھر کیا وجہ ہے کہ آپ اس مقام کو پہنچے جس کی بنیاد پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کی ہے ؟

    انہوں نے کہا : بس میرا عمل تو صرف اتنا ہی ہے جو تم نے دیکھا ، پھر جب میں وہاں سے واپسی کے لیے مُڑا تو انہوں نے مجھے آواز دے کر بلایا
    اور فرمایا :عمل تو وہی ہے جو تم نے دیکھا البتہ ایک بات ضرور ہے کہ میرے دل میں نہ تو کسی مسلمان کے لئے دھوکہ کا جذبہ ہے اور نہ ہی اللہ تعالی کی دی ہوئی بھلائی اور نعمت پر ان سے حسد کرتا ہوں ،

    سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا : بس یہی چیز ہے جو آپ کو اس مقام تک لائی ہے اور یہی وہ خصلت ہے جس کو اپنانے کی ہم میں طاقت نہیں”

    ( مسند احمد :3/166 )
     

اس صفحے کو مشتہر کریں